ایس اے ساگر
بچہ کی بے دینی کیلئے ہم بھلے ہی اساتذہ کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں لیکن اہل علم کے نزدیک اس کی آموزش کا دور ماں کے پیٹ میں قرار پانے والے نطفہ سے بھی پہلے شروع ہوتا ہے، بوقت نکاح زوجین میں حسن کردار اور اسلامی قدروں کی اہمیت بچہ کی کام یاب زندگی میں غیر معمولی تاثیر ہی کی وجہ سے ہے، جدید تحقیقات نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ماں باپ کی اپنی تربیت ، ان کے جذبات وخواہشات، ان کے علم و ذہانت کااثر براہ راست بچوں پر پڑتا ہے، اس لیے مثالی اور باکردار اولاد کی آرزو کے حوالہ سے باپ کے اقدام، نکاح اور بیوی کے انتخاب کا مرحلہ انتہائی نازک اور بڑا اہم ہے، گھر اور خاندان ہی اولاد کے روشن یا تاریک مستقبل کا حقیقی سبب ہے ،ماں باپ کو اولاد کی تربیت میں سستی اور کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہئے، اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔
کہاں ہوتی ہے تعلیم و تربیت؟
ماں کی گود پہلا مدرسہ ہے، جہاں اس کی تربیت ہوتی ہے، یہاں معلمہ مربیہ خود اس کی ماں ہوتی ہے اور یہی بچہ کا پہلا مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں جیسی تربیت ہوگی اسی طرح کے اثرات بعد کی زندگی میں مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں اور دوسرا مدرسہ درودیوار کا مروجہ مدرسہ ہے، جہاں اس کا مربی معلم اور استاذ ہوتا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ماں باپ بچوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر صدقہ کروایا کرتے تھے، تاکہ ان کے قلوب سے مال کی محبت نکلے ، بخل کی عادت نہ پڑے اور غریبوں کی ہمدردی کا مزاج بنے، اس طرح بچپن ہی سے نمازوں کا شوق وذوق ان کے اندر پیدا کرتے تھے، خو د حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تواسے نماز پڑھنے کو کہا جائے اور جب دس برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کی جائے ۔
کب سے شروع کریں تربیت؟
حدیث شریف میں ہے کہ ماؤں کو چاہئے کہ بچوں کی تربیت کی فکر حمل کے زمانے ہی سے کرتی رہیں، آج کتنے ماں باپ ایسے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ماں باپ کے علاوہ سب کی بات سنتی ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ آپ نے اسی طرح تربیت کی تھی، یا نہیں؟ پہلے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ اولاد بنے گی تو میری وجہ سے، بگڑے گی تو میری وجہ سے، اس زمانے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بنے گی تو خود بنے گی اور بگڑے گی تو خودبگڑے گی، جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلے گا کہ اولاد تو بھگتے گی ہی، ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑے گا، آج کل اولاد کی وجہ سے لوگ کتنے پریشان ہیں؟ اس کی وجہ صحیح تربیت نہ ہونا ہے، جب کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، بہر حال آج کا سب سے بڑا المیہ اور فکر یہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صالح معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے اور جب صالح معاشرہ وجود میں نہیں آئے گا تو جرائم کی کثرت ہوگی۔
بچپن کی صحیح تربیت:
بچپن کی مثال ہمیشہ کمہار کی کچی مٹی سے دی جاتی ہے، بچوں کے کمہار اساتذہ اور والدین ہوتے ہیں، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر مستقبل میں ملک وملت کا نام روشن کریں، کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ناکام ہوں، یہ فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں اوراس کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بلکہ صحیح اور منظم طریقہ سے ہم ایسی عادات کا بچوں کو خوگر بنائیں ،جس کے وہ عادی ہوجائیں، مثلاً معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کریں، بیجا لاڈ پیار کی وجہ سے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگذر نہ کریں، کھیل کود کے لیے وقت مقرر کریں، بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈلوائیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سچے واقعات سنائیں، ادعیہ مسنونہ یاد کرائیں ،اگر مائیں اس طرح کا نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو اچھی اچھی عادات اور اطوار کی عادی بنائیں گی تو جلد ہی اس کا اچھا اثر بچوں میں ملاحظہ فرمائیں گی، کیوں کہ مستقبل میں یہی عادتیں کام یابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔
دینی تربیت کی ضرورت:
امت کے بچے دینی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے آج کافی پستی میں ہیں اور ان بچوں کے حق میں دین سیکھنے کا دروازہ بند ہوتا جارہا ہے، چوں کہ عصری تعلیم میں مذہبی عقائد کا ذکر نہیں ہے، مسلمانوں کے بزرگوں اور دینی پیشواؤں کا تذکرہ نہیں ہے اور اسکولی نصاب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے عقیدوں کے خلاف ہیں، اس میں دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا تذکرہ اس انداز سے ملتا ہے کہ پڑھنے والے بچوں کے دلوں میں ان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے اور بچوں کے سادہ ذہن پر دوسرے مذہب کے خیالات اور عقیدوں کی چھاپ لگ جائے ،انسانی فکر پرتعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ماحول کا اثر تعلیم سے بھی بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ اسکولوں میں ہندو مذہب کی بنیاد پر تیار شدہ ڈرامے، ناچ گانے کی مشقیں ، کہیں کہیں رام لیلا اور دوسرے ہندو تہواروں کے منانے کے لیے خصوصی پروگرام، غرض کہ پورا ماحول بچے کے ذہن پر اثر ڈالتا ہے اور بتدریج اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ بچوں کو اسکول میں داخل کرادینے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر سوائے فیس ادا کرنے یا امتحان پر بچوں کا نتیجہ معلوم کرلینے کے وہ بچوں کی دینی واخلاقی نگہ داشت کے بارے میں کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
تادیب میں احتیاط:
ماہرین کے نزدیک مار پیٹ بچوں کی نشو ونما کیلئے نقصان دہ ہے، حد سے زیادہ زد وکوب بچوں کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اگر چہ والدین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح کیلئے انہیں ہلکی پھلکی سزا دیں، لیکن مارپیٹ اور جسمانی تشدد نہیں کرنا چاہئے ، اس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کی نشوو نما میں مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور بچے ذہنی معذوری کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی، جس طرح چاہے، پٹائی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک تو اب قویٰ کمزور ہوگئے ہیں، بچوں میں تحمل نہیں رہا، ایک آدھ چھڑی لگادی تو الگ بات ہے، مگر ان پر غصہ نہیں نکالنا چاہیے، آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا حساب بھی ہوگا۔ شیخ العجم والعرب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ سہارن پوری کو ایک صاحب نے خط لکھا کہ میں بچوں کو بہت مارتا ہوں؟ حضرت شیخ نے جواب دیا
قیامت کا انتظار کرو کیا مطلب؟
قیامت کے دن تو حساب دینا پڑے گا، اس کی نافرمانی اور تمہاری سزا دونوں تو لے جائیں گے، اور انصاف کیا جائے گا ۔اس لیے بچوں کو زدوکوب کرنے سے پہلے اس کی سزا کا تصور بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
قیامت کا انتظار کرو کیا مطلب؟
قیامت کے دن تو حساب دینا پڑے گا، اس کی نافرمانی اور تمہاری سزا دونوں تو لے جائیں گے، اور انصاف کیا جائے گا ۔اس لیے بچوں کو زدوکوب کرنے سے پہلے اس کی سزا کا تصور بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
کس کی عادات سیکھتے ہیں بچے؟
بچے کی اچھی تربیت جہاں ان کے کام یاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے، بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اہم ترین ہوتا ہے ،بچہ کم عمری میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت محتاط رہنا چاہیے، ناپسندیدہ کاموں سے گریز کرنا چاہئے، بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرنا ہو تو نصیحتوں کیساتھ ساتھ خود بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے، آپ دیکھیں گے کہ بچے سچ بولنے کے عادی ہوجائیں گے۔ ایک برطانو ی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بچے اپنے والدین کی بری عادتیں جلدی سیکھ لیتے ہیں ،یہ تحقیق ایک سال تک جاری رہی۔ بہر کیف جوو الدین اپنے بچوں کو اچھے اور برے کے بارے میں بتاتے ہیں اگر وہ خود ہی ناپسندیدہ عادات کے مالک ہوں تو بچوں کی تربیت کیسے درست انداز میں کرسکیں گے؟
خود اعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت:
بچوں میں قیادت کی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے، ماہرین نفسیات کے مطابق اگر بروقت بچوں کو صحیح مواقع فراہم کردیے جائیں توجملہ صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے، نیز بچوں کی کوششوں کی تعریف ان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، ماں باپ کا تلخ رویہ بچے کے اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے، اپنے خیالات کو بچے پر مسلط نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس میں پوشیدہ صلاحیتیں باہر نکالنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ،بچے کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں سامنے رکھتے ہوئے اس کے مزاج و طاقت کو پرکھ کر ہی اسے ہدایت دینا چاہیے، صلاحیت سے زیادہ توقعات رکھنے سے بچنے میں احساس کمتری پیدا ہونے لگتی ہے ،ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں پر کلاس میں اول پوزیشن لانے کا دباؤ کبھی نہیں ڈالنا چاہیے، مزید دباؤ ڈالنے کی صورت میں کبھی کبھی بچے خود سوزی اور خود کشی تک کرلیتے ہیں، مختلف سوالات کا نام بچپن ہے، بچے ہر پل کچھ نیا جاننا یا سمجھنا چاہتے ہیں، والدین مصروفیت کے باوجود بچوں کے سوالات کے جواب دیں، جھڑکیں نہیں ،بچوں کے سوالات کا صحیح جواب دینا ہی انہیں صحت مند علم فراہم کرے گا۔
بڑوں کا احترام:
تعلیم کیساتھ تربیت اور بڑوں کا احترام زندگی کا جزءِ لاینفک ہے، ورنہ تعلیم سے خاک فائدہ ہوگا، اگرہم چاہتے ہیں کہ بچے بڑوں کا احترام کریں تو ہمیں بھی بچوں کیساتھ شفقت کا معاملہ کرنا پڑے گا، ان کے دوستوں کا بھی احترام واستقبال کرنا ہوگا، بچے کے دوست سے بھی بچے کی شکایت کرنا مناسب نہیں ہے، اس کے دوستوں کے سامنے اپنے بچوں کو ڈانٹنا، پھٹکارنا یا مارنا یا ان پر تنقید کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، بہر حال وقت کے پیش نظر مصلحت وحکمت کے ساتھ بچہ کو تربیت دیں۔ والدین کو اپنی اولاد کے روشن مستقبل اور مثالی انسان بنانے کے خواب کی تکمیل کیلئے ماحول کی اصلاح اور تعمیری خطوط پر ہونے والی کوششوں میں حصہ لینا بھی ضروری ہے، تاکہ بچے غلط راہ پر جانے سے ہر وقت محفوظ و مامون رہیں۔
تربیت کے رہنما اصول:
بنی نوع انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا میں بے شمار انعامات اور نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک عظیم نعمت اولاد ہے، نکاح کے بعد ہر شخص کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے، اس کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں ،اور اللہ تبارک و تعالیٰ جسے چاہتا ہے، اُسے اس عظیم نعمت سے نواز دیتا ہے۔کسی کو بیٹا، کسی کو بیٹی اور کسی کو دونوں ایک ساتھ‘ جبکہ بعض کو اپنی کسی حکمت کی بنا پر اولاد ہی نہیں دیتا۔ اولاد کے تعلق سے شریعت اسلامیہ نے ماں باپ پر کئی ذمہ داریاں عائد کی ہیں ،سورہ تحریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
حدیث میں بھی تاکید ہے کہ ...
