Thursday 12 November 2015

تقلید کیوں ہے ضروری؟

قران کے بعد احادیث کا نمبر آتا ہے .احادیث مبارکہ میں بھی آپ کو کم از کم چھ نکات کی تقلید کرنی ہے.

1. جب آپ کے سامنے کو ئی عربی عبارت یا جملہ آتاہے مثلا "انما الاعمال بالنیات " تو سوال ہے کہ یہ قرآن کی آیت ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے یا کسی صحابئ رسول کا فرمان ہے یا کسی مجتہد کا قول ہے؟ لیکن اس کا جواب سب یہی دیں گے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے - جان لیا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
پہر سوال ہے کہ،"انما الاعمال با لنیات "اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو کس نے آپ سے کہا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے؟ کیا اللہ تعالی نے کہا؟  کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا؟
جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ علماء نے کہا محدثین نے کہا _یہاں ایک عربی عبارت، عربی جملہ کو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان محض محدثین اور علماء کی تقلید میں مان لیا نہ آپ کے پاس دلیل ہے نہ دلیل کا مطالبہ کیا _جہاں تک سند کا تعلق ہے وہ بھی آپ محدثین کی تقلید میں مان رہے ہیں خود آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہ تھے _

2. ایک مسئلہ تو حل کیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہے پہر سوال پیدا ہوتا ہے کیا حدیث صحیح ہے؟  اگر صحیح ہے تو تقلید کے بغہر دکہاؤ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صحیح کیا ہے کیو نکہ آپ تو قرآن و حدیث کے بغیر کو ئی بات ماننے کے لےتیار نہیں ہیں لیکن قیامت کی صبح تک کوئی قرآن و حدیث سے کسی حدیث کا صحیح و ضعیف ہونا ثابت نہیں کر سکتا ہے _بلکہ آپ یہ فرمائیں گے کہ ائمہ محدثین رحمہم اللہ  نے اس کو صحیح کہا ہے  گو یا آپ نے ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی ہی تقلید میں حدیث کو صحیح کہا ہے نہ آپ کے پاس دلیل ہے نہ ہی آپ یہاں دلیل کا مطالبہ کررہے ہیں _

3. ممکن ہے آپ یہ کہیں حدیث کو صحیح اور ضعیف ثابت کرنے کے لیے علماء محدثین نے کچھ اصول و ضوابط مقرر کیے ہین اور یہ ایک مستقل عظیم فن کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کو ہم فن اسماء الرجال یا فن جرح و تعدیل کے نام سے جانتے ہیں اس لیے ہم ان ہی اصول و ضوابط کے مطابق حدیث کے صحیح و ضعیف ہو نے کا فیصلہ کرتے ہیں، یہاں یہی  سوال پہر کہڑا ہوتا ہے کہ یہ اصول و ضوابط اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ ہیں یا ائمہ مجتہدین و محدثین رحمہم اللہ کے مقرر کردہ ہیں؟ جواب یہ ہے کہ علماء کے مقرر کردہ ہیں یہاں بہی آپ ان کے مقرر کردہ اصول ہی کی تقلید میں حدیث کے صحیح و ضعیف ہو نے کا حکم لگا تے ہین اور اسی پر تقلید ختم نہ ہوئی بلکہ پہر سوال ہوگا کہ انہوں نے جو اصول مقرر کیے ہیں کیا یہ اصول آپ کی تحقیق میں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟ کیا ہر اصول پر ان کے پاس قرآن و حدیث سے دلیل موجود ہے؟ یہاں بھی جواب ملے گا نہیں ہے بلککہ ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی تقلید کرتے ہوئے ہی ہم ان اصول و ضوابط کو تسلیم کرتے ہوئے احادیث کے بارے میں صحیح اور ضعیف ہونے کا فیلہ کرتے ہیں _

