Friday, 27 November 2015

کیوں لگائیں چلہ چار مہینے؟

ایس اے ساگر

حیدرآباد میں کامیابی کے بعد اب بھوپال اجتماع کی چہل پہل جاری ہے،  اہل علم نے دعوت کی عظیم محنت کے سلسلہ میں مسئلہ نمبر 125 کے تحت بعض اشکالات کی وضاحت کی ہے.
سوال: بعض تبلیغی حضرات کہتے ہیں کہ ہر شخص کو چلہ پھر چار مہینے لگانا ضروری ہے، کیا یہ بات صحیح ہے، اور اس چلہ وغیرہ کی حقیقت کیا ہے، یعنی یہ مذکورہ نصاب کیوں رکھا گیا کوئی دوسرا کیوں نہیں ..؟
جواب: جیساکہ آپ نے اس سے پہلے والے مسئلہ میں پڑھا کہ دعوت و تبلیغ کرنا فرض کفایہ ہے، یعنی ایک جماعت کے ادا کرنے سے پوری امت بری الذمہ ہوجائے گی، ہر شخص کا اس کام میں لگنا ضروری نہیں ہے، اسلئے کہ اگر ہر آدمی اسی کام میں لگ گیا تو دوسرے علوم و فنون ضائع ہوجائینگے، جیسے علم حدیث، علم تفسیر، علم تاریخ، اور دوسرے روزی روزگار کے پیشے اور کمائی کے ذرائع واسباب،
اور رہی بات اس نصاب یعنی چلہ، چار مہینے کی:
تو یہ نصاب اسلئے مقرر کیا گیا کیونکہ چالیس دن میں آدمی کی حالت بدل جاتی ہے، چنانچہ اگر کوئی آدمی لگاتار چالیس دن تک کوئی عمل کرتا رہے وہ اس چیز میں پختہ ہوجائیگا اور وہ بات دل میں بیٹھ جائیگی،
نیز- چالیس دن تک لگاتار عمل کرنے سے انسان کے روح وباطن میں بہت برکت وتاثیر ہوتی ہے ، اور ساتھ ہی نصوص شرعیہ سے اس عد د 40 کی اہمیت ورعایت بھی ثابت ہے ،لہذا مجاہدہ وریاضت میں اس عد د کو خصوصیت حاصل ہے جیساکہ قرآنی آیات اور مختلف احادیث میں اسکا بیان ہے، ملاحظہ فرمائیں ... :
فطرت وخلقت کی ابتداء بھی چالیس 40 دن سے ہوتی ہے :
عن ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) : " اِن أحدکم لیجمع خلقہ فی بطن أمہ أربعین یوما نطفۃ، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم لیرسل الیہ الملک فینفخ فیہ الروح، ویؤمر باربع کلمات : رزقہ وأجلہ وعملہ وھل ہو شقی او سعید " ۔
اس حدیث میں انسان کی خلقت کے اطوار ومراحل کا ذکر ہے ، انسان کی خلقت رحم مادر میں تین مراحل سے گذرتی ہے ، اورتینوں مراحل میں چالیس ، چالیس دن لگتے ہیں ، اس عد د کی حکمت اور اصلی راز اللہ ہی خوب جانتا ہے ۔
(رواہ البخاری و مسلم والترمذی و الامام احمد ، وغیرھم)
وروی الامام مسلم فی صحیحہ کما أخرج الامام أحمد فی مسندہ حدیثا عن حذیفۃ ابن أسید الغفاری قال : سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علی وسلم) " ید خل الملک علی النطفۃ بعدما تستقر فی الرحم بأ ربعین لیلۃ فیقول : یارب ماذا، شقی أ سعید ؟ وذکر أم أنثی ؟ فیقول اللہ، ویکتبان، ویکتب عملہ وأثرہ، ومصیبتہ، ورزقہ، ثم تطوی الصحیفۃ، فلا یزاد علی ما فیھا ولا ینقص ،(رواہ مسلم والامام احمد والطبرانی فی المعجم الکبیر)
اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے چالیس راتوں کاعہد ووعدہ لیا ۔
وَاِذَ وَاعَدْنَا مُوْسٰی اأرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
وبھذا استدل الصوفیۃ علی الوصال وان أفضلہ أربعون یوما۔(تفسیرالقرطبی ج ۱ ص ۳۹۶ )
حدیث حسن میں ہے کہ جس نے چالیس دن تک مسجد میں جماعت کے ساتھ تکبیراولی کے ساتھ نماز پڑھی تواس کے لیئے دو" براء ۃ " پروانے لکھے جاتے ہیں ، ایک پروانہ جہنم سے براء ت کا اور دوسرا نفاق سے براء ت کا ۔
عن انس بن مالک قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) :" من صلی أربعین یوما فی جماعۃ یدرک التکبیرۃ الا ولی کتب لہ برائا تان : براء ۃ من النار، وبراء ۃ من النفاق " ۔(حدیث حسن رواہ الترمذی سنن الترمذی ، وبمعناہ فی الترغیب والترھیب للمنذری )
ایسے ہی ترمذی وابن ماجہ وغیرہ میں ایک دوسری روایت ہے کہ :
کما روی ابن ماجہ والترمذی عن عمر عن النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) قال :’’ من صلی فی مسجد جماعۃ أبعین لیلۃ لا تفوتہ الرکعۃ الأولی من صلاۃ العشاء کتب اللہ لہ عتقا من النار "
( ابن ماجہ ، الترغیب والترھیب ،اِتحاف المتقین للزبیدی ،کنز العمال)
اب اسی حدیث حسن کی روشنی میں تبلیغی جماعت والے چالیس دن کے لیئے نکلنے کی تاکید کرتے ہیں، تاکہ دیگرفوائد کے ساتھ ساتھ ایک یہ عظیم فائدہ بھی حاصل ہو، یعنی چالیس دن تک مسجد میں جماعت کے ساتھ تکبیراولی کے ساتھ نماز پڑھنا ، اورپھراس کے نتیجہ میں دوعظیم فوائد کا حاصل ہونا یعنی جہنم اورنفاق سے براءت کا لکھا جانا، اور عمومی طور پر اپنے گھرمیں ہی رہ کر اس پرعمل نہیں ہوتا ، جیسا کہ ہماری حالت بالکل واضح ہے ، لہذا جماعت میں جانے کے لیئے چالیس دن مقر ر کرنا ایک وسیلہ ہے اور شریعت نے جائزوسائل کو مشروع قرار دیا ہے ۔ وقد ذکر الشیخ العز بن عبد السلام فی (قواعد الا حکام فی مصالح الأنام) "اِن الواجبات والمندوبات ضربان: أحدھما مقاصد والثانی وسائل، وکذ لک المکروہات والمحرمات ضربان: أحد ھما مقاصد والثانی وسائل، وللوسائل أحکام المقاصد. فالوسیلۃ اِلی أفضل المقاصد ھی أفضل الوسائل، والوسیلۃ اِلی أرذل المقاصد ھی أرذل الوسائل ثم ترتب الوسائل بترتب المصالح والمفاسد". وبقر فی موضع آخر أن الوسائل ھی أخفض رتبۃ من المقاصد اِجماعاً.
ویقرر الاِمام القرافی فیِ "الفروق" الفرق الثامن والخمسون بین قاعدۃ المقاصد وقاعدۃ الوسائل فیقول: "موارد الأحکام علی قسمین: مقاصد وھی المتضمنۃ للمصالح والمفاسد فی أنفسھا، ووسائل وھی الطرق المفضیۃ اِلیھا وحکمھا حکم ما أفضت اِلیہ من تحریم وتحلیل. غیر أنھا أخفض رتبۃ من المقاصد فی حکمھا. والوسیلۃ اِلی أفضل المقاصد أفضل الوسائل واِلی أقبح المقاصد أقبح الوسائل. وکلما سقط اعتبار المقصد سقط اعتبار الوسیلۃ فاِنھا تبع لہ فی الحکم"

