Saturday 31 December 2016

ہر کمال را زوال است

اللہ کے رسول حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا: کہ اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے جو برہنہ بدن اور ننگے پاؤں ہوں گے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنائیں گے اور فخر کریں گے۔
(صحیح مسلم 8)
میں ریاض شہر کو دیکھ کر حیران رہ گیا، عمارتوں کایہ مقابلہ آج اپنے عروج پر پہنچ گیا، دبئی میں ’برج خلیفہ‘ کی عمارت دنیا کی سب سے اونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزادہ ولید بن طلال نے جدہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، یعنی مقابلہ اپنی انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ عرب دنیا کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں۔ بتلانے کا مقصد صرف یہ کہ میرے پیارے رسول حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرمایا وہ پورا ہو چکا ہے اور پیشگوئی پوری ہو کر اپنے نکتۂ کمال کو پہنچ چکی ہے، اس کے بعد اصول دنیاوی ’ہر کمال را زوال است‘ کہ ہر کمال کے لئے زوال ہے، زوال کا آغاز بھی ہوچکا ہے کہ گاڑیاں صرف تیل پر نہیں رہیں بلکہ گیس، بیٹری اور سولار انرجی وغیرہ سے بھی چلنا شروع ہو گئیں۔ تیل دیگر ملکوں سے بھی بہت زیادہ نکلنا شروع ہو گیا اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ
عرب کا سب سے زیادہ تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صدام کو ختم کرکے  تیل کی دولت سے سیراب ملک عراق پر اپنی کٹھ پتلی شیعہ حکومت بنا کر تیل کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے اور لاکھوں بیرل مفت وصول کر رہا ہے تو پھر تیل کی گرتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا دیا جس سے عرب ممالک کا سنہرا دور خاتمے کے قریب ہے

۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس زوال کے بعد کیا ہے؟اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک اور حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے سر زمین عرب دوبارہ سرسبز ہو جائیگی گا ۔۔۔ صحیح مسلم
کون سوچ سکتا تھا کہ سرزمین عرب کے صحراء اور خشک پہاڑ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے خود حضرت ابراہیم علیہ و سلم کی زبان سے
’’بِوَادٍ غیر ذی زرعِ‘‘
بے آب و گیاہ وادی قرار دیا۔ وہ سبزے سے لہلا اٹھے گی چنانچہ پوری دنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے نقارے بجنے لگے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب اور امارات میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ اتنی بارشیں اور ہوائیں کہ سیلاب آنا شروع ہو گئے ہیں، مکہ اور جدہ میں سیلاب آ چکے ہیں۔ ایک سیلاب چند دن پہلے آیا ہے جس سے چند افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں، اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عرب سرزمین جسے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ قدرتی موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔ سعودی عرب گندم میں پہلے ہی خودکفیل ہو چکا ہے، اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزہ اگنا شروع ہو چکا ہے، پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں۔بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت کو ڈیم بنانا ہوں گے جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی، ہریالی ہو گی، سبزہ مزید ہو گا، فصلیں لہلہائیں گی، یوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مراحل سے گزرنے جا رہی ہے اور جو میرے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں

اگر احادیث پر غور کریں تو مشرق وسطٰی کے زوال کا آغاز ملک شام سے شروع ہوا لیکن شاید عرب حکمران یا تو یہودی و نصاری کی چال سمجھ نہ سکے یا بے رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو سرکار صلی اللہ علیہ و سلم  کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہو نا ہی تھا حدیث کے مطابق

چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔
( ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 2192: ،ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﺎﻡ،ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ )
یاد ﺭﮐﮭﯿﮟ ! ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭُﻭ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﻣﺖِ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ملک شام ایسے ہی ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨا ﺗﻮ
ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻣﺖِ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ ویسے تو 90 فیصد برباد ہو چکا

اب جبکہ پانچ سالہ خونریزی میں 8 لاکھ سنی معصوم بچے، بوڑھے، عورتیں شہید اور لا تعداد دوسرے ملک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں اور اتنے ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے
لہذا شام مکمل تباہی کے بعد اب ملک نزع کی حالت میں ہے
اس حدیث کے حساب سے عرب ممالک کے سنہرے دور کے خاتمہ کی اہم وجہ ملک شام کے موجودہ حالات ہے گویا نبی ﷺ  کی ایک اور  پیشگوئی  علامت ظاہر ہو رہی ہے یا ہو چکی

یاد رکھیں کہ ملک شام کے متعلق اسرائیل، روس، ایران و امریکہ جو بھی  جھوٹے بہانے بناے لیکن ان سب کا اصل ہدف جزیرہ العرب ہے کیونکہ کفار کا عقیدہ ہے کہ دجال مسیحا ہے اس وجہ سے یہ لوگ دجال کے انتظامات مکمل کر رہے ہیں جس کے لیے عرب ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ ملک شام پر یہودی و نصاری قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور  یہ ہو کر رہیگا حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل
چنانچہ کتاب فتن میں ہے کہ
آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی،   علماء کرام سے سنا کہ سعودی، مصر،  ترکی بهي باقي نہ رہیگا ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، امت آپسی خانہ جنگی کا شکار رہے گی
عرب( خلیجی ممالک سعودی عرب وغیرہ )میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، خیبر ( سعودی عرب کا چھوٹا شہر مدینة المنورة سے 170 ک م فاصلے پر ہے) کے قریب تک یہود و نصاری پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مدینة المنورة پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے،

دوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خشک ہو رہی ہے جو کہ مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل خشک ہو گی

اس لئے جب مشرق وسطیٰ کے حالات کو خصوصاً مسلمانوں اور ساری دنیا کے حالات کو دیکھتا ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ فرانس میں حالیہ حملوں کے بعد فرانس اور پوپ بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس عالمی جنگ کا مرکز کون سا خطہ ہو گا، واضح نظر آ رہا ہے، مشرق وسطیٰ ہی متوقع ہے

یہاں بھی ہندوستان پاکستان کی رنجشیں کشمکش کے بڑھتے حالات بھی لگتا ہے کہ غزوہ ہند کی طرف رخ کر رہے ہیں کیونکہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
۔’’میری قوم کا ایک لشکر وقتِ آخر کے نزدیک ہند پر چڑھائی کرے گا اور اللہ اس لشکر کو فتح نصیب کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہند کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ پھر وہ لشکر واپس رُخ کرے گا اور شام میں موجود عیسیٰ ابنِ مریمؑ کے ساتھ جا کر مل جائے گا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا،
’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اس لشکر کا حصہ بنوں گا۔ اور پھر جب اللہ ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں ابو ہریرہ (جہنم کی آگ سے) آزاد کہلاؤں گا۔ پھر جب میں شام پہنچوں گا تو عیسیٰؑ ابنِ مریم کو تلاش کر کے انہیں بتاؤں گا کہ میں محمدؓ کا ساتھی رہا ہوں۔‘‘
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے تبسم فرمایا اور کہا،
’’بہت مشکل، بہت مشکل‘‘۔
کتاب الفتن۔ صفحہ ۴۰۹
آنے والے ادوار بڑے پر فتن نظر آتے ہیں اور اس کے متعلق بھی سرکار ﷺ فرمایا تھا کہ میری امت پر ایک دور ایسے آیگا جس میں فتنے ایسے تیزی سے آئینگے جیسے تسبیح توٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں

لہذا اپنی نسلوں کی ابھی سے تربیت اور ایمان کی فکر فرمایے ورنہ آزمائش کا مقابلہ دشوار ہو گا -
کالم
ندائے وقت خلیل اعظم

Friday 30 December 2016

دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات پر علمائے کرام کا خراج عقیدت