’’اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کو خیر و بھلائی کی باتیں سکھاؤ اور ان کو ادب سکھاؤ۔‘‘
تربیتِ اولاد کی اہمیت مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی تر بیت کو والدین کی اہم ذمہ داری قرار دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اولا د کی صورت میں نعمت دے تو اس پر لازم ہے کہ ان کی صحیح تر بیت کریں ، والدین بچے کے مربی ہوتے ہیں جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی۔اس لئے جہاں والدین بچہ کی جسمانی ضروریات پوری کر نے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارا بچہ جسمانی طور پر تندرست و توانا بنے وہیں علم و ادب سکھانے کی بھی کوشش کرنا ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ جب ماں باپ بچوں کی تر بیت اچھی طرح کرتے ہیں تو پھر بچوں کے جسم ہی نشو و نما نہیں پاتے بلکہ ان کے دل و دماغ کی صلاحیتیں بھی کھلتی ہیں۔کسی دانشوروں کا مقولہ ہے:
’’جو شخص اپنے بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ دشمن کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔‘‘
ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ
’’جو شخص بچہ کو بچپن میں ادب سکھاتا ہے وہی بچہ بڑا ہو کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔‘‘
اس لئے والدین کو بچوں کی تر بیت سے ذرا بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے۔یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وہ کسان جو اپنے کھیت پر محنت نہیں کرتا، اس کے کھیت میں بہت سی ایسی خود رو گھاس اُگ آتی ہیں جو اس کی اصل فصل کو خراب کر دیتی ہیں اسی طرح والدین جب بچے کی تربیت کا خیال نہیں کرتے تو بچے کے اندر بہت سے برے اخلاق پیدا ہو جاتے ہیں جو اس کی اصل شخصیت کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔‘‘ بنیادی طور پر بچے کی شخصیت پر تین چیزوں کے اثرات پڑتے ہیں۔سب سے پہلے اس کے والدین اور گھر یا خاندان کا اثر، پھراس کی گلی کوچے کا اثر اور پھر جس مدرسے یا اسکول میں وہ پڑھنے جاتا ہے اس کا اثر پڑتا ہے۔ لیکن والدین کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کیلئے صحیح تربیت کے ساتھ ساتھ صحیح راستہ متعین کرنے میں ان کی رہنمائی اور معاونت کریں۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود:بچے کی زندگی کا پہلا مسکن ماں کی ٹھنڈی، میٹھی اور شفقت بھری گود ہوتی ہے۔آغوشِ مادر کے ان برسوں میں ماں بچوں کے لیے مرشد کا کام کرتی ہے۔ ماں اگر بچے پر محنت کرے تو یہ ماں کی گود سے مادر زاد ولی ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے ماں کی تربیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ماں کو اپنے بچے کی تربیت کا خیال اسی دن سے رکھنا چاہئے جس دن بچہ پیدا ہو،بلکہ یہ خیال ان کو حاملہ ہونے کے وقت سے ہی ہونا چاہئے۔بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے ذمہ مندرجہ ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں :
بچے کو ماں کا تحفہ جب اللہ تعالیٰ کے اذن سے بچے کی ولادت ہوتی ہے تو ماں باپ کیلئے یہ انتہائی خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس خوشی کے بدلے بچے کے واسطے ماں کا پہلا تحفہ اس کا اپنا دودھ ہوتا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کو اپنا ہی دودھ ضرور پلائے۔ ہاں اگر دودھ کم ہو یا طبی طور پر ٹھیک نہیں ، نقصان دہ ہو تو یہ اور بات ہے لیکن اگر ماں کا دودھ بچے کیلئے ٹھیک ہے تو اس سے بہتر غذا بچے کو اور کوئی نہیں مل سکتی۔ ہر ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کو ضرور اپنا دودھ پلائے تاکہ بچے کے اندر ماں کی محبت و عظمت آ جائے، اگر ماں دودھ ہی نہیں پلائے گی تو ماں کی محبت و شفقت کا اثر بچے کے اندر کیسے پیدا ہو گا…؟ عام طور پر بہت سی مائیں اپنی رعنائی Smartens کو مد نظر رکھتے ہوئے بچے کو دودھ پلانے سے گھبراتی ہیں اور شروع ہی سے بچے کا انحصار ڈبہ بند دودھ پر رکھتی ہیں لہٰذا جب ڈبے کا دودھ پی کر بچے بڑے ہوتے ہیں تو ماں کی ممتا ان میں اثر پذیر نہیں ہوتی، بلکہ وہ ماں کو ایک دائی کے طور پر تصور کرتے ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ ڈبے کا پیا تعلیم ہے سر کا رکی
جب بچے نے نہ تو دین کی تعلیم پائی اور نہ ہی ماں کا دودھ پیا، تو پھر اس میں اچھے اخلاق کہاں سے آئیں گے، یہ بات ذرا غور طلب ہے۔
’’اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
حدیث میں بھی تاکید ہے کہ ...
’’اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کو خیر و بھلائی کی باتیں سکھاؤ اور ان کو ادب سکھاؤ۔‘‘
تربیتِ اولاد کی اہمیت مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی تر بیت کو والدین کی اہم ذمہ داری قرار دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اولا د کی صورت میں نعمت دے تو اس پر لازم ہے کہ ان کی صحیح تر بیت کریں ، والدین بچے کے مربی ہوتے ہیں جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی۔اس لئے جہاں والدین بچہ کی جسمانی ضروریات پوری کر نے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارا بچہ جسمانی طور پر تندرست و توانا بنے وہیں علم و ادب سکھانے کی بھی کوشش کرنا ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ جب ماں باپ بچوں کی تر بیت اچھی طرح کرتے ہیں تو پھر بچوں کے جسم ہی نشو و نما نہیں پاتے بلکہ ان کے دل و دماغ کی صلاحیتیں بھی کھلتی ہیں۔کسی دانشوروں کا مقولہ ہے:
’’جو شخص اپنے بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ دشمن کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔‘‘
ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ
’’جو شخص بچہ کو بچپن میں ادب سکھاتا ہے وہی بچہ بڑا ہو کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔‘‘
اس لئے والدین کو بچوں کی تر بیت سے ذرا بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے۔یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وہ کسان جو اپنے کھیت پر محنت نہیں کرتا، اس کے کھیت میں بہت سی ایسی خود رو گھاس اُگ آتی ہیں جو اس کی اصل فصل کو خراب کر دیتی ہیں اسی طرح والدین جب بچے کی تربیت کا خیال نہیں کرتے تو بچے کے اندر بہت سے برے اخلاق پیدا ہو جاتے ہیں جو اس کی اصل شخصیت کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔‘‘ بنیادی طور پر بچے کی شخصیت پر تین چیزوں کے اثرات پڑتے ہیں۔سب سے پہلے اس کے والدین اور گھر یا خاندان کا اثر، پھراس کی گلی کوچے کا اثر اور پھر جس مدرسے یا اسکول میں وہ پڑھنے جاتا ہے اس کا اثر پڑتا ہے۔ لیکن والدین کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کیلئے صحیح تربیت کے ساتھ ساتھ صحیح راستہ متعین کرنے میں ان کی رہنمائی اور معاونت کریں۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود:بچے کی زندگی کا پہلا مسکن ماں کی ٹھنڈی، میٹھی اور شفقت بھری گود ہوتی ہے۔آغوشِ مادر کے ان برسوں میں ماں بچوں کے لیے مرشد کا کام کرتی ہے۔ ماں اگر بچے پر محنت کرے تو یہ ماں کی گود سے مادر زاد ولی ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے ماں کی تربیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ماں کو اپنے بچے کی تربیت کا خیال اسی دن سے رکھنا چاہئے جس دن بچہ پیدا ہو،بلکہ یہ خیال ان کو حاملہ ہونے کے وقت سے ہی ہونا چاہئے۔بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے ذمہ مندرجہ ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں :
بچے کو ماں کا تحفہ جب اللہ تعالیٰ کے اذن سے بچے کی ولادت ہوتی ہے تو ماں باپ کیلئے یہ انتہائی خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس خوشی کے بدلے بچے کے واسطے ماں کا پہلا تحفہ اس کا اپنا دودھ ہوتا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کو اپنا ہی دودھ ضرور پلائے۔ ہاں اگر دودھ کم ہو یا طبی طور پر ٹھیک نہیں ، نقصان دہ ہو تو یہ اور بات ہے لیکن اگر ماں کا دودھ بچے کیلئے ٹھیک ہے تو اس سے بہتر غذا بچے کو اور کوئی نہیں مل سکتی۔ ہر ماں کو چاہئے کہ وہ بچے کو ضرور اپنا دودھ پلائے تاکہ بچے کے اندر ماں کی محبت و عظمت آ جائے، اگر ماں دودھ ہی نہیں پلائے گی تو ماں کی محبت و شفقت کا اثر بچے کے اندر کیسے پیدا ہو گا…؟ عام طور پر بہت سی مائیں اپنی رعنائی Smartens کو مد نظر رکھتے ہوئے بچے کو دودھ پلانے سے گھبراتی ہیں اور شروع ہی سے بچے کا انحصار ڈبہ بند دودھ پر رکھتی ہیں لہٰذا جب ڈبے کا دودھ پی کر بچے بڑے ہوتے ہیں تو ماں کی ممتا ان میں اثر پذیر نہیں ہوتی، بلکہ وہ ماں کو ایک دائی کے طور پر تصور کرتے ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ ڈبے کا پیا تعلیم ہے سر کا رکی
جب بچے نے نہ تو دین کی تعلیم پائی اور نہ ہی ماں کا دودھ پیا، تو پھر اس میں اچھے اخلاق کہاں سے آئیں گے، یہ بات ذرا غور طلب ہے۔
بچے پر دودھ کے اثرات :
ایک ماں اپنے بیٹے سے ناراض ہوئی کہنے لگی بیٹے! تم نے میری بات نہ مانی تو میں کبھی بھی تمہیں اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی۔
اس نے مسکرا کر کہا، امی ! میں تو ڈبے کا دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں آپ نے تو مجھے اپنا دودھ پلایا ہی نہیں مجھے معاف کیا کریں گی…؟
واقعی ایسا ہی دیکھا جا رہا ہے کہ ڈبوں کے دودھ کے اثرات اور ہوتے ہیں اور ماں کے دودھ کے اثرات کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ ماں کو چاہئے کہ بچے کو خود دودھ پلائے، خود بسم اللہ پڑھ لے اور جتنی دیر بچہ دودھ پیتا رہے، ماں اللہ کے ذکر میں مشغول رہے، اللہ رب العزت کی یاد میں مشغول رہے، دعائیں کرتی رہے کہ اللہ ، میرے دودھ کے ہر ایک قطرے میں میرے بیٹے کو علم و عمل کا سمندر عطا فر ما جبکہ ماں کی اس وقت کی دعائیں اللہ کے یہاں قبول ہوتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اسلاف کی ماؤں نے تو انہیں ایسی تربیت کی کہ با وضو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھیں۔ اگر آج کوئی با وضو دودھ پلائے تو وہ بڑی خوش نصیب ہے اور اگر وضو نہیں کر سکتی تو کم از کم دودھ پلاتے وقت اللہ کا ذکر تو کر سکتی ہے۔یہ نہ کرے کہ ادھر دودھ پلا رہی ہیں ادھر بیٹھی ٹی وی پر فحاشیات کا نظارہ کر رہی ہیں ، اکثر تجربہ کیا گیا ہے کہ اگر ماں اپنے بچہ کو گناہ کی حالت میں دودھ پلائے گی تو یہ بچہ نا فر مان بن جاتا ہے اپنے خالق و مالک باری تعالیٰ کا بھی اور ماں باپ کا بھی۔لہٰذا ماں کی پہلی اہم ذمہ داری یہی بنتی ہے کہ وہ بچے کو اخلاقی نقطہ نظر سامنے رکھ کر صحیح طریقے سے دودھ پلائے۔
اس نے مسکرا کر کہا، امی ! میں تو ڈبے کا دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں آپ نے تو مجھے اپنا دودھ پلایا ہی نہیں مجھے معاف کیا کریں گی…؟
واقعی ایسا ہی دیکھا جا رہا ہے کہ ڈبوں کے دودھ کے اثرات اور ہوتے ہیں اور ماں کے دودھ کے اثرات کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ ماں کو چاہئے کہ بچے کو خود دودھ پلائے، خود بسم اللہ پڑھ لے اور جتنی دیر بچہ دودھ پیتا رہے، ماں اللہ کے ذکر میں مشغول رہے، اللہ رب العزت کی یاد میں مشغول رہے، دعائیں کرتی رہے کہ اللہ ، میرے دودھ کے ہر ایک قطرے میں میرے بیٹے کو علم و عمل کا سمندر عطا فر ما جبکہ ماں کی اس وقت کی دعائیں اللہ کے یہاں قبول ہوتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اسلاف کی ماؤں نے تو انہیں ایسی تربیت کی کہ با وضو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھیں۔ اگر آج کوئی با وضو دودھ پلائے تو وہ بڑی خوش نصیب ہے اور اگر وضو نہیں کر سکتی تو کم از کم دودھ پلاتے وقت اللہ کا ذکر تو کر سکتی ہے۔یہ نہ کرے کہ ادھر دودھ پلا رہی ہیں ادھر بیٹھی ٹی وی پر فحاشیات کا نظارہ کر رہی ہیں ، اکثر تجربہ کیا گیا ہے کہ اگر ماں اپنے بچہ کو گناہ کی حالت میں دودھ پلائے گی تو یہ بچہ نا فر مان بن جاتا ہے اپنے خالق و مالک باری تعالیٰ کا بھی اور ماں باپ کا بھی۔لہٰذا ماں کی پہلی اہم ذمہ داری یہی بنتی ہے کہ وہ بچے کو اخلاقی نقطہ نظر سامنے رکھ کر صحیح طریقے سے دودھ پلائے۔
پیدائش کے بعد تہنیک :
جب بچے کی پیدائش ہو تو بچے کی تہنیک کروانا سنت ہے۔ تہنیک یہ ہے کہ کسی نیک بندے کے منہ میں کوئی چپائی ہوئی کھجور یا شہد ہو تو ایسی کوئی چیز بچے کے منہ میں ڈالنا۔ چنانچہ یہ تہنیک کسی نیک بندے سے کر وانی چاہئے۔ اس کی بہت ساری بر کات دیکھی گئی ہیں۔
کان میں اذان و اقامت :
تہنیک کروانے کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان کے اندر اقامت کہی جاتی ہے یہ اللہ رب العزت کا نام ہے جو بچے کے دونوں کانوں میں کہا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں بچہ ابھی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا مگر اس کے کانوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بلندی اور عظمتوں کے تذکرے کروا دیئے گویا اللہ کی عظمت سکھا دی گئی اور ایک پیغام پہنچا دیا گیا کہ جس طرح دنیا کے اندر اذان ہوتی ہے پھر اقامت ہوتی ہے اور اقامت کے بعد نماز پڑھنے میں تھوڑی دیر ہوتی ہے بالکل اسی طرح اے بندے تیری زندگی کی اذان بھی کہی جا چکی ہے تیری زندگی کی اقامت بھی کہی جا چکی ہے۔تیری زندگی نماز کے مانند ہے اور نماز تو ہمیشہ امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہے ایک شرعی طریقے سے پڑھی جاتی ہے تو یہ ایک پیغام ہے کہ اگر تو اپنی زندگی کو بھی صحیح گزارنا چاہتا ہے تو شریعت کے طریقہ کو اپنا لینا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کی نماز کا امام بنا لینا پھر تیری نماز قبول ہو جائے گی اور بالآخر تجھے قبر میں جانا ہی ہے۔ تو یہ ابتدا میں اللہ رب العزت کا پیغام اس طرح اس بچے کے ذہن میں پہنچا دیا جاتا ہے، کہ تو مسلم ہے اور تیری زندگی کا ہر لمحہ اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔
بچے کا اچھا نام رکھنا :
پیدائش کے بعد جلد از جلد بچے کا اچھا سا نام رکھا جائے جیسے اللہ رب العزت کو ’عبد‘ سے شروع ہونے والے نام پسند ہیں۔ عبد اللہ اور عبد الرحمن نام سب سے زیادہ پسند ہیں ، اسی طرح عبد الرحیم نام پسند ہے، تو ایسے نام رکھیں کہ قیامت کے دن جب پکارے جائیں تو اللہ رب العزت کو اس بندے کو جہنم میں ڈالتے ہوئے حیا محسوس ہو۔ اللہ تعالیٰ محسوس فر مائیں یہ میرا بندہ میرے رحمت والے نام کے ساتھ پکارا جاتا رہا اب اس کو جہنم میں کیسے ڈالوں۔آج کل ماں باپ نئے ناموں کی خوشی میں ایسے اُلٹے سیدھے نام رکھتے ہیں جو بے معنیٰ ہو جن کے معانی کا نہ ان کو پتا نہ کسی اور کو پتا، مہمل قسم کے نام رکھ دیتے ہیں یہ بچے کے ساتھ زیادتی ہے۔ بچے کے حقوق میں سے ہے ایک حق یہ ہے کہ اس کا ایک اچھا سا نام رکھا جائے۔ ماں باپ کو چاہئے کہ بچے کا ایسام نام رکھیں کہ جب بچہ بڑا ہو اور اس کا نام پکارا جائے تو اسے خوشی ہو۔ یہ بچے کا حق ہے ماں باپ بچے کو انبیاء کرام کے ناموں میں سے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں سے کوئی نام دیں۔ محمد کا نام احمد کا نام بہت پیارا ہے، ہمارے اسلاف تو کئی کئی نسلوں تک محمد سے شروع رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے ماں باپ کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا نام سوچ سمجھ کر رکھیں ، بچہ خدا کی نعمت ہے اور اس کا نام ایسا رکھا جائے کہ اس پر اس کے اثرات مرتب ہوں۔
بچے کا عقیقہ کرنا :
