Tuesday 28 April 2020

مسنون دعاؤں کے الفاظ وحروف میں کمی زیادتی؟ ‏

مسنون دعاؤں کے الفاظ وحروف میں کمی زیادتی؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: شکیل منصور القاسمی

سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسنون دعاؤں کے واحد متکلم کے ضمیروں کو اجتماعی دعاؤں کے موقع پر جمع متکلم کی ضمیروں سے بدلنا چاہئے یا واحد کے ہی ضمیروں کے ساتھ دعا مانگنا چاہئے براہ کرم واضح فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق: 
قرآن وحدیث کی دعائیں وحی من اللہ ہوتی ہیں ۔متلو وغیر متلو کا فرق ضرور سہی! لیکن دعاؤں کے سارے کلمات، حروف وصیغے بزبان رسالت، اللہ کی جانب سے دل میں القاء کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ قبولیت دعا یا جزاء وبدلہ انہی صیغے وکلمات کے ساتھ خاص ہوتے ہیں؛
اس لئے علماء محققین کی تحقیق اس خصوص میں یہ ہے کہ دعاء ماثورہ ومسنونہ کے کلمات وحروف توقیفے ہوتے ہیں، اس میں کسی قسم کا ردوبدل جائز نہیں ہے۔ جن صیغوں کے ساتھ دعائیں وارد ہوئی ہیں انہی شکل وصورت کے ساتھ پڑھنا ضروری ومتعین ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے رد وبدل سے منع فرمایا ہے۔
ایک صحابی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعاء سکھلائی، جس میں "نبیک" کا لفظ تھا۔ بعد میں یاد کرتے ہوئے اس صحابی نے نبیک کی بجائے "رسولک" پڑھا۔
ظاہر ہے نبی اور رسول میں عموم خصوص کے علاوہ کوئی بین فرق تو ہے نہیں؛ لیکن اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تبدیلی کو منع فرمایا۔ اس سے پتہ چلا کہ دعاؤں کے کلمات توقیفی ہوتے ہیں۔ جس شکل میں وارد ہے اسی طرح پڑھنا متعین وضروری ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ النَّوْمِ وَأَخْذِ الْمَضْجَعِ 
2710 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ [ص: 2082] ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ وَاجْعَلْهُنَّ مِنْ آخِرِ كَلَامِكَ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ مُتَّ وَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ قَالَ فَرَدَّدْتُهُنَّ لِأَسْتَذْكِرَهُنَّ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ إِدْرِيسَ قَالَ سَمِعْتُ حُصَيْنًا عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ أَنَّ مَنْصُورًا أَتَمُّ حَدِيثًا وَزَادَ فِي حَدِيثِ حُصَيْنٍ وَإِنْ أَصْبَحَ أَصَابَ خَيْرًا 
صحيح مسلم. كتاب الذكر والدعاء
(فرددتهن لأستذكرهن، فقلت: آمنت برسولك الذي أرسلت، قال: قل آمنت بنبيك الذي أرسلت) اختلف العلماء في سبب إنكاره صلى الله عليه وسلم ورده اللفظ، فقيل: إنما رده لأن قوله: (آمنت برسولك) يحتمل غير النبي صلى الله عليه وسلم من حيث اللفظ، واختار المازري وغيره أن سبب الإنكار أن هذا ذكر ودعاء، فينبغي فيه الاقتصار على اللفظ الوارد بحروفه، وقد يتعلق الجزاء بتلك الحروف، ولعله أوحي إليه صلى الله عليه وسلم بهذه الكلمات، فيتعين أداؤها بحروفها ، وهذا القول حسن۔ (شرح النبوي على صحيح مسلم)
ترمذی میں ہے:
3574 حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ قَالَ فَرَدَدْتُهُنَّ لِأَسْتَذْكِرَهُ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ فَقَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْبَرَاءِ وَلَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنْ الرِّوَايَاتِ ذِكْرَ الْوُضُوءِ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ 
(سنن الترمذي. كتاب الدعوات باب في انتظار الفرج)
قال الحافظ: وأولى ما قيل: في الحكمة في رده -صلى الله عليه وسلم- على من قال الرسول بدل النبي أن ألفاظ الأذكار توقيفية ولها خصائص وأسرار لا يدخلها القياس فتجب المحافظة على اللفظ الذي وردت به. وهذا اختيار المازري قال: فيقتصر فيه على اللفظ الوارد بحروفه وقد يتعلق الجزاء بتلك الحروف ولعله أوحي إليه بهذه الكلمات فيتعين أداؤها بحروفها، 
(تحفة الأحوذي)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی
سوال
—-
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔۔
آپ نے اپنے مذکورہ فتویٰ میں یہ رقم کیا ہے کہ۔
قبولیت دعا یا جزاء وبدلہ انہی صیغے وکلمات کے ساتھ خاص ہوتے ہیں؛
اس لئے علماء محققین کی تحقیق اس خصوص میں یہ ہے کہ دعاء ماثورہ ومسنونہ کے کلمات وحروف توقیفے ہوتے ہیں، اس میں کسی قسم کا ردوبدل جائز نہیں ہے۔ جن صیغوں کے ساتھ دعائیں وارد ہوئی ہیں انہی شکل وصورت کے ساتھ پڑھنا ضروری ومتعین ہے۔
جب کہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کے ذیل کے فتوی میں  کچھ یوں لکھا ہے: 
سوال
(۱) کیا قرآنی آیت میں جو دعا ہے واحد کے صیغہ کو جمع صیغہ میں بدل سکتے ہیں؟مثال کے طوسرپر ” رب زدنی سے زدنا“۔
(۲) کیادعا میں بھی تجوید کی عایت رکھنا ضروری ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa ID: 727-581/D=7/1436-U
(۱) قرآنی آیات میں جو دعائیں بصیغہٴ واحد وارد ہوئی ہیں انھیں دعا کے طور پر جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، بالخصوص مواقع اجتماع میں قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: عَمِّم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض․ (ردالمحتار: ۲/۲۳۵، ط زکریا)
(۲) تجوید یعنی حروف کو ان کے مخارج اصلیہ اور صفاتِ لازمہ کے ساتھ ادا کرنا قرآن کریم پڑھنے کے لیے ضروری ہے، باقی قرآن وحدیث پر مشتمل دعاوٴں میں بھی تجوید کی رعایت رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :59116
تاریخ اجراء :May 5, 2015

اس کا حل کیا ہوگا؟
دوسری چیز آپ نے یہ لکھی ہے کہ: 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے رد وبدل سے منع فرمایا ہے۔
اس سے متعلق کوئی نص آپ نے ذکر نہیں فرمائی۔
ہاں نبی اور رسول والی نص موجود ہے لیکن کیا اس میں ہر قسم کی تبدیلی داخل ہے؟
از راہ تلطف، نظر فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق: 
دعاء بذات خود عبادت بلکہ افضل ترین عبادت اور مغز عبادت ہے ، عبادات کی بنیاد اتباع (توقیف) پہ ہوتی ہے، 'ابتداع'  پہ نہیں! اسی کو علماء فرماتے ہیں کہ دعاء بھی دیگر عبادات کی طرح توقیفی ہے۔ داعی کے لئے اپنی دعا میں شرعی حدود کی پابندی اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز سے گریز لابدی ہے، دعا میں حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے. بعض دعائیں قرآنی ہیں جبکہ بعض دعائیں ماثورہ: یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا آپ نے انہیں پڑھایا یا پڑھنے کا حکم دیا، ثانی الذکر کو دعاء ماثورہ ومسنونہ کہتے ہیں 
قرآنی دعاء کے صیغوں میں رد وبدل کی بات میرے مضمون میں ہے ہی نہیں، یہ ایک مستقل موضوع بحث ہے. 
کاش! میری تحریر کے عنوان پہ غور کرلیا جاتا تو یہ خلط مبحث نہیں ہوتا 
خیر! بات چل پڑی ہے تو تفصیل میں جائے بغیر اجمالاً عرض کیے دیتا ہوں 
قرآنی دعاؤں کے صیغوں میں افراد، تثنیہ وجمع کا رد وبدل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ 
عرب وعجم کے علماء کے اس میں مختلف نقطہائے نظر ہیں. بعضوں نے رد وبدل کو بالکل ناجائز کہا ہے جبکہ دیگر بعض  نے یہ کہکر گنجائش دی ہے کہ اگر امام اجتماعی عمومی دعا کروا رہا ہو، مقتدی اس کی دعا پر آمین بھی کہہ رہے ہوں تو امام اب قرآنی دعا کے صیغوں میں رد وبدل مثلاً 'إني كنتُ من الظالمين'  کی جگہ 'إنا كنّا من الظالمين' کرسکتا ہے، اور صیغوں کی یہ تبدیلی تلاوت کی نیت سے نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے ہوگی جو تحریف قرآن کے زمرے میں نہیں آئے گی۔ اگر امام اپنی مخصوص دعا میں ہو اور مقتدی اپنی دعاؤں میں، تو اب ان کے یہاں بھی ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے. 
جواز کے قائلین نے اپنے موقف پہ متعدد دلائل دیئے ہیں، تمام دلائل کا استیعاب اور جائزہ لینے کا یہ وقت نہیں ہے، یہاں صرف اس دلیل پہ غور کیا جارہا ہے جو دارالعلوم دیوبند کے اس فتوی میں ذکر کی گئی ہے. قرآنی آیت کے صیغوں میں امام کا اپنی طرف سے رد وبدل کے جواز پہ فتاوی شامی میں اس مبینہ روایت کو پیش کیا گیا ہے:
عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض الخ 
جہاں تک اس اثر کی اصلیت کی بات ہے تو اس روایت کا کسی بھی حدیث  کی کتاب میں دور دور تک مجھے اس کا وجود نہیں مل سکا، 
الفروع لابن مفلح الحنبلي (1/405)، كشاف القناع (1/367) ، ردالمحتار على الدر المختار لابن عابدين (1/350) اور  حاشية الجمل في باب صفة الصلاة (2/101) 
جیسی فقہی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے. یہ اثر ابن ذي الخويصرة صحابی کا ہے جنہوں نے اپنی دیہاتی سادگی کے باعث یہ دعا مانگی تھی: اللهم ارحمني وارحم محمداً ولا تُشْرك معنا أحداً، اور 'أدخلني الله تعالى وإياك الجنة ولا أدخلها غيرنا' کہا تھا، ان کے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنی دعا میں عموم پیدا کرو! 