ایس اے ساگر 
دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات پر علمی حلقوں میں صف ماتم بچھی ہوئی پے. اس سلسلہ میں ملائشیا سے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ کے تعزیتی پیغام کے علاوہ دیگر علمائے کرام کے تاثرات پیش خدمت ہیں؛
.......
شیخ الحدیث مولانا عبدالحق اعظمی
کا سانحۂ ارتحال
از: علامہ فضیل احمد الناصری القاسمی
یہ اطلاع دیتے ہوے مجھے بڑا صدمہ ہو رہا ہے کہ ہزاروں علما و فقہا کے استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمی اب ہمارے درمیان نہیں رہے.....اناللہ وانا الیہ راجعون.....ان کی رحلت ہارٹ فیل ہونے سے ہوئی.....مرحوم انتہائی سادہ دل، باخدا، مرنجاں مرنج، علمی اور حدیثی شخصیت تھے.....ان کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ ہے.....کم و بیش ساٹھ برسوں تک متواتر بخاری شریف کا درس دیا....دارالعلوم دیوبند میں پینتیس چھتیس سال تک بخاری شریف جلد ثانی پڑھائی ..... وہ یہاں "شیخ ثانی" سے مشہور تھے.....مرحوم کی علمی حیثیت مسلم تھی ..... وہ میرے والد مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری سے دوسال سینئر تھے .... والد مرحوم سے ان کا بڑا یارانہ تعلق تھا ..... وہ ان کے والد حضرت مولانا مسلم صاحب اعظمی کے گھریلو خادم تھے ..... اس بنیاد پر وہ مجھ پر برابر شفیق رہے ..... جب بھی ملاقات کرتا، وہ میری قلتِ حاضری کی شکایت کرتے .... میں نے ان سے بخاری شریف جلد ثانی کے علاوہ مشکوۃ شریف بھی پڑھی ہے ..... بڑے صاحب عزیمت اور اسباق کے پابند تھے.....ہر موسم میں درس گاہ پہنچ جاتے.....دو دو تین گھنٹے بیٹھنا ان کا عام معمول تھا ..... ان کی رہائش گاہ چھتہ مسجد کی چھت پر شمالی جانب تھی ..... چڑھنا اترنا بے حد مشکل تھا، مگر ہمت کے دھنی تھے، بلا ناغہ آجاتے ..... 1928 میں پیدا ہوئے اور تقریباً نواسی سال کی عمر پا کر ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ..... ان کے انتقال پر دل مغموم ہے ..... دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات پر ملائشیا سے متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن آنکھیں رو رہی ہیں .... دماغ ماؤف ہے ..... اللہ انہیں غریقِ رحمت فرماے....ان کے سانحے کے ساتھ ہی بخاری شریف کے دونوں استاذ سے ہم محروم ہوگئے ..... غضب ہے ہو گئی رخصت گلستاں سے بہار آخر ..... رہے نام اللہ کا....
.......
اب چراغوں میں روشنی کہاں ؟
علامہ شکیل منصور القاسمی
دنیا میں جو بھی آیا ہے ،جانے ہی کے لئے آیا ہے ۔موت زندگی کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقیت ہے۔ہر نفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔کسی کو بھی اس سے فرار ممکن نہیں۔انسان خاکی ہے ،موت اسے خاک میں ملادیتی ہے (سوائے انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والسلام)
بڑے بڑے سورما آئے اور چلے گئے ۔لاکھوں کڑوروں خاک میں پنہاں ہورہے ہیں۔موت کو شکست دینا ممکن نہیں ۔
لیکن خدمت، ایثار، کارنامے، جذبے، اوصاف وکمالات، جدوجہد، مجاہدہ، ریاضت موت کو بھی شکست دیدیتی ہیں اور انہیں کبھی فنا نہیں ۔
[ص: 2065]
2682 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ وَلَا يَدْعُ بِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُ إِنَّهُ إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ انْقَطَعَ عَمَلُهُ وَإِنَّهُ لَا يَزِيدُ الْمُؤْمِنَ عُمْرُهُ إِلَّا خَيْرًا
صحيح مسلم. كتاب الذكر والدعاء.
لاکھوں لوگ مرتے ہیں لیکن موت کے بعد دلوں میں دھڑکنے اور زندہ رہنے والے چند ہی بانصیب لوگ ہوتے ہیں ۔ جو مرکے بھی نہیں مرتے بلکہ موت کے منہ سے بھی زندہ بچ جاتے ہیں۔
مادر علمی دار العلوم دیوبند کی پیشانی کے جھومڑ "نابغہ روزگار " عہد ساز شخصیت، محرم اسرار دین، محدث ،فقیہ، بے مثال خطیب 
استاذ العلماء شیخ عبد الحق صاحب اعظمی ' آج 30  دسمبر روز جمعہ 2016 عیسوی '  ہمیں بلکتے ،سسکتے اور ہچکیاں مارتے ہوئے چھوڑ کے وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو بالآخر جاناہے ۔لیکن آپ کا جانا عام لوگوں کی طرح نہیں ہے۔آپ  کم وبیش چار دہائیوں پہ محیط بے لوث خدمات حدیث ،رجال کار کی تیاری ،ریاضت ومجاہدات کے وہ انمٹ نقوش چھوڑ کے گئے ہیں جو حصہ تاریخ بن گئے ۔موت انسانی جسم کو کھا تو سکتی ہے لیکن اس کے کارناموں کو چھو بھی نہیں سکتی۔ عطر و گلاب کی خوشبو وقتی اور عارضی طور پہ جوبن دکھاتی اور جسم وفضاء کو معطر کرتی ہے۔لیکن پہر یا تو خزاں کھاجاتی ہے یا خود مرکے مٹی میں مل جاتی ہے۔لیکن اعمال وکردار کی خوشبو ہی ایسی خوشبو ہے جو صدقہ جاریہ بن کے دائمی ہوجاتی اور سدا بہار رہتی ہے۔
مرنا سب کو ہے اور مرتا بھی ہر کوئی ہے ! لیکن اصل کمال اس کا ہے جو مرکے بھی نہ مرے!  جو موت کے منہ میں جاکے بھی زندہ رہے !!
شیخ زمن مولانا عبد الحق صاحب اعظمی جسم خاکی سے وفات پاگئے  لیکن "شیخ ثانی " زندہ ہیں !موت ان کی چاردہائی پہ مشتمل خدمات وکارناموں کو شکست نہیں دے سکتی !! موت کا بے رحم پنجہ ان کے کارناموں کی معطر کلیوں کو مسل نہیں سکتا! ان کے اخلاق وکردار کی خوشبو کو خزاں نہیں پہنچ سکتی! 
شیخ ثانی کی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ مستقبل میں حضرت کے تلامذہ ،عقیدت مند اور فیض یافتہ مستقل کتابیں اور مضامین لکھیں گے ۔جن لوگوں نے حضرت کو پڑھا یا دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ گوناگوں خوبیوں اور کمالات کے مالک تھے ۔پبلسٹی ،شہرت ،دنیاوی عزت ،اخباری ذکر وتذکرے سے دور ،سادہ وضع کے حامل ،غایت درجہ کے شفیق و مہربان مربی وسخصیت ساز عبقری شخص تھے۔
  آپ کی پوری زندگی ریاضت ومجاہدے سے عبارت تھی۔کم ہمتی  کوکبھی آپ نے راہ نہ دی۔کبھی کسی عہدہ کی طلب رہی نہ داد وتحسین کی پرواہ ۔بے لوث ومخلصانہ خدمات نے میرے شیخ کو "امر "کردیا ہے۔اور ایک طرح کی "حیات جاودانی " عطاکردی ہے۔