بچے کی ولادت کے بعد جلد ہی عقیقہ کرنا بھی سنت ہے بیٹے کیلئے دو اور بیٹی کے لئے ایک بھیڑ۔یہ خوشی کا اظہار ہے پھر خود بھی کھائیں ، رشتے داروں کو بھی کھلائیں اور غریبوں کو بھی اس میں ضرور یاد رکھیں۔ بچوں کے سامنے بے شرمی والی باتوں سے اجتناب :بچے کا دماغ کیمرے کی طرح ہوتا ہے وہ ہر چیز کا عکس محفوظ کر لیتا ہے۔حکماء نے لکھا ہے کہ چھوٹے بچے کے سامنے بھی کوئی بے شرمی والی حرکت نہ کریں۔ میاں بیوی کوئی ایسا معاملہ نہ کریں کہ یہ چھوٹا ہے اسے کیا پتہ اگر چہ وہ چھوٹا ہے لیکن اس کے ذہن میں سابقہ ادوار کے مناظر نقش ہو جاتے ہیں اس لئے اس کا خاص خیال رکھیں۔ بچے کو گود میں لے کر ذکر و اذکار کا معمول: جب بھی ماں باپ عبادت یا تلاوت کیلئے بیٹھیں تو اپنے بچے کو بھی گود میں لے کر بیٹھیں ،اللہ رب العزت کا کلام اس حال میں پڑھیں کہ بچہ ان کی گود میں ہو پھر قرآن پڑھنے کی برکتوں کو دیکھ لیں کہ اس کا اثر خود بخود بچے کے اندر جائے گا۔اسی طرح جب بھی عبادت کرنے،تلاوت کرنے دعا کرنے بیٹھیں تو بچے کو اپنی گود میں لے کر بیٹھنے کی کوشش کریں ،جب بچے کو کھلانا ہو،سلانا ہو تو بچے کو لوری بھی اچھی سنائیں اور’ اللہ ‘ کا نام اس کے سامنے زیادہ سے زیادہ کہنے کی کوشش کریں۔کیونکہ بچہ پیدائشی مسلم ہے اور اللہ کا فرمانبردار رہنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے کانوں میں زیادہ سے زیادہ اس کا ذکر ہو، اس کی تسبیح ہو، اس کی حمد و ثنا ہو۔ ان شاء اللہ بچے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بچے کو سکون کی نیند دلانے کے لیے دعا: کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے رات کو جلد نہیں سوتے بلکہ روتے رہتے ہیں اس لیے کہ ان کو نیند نہیں آتی، دراصل بات یہ ہے کہ وہ بیچارے بول بھی نہیں سکتے اپنے جسم کی تکلیف بھی بتا نہیں سکتے،اس لیے ضرورت ہے کہ ماں خود اندازہ لگا لے کہ فلاں وجہ سے رو رہا ہے اور اگر ماں کسی وجہ سے یہ نہ سمجھے تو ماں کو خود بخود اس بچہ پر غصہ آ جاتا ہے کہ یہ روتا ہے اورسونے کا نام ہی نہیں نہیں لیتا۔ایسے موقعے پر ماں کو چاہئے کہ وہ صبر وہ تحمل سے کام لے اور اللہ کی بارگاہ میں اس بچے کے حق میں دعا کرے۔ اللہ رب العزت بچے کو سکون کی نیند عطا فرمائے گا۔
سب سے پہلے ’اللہ‘ کہنا سکھائیں :
جس ماں نے یا باپ نے بچے کی تربیت ایسی کی کہ اس نے بولنا شروع کیا اور اس نے سب سے پہلے اللہ کا نام زبان سے ادا کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے ماں باپ کے سب پچھلے گناہوں کو معاف فر ما دیتے ہیں۔ اب یہ کتنا آسان کام ہے لیکن اس کے برعکس آج کل کی مائیں اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتیں ،کئی عورتوں کو تو پتہ ہی نہیں ہوتابس اِدھر اُدھر کے گپ شپ میں مشغول رہتی ہیں اور بچے کو اللہ کے نام کے تعارف کے بجائے فلمی دنیا کی باتیں سکھاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح سوچ عطا فرمائے۔ بچوں سے پہلے امی ابو نہ کہلوائیں ان کے سامنے پہلے اللہ کا لفظ کہیں اور بار بار کہیں جب بار بار اللہ کہیں گی تو بچہ بھی اللہ ہی بولے گا اور یہ لفظ اس کے لیے ادا کرنا آسان ہے، اگر لوری بھی سنائیں تو ایسی سنائیں جو پیار والی،نیکی والی ہو پہلے مائیں اپنے بچوں کو اوّل کلمہ لوری سناتی تھیں ’لَاْاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘ لا الٰہ کی ضربیں لگتی تھیں تو بچہ کے دل پر اس کے اثرات مرتب ہوتے تھے۔جس سے ایک تو ماں کا وقت اللہ کے ذکر میں گزر جاتا تھا دوسرے بچے کو اللہ کا نام بار بار سننے کا موقع ملا کرتا تھا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں :
’’ ماں کہتی تھی اللہ اللہ، لوری دودھ بھری کٹوری، زلفی دودھ پئے گا نیک بن کر جئے گا۔‘‘
فر ماتے ہیں کہ شاید یہ ماں کی وہ دعائیں ہیں کہ اللہ نے نیک لوگوں کے قدموں میں یعنی صحبت میں بیٹھنے کی جگہ عطا فر مادی۔ آج پچاس سال یعنی نصف صدی گز ر گئی مگر وہ نیک بن کر جئے گا کے الفاظ آج بھی ذہن کے اندر اپنے اثرات رکھتے ہیں تو اس لئے ماں کو چاہئے کہ لوری بھی سنائیں تو ایسی ہو کہ جس میں نیکی کا پیغام بچے کو پہنچ رہا ہو۔
’’ ماں کہتی تھی اللہ اللہ، لوری دودھ بھری کٹوری، زلفی دودھ پئے گا نیک بن کر جئے گا۔‘‘
فر ماتے ہیں کہ شاید یہ ماں کی وہ دعائیں ہیں کہ اللہ نے نیک لوگوں کے قدموں میں یعنی صحبت میں بیٹھنے کی جگہ عطا فر مادی۔ آج پچاس سال یعنی نصف صدی گز ر گئی مگر وہ نیک بن کر جئے گا کے الفاظ آج بھی ذہن کے اندر اپنے اثرات رکھتے ہیں تو اس لئے ماں کو چاہئے کہ لوری بھی سنائیں تو ایسی ہو کہ جس میں نیکی کا پیغام بچے کو پہنچ رہا ہو۔
خالق حقیقی کا تعارف کروانا:
بچے کا ایمان مضبوط کر نے کیلئے ماں کو چاہئے کہ وہ کو شش کرتی رہے کہ بچہ بڑ ا ہو گیا اب اس کو کوئی ڈرانے کی بات آئی تو کبھی بھی کتے بلی سے نہ ڈرائیں ، کبھی بھی جن بھوت سے نہ ڈرائیں ، جب بھی کوئی بات ہو تو بچے کے ذہن میں اللہ کا تصور بٹھائیں کہ اگر تم ایسے کرو گے تو اللہ میاں ناراض ہو جائیں گے۔ جب آپ پیار سے سمجھائیں گی کہ اللہ میاں ناراض ہو جائیں گے تو بچہ پو چھے گا کہ اللہ میاں کون ہیں ؟اس طرح آپ ایک ماں کو اللہ رب العزت کا تعارف کرانے کا موقع مل جائے گا، وہ تعارف کروائیں کہ اللہ وہ ہے جس نے آپ کو دودھ عطا کیا، اللہ وہ ہے جس نے آپ کو سننے کی طاقت دی، دیکھنے کو آنکھیں دی،جس نے آپ کو عقل عطا کی، جس نے مجھے بھی پیدا کیا اور آپ کو بھی پیدا کیا، ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔جب ماں اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریفیں کریں گی اور اس کے انعامات کا تذکرہ کریں گی تو بچپن ہی سے بچے کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت اور جنت میں جانے کا شوق پیدا ہو جائے گا۔ اس طرح اس کے دل میں ایمان مضبوط ہو گا۔
بچپن ہی سے تر بیت کرنا:
ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اولاد کو دین سکھائیں تاکہ بچے بڑے ہو کر ماں باپ کی فر ماں برداری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے بھی فرماں بردار بنیں۔ شروع سے بچے کو نیکی سکھانا ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ ماں بننا آسان ہے مگر ماں بن کر تر بیت کرنا مشکل کام ہے، آج کل کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ بچیاں جوان ہو جاتی ہیں ، شادی کے بعد مائیں بن جاتی ہیں مگر دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ان کو سمجھ نہیں آتا کہ بچوں کی تر بیت کیسے کرنی ہے ؟اس لئے جوان لڑکیوں اور ماؤں کا ایسی محفلوں میں جانا ضروری ہے جہاں ان کو معلوم ہو جائے کہ دینی نقطۂ نظر سے اپنی اولاد کی تر بیت کیسے کرنی ہے؟ اولاد کا حق ماں باپ پر : حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ کے سامنے ایک باپ اپنے بیٹے کو لے کر آیا۔ بیٹا جوانی کی عمر میں تھا مگر وہ ماں باپ کا نا فر مان تھا۔اس نے آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے مگر میری کوئی بات نہیں مانتا نا فر مان ہو گیا ہے،آپ اسے سزا دیں یا سمجھائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب باپ کی بات سنی تو بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ بتاؤ تم اپنے باپ کی نافر مانی کیوں کرتے ہو؟
بیٹے نے جواباً پوچھا کہ امیر المؤمنین ، کیا والدین کے ہی اولاد پر حقوق ہوتے ہیں یا اولاد کا بھی ماں باپ پر کوئی حق ہوتا ہے ؟
امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
بیٹے کا بھی حق ہوتا ہے، تو اس نے کہا کہ میرے باپ نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا۔ سب سے پہلے اس نے جو ماں چنی وہ ایک باندی تھی جس کے پاس کوئی علم نہیں تھا، نہ اس کے اخلاق صحیح، نہ علم، اس نے اس کو اپنا یا اور اس کے ذریعہ سے میری ولادت ہو گئی۔ دوسرے میرے باپ نے میرا نام ’جعل ‘ رکھا۔جعل کا لفظی مطلب ’گندگی کا کیڑا ‘ ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی رکھنے والا نام تھا جو میرے باپ نے رکھا؟ پھر ماں کے پاس دینی علم نہیں تھا اس نے مجھے کوئی دین کی بات نہیں سکھائی اور میں بڑا ہو کر جوان ہو گیا۔ اب میں نا فر مانی نہیں کروں گا تو اور کیا کروں گا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فر مایا کہ بیٹے سے زیادہ تو ماں باپ نے اس کے حقوق کو پامال کیا، اس لئے اب یہ بیٹے سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتے اور آپ نے مقدمے کو خارج کر دیا۔
بیٹے نے جواباً پوچھا کہ امیر المؤمنین ، کیا والدین کے ہی اولاد پر حقوق ہوتے ہیں یا اولاد کا بھی ماں باپ پر کوئی حق ہوتا ہے ؟
امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