"ويلك، احتظرت واسعاً"! 
"عمّم دعاءك"  کا معنی یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرآنی دعا کے کلمات میں اپنی طرف سے رد وبدل کرو، جس شامی کی عبارت سے ناقص استدلال کیا گیا ہے کم ازکم اوپر نیچے کی عبارت بھی پڑھ لی جاتی تو یہ مغالطہ نہ ہوتا، شامی کی پوری عبارت نقل کررہا ہوں، پڑھئے! اور دیکھئے کہ عبارت کا مفاد کیا ہے؟ اور استدلال کیا کیا جارہا ہے؟ 
'وكان ينبغي أن يزيد ولجميع المؤمنين والمؤمنات كما فعل في المنية لأن السنة التعميم ، لقوله تعالى { واستغفر لذنبك وللمؤمنين والمؤمنات} وللحديث {من صلى صلاة لم يدع فيها للمؤمنين والمؤمنات فهي خداج}، كما في البحر، ولخبر المستغفري {ما من دعاء أحب إلى الله من قول العبد: اللهم اغفر لأمة محمد مغفرة عامة} 
وفي رواية {أنه صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يقول: اللهم اغفر لي، فقال: ويحك لو عممت لاستجيب لك} وفي أخرى {أنه ضرب منكب من قال اغفر لي وارحمني ، ثم قال له: عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض} وفي البحر عن الحاوي القدسي: من سنن القعدة الأخيرة الدعاء بما شاء من صلاح الدين والدنيا لنفسه ولوالديه [ص: 522]
(رد المحتار على الدر المختار لابن عابدين (1/350)
عبارت کا ماحصل یہی ہے کہ ایک مومن کو اپنی دعا میں پوری امت مسلمہ کو شامل کرنا چاہیے. اللہ کی نظر میں یہ سب سے محبوب بندے کا عمل ہے:
{ما من دعاء أحب إلى الله من قول العبد: اللهم اغفر لأمة محمد مغفرة عامة} 
کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی المالکی ۳۵۰/۲
اسی مفہوم کو یمن کے اعرابی صحابی ذو الخویصرہ کے اثر میں 
(عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض}
کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، اس کا مسئلہ مبحوث عنہا سے کوئی تعلق  نہیں ہے 
پھر یہ اثر میری تلاش کی حد تک کسی حدیث کی کتاب میں دستیاب بھی نہیں ہے
یہ کہنا کہ تلاوت نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے قرآنی کلمات میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے بجائے خود قابل غور ہے 
کتاب اللہ کی تلاوت ہی دعا ہے 
اور دعا ہی تلاوت ہے 
دونوں میں تلازم ہے 
کیا صرف دعا کی نیت کرلینے سے کوئی آیت ، قرآن ہونے سے نکل سکتی ہے؟ 
اگر صرف نیت کرلینے سے ہی آیت کا قرآن ہونے سے خروج ہوتا رہے تو پہر قرآن کیا بچا؟؟ محرر مفتی صاحب کا یہ اپنا خیال ہے. مدعا پہ کوئی مضبوط دلیل بھی پیش نہیں کی گئی ہے. بنا بریں مجھے اس فتوی اور اس کے مشمولات سے قطعی اتفاق نہیں. دلیل کے ساتھ اختلاف رائے کا حق ہر اہل علم کے لئے محفوظ ہے، یہ کسی کی جلالت علمی اور عظمت شان کے منافی نہیں. تو میرا جواب دعا ماثورہ میں رد وبدل سے متعلق تھا. آپ نے آیت قرآنی کے صیغوں میں رد وبدل والا ایسا فتوی پیش کردیا جس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں. یہ 'خلط مبحث' ہے 
جہاں تک دعاء ماثورہ کے صیغوں میں اپنی طرف سے ردوبدل کی بات ہے تو جیساکہ عرض کیا کہ عبادتوں کی بنیاد 'اتّباع' پہ ہوتی ہے 'ابتداع' پہ نہیں 
داعی کے لئے ضروری ہے کہ نماز وروزہ اور دیگر عبادتوں میں شرعی ہدایات کی پیروی کی طرح دعاؤں میں بھی شرعی ہدایات کی اتباع کرے. اپنی طرف سے کمی بیشی کرکے حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے 
علماء نے دعاء ماثورہ کی بنیادی طور پہ دو قسمیں کی ہیں 
1. ایک وہ دعا ہے جو دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق مطلق واد ہوئی ہے، زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے 
2. دوسری وہ دعا ہے جو خاص اوقات وازمنہ میں پڑھنے کے لئے وارد ہوئی ہیں 
یا جن کے الفاظ وکلمات کی حفاظت شریعت مطہرہ کو مقصود ہو 
جیسے اذان واقامت وغیرہ 
یا جیسے کھانا کھانے، سونے، اٹھنے، چھینکنے وغیرہ کے وقت کی دعائیں وغیرہ 
قسم اوّل کی دعا میں کمی بیشی اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مبادیات واصول اسلام کے معارض نہ ہو یا حداعتدال سے تجاوز نہ کیا گیا ہو. دعا کی یہ قسم 'توقیفی' نہیں ہوتی ہے. قسم ثانی کی دعاء میں احناف اور حنابلہ کے یہاں جواز تو ہے لیکن بہتر پھر بھی نہیں. امام مالک کے یہاں اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق ماثور دعائوں خواہ اندرون نماز ہو یا بیرون نماز نقص واضافہ جائز نہیں ہے 
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے جوامع الکلم عطا کئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں نورانیت ہوتی ہے وہ قبولیت خداوندی کے زیادہ مستحق ہیں. دین و دنیا کی ہر بھلائی کو مستجمع ہوتی ہیں. اب اپنی طرف سے صیغے بدلنا 
اعلی کو ادنی سے بدلنا یعنی ریشم میں ٹاٹ کی پیوند لگانے کے مرادف ہے. اللہ اور اس کے رسول کی مدح وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کرکے یا ماثور دعاؤں میں رد وبدل کرکے معانی ومفاہیم میں غلو اور افراط وتفریط کرنا یا کتاب وسنت کی ثابت شدہ دعاؤں کے بالمقابل من گھڑت اوراد ووظائف پہ اعتماد کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے. آپ نے ممانعت پوچھی تھی. یہ لیجئے ممانعت! 
روى أحمد (16354) وابن ماجة (3864) عَنْ أَبِي نَعَامَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنَهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا. فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ سَلْ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَعُذْ بِهِ مِنْ النَّارِ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ) 
(أحمد (16354) وابن ماجة (3864)
والحديث صحيح)
"یعنی میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعا کرتے وقت حد اعتدال سے تجاوز کریں گے۔"
پہلے جواب میں مسلم شریف کے حوالے سے یہ روایت ذکر کرچکا ہوں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سوتے وقت کی ایک دعا سکھائی جس میں یہ الفاظ تھے۔ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.
انھوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ دعا یاد کرکے سنائی تو:
"وَرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" یعنی انھوں نے 'نَبِيِّكَ' کی بجائے"رَسُولِكَ" پڑھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" کے الفاظ ہی یاد کرو۔"
اس سے بھی پتہ چلتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں ترمیم کو قبول نہیں کیا. نیز مصنف ابن ابی شبیہ کی ایک روایت  نمبر 3012 میں ہے کہ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے ایک  اعرابی کو تشہد سکھایا: "أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله" 
اعرابی نے تشہد سناتے ہوئے ساتھ میں 'ومغفرته' کا اضافہ کردیا، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے اس اضافے پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ "هكذا عُلِّمنا" یعنی اس زیادتی کے بغیر ہم لوگ سیکھے ہیں، (لہذا تم بھی بعینہ پڑھو)۔
جواز اضافہ کے قائلین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ کے کلمات پڑھے تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں اضافہ کرکے 
"لبيك وسعديك والخير بين يديك والرغباء إليك والعمل" 
کا اضافہ فرمادیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ماثور دعا میں زیادتی کی جاسکتی ہے 
میں کہتا ہوں کہ یہ کلمات وصیغے کی زیادتی نہیں ہے بلکہ حمد وثناء خداوندی کا مستقل اضافہ ہے جہاں سکوت نبوی سے اس کی گنجائش نکلتی ہے وہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اضافے کے علی الرغم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہی کلمات کا تکرار یہ بھی بتاتا ہے کہ اضافہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چنداں محبوب نہیں تھا؛ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سہ بارہ اس اضافہ کے ساتھ پڑھتے! 
یہ سرسری ذکر ہے ورنہ مجوزین اور مانعین کے اپنے اپنے نقطہائے نظر پہ اور بھی متعدد دلائل ہیں. ایک ایسے وقت میں جبکہ عوام الناس میں عبادت کی طرح دعاؤں میں بھی نئی نئی مجربات در آئی ہیں. حل مشکلات کے لیے ماثور ومنقول دعاؤں میں دلچسپی کی بجائے مجربات شیخ اور خواب ومنام  پہ بھروسہ کرنے کا رجحان عام ہورہا ہے. ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کی ادعیہ ماثورہ کو اپنی شکلوں اور الفاظ میں محفوظ کرنے اور پڑھنے کا عمومی مزاج پیدا کیا جائے 
انسان کا نفس بڑا ہی سہولت پسند واقع ہوا ہے. کلمات وصیغے میں رد وبدل کی گنجائش سے معاملہ بہت دور تک نہ چلا جائے. اس لئے میں اس بابت نرمی کا قائل نہیں. میرے اوپر کے جواب میں عدم جواز کی بات قسم دوم کی دعاؤں سے متعلق ہے- 
قسم اوّل کی دعاؤں میں جہاں الفاظ وکلمات کا تحفظ یا وقت وزمانے کا اختصاص مقصد شرع نہیں ہوتا بلکہ مطلق دین ودنیا کی بھلائی کی دعا کی جاتی ہے. جیسے "اللهم اغفرلي وارحمني" وغیرہ. وہاں معاملے میں وسعت ہے. داعی حسب حال وتقاضہ کلمات میں اضافے کا مجاز ہے. دعا کی یہ قسم توقیفی نہیں لیکن دوسری قسم توقیفی ہے. اس میں توسع کے ہم قائل نہیں. الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا کو "الحمد لله على الإطعام" يا "اللهم بك أصبحنا وبك أمسينا"  کو "اللهم بك أصبحتُ وبك أمسيتُ" کہنے کو ہم جائز نہیں سمجھتے. هذا مقام التفصيل وذاك كان مقام الإجمال .