آپ ہماری آنکھوں سے یقینا اوجھل ہوگئے لیکن دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ہفتم کے سال ترتیب اولی میں ہونے کی وجہ سے احقر کو حضرت سے استفادہ کا موقع نہ ملا۔دورہ  کے سال مکمل قاری العبارہ کے بازو میں بیٹھنے سے حضرت کی نگاہ کا نور ،روحانی فیض اور قلبی واردات نے حضرت شیخ اول وشیخ ثانی کو دلوں میں ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا !
چھ سال قبل ایک ملاقات میں حضرت نے فرمایا تھا کہ بخاری جلد ثانی پہ کچھ تحریری نوٹ تیار کررکھی ہے۔اس کی ترتیب ،تنقیح وتخریج کا کام کرنا ہے ۔شکیل تم سے یہ کام ہوسکتا ہے۔عاجز نے ان شاء اللہ کہتے ہوئے ہامی بھردی ۔لیکن ہائے بدقسمتی دوسری دنیا میں آجانے کے بعد پہر اس مبارک عمل میں شریک نہ ہوسکا ۔جس کا صدمہ زندگی بھر رہے گا۔
حضرت شیخ کے اوصاف وکمالات پہ  تفصیلی تحریر تو غم ہلکا ہونے کے بعد ہی لکھ پاءوں گا۔اس وقت ذہن وقلم کچھ بھی ساتھ دینے سے انکاری ہے۔جو کچھ بھی قلبی واردات سپرد قلم کیا ہوں یہ عاجز کے لئے باعث افتخار ہے ۔
ماان مدحت محمدا بمقالتي
لكن مدحت مقالتي بمحمدا
چار دانگ عالم میں پھیلے حضرت شیخ کے ہزاروں روحانی فرزند کے اعمال صالحہ کے طفیل 'اللہ میرے شیخ کو فردوس کا درجہ عطا فرمائے۔پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین بجاه سید المرسلین۔
شکیل منصور القاسمی
+597 8836887
......
استاذ گرامی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی رحمہ اللہ
یاسر ندیم الواجدی 
دیوبند سے جب یہ اطلاع ملی کہ حضرت شیخ ثانی اب اس دنیا میں نہیں رہے، تو ذہن کے پردے پر رعب و معصومیت کے آثار سے بھرپور ان کا چہرہ سامنے آگیا۔ لمبا قد، گہرا رنگ، سر پر گول ٹوپی، ہاتھ میں عصا اور کاندھے پر رومال۔ ہم نے ابتداء سال ہفتم میں حضرت سے مشکاة المصابيح جلد ثانی پڑھی ہے۔ ہفتم میں آنے سے پہلے حضرت والا کو بارہا دارالعلوم آتے جاتے دیکھا کہ طلبہ کا ایک جھرمٹ ہے اور آپ شان سے درس بخاری کے لیے چلے آرہے ہیں۔ اس وقت حضرت کے رعب سے بڑا متاثر ہوتا اسی لیے زیادہ سے زیادہ دور سے سلام کرنے پر ہی اکتفا کرتا۔ مگر جب مشکاة کے درس میں ان کے سامنے ببیٹھنے کی نوبت آئی تو ان کی معصومیت اور طلبہ کے ساتھ ان کی شفقت کا روز ہی مشاہدہ کیا۔ مجھ ناچیز پر تو وہ کچھ زیادہ ہی مہربان تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس زمانے میں وہ بنارس میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، قریب ہی واقع ایک دوسرے مدرسے میں میرے نانا حضرت مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب کا بھی تقرر ہوا تھا، دونوں حضرات کی عمر میں اگرچہ فرق تھا مگر چونکہ دونوں ہی حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اس نسبت سے ایک دوسرے سے گہرا تعلق قائم رہا۔ جب حضرت کو اس نسبی تعلق کا علم ہوا تو آپ ہی نے نانا محترم کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا۔ 
ششماہی امتحان تک حضرت نے مشکاة كی عبارت کے لیے مجھے غیر اعلانیہ طور پر متعین کردیا تھا۔ جب دورہ حدیث شروع ہوا تو حضرت کی عنایتیں بڑھ گئیں۔ اس سال مجھے اور دیگر دو طلبہ کو عبارت کے لیے خاص کرلیا گیا۔ عشاء کے بعد جب حضرت دار الحدیث میں داخل ہوتے تو دروازے ہی سے عبارت خواں کی جگہ نظر دوڑاتے، اگر ہم تینوں طلبہ میں سے کوئی ایک موجود ہوتا تو مطمئن ہوجاتے ورنہ اپنی رعب دار نگاہوں سے اس عبارت خواں کو مسترد کردیتے۔ رعب اور معصومیت کی اس ملی جلی کیفیت سے سارے طلبہ محظوظ ہوتے۔
حضرت کی سادگی اور معصومیت کا یہ واقعہ تو کبھی ذہن سے نہیں نکلے گا کہ ایک دن چند ساتھیوں نے چھٹی کی اسکیم بنائی اور ہمارے درسی ساتھی مولانا سید حسن مدنی کی قیادت میں چند طلبہ حضرت کے گھر پہنچ گئے۔ آپ اس وقت درس کے لیے تیار ہورہے تھے، مولانا حسن مدنی نے کہا کہ "حضرت چہرے سے لگ رہا ہے کہ کچھ بیمار ہیں"۔ فرمایا: "اچھا مولی صاحب! واقعی؟" مولانا حسن مدنی نے مجھے کہنی ماری کہ میں بھی تائید کروں۔ میں نے کہا: "جی بڑی نقاہت چہرے سے لگ رہی ہے" تیسرا بولا کہ حضرت آج آپ نہ پڑھائیں، اصل تو صحت ہے۔ فرمانے لگے کہ "ہاں صبح سے کچھ طبیعت میں گرانی محسوس تو کررہا ہوں، چلو تم لوگ کہتے ہو تو آرام کرلیتا ہوں"۔ دورہ حدیث کے تمام اساتذہ میں یہ طالب علمانہ شرارتیں صرف حضرت کے ساتھ ہی ممکن تھیں۔ آج جب یہ واقعہ پھر تازہ ہوا تو سادگی ان کی صورت میں مجسم نظر آئی۔ 
آخری سال پلک جھپکتے ہی گزرگیا اور اچانک ایک دن اعلان ہوا کہ کل بعد نماز عشاء حضرت آخری درس دیں گے، درس کی محفل سجی اور حضرت نے "چلیے" کہہ کر مجھے عبارت پڑھنے کا حکم دیا۔ جوں جوں آخری حدیث قریب آرہی تھی دل کے سمندر میں جذبات کا طوفان بڑھتا جارہا تھا۔ ایک طرف اپنے اساتذہ کی شفقتوں سے محرومی کا احساس اور دوسری طرف دار الحديث کی منور فضاؤں سے بچھڑنے کا خیال۔ جیسے تیسے کرکے آخری حدیث پڑھی اور پھر حضرت کی نصیحت، الوداعی کلمات اور رقت آمیز دعا نے طلبہ کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، شاید ہی کسی کی آنکھ نے اس کا ساتھ دیا ہو، وہ وسیع وعریض ہال یکا یک گریہ گاہ بن گیا اور اس ایک رات نے دارالعلوم دیوبند اس کے اساتذہ اور اس کی چہاردیواری کے لیے ہمارے دلوں میں محبت کی مشعل ہمیشہ کے لیے روشن کردی۔ ابھی بھی حضرت رحمہ اللہ کا جملہ کانوں میں گونج رہا ہے: "اب پتہ نہیں تم لوگوں سے ملاقات ہو نہ ہو، ہم زندہ رہیں نہ رہیں، اگر یہاں نہیں تو ان شاء الله جنت میں ملاقات ہوگی"۔ حضرت تو دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے، ہم اور ان کے ہزاروں تلامذہ اسی امید اور دعا کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزاریں گے حضرت سے جنت میں ملاقات ہوگی۔ آمین۔
......
الشيخ المحدث عبد الحق الأعظمي
بقلم: محمد أكرم الندوي
أوكسفورد
الشيخ المحدث عبد الحق بن محمد عمر الأعظمي الجكديشفوري ثم الديوبندي.