بیٹے کا بھی حق ہوتا ہے، تو اس نے کہا کہ میرے باپ نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا۔ سب سے پہلے اس نے جو ماں چنی وہ ایک باندی تھی جس کے پاس کوئی علم نہیں تھا، نہ اس کے اخلاق صحیح، نہ علم، اس نے اس کو اپنا یا اور اس کے ذریعہ سے میری ولادت ہو گئی۔ دوسرے میرے باپ نے میرا نام ’جعل ‘ رکھا۔جعل کا لفظی مطلب ’گندگی کا کیڑا ‘ ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی رکھنے والا نام تھا جو میرے باپ نے رکھا؟ پھر ماں کے پاس دینی علم نہیں تھا اس نے مجھے کوئی دین کی بات نہیں سکھائی اور میں بڑا ہو کر جوان ہو گیا۔ اب میں نا فر مانی نہیں کروں گا تو اور کیا کروں گا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فر مایا کہ بیٹے سے زیادہ تو ماں باپ نے اس کے حقوق کو پامال کیا، اس لئے اب یہ بیٹے سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتے اور آپ نے مقدمے کو خارج کر دیا۔
بچے کو بد دعا نہ دینا:
بعض مرتبہ بچے غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اگر بچہ غلطی کرے،آپ کو تکلیف پہنچائے اور جتنا بھی ستائے مگر کسی حال میں بھی بچے کو بد دُعا نہ دیجئے۔شیطان دھوکہ دے کر ماں کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ میں دل سے بد دعا نہیں کر رہی ہوں اوپری دل سے ہی کہہ رہی ہوں اور اس دھوکہ میں کئی مر تبہ مائیں آ جاتی ہیں اور زبان سے برے الفاظ کہہ جاتی ہیں۔ یاد رکھئے یہ اولاد اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک نعمت ہے، اس کو بد دعا دینا نعمت کی ناقدری ہے۔اپنی زبان سے بد دعا نہ دے بلکہ بچوں کیلئے خوب خوب دعائیں کیا کریں ، رات کو تنہائی میں بھی اللہ سے لو لگا کر بیٹھیں۔آج بچیوں کو تربیت کا پتہ نہیں ہوتا، کئی تو بیچاری ایسی ہوتی ہیں کہ چھوٹے سے بچے سے اگر غلطی ہو ئی یا بچے نے بولنا شروع کر دیا تو غصہ میں آ کر اب اس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہہ رہی ہیں۔ کبھی اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتی ہیں۔زندگی میں کوئی ایسا وقت نہ آئے کہ غصہ میں آ کر آپ بد دعائیں دینے لگ جائیں ، ایسا کبھی نہ کیجئے۔اللہ کے یہاں ماں کا جو مقام ہے۔ماں کے دل اور زبان سے جو دعا نکلتی ہے وہ سیدھی قبول کی جاتی ہے، عرش کے دروازے کھل جاتے ہیں تو اللہ کے یہاں پیش کر دی جاتی ہے اور قبول کر لی جاتی ہے۔مگر شیطان بڑا مردود ہے وہ ماں کے ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ میں گالی تو دیتی ہوں مگر میرے دل میں نہیں ہوتی۔ یہ شیطان کا بڑا پھندا ہے حقیقت میں تو بد دعا کے الفاظ کہلواتا ہے اور ماں کو تسلی دیتا ہے کہ تو نے تو کہا تھا کہ تم مر جاؤ مگر اصل میں یہ تمہارے دل میں نہیں تھا۔ کبھی بھی شیطان کے دھوکہ میں نہ آنا چاہئے۔
ماں کی بد دُعا کا اثر:
ایک عورت کو اللہ نے بیٹا دیا مگر وہ غصے میں خود پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود کو کو سنے لگ جاتی ایک مرتبہ بچے نے کوئی بات ایسی کر دی کہ ماں کو غصہ آیا اور کہنے لگی کہ تو مر جاتا تو اچھا تھا،اب ماں نے جو الفاظ کہہ دیئے اللہ نے اس کی دعا کو قبول کر لیا مگر بچے کو اس وقت موت نہ دی،بلکہ اس بچے کو اللہ نے نیک بنا یا اچھا اور لائق بنایا۔ جب وہ جوان ہوا،نیک بن گیا،لوگوں میں عزت ہوئی، لوگ نام لیتے کہ بیٹا ہو تو ایسا ہو جیسا کہ یہ بیٹا ہے اور اللہ نے اس کو کاروبار بھی اچھا دیا،لوگوں میں اس کی عزت تھی، خوب تذکرے اور چرچے تھے، اب ماں نے اس کی شادی کا پروگرام بنایا۔ خوبصورت لڑکی تلاش کی، شادی کی تیاریاں ہوئیں جب شادی میں صرف چند ہی دن باقی رہ گئے اس وقت اللہ نے اس بیٹے کو موت عطا کر دی۔ اب ماں رونے بیٹھ گئی کہ میرا تو جوان بیٹا رخصت ہو گیا۔ رو رو کر اس کا برا حال ہو گیا۔ کسی اللہ والے کو اللہ نے خواب میں بتا یا کہ ہم نے اس کی دعا ہی کو قبول کیا تھا۔جب اس نے بچپن میں کہا تھا کہ تو مر جاتا تو اچھا تھا، ہم نے یہ نعمت اس وقت واپس نہیں لی ہم نے اس نعمت کو بھر پور بننے دیا۔جب عین شباب کے عالم میں جوانی کے عالم میں پہنچا یہ نعمت پک کر تیار ہو گئی تو ہم نے اس وقت پھل کو توڑا تا کہ ماں کو سمجھ آ جائے کہ اس نے کس نعمت کی ناقدری کی۔ اب سوچئے اپنی بد دعائیں اپنے سامنے آتی ہیں یہ قصور کس کا ہوا؟ اولاد کا ہوا یا ماں باپ کا ہوا؟ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بچے کو کبھی بد دعا نہ دیں ہر حال میں نیک دُعا ہی دیں۔
بچے پر باپ کی توجہ کی اہمیت :
جس طرح ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کی تربیت کا خیال رکھے۔ اسی طرح باپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کرے۔ جو باپ گھر کے ماحول کی طرف توجہ نہیں کرتا اور اولاد کی تربیت کی فکر نہیں کرتا اس کی اولاد بگڑ جاتی ہے جیسے بعض لوگوں کو اپنے کاروبار سے فرصت نہیں ملتی ان کے بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہوتی۔اس لئے کسی نے کہا کہ
مجھے حیرانی ہے - نعم
لَیْسَ الْیَتِیْمُ قَدْ مَاتَ وَالِدُہٗ بَلِ الْیَتِیْم یَتِیْمُ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ
یعنی کہ یتیم وہ نہیں ہوتا جس کے ماں باپ مر جاتے ہیں ، یتیم تو وہ ہوتا ہے جو علم اور عمل سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھئے کہ جس باپ کے پاس گھر میں وقت دینے کی فرصت نہیں اس کے بچے زندہ ہوتے ہیں مگر کسی یتیم سے کم بدنصیب نہیں ہوتے ہیں اس لیے کہ ان بیچاروں کی تربیت کبھی نہیں ہو پاتی۔ لہٰذا باپ کو چاہئے کہ اپنے نظام الاوقات میں جہاں اور کاموں کے لیے وقت مقرر کرتا ہے وہیں اپنے بچوں کے لیے بھی وقت ضرور متعین رکھے۔
مجھے حیرانی ہے - نعم
لَیْسَ الْیَتِیْمُ قَدْ مَاتَ وَالِدُہٗ بَلِ الْیَتِیْم یَتِیْمُ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ
یعنی کہ یتیم وہ نہیں ہوتا جس کے ماں باپ مر جاتے ہیں ، یتیم تو وہ ہوتا ہے جو علم اور عمل سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھئے کہ جس باپ کے پاس گھر میں وقت دینے کی فرصت نہیں اس کے بچے زندہ ہوتے ہیں مگر کسی یتیم سے کم بدنصیب نہیں ہوتے ہیں اس لیے کہ ان بیچاروں کی تربیت کبھی نہیں ہو پاتی۔ لہٰذا باپ کو چاہئے کہ اپنے نظام الاوقات میں جہاں اور کاموں کے لیے وقت مقرر کرتا ہے وہیں اپنے بچوں کے لیے بھی وقت ضرور متعین رکھے۔
بچے کورے کاغذ کے مانند:
دراصل بچے کورے کاغذ کے مانند ہوتے ہیں ان پر خوبصورت پھول بوٹے بنا نا یا الٹی سیدھی لکیریں لگانا یہ سب والدین کا کام ہوتا ہے اگر ماں باپ نے اچھی پرورش کی تو سب پھول بوٹے بن گئے اور اگر اس کی تربیت کا پتہ ہی نہیں تو پھر اس نے الٹی سیدھی لکیریں لگادیں اور گویا ان بچوں کو بگاڑنے میں معاون بن گئے۔ پرورش سے مراد یہ نہیں کہ بچے کا جسم بڑا کرنا ہوتا ہے بلکہ پرورش سے مراد یہ ہے کہ جس طرح جسم بڑھے، ساتھ ہی دل کی صفات بھی بڑھیں ، دماغی صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آئیں تو جو اچھے ماں باپ ہوتے ہیں وہ بچے کو صرف بڑا نہیں کرتے، اس کے دل کو بھی بڑا کرتے ہیں اور ان کے اندر ایسی سوچ پیدا کرتے ہیں کہ چھوٹی عمر ہی میں دماغی صلاحیتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ دل و دماغ کی صلاحیتوں کو کھولنا ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
با وضو کھانا پکانا:
