Tuesday 31 March 2015

بغیر انٹرنیٹ سنئے قرآن مجید

قران سنئیے بغیر انٹرنیٹ سہولت کے صرف ایک کلک سے دعا کریں اس بندے کےلئے جسنے یہ بہترین سہولت فراھم کی ہے

عبدالرحمن السديس
ـ http://rb2.in/6K1
سعود الشريم
ـ http://rb2.in/6K2
عبدالباسط عبدالصمد
ـ http://rb2.in/5Mh
محمد المنشاوي
ـ http://rb2.in/7zB 
ماهر المعيقلي
ـ http://rb2.in/7zC
ادريس ابكر
ـ http://rb2.in/5Tg
عبدالله الجهني
ـ http://rb2.in/7zD 
محمد المحيسني
ـ http://rb2.in/7zE
ياسر الدوسري
ـ http://rb2.in/7zF 
ناصر القطامي
ـ http://rb2.in/7zG
محمد ايوب
ـ http://rb2.in/7zI
عبدالولي الاركاني
ـ http://rb2.in/7zJ 
احمد العجمي
ـ http://rb2.in/7zK
مشاري  العفاسي
ـ http://rb2.in/7zL
سعد الغامدي
ـ http://rb2.in/7zM
ابو بكر الشاطري
ـ  http://rb2.in/7zN.                                القران كاملا بدون تشغيل نت

انا اللہ یامربالعدل والاحسان

حضرتِ عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ(1) امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصر کے حاکم تھے۔ مصر کا ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔
"اے امیر المومنین! میں ظلم سے آپ کی پناہ لینے آیا ہوں"
حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تم نے ایسے آدمی کی پناہ حاصل کی جو تمہیں پناہ دے سکتا ہے"
مصری بولا: میں حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا، میں اس سے آگے بڑھ گیا تو وہ مجھے کوڑے سے مارنے لگا اور کہنے لگا:
"میں شریف خاندان کا بیٹا ہوں"
یہ شکوہ سن کر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے حاکم حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائیں۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے ساتھ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا:
"مصری کہاں ہے"
وہ سامنے آیا تو کہا"یہ کوڑا لے اور مار"۔
امیر المومنین کا حکم ملتے ہی مصری عمرو بن العاص کے بیٹے پر کوڑا برسانے لگا اور امیر المومنین کہتے جاتے تھے:
۔"شریف خاندان کے بیٹے کو مارو"۔
حضرتِ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :مصری نے عمرو بن العاص کے بیٹے کو کوڑے لگائے۔اور اللہ کی قسم! بہت مارا اور ہم اس کی پٹائی چاہتے بھی تھے۔ لیکن مصری برابر مارے جا رہا تھا،حتیٰ کہ ہماری خواہش ہوئی کہ اب اس کی پٹائی بند ہو جائے۔
پھر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے مصری سے فرمایا؛
۔"کوڑا عمروبن العاص کی چندیا(گنجے سر) پر بھی لگاؤ"۔
مصری نے عرض کی: اے امیر المومنین!ان کے بیٹے نے میری پٹائی کی تھی اور میں نے اس سے قصاص لے لیا۔
پھر امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:۔
"تم نے لوگوں کو کب سےغلام بنا رکھا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟"۔
عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کی:"اے امیر المومنین! مجھے اس معاملے کی کچھ خبر نہیں اور نہ ہی یہ میرے پاس شکایت لے کر آیا تھا"(2)
----------------------------------------
(1) حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو سہم سے تھا۔ انہوں نے 8 ہجری میں اسلام قبول کیا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں عُمان کی طرف روانہ کیا اور ان کی تبلیغ سے وہاں کے حاکم حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
وہ بڑے خوش گفتار،شریں بیان،خطیب،قادر الکلام،مدبر،سیاستدان اور سپہ سالار تھے۔ان سے 39 احادیث مروی ہے۔ انہوں نے تقریباً 42 ہجری میں وفات پائی۔
(اٹلس سیرتِ نبوی۔ص 385۔386)

(2)حیاۃ الصحابہ۔از محمد یوسف کاندھلوی:338/2)۔مؤسسۃ 
الرسالۃ۔کنز العمال:98/7)