ولد يوم الاثنين سادس رجب سنة خمس وأربعين وثلاثمائة وألف في جكديشفور من أعمال أعظمكراه، بالولاية الشمالية من الهند، وتوفي أبوه وهو ابن ست سنين، وكفله الشيخ أبو الحسن محمد مسلم من كبار علماء قرية بوتريا من مديرية جونفور، وهي قرية زوجتى، وخرج منها علماء كبار، وآخرهم الشيخ المفتي محمد منظور الجونفوري الكانفوري عضو هيئتي أمناء دار العلوم بديوبند ومظاهر العلوم بسهارنفور، وكان الشيخ محمد مسلم من تلاميذ العلامة الكبير ماجد علي المانوي الجونفوري من كبار أصحاب العالم الرباني محيي السنة وقامع البدع رشيد أحمد الكنكوهي.
التحق بمدرسة بيت العلوم بسرائي مير، وهي المدرسة التي أنشأها العالم الرباني الشيخ الداعية المجاهد عبد الغني الفولفوري، ولد سنة ثلاث وتسعين ومائتين وألف، أخذ العلم عن أبي الخير المكي بن سخاوة علي الجونفوري، والسيد أمين النصير آبادي، والشيخ ماجد علي المانوي الجونفوري، أجازه حكيم الأمة أشرف علي التهانوي في الطريقة، وأنشأ مدرسة روضة العلوم في فولفور، ومدرسة بيت العلوم في سرائي مير، له المعرفة الإلهية، والمعية الإلهية، والصراط المستقيم، وغير ذلك، توفي سنة اثنتين وثمانين وثلاثمائة وألف.
وهي المدرسة التي حفظ فيها والدي الحافظ تجمل حسين، وعمي الحافظ عبد اللطيف الجونفوري القرآن الكريم، وكان بين عمي عبد اللطيف وبين الشيخ عبد الحق صداقة ومودة، ومن ثم كنت أسمع اسمه في بيتي وأنا صغير، وكان يدرّس فيها آنذاك زوج عمتي الشيخ الكبير العالم الرباني الصالح عبد القيوم البكراوي.
وأخذ في بيت العلوم اللغة العربية والنحو والصرف والمختصرات إلى شرح الوقاية، ثم التحق بدار العلوم في مئو نات بنجن بلد الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي وكبار المحدثين والعلماء، وأخذ بها الهداية في الفقه الحنفي، وكتب الأصول والأدب العربي، ومشكوة المصابيح.
ثم التحق بدار العلوم بديوبند، وسمع بها صحيح البخاري والنصف الأول من جامع الترمذي على العلامة حسين أحمد المدني، وصحيح مسلم على الشيخ العالم إبراهيم البلياوي، وسنن أبي داود والنصف الثاني من جامع الترمذي والشمائل المحمدية على الشيخ إعزاز علي الأمروهي الديوبندي، وسنن النسائي والموطأ برواية يحيى وشرح معاني الآثار للطحاوي على الشيخ فخر الحسن المرادآبادي، وسنن ابن ماجه على الشيخ ظهور أحمد الديوبندي، والموطأ برواية محمد على الشيخ جليل أحمد، وتخرج سنة ثمان وستين وثلاثمائة وألف.
وأجازه الشيخ حسين أحمد المدني، والعلامة المحدث حبيب الرحمن الأعظمي، والعلامة الشيخ زكريا الكاندهلوي، والشيخ المحدث فخر الحسن، والعالم المربي الشيخ عبد الغني الفولفوري، والمقرئ محمد طيب القاسمي.
عين مدرسًا للحديث الشريف في مدرسة مطلع العلوم ببنارس، ثم في المدرسة الحسينية بجونفور، ثم عمل مدرسًا في دار العلوم بمئو نات بنجن، وتم تعيينه مدرسًا للحديث الشريف في دار العلوم بديوبند سنة اثنتين وأربعمائة وألف، وظل يدرس بها إلى آخر حياته النصف الثاني من صحيح البخاري وغيره من الكتب.
صحبته، وجلست إليه أستفيده غير مرة، وكان يحبني ويحتفي بي من أجل الصداقة بينه وبين عمي ومن أجل كون زوجتي من قرية شيخه ومربيه الشيخ محمد مسلم، ولقيته مرة وهو في طريقه إلى قرية بوتريا، وانتظرنا طويلا سيارة أو عربة نركبها إلى القرية، فلم نحظ بها فقرر الشيخ أن نسير إليها مشيا على الأقدام، فمشيت معه أخدمه وقد انبسط إلي وظل يحدثني طول الطريق، والمسافة إلى القرية كانت ثلاثة أميال تقريبا، وذلك سنة ست وأربعمائة وألف.
ولما انتقلت إلى أوكسفورد شرَّفنا بالزيارة بها، و وسمعت منه الحديث المسلسل بالأولية، وأجاز لي بسائر المسلسلات عن الشيخ زكريا الكاندهلوي، وقرأت عليه الحديث الأول من صحيح البخاري في جامع أوكسفورد في جماعة من العلماء بعد صلاة الجمعة ثامن شوال سنة عشرين وأربع مائة والف، وأجاز لي، ولأخي محمد مزمل، وأخواتي أسماء وعاصمة وصائمة، وبناتي حسنى وسمية ومحسنة ومريم وفاطمة، واستجزته لصديقنا الفاضل محمد بن عبد الله آل الرشيد، وسألته عن سنه فقال: هو الآن اين سبعين سنة.
وزرته في غرفته المتواضعة في المبنى القديم لدار العلوم بديوبند في شهر رمضان سنة أربع وثلاثين وأربعمائة وألف، فرحب بي واحتفى بي احتفاءًا كبيرًا، وجلست إليه طويلا، وسألته عن بعض أخباره مما استفدت به في ترجمته، وأعطاني مائة روبية قائلا: لم يمكنني ضيافتك من أجل الصوم، ولكن خذ هذا المال واشتر به في المساء شيئًا لإفطارك.
إن إسناده عن الشيخ عبد الغني الفولبوري، عن الشيخ ماجد علي الجونفوري، عن الإمام رشيد أحمد الكنكوهي من الأسانيد النادرة.
توفي رحمه الله بعد صلاة العشاء في دار العلوم بديوبند مساء السبت غرة ربيع الثاني سنة ثمان وثلاثين وأربعمائة وألف عن ثلاث وتسعين سنة.
[1] العالم الرباني الشيخ الداعية المجاهد عبد الغني الفولفوري، ولد سنة ثلاث وتسعين ومائتين وألف، أخذ العلم عن أبي الخير المكي بن سخاوة علي الجونفوري، والسيد أمين النصير آبادي، والشيخ ماجد علي المانوي الجونفوري، أجازه حكيم الأمة أشرف علي التهانوي في الطريقة، وأنشأ مدرسة روضة العلوم في فولفور، ومدرسة بيت العلوم في سرائي مير، له المعرفة الإلهية، والمعية الإلهية، والصراط المستقيم، وغير ذلك، توفي سنة اثنتين وثمانين وثلاثمائة وألف. 
(من مصادر ترجمته: بزم أشرف كى جراغ 104-107، وأكابر)
......
میں عربی ہفتم کاطالبعلم تھا دارالعلوم دیوبند میں میری طبیعت خراب ہوگئی پیٹ میں شدید دردہوگیا ڈاکٹر انج گویل کےیہاں ایڈمٹ تھا کوئی فائدہ نہ تھا دوسرا سبق حضرت شیخ عبد الحق صاحب اعظمی نوراللہ مرقدہ کاتھااسی گھنٹہ میں حضرت شیخ رحمۃاللہ علیہ نےدعاکرائی اسی وقت درد ختم ہوگیا اسوقت سےالحمد للہ آج تک درد نہیں ہوا اسی مرض میں میرا دومرتبہ آپریشن بھی ہوچکاتھا 
اللہ تعالٰی حضرت شیخ کی مغفرت فرمائے اور تمام متعلقین کوصبرجمیل کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت کی قبر کو اللہ تعالٰی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے آمین 
عبدالمعبو قاسمی الہ آبادی
........
آہ ! قاسم ورشید کا مسند نشیں جاتا رہا