والله اعلم 
شكيل منصور القاسمي
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_72.html



شوہر کے قریب بیوی کا نماز پڑھنا؟

شوہر کے قریب بیوی کا نماز پڑھنا؟
از: شکیل منصور القاسمی
سوال
——-
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 
   موجودہ حالات میں ایک صاحب نے جگہ کی تنگی کی وجہ سے بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک ہی صف میں نماز عشاء اور تراویح ادا کرلی جبکہ امام تھوڑا سا آگے تھا کیا نماز درست ہوجائے گی؟ یا فاسد؟؟؟ 
   اگر نماز فاسد ہوجائے گی تو اداء کی ہوئی نماز کا اعادہ ضروری ہے؟ 
   امید کہ مفتیان کرام جواب دیکر عنداللہ ماجور ہونگے
الجواب وباللہ التوفیق:
محاذات کی تعریف وتوضیح میں فقہا حنفیہ کا کافی اختلاف ہے. شامی نے تقریباً اقوال مختلفہ پہ روشنی ڈالنے کے بعد اس کی تفسیر یہی کی ہے کہ تحقق محاذات کے لئے اعتبار عورت کے قدم کا ہے. یعنی عورت کا قدم مرد کے قدم کے مساوی بالکل نہیں ہونا چاہئے، قہستانی کے حوالے سے شامی نے محاذات کی توضیح میں لکھا ہے کہ محاذاتِ مفسد، یہ ہے کہ عورت کا قدم مرد کے بدن کے کسی بھی حصہ کے برابر نہ ہو. اگر عورت کا قدم تو مساوی نہ ہو البتہ اگر قدم کے علاوہ اس کے بدن کا کوئی حصہ مرد کے بدن کے مساوی ہوجائے تو یہ مفسدِ نماز نہیں ہے. اس سے پتہ چلا کہ محاذات کے مسئلے میں اعتبار عورت کے قدم کا ہے، بقیہ حصہ بدن کا نہیں. قدم کا محاذات میں ہونا یا نہ ہونا مکمل طور پر حالت قیام ہی میں معلوم ہوسکتا ہے. دیگر حالتوں میں نہیں. 
یہاں دیگر اعضائے بدن میں بطور خاص قدم کو اس لئے معیار بنایا گیا ہے کہ دیگر بیشتر مسائل میں بھی قدم پہ حکم کا مدار رکھا گیا ہے. مثلاً کسی جانور کا قدم تو حد حِل میں ہو؛ لیکن سر اور بقیہ حصہ بدن حدِ حرم میں! تو قدم کا لحاظ کرکے فقہا اس کے شکار اور پکڑنے کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن اگر قدم حرم میں ہو اور بقیہ اعضا حل میں تو قدم کا لحاظ کرکے اس کا شکار ناجائز ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدم کا ہی اعتبار ہوتا ہے دیگر اعضا کا نہیں (شامی)
محاذات مفسد کی متعدد شرائط ہیں جو جامعہ بنوریہ ٹائون کے درج ذیل ایک فتوی میں تفصیلا بیان کئے گئے ہیں:
مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرد اور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:
اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، وہ شرائط یہ ہیں:
(1) وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔
(2) دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔
(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔
(4) یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔
(5) یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔
(6) دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔
(7) تحریمہ دونوں کی ایک ہو، یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔
(8) عورت میں نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں، یعنی عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔
(9) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔
(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔
(11) مرد نے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔
(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔
  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں (دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:
(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود .... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد ... (ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة .... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط: رشیدیہ)
 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)
(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ، باب الامامہ،ط: سعید)  فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144008200729دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 
-----------
مفتی تقی عثمانی صاحب کا تحریر کردہ ایک فتوی جس کی تصحیح مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے فرمائی ہے ذیل میں پیش ہے. اس فتوی کے بعد اب لکھنے کو کچھ بچتا نہیں ہے 
اس لئے بعینہ پیش کررہا ہوں 
ملاحظہ فرمائیں:
—————————
محاذات کی دو صورتوں کی تفصیل اور حکم
—————————
مرسلہ فتوی نمبر ۴۵/۳۵۱ محررہ مفتی محمد صابر صاحب مدظلہم بتاریخ ۲۲-۱۲-۱۳۸۷ھ میں، آنجناب نے جواب نمبر ۲ میں تحریری فرمایا ہے کہ اگر بیوی اتفاقیہ میاں کے ساتھ نماز پڑھے اور مرد کے ٹخنے اور پنڈلی سے اپنے یہ اعضاء ذرا پیچھے کرکے کھڑی ہو تو کسی کی نماز فاسد نہ ہوگی یعنی ہوجائے گی، لیکن بہشتی زیور میں یہ لکھا ہے کہ اگر بیوی اپنے میاں کے پیچھے نماز پڑھے تو بالکل پیچھے (ایک صف کے فاصلہ پر) کھڑی ہو ورنہ اس کی نماز نہیں ہوگی اور مرد کی نماز بھی برباد ہوگی۔
سوال: دونوں صورتوں کی الگ الگ کیا نوعیت ہے کہ پہلی صورت میں عورت (ایک مقتدی کی طرح) صرف مرد کے ٹخنے اور پنڈلی سے ذرا پیچھے ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے، اور بہشتی زیور کی رو سے اسے کم از کم ایک صف کا فاصلہ چھوڑکر کھڑا ہونا چاہئے؟
جواب: محاذات کی صحیح تفسیر وہی ہے کہ عورت کا ٹخنہ اور پنڈلی مرد کے کسی عضو کے برابر ہو۔ لہٰذا اگر کوئی عورت مرد سے اتنے پیچھے کھڑی ہو کہ دونوں کے ٹخنے اور پنڈلی بالکل برابر میں نہیں رہتے، خواہ عورت کے پاؤں کا کوئی حصہ مرد کے پاؤں کے کسی حصے کے برابر میں ہو تو اصح قول کی بناء پر نماز فاسد نہیں ہوگی، جس کی صورت یہ ہے .......... عورت مرد
یہ صورت اصح قول کی بناء پر مفسد نہیں ہے، البتہ بعض فقہاء رحمہم اللہ نے ٹخنے اور پنڈلی کی بجائے پورے قدم کی محاذات کا اعتبار کیا ہے، لہٰذا ان کے نزدیک مذکورہ صورت مفسد ہے، اور جواز کی صورت ان کے نزدیک یہ ہے .............. عورت مرد
بہشتی زیور میں احتیاطاً اس آخری قول کو اختیار کر کے بالکل پیچھے کھڑے ہونے کو کہا گیا ہے، جس کا مطلب ایک صف پیچھے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اتنے پیچھے کھڑا ہونا ہے کہ عورت کے قدم کا کوئی حصہ مرد کے قدم کے کسی حصے کے برابر نہ ہو۔
قال الشامی عن الزیلعی: المعتبر فی المحاذات الساق و الکعب فی الاصح، و بعضھم اعتبر القدم اھـ فعلی قول البعض لو تأخرت عن الرجل ببعض القدم تفسد و ان کان ساقھا و کعبھا متاخرا عن ساقہ و کعبہ، و علی الاصح لا تفسد و ان کان بعض قدمھا محاذیا لبعض قدمہ بان کان اصابع قدمھا عند کعبہ مثلاً تامل۔ (ثم قال بعد اسطر) ......... المانع لیس محاذاۃ ای عضو منھا لای عضو منہ، ولا محاذاۃ قدمہ لای عضو منھا بل المانع محاذاۃ قدمھا فقط لای عضو منہ۔ (۱)۔
احتیاط بہرحال بہشتی زیور کے قول پر عمل کرنے میں ہے تاکہ باتفاق نماز درست ہو جائے، لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا بہشتی زیور کے قول پر عمل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت ایک صف پیچھے کھڑی ہو بلکہ اس کا مطلب اتنے پیچھے کھڑا ہونا ہے کہ اس کے قدم کا کوئی حصہ مرد کے کسی عضو کے مقابل میں نہ آئے۔ المرأۃ اذا صلت مع زوجھا فی البیت ان کان قدمھا بحذاء قدم الزوج لا یجوز صلاتھما بالجماعۃ، وان کان قدماھا خلف قدم الزوج الا انھا طویلۃ تقع رأس المرأۃ فی السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتھما لان العبرۃ للقدم۔ (شامي فتاوی شامیہ ۱/۵۷۲  (طبع ایچ ایم سعید) و اللہ اعلم
الجواب صحیح احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ ۲۸-۲-۱۳۸۸ھ
(فتاوی عثمانی یونیکوڈ جلد ۱، صفحہ ۲۹۵)
شکیل منصور القاسمی

دو مقتدیوں کا آپس میں ایک میٹر فاصلہ بناکر نماز پڑھنا؟ ‏

دو مقتدیوں کا آپس میں ایک میٹر فاصلہ بناکر نماز پڑھنا؟ 
از: شکیل منصور القاسمی
دو مقتدیوں کا آپس میں ایک میٹر فاصلہ بناکر نماز پڑھنا؟ 
سائل کا نام: 
محمد توصیف قاسمی

الجواب وباللہ التوفیق:
جماعت کی نماز میں تسویۃ الصفوف اور سدخلل یعنی سیسہ پلائی دیوار کی طرح صف ملانا اور دو آدمیوں کے درمیان فاصلہ نہ چھوڑنا ائمہ ثلاثہ کے یہاں مسنون ہے 
حنابلہ وغیرہ کے یہاں واجب ہے. 