کو شش کریں کہ جب بھی کھانا پکائیں تو با وضو کھانا پکائیں اگر با وضو رہنا مشکل ہو تو کم از کم ذکر کرتی رہا کریں۔ زبان سے سبحان اللہ،الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھ لیا کریں ، لا الٰہ الا اللہ کا ورد کیا کریں ،ان الفاظ کا ورد تو عورت ہر حال میں کر سکتی ہے، جسم پاک ہویا نہ ہو پھر بھی کر سکتی ہے،نا پاکی کی حالت میں فقط قرآن مجید اور نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے باقی اس قسم کے اذکار زبان سے ادا کئے جا سکتے ہیں۔ تو کھانا پکاتے ہوئے اگر آپ اللہ کا ذکر کریں گی، سبحان اللہ! اس کی برکتیں ہوں گی اور اگر پاکی کے ایام ہیں اور آپ کو کچھ سورتیں یاد ہیں تو ان کو پڑھئے تا کہ قرآن پڑھنے کی برکتیں آپ کے کھانے میں آ جائیں۔یاد رکھئے با وضو کھانا پکانا صحابیات رضی اللہ عنہما کا طرز عمل تھا۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے تنور پر روٹیاں لگوائیں ، جب پک کر تیار ہو گئیں تو دوسری خاتون سے فر مانے لگیں بہن میرا تو کھانا بھی تیار ہو گیا اور تین پارے کی تلاوت بھی مکمل ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ جتنی دیر روٹیاں لگاتی تھیں یہ زبان سے اللہ کا قرآن پڑھتی رہی۔ غرض یہ صحابیات رضی اللہ عنھن کی سنت ہے آپ بھی اس کو ادا کریں۔ایک بزرگ فر ماتے ہیں کہ متعلقین میں سے ایک شخص کے یہاں جانا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت یہ آپ کا کھانا گھر میں بنا تو اس کو پکانے کے لیے میری اہلیہ نے ۱۲ مرتبہ سورہ یاسین مکمل پڑھی۔ اس پر خوشی ہوئی کہ آج بھی نیک عورتیں ایسی ہیں کہ کھانا پکانے کے دوران اللہ کا قرآن ان کی زبان پر ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد ہوں تو پڑھتی رہیں۔ سورہ اخلاص تو ہر مسلمان بندے کو کم از کم یاد ہوتی ہے فقط یہی پڑھتی رہیں تو یہ بھی کافی ہے۔ اگر سورتیں نہیں پڑھ سکتیں تو ذکر ہی کر لیں۔سبحان اللہ،الحمد للہ،اللہ اکبر یہ کلمات پڑھنے میں تو آسان ہیں جبکہ یہ اللہ رب العزت کو بھی بڑے محبوب ہیں۔
باوضو بنے ہوئے کھانے کے اثرات:
آپ جب اس طرح قرآن پڑھ کر ذکر کر کے کھانا پکائیں گی تو یہ کھانا آپ کے میاں کھائیں گے تو ان کے دل میں نیکی کے اثرات آئیں گے، نیکی کا شوق آئے گا۔ بچے کھائیں گے تو ان کے دل میں نیکی کا شوق آئے گا۔ جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہی تو ہمارے جسم کا گوشت بنتا ہے اگر ذکر سے پکا ہوا ہے تو پھر اس سے جسم کے جو ٹشوز بنیں گے یقیناً ان میں اللہ رب العزت کی محبت سموئی ہوئی ہو گی اور اگر حرام کھائیں گے،ناپاکی اور غفلت کی حالت میں پکی ہوئی غذا کھائیں گے،تو جو ٹشو جسم میں جا کر بنیں گے انسان کو وہ گناہ پر اُکسائیں گے۔ جس ماں نے اپنے بچوں کو غذا اچھی دیدی وہ سمجھ لے کہ میں نے بچوں کی آدھی سے زیادہ تر بیت کر دی۔اس لیے اس کا اتنا اثر بچوں کے اخلاق و عادات پر ضرور پڑ جائے گا کہ ان میں نیک بننے کا ذریعہ پیدا ہو جائے گا۔ لہٰذا ان کو ذکر کرتے ہوئے پکایا جانے والا کھانا کھلایئے،با وضو تیار کیا ہوا کھانا کھلایئے تاکہ اللہ رب العزت اس کے اثرات ان میں پیدا کرے۔
صفائی کی عادت :
ایک کام یہ کریں کہ بچے کو بچپن سے ہی صفائی ستھرائی سے رہنا سکھائیں۔ یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو بات سمجھائیں کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت فر ماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے
واللہ یحب المتطھرین
یعنی کہ ،اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ، کہیں فر مایا
الطھور شطر الایمان
یعنی کہ پاکیزگی آدھا ایمان ہے. اگر آپ بچے کو اچھی طرح سمجھائیں گے تو پھر بچہ صاف رہنا پسند کرے گا۔ چنانچہ اچھے لوگ پیدا نہیں ہوتے بلکہ اچھے لوگ تیار کئے جاتے ہیں ، ماں اپنی گود میں لوگوں کو اچھا بنا دیا کرتی ہے۔گر می کے موسم میں بچے کو روزانہ غسل کروائیں ، کپڑا گندہ دیکھیں تو فوراً بدل دیں ، بستر ناپاک ہر گز نہ رہنے دیں ،فوراً اسے پاک و صاف کریں ،بہر حال بچے کی یہ ڈیوٹی تو ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی پر ماں کو اس کا اجر و ثواب ملتا ہے لہٰذا بچوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
واللہ یحب المتطھرین
یعنی کہ ،اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ، کہیں فر مایا
الطھور شطر الایمان
یعنی کہ پاکیزگی آدھا ایمان ہے. اگر آپ بچے کو اچھی طرح سمجھائیں گے تو پھر بچہ صاف رہنا پسند کرے گا۔ چنانچہ اچھے لوگ پیدا نہیں ہوتے بلکہ اچھے لوگ تیار کئے جاتے ہیں ، ماں اپنی گود میں لوگوں کو اچھا بنا دیا کرتی ہے۔گر می کے موسم میں بچے کو روزانہ غسل کروائیں ، کپڑا گندہ دیکھیں تو فوراً بدل دیں ، بستر ناپاک ہر گز نہ رہنے دیں ،فوراً اسے پاک و صاف کریں ،بہر حال بچے کی یہ ڈیوٹی تو ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی پر ماں کو اس کا اجر و ثواب ملتا ہے لہٰذا بچوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
بات کرنے کا ادب سکھائیں:
بعض بچے ’تو‘، ’تم‘ وغیرہ کہہ کر بات کرتے ہیں ان کو نرمی اور پیار و محبت سے سمجھائیں کہ بیٹا ’آپ ‘ کہنے سے محبت بڑھتی ہے۔ لہٰذا چھوٹوں کو بھی آپ کہو بڑوں کو بھی آپ کہو۔ بچہ ’ ہاں ‘ کہے تو اس کو سمجھائیں کہ بیٹا جی ہاں کہنے میں زیادہ محبت ہے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی باتیں بچہ گود میں سیکھتا ہے اور پھر وہ اسے یاد رہتی ہیں۔ یاد رکھئے کہ بچپن کی سیکھی ہوئی باتیں انسان کو بڑی عمر میں بھی نہیں بھولا کرتیں بلکہ ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔ اس لئے بچوں کی تربیت اچھی طرح کریں۔
خود نماز کی پابندی:
سورہ طہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَأْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا
یعنی کہ ،اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کی پابندی کرو،
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عجیب ترتیب رکھی ہے۔ بظاہر یہ ہونا چاہئے تھا کہ پہلے خود نماز قائم کرو اور پھر اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو۔ لیکن یہاں ترتیب الٹ دی ہے کہ پہلے اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور پھر خود بھی اس کی پا بندی کرو اس ترتیب میں اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ تمہارا اپنے گھر والوں کو یا اولاد کو نماز کا حکم دینا اس وقت تک مؤثر اور فائدہ مند نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان سے زیادہ نماز کی پابندی نہیں کرو گے۔ اب زبان سے تو تم نے ان کو کہہ دیا کہ نماز پڑھو لیکن اگر خود اپنے اندر نماز کا اہتمام نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کو نماز کیلئے کہنا بالکل بیکار مانا جائے گا۔ لہٰذا اپنے گھر والوں اور اپنی اولاد کو نماز کا حکم دینے کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ پابندی خود کرو اور ان کیلئے ایک مثال اور نمونہ بنو۔اللہ کے نبی نے فر مایا :کہ بچہ جب سات بر س کا ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو مارو۔ سات سال کے بچے پر نماز فرض نہیں ہے لیکن ابھی سے نماز کا حکم اس لئے دیا جا رہا ہے کہ اس کو نماز کی عادت پڑ جائے۔ جب اس عمر میں نماز کی عادت پڑ جائے گی تو بالغ ہو نے تک اس کی عادت برقرار رہے گی اور پھر زندگی میں کبھی نماز نہیں چھوڑے گا۔چونکہ نماز بڑی اہم عبادت اور اسلام کا اہم فریضہ ہے۔آج بچے بالغ اور بڑے ہو کر بھی نماز نہیں پڑھتے اس لئے کہ بچپن سے نہ تو نماز کی عادت ڈالی گئی نہ ہی اس کی اہمیت بتائی گئی۔ بچوں کو تو کیا بتاتے بڑے ہی نماز نہیں پڑھتے۔
وَأْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا
یعنی کہ ،اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کی پابندی کرو،
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عجیب ترتیب رکھی ہے۔ بظاہر یہ ہونا چاہئے تھا کہ پہلے خود نماز قائم کرو اور پھر اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو۔ لیکن یہاں ترتیب الٹ دی ہے کہ پہلے اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور پھر خود بھی اس کی پا بندی کرو اس ترتیب میں اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ تمہارا اپنے گھر والوں کو یا اولاد کو نماز کا حکم دینا اس وقت تک مؤثر اور فائدہ مند نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان سے زیادہ نماز کی پابندی نہیں کرو گے۔ اب زبان سے تو تم نے ان کو کہہ دیا کہ نماز پڑھو لیکن اگر خود اپنے اندر نماز کا اہتمام نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کو نماز کیلئے کہنا بالکل بیکار مانا جائے گا۔ لہٰذا اپنے گھر والوں اور اپنی اولاد کو نماز کا حکم دینے کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ پابندی خود کرو اور ان کیلئے ایک مثال اور نمونہ بنو۔اللہ کے نبی نے فر مایا :کہ بچہ جب سات بر س کا ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو مارو۔ سات سال کے بچے پر نماز فرض نہیں ہے لیکن ابھی سے نماز کا حکم اس لئے دیا جا رہا ہے کہ اس کو نماز کی عادت پڑ جائے۔ جب اس عمر میں نماز کی عادت پڑ جائے گی تو بالغ ہو نے تک اس کی عادت برقرار رہے گی اور پھر زندگی میں کبھی نماز نہیں چھوڑے گا۔چونکہ نماز بڑی اہم عبادت اور اسلام کا اہم فریضہ ہے۔آج بچے بالغ اور بڑے ہو کر بھی نماز نہیں پڑھتے اس لئے کہ بچپن سے نہ تو نماز کی عادت ڈالی گئی نہ ہی اس کی اہمیت بتائی گئی۔ بچوں کو تو کیا بتاتے بڑے ہی نماز نہیں پڑھتے۔