اشکبار آنکھوں کے ہر دریچہ، قلب حزیں کے ہر گوشہ پر،بلکہ کائنات جسم وروح میں ایک زلزلہ ہے کہ استاذ العلماء، محدث عصر، فقیہ بے نظیر ،مسند نشینِ نانوتوی وگنگوہی ، شارح کلام نبوی حضرت اقدس مولانا عبدالحق اعظمی اب ہمیں چھوڑ کر "وطن اصلی" کی مسافر ہوئے،جانا تو ہے ہی،عارضی اقامت میں دل لگانا بھی کیا دل لگی ہے، لیکن ایسے وقت میں کہ علم و عمل کے رہنما اور اصاغر کو اکابر کی اشد ضرورت ہے تب یہ راہی جنت اپنی منزل کو روانہ ہوگیا.
جب کہ علم کے نام پر آوارگی ہو، فکر کے نام پر عیاری ہو، ایسے میں علماء کا اٹھ جانا قیامت کی گھنٹی نہین تو اور کیا ہے.
وہ علم کو بحیثیت علم نہ اٹھائے گا بلکہ علماء کو اپنے پاس بلالے گا جس سے علم خود ہی اٹھ جائے گا، ایسے صادق کی خبر ہے جس کی بات میں ادنی تخلف نہیں.
علم و عمل، اخلاق کردار، حیاء وتواضع، کا اعلی نمونہ،جب مسند حدیث پر بیٹھے تو شراح حدیث کے سر ان کے سامنے تسلیم ہوں، فقہیات میں گویا ہوں تو فقہ کو ناز ہو، ہر دلعزیز، بڑوں کے بڑے، چھوٹوں پر پدر شفیق، کہاں پائین گے تم سا؟ یوں رلا کہ چل دئیے کہ ہم کہیں بھی تو کس سے کہیں....
پہلی باقاعدہ ملاقات *امام الاولیاء و الابرار محی السنہ حضرت اقدس مولانا محمد ابرارالحق صاحب نور اللہ مرقدہ* کے چمن خوش رنگ میں ہوئی، دورہ کا امتحان لینے تشریف لائے تھے، امتحان لیا، بچوں کی ہمت افزائی فرمائی، تنہائی میں ملاقات میسر آئی تو عرض کیا کہ دارالعلوم کا ارادہ رکھتا ہوں؟
فرمایا کہ آجاؤ .....،دعا کی درخواست کردی، دعا دی،نتیجہ سامنے آیا.
فراغت اگلے ہی سال ایک علاقہ مین خدمت میں لگ گیا، وہاں ایک مدرسہ میں حضرت ختم بخاری کے لئے تشریف لائے، میں نے تعارف کرایا، اپنا راز دار بنا کر فرمانے لگے : میں یہاں صبح سے آیا ہوا ہوں، ملنے والے علماء آرہے ہیں، لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اس علاقہ مین مدارس و علماء کی کثرت کے باوجود یہاں علم کا مزاج نہیں، علماء تک میں اس کا ظہور واثر نہیں، میں وہاں سال بھر خدمت کرچکا تھا، چند واقعات علماء کے سنائے، اور بزبان حال عرض کیا کہ حضرت میرے پاس دلائل تھے نتیجہ آج ملا، آپ نتیجہ پر پہونچے دلائل خود وہاں آگئے......مجھے میرے واقعات کی تعبیر ہی نہیں ملی تھی، بلکہ حضرت شیخ کے علم وفن کی دقت کا اندازہ کیجئے کہ کیا حال ہوگا کہ ایسا مزاج کو کھنگالا کہ پورے علاقہ کا تجزیہ چند گھنٹوں میں فرمالیا.
دارالعلوم میں بخاری جلد ثانی پڑھنے توفیق ملی، اسی کی نسبت آپ *شیخ ثانی* لے لقب سے ملقب ہوئے، طریق استدلال، تفہیم مقال کا انداز نرالا اور دلنشیں تھا، فن قراءت میں عبور تھا،سند یافتہ بھی تھے، قاری حدیث کو جب ٹوکتے تو اس کے پسینہ چھوٹ جاتے، جب تک تلفظ صحیح نہ ہوجاتا آگے بڑھنے کی مجال نہ تھی.
علوم وفنون سے وارفتگی کا عالم یہ تھا کہ کسی کتاب کا نام نہ آیا ہوگا کہ جو انھوں نے نہ دیکھ لی ہو، الاشباہ والنظائر کے سبق میں - اہل فتوی وفن جانتے ہیں کہ اس کتاب کا اصولی پایہ کیا ہے، نیز اس کے ہر صفحہ پر کتابوں کی ایک فہرست ہے- ہر کتاب کے نام پر رک کر کلام فرماتے:
یہ کتاب میرے پاس موجود ہے
یہ کتاب میں نے فلاں جگہ دیکھی ہے
یہ کتاب اب معدوم ہے، دستیاب نہیں.
ان تینوں میں سے ایک تبصرہ ضرور ہوتا، یعنی ایسا ہونہیں سکتا تھا کہ کوئی کتاب عالم وجود میں ہواور اس کا طلب و اشتیاق نہ ہو، کیونکہ انتہائے طلب ہی اس جگہ لاسکتی ہے.
ہائے وہ پدرانہ شفقت کی عکاسی، علم و عرفان باری، طلبہ سے ادلال و مزاح، بلیغ اصلاح و تنبیہ یاد آ آکر رلاتی ہے،کسی کندھے پر سر رکھ کر خوب رونے کو جی چاہتا ہے، لیکن یاں سبھی درد ونالہ ، کرب و حزن میں بے چین نظر آرہے ہیں، شریک غم تو ہیں، پر محتاج تعزیت ہم خود بھی ہیں.
تیس سالہ دارالعلوم کی خدمات پر وہ کسی سرٹفیکٹ کی محتاج نہیں، کیونکہ وہ ایسی طویل جماعت کو چھوڑ گئے ہیں جو دین کے مختلف ومتنوع شعبوں میں لگے ہیں، سب کے الگ الگ کارنامہ ہیں ، ان سب کا احاطہ کسی شخص کے لئے خارج از امکان ہے، کہا بھی گیا ہے کہ *موت العالِم موت العالَم* ایک پورے عالم کو تہ وبالا کرنے پڑے گا ان کے حق الخدمت کی صرف سطح و مقدار کو جاننے کے لیے.
قاسمی و رشیدی علوم کا وہ مرصع و مجموعہ جو اس مسند کی ایک طویل عرصہ زیب و زینت بنا رہا، جس کی چمک چھوٹے بڑے کو محظوظ کرتی رہی، آج وہ اس مسند کی یادگار بن کر ہمشہ کے لیے ان سے جاملا جن کے وہ ترجمانی کرتا رہا، کیا منظر ہوگا کہ سرزمین ہند کے سادات اہل السنہ قاسم ورشید ان کا استقبال کناں ہوں گے، ادھر خلیل و اشرف زیارت کے مشتاق ہوں گے، زکریا و محمود اپنی باری کا انتظار کررتے ہوں گے، کوئی گلے لگائے گا، کوئی پیٹھ ٹھونکے گا، کوئی پیشانی پر بوسہ بھی دے گا.
یہ دعوی نہیں، لیکن کسی کی امید کو توڑنے کا جواز بھی تو مجھے بتادو؟ دلیل چاہتے ہو میرے دعوی کی تو تم پر افسوس ہے، میں تو بلا دلیل خداکی عطا تسلیم کرتا ہوں، اس بھی کچھ نگاہ تحقیق کرڈالو، میرا موصوف اس درجہ کا شخص ہے کہ نہ صرف یہ کہ فرشتے اس کے ناز دنیاوی خدام سے زیادہ اٹھانے کے مستحق ہیں، بلکہ وہ خود ناز و ادلال میں انتہا کردے گا.
ہم دست و دل گرفتہ ان کے رفع درجات کی دعا کرتے ہیں، اور اس کی بھی کہ ان تمام لوگوں کے لئے جو اس غم میں شریک ہوئے ہیں جس میں لکھنے والا بھی اللہ تعالی کچھ سامان تسلی کردے، صدقہ میں اپنے حبیب کے.
محمد توصیف قاسمی
شاہ ولی اللہ فقہ اکیڈمی
ممبرا ، تھانہ، مہاراشٹر
........................