4. اسی پر معاملہ نہیں رکا احادیث مبارکہ کے راوی سب کے سب مسلمان ہیں حدیث کے خدمت گار ہیں راویوں میں سے آپ بہت راویوں کو دیکھیں گے کہ اسماء رجال کے فن مین ان کی بہت تعریف ہوئی ہے  مثلا یہ شخص امیر المؤمنین فی الحدیث ہے، یہ عادل ہے،  یہ ثقہ ہے،  یہ سچا ہے، ہی متقن ہے، (احادیث کو مضبوط کرنے والا) یہ اوثق الناس ہے، سب سے زیادہ معتبر ہے، یہ شیخ ہے(عالم حدیث) "یروی حدیثه" اس کی حدیثیں روایت کی جاتی ہیں "يعتبره به" اس کی حدیث شاہد کے طور پر لائی جاتی ہے: 
لیکن بعض راویوں کے بارے میں آپ کو سخت تنقید ملے گی  مثلا "كذاب الناس"سب سے بڑا جھوٹا، دجال، مکار، وضاع(اپنی طرف سے حدیث بنا نے والا)     " كذاب" بڑا جھوٹا "سيئ تلحفظ" خراب یاد داشت والا ایک مسلمان حدیث کے راوی کو دجال، كذاب، مجهول، وضاع، سيئ الحفظ، کہتے ہیں سوال یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو کس نے کہا جو اس قدر سخت تنقید کی  کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان كو  دجال،  كذاب کہا؟ اس لیے ان کے کہنے پر آپ نے ان کو دجال و کذاب کہا؟  یا ائمہ محدثین کی تقلید میں ہی آپ ایک مسلمان راوی کو دجال کہتے ہیں یہاں بھی آپ کو تقلید کے بغیر چارہ نہیں _
لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ائمہ محدثین نے کسی کو دجال یا کذاب وغیرہ کہا ہے تو کیا آپ نے ان سے پوچھا ہے کہ ذرا مجھے اس بے چارے مسلمان راوی کے چند جھوٹ دکھلاؤ تا کہ اس کے جھوٹ کے سامنے آنے کے بعد میں بھی دلیل کے ساتھ علی وجہ البصیرت ان کو کذاب دجال کہوں گا ، یہاں بھی آپ ائمہ محدثین پر اعتماد کرتے ہوئے دجال و کذاب کہتے ہیں  نہ آپ کے پاس دلیل قرآن و حدیث سے موجود ہے نہ ہی آپ دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں _
چلو مان لیں ائمہ محدثین جس راوی کو دجال یاکذاب کہتے ہیں     آپ نے ان سے دلیل کا مطالبہ کیا انہوں نے اس جھوٹے راوی کے کچھ جھوٹ آپ کو سنائے  اس لیے وہ کذاب بن گیا  اس کی روایت قبول نہ ہو گی پھر یہ سوال سامنے آتاہے کہ جس محدث راوی نے یہ جھوٹ بیان کیے آپ مے خود تحقیق نہ کی بلکہ اس کی تحقیق پر اعتماد کیا اوع اس کی تقلید کی حالانکہ یہ بھی ممکن ہے جس کو محث نے جھوٹ کہا وہ حقیقت میں جھوٹا نہ تھا بلکہ محدث کو اس کے با رے میں غلط خبر ملی ہو نیز یہ بات بھی حل طلب ہے کہ جس محدث نے اس کے جھوٹ آپ کے سامنے بیان کیے کیا اس نے خود وہ جھوٹ سنے تھے یا کسی اور سے سنے تھے پہر اس کے بارے میں تحقیق کرنی پڑےگی کہ کیا اس دوسرے نے خود سنے یا کسی اور سے سنے اگر کسی اور سے سنے کیا وہ خود معتبر ہے یا غیر معتبر؟ کیا اس کے پاس دلیل موجود ہے یا نیں؟ یہ سلسلہ اتنا تحقیق طلب ہے کہ عمر نوح اس کی تحقیق کے لیے ناکافی ہے مجبوراً آپ کو کسی نہ کسی مرحلہ میں تقلید کرنی ہے _غرض کسی مسلمان خدمت گذار راوی حدیث کے بارے میں جھوٹا، بدعتی کا حکم لگا نا یا اس کے کمزور حافظہ کی شکایت کرنا اس کی امانت و دیانت کی کمی کا تذکرہ کرنا یہ سب تقلیداً ہی آپ اور ہم مانتے ہیں نہ یہاں قرآن کی آیت کا مطالبہ کرتےہیں اور نہ ہی صحیح حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں _
مزید براں اصول حدیث پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں  وہ تو صدیوں بعد لکھی گئی ہیں تو کیا صدیوں بعد لکھی ہوئی کتابوں پراعتماد کرتے ہوئے اور ان کی تقلید کرتے ہوئے ہی آپ.اور ہم صدیوں پہلے کذرے ہوئے راویوں کی جرح و تعدیل نہیں کرتے ہیں؟ مثلا  حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اصول حدیث میں سب سے پہلے لکھی ہوئی کتاب" قاضی ابو محمد رحمہ اللہ " کی ہے جس کی وفات (360 ھ)میں ہوئی ہے اور اس کے حاک ابو عبد اللہ رحمہ اللہ نیشاپوری کی ہے جن کی وفات (405ھ) میں ہوئی پہر ابو نعیم رحمہ اللہ نے لکھی جن کی وفات (430ھ)  میں ہوئی پہر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھی جن کی وفات (463ھ)میں ہوئی اور تمام محدثین ان کے ہی خوشہ چین ہیں پہر قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھی جن کی وفات (544ھ) میں ہوئی پہر ابن صلاح رحمہ اللہ آئے انہوں نے قابل قدر کتاب "مقدمہ ابن صلاح " لکھ کر محدثین پر احسان عظیم کیا ان کی وفات (643ھ) میں ہوئی پہر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے  یہ علم خوب سنوارا اور خوب کتابیں لکھیں لیکن ان کی پیدائش (773ھ)میں ہوئی غرض یہ حضرات چوتھی صدی یا اس کے بعد کے لوگ ہیں آپ ان کے کہنے اور تقلید پر ہی ان سے صدیوں پہلے گذرے ہوئے لوگوں کی توثیق و جرح کرتے ہیں اور تاریخ وفات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بھی سوچیں ان چوتھی صدی یا اس کے بعد پیدا ہو نے والے لوگ پہلی دوسری صدی میں خود نہ تھے انہوں نےبھی اپنے علماء و اساتذہ کی تقلید میں سابقہ لوگوں کی جرح و تعدیل کی ہے خلاصہ یہ ہے کہ یہاں بھی تقلید سے فرار ممکن نہیں ہے _