اگر یہ تاکید نہ ہوتی تو پھر جماعت کی نماز کی ہیئت ہی نہ بن پائے گی؛ بلکہ جو جہاں جیسے چاہتا کھڑا ہوجاتا.
مختلف احادیث میں سدخلل کے فضائل اور کشادگی چھوڑنے پر وعید وارد ہوئی ہے 
لیکن یہ ساری تاکید معتدل احوال میں ہے. 
ضرورت، عجز، اور عذر کے وقت نماز کی شرائط اور فرائض وواجبات بھی ساقط ہوجاتے ہیں 
ستر عورت شرط نماز ہے. 
لیکن کپڑا نہ پانے والا اشارے سے ننگا نماز پڑھتا ہے 
جگہ کی تنگی کے باعث اسطوانہ کے درمیان میں بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے. 
امام رکوع میں ہو. 
مسبوق امام کو رکوع میں پالے تو وہ رکعت پانے والا شمار ہوتا ہے؛ حالانکہ اس سے قیام وغیرہ سب چھوٹ گیا ہے 
لیکن ضرورت کے وقت اسے برداشت کیا گیا ہے 
صف کے پیچھے ایک مقتدی ہو تو وہ اکیلا ہی کھڑا ہوگا. 
یہاں عذر ہے اس لئے سدخلل کا حکم اس سے ساقط ہے. 
غرضیکہ “ضرورت، عذر اور عجز“ کے وقت سنت ہی کیا ؟ فرائض وشرائط بھی ساقط ہوجاتے ہیں 
کورونا وائرس کی وجہ سے دو نمازیوں کے درمیان ایک میٹر فاصلہ بنائے رکھنے کا حکم اگر انتظامیہ کی طرف سے آجائے 
تو اب ہم سدخلل پہ قادر نہیں 
بلکہ عاجز شمار ہونگے 
عجز کے وقت فرائض وشرائط کے سقوط کی متعدد نظائر موجود ہیں، کچھ اوپر پیش کئے گئے ہیں 
موجود حالات میں انتظامی حکم سامنے آجانے کے بعد نمازوں میں ایک میٹر فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے 
یہ گنجائش عجز وعذر کے باعث ہے 
جہاں حکومتی طور پہ اس قدر لزوم نہ ہو وہاں یہ گنجائش نہیں 
بلکہ وہاں اتنا معمولی فاصلہ رکھا جائے جس سے جماعت کا تصور باقی رہے 
دور سے دیکھنے میں محسوس ہوکہ یہ سب نماز باجماعت میں شریک ہیں، کسی کھیل اور میچ کے تماشہ بیں نہیں!
شیخ الاسلام مفتی تقی صاحب مدظلہ نے آڈیو پیغام میں جو ایک فٹ فاصلے کی ہدایت دی ہے وہ اپنے ملک کے حالات وانتظامی احکام کے تناظر میں ہے 
ہر ملک کے حالات اور انتظامی جبر وشدت الگ نوعیت کی ہے، ہر جگہ اس آڈیو کی تطبیق درست نہیں 
واللہ اعلم 

Sunday 26 April 2020

علما کا اللہ سے سرکش حکمرانوں سے میل جول

علما کا اللہ سے سرکش حکمرانوں سے میل جول
(احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں)
قرب قیامت علما کا اللہ کے باغی اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خاموش رہنا اور ان سے میل جول رکھنا:
علمائے دین انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عطاکردہ شریعت کے امین، علومِ دینیہ کے محافظ، اہل اسلام کے ہادی ورہنما اور امتِ مسلمہ کے سروں کے تاج ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کی روایت کردہ صحیح حدیث کے مطابق عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے کسی ادنیٰ صحابی پر حاصل ہے، اور آپ ؒ کی روایت کردہ ایک اور صحیح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ دوسروں کو علمِ دین سکھانے والے پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، آسمانوں والے، زمین والے، یہاں تک کہ بلوں میں موجود چیونٹیاں اور پانی میں پائی جانے والی مچھلیاں …سب اس کے لیے دعا کرتے ہیں ۔علمائے کرام کے ان عظیم الشان فضائل سے احادیث نبویہ کا ذخیرہ بھرا پڑا ہے، لیکن کوئی بھی عالم ان فضائل کا مستحق اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ ’’حق گوئی‘‘ کا فریضہ ادا کرتا رہے، احکاماتِ الٰہی کھول کھول کر بیان کرے اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کھائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مساجد کی آبادکاری پر مامور افراد کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے سورۃ التوبہ میں فرمایا ہے کہ:
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلاَّ اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰۤئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (التوبۃ: ۱۸)
’’اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو بس انہی لوگوں کا کام ہے جوا للہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نماز کی پابندی کرتے ہوں، زکوٰۃ ادکرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔ توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
جس عالم میں یہ صفات نہ پائی جاتی ہوں ،جو اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتا ہوں ،جسے دنیاوی لالچ دے کر خریدا جاسکے، جو احکاماتِ الٰہی کو پوری صراحت سے بیان کرنے کی  بجائے ’’حکمت و مصلحت‘‘ کے نام پر انہیں چھپائے، یا اس سے بھی آگے بڑھ کر احکاماتِ شریعت کو اپنی یا حکمرانِ وقت کی خواہشات کے مطابق مسخ کردے، وہ یقیناًدرج بالا فضائل میں سے کسی کا بھی مستحق نہیں۔ ایسے ’’علمائے سوء‘‘ کے بارے میں تو کتاب اللہ یہ دل دہلانے والی وعید سناتی ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَۤا اَنْزَلَ اﷲُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًااُوْلٰۤئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیٰامَۃِ وَلَایُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌoاُولٰۤئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ فَمَآ اَصْبَرَہُمْ عَلَی النَّارِ (البقرۃ:۱۷۳۔۱۷۵)
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور ا س کے معاوضے میں متاعِ قلیل وصول کرتے ہیں، کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پیٹ آگ سے بھررہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ ان سے بات بھی نہیں کرے گا ،نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑکر گمراہی اختیار کی اور مغفرت چھوڑ کر عذاب کو چن لیا ،سو کتنے باہمت ہیں آگ کا عذاب سہنے کے لیے‘‘۔
آخری زمانے میں علمائے سوء کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی کئی لرزا دینے والی پیشین گوئیاں کی ہیں ،جنہیں پڑھ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔امام ترمذی ؒ ’’نوادر الاصول‘‘میں حضرت ابو امام رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکون فی امتی فزعۃ فیصر الناس الی علمائھم فاذا ھم قردۃ وخنازیر
’’میری امت میں ایک وحشت ناک واقعہ ہوگا، پس جب لوگ (گھبراکر) اپنے علما کی طرف پلٹیں گے تو دیکھے گے کہ وہ بندر اور خنزیر (بن چکے) ہوں گے‘‘۔
تفسیر ’’الدرالمنثور فی التاویل بالماثور‘‘ میں ابن ابی الدنیا ؒ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ مالک بن دینار ؒ نے فرمایا:
بلغنی ان ریحاً تکون فی آخرالزمان وظلمۃ فیفزع الناس الی علمائھم فیجدونھم قد مسخوا
’’مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ آخری زمانے میں ایک ہوا چلے گی اور اندھیرا چھا جائے گا ۔پس جب لو گ گھبرا کراپنے علما کےپاس پہنچے گے تو انہیں مسخ شدہ حالت میں پائیں گے‘‘۔
نیز بعض احادیث مبارکہ میں بعد کے زمانوں کے ان علما کا بھی تذکرہ ہے جو اس امت کو جہاد فی سبیل اللہ سے روکیں گے اور کہیں گے کہ جہاد کا دور گذرچکا، اب تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، تہذیب و تمدن کا دور ہے،جدید ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ ایسے میں قتل و قتال کی بات کرنا، گردنیں مارنے اور پور پور پر ضرب لگانے کا تذکرہ چھیڑنا، غنیمت چھیننے اور ذمی بنانے کے عزائم رکھنا، قیدی پکڑنے اور غلام و لونڈیاں بنانے کے احکامات یاد دلانا کیونکر مناسب ہوسکتا ہے؟چنانچہ امام ابن حماد ؒ اپنی کتاب السنن الوردۃ فی الفتن میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا۔ اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کےعلما یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا ۔ 
صحابہ ؓ نے پوچھا: 
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے؟ 
آپ نے فرمایا:
’’ہاں وہ جس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو!‘‘۔
جب کہ کنز العمال کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
اولئک ہم وقود النار
یہی لو گ جہنم کا ایندھن ہوں گے‘‘۔
پس جس طرح شریعت مطہرہ میں ’’علمائے حق‘‘ سے متعلق غیرمعمولی فضائل وارد ہوئے ہیں، اسی طرح ’’علمائے سوء‘‘ کے بارے میں انتہائی غیرمعمولی وعیدیں بھی ذکر کی گئی ہیں۔علما کے راہِ حق سے پھسلنے اور علمائے حق کے زمرے سے نکل کر علمائے سوء کی فہرست میں داخل ہونے کا اہم ترین سبب ’’حکمرانوں سے قربت ‘‘ ہے۔ جب بھی کوئی عالم حکمران طبقے سے میل جول رکھتا ہے، حاکم اور اس کے وزراء و نائبین کی مجلسوں میں بیٹھتا ہے، ان کے دستر خوانوں پر شریک طعام ہوتا ہے ،خود چل کر ان کے دروازوں پر جاتا ہے، سرکاری تقریبات و کانفرنسوں میں شامل ہونے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے، سرکاری نوکریوں اور اعلیٰ حکومتی مناصب کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے، خود دعوت دے دے کر حکام کواپنے مدارس و مساجد میں بلاتا ہے، تو وہ ضروربالضرور حق گوئی کی صفت سے محروم ہوجاتا ہے ،اس کی زبان پر تالے پڑجاتے ہیں، اس کے قلب میں حبِ مال اور حبِ جاہ جیسے مہلک امراض نہایت خاموشی سے جگہ بنالیتے ہیں اور جلد وہ اس حقیر دنیا کے عوض اللہ کی آیات بیچنے کا مکروہ کاروبار شروع کردیتا ہے۔
حکمرانوں سے قربت کی اس خطرناکی کے پیشِ نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہت سی مختلف احادیث میں علمائے دین کو بالخصوص جبکہ تمام مسلمانوں کو بالعموم انتہائی سختی سے حکمرانوں کی قربت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔زیرِ نظر تحریر میں اس موضوع سے متعلقہ احادیث، اقوال صحابہ رضی اللہ عنہ اور سیرتِ اسلاف کی بہت سی مثالیں جمع کردی گئی ہیں۔ گو کہ اس تحریر کے مخاطب تمام ہی مسلمان ہیں لیکن ہم اسے بالخصوص علمائے دین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان میں سے جو وارثینِ نبوت حق پر قائم ہیں ان کے قدم مزید جم جائیں اور جو راہِ حق سے ہٹ چکے ہیں اوردنیاوی مصلحتوں کا شکار ہوچکے ہیں، وہ اپنی حق سے دوری کا سبب جان لیں اور قہرِ الٰہی کے خوف سے ،اور جنت کی طلب میں واپس صراطِ مستقیم پر لوٹنے کا فیصلہ کرلیں، خواہ انہیں اس کی کتنی ہی بھاری قیمت چکانا پڑے۔ بلا شبہ موت کے آخری غرغرے تک اور سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک توبہ کے دروازے کھلے ہیں!