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=735450606621046&id=185709091595203

شادی کا معمہ

ایس اے ساگر

تحریر پتہ نہیں کس کی ہے لیکن بات بڑے پتہ کی ہے،
"لڑکی کی شادی کی بہترین عمر 20 سال ھے ، اس کے بعد ھر گزرنے والا دن اس کی لڑکپن کی موت ھوتی ھے، 25 -30 سال کی خاتون گھر بیٹھے نفسیاتی طور پر ساس بن جاتی ھے جس طرح ٹوکری میں رکھا پیاز، لہسن اور ادرگ خود بخود اُگ آتا ھے، اب شادی ھو بھی جائے تو ایک گھر میں دو ساسیں تو نہیں رہ سکتیں،
20 سال کی لڑکی میں Flexibility ھوتی ھے وہ ھر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیتی ھے، جبکہ 30 سالہ ( لڑکی ) دو چار ایم اے تو کر لیتی ھے مگر دو چار بچے پیدا کرنے کے قابل بھی نہیں رھتی، ایسی بچی کے بچے عموماً شوھر ھی پالتا ھے، مردوں کو ڈبل ایم اے لڑکی چاھئے ھوتی ھے تا کہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا سکے، اور ڈبل ایم اے کرتی لڑکی کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت 35 فیصد رہ جاتی ھے،
کچھ لڑکیاں ڈراموں میں تو دلہن بنتی رھتی ھیں مگر اصلی رشتے ٹھکراتی رھتی ھیں کہ اس طرح مارکیٹ ڈاؤن ھو جائے گی، اور جب رشتے ختم ھو جاتے ھیں تو پھر کسی کی دوسری بیوی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رھتا، جب اس نیت سے تعلیم دلائی جائے کہ طلاق کی صورت میں گھر چلائے گی تو 98 فیصد کیسز میں طلاق ھو ھی جاتی ھے،
انما الاعمال بالنیات
جب اللہ توکل دو تو رانی بن کر کھاتی ھے، ایف اے بہت تعلیم ھے، جب تک رشتہ نہ آئے مزید بھی دلائی جا سکتی ھے مگر آنے والے رشتے کو تعلیم کے لئے مسترد کرنا کفرانِ نعمت ھے جس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا-
بعض والدین تو دعائیں کرتے ھیں کہ کوئی سا بھی رشتہ آئے چار چار بچیاں گھر میں بوڑھی ھو رھی ھیں جبکہ دوسری جانب وہ بھی ھیں جن کے رشتے آتے ھیں تو وہ کبھی برادری کا بہانہ بنا کر اور کبھی تعلیم کا بہانہ بنا کر رشتہ رد کر دیتے ھیں،
اگر 20 سال کی عمر میں شادی ھو جائے تو ایک دو تین سال میں طلاق خدانخواستہ ھو بھی جائے تو لڑکی دوسری جگہ بیاھی جا سکتی ھے یعنی 24 سال تک دوسری شادی کے امکانات بھی 75 فیصد ھوتے ھیں، لیکن پہلی شادی ھے 27 سال کی عمر میں کی، دو چار سال کے دنگل کے بعد طلاق ھو بھی گئی تو 30 سال کی طلاق یافتہ کے شادی کے امکانات نہ ھونے کے برابر ھوتے ھیں، یہ میرے تجربات کا نچور ھے، اس کو ایزی مت لیں پلیز، رہ گیا رزق تو وہ عورت کے مقدر میں ھوتا ھے، نوٹ کے یہ دونوں ٹکڑے ملتے ھیں تو مالی حالت بہتر ھو جاتی ھے، اکیلا مرد اگر یہ شرط لگا لے کہ جب تک وہ کروڑ پتی نہیں بنے گا اور بحریہ ٹاؤن میں کوٹھی نہ ھو تو شادی نہیں کرے گا، تو یقین کریں اس کے سارے بھائی بیاھے جائیں گے، اس کی شادی ان شاء اللہ نہیں ھو گی، شادی بہت بڑا بگ بینگ ھوتا ھے حالات میں تبدیلی کا،
اللہ پاک تمام دوستوں کو سلامت رکهے،
آمین!"

مولانا عبدالحق اعظمی کا انتقال

ان الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتي اذا لم يبق عالما اتخذ الناس رؤساجهالا فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلو.