بچوں کو مت سکھاؤ جھوٹ:
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک خاتون نے اپنے بچے کو گود میں لینے کیلئے بلایا بچہ آنے میں تردد کر رہا تھا، تو اس خاتون نے کہا کہ ہمارے پاس آؤ، ہم تمہیں کوئی چیز دیں گے،اب وہ بچہ آ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے پو چھا کہ تم نے بچے کو یہ جو کہا کہ تم ہمارے پاس آؤ ہم تمہیں کچھ دیں گے تو کیا تمہاری واقعی کچھ دینے کی نیت تھی ؟ اس خاتون نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک کھجور تھی اور یہ کھجور اس کو دینے کی نیت تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اگر دینے کی نیت نہ ہوتی تو یہ تمہاری طرف سے بڑا جھوٹ ہوتا اور گناہ ہوتا۔اس لئے کہ تم بچے سے جھوٹا وعدہ کر رہی ہوتی گویا اس کے دل میں بچپن سے یہ بات ڈال رہی ہوتی کہ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا کوئی ایسی بری بات نہیں ہوتی جس سے گناہ ہو جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اگر دینے کی نیت نہ ہوتی تو یہ تمہاری طرف سے بڑا جھوٹ ہوتا اور گناہ ہوتا۔اس لئے کہ تم بچے سے جھوٹا وعدہ کر رہی ہوتی گویا اس کے دل میں بچپن سے یہ بات ڈال رہی ہوتی کہ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا کوئی ایسی بری بات نہیں ہوتی جس سے گناہ ہو جائے۔
بچوں کو تر بیت کرنے کا انداز:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپؐ جبکہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچے ہی تھے صدقہ کی کھجور اُٹھا کر منہ میں رکھ لی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فوراً فرمایا ’کخٍ کخٍ ‘عربی میں یہ لفظ ایسا ہے جیسے ہماری زبان میں ’تھو تھو‘ ہے، یعنی اگر بچہ کو ئی چیز منہ میں ڈال لے تو اس کی برائی اور شناعت کے اظہار کے ساتھ وہ چیز اس کے منہ سے نکلوانا مقصود ہو تو یہ لفظ استعمال کیا جا تا ہے۔ بہر حال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ’کخ کخ‘ یعنی اس کو منہ سے نکال کر پھینک دو کیا تمہیں معلوم نہیں ہم بنی ہاشم صدقے کا مال نہیں کھا سکتے۔ ایک طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے اتنی محبت ہے دوسری طرف جب انہوں نے نادانی میں ایک کھجور منہ میں رکھ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ گوارہ نہ ہوا کہ وہ اس کھجور کو کھائیں۔ چونکہ ان کو پہلے سے اس کی تربیت کرنی تھی اس لئے فوراً وہ کھجور منہ سے نکلوائی اور فر مایا کہ یہ ہماری چیز نہیں۔
کیا ہے محبت کی حد؟
مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ فر مادیا گیا ہے کہ بچے کی تربیت چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع ہوتی ہے، اس سے اس کا ذہن بنتا ہے، اسی سے اس کی زندگی بنتی ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آج کل یہ عجیب منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ ماں باپ کے اندر بچوں کو غلط باتوں پر ٹوکنے کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے۔ آج سے پہلے بھی ماں باپ بچوں سے محبت کرتے تھے، لیکن وہ عقل اور تدبیر کے ساتھ محبت کرتے تھے۔ لیکن آج کل یہ محبت اور لاڈ اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ بچے کتنے ہی غلط کام کرتے ر ہیں ، غلط حرکتیں کرتے رہیں ، لیکن ماں باپ ان غلطیوں پر ٹوکتے ہی نہیں ، ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نادان بچے ہیں ان کو ہر قسم کی چھوٹ ہے، ان کو روک ٹوک کی ضرورت نہیں۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر بچے نادان ہیں مگر والدین تو نادان نہیں ہیں لہٰذا ان کا فرض ہے کہ ان کو تربیت کریں ، اگر کوئی بچہ ادب کے خلاف یا شریعت کے خلاف کوئی غلط کام کر رہا ہے تو اس کو بتانا ماں باپ کے ذمے فرض ہے۔اس لئے کہ وہ بچہ اگراسی طرح بد تہذیب بن کر بڑا ہو گیا تو اس کا وبال والدین کے سر ہے کہ انہوں نے اس کو ابتدا سے ہی اس کی عادت نہیں ڈالی۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں پر بھی نظر رکھ لی جائے۔
برے دوستوں سے بچانا:
ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ بچوں کو برے دوستوں سے بچانے کا اہتمام کریں۔یاد رکھنا چاہئے کہ بچے اپنے دوستوں سے اتنا کچھ سیکھتے ہیں کہ جن باتوں کا ماں باپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔بچے کے دوست اگر اچھے ہوں گے تو بچے کی کشتی کنارے لگ جائے گی اور اگر دوست برے ہوں تو بچے کی کشتی کو ڈبو کر رکھ دیں گے۔ایک انسان کودوست ہی بناتے اور بگاڑ دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:
المرء علیٰ دین خلیلہ
یعنی کہ انسان تو اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے، اس لئے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
المرء علیٰ دین خلیلہ
یعنی کہ انسان تو اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے، اس لئے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
سلام اور شکریہ کی عادت:
چھوٹے بچوں میں سلام کر نے کی عادت ڈالیں ، ان کو بتائیں کہ بڑوں کو دیکھ کر سلام کرنی چاہیے۔ سلام کے الفاظ بچوں کو سکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سلام کو عام کرو اور اس کا ایک دوسرے کے درمیان رواج دو۔ لہٰذا ماں باپ کو چاہئے کہ بچے کو سلام کرنے کا عادی بنائیں۔اس سے بچے کے دل میں جھجک دور ہو جاتی ہے اور بچہ ڈپریشن سے بھی محفوظ رہتا ہے، دوسروں کو دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو سلام کر نے کی عادت پڑنے سے اس میں اخلاق حسنہ، خود اعتمادی اور عزم و ہمت کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ماں باپ کو چاہئے کہ بچے کو سلام کرنے کا طریقہ سکھائیں تاکہ بچے کے دل سے مخلوق کا ڈر دور ہو جائے اور بچے کے اندر جرأت آ جائے اور بزدلی سے بچ جائے۔ اسی طرح بچے میں شکریہ کی عادت بھی بچپن سے ہی پیدا کریں۔ چھوٹی عمر کا ہو تو کیا ہوا اس کو آہستہ آہستہ یہ بات سمجھائیں کہ جب تم سے کوئی نیکی کرے، بھلائی کرے، تمہارے کام میں تعاون کرے، تو بیٹے اس کا شکریہ ادا کرو۔ اس طرح جب وہ انسانوں کا شکریہ ادا کرے گا تو پھر اس کو اللہ کا شکر ادا کرنے کا سبق بھی مل جائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
من لم یشکر الناس ولم یشکر اللّٰہ
کہ جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کر تا، تو یہ شکریہ کی عادت اپنے بچوں میں ڈالنی چاہئے۔ عجب بات ہے ہمیں اس بات کا اتنا زیادہ حکم دیا گیا مگر آج شائد ہی کوئی ماں ہو جو اپنے بیٹے کو شکریہ کے الفاظ سکھائے۔ جزاکم اللّٰہ، جزاک اللّٰہ خیراً یہ الفاظ اپنے بچوں کو سکھائیں تاکہ بچوں کو صحیح سنت کے مطابق شکریہ ادا کرنے کے الفاظ آ جائیں۔
من لم یشکر الناس ولم یشکر اللّٰہ
کہ جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کر تا، تو یہ شکریہ کی عادت اپنے بچوں میں ڈالنی چاہئے۔ عجب بات ہے ہمیں اس بات کا اتنا زیادہ حکم دیا گیا مگر آج شائد ہی کوئی ماں ہو جو اپنے بیٹے کو شکریہ کے الفاظ سکھائے۔ جزاکم اللّٰہ، جزاک اللّٰہ خیراً یہ الفاظ اپنے بچوں کو سکھائیں تاکہ بچوں کو صحیح سنت کے مطابق شکریہ ادا کرنے کے الفاظ آ جائیں۔
دل آزاری سے اجتناب:
بچے کو یہ سکھائیں کہ نیکیوں میں سے ایک بڑی نیکی یہ بھی ہے کہ کسی کو دکھ نہیں دینا، کسی کو تکلیف نہیں دینا،بچے چھوٹے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جلد جھگڑ پڑتے ہیں۔ لیکن جب آپ بچے کو سکھائیں گے کہ کسی کو تکلیف نہ دینا،کسی کا دل نہیں دکھانا، تو ایسا کرنے سے بچے کے دل میں اس کی اہمیت آئے گی کہ دوسروں کا دل دکھانا اللہ کو بہت نا پسند ہے جبکہ بیماریوں میں سے سب سے بڑی بیماری دل کی بیماری ہے اور روحانیت میں سب سے بڑی بیماری دل آزاری ہے اور دوسرے کے دل کو دُکھانا آج سب سے آسان کام بن گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ کسی بندے کے دل کو دُکھا دیا جائے۔