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ظالم حکمرانوں سامنے ’’کلمہ حق‘‘ کہنے والے علما کے درجات بلند فرمائے! اس جرم کی پاداش میں شہید کیے جانے والے علما کو شرفِ قبولیت بخشے! اسی جرم میں قید کیے جانے والے علما کو ثابت قدمی اور جلد رہائی عطافرمائے! علمائے دین کو آگے بڑھ کر کافروں اور ان کے آلہ کا ر وں کے خلاف جاری جہاد کی قیادت سنبھالنے کی توفیق دے!
اس امت کو امام ابو حنیفہ ؒ، امام مالک ؒ، امام احمد بن حنبل ؒ ، امام ابن تیمیہ ؒ ، شاہ عبد العزیزدہلویؒ، شاہ اسماعیل شہید ؒ، مولانا نانوتوی ؒ ، شیخ الہند مولانا محمودالحسن ؒ ، مفتی رشیداحمد لدھیانویؒ، مولانا حکیم محمد اخترؒ، شیخ عبد اللہ عزام ؒ، مفتی نظام الدین شامزئی ؒ، مولانا محمد امین اورکزئی، شیخ ولی اللہ کا بلگرامیؒ، شیخ نصیب خان، مولانا محمد عبداللہؒ، اور مولانا عبدالرشید غازی ؒ جیسے باہمت علما پھر سے عطا فرمائے!
حکمرانوں کے قربت میں بیٹھے ہوئے یا اُ ن کے اشاروں پر فتویٰ فروشی کرنے والے اور جہاد کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے علما کو اپنے مؤ قف سے رجوع کرنے اور حق کی طرف لوٹنے کی توفیق دے ! انہیں حق دکھلائے اور اس کی حمایت میں ڈٹ جانے کی توفیق دے اور ان کے قلوب کو علم وعمل کی روشنی سے منور فرمادے! آمین ۔
اے وارثین انبیاء! حکمرانوں کی قربت سے بچو!
امام دیلمی ؒ حضرت ابو الاعور رضی اللہ عنہ سے اورامام بیہقی ؒقبیلہ بنی سُلیم کے ایک فرد سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
ایا کم وابواب السلطان
’’خبردار! حاکم کے دروازوں پر نہ جانا‘‘۔
امام بیہقی ؒ نے ہی روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اتقوا ابواب السلطان
’’حاکم کے دروازوں پر جانے سے بچو‘‘۔
امام ہناد بن سری ؒ نے الزھد میں حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کے حاکم سے قرب میں اضافہ ہوگا، اس کی اللہ سے دوری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا‘‘۔
امام دیلمیؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص صاحبِ اقتدار کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے دونوں بازؤں کے پھیلاؤ کے برابر دور ہوجاتے ہیں‘‘۔
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ''مسند'' میں اور امام دیلمی ؒ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’حاکم کے دروازوں سے اور ان کے دربانوں سے بچو، کیونکہ جو ان (دروازوں) سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور ہوتا ہے، اور جو کوئی کسی حاکم کو اللہ پر ترجیح دیتا ہے تو اللہ اس کے دل میں ظاہری و باطنی فتنہ ڈال دیتے ہیں، اس سے تقویٰ چھین لیتے ہیں اور اس کو حیران و پریشان چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’خبردار! حکمران کے پاس نہ بیٹھنا، اس لئے کہ اس (کے پاس بیٹھنے) سے (تم اپنا) دین کھو بیٹھوگے۔ اور خبردار! اس کی اعانت نہ کرنا، اس لئے کہ اس کے حکم سے خوش نہ ہوگے‘‘۔
اما م بخاری ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں اور امام ابن سعد نے ’’طبقات‘‘ میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’آدمی حکمران کے پاس اپنے دین کے ہمراہ جاتا ہے لیکن جب نکلتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام نسائی ؒ، امام بیہقی اور امام ترمذی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
من سکن البادیۃ جفا،ومن اتبع الصید غفل، ومن اتی ابواب السلاطین افتن
’’جو شخص جنگل میں رہے گا اس کا دل سخت ہوجائے گا،اور جو شکار کے پیچھے بھاگے گا وہ (دین کے کاموں سے) غافل ہوجائے گا ،اور جو حکمرانوں کے دروازوں پر حاضر ہوگا وہ فتنے میں مبتلا  ہوجائے گا''۔ (امام ترمذیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام بیہقی ؒ اورامام احمد بن حنبل ؒکی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کردہ حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں :
وما ازداد عبد من السلطان دنوا الاازداد من اللّٰہ بعدا
’’اور جتنا کوئی شخص حاکم کا قرب اختیار کرے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا‘‘۔
امام حاکم ؒ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’میرے بعد بادشاہ آئیں گے، فتنے ان کے دروازوں پریوں (ڈیرے جمائے) ہوں گے جیسے اونٹوں کی قیام گاہ پر (اونٹ بیٹھے) ہوتے ہیں۔ وہ جسے بھی (دنیا کے سامان میں سے) کچھ دیں گے، اسی کے برابر اس کے دین میں سے بھی لے لیں گے‘‘۔
امام احمد بن حنبل ؒ، امام بزار ؒ اور امام ابن حبان ؒ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آئندہ کچھ امراآئیں گے ،پس جو شخص ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: 
’اور ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم (کے کاموں) میں ان کی مدد کی تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ،اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ہرگز حوض (کوثر) پر نہیں آئے گا (اس کے برعکس) اور جو شخص نہ ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ’اورنہ ہی ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) نہ ان کے ظلم میں ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کے جھوٹ کی تصدیق کی تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوض پر آنے والا ہے‘‘۔
امام ابو عمرو الدانی ؒنے کتاب الفتن میں حسن سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’یہ امت اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں اور اس کے سایہئ رحمت میں رہے گی جب تک کہ اس کے قاری (یعنی علما) اس کے امراسے نہ لپٹیں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
یکون فی آخر الزمان علماء یرغبون الناس ولا یرغبون ،ویزھدون الناس فی الدنیا ولایزھدون،وینھون عن غشیان الامراء ولا ینتھون
’’آخری زمانے میں ایسے علما ہوں گے جو لوگوں کو آخرت کی طرف راغب کریں گے اور خود راغب نہ ہوں گے ،لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دیں گے اور خود بے رغبت نہ ہوں گے ،اور امراء (حکام ) سے میل ملاپ رکھنے سے منع کریں گے اور خود اس سے باز نہ آئیں گے‘‘۔
حافظ ابو فتیان دہستانی ؒنے اپنی کتاب ’’التحذیر من علماء السوء‘‘میں ،امام رافعی ؒ نے تاریخِ قزوین  میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
ان ابغض (وفی روایۃ اھون) الخلق الی اللّٰہ تعالیٰ العالم یزور العمال
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین (ایک اور روایت کے مطابق’حقیر ترین‘) مخلوق وہ عالم ہے جو حکومتی اہلکاروں سے میل جول رکھتا ہے‘‘۔
امام ابن عدی ؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض الخلق الی اللّٰہ عالم السلطان
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین مخلوق حاکم کا (درباری ) عالم ہے‘‘۔
امام دیلمیؒ ''مسند الفردوس '' میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
اذا رأیت العالم یخالط السلطان مخالطۃ کثیرۃ فاعلم انہ لص
’’اگر تم کسی عالم کو حاکم سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھتے دیکھو، توجان لو کہ وہ چور ہے‘‘۔
حکیم ترمذی ؒ نے نوادر الاصول میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایا ں تھے ،انہوں نے میری داڑھی پکڑ کر کہا:
’’انا للہ وانا الیہ راجعون! کچھ دیر پہلے میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کی امت آپ کےبعد کچھ زیادہ نہیں ،بس تھوڑی ہی مدت میں فتنے میں مبتلاء ہوجائے گی ۔میں نے پوچھا : وہ کس وجہ سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے علمااورامراکی وجہ سے ۔ امراعام لوگوں کے حقوق روکے رکھیں گے ، اور (لوگوں کوان کے حقوق) نہیں دیں گے، اورعلما‘ امراکی خواہشات کے پیچھے چلیں گے‘‘۔
امام ابن ماجہ ؒ  ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امرا (حکام) کےہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ،جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا، اسی طرح ان امراکی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