(مشكوة  عن الصحيحين ص 33)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ،
اللہ تعالی علم کو  براہ راست نہیں اٹھا لے گا ... بلکہ علماء کی وفات سے علم اٹھے گا، جب اصلی علماء نہ رہ جائیں گے تو لوگ نقلی علماء کو اپنا پیشوا بنالیں گے،  جب ان سے کچھ پوچھا جائے گا تو ناحق بات کہیں گے، خود گمراہ ہوئے دوسروں کو بھی کریں گے.
آج بروز جمعہ، 30 دسمبر 2016 کو مولانا عبدالحق اعظمی شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند مختصر سی بیماری کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کی عمر 88 برس تھی، ضعف اور کمزوری کے دوران صبح طبیعت خراب ہوئی تو مقامی ڈاکٹر کے یہاں بغرض علاج داخل کئے گئے، حالت بگڑتی گئی اور مولانا مغرب اور عشاء کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ مولانا دارالعلوم دیوبند کے ممتاز اساتذہ میں سے تھے اورایک لمبے عرصے سے بخاری شریف جلد ثانی کا سبق مولانا سے متعلق تھا، وہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا اعزاز علی کے خاص شاگرد تھے ۔ اپنے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم مئو سے عربی ہفتم تک تعلیم پائی اور پھر تکمیل دورہ کے لئے دارالعلوم میں داخل ہوئے ۔ مختلف جگہوں پر تدریسی خدمت انجام دی ، درس نظامی کی اہم ترین کتابیں اور حدیث کی بنیادی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ۔ 1982میں ارباب شوریٰ کی ایماء پر دارالعلوم دیوبند میں بہ حیثیت مدرس بلائے گئے. وہ ایک صاحب کمال، صاحب علم، صاحب فضل انسان تھے، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جب ملک اور بیرون ملک میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ آپ کے اپنے استاد شیخ الاسلام مدنیؒ کے طرز درس کا اچھا حصہ ملا تھا، چنانچہ بخاری میں جب وہ کتاب المغازی کا درس دیتے تھے تو ان کا انداز اور تیور دیگر ہوتے تھے، وہ کامیاب مدرس تھے اور ان بزرگوں کی تدریسی صلاحیتوں اور کمالات کو زندہ کرتے تھے جن سے دارالعلوم کی تدریسی زندگی تاریخ علم کا خوبصورت عنوان ہے۔ دیوبندکےموجودہ اکابر میں انتہائی مقبول اوراپنی سادگیِ وضع اوربے تکلفانہ اطوارکی وجہ سے آپ اساتذہ و طلبہ سب میں یکساں قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کا مستجاب الدعوات ہونا بھی معروف تھا۔ دارالعلوم میں خاص خاص مواقع پرحضرت سے دعا کروانے کااہتمام کروایا جاتا بطورِ خاص بخاری کے اختتام کے دن حضرت کی دعا غیرمعمولی رقت آمیز ہوتی تھی۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ، لاکھوں علما کے استاذ الاستاذہ، مستجاب الدعوات بزرگ شخصیت، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد رشید، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے مجاز، حضرت مولانا شیخ عبدالحق صاحب اعظمی کے انتقال پر جانشین فدائے ملت، قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے گہرے رنج و غم کا اظہار فرمایا ہے اور مدارس عربیہ، اسلامی اداروں کے ذمہ داران، جمعیۃ علماء ہند کے احباب و کارکنان، ائمہ عظام ، جماعت تبلیغ کی معزز شخصیات اور خانقاہوں سے وابستہ افراد سے پر زور اپیل ہے کہ وہ حضرت کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام فرمائیں ۔اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے متعلقین و لواحقین کوے صبر جمیل عطا فرمائے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی صاحب دامت برکاتہم نے حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ گفتگو میں فرمایا کہ نماز جنازہ کل 31 دسمبر بروز ہفتہ بعد نماز ظہر دارالعلوم دیوبند میں ادا کی جائے گی۔ مولانا کا انتقال ایک ایسے وقت میں کہ جب امت ممتاز افراد سے محروم ہوتی جارہی ہے ایک بڑاسانحہ ہے۔ ان کے حادثہ وفات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ، انتقال کی خبر آتے ہی دیوبند کی فضا سوگوار ہوگئی اور دارالعلوم دیوبند اپنے ایک فرزند کے رخصت ہوجانے پر غم کے زیر اثر ہے۔ ہزاروں شاگرد اور ان کے ممتاز ونمایاں شاگرد اپنے نامور استاد کی جدائی کو دل سے محسوس کررہے ہیں ۔ مولانا کے سب بچے اس وقت آبائی وطن اعظم گڑھ میں تھے، ان کے دیوبند پہنچنے کے بعد ہی تدفین کا عمل مکمل ہوگا۔ ان کے انتقال کی خبر سے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند سمیت دیگر تمام مدارس کے طلباء و اساتذہ اور دنیا بھر میں پھیلے ان تلامذہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی، نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدارسی موقع پر پہنچے اور مولانا کے جسد خاکی کو بذریعہ ایمبولینس احاطہ مولسری میں لایا گیا، جہاں اساتذہ و طلباء کے جم غفیر نے نم آنکھوں کے ساتھ شیخ مرحوم کاآخری دیدارکیا۔ پسماندگان میں چھ صاحبزادے اور تین صاحبزدایاں ہیں۔ یقینا شیخ عبدالحق کا انتقال ایک عہد کاخاتمہ ہے، آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک دارالعلوم دیوبند میں علم حدیث کی باکمال خدمات انجام دیں۔ مرحوم اکابر اسلاف دیوبند کی نشانی تھے جو نہ صرف اپنے علمی فن میں زبردست مہارت رکھتے تھے بلکہ سالہا سال سے بخاری شریف کادرس دے رہے تھے۔ ان کے انتقال سے علمی میدان میں جو خلاپیدا ہوا ہے، اس کو پر کرناآسان نہیں ہوگا۔
” اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ، وارْحمْهُ ، وعافِهِ ، واعْفُ عنْهُ ، وَأَكرِمْ نزُلَهُ ، وَوسِّعْ مُدْخَلَهُ واغْسِلْهُ بِالماءِ والثَّلْجِ والْبرَدِ ، ونَقِّه منَ الخَـطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوب الأبْيَضَ منَ الدَّنَس ، وَأَبْدِلْهُ دارا خيراً مِنْ دَارِه ، وَأَهْلاً خَيراً منْ أهْلِهِ، وزَوْجاً خَيْراً منْ زَوْجِهِ ، وأدْخِلْه الجنَّةَ ، وَأَعِذْه منْ عَذَابِ القَبْرِ ، وَمِنْ عَذَابِ النَّار “.

ایس اے ساگر 

Thursday 29 December 2016

حصہ میراث سے بہن کی دستبرداری

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ  
سوال. کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام  مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بیٹی اپنے والد کے انتقال کے بعد بهائی سے حق وراثت (ترکہ حصہ) کے مطالبہ کیا. جس کے بعد بهائی نے مکمل طور پر حق حصہ نہیں دیا بلکہ کچھ زمین سبهی بہن کو دیکر اور استعفیٰ نامہ لکھ کر اس پر سبھی بہنوں سے دستخط کروایا گیا ہے! لہٰذا اس گھر میں اب بہن اور بہنوئی کو کھانا پینا درست ہے کہ نہیں یا پھر اس گھر میں کوئی پروگرام ہو یا شادی بیاہ ہو تو اس میں شریک ہو کر کھانا کھایا جاسکتا ہے کہ نہیں؟
تفصیلی وضاحت کروائیں مہربانی ہوگی.
نوشاد احمد ہردیا بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
کسی وارث کو وراثت سے محروم کرنا اور اس کا حق مارنا بہت سخت گناہ ہے ۔ حدیثوں میں اس پہ سخت وعید آئی ہے۔
بھائی اگر بہنوں کا حصہ ختم کرنا چاہے تو اس سے ان کا حصہ ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ بدستور والدین کی میراث میں حسب فروض حصہ دار رہے گی۔
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قطع میراث وارثہ، قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع / باب الوصایا، الفصل الثالث ۲۶۶، وکذا في سنن ابن ماجۃ، کتاب الوصایا / باب الحیف في الوصیۃ ۱۹۴ رقم: ۲۷۰۳ دار الفکر بیروت)
الإرث جبری لا یسقط بالإسقاط۔ (تکملۃ شامي ۱۱؍۶۷۸ زکریا)
سئل في امرأۃ ماتت عن أم وأخت شقیقۃ، وخلفت ترکۃً مشتملۃً علی أمتعۃ وأوانٍ أشہدت الأخت المزبورۃ علی نفسہا بعد قسمۃ بعضہا أنہا أسقطت حقہا من بقیۃ إرث أختہا وترکتہا لأمہا المزبورۃ، فہل لا یصح الإسقاط المذکور؟
الجواب: الإرث جبريٌ لا یسقط بالإسقاط۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الإقرار / مطلب: الإرث جبري لا یسقط بالإسقاط ۲؍۵۴ المکتبۃ المیمنیۃ مصر)۔
لیکن اگر بہن ' بھائیوں سے کچھ لے کے برضاء ورغبت اپنے حصہ میراث سے دستبردار ہوجائے  اور بخوشی استعفاء لکھ دے تو یہ جائز ہے جسے علم فرائض کی اصطلاح میں"تخارج" کہتے ہیں۔ چند شرطوں کے ساتھ تخارج جائز ہے۔
جس شخص کی آمدنی کا آدھا سے زیادہ حصہ حلال ذریعہ پہ مشتمل ہو اس کی دعوت قبول کرنی چاہئے۔
اگر حرام کمائی غالب ہو لیکن دعوت کے لئے بطور خاص کسی حلال ذریعہ مثلا قرض یا ھدیہ سے حاصل شدہ ذریعہ کی تصریح کردی جائے پھر بھی دعوت قبول کی جائے گی۔ بعض ایسی دعوتوں کو جو سنت سے ثابت ہیں مثلا ولیمہ عقیقہ وغیرہ بلا عذر ترک کردینا معصیت ہے الا یہ کہ وہاں شرعی قباحت،مالی قباحت یا اعتقادی قباحت ہو تو پہر ایسی دعوتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
ولو دعى إلى دعوة فالواجب أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية ولا بدعة .الهندية 422/5.
زبان سے قبول کرلینے سے اجابت دعوت کی سنیت ادا ہوجاتی ہے۔ قبولیت کھانے پہ موقوف نہیں۔ ہاں بنفس نفیس شریک ہوکر کھالینا بہتر ضرور ہے !
واذا أجاب فقد فعل ماعليه .اكل أو لم يأكل. وإن لم يأكل فلا بأس به. والأفضل أن يأكل لوكان غير صائم كذا في الخلاصة. الهندية 422/5.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