اداسی، مایوسی اور بیزاری

وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب:
• اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو
• اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔
ڈپریشن میں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ڈپریشن کی بیماری کی شدت عام اداسی کے مقابلے میں جو ہم سب وقتاً فوقتاً محسوس کرتے ہیں کہیں زیادہ گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کا دورانیہ بھی عام اداسی سے کافی زیادہ ہوتا ہےاور مہینوں تک چلتا ہے۔ درج ذیل ًعلامات ڈپریشن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات مو جود ہوں لیکن اگر آپ میں ان میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوں۔
۱۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ رہنا
۲۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا
۳۔ جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا تھکا محسوس کرنا
۴۔ روز مرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا
۵۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جاناا
۶۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا
۷۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا
۸۔ خودکشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا
۹۔ نیند خراب ہو جاناا
۱۰۔ بھوک خراب ہو جانا
ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟
بعض لوگوں میں ڈپریشن کی کوئی خاص وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ بہت سے لوگوں کو جو اداس رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی اداسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔اس کے باوجود ان کا ڈپریشن بعض دفعہ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انھیں مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
•معاملاتَ زندگی
بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
• حالات وواقعات
اگر ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
• جسمانی بیماریاں
جسمانی طور پر بیمار لوگوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماریاں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو زندگی کے لیے خطرناک ہوں مثلا کینسر یا دل کی بیماریاں، یا ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو بہت لمبے عرصے چلنے والی اور تکلیف دہ ہوں مثلاً جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔ نوجوان لوگوں میں وائرل انفیکشن مثلاً فلو کے بعد ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
• شخصیت
ڈپریشن کسی کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہےلیکن بعض لوگوں کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہماری شخصیت بھی ہو سکتی ہے اوربچپن کے حالات و تجربات بھی۔
• شراب نوشی
جو لوگ الکحل بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔بعض دفعہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ انسان شراب پینے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے یا ڈپریشن کی وجہ سے شراب زیادہ پینے لگا ہے۔جو لوگ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں خود کشی کرنے کا خطرہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
• جنس
خواتین میں ڈپریشن ہونے کا امکان مرد حضرات سے زیادہ ہوتا ہے۔
• موروثیت
ڈپریشن کی بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اورلوگوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔
مینک ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟
جن لوگوں کو شدید ڈپریشن ہوتا ہے ان میں سے تقریباً دس فیصد لوگوں کو ایسےتیزی کے دورے بھی ہوتے ہیں جب وہ بغیر کسی وجہ کے بہت زیادہ خوش رہتے ہیں اور اور نارمل سے زیادہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تیزی کے دورے کو مینیا اور اس بیماری کو بائی پولر ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح مردوں اور عورتوں میں برابر ہے اور یہ بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔
کیا ڈپریشن انسان کی ذاتی کمزوری کا دوسرا نام ہے؟
جس طرح سے ذیابطیس ایک بیماری ہے اور بلڈ پریشر کا بڑھ جانا ایک بیماری ہے اسی طرح سے ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈپریشن کے مریض بھی ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں، تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔
ڈپریشن میں آپ کس طرح سے اپنی مدد کر سکتے ہیں؟
•اپنی جذباتی کیفیات کو راز نہ رکھیں۔
اگر آپ نے کوئی بری خبر سنی ہو تو اسے کسی قریبی شخص سے شیئر کر لیں اور انھیں یہ بھی بتائیں کہ آپ اندر سے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اکثر دفعہ غم کی باتوں کوکسی قریبی شخص کے سامنے بار بار دہرانے، رو لینے اور اس کے بارے میں بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔
•جسمانی کام کریں۔
کچھ نہ کچھ ورزش کرتے رہیں، چاہے یہ صرف آدھہ گھنٹہ روزانہ چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ ورزش سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور نیند بھی۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں چاہے یہ گھر کے کام کاج ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے انسان کا ذہن تکلیف دہ خیالات سے ہٹا رہتا ہے۔
•اچھا کھانا کھائیے۔
متوازن غذا کھانا بہت ضروری ہےچاہے آپ کا دل کھانا کھانے کو نہ چاہ رہا ہو۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ڈپریشن میں لوگ کھانا کھانا چھوڑ دیتے ہیں جس سے بدن میں وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے اور طبیعت اور زیادہ خراب لگتی ہے۔
•شراب نوشی سسے دور رہیں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شراب پینے سے ان کے ڈپریشن کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں شراب پینے سے ڈپریشن اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے وقتی طور پر کچھ گھنٹوں کے لیے تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن بعد میں آپ اور زیادہ اداس محسوس کریں گے۔ زیادہ شراب پینے سے آپ کے مسائل اور بڑھتے ہیں، آپ صحیح مدد نہیں لے پاتےاور آپ کی جسمانی صحت بھی خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
•نیند
نیند کے نہ آنے سے پریشان نہ ہوں۔ اگر آپ سو نہ سکیں تو پھر بھی آرام سے لیٹ کر ٹی وی دیکھنے یا ریڈیو سننے سے آپ کو ذہنی سکون ملے گا اور آپ کی گھبراہٹ بھی کم ہو گی۔
•ڈپریشن کی وجہ کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ کولگتا ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن کی وجہ معلوم ہے تو اس کو لکھنے اور اس پہ غور کرنے سے کہ اسے کیسے حل کیا جائے ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
•مایوس نہ ہوں۔
اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ:
آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں۔
ایک نہ ایک روز آپ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا چاہے ابھی آپ کو ایسا نہ لگتا ہو۔
ڈپریشن کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ڈپریشن کا علاج باتوں (سائیکو تھراپی) کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے، اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے ذریعے بھی اور بیک وقت دونوں کے استعمال سے بھی۔ آپ کے ڈپریشن کی علامات کی نوعیت، ان کی شدت اور آپ کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے لیے ادویات کا استعمال زیادہ بہتر ہے یا سائیکو تھراپی۔ ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں سائیکوتھراپی کے استعمال سے طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن اگر ڈپریشن زیادہ شدید ہو تو دوا دینا ضروری ہو جاتا ہے۔
باتوں کے ذریعے علاج (سائیکوتھراپی)
ڈپریشن میں اکثر لوگوں کو اپنے احساسات کسی با اعتماد شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے طبیعت بہتر محسوس ہوتی ہے۔بعض دفعہ اپنے احساسات رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ بانٹنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ماہر نفسیات (سائیکولوجسٹ) سے بات کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔سائیکوتھراپی کے ذریعے علاج میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے آپ کو ماہر نفسیات سے ہر ہفتے ایک گھنٹے کے لیے ملنا ہوتا ہے اور اسکا دورانیہ ۵ ہفتے سے ۳۰ ہفتے تک ہو سکتا ہے۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات۔
اگر آپ کا ڈپریشن شدید ہو یا کافی عرصے سے چل رہا ہو تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا ڈاکٹر آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ ادویات تجویز کرے۔ ان ادویات سے اداسی کم ہوتی ہے، زندگی بہتر لگنے لگتی ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بہتری ہوتی ہے۔ یاد رکھیے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا فائدہ دوا شروع کرنے کے بعد فوراً نظر آنا شروع نہیں ہوتا بلکہ اس میں ۲ سے ۳ ہفتے لگ سکتے ہیں۔بعض لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوا شروع کرنے کے بعد چند ہی دنون میں ان کی نیند بہتر ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کم ہو جاتی ہے لیکن ڈپریشن کم ہونے میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کس طرح کام کرتی ہیں؟
انسانی دماغ میں متعدد کیمیائی مواد موجود ہیں جو ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک سگنل پہنچاتے ہیں۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ڈپریشن میں دو خاص کیمیکلز کی کمی ہوتی ہےجنھیں سیروٹونن اور نارایڈرینلین کہا جاتا ہے ۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ان کیمیکلز کی مقدار دماغ میں بڑھانے میں مددگار ہو تی ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مضر اثرات۔
دوسری تمام ادویات کی طرح ڈپریشن مخا لف ادویات کے بھی مضر اثرات ہو تے ہیں مگر عام طور سے یہ شدید نہیں ہوتے اور دوا لیتے رہنے سے کچھ عرصے میں ختم ہو جاتے ہیں ۔ ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کے دنوں میں کچھ مریضوں میں متلی اور بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ ٹرائی سائکلسٹ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے شروع کے چند ہفتوں میں منہ کی خشکی اور قبض کی شکایات ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ مضر اثرات بہت شدید نہ ہوں تو امکان یہی ہے کہ آپ کا ڈاکٹر آپ کو کہے گا کہ دوا جاری رکھیں کیونکہ اکثر مریضوں میں دوا جاری رکھنے سے یہ اثرات کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔
بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کولینے سے نیند آتی ہےاس لیے ان کو رات سونے سے پہلے لینے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ غنودگی کی صورت میں گاڑی چلانے اور بڑی مشینری کے استعمال سے گریز کریں۔ بعض ادویات کا بعض دوسری ادویات کے ساتھ ری ایکشن ہو سکتا ہےاس لیے اپنے ڈاکٹر کو ہر اس دوا سے آگاہ کریں جو آپ استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے کے ساتھ ساتھ شراب پینا جاری رکھیں گے تو آپ کو بہت زیادہ نیند آئے گی اور دوا کا پورا فائدہ بھی نہیں ہو گا۔
دوا شروع کرنے کے بعد اپنے ڈاکٹر کو باقاعدگی سے دکھاتے رہیں تا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ آپ کو دوا سے فائدہ ہو رہا ہے کہ نہیں اور اس کے مضر اثرات تو نہیں ہو رہے۔اینٹی ڈپریسنٹ ادویات طبیعت صحیح ہو جانے کے بعد بھی کم از کم مزید چھ مہینے تک جاری رکھنی پڑتی ہیں ورنہ بیماری کی علامات واپس آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات آہستہ آہستہ بند کی جاتی ہیں۔ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے اچانک دوا بند نہ کریں۔
اکثر لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کرنے سے پہلے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ ان کے عادی ہو جائیں گےاور پھر انھیں ساری عمر ان دوائیوں کو لینا پڑے گا۔ یہ خیال صحیح نہیں، انسان اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا س طرح سے عادی نہیں بنتا جیسے لوگ نیند کی دوائیوں مثلاً ویلیم، شراب یا نکوٹین کے عادی ہو جاتے ہیں۔ان نشہ آور چیزوں کے برعکس نہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کا فائدہ برقرار رکھنے کے لیے ان کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی شدید طلب ہوتی ہے۔ البتہ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو اچانک بند کریں تو گھبراہٹ، پتلا پاخانہ اور ڈراؤنے خواب کی شکایات ہو سکتی ہیں۔اگر دوائیں آہستہ آہستہ بند کی جائیں تو یہ شکایات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔
کیا مجھے ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ) کو دکھانا ہو گا؟
ڈپریشن کے بہت سارے مریض اپنے فیملی ڈاکٹر کے علاج سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت اس سے صحیح نہ ہو تو ہو سکتا ہے آپ کو ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ) کو دکھانے کی ضرورت پڑے۔ سائیکائٹرسٹ ڈاکٹر ہو تے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے نفسیاتی امراض کے علاج میں مزید تربیت حاصل کی ہو تی ہے
علاج نہ کرانے کی صورت میں کیا ہو تا ہے؟
اچھی خبر یہ ہے کہ ڈپریشن کے اسی فیصد مریض علاج نہ کروانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ باقی بیس فیصد مریض بغیر علاج کے اگلے دو سال تک ڈپریشن میں مبتلا رہیں گے اور پہلے سے یہ بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کون ٹھیک ہو جائے گا اور کون ٹھیک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو انسان کئی مہینو ں تک اتنی شدید تکلیف کیوں برداشت کرتا رہے۔ کچھ لوگوں کا ڈپریشن اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ اسی لیے اگر آپ کے ڈپریشن کی علامات کی شدت بڑھ گئی ہے اور ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی، آپ کے ڈپریشن نے آپکے کام، دلچسپیوں، اور رشتہ داروں اور دوستوں سے تعقات کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے، یا آپ کو اس طرح کے خیالات آنے لگے ہیں کہ آپکے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دوسرے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ مر جائیں، تو آپ کو فوراً اپنا علاج کروانے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا سائکائٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔

10 राज्यों में क़ानूनन होती है गो-हत्या

भारत के 29 में से 10 राज्य ऐसे हैं जहां गाय, बछड़ा, बैल, सांड और भैंस को काटने और उनका गोश्त खाने पर कोई प्रतिबंध नहीं है. बाक़ि 18 राज्यों में गो-हत्या पर पूरी या आंशिक रोक है.
भारत की 80 प्रतिशत से ज़्यादा आबादी हिंदू है जिनमें ज़्यादातर लोग गाय को पूजते हैं. लेकिन ये भी सच है कि दुनियाभर में ‘बीफ़’ का सबसे ज़्यादा निर्यात करनेवाले देशों में से एक भारत है.
दरअसल ‘बीफ़’, बकरे, मुर्ग़े और मछली के गोश्त से सस्ता होता है. इसी वजह से ये ग़रीब तबक़ों में रोज़ के भोजन का हिस्सा है, ख़ास तौर पर कई मुस्लिम, ईसाई, दलित और आदिवासी जनजातियों के बीच.
इसी महीने हरियाणा और महाराष्ट्र के गो-हत्या विरोधी क़ानून कड़े करने पर ‘बीफ़’ पर बहस फिर गरमा गई. यहां तक की भारत में ‘बैन’ की संस्कृति पर कई पैरोडी गाने भी बनाए गए.
इसीलिए बीबीसी हिन्दी ‘बीफ़’ की ख़रीद-फ़रोख़्त के अर्थव्यवस्था पर असर, उसके स्वास्थ्य से जुड़े फ़ायदे, गो-हत्या पर रोक की मांग करनेवालों की राय, रोक पर राजनीति और उसके इतिहास पर विशेष रिपोर्ट्स लेकर आ रहा है.
गो-हत्या पर कोई केंद्रीय क़ानून नहीं है पर अलग राज्यों में अलग-अलग स्तर की रोक दशकों से लागू है. तो सबसे पहले ये जान लें कि देश के किन हिस्सों में ‘बीफ़’ परोसा जा सकता है.
पूरा प्रतिबंध
गो-हत्या पर पूरे प्रतिबंध के मायने हैं कि गाय, बछड़ा, बैल और सांड की हत्या पर रोक.
ये रोक 11 राज्यों – भारत प्रशासित कश्मीर, हिमाचल प्रदेश, पंजाब, हरियाणा, उत्तराखंड, उत्तर प्रदेश, राजस्थान, गुजरात, मध्य प्रदेश, महराष्ट्र, छत्तीसगढ़, और दो केन्द्र प्रशासित राज्यों - दिल्ली, चंडीगढ़ में लागू है.
गो-हत्या क़ानून के उल्लंघन पर सबसे कड़ी सज़ा भी इन्हीं राज्यों में तय की गई है. हरियाणा में सबसे ज़्यादा एक लाख रुपए का जुर्माना और 10 साल की जेल की सज़ा का प्रावधान है.
वहीं महाराष्ट्र में गो-हत्या पर 10,000 रुपए का जुर्माना और पांच साल की जेल की सज़ा है.
हालांकि छत्तीसगढ़ के अलावा इन सभी राज्यों में भैंस के काटे जाने पर कोई रोक नहीं है.
हिन्दू धर्म में गाय को पूजनीय माना जाता है.
आंशिक प्रतिबंध
गो-हत्या पर पूरे प्रतिबंध के मायने हैं कि गाय और बछड़े की हत्या पर पूरा प्रतिबंध लेकिन बैल, सांड और भैंस को काटने और खाने की इजाज़त है.
इसके लिए ज़रूरी है कि पशू को ‘फ़िट फ़ॉर स्लॉटर सर्टिफ़िकेट’ मिला हो. सर्टिफ़िकेट पशु की उम्र, काम करने की क्षमता और बच्चे पैदा करने की क्षमता देखकर दिया जाता है.
इन सभी राज्यों में सज़ा और जुर्माने पर रुख़ भी कुछ नरम है. जेल की सज़ा छह महीने से दो साल के बीच है जबकि जुर्माने की अधितकम रक़म सिर्फ़ 1,000 रुपए है.
आंशिक प्रतिबंध आठ राज्यों – बिहार, झारखंड, ओडिशा, तेलंगाना, आंध्र प्रदेश, तमिलनाडु, कर्नाटक, गोवा और चार केंद्र शासित राज्यों – दमन और दीव, दादर और नागर हवेली, पांडिचेरी, अंडमान ओर निकोबार द्वीप समूह में लागू है.
महाराष्ट्र में गौ-हत्या का क़ानून कड़ा किए जाने पर अभिनेता ऋषि कपूर की ट्विटर पर प्रतिक्रिया.
कोई प्रतिबंध नहीं
दस राज्यों - केरल, पश्चिम बंगाल, असम, अरुणाचल प्रदेश, मणिपुर, मेघालय, मिज़ोरम, नगालैंड, त्रिपुरा, सिक्किम और एक केंद्र शासित राज्य लक्षद्वीप में गो-हत्या पर कोई प्रतिबंध नहीं है.
यहां गाय, बछड़ा, बैल, सांड और भैंस का मांस खुले तौर पर बाज़ार में बिकता है और खाया जाता है.
आठ राज्यों और लक्षद्वीप में तो गो-हत्या पर किसी तरह को कोई क़ानून ही नहीं है. असम और पश्चिम बंगाल में जो क़ानून है उसके तहत उन्हीं पशुओं को काटा जा सकता है जिन्हें ‘फ़िट फॉर स्लॉटर सर्टिफ़िकेट’ मिला हो.
ये उन्हीं पशुओं को दिया जा सकता है जिनकी उम्र 14 साल से ज़्यादा हो, या जो प्रजनन या काम करने के क़ाबिल ना रहे हों.
वर्ष 2011 की जनगणना के मुताबिक़ इनमें से कई राज्यों में आदिवासी जनजातियों की तादाद 80 प्रतिशत से भी ज़्यादा है. इनमें से कई प्रदेशों में ईसाई धर्म मानने वालों की संख्या भी अधिक है.

31 मार्च 2015
दिल्ली : 
नॅशनल न्यूज़ अपडेट

ﻗﺼﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ

کیا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا :
”اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا :
 ”بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟” وہ بولا کہ
”یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ”بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو،یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے،اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔” جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفصیل ووضاحت
اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کر سکتا ہے؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کر لی۔
اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : ” بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟” اب عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے : ” یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو”۔ کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خورد و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو گئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہو چکی تھی۔
تذکیر ی پہلو
١۔ حضرت عزیر خود بھی ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔
٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہو چکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔
٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔
٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
از پروفیسر محمد عقیل
 تفصیل و وضاحت و ترجمہ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر تیسیرالقرآن 