فائدہ: ویسے اعتراض کرنے والے ہر صورت میں اعتراض کرینگے، اسلئے کہ بہتر ہے کہ ہم کسی کے اعتراض کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دین کی محنت کرتے رہیں ..

सवाल: कुछ तबलीग़ी हज़रात कहते हैं कि हर आदमी को चिल्ला यानी चार महीने लगाने चाहिए, क्या यह बात सही है?
और इस चिल्ले वगैरा की हकीकत क्या है, यानी यही कोर्स क्यों रखा गया है, कोई दूसरा क्यों नहीं..?
.
जवाब: जैसाकि आपने पहले वाले मस्अले में पढ़ा कि दावत व तबलीग करना फर्जे-किफ़ाया है, यानी एक जमात के अदा करने से पूरी उम्मत इस जिम्मेदारी से मुक्त हो जाएगी, हर व्यक्ति का इस काम में लगना जरूरी नहीं है, इसलिए कि अगर हर आदमी इसी काम में लग गया तो दूसरे इल्म व हुनर बर्बाद हो जाएंगे जैसे हदीस का इल्म, तफ्सीर का इल्म, तारीख का इल्म, और दूसरे रोजी-रोटी का मस्अला और जरीया.
और रही बात इस कोर्स यानी चिल्ले वगैरा की?
तो यह कोर्स इसलिए फिक्स किया गया है क्योंकि चालीस दिन में आदमी की हालत बदल जाती है, इसलिए अगर कोई आदमी लगातार चालीस दिन तक कोई काम करता रहे तो वह उस काम में पक्का हो जाता है.
और फिर चालीस दिन तक लगातार अभ्यास करने से आदमी की आत्मा तर क जाग उठती है, और फिर कुरान वगैरा से इस 40 की गिनती की बहुत फजीलत सीमने आई है,
कुरान: और हमने वादा लिया हजरत मूसा अलैहिस्सलाम से चालीस रातों का".
हदीस: जिसने चालीस दिन तक मस्जिद में तकबीरे-ऊला के साथ नमाज़ पढ़ी तो उसके लिए दो परवाने लिखे जाते हैं, एक परवाना जहन्नम से छुटने का, और दूसरा निफाक से छुटकारे का".
इसी जैसी हदीसों की रोशनी में तबलीगी जमात वाले चालीस दिन के लिए निकलने की ताकीद करते हैं, ताकि  दूसरे फायदों  के साथ एक यह बड़ा फायदा भी हासिल हो, यानी चालीस दिन तक मस्जिद में लगातार तकबीरे ऊला के साथ नमाज़ पढ़ना, जिसकी बर्कत से ब्राअत का परवाना लिखा जाता है, और जेसा कि हम सब को मालूम है कि घर पर रह कर चालीस दिन तक लगातार अमल करना बहुत मुशकिल है, इसी लिये चालीस दिन और चार महीने का निसाब बनाया गया है,
वैसे एतराज़ करने वाले हर सूरत में एतराज़ करेंगे,

مفتی معمور بدر مظاہری، قاسمی (اعظم پوری)
.
मुफ़ती मामूर-बदर मज़ाहिरी, क़ासमी (आज़म-पुरी)
फ़ोन नं. +918923896749.

No comments:

Post a Comment