Wednesday 28 December 2016

طارق بن زياد رحمة اللہ علیہ

ایس اے ساگر

جزیرہ نما آئبیریا کے جنوب میں برطانیہ کے زیر تسلط علاقہ جبرالٹر واقع ہے، جس کا زبردست تاریخی پس منظر ہے. جبرالٹر کا عربی نام جبل طارق ہے جو بنو امیہ کے ایک فوجی جرنیل طارق بن زیاد کے نام پر رکھا گیا ہے، جنھوں نے 92 ھ کے دوران اسپین فتح کیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ اسپین پر مسلمانوں سے قبل عیسائی بادشاہ راڈرک کی حکومت تھی جس کے بارے میں اسلامی اور انگریزی تاریخوں میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایک عیاش بادشاہ تھا جو اپنے محل میں بچوں اور بچیوں کی تربیت کے بہانے ان کے ساتھ زیادتی کیا کرتا تھا، راڈرک کے ماتحت مراکش کے ساحلی علاقہ پر جولین کی حکومت قائم تھی جو جبل طارق کا قریبی ترین علاقہ ہے، جولین کی بیٹی راڈرک کے محل میں تھی جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی جولین کو اس کا علم ہوا تو اس نے زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں کے کمانڈر موسی بن نصیر سے مدد کی درخواست کی کہ وہ اسپین پر حملہ کرکے وہاں کے مظلوم باشندوں کی مدد کرے، موسی نے خلیفہ وقت ولید بن عبد الملک کی اجازت سے طارق بن زیاد کو سات ہزار کا لشکر دے کر اسپین پر چڑھائی کا حکم دیا،

جبل الطارق پر کشتیاں جلانے کا حکم:

ویکی پیڈیا کے مطابق طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو امیہ کے جرنیل تھے۔ انھوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) کی مسیحی حکومت پر قبضہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسی بن نصیر کے نائب تھے جنھوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ 30 اپریل 711ء کو طارق کی افواج جبرالٹر پر اتریں۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد طارق نے تمام کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا۔ تاکہ فوج فرار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے. انھوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور بعد ازاں 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی۔ جنگ میں روڈرک مارا گیا۔ فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا لیکن جلد انہیں دمشق طلب کیا گیا کیونکہ خلیفہ ولید اول سے ہسپانیہ پر چڑھائی کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

معركة جبل طارق ..
خطبة طارق ورواية حرق المراكب

بعض حضرات کے مطابق طارق بن زیاد بن عبداللہ ہسپانیہ کے پہلے فاتح اور اسلام کے پہلے والی تھے۔ دنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ طارق بن زیاد نے ایک مختصر فوج کے ساتھ یوروپ کے عظیم اسپین کو فتح کیا تھا۔ اور یہاں دین اسلام کاعلم بلند کیا تھا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس نے یورپ کو سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت فکر عطا کی تھی۔ اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کئے تھے۔ طار ق بن زیاد ایک متقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان تھے۔ ان کے حسن اخلاق کی بنیاد پر عوام اور فوجی سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو امیہ کے جرنیل تھے جنھوں نے 711ء کے دوران ہسپانیہ میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یوروپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی جو ایک ماہر حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔ طارق رحمتہ اللہ علیہ نے فن سپہ گری میں شہرت حاصل کی اور ان کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔ افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوت سے خطرہ لاحق تھا۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسی بن نصیر کے نائب تھے جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکامات کا جائزہ لیکر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دیکر اسے ہسپانیہ کی فتح کےلئے روانہ کی. 30 اپریل 711ء کو طارق کا اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے جو بعد میں جبل الطارق کہلایا۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ طارق نے جنگ کےلئے محفوظ جگہ منتخب کی اور اس موقع پر اپنی فوج کو ایک نہایت ولولہ انگیز خطبہ دیا اورکہا کہ،
"ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اس نے جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں ضرور ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دی جائے یا یہ جان جان آفرین کے سپرد کردی جائے۔"
یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ انھوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور بعد ازاں 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور بہادری کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے اسے محض آٹھ دن میں بدترین شکست دی جنگ میں۔ شہنشاہ راڈرک مارا گیا یا بھاگ نکلا جس کے انجام کا پتہ نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی. طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملا۔ اور دونوں نے مل کر کئی اور علاقے فتح کئے. فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا لیکن اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا۔ کیونکہ خلیفہ ولید اول سے ہسپانیہ پر چڑھائی کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔
)مقام وفات ( ↭↭↭↭↭ دمشق, الشام 720ء
وفاداری ↭↭↭↭↭ اموی خلافت
عہدہ ↭↭↭↭↭ جامع
جنگیں/محارب ↭↭↭↭↭ فتح ہسپانیہ
دیگر کارنامے ↭↭↭↭↭ الاندلس کے گورنر

بعض سے منقول ہے کہ" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے طارق بن زیاد سمندر کے راستے سے کشتیوں کے ذریعے جبل طارق پہنچے لیکن اس بارے میں اندلسیہ میں مقیم شیخ محمد ادریسی سے معلوم کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ طارق بن زیاد کی آمد سے قبل مسلمان فوجیوں کا مقدمۃ الجیش حالات کا جائزہ لینے کے لئے اسپین کے ساحل طریف کے مقام پر اترا تھا، یہ علاقہ جبل طارق سے انیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے، طارق بن زیاد کی مدد کے لئے موسی بن نصیر نے مزید پانچ ہزار کا لشکر روانہ کیا جنھوں نے جولین کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر راڈرک کے ستر ہزار فوج کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا اور بلاخر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ جبرالٹر کا علاقہ 6.5 مربع کلو میٹر پر اور کل آبادی تقریباً تیس ہزار افراد پر مشتمل ہے جس میں پندرہ سو سے زائد مسلمان آباد ہیں، نوے فیصد مسلمانوں کا تعلق مراکش سے ہے اور باقی دس فیصد پاکستانی اور بنگلہ دیش وغیرہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ہے، یہاں دو مسجدیں ہیں جس میں ایک خوبصورت مسجد پہاڑ کے اوپر شاہ فہد نے تعمیر کی ہے، 1995 سے لیکر 1997 تک دو سال میں یہ عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی جس پر اس وقت تقریبا پانچ ملین پاؤنڈ کا خرچہ آیا، مسجد میں ایک اسکول، لائبریری اور ایک لیکچر ہال بھی ہے، مسجد میں پانچ وقت اسپیکر پر آذان دی جاتی ہے، مسجد کا افتتاح شاہ فہد نے 8 اگست 1997 کو کیا تھا۔1713 عیسوی کو جبرالٹر ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کے حوالے کیا گیا تھا جہاں آج تک برطانیہ کی حکومت قائم ہے، یہاں بڑی تعداد میں انگریز رہائش پذیر ہیں اس جزیرہ نما شہر میں عوام کے لیے حکومت برطانیہ کی طرف سے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئی ہے، جبل طارق سے مراکش کا ساحل بہت قریب ہے۔ جب ہم جبل طارق پہنچے تو 25 دسمبر کا دن تھا معلوم ہوا کہ کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے بہت سے مسلمان اپنے رشتہ داروں سے ملنے مراکش گئے ہوئے ہیں، جبل طارق سے مراکش تک فیری کے ذریعے 45 منٹ میں سفر طے کیا جاتا ہے اور یہ وہی سمندر ہے جس میں طارق بن زیاد سات ہزار کی فوج لیکر مراکش سے کشتیوں کے ذریعہ جبل طارق پہنچے تھے، مشہور یہ ہے جبل طارق پہنچ کر طارق بن زیاد نے تمام  کشتیاں جلا ڈالی تھی تاکہ فوج کے سپاہی واپسی کی خواہش اور تمنا دل سے نکال کر یکسو ہو کر پورے جوش اور جذبے سے مقابلہ کرے، علامہ اقبال نے اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا۔

طارق چو بر کناررهٔ اندلس سفینه سوخت
گفتند   کار  تو  به   نگاهِ  خرد  خطا ست
دوریم   از  سواد  وطن   باز  چون  رسیم
ترک  سبب  ز روی  شریعت  کجا  رواست
خندید و دست خویش بشمشیر برد و گفت
هر ملک ملک ماست  که ملک خدای ماست"