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ
ﺩﻭﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﭖ
ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﻧﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ۔
ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﺎﮨﺞ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﮯ
ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ
ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮩﯽ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ
ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ ﮨﺎﮞ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ؟
ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻻﭘﺘﮧ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ
ﮐﺮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﮍﮬﯿﺎ! ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻋﺰﯾﺮ ﮨﻮﮞ
ﺗﻮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ! ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﻋﺰﯾﺮ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟ ﺁﭖ
ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﮍﮬﯿﺎ! ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﻣﺮﺩﮦ
ﺭﮐﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﯿﺎ
ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﮨﺮ ﺩﻋﺎﺀ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻓﺎﻟﺞ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺩﻋﺎﺀ ﮐﺮ
ﺩﯼ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺎﻟﺞ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ
ﮔﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﯽ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﭖ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯽ
ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﯿﮑﺮ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻣﺤﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺗﻔﺎﻕ
ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﺎ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﺑﺮﺱ ﮐﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﭘﻮﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ
ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ! ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﯾﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ
ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻟﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﻣﺴﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ
ﺷﮑﻞ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺴﮧ
ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﻮ ﺗﻮﺭﺍۃ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﯾﺎﺩ
ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻋﺰﯾﺮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺗﻮﺭﺍۃ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻨﺎﺋﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﮐﺴﯽ ﺟﮭﺠﮏ ﮐﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻮﺭﺍۃ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ۔ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﻮ
ﭼﻦ ﭼﻦ ﮐﺮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ
ﻋﺰﯾﺮ ﻧﮯ ﺗﻮﺭﺍۃ ﺻﺤﯿﺢ ﭘﮍﮬﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺩﻥ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﻧﮯ
ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﮍ ﻣﯿﮟ
ﺗﻮﺭﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻠﺪ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﺩﺍ ﮐﮯ
ﺍﻧﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺩﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻠﺪ
ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺘﺎ ﭼﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻧﮯ ﺟﻮ
ﺗﻮﺭﺍۃ ﭘﮍﮬﯽ ﻭﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮭﻮﺩ ﮐﺮ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﯽ ﺟﻠﺪ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺣﺮﻑ ﺑﮧ ﺣﺮﻑ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮧ
ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ
ﺯﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﯾﮩﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﺍﻭﺭ
ﻣﺸﺮﮐﺎﻧﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺎﺫﺍﻟﻠﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ
ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ
ﺍﺱ ﺑﺎﻃﻞ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﭘﺮ ﺟﻤﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ
ﮨﯿﮟ۔ ( ﻣﻌﺎﺫﺍﻟﻠﮧ )
( ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺟﻤﻞ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺠﻼﻟﯿﻦ، ﺝ1 ، ﺹ322 ، ﭖ3 ، ﺍﻟﺒﻘﺮۃ: 259
عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام
عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام 
عصرِ حاضر کے معتزلہ کے واعظین قرآنِ کریم میں بیان کردہ درج ذیل واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر اور سماع عند القبور کا انکار کرتے ہیں‘ حالانکہ اس واقعہ میں قرآنِ کریم نے صاحب ِ واقعہ کا قطعاً تعین نہیں کیا‘ بلکہ مبہم انداز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”او کالذی مر علی قریة وہی خاویة علی عروشہا قال انی یحی ہذہ اللہ بعد موتہا‘ فاماتہ اللہ مائة عام ثم بعثہ قال کم لبثت؟ قال لبثت یوما او بعض یوم‘ قال بل لبثت مائة عام فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنہ‘ وانظر الی حمارک ولنجعلک آیة للناس وانظر الی العظام کیف ننشزہا ثم نکسوہا لحما‘ فلما تبین لہ قال اعلم اللہ اللہ علی کل شئ قدیر“۔ (البقرہ:۲۵۹)
ترجمہ:․․․”اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا: اس بستی کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا؟ (آباد کرے گا)۔ بس اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سوبرس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا: تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے؟ اس نے جواب دیا:ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ایسا نہیں ہے‘ بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے‘ پس تم اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاہے) اور (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لئے ”نشان“ بنائیں‘ اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے (اور آپس میں جوڑتے ہیں) اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا: میں یقین کرتاہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔ 
قارئین کرام! منکرینِ حیات الانبیاء علیہم السلام کا اس قرآنی واقعہ سے استدلال کرنا سراسر باطل اور دھوکہ‘ بلکہ ایک قسم کی تلبیس ہے‘ اور اس تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے چند دلائل آپ کی خدمت میں عرض ہیں‘ جن میں غور کرنے سے ہر ذی شعور پر ان کے استدلال کا بطلان اور احقاقِ حق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ واقعہ کا نام تک نہیں لیا
سب سے پہلی گذارش یہ ہے کہ جس شخص کو یہ واقعہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا نام متعین نہیں فرمایا‘ بلکہ مبہم انداز میں فرمایا کہ ایک شخص کا ویران اور تباہ شدہ بستی پر گذر ہوا ۔
لہذا مفسرین کرام کے متفقہ اصول کے مطابق ”ابہموا ما ابہمہ اللہ“ اس صاحبِ واقعہ کو مبہم رکھنا ہی مناسب ہے اور بلادلیل از خودکسی شخصیت کا تعین کرنا نامناسب ہے‘ کیونکہ کتاب وسنت میں کہیں یہ نہیں بتایاگیا کہ صاحب ِ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ البتہ مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں فرمایا ہے کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ارمیاہ علیہ السلام کا ہے‘ بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ: یہ شخص حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص ایک کافر بادشاہ تھا جو ”بعث بعد الموت“ کا منکر تھا۔
صاحبِ واقعہ کی شخصیت کے تعین کی بنیاد اسرائیلی روایات ہیں
محترم قارئین! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن پاک میں کیاگیاہے اور نہ ہی حدیث نبوی ا میں۔ جب قرآن کریم اورحدیث نبوی میں اس شخص کو متعین نہیں کیا گیا کہ وہ کون تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعین کرنے والوں نے اسے کیسے متعین کیا ؟ جواب واضح ہے کہ اس تعین کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں‘ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی لکھتے ہیں:
”قرآن کریم نے اس بستی کا نام ذکر نہیں کیا‘ اور نبی معصوم اسے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے‘ اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا ماخذ بھی وہ روایات واقوال ہیں جوحضرت وہب بن منبہ ‘ حضرت کعب احبار اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم تک پہنچتی ہیں اور انہوں نے ان کو اسرائیلی واقعات سے نقل کرکے بیان کیا ہے تو اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لئے صرف ایک یہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ توراة اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے “۔ (قصص القرآن:ص:۲۳۹‘ج:۲)
مولانا حفظ الرحمن صاحب کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ حدیث رسول اللہ میں‘ بلکہ اس کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں۔
غلط بیانی کی انتہا
جب صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ نہیں بتایاگیا کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کو پیش آیا اور حضور اکرم ا نے بھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قصہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے‘ مفسرین کرام بھی یہی فرماتے ہیں کہ: جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا اسے مبہم ہی رکھنا چاہئے‘ اب جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم ہی نہیں کہ یہ شخص کون تھا تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بناکر عوام الناس کو یہ تأثر دینا کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ سوسال تک سوئے رہے اور انہیں وقت کا پتہ بھی نہ چلا‘ یہ غلط بیانی کی انتہاء نہیں‘ تواور کیا ہے‘ بلکہ اس واقعہ کو اس رنگ میں پیش کرنا کہ سننے والے یہی سمجھیں کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا نام لے کر یہ واقعہ بیان فرمایا ہے‘یقیناً کتاب اللہ پر اضافہ اور اللہ پر افتراء ہے۔