امام ابن عساکر ؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا ۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اوران سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لو گ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کردے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا! جبکہ ایسا ہونہیں سکتا، کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے’الثواب‘میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص قرآن پڑھ لے اور دین میں تفقہ حاصل کرلے، اور پھر حاکم کے دَر پر اس کی خوشامد کرنے اور اس کی دولت (بٹورنے) کی لالچ میں جائے تو وہ (اس راہ میں) جتنے قدم اٹھائے گا، اتنا ہی جہنم میں گھستا چلا جائے گا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے ہی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے قرآن پڑھا اور دین کی سمجھ بوجھ حاصل کی، اور پھر صاحب اقتدار کے پاس اس کے مال و دولت کی لالچ میں گیا تو اللہ اس کےدل پر مہر لگادیں گے، اور (آخرت میں) اسے ہر روز دو(٢) ایسے عذاب دیئے جائیں گے جو اس سے پہلے اسے نہ دیئے گئے ہوں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا، اس کی خوشامد کرنے کے لئے اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلا جائے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے۔ اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم) پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی، اور جیساعذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا‘‘۔
اما م ابوداؤد ؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو نقص پیدا ہواتھا وہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے ملاقات کرتا تھا تو یہ کہتا تھاکہ: اے فلاں! اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور جو تم کررہے ہواس کو چھوڑ دو، اس لیے کہ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس کی اسی شخص سے اگلے روز دوبارہ ملاقات ہوتی تھی اور وہ اپنے سابق حال پر قائم ہوتا تھا۔لیکن یہ چیز مانع نہیں ہوتی تھی اُس (پہلے شخص) کےراستے میں کہ وہ اس کا ہم پیالہ اور ہم نشین بنے۔ جب انہوں نے یہ روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو آپس میں مشابہ کردیا۔ (پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورۃ المائدۃ کی یہ آیات تلاوت کیں) 
(لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْمبَنِیْۤ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاو،دَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ….وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ) [المائدۃ: ۷۸تا۸۱]
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبان سےلعنت کی گئی ۔یہ اس لیے ہواکہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور (حدودالٰہی سے) تجاوز کرتے تھے۔ اور(ان کا اصل جرم یہ تھا کہ) وہ ایک دوسرے کو شدت کے ساتھ منع نہیں کرتے تھے ان برائیوں سے جو وہ کرتے تھے ۔بہت ہی بُرا طرزِعمل ہے جس پر وہ کاربند تھے۔ تم دیکھو گے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کوکہ وہ دوستی رکھتے ہیں کافروں سے ۔کیا ہی بُرا سامان انہوں نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے کہ اللہ کا غضب ہوا ان پر اور عذاب میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ (واقعتاً) ایمان رکھتے ہوئے اللہ پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شے پر جو اُس پر نازل کی گئی تو وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثرنافرمان ہیں‘‘۔ (ان آیات کی تلاوت کے بعد) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تمہیں لازما ً نیکی کا حکم دینا ہوگا، اور لازماً بدی سے روکنا ہوگا، اور تمہیں لازماً ظالم کا ہاتھ کو قوت سے پکڑلینا ہوگا، اور تمہیں اس کو لازماً حق کی طرف جبراً موڑنا ہوگا، اور اسے حق کے اُوپر قائم رکھنا ہوگا۔ یا پھر اللہ تمہارے دل بھی ایک دوسرے کے مشابہ کردے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان (یہود) پر لعنت کی‘‘۔
امام حاکمؒ نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا(اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیے جانے والے ہرقسم کےعذاب میں شریک ہوگا‘‘۔
امام ترمذیؒ نے ’جامع ترمذی ‘میں حسن روایت میں  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
’’جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علما نے انہیں روکا، لیکن وہ با زنہ آئے (لیکن اس کے باوجود ان علما نے) ان نافرمانوں کی ہم نشینی اور ان کے ساتھ باہم کھانا پینا جاری رکھا، تو (اس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بھی باہم مشابہ کردیا اور ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبانی لعنت فرمائی، یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی روش اختیاراور وہ حد سے تجاوز کرتے رہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اُٹھ کربیٹھ گئے جبکہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ٹیک لگائے ہوئے تھے، اور فرمایا:
ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک تم انہیں زبردستی حق کی طرف نہ موڑ دو!‘‘
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ’مسند‘میں ، امام حاکم ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں ،نیز امام ابو نعیم ؒ،امام عقیلی ؒ اور امام دیلمی ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطوالسلطان ،فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل فاحذروھم، واعتزلوھم
’’علما‘ اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے) امین ہوتے ہیں ،جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں ۔پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی۔ تو (جو علماایساکریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
امام عسکری ؒ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فقہا‘ رسولوں کے (ورثے کے) امین ہیں جب تک کہ وہ (دنیا کی آلائشوں) میں نہ گھسیں اور حاکم کے پیچھے پیچھے نہ چلیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان سے بچو‘‘۔
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس امت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا توا س کی امت میں اس کے حواری اور اصحاب ہوتے تھے ۔وہ اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے اور نبی علیہ السلام کا جوبھی حکم ہوتا تھا اس کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ان کے ایسےجانشین (وارثین) آتے تھے جو نالائق اور ناخلف ہوتے تھے۔ یقولون مالا یفعلون ’’وہ کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں‘‘ اور یفعلون مالا یؤمرون ’’کرتے وہ تھے جس کا ان کوحکم نہیں تھا‘‘۔ جو کوئی ان سے جہاد کرے گا ہاتھ سے پس وہ مومن ہے، اور جو کوئی ان سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے پس وہ مومن ہے، اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنے دل سے پس وہ مومن ہے اور(جو کوئی یہ بھی نہ کرے تو وہ جان لے کہ) اس کے بعد تو ایما ن رائی کے دانے کے برابربھی نہیں ہے‘‘۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت کے علما کا حاکم وقت سے میل جو بڑھانا، اس کے درباروں کے چکر لگانا، ان کے زریعے سے دنیا کے فوائد حاصل کرنا اور اس کے باوجود یہ سمجھنا کہ ہمارے دین اور ایمان محفوظ رہے گا، ان کے ساتھ ان کی مجلسوں شرکت کرنا اور عوام الناس کو ان کی اطاعت و فرماں برداری کے درس دیناجبکہ اُن میں ظلم و ستم ،اللہ اور اس کی عطاکردہ شریعت کے خلاف احکامات کا اجراہو۔ایسا طرزعمل اللہ کے بہت بڑے غیض وغضب کو دعوت دینے والا اور جہنم کا راستہ آسان کرنے والی بات ہے۔ چناچہ ان ہی وجوہات کی بناپر حاکم وقت کی قربت اور ان کی مجالس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ سوائے ایک فریضہ کی ادائیگی کے، عالم دین کو حاکم وقت کے دربار میں جانے کی اجازت ہے۔ وہ ہے ’کلمہ حق‘ اپنی جان، مال، عہدہ، مسندوں کے چھن جانے کے خوف کے باوجود۔ امام ابن ماجہ ؒ اور امام ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افضل الجھاد کلمۃ عدل/کلمۃ حق عند سلطان جائر
’’افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ عدل /کلمہ ٔ حق کہنا ہے‘‘۔
ظاہر سی بات ہے جو یہ فریضہ انجام دے گا اس کامال و جان دونوں خطرے میں ڈالے گا چناچہ امام حاکم ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
سیدا لشھداء حمزہ بن عبد المطلب ،ورجل قال الی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ
’’شہداکے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ ہیں اور دوسرا وہ شخص جس نے ظالم حکمران کو اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اوراس (حاکم) نےاس شخص کو قتل کردیا‘‘۔
اہل علم حضرات کو چاہئے کہ وہ اس اہم ایمانی معاملے کے حوالے سے اپنے طرزِعمل کا محاسبہ کرتے رہیں، تاکہ اللہ کی طرف سے کسی محاسبہ میں شرمندگی اور عذاب سے بچ سکیں۔ امام ابن ماجہ ؒ اور امام بیہقی ؒ نے روایت نقل کی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اگر اہل علم ،علم کی قدر کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرتے تو وہ اپنے اہل زمانہ کے امام بن جاتے ،لیکن انہوں نےاسے اہلِ دنیا پر خرچ کیا تاکہ اس سے اپنی دنیا بنائیں تو وہ ان کی نظروں میں بھی گر گئے۔میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوفرماتے سنا ہے کہ:
