Wednesday, 25 November 2015

پھر بھی نمبر ملتے کم

ایس اے ساگر

کیا آپ نے طلبا سے اس قسم کا جملہ سنا ہے کہ میرے نمبر ہمیشہ کم کیوں آتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ اکثر اوقات طالبعلموں کے زیادہ پڑھنے کے باوجود نمبر کم ہی آتے ہیں؟ آئی ٹی فرم کے منیجنگ ڈائریکٹر حسن امتیاز کے بقول اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض طالب علموں کے امتحان میں اچھے نمبر نہیں آتے، حالانکہ انہوں نے کافی زیادہ پڑھائی کی ہوتی ہے، جبکہ کچھ طالب علموں کے نمبر زیادہ آتے ہیں حالانکہ انہوں نے کم پڑھائی کی ہوتی ہے۔ عموماً لوگ اس کو قسمت کا کھیل کہتے ہیں۔ اس کے بھی امکان ہیں کہ یہ اتفاقاً ہوا ہو، لیکن بعض ماہرینِ تعلیم کے مطابق اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو طالب علم اپنی پڑھائی کی اچھی منصوبہ بندی کرتے ہیں ان کے نمبر زیادہ اور جو طالب علم بغیر کسی منصوبہ بندی کے پڑھائی کرتے ہیں، ان کے نمبر کم آتے ہیں۔ تعلیمی ماہرین کے مطابق پڑھائی کی منصوبہ بندی کیلئے مندرجہ ذیل امور پر نظر رکھنی چاہئے :

اول: ہدف/گول کا تعین

دوم: وقت کی منصوبہ بندی

سوم: کورس کی منصوبہ بندی

چہارم: بنیادی کمزوریوں کا خاتمہ

پہلی بات یہ کہ ہدف یا گول کا تعین کرے. پڑھائی کی منصوبہ بندی کیلئے آپ کا کوئی ہدف مقرر ہونا چاہئے ۔ ہدف کئی طرح کے ہوسکتے ہیں، مثلاً یہ کہ میں نے اپنی کلاس میں ٹاپ کرنا ہے، میں نے 90 فیصد نمبر لینے ہیں، میں نے اس مضمون میں ٹاپ کرنا ہے، میں نے تعلیم کے ذریعہ اپنے کنبہ کا نام روشن کرنا ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پڑھائی کامیابی کا ایک ذریعہ ہے، پڑھائی یا تعلیم کامیابی نہیں۔ یعنی آپ کے پاس کامیابی حاصل کرنے کا ایک اچھا آلہ موجود ہے۔ واضح ہدف انسان میں جذبہ پیدا کرتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کسی طالب علم کا پڑھائی میں کوئی ہدف ہی نہیں تو وہ زیادہ محنت کیوں کرے گا، وہ بس اتنی محنت کرے گا کہ امتحان میں پاس ہوجائے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت زیادہ خوشحال گھرانوں کے بچے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کسی کا تعلیم حاصل کرنے کے پسِ پردہ اپنا ایک ہدف ہوتا ہے، جیسے خود کو متوسط طبقے سے اونچے طبقے میں لانا وغیرہ۔ ہدف ہی انسان میں وہ جذبہ پیدا کرتا ہے جس کی وجہ آپ کو نہ موسم کی شدت کا احساس ہوتا ، نہ ہی آپ کا دل سماجی زندگی اور میل جول کم ہونے پر رنجیدہ ہوتا ہے، اور نہ ہی آپ دس بارہ گھنٹے پڑھائی کر کے تھکتے ہیں۔ آپ اپنے ہدف سے جتنا پیار کریں گے یا ہدف کے حصول کیلئے جتنی جدوجہد کریں گے، آپ کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے، لہٰذا پڑھائی کی منصوبہ بندی کے لیے سب سے پہلے آپ کو اپنا کوئی بڑا ہدف مقرر کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ بڑے ہدف کے بغیر آپ کے اندر جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔

دوسری چیز وقت کی منصوبہ بندی ہوتی ہے . وقت کی منصوبہ بندی سے مراد یہ ہے کہ بطور طالب علم آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس سوال/یونٹ/باب کومجھے لازمی اس وقت تک تیار کرنا ہے۔ اس ہی طرح امتحان یا کلاس ٹیسٹ میں اس سوال کو کتنے منٹ میں ختم کرنا ہے۔ بعض اوقات طالب علم یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:

مجھے امتحان میں دو سوال اور بھی آتے تھے لیکن ٹائم ہی ختم ہوگیا۔

بیٹا جلدی جلدی کرنا تھا۔

کیسے کرتا جلدی، سوالات کے جوابات ہی بہت طویل تھے۔

اس طرح کی صورتحال سے صاف ظاہر ہے کہ طالب علم نے اپنے امتحان کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی، یا ناقص منصوبہ بندی کی ہے جس میں وقت کا خیال نہیں کیا۔ اس صورت میں اگر جوابات طویل تھے تو ان کو مختصر کیا جاسکتا تھا۔ اور اگر طالبِ علم کی لکھنے کی رفتار کم تھی تو اس کو بھی پریکٹس سے بہتر کیا جاسکتا تھا۔ وقت کی منصوبہ بندی میں یہ طے کرنا چاہئے کہ کتنا کورس کتنے ٹائم میں تیار کرنا ہے۔