5. جب آپ کسی حدیث کا مقبول ہو نا ثابت کریں گے (اور یہ بھی آپ تقلیداً ہی ثابت کرتے ہیں) تو پہر سوال یہ ہے کہ مقبول کی باہمی تعارض کے اعتبار سے  سات قسمیں نکلتی ہیں
(1)محکم
(2)مختلف الحدیث
(3)ناسخ
(4)منسوخ
(5) راجح
(6) مرجوح
(7)متوقف فیہ_یہ تو تفصیلی چیز ہے لیکن اگر آپ کو فن علم حدیث سے کچھ بھی تعلق ہے تو آپ کو ماننا پڑےگا کہ یہاں بھی آپ کو تقلید کے بغیر چارہ نہیں _

6. اگر آپ نے یہ تمام مشکل گھاٹیاں طے کیں(اور بغیر تقلید تو طے نہیں ہو سکتی ہے) تو معاملہ احادیث کے معانی و مفاہیم کا آتاہے معانی تلاش کرنے کی لیے یا تو پہر آپ کو کتب ائمہ لغت (ڈکشنریوں) کی تقلید کرنی پڑے گی وہ بھی بغیر دلیل کے اور دلیل کا مطالبہ کیے بغیر یا جنہوں نے احادیث کے ترجمہ لکھےہیں ان کی تقلید کرنی پڑے گی اور محدثین نے محنت کرکے آپ کی تمام منزلیں آسان کردیں آپ کو صرف ان کی تقلید کرنی ہے  اور جب آپ ان کی تقلید کرتے ہیں تو آپ کو تو ان کی یہ بات بھی ماننی پڑےگی کہ حدیث کے معانی جاننے والے فقہاء ہیں چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ کو جہاں ضعیف و صحیح ہونے کا حکم لگاناہوتاہے وہاں وہ ائمہ محدثین کی تقلید کرتے ہوئے حکم لگاتے ہیں اور جہاں احادیث کے معانی و مفاہیم بیان کرتے ہیں وہاں فقہاء کی آرا اور ان کے بیان کردہ مطالب بیان کرتے ہیں _
آپ ترمذی شریف اٹھاکر دیکھیں تو پوری کتاب میں یہی طرز نظر آئےگا کہ حدیث کا حکم لگانے میں محدثین کی تقلید ہے اور فقہاء حدیث کے معانی کو محدثین سے زیادہ جاننے والے ہیں چنانچہ یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھی:  "وكذالك قال الفقهاء وهم اعلم بمعاني الحديث "
(ترمذی شریف کتاب الجنائز باب ماجاء فی غسل المیت)

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ قرأت و تجوید کے ساتھ پڑھنے میں آپ کو لازماً ائمہ قرأت و تجوید کی تقلید کرنی ہے قرآن کے اعراب میں ائمہ نحو کے تقلید کے بغیر چارہ نہیں، قرآن کے معانی تلاش کرنے میں ائمہ لغت کی تقلید ناگزیر ہے، قرآن عظیم کے مطالب بیان کرنے میں آپ کو ائمہ تفسیر کی تقلید سے فرار ممکن نہیں ہے تلاوت کے رموز و اشارات میں بھی تقلید کے بغیر چارہ نہیں ہے اسی طرح کسی عربی عبارت کو حدیث کہنے میں تقلید ضروری ہے حدیث پر صحیح وضعیف لگانے کا حکم بھی تقلید پر موقوف ہے، فن اسماء الرجال وفن جرح وتعدیل بھی تقلیداً قبول کیے جاتے  ہیں مزید براں راویان حدیث کی جرح و تعدیل بھی تقلیداً ہم تک پہنچتی ہے پہر آخر میں معانی میں فقیاء کی تقلید بھی ضروری ہے جب اتنی ساری تقلیدیں شرک نہیں ہیں تو فقہاء کی تقلید ہی کیوں شرک ہے؟

No comments:

Post a Comment