اسرائیلی روایات: کبھی قرآن کے درجہ میں اور کبھی انکار کی زد میں
عصر ہذا کے معتزلہ کا عجیب مزاج ہے‘ اس واقعہ میں تو ان لوگوں نے اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رکھا ہے اور جب حضرت یوسف علیہ السلام اور عزیز مصر کی گھر والی کے نکاح کا مسئلہ چلتاہے تو یہ حضرات یہ کہہ کرنکاح کا انکار کردیتے ہیں کہ:” حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح نہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے‘ بلکہ اسرائیلی روایات سے ثابت ہے جن پر اعتبار نہیں ہے“۔ اب یہاں تو یہ حضرات اسرائیلی روایات کو ٹھکرا رہے ہیں اور وہاں اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رہے ہیں۔ کوئی ان شرفاء سے پوچھے آخر کیا وجہ ہے؟ ایک ہی چیز کو کبھی قرآن بناتے ہو‘ کبھی قرآن کے مخالف ٹھہراتے ہو۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑواکڑوا تھو تھو
کیا یہی اشاعت التوحید والسنة ہے کہ جو چیز خواہشِ نفس کے مطابق ہے‘ اسے لیا جارہاہے اور جو چیز خواہشِ نفس کے خلاف ہے‘ اسے ٹھکرایاجارہاہے۔ بندہ عاجز کی دانست کے مطابق اتباعِ قرآن کے نام پر درحقیقت اتباعِ خواہش ہورہی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ
قارئین کرام! جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں صاحبِ واقعہ متعین نہیں ہے‘ بلکہ مبہم ہے تو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام کی حیات وسماع کی نفی کرنا خود بخود باطل ہے۔
بے ڈھنگی چال
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ منکرین حیات انبیاء کرام علیہم السلام نے جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کیا ہے کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ انہیں روایات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی نہ تھے‘ بلکہ ایک نیک صالح مرد تھے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے! ان لوگوں نے تعین کی حد تک ان روایات کو قبول کیا‘ بلکہ ان کو قرآن کریم کا درجہ دیا اور ان روایات کے برعکس‘ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دے دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
”مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر علیہ السلام کو آیات مسطورہٴ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے‘ ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر علیہ السلام نبی نہیں تھے‘ بلکہ مرد صالح تھے“ ۔ (قصص القرآن ص:۲۴۷‘ج:۲) 
اگر ان لوگوں میں انصاف کی رتی ہوتی تو یہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہ کہتے‘ کیونکہ انہی کی اپنی پسندیدہ روایات میں یہی لکھا ہے کہ وہ نبی نہیں بلکہ نیک صالح مرد تھا‘ لیکن ان کی بے ڈھنگی چال ملاحظہ فرمایئے کہ جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کرتے ہیں‘ انہیں روایات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔
برسبیل تنزل
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے اور وہ نبی اللہ تھے تو پھر بھی ان لوگوں کا اس واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کا انکار اور ان کے سماع عند القبور کا انکار ثابت نہیں ہوتا‘ کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنے پیغمبر حضرت عزیر علیہ السلام کو عارضی وفات کے بعد لوگوں کی نظروں سے ایسے مستور رکھا کہ پورے سوسال کے عرصہ میں اس دور کا کوئی آدمی ان کے پاس سے نہیں گذرا اگر گذرا‘ تو اس نے حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا نہیں‘ ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ لوگ مردہ شخص کی نعش کو دیکھیں اوراس کو تدفین کا انتظام کئے بغیر‘ ویسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں‘ جبکہ تدفینِ میت کا مسئلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ا تک ہرنبی کی شریعت میں برابر چلا آرہاہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے پاس سے کوئی گذرا ہی نہیں‘ اگر گذرا ہے تو اسے دیکھا نہیں‘ جب اللہ کے نبی کو دیکھنا ثابت ہی نہیں تو کس نے جاکر اللہ کے نبی کے جسد اطہر کو سلام کیا ہوگا؟ جب کسی نے سلام ہی نہیں کیا تو عدم سماع کیسے ثابت ہوا؟ لہذا نہ وہاں سلام کیا گیا اور نہ عدم سماع ثابت ہوا۔ نیز اس واقعہ سے الحیاة بعد الوفات کی نفی بھی نہیں ہوتی‘ کیونکہ قرآن پاک کی پچاس سے زائد آیات اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے حیاتِ قبر ہر مردہ کے لئے ثابت ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ کو رنج وراحت‘ دکھ سکھ اور ثواب وعقاب کا احساس ہوتاہے‘ لہذا اس واقعہ کو بنیاد بناکر کتاب وسنت سے ثابت شدہ عقیدہٴ حیات قبر کی تردید کرنا کسی دانش مند کو زیب نہیں دیتا۔
اگر حضرت عزیر علیہ السلام اس عالم میں زندہ تھے تو وقت کا احساس کیوں نہ ہو سکا؟
منکرینِ حیات قبر کے واعظین کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عزیر علیہ السلام زندہ تھے تو انہیں وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟
جواباً عرض ہے کہ وقت کے صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدم حیات پر استدلال بالکل باطل ہے‘ حضرت عزیر علیہ السلام تو اس وقت موت کی وجہ سے عالم قبر وبرزخ میں تھے اور اس عالم کی حیات ان کو حاصل تھی‘ لیکن بعض اوقات عالمِ دنیا میں زندہ رہنے والے انسانوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔
دیکھئے! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”قال کم لبثتم فی الارض عدد سنین‘ قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم فسئل العادین‘ قال ان لبثتم الا قلیلاً“۔ (مومنون:۱۱۲‘۱۱۳)
ترجمہ:․․․”ارشاد ہوگا کہ تم برسوں کے حساب سے کس قدر مدت زمین پر رہے ہوں گے وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے‘ سو گننے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ارشاد ہوگا کہ تم تھوڑی ہی مدت رہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
دیکھئے! اہلِ دنیا اپنی اپنی عمریں پوری کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ‘کوئی ایک سال رہا‘ کوئی پچاس سال رہا‘ کوئی سو سال یا اس سے کم وبیش رہا۔ اب دنیا میں رہنے والوں سے اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں: ایک دن یا بعض دن۔ ظاہر ہے ان کا یہ جواب ان کے غلط اندازے پر مبنی ہے وہ وقت کی صحیح مقدار نہیں بتارہے۔ کیا کوئی احمق اس سے یہ استدلال کرے گا کہ وہ دنیا میں زندہ تھے ہی نہیں‘ بلکہ مردہ تھے۔ یقیناً وہ زندہ تھے‘ البتہ بعض عوارض کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ معلوم ہوا کہ زندہ بھی بعض اوقات وقت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام اپنے عالم قبر وبرزخ میں زندہ تھے مگر وقت کا صحیح اندازہ نہ کرسکے۔
دوسری دلیل
اصحابِ کہف غار میں مردہ نہیں تھے‘ بلکہ سوئے ہوئے تھے۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ”وتحسبہم ایقاظاً وہم رقود“ (کہف:۱۸) اور ان زندہ سونے والوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا ‘جب ان سے پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا: ”یوماً او بعض یوم“ ”ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“ تو ثابت ہوا کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ لگاسکنے کی وجہ سے کسی کی عدمِ حیات پر استدلال کرنا سراسر باطل ‘بلکہ تلبیس ابلیس ہے۔
الزامی جواب
عصر ہذا کے معتزلہ کے نزدیک روح نہیں مرتی‘ بلکہ وہ زندہ رہتی ہے۔ جب کسی کی روح نہیں مرتی تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح بھی نہیں مری ہوگی؟ظاہر ہے کہ اس وقت روح ان کے جسد میں آچکی تھی‘ اب ہمیں بتایا جائے کہ روح تو زندہ رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرماکر پوچھا کہ تو کتنا ٹھہرا؟تو اسے وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟ اگر ان لوگوں کے استدلال کو درست تسلیم لیا جائے کہ وقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے حیات کی نفی ہوجاتی ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح کی حیات کی بھی نفی ہوجائے گی‘ جبکہ یہ لوگ روح کو تو زندہ ہی مانتے ہیں اور اس کی موت کے قائل ہی نہیں۔
بندہٴ عاجز کا مطالبہ
عصر ہذا کے معتزلہ چودھویں صدی کے آواخر کی پیداوار ہیں‘ اور قرآن کریم کے نزول کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے‘ اس پورے عرصہ میں کسی مفسر ‘ کسی محدث‘ کسی فقیہ‘ کسی متکلم اور کسی عالمِ دین نے اس واقعہ سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کی نفی پر استدلال نہیں کیا‘ اگر کسی نے کیا ہے تو ہمیں اس کا نام بتایا جائے (دیدہٴ باید) ظاہر ہے کہ چودہ سوسال کے عرصہ میں کسی عالم دین کواس آیت سے انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیات کی نفی معلوم نہیں ہوئی اور اب صرف انہی کو معلوم ہوئی ہے ۔
ان کے استدلال کے بطلان کی ایک اور دلیل
بندہ ٴ عاجز نے اکابر علما ئے اسلام کی کتب کی روشنی میں پچاس سے زائد آیاتِ قرآنیہ اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہرمردے کو درجہ بدرجہ اور حسبِ حیثیت قبر وبرزخ میں ایک قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ البتہ یہ حیات اللہ تعالیٰ نے ہماری نظروں سے مستور کررکھی ہے۔ تفصیل کے لئے بندہ عاجز کی کتاب قبر کی زندگی کا مطالعہ کیجئے‘ اگر ان لوگوں کے کشید کردہ مطلب کو درست مان لیا جائے تو ان کا یہ مطلب قرآنِ کریم کی ان پچاس سے زائد آیات کے خلاف ہوگا جن میں حیات کا ثبوت ہے‘ جبکہ مفسرین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا جو دوسری آیات سے متصادم ہو خود باطل اور غلط ہے ۔
اس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
قارئین کرام! مذکورہ بالا واقعہ سے درحقیقت یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ حضراتِ انبیائے کرام ہوں یا اولیائے عظام وہ عالم الغیب نہیں ہوتے‘ کیونکہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ‘ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اسی طرح اصحابِ کہف اور تمام اولیائے عظام عالم الغیب نہ تھے‘ اسی لئے انہیں وقت کا اندازہ نہ ہوسکا اور یہی عقیدہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے‘ پس ثابت ہوا کہ اس واقعہ سے عدم حیاتِ قبر ثابت نہیں‘ بلکہ عدم علمِ غیب ثابت ہے۔
ملکہ سبا اور حضرت سلیمان نبی اللہ علیہ السلام کے حرم سےمنسوب محل کے کھنڈرات