’’جس نے آخرت کے غم کو ہی اپنا واحد غم بنا لیا ، اللہ اس کے لیے اس کے دنیاوی غموں میں کافی ہوجائیں گے،اورجس کو طرح طرح کی دنیاوی فکروں نے الجھادیا تو اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کریں گے کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوتاہے ‘‘۔
امام عبد اللہ بن مبارک ؒ فرمایا:
؎وماافسد الدین الاالملوک
واحبارُسوء ورھبانُھا
’’دین میں جو بھی خرابی بھی آتی ہے وہ تین اطراف سے آتی ہے، بادشاہوں کی طرف سے، علمائے سوء یعنی بُرے علما کی طرف سے اور بُرے صوفیوں کی طرف سے‘‘۔


محمد بن عبدالوہاب نجدی؛ شخصیت ونظریات

محمد بن عبدالوہاب نجدی؛ شخصیت ونظریات
-------------------------------
--------------------------------
آپ کا نام محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد التمیمی ہے۔ سنہ 1115 ھجری موافق 1703 عیسوی کو ریاض سے جانب مشرق قریب 70 کیلو میٹر دور اور نجد کی جنوبی جانب وادی حنیفہ کے مقام "عیینہ" میں آپ پیدا ہوئے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ملاعلی قاری علامہ عینی اور کرمانی کی صراحت کے مطابق مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کے علاقہ کو "حجاز" اور باقی عرب کے سارے علاقے کو بشمول عراق، بغداد، بصرہ اور کوفہ "نجد" کہتے ہیں۔ (عمدہ القاری وفتح الباری حدیث نمبر 7095) نجد اپنے وسیع تر معنی میں ماورائے حجاز کو شامل ہے۔ چونکہ انہی علاقوں (کوفہ۔ کربلاء وغیرہ) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ اہل بیت رسول کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ یہیں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی۔ اور فتنہ خوارج کی آماجگاہ بھی یہی علاقے رہے ،یہاں شروفساد کا غلبہ رہا۔ اسی غلبہ شر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا:
هنالك الزلازل والفتن.وبها يطلع قرن الشيطان ۔۔
اس جگہ زلزلے آئیں گے۔ اور فتنے نمودار ہوں گے۔ اور وہیں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ (بخاری حدیث نمبر 7095 )۔
ظاہر ہے حدیث میں نجد سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کا محمل صرف صوبہ نجد نہیں بلکہ ماورائے حجاز سارا علاقہ ہے۔ علامہ داودی نے تو لغوی معنی مراد لیتے ہوئے ہر اونچی جگہ کو اس کا مصرف قرار دیا ہے۔ (لغوی اعتبار سے اونچی جگہ کو نجد اور نشیبی کو تہامہ کہاجاتا ہے )۔۔۔ حدیث مذکور کی وجہ سے علاقہ نجد کے ہر فرد پر کفر وفسق کو ثابت کرنا کم عقلی کے علاوہ
"لا تزر وازرة وزر أخري"
کے قرآنی اصول عدل کے بھی خلاف ہے۔ شیخ نجدی بچپن ہی سے بیحد ذہین و صحتمند تھے۔ دس برس کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کرلیے۔ بارہ سال کی عمر میں بلوغت کو بھی پہنچ گئے۔ اسی سال رشتہ ازدواج سے بھی منسلک ہوگئے۔پہر حج کا سفر ہوا۔ مدینہ پاک کی زیارت فرماکروطن واپس آئے۔ اور اپنے والد ماجد (مشہور حنبلی عالم دین اور ممتاز فقیہ تھے) سے فقہ حنبلی کی تعلیم شروع کردی ۔۔ مزید حصول علم کے لئے مدینہ منورہ کا سفر فرمایا، وہاں آپ کی ملاقات دو ایسے استاذوں سے ہوئی جو علامہ ابن تیمیہ کے افکار سے متاثر تھے۔ اور انہوں نے ابن تیمیہ کے افکار وخیالات کو شیخ نجدی میں کوٹ کوٹ کے بھردیا۔ اور یہی دو شخصیت شیخ نجدی کی زندگی کا رخ بدلنے میں موثر ثابت ہوئی ۔۔۔ ان میں سے ایک بااثر عالم شیخ عبداللہ بن ابراہیم بن سیف تھے۔دوسرے ہندوستانی استاذ شیخ حیات سندھی تھے ۔۔ ان دونوں اساتذہ کی تعلیم وتربیت نے شیخ نجدی کے ذہن وفکر میں ابن تیمیہ کے افکار پورے شدت کے ساتھ بھر دیئے۔ تاریخی اعتبار سے اس حقیقت سے انکار کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ نجد کے رہائشیوں میں بدعات وغیر رسمی عادات در آئی تھیں۔ فاسد عقائد اور بدعات دلوں میں جڑ پکڑ نے لگے تھے۔ توہم پرستی عام ہوگئی۔ قبروں درختوں اور چٹانوں سے دعائیں کی جارہی تھیں۔ کاہنوں اور نجومیوں سے مشورہ لینے کے ساتھ نیک فالی اور بدفالی کے لئے پرندوں کو اڑاتے تھے۔ ترک حکمرانوں کی عیش کوشیوں کی وجہ سے مذہبی اقدار قدموں تلے روندے جارہے تھے ۔۔۔۔ انہی بدعات وخرافات کے انسداد کے لئے "توحید و احیاء سنت" کا نعرہ لے کر شیخ میدان عمل میں کود پڑے۔ترک حکمرانوں کو آپ کی تحریک سے نفرت تھی۔ بدعات وخرافات پہ سخت نکیرکی وجہ سے اپنے اور پرائے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور شہر درشہر خارج بھی ہونا پڑا۔ آخرالامر "درعیہ" کے سردار محمد بن سعود کے یہاں آپ کو پناہ ملی۔ سردار کو اپنا گرویدہ بنایا اور انہیں اپنی تحریک "توحید واحیاء سنت" کا قائل کرلئے۔ اور پھر اپنے معتقدین سے مل کر ایک مختصر سی عرب جماعت کی بنیاد رکھی۔ مختلف ادوار میں "وھابی" "موحدین" "اخوان" "حنابلہ" "سلفی" جیسے مختلف ناموں سے مشہور ہوئی ۔۔ اس تحریک نے ترک حکمرانوں کی غلط کاریوں، عیش کوشیوں اور ذلیل شہوت پرستی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ لوگ جوق درجوق تحریک میں شامل ہوتے گئے۔ چھوتے چھوٹے عرب شیوخ جو باہم دست وگریباں تھے۔ وہ بھی اس تحریک سے وابستہ ہوتے گئے۔ اس طرح شیخ نجدی کا جتھا بڑھتا ہی چلا گیا۔ ان شیوخ اور دیگر معتقدین کی مدد سےچھوٹے چھوٹے علاقوں کو فتح کرتے چلے گئے۔اور نجد کا بہت سا حصہ فتح ہوگیا۔ فتح شدہ علاقوں میں آپ اپنے نائب مقررکرتے گئے۔ اور پوری شدت کے ساتھ بزور شمشیر اپنے عقائد ونظریات منواتے رہے۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک "وھابیت" سے زیادہ مشہور ہوگئی۔ 1792ء میں شیخ کا انتقال ہوگیا (تفصیل آگے آئیگی)۔ وہ اپنی تمامتر فتوحات کو ایک قابل جانشیں کے سپرد کرگئے۔ 1791 ء میں مصلحین نے شریف مکہ سے ایک کامیاب جنگ لڑی۔ 1796ء میں انہوں نے بغداد کے بادشاہ کو بہت خونریزی کے ساتھ پسپا کردیا۔ 1801ء میں ابن سعود نے کربلاء پر چڑھائی کی جس سے تاریخی آثار وبقیات کی پامالی کے ساتھ بیشمار لوگوں کی جانیں گئیں۔ 1803ء میں مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرکے قبضہ کرلیا۔ جس نے بھی ان کے طریقہ کو ماننے سے انکار کردیا اس کو بے دریغ قتل کردیا گیا۔ 1804 ء میں مدینہ منورہ پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا۔ لوٹ مار کا بازار بھی گرم رہا۔ متعدد صحابہ اور بزرگوں کی خانقاہوں کی بے حرمتی کی گئی۔ حتی کہ مسجد نبوی تک محفوظ نہ رہ سکی۔ 1811ء تک حرمین طیبین ان کے قبضہ میں رہے ۔۔ محمد علی پاشا والی مصر نے 1812ء میں ان کو تباہ وبرباد کرکے مدینہ پر اور 1813ء میں مکہ پر قبضہ کرکے نجد کے دارالسلطنت دراعیہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ اور یوں نجدی سلطنت جس معجزانہ طریقہ سے وجود میں آئی تھی اسی معجزانہ طریقہ سے کچھ مدت کے لئے ریت کے صحرائی ٹیلوں کی طرح غائب ہوگئی۔ جب اس تحریک وھابیت کو شکست ہوئی تو اسی وقت کی بات ہے کہ ہندوستان میں شاہ عبدالعزیز کی سرکردگی میں انگریزوں کے خلاف جہاد عروج پہ تھا۔ سید احمد اور شاہ اسماعیل اسی جہاد میں شہید ہوچکے تھے۔ ظلم وعدوان کے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرلینے کے باوجود بھی انگریزوں کے لئے ان مجاہدوں کو شکست دینا مشکل تھا۔ تو انگریزوں کو بہت دور کی سوجھی اور ہندوستان ہی کے بعض ضمیر فروش علماء سے یہ فتوی حاصل کیا کہ یہ (شاہ اسماعیل شہید اور ان کے جانباز مجاہدین) وہی لوگ ہیں جو عرب میں پٹ چکے ہیں۔ اور یہ لوگ "وہابی" ہیں۔ ان حضرات کی کتابوں سے عبارتیں کانٹ چھانٹ کر غلط عنوانات سے مسلمانوں میں پھیلائیں تاکہ عامہ المسلمین ان علماء سے متنفر ہوجائیں۔ اور لوگ سید احمد شہید کی تحریک سے ہاتھ جھاڑ لیں۔ اس لئے لفظ "وہابی" کا لقب سب سے پہلے انگریزوں نے تجویز کیا تھا اور ان کے وفادار بدعتی علماء نے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا اور آج تک کررہے ہیں۔ 1820ء میں خاندان سعود نے پھر سر اٹھایا۔ درعیہ کے کھنڈروں کے نزدیک ایک نئے دارالسلطنت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اور اس شہر کا نام "ریاض" رکھ دیا گیا۔ پھر اس مملکت کو اگرچہ عروج حاصل ہوا لیکن 32 سال ہی گذر پائے تھے کہ خاندانی تنازعات کے سبب یہ سلطنت پھر ملیا میٹ ہوگئی۔ اور خاندان ابن رشید جو جبل شمار سے تعلق رکھتا تھا غالب آگیا۔ لیکن آخر اسے بھی روز بد دیکھنا پڑا ۔۔ 1901ء میں ابن سعود کے خاندان کے امیر نجد نے ابن رشید کے مقرر کردہ عامل کو قتل کرڈالا۔اور ابن سعود کا جھنڈا نصب کردیا۔ اپنے آبائی سلطنت کے بہت سے حصے پر قبضہ کرلیا۔ "الاحساء" میں سے ترکوں کو نکال دیا۔ مشرق میں بحرین کی بندرگاہوں تک اور شمال میں کویت کی سرحد تک جاپہنچا۔۔ 1925ء کو ابن سعود نے جدہ اور حجاز پر مکمل قبضہ کرلیا اور اپنے مقبوضہ جات علاقے کا نام "مملکت نجد وحجاز" رکھا ۔۔ 1925ء کے بعد ہندوستان کی خلافت کمیٹی (جس کے روح رواں رئیس الاحرار مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی تھے) کے ارکان ابن سعود سے بلاد اسلامیہ کے متحدہ علماء کے مشورے سے "ملوکیت" کی بجائے "خلافت" کے قیام کے لئے مذاکرات کرتی رہی۔ اور حجاز مقدس میں مسلک حق کے مطابق آثار ومشاھد کی حفاظت کا مطالبہ بھی کرتی رہی۔ اور اس سلسلہ میں خلافت کمیٹی کا ایک سات نفری وفد بھی ابن سعود سے ان امور پہ راست بات کے لئے پہنچ چکا تھا ۔۔ مکاتبت ومراسلات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ابن سعود خلافت کمیٹی کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی بھی کرتے رہے۔پر اس پہ عمل نہ ہوسکا ۔۔ 22 ستمبر 1922ء کو ابن سعود نے اپنے مطلق العنان بادشاہ (ملک) ہونے کا اعلان کردیا۔ اور "مملکت نجد وحجاز" کا نام "مملکت سعودی عربیہ" رکھ دیا گیا ۔۔ 1933ء میں امریکن اسٹنڈرڈ کمپنی نے 60 سالوں کے لئے سعودی عرب میں تیل کی دریافت کا ٹھیکہ لیا اور دیگر اور کمپنیوں کے اشتراک وتعاون سے امریکی کمپنی نے 1938ء میں پہلی مرتبہ سعودی عرب کے کنویں سے تیل نکالا ۔۔ 1945ء میں تجارتی سطح پر سعودی عرب کے تیل کی پیداوار شروع ہوگئی۔ اور امریکہ سعودی تیل درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست تھا۔ 9 نومبر 1953ء میں ابن سعود کا انتقال ہوگیا اور ان کے بڑے بیٹے شاہ سعود مملکت کے حکمراں بن گئے۔ شاہ سعود کے زمانہ میں مملکت کی معیشت تباہ ہوگئی۔ ملکی خزانہ برباد ہوگیا۔ مملکت میں عجیب بحران پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ پورے ملک کے علماء، آل سعود کے بزرگوں اور مفتئ اعظم کی مشاورت سے متفقہ طور پر شاہ سعود کو معزول کرکے شاہ فیصل کی بادشاہت کا اعلان کردیا گیا۔ شاہ سعود کو چاروناچار یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔ 19 اکتوبر 1964ء میں شاہ فیصل سعودی عرب کے بادشاہ بنے۔ اس سے قبل وہ امیر اور وزیراعظم بھی رہ چکے تھے ۔۔ شاہ فیصل کے عہد حکومت میں سعودی عرب نے تعلیم، بنیادی ضروریات، صحت عامہ، ذرائع آمدنی، مواصلات، معدنی وسائل، صنعت غرضیکہ ہر میدان میں بےمثال ترقی کی۔ سعودی عرب کی موجودہ ترقی کا سہرا شاہ فیصل کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے ہی بتدریج مملکت کو بیسویں صدی میں لاکے کھڑا کردیا۔ توحید اور احیاء سنت پر شیخ نجدی نے تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اور اسی نعرہ کے ساتھ وہ میدان عمل میں بھی اترے تھے۔ اگر تحریک کی تمام جدوجہد اسی محور پہ رہتی تو شاید تحریک وہابیت کی شبیہ علماء عرب میں خراب نہ ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ شیخ سے ایسے افعال، اقوال واعمال صادر ہوگئے جو ہیجان فتنہ کے سبب بننے کے ساتھ جمہور علماء کے مسلک کے خلاف بھی تھے۔ مثلا شیخ توسل کے قائل نہ تھے۔ زیارت قبور کے لئے سفر کرنے کو جائز نہیں کہتے تھے۔ حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مقدسہ کی زیارت کے لئے بھی سفر کو ناجائز کہتے تھے۔ روضہ رسول پہ صلاہ وسلام کے بعد شفاعت کی درخواست کو شرک کہتے تھے۔ اور وہاں نداء رسول کو بھی ناجائز کہتے تھے۔ جب لوگوں کو ان مسائل کا علم ہوا تو اس جماعت سے ہٹتے اور کٹتے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ اس جماعت کا مقصد حکومت پہ قبضہ کرنا ہے اور احیاء سنت کا نام محض لوگوں کو اپنے ساتھ جمع کرنے کے لئے ہے تو لوگوں میں جماعت کے تعلق سے نفرتیں بھر گئیں۔ تیسیوں علماء عرب نے اس کی رد میں کتابیں لکھیں ۔اس وقت میرے سامنے دسیوں علماء عرب کی کتابیں ہیں۔ حیرت ہے کہ شیخ کے حقیقی بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208 ھجری نے بھی اپنے بھائی کی رد میں "الصواعق الالھیہ" نامی کتاب لکھے بغیر نہیں رہ سکے ۔۔ علماء عرب کو شیخ کے خلاف اس قدر غلو تھا کہ اہل نجد کی طرف منسوب عقائد ونظریات کی دریافت اور تحقیقات کو قطعا غیرضروری سمجھتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ کے مخالف بیشتر اہل قلم کا قلم حد اعتدال سے تجاوز کرگیا اور ان کی طرف ایسے عقائد بھی منسوب کربیٹھے جن سے ان کا دامن بری الذمہ ہے۔ پھر اس طرح ان کے خلاف غیرواقعی پروپیگنڈہ کا بازار اس قدر گرم ہوا کہ بعد کے علماء اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ہمارے بعض اکابر دیوبند جو شیخ نجدی کے خلاف انتہائی سخت رائے رکھتے تھے وہ اسی پروپیگنڈہ کی بنیاد پر تھا۔ ایمان وتوحید کی دعوت اور قبور ومزار پرستی کے خلاف جدوجہد میں شیخ نجدی اور تحریک سید احمد شہید اور علماء دیوبند کے طرز فکر میں ایک حد تک یکسانیت اور یگانگت پائی جاتی ہے۔ صرف مذکورہ بالا چند بنیادی مسائل میں اختلاف ہے۔ شیخ نجدی اہلسنت والجماعت میں سے تھے۔متبع سنت تھے۔ اپنے اعتقاد اور قول وعمل میں حد درجہ متشدد تھے. علامہ ابن تیمیہ کے ہم خیال تھے۔ اظہار دعوی کے وقت حنبلی ہونے کا اقرار کرتے لیکن جملہ مسائل میں فقہ حنبلی پر عمل نہیں تھا۔ بلکہ اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالف فقہ خیال کرتے اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑدیتے ۔۔ اکابر امت کی شان میں تجہیل وتنقیص بھی شیخ کا معمول تھا۔ (امام رازی جیسے بحرالعلوم کو جاہل کہ بیٹھے ہیں)۔ ان کی توحید کی کرشمہ سازی بھی عجیب وغریب تھی۔ تکفیری منجنیق کا دہانہ ہر وقت کھولے رکھتے تھے۔ اپنے عقائد وخیالات بزور شمشیر دوسروں پہ نافذ کرتے۔ 22 جون 1792ء کو ایک عارضہ میں مبتلا ہوکر 95 برس کی عمر میں شیخ دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اپنی فکری توانائیوں اور انتھک مساعی سے جغرافیہ عالم میں ایک اسلامی ریاست کا عملی نقشہ اجاگر کرکے گئے ۔۔ شیخ کے چار لڑکے حسین، عبداللہ، علی اور ابراھیم تھے۔ حسین نابینا تھے۔ علم وفضل میں والد کے نعم البدل تھے۔ آبائی وطن درعیہ میں دینی مدرسہ چلاتے تھے۔ عبداللہ بڑے ہی فضل وکمال والے تھے۔ ملک عبدالعزیز کے مشیر کار ہونے کے ساتھ ردشیعیت میں متعدد قیمتی کتابیں لکھیں۔ آخر زمانہ میں مصر ہجرت کرگئے۔ وہیں 1242 ھجری میں وفات بھی ہوئی۔ باقی دونوں لڑکے بھی حکومت سعودی عرب کے دینی اعلی عہدوں پہ گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ تحریک وھابیت کے تعارف اور اس پہ عائد ہونے والے الزامات کی رد میں شیخ کے لڑکوں نے متعدد رسالے لکھے ہیں ۔۔ شیخ کے محمد بن سعود کے لئے لکھے گئے 'کشف الشبھات' نامی رسالہ اورعبدالعزیز ابن سعود امیر نجد نے مکہ مکرمہ پہ قبضہ کے بعد اپنے عقائد کی تشھیر کے لئے مجموعہ التوحید کے نام سے جو کتاب تقسیم کی تھی اس کے راست مطالعہ سے تحریک وہابیت کی صحیح معرفت ہوسکتی ہے۔ آج تک سعودیہ میں افتاء، تدریس، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شعبہ کی ذمہ داری، جامعات اور یونیورسیٹیوں کی صدارت جیسے بڑے بڑے دینی مناصب آل الشیخ (شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے خاندان) کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسرے لوگ اسی صورت میں کسی اعلی دینی منصب پر مقرر کئے جاتے ہیں جبکہ آل الشیخ میں کوئی موجود نہ ہو۔
--------------------------------
1. بندہ کے علم میں کافی کچھ نئی باتیں آئیں
2. واقعۃ درجنون کتب کا ماحصل ہے
3. تیسرے یہ کہ 1938 کے دوران تیل نکلنے کی ابتداء کی گئی ہے. اس میں تھوڑا تردد ہورہا ہے. کیونکہ مشہورہے کہ شاہ فیصل کے وقت تیل نکلناشروع ہوا.
4. دو پہلو محمد بن عبدالوہاب کی حیات کے اہمیت رکھتے ہین. ایک تو جنگ وجدال سے سلطنت عثمانیہ کی بیخ کنی امریکیون سے ان کے تعلقات ... ہمفرے کے انکشافات مین کچھ باتین شیخ کے بارے میں بھی ہین .... ان پہلوؤں کے بغیر اصل مقاصد تحریک وفکر تک پہنچنا ذرا مشکل امر یے.
5. تاہم مجموعی لحاظ سے وقیع تحریر ہے مقام رشک وتنافس ہے مفتی صاحب کے گروپ پر کویی گفتگو چلتی ہے اور اپ کا مضمون آجاتا ہے .... ہدیہ تراویح تسمیہ بمحمد واحمد وغیرہ نیز یہ بھی مضمون علم وتحقیق تو اسان بھی ہوسکتی ہے لیکن اپنی تحقیق پر اتنی گرفت کہ بروقت اسے پیش کردیا جائے ...یہ ملکہ کم ملتا ہے ...
لاحول ولاقوة الابالله ماشاءاللہ جزاکم اللہ رضاہ والجنۃ ......
اہل السنہ والجماعۃ کے اصول میں سے ایک یہ ہے کہ وہ طبقہ خود بلاوجہ تکفیر نہ کرتا ہو ... جبکہ یہ طبقہ غیرسلفی کو کافر و مشرک ہی کہتا ہے.
1 September 2016
https://saagartimes.blogspot.com/2020/04/blog-post_71.html