تیسرے کورس کی منصوبہ بندی ہوتی ہے. کورس کی منصوبہ بندی کیلئے بہتر یہ ہے کہ جب کسی طالب علم کا تعلیمی سال شروع ہو تو وہ وقت کے پیش نظر اپنے تمام کورس کی منصوبہ بندی کر لیں۔ فرض کریں کہ اگر آپ کے کل آٹھ مضامین ہیں اور ہر مضمون کے 9 باب ہیں۔ اور ہر یونٹ کے 5 موضوعات/سوالات ہیں، تو کل 360سوالات یا موضوعات ہوئے ہیں۔ یعنی تین سوالات یومیہ کی شرح سے یہ 120 دن یعنی چار مہینے میں آپ کا کورس مکمل ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر اس طرح منصوبہ بندی کی جائے تو بہت آسانی کیساتھ ایک سال میں کورس کی دو دفعہ تیاری ہوسکتی ہے۔

چوتھی چیز  بنیادی کمزوریوں کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے. دراصل ہر طالب علم میں کچھ نہ کچھ بنیادی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ عموماً طالب علم ان کمزوریوں کی وجہ سے اچھے نتائج حاصل نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے ان میں بددلی پیدا ہوتی ہے اور ان کا دل پڑھائی کرنے کو نہیں کرتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ بہت باریک بینی سے ان خامیوں کی نشان دہی کی جائے اور ان خامیوں کو دور کیا جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر کوئی مستری ایک دیوار تعمیر کر رہا ہے اور اس دیوار کی بنیادی اینٹ ٹیڑھی چن رہا ہے تو وہ دیوار جوں جوں بڑھتی جائے گی، اس کیلئے قائم رہنا مشکل ہوتا جائے گا اور جلد ہی وہ اپنے وزن سے گر جائے گی۔ اس ہی طرح بنیادی مہارتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر طالب علم بڑی کلاسز میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں، جس میں سے ایک کمزوری ہے

املا کی غلطیاں اور ذخیرہ الفاظ کی کمی:

یہ بہت ہی عام مسئلہ ہے۔ بعض اوقات  دیکھنے میں آیا ہے کہ طالب علموں کی اردو/انگریزی تحریر میں املا کی بہت غلطیاں ہوتی ہیں، نیز ان کو زبان کی بول چال میں دقت کا سامنا اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ ان کے پاس ذخیرہ الفاظ کی کمی ہوتی ہے۔ ویسے اس مسئلے کو چھوٹی کلاسز میں حل ہو جانا چاہئے، لیکن خیر جو ہو گیا، سو ہو گیا۔ ماضی کی غلطی کو اب ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے تعلیمی سال کے شروع میں اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے تاکہ طالب علم کے نمبر کم از کم غلط املا کی وجہ سے کم نہ ہوں۔

مشکل مضمون کا جرات مندانہ مقابلہ:

طالب علم کا جو مضمون کمزور ہے، اس پر زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ وہ بھی طالب علم کیلئے آسان ہو جائے۔ کمزور مضمون کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس کا سامنا کرنا چاہئے۔ یاد رکھئے کہ کوئی مضمون مشکل نہیں ہوتا، مسئلہ پڑھنے والے اور پڑھانے والے میں ہوتا ہے۔ مشکل مضمون کیلئے شام کی کو چنگ میں شرکت کی جاسکتی ہے یا کلاس ٹیچرز سے اضافی ٹائم اور توجہ کی درخواست کرنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ فائنل امتحان میں اچھے نمبروں کیلئے  ضروری ہے کہ آپ کے تمام مضامین میں نمبر اچھے آئیں، تب ہی آپ کا گریڈ اچھا ہوگا۔ ورنہ ایک مضمون کی وجہ سے آپ کا سال بھی ضائع ہوسکتا ہے۔

کلاس ٹیسٹ سے فرار اور نقل:

بعض طالب علم کلاس ٹیسٹ میں نقل کر کے اچھے نمبر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کلاس ٹیسٹ والے دن چھٹی کر لیتے ہیں۔ یہ عادت انتہائی خطرناک ہے اور اس سے طالب علم کو نہ صرف تعلیمی نقصان ہوتا ہے بلکہ اس کی شخصیت بھی خراب ہوسکتی ہے۔ کلاس ٹیسٹ میں ہوسکتا ہے کہ آپ نقل کر کے اچھے نمبر حاصل کرلیں، لیکن جناب فائنل امتحان میں کیا کریں گے؟

اس ہی طرح کلاس ٹیسٹ میں غیر حاضری کی صورت میں آپ کو اپنی اصل صورت حال کا اندازہ ہی نہیں ہوتا اور آپ کی بہت سی غلطیوں کی نشان دہی کلاس ٹیسٹ کے ذریعے سامنے آتی ہے، جن کو سالانہ امتحان سے پہلے درست کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وجہ سے فائنل امتحان میں بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ بعض طالب علموں کو شکایت ہوتی ہے کہ امتحانی پرچہ میں ایسے سوالات ٹھونسے جاتے تھے جن میں طلبا کو دلچسپی نہیں ہوتی  اور یہ سوال مستقبل کے معماروں کے اذہان کو ھپناٹائز کرنے کیلئے  بار بار پرچوں میں داغے جاتے تھے۔ اگر ان سوالوں کا جواب میں اپنی سمجھ بوجھ اور مطالعہ کے مطابق جوابی شیٹ میں لکھتا تو پرچہ چیک کرنے والا پہلی ہی فرصت میں مجھے صفر نمبر دیتا اور ساتھ ہی دیگر سوالات کے لکھے گئے جوابات میں بھی دانستہ کم نمبر دیتا ہے کیونکہ میرے جواب نظریاتی طور پر ان کے الٹ ہوتے تھے۔ لیکن طلبا یہ بھول جاتے ہیں کہ پڑھائی کا مقصد ڈگریوں کا حصول نہیں بلکہ قابلیت پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ مستقبل میں شرمندہ نہ ہونا پڑے!

No comments:

Post a Comment