ذیل کی تصاویر ملکہ سبا "بلقیس بنت شراحیل" زوجہ "سلیمان بن داؤد علیہ السلام" سے منسوب محل کے کھنڈرات کی تصاویر ہيں۔ یہ کھنڈرات یمن میں واقع ہیں۔

بلقیس بنت شراحیل دسویں صدی قبل از مسیح یمن کی فرمانروا تھیں اور شہر سبا ان کا دارالحکومت تھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلامکو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کے ملک کے عوام سورج کے پجاری ہیں تو انھوں نے انہيں اسلام اور یکتا پرستی کی دعوت دی جس کے جواب میں بلقیس نے بڑے بڑے تحائف جناب سلیمان علیہ السلام کے لئے بھجوا دیئے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے تحائف کو مسترد کیا اور اور فرمایا: 
قران کریم  سورہ نمل کی آیات  ٣٦-٣٧ میں ارشاد باری تعالی ہے 
"فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ"۔ 

ترجمہ: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس (دولت) سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفے سے فرحاں (اور) نازاں ہو ٭ تو ان کے پاس (تحفے سمیت) واپس پلٹ جا سو ہم ان پر ایسے لشکروں کے ساتھ آئیں گے جن سے انہیں مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی اور ہم انہیں وہاں سے بےعزت کر کے اس حال میں نکالیں گے کہ وہ رسوا ہوں گے۔

یوں تو ملکہ سبا بہت سمجھدار حکمران خاتون ہو گزری ہیں  چنانچہ انھوں نے جو خدا داد صلاحیت سے  اپنی حکمت اور تدبر سے حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور ان پر ایمان لائیں اور اللہ رب کریم کی بارگاہ میں عرض گذار ہوئیں: 

"رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" (سورہ نمل آیت 44)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان (علیہ السلام) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
بعض تاریخی متون میں منقول ہے کہ بلقیس اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت سلیمان (ع) سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور کئی برسوں تک ان کے ساتھ مشترکہ زندگی گذار دی۔ 
 فی زمانہ ان کے محل کے کھنڈرات اور ورثہ  درس عبرت ہیں ہر ذی روح  کے لئے  وہ جان لیں کہ ہر فرد اور ذی روح   جو چیز چاہے جس قدر بھی شاندار اور صاحب جاہ و حشمت رکھتی  ہو ـ اس کے لئے بقا نہیں فنا ہے اور صرف اللہ جو رحمن  کریم 
عزیز الباقی بھی ہے اور کریم بھی اس رہتی دنیا اور تا قیامت باقی رہے گا  جو باقی ہے رہے گا۔ 


کشمیر کا حالیہ سیلاب تشویشناک

 جمعیةعلماءہند پہلے کی طرح ریلیف اور متاثرین کی بازآبادکاری کاکام کرے گی ان شاءاللہ:مولانامدنی
کشمیر کے ضلع بڈگام کے لیڈن گاو ¿ں میں زمین دھنس جانے اور مکانوں کے گرنے سے متعدد افراد کے شہید اورتشویشناک حالت پیداہوجانے پرجمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی نے رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے راحت رسانی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے کہاکہ جمعیة علماءکے کارکنان مولانا رحمت اللہ کی نگرانی میں متاثرہ افراد کی راحت رسانی اور بازآبادکاری کے کاموں میں لگ گئے ہیںجبکہ 2درجن کے قریب افراد کے ملبہ میں دب کر شہید ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ ان میں سے16 افراد کو ملبہ سے نکال کر ان کی نماز جنازہ کے بعد جمعیة علماءکے کارکنوں نے مقامی لوگوں کے تعاون سے تجہیزو تکفین کردی ہے۔سری نگر سے متاثرہ علاقہ تقریبا بیس کیلومیٹر کی دوری پرہے،اور جس طرح زمین دھنس گئی ہے اور مکانات گرے ہیں،راحت کاری میں مشکل پیش آرہی ہے ،تاہم مولانا رحمت اللہ خلیفہ مجاز مفتی اعظم محمودحسن گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی نگرانی میں مولانا شفیق ،مولاناحمید اللہ اور نصراللہ وغیرہم، جمعیة علماءکے دیگر کارکنوں کیساتھ راحت رسانی کاکام شروع کرچکے ہیں،مولانا مدنی نے موصولہ اطلاعات کے حوالہ سے کہاکہ حالیہ سیلاب سے بہت تکلیف دہ صورت حال پیداہوگئی ہے،مسلسل بارش کی وجہ سے جہلم ندی خطرہ کے نشان سے اوپربہہ رہی ہے۔ضلع اننت ناگ میں سنگم اور شہر میں رام منشی باغ علاقے بھی زیر آب آگئے تھے۔اب پانی اتررہاہے،چرار شریف کے علاقہ میں تقریبا چار درجن مکانات کو تودہ گرنے کی وجہ سے نقصان پہنچاہے، انھوں نے اس عزم کا اظہارکیا کہ ان شاءاللہ جس طرح پہلے جمعیة علماءنے بازآبادکاری کا کام شروع کررکھاہے ،حالیہ سیلاب کے متاثرہ افراد کی بازآبادکاری کا کام بھی کیا جائے گا،اب تک جمعیة علماءہند نے270 مکانات تعمیر کرکے متاثرہ افراد کو دے چکی ہے۔ اور257 مکانات تیار ہوچکے ہیں،مزید اتنے ہی مکانات تعمیر کرنے کا پروگرام ہے ،اس بازآبادکاری اور ریلیف ورک میں دیگر امور کی انجام دہی کیساتھ15 کروڑ سے زائدروپئے صرف کرچکی ہے۔انھوں نے مصیبت زدوں اور شہداءکیلئے دعاکی اپیل کرتے ہوئے ان کے لواحقین سے اظہار تعزیت بھی کیاہے۔ 


Monday 30 March 2015

پیٹ کی چربی

  • پیٹ کی چربی انتہائی بھدی اور بری معلوم ہوتی ہے اور ہم اس سے نجات کے لئے مختلف طریقے بھی آزماتے رہتے ہیں لیکن اکثر ناکامی ہونے پر مایوس ہوجاتے ہیں۔پیٹ کے اردگرد موجود چربی آپ کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہے۔اب آپ کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم آپ کو چند انتہائی آسان اور کارآمد طریقے بتاتے ہیں جن پر عمل کرکے آپ باآسانی یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔

دن کا آغاز
اپنے دن کا آغاز لیموں کے جوس سے کریں کیونکہ پیٹ کی چربی کے لئے یہ انتہائی آسان اور مفید نسخہ ہے۔ ایک گلاس گرم پانی میں ایک سے دو لیموں نچوڑ کر اس میں تھوڑا سا نمک ڈال کر پیں،اگر آپ کو بلند فشار خون (بلڈ پریشر) کا مسئلہ ہے تو نمک نہ ڈالیں۔یہ مشروب چند دنوں میں آپ کو مطلوبہ نتائج دے گا۔
چاول سے پرہیز
اگر آپ چاول کھانے کے شوقین ہیں تو اپنی اس عادت کو ترک کردیں یا پھر اس عادت کو براﺅن رائس، بریڈ اور جو کے ساتھ تبدیل کر لیں۔
چینی والے کھانوں سے دور رہیں
پیٹ کی چربی بڑھنے کی ایک اہم وجہ خون میں چکنائی اور چینی کی زیادتی ہے لہذا چینی ترک کردیں اور تمام ایسے مشروبات سے مکمل اجتناب کریں۔
زیادہ سے زیادہ پانی پیں
اگر آپ پیٹ کی چربی سے جنات چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ پانی پیں کیونکہ اس طرح آپ کے جسم سے زہریلے مادے پیشات کے راتے نکلتے رہیں گے اور ساتھ ہی آپ کا میٹابولزم بھی بڑھے گا۔
کچا لہسن کھائیں
صبح لیموں کا قہوہ پینے سے قبل لہسن کی دو پوتھیاں کھائیں ، اس طرح آپ کے خون کی روانی ٹھیک رہے گی اور ساتھ پیٹ کی چربی بھی ختم ہو گی۔
پھل اور سبزیاں کھائیں
آپ کو چاہیے کہ صبح اور شام کو پھل اور سبزیوں کی سلاد کھائیں، یہ زہریلے مادے نکال کر آپ کے جسم میں وٹامن اور دیگر ضروریات کو پورا کریں گے۔
کھانوں میں مصالحہ جات کو بڑھائیں
اپنے کھانے میں دارچینی، ادرک اور کالی مرچ کی مقدار کو بڑھا دیں کیونکہ یہ صحت کے لئے انتہائی مفید ہیں اور خون میں انسولین کی مقدار کو بالکل ٹھیک رکھتے ہیں۔
  1. امریکہ میں گرین کافی کو چربی کم کرنے والی دوا کے طور متعارف کرایا گیا ہے لہٰذا چربی کم کرنے کے خواہشمند افراد میں اس دوا کے استعمال کی طرف رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ گرین کافی میں ایک اہم عنصر Chlorogenic acid کے نام کا مادہ پایا جاتا ہے۔ Chlorogenic acid نام کا مادہ بدن میں گلوکوز چھوڑتا ہے جس کی وجہ سے جگر میں موجود چربیاں کم ہوتی ہیں اور یہ مادہ چربی کو انرجی میں تبدیل کرتا ہے جس کی وجہ بدن کی چربی کم ہونے لگتی ہے۔ یہ دو سسٹم بدن میں چربی کے جذب ہونے کو کم کرتے اور اضافی وزن کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ مادہ آپ کے پیٹ اور اس کے اطراف کی چربی کو کم کرنے میں بہت مدد کرتے ہیں اور اس مادہ کا کوئی سائیڈ ایفکٹ بھی نہیں ہے۔ اسی طرح اس مادہ کے استعمال سے کھانوں کے درمیان شکم سیری کا بھی احساس ہوتا ہے۔

اس کافی کا ذائقہ بالکل اسی کافی کی طرح ہے جو آپ اپنے ناشتے میں نوش کرتے ہیں۔ جب گرین کافی کے دانوں کو بھونا جاتا ہے تو اس میں سے Chlorogenic acid کا مادہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور بغیر بھنی ہوئی کافی میں خوشبو بھی کم ہوتی ہے اور کڑواہٹ بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی صحت چاہتے ہیں تو اس کافی کو تلخ صورت میں ہی پینا زیادہ مفید ہے۔ لیکن چونکہ گرین کافی زیادہ کڑوی ہوتی ہے اس لیے اسے 800 میلی گرام پر مشتمل کیپسول کی صورت میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دن میں دو بار کھانے سے 30 منٹ پہلے اسے استعمال کرنے سے بہتر نتاج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ مناسب کھانے کے ساتھ گرین کافی کا استعمال اور اس کے ساتھ ورزش کرنے سے اور بھی بہتر نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
آیئے آپ کو وہ ورزشیں بتائیں جس سے آپ کی جسم کی زائد چربی ختم ہو جائے گی۔
دوڑاور چہل قدمی
پیٹ کی چربی کم کرنے کے لئے سب سے آزمودہ ورزش دوڑ لگانا اور چہل قدمی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد سیر کرنا انتہائی مفید ہے کیونکہ اس طرح کھانا ہضم ہو کر جسم میں مکمل طور پر جذب ہو جاتا ہے اور زائد چربی کو ختم کرتا ہے۔اسی طرح اگر صبح کے وقت سیر کی جائے تو یہ آپ کے لئے بہت مفید ہے۔

EllipticalTrainer 
ہر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ باقاعدگی سے سیر کو جاسکے لہذا آپ گھر یا دفتر میں یہ مشین لاکر رکھ سکتے ہیں اور جب تھوڑا سا بھی وقت ملے تو اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے استعمال سے آپ کے پیٹ کی فالتو چربی پگھلنا شروع ہو جائے گی اور جسم متوازن اور خوبصورت نظر آئے گا۔

سائیکل چلانا
سائیکل بھی جسم کی اضافی چربی ختم کرنے کے لئے انتہائی مفید چیز ہے۔اس کے استعمال سے آپ تیس منٹ میں چار سو سے پانچ سو تک کیلوریز کم کر سکتے ہیں۔

پیٹ کی ورزشیں
پیٹ کی ورزش کرنے سے آپ کی چربی ناصرف کم ہوگی بلکہ پیٹ کے پٹھے مضبوط اور خوبصورت ہو جائیں گے۔ ایسی ورزشوں سے تمام جسم حرکت میں آتا ہے اور انسان توانا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک آسان ورزش درج ذیل ہے۔
کمر کے بل لیٹ جائیں اور دونوں ہاتھ سر کے پیچھے کی جانب لے جائیں۔اس کے بعد اپنی کہنیوں کو سینے تک اس طرح لے کر آئیں کہ آپ کے کندھے بھی بلند ہوں۔ اپنی بائیں کہنی کو دائیں گھٹنے اور دائیں کہنی کو بائیں گھٹنے سے لگائیں اور اس عمل کودس منٹ تک دہراتے رہیں۔ اس ورزش سے آپ چند ہی دنوں میں محسوس کریں گے کہ آپ کے جسم میں چستی آگئی ہے۔

کیپٹن چئیر کے ذریعے ورزش
کیپٹن چئیر ایک کرسی کا نام ہے ،یہ کرسی با آسانی جم میں مل جاتی ہے ،یہ ایک نسبتاً لمبی کرسی ہے جس میں ورزش کرنے والی کی ٹانگیں زمین کی جانب لٹک جاتی ہیں۔ اس کرسی پر مختلف قسم کی ورزشیں کی جا سکتی ہیں جس سے جسم کی زائد چربی زائل ہو جاتی ہے۔

بڑے گولے کے ذریعے ورزش
یہ بڑا گولہ جسے   Crunch Ball Excercise کہا جاتا ہے با آسانی بازار میں دستیاب ہے۔آئیے آپ کو اس کی مدد سی کی جانے والی ورزش بتاتے ہیں۔
بال کے اوپر اپنی کمر رکھ کر اس طرح لیٹ جائیں کہ آپ کے پاؤں زمین پر مضبوطی سے آجائیں ،اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو سر کے پیچھے رکھیں اور کہنیوں کو پیٹ کے پٹھوں تک لانے کی کوشش کریں۔ یہ ورزش پندرہ منٹ تک کی جاسکتی ہے۔
crunch Vertical leg والی ورزش
اس ورزش میں آپ کو چاہئے کہ زمین پر کمر کے بل لیٹ جائیں۔ اس کے بعد آپ اپنی ٹانگیں اور بازو اوپر اٹھائیں۔ اپنے ہاتھوں کے ذریعے ہوا میں معلق پاؤں کو چھونے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد واپس دونوں اعضاء کو پہلی والی حالت میں لئے آئیں۔یہ عمل پندرہ منٹ تک دھرائیں۔

 Crunch Reverse والی ورزش
اس ورزش میں آپ کو زمین پر کمر کے بل لیٹ جانا ہے جبکہ بازوں کو فرش کے ساتھ بالکل سیدھا رکھنا ہوگا۔اس کے بعد صرف اپنی ٹانگوں کو اٹھائیں اور اسکے بعد اپنی گردن کو بھی اپنے سینے کی جانب اوپر اٹھائیں اور کچھ دیر بعد اعضاء کو پہلی والی حالت میں لے آئیں۔

Sunday 29 March 2015

Wuzu And Science...Amazing!

Wuzu and Science!!! Amazing..

Wuzu has many scientific benefit on human being .
But remember we should do wuzu for the pleasure of Allah .
The scientific benefit are shown so that you can present Islam to non muslim .
Because for muslim we have to and we should follow all the Commandments of ALLAH  without any question.
A Seminar in West Germany:
The problem of depression is growing in the western countries, brain failures are being reported and more mental asylums are being established.
Long queues of psychiatric patients may be seen before Psychiatrists.
A Pakistani physiotherapist who holds a diploma from West Germany states that a seminar on the topic “What cures other than medicines are possible for depression” was held in Western Germany.

Wuzu And Depression !
----------------------------
One of the doctors revealed an amazing discovery in his speech by saying, “I get washed the face of patients of depression five times per day and after few days their disease reduced. Then I get washed face, hands and feet of a similar group of patients five times a day and they healed up to a
great extent.” The same doctor accepts in the end of his speech that the problem of depression is less in Muslims as they wash face, hands and feet (i.e. during Wuzu) several times daily.

Wuzu and The Blood Pressure!
-----------------------------------
A heart specialist assures that if a patient of hypertension is asked to perform Wuzu and then his blood pressure is checked, his B.P. will be definitely lower. A Muslim Psychiatrist states, “The best cure for psychiatric patients lies in Wuzu.” The western experts get washed body parts of
psychiatric patients several times like Wuzu.

Wuzu and Paralysis !
-------------------------
Even the order of washing organs during Wuzu is beneficial. Washing of hands in the first step motivates the nervous system of the body and then slowly effects transmit towards veins of face and brain. The order of washing hands, then mouth-wash, then nose-wash and then washing of remaining organs reduces probability of paralysis.

Pls spread this msg and let the whole world know that whatever Allah commands is for
the benefit of man kind...

تین طلاقوں کے وقوع کی دلیل

(حصہ نہم)9
از افادات: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
حدیث نمبر7:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمُنَادِى حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ : أَنَّ بَطَّالاً كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَطَلَّقَ امْرَأَتَهُ أَلْفًا فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ : إِنَّمَا كُنْتُ أَلْعَبُ فَعَلاَهُ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ بِالدِّرَّةِ وَقَالَ : إِنْ كَانَ لَيَكْفِيكَ ثَلاَثٌ.
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء ا لطلاق الثلاث)
ترجمہ: حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی رہتا تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق  دے دی۔ اس کا معاملہ جب  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو اس نے کہا کہ میں نے تو  محض دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں (یعنی ان سے میرا قصد اور ارادہ نہ تھا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا: تجھے تین ہی کافی ہیں۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
فَعَلاَ عُمَرُ رَأْسَهُ بِالدُّرَّةِ ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص12 باب فی الرجل يطلق امراتہ مئة او الفا فی قول واحد)
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درہ سے اس کی مرمت کی اور ان میاں بیوی کو جدا کر دیا۔
 
تحقیق السند:
السنن الکبریٰ کی روایت کی سند کے راویوں کی توثیق یہ ہے:
(1) ابو عبد اللہ الحافظ
آپ امام ابوعبداللہ  محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری ہیں۔ مشہور ثقہ امام ہیں ، صحیحین  پر لکھی گئی مشہور کتاب ”المستدرک“ آپ ہی کی لکھی ہوئی ہے۔ آپ کے بارے میں ائمہ نے یہ توثیقی جملے فرمائے ہیں:
علامہ ذہبی نے آپ کو ”الحافظ الكبير إمام المحدثين“ کہا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج3 ص162)
اور دوسرے مقام پر ”الامام الحافظ، الناقد العلامة، شيخ المحدثين“ فرمایا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: ج17 ص162 ص163)
امام ابن العماد  العکری فرماتے ہیں کہ آپ ”ثقہ“ اور ”حجت“ ہیں۔ (شذرات الذھب:ج3ص175)
(2) ابوالعباس محمدبن یعقوب
آپ ابوالعباس محمدبن یعقوب بن یوسف الاصم ہیں۔ آپ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،امام ذہبی آپ کی تعدیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الاِمَامُ، المُحَدِّثُ، مُسْنِدُ العَصْرِ۔ کہ آپ امام ہیں، محدث ہیں اور  مسند العصر ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء:ج15 ص452)
امام ابوالولید فرماتے ہیں: آپ مشہورثقہ ہیں۔ (تاریخ دمشق : ج56 ص293)
(3) محمد بن عبید اللہ المنادی
آپ صحیح البخاری کے راوی ہیں اور ”صدوق“ ہیں۔ (تقریب التہذیب: رقم الترجمہ6113، خلاصة تذهيب تهذيب الكمال للخزرجی: ص350)
امام ابن حبان نے ”ثقات“ میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات لابن حبان: ج9 ص132)
محدث محمد بن عبدوس نے آپ کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ (خلاصة تذهيب تهذيب الكمال للخزرجی: ص350)
علامہ عبد الحئی بن احمد عكری نے آپ کو ”محدث“ قرار دیا۔ (شذرات الذہب: ج2 ص162)
(4) وھب بن جریر
آپ ابو العباس وهب بن جرير بن حازم بن زيد بن عبدالله بن شجاع الازدی ہیں۔ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ ”ثقہ “ اور ”حافظ“ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ج11 ص141)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ایک دوسری کنیت ”ابو عبد اللہ“ بھی لکھی ہے۔ (تقریب التہذیب:  رقم الترجمۃ 7472)
(5) شعبہ بن الحجاج
آپ ابو  بِسطام شعبۃ بن الحجاج بن الورد الازدی العتکی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء: ج6 ص116)
آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے مرکزی راوی ہیں۔ (تقریب التہذیب:  رقم الترجمۃ2790)
سفیان ثوری آپ کو فنِ حدیث میں ”امیر المؤمنین “ کہتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج1 ص144)
آپ ثقہ، مامون، فن میں پختہ کار، محدث اور حجت تھے۔(الطبقات الکبریٰ: ج7 ص207)
ابو حفص عمر بن شاہین کہتے ہیں: امام شعبہ حدیث کے حافظ، جید عالم اور دین اسلام کے ان ائمہ و علماء میں سے تھے جو حدیث  کی نقد و پرکھ میں ممتاز شمار ہوتے تھے۔
(تاریخ اسماء الثقات: ص9)
(6) سلمہ بن کُھَیْل
ابو یحیی سلمہ بن کُھَیْل۔ آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ ثقہ، ثبت، مامون اور متقن راوی ہیں۔ (تہذیب التہذیب: ج1 ص137)
(7) زید بن وھب
ابو سلیمان زيد بن وهب الجہنی۔  آپ صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب:  رقم الترجمۃ2159)
راویوں کی توثیق سے ثابت ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
امام ابن ابی شیبہ نے بھی اس  حدیث کو اپنی کتاب ”المصنف“ میں روایت کیا ہے۔”المصنف“ کی  اس روایت کو عصر حاضر کے شیخ عبد السلام بن محسن آل عيسى نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
(دیکھیے: دراسة نقدية في المرويات الواردة في شخصية عمر بن الخطاب وسياسته الإدارية رضي الله عنه: ج2 ص981)

استدلال:
اس صحیح السند روایت سے ثابت ہوا کہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک کلمہ اور ایک مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے، اگر  ہزار طلاق دینے کا شرعاً دستور ہوتا تو ہزار ہی کو نافذ فرما دیتے، مگر چونکہ تین طلاقوں سے زائد کا شریعت میں ثبوت نہیں اس لیے ایک ہزار میں سے تین کے وقوع کا انہوں نے حکم فرمایا اور باقی کو لغو قرار دے دیا اور دفعۃً تین طلاقوں کے ناپسندیدہ ہونے اور اس شخص کی بے جا دل لگی پر درہ سے اس کی قدرے مرمت بھی کی تاکہ آئندہ کے لیے وہ ایسی نازیبا حرکت کا ارتکاب نہ کرے اور اس کو دیکھ کر دوسروں کو بھی عبرت ہو۔
تو یہ روایت تین طلاقوں کے وقوع کی واضح دلیل ہے۔

(جاری ہے)