معافی مانگنے کا احساس دلانا:
اگر بچہ کبھی کسی سے لڑ پڑے تو آپ دیکھیں غلطی کس کی ہے اس کو پیار سے سمجھائیں کہ غلطی کی معافی مانگ لو تاکہ قیامت کے دن اللہ رب العزت کے سامنے تمہاری یہ غلطی پیش نہ ہو، بچے کو معافی مانگنے کی فضیلت سنائیں ، معافی مانگنے کا طریقہ بتائیں تاکہ وہ بلا جھجک ہو کر معافی مانگنے کا عادی ہو جائے۔ غلطیاں چھوٹوں سے بھی ہوتی ہیں اور بڑوں سے بھی،بچے کو سمجھائیں کہ جب بھی غلطی ہو جائے تو اسی وقت معافی مانگ لینی چاہئے، اپنے بہن بھائیوں سے اگر بد تمیزی کرے یا ان کو تکلیف دے یا جھگڑا کریں تو ان سے بھی معافی مانگے۔اس کے بعد اس سے کہیں اللہ سے بھی معافی مانگ لو تا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے ناراض نہ ہوں۔ہر وقت اللہ کی ناراضگی کے بارے میں یہ بات ڈالنا کہ نیک کام کرنے سے اللہ خوش ہو تا ہے اور لڑائی جھگڑے اور برے کاموں سے اللہ ناراض ہوتا ہے، حتی کہ بچے کے دل میں یہ حقیقت اُتر جائے کہ اللہ کی ناراضگی سب سے بری چیز ہے۔یہ بچے کی تر بیت کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس کے برعکس آج یہ ہوتا ہے کہ اگر اپنا بچہ کسی دوسرے بچے سے جھگڑ پڑے تو اپنے بچے کی غلطی کے با وجود دوسرے کے بچے کو ڈانٹا جاتا ہے اور نا حق اپنے بچے کی غلطی سے چشم پو شی کی جا تی ہے، جس سے یہ لڑائی چھوٹوں سے شروع ہو کر بڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بچے میں اچھی عادت پیدا کرنا: جب بچہ کئی گھنٹے با ہر گزار کر گھر واپس آئے تو اس بچے کو اس موقع پر ایسی محبت دینی ہے کہ بچے کے اندر اچھی عادتیں جم جائیں اور بری عادتیں اس سے دور ہو جائیں۔ اس لئے جب بچے اسکول سے آتے ہیں اُس وقت یہ چند منٹ کی ڈیوٹی جس عورت نے بھی ادا کر دی اس کے بچے ساری زندگی نیک بنیں گے، مؤدب بنیں گے اور ماں کے ساتھ محبت کرنے والے بنیں گے۔ بچے کبھی نہیں بھول سکتے کہ جب ہم اسکول سے آتے تھے امی ہمیں کتنا پیار کرتی تھیں۔ جب آپ بوڑھی ہو جائینگی، بچے جوان ہو جائیں گے تو پھر بچے ان کی خوشی کا خیال رکھیں گے، جتنا آپ نے ان کا خیال رکھا، لہٰذا یو ں سمجھ لیجئے کہ میں نے آپ کو ایک تحفہ دیدیا آپ اس پر عمل کر لیجئے اور پھر اس کے اثرات بچوں میں خود دیکھیں گی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فر ما ہیں ، امام حسن رضی اللہ عنہ تشریف لائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے نواسے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے فرزند دلبند ہیں ، بچے ہی تھے، آپ نے ان کا بوسہ لیا، پیار کیا، اس وقت ایک صحابی اقرع ابن حابس، رضی اللہ عنہ، جو تمیمی بنو تمیم کے آدمی تھے، بیٹھے تھے ۔ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گئے کہنے لگے ، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، میرے تو دس بچے ہیں اور میں نے کبھی کسی کو اس طرح پیار نہیں کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا
مَنْ لَایَرْحَمْ لَاْیُرْحَمْ
کہ جو آدمی رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں فر ماتے، ایک اور مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک اعرابی نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو پیار کر رہے ہیں تو کہنے لگا ، اے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم، میں تو بچوں کو ایسا پیار نہیں کرتا جیسے آپ کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تیرے دل سے اللہ نے رحمت کو نکال لیا اور تجھے اس سے محروم کر دیا تو کوئی کیا کرے؟ تو معلوم ہوا کہ بچوں سے پیار کرنا انسانی فطرت ہے لہٰذا بچوں کو پیار دینا چاہئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا
مَنْ لَایَرْحَمْ لَاْیُرْحَمْ
کہ جو آدمی رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں فر ماتے، ایک اور مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک اعرابی نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو پیار کر رہے ہیں تو کہنے لگا ، اے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم، میں تو بچوں کو ایسا پیار نہیں کرتا جیسے آپ کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تیرے دل سے اللہ نے رحمت کو نکال لیا اور تجھے اس سے محروم کر دیا تو کوئی کیا کرے؟ تو معلوم ہوا کہ بچوں سے پیار کرنا انسانی فطرت ہے لہٰذا بچوں کو پیار دینا چاہئے ۔
محبت پر جنت کی بشارت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے، جن کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تین کھجوریں کھانے کو دیں۔ ان بچوں کی ماں نے ایک کھجور ایک بچے کو دی اور دوسراکھجور دوسرے بچے کو دی اور تیسرا خود رکھ لیا مگر خود کھانے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ لی۔ جب دونوں بچوں نے اپنی اپنی کھجوریں کھالیں تو پھر تیسری کھجور کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے تو اس ماں نے کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور آدھا ایک بچے کو اور آدھا دوسرے بچے کو دے دیا۔بچوں نے اس کو بھی کھا لیا اور خوش ہو گئے۔یہ دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑی حیران ہوئیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ پورا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا کہ ماں کی محبت دیکھئے کہ اس نے خود نہیں کھایا بلکہ اپنا حصہ بھی بچوں میں ہی تقسیم فر ما دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ اللہ نے اس عورت پر جنت کو واجب کر دیا۔ سبحان اللہ تو ماں جب بچوں کو اس طرح محبت کرتی ہے اس کے بدلے اللہ اس ماں کو جنت عطا فرما دیتے ہیں یا د رکھئے حدیث پاک میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نر می پر وہ رحمتیں نازل فر ما دیتا ہے جو سختی پر نازل نہیں فر ماتا۔ اس لئے بچے کی تر بیت کرتے ہوئے ان باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ بچے کو توحید کی تعلیم: ایک اور بڑا اہم نقطہ یہ ہے کہ بچے کے دل میں بچپن سے ہی ایمان کو مضبوط کیجئے، تو حید کا تصور مضبوط کیجئے، بچے کے دل میں اللہ پرتو کل پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہ ماں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ ایسی تر بیت کرے کہ بچے کے دل میں ڈر بھی اللہ رب العزت کا ہو،امیدیں ہوں تو اللہ سے ہوں ، محبت ہو تو اللہ کی ہو، توحید اس کے ذہن میں رچ بس جائے اور وہ انسان، وہ بچہ اللہ سے والہانہ محبت کرنے والا بن جائے۔ہمارے پہلے وقت کی اچھی مائیں ان باتوں کا خاص خیال رکھا کرتی تھیں۔لیکن اس معاملے میں موجودہ دور کے ماں باپ کوئی توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آج کے والدین خصوصاً بچے کی ماں اس طرح تر بیت کا اہتمام کرے تو اس کی آغوش میں پلنے والے بچے بھی اللہ کے ولی اور نیک بنیں گے اور ایک ہی وقت پران کے لیے دارین یعنی اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی راحت کا ذریعہ بنیں گے بلکہ ان سے اس دنیا میں اللہ کی مخلوق کو بھی فائدہ نصیب ہو گا۔ والدین کی اہم ترین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے تئیں امانت دادی کا معاملہ اختیار کریں ، امانت دادی یہی ہے کہ وہ صحیح تربیت کو اپنے بچوں میں جذب کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں تاکہ خدا کے دربار میں ان کی طرف سے حق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ لکھی جائے۔ والدین کو یہ ذمہ داری نبھانی ہے یعنی بچوں کی صحیح تربیت کرنی ہے باقی ہدایت سے سرفراز کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے۔ اس لئے صحیح تربیت کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں صالح اولاد کی بھی دعا کرتے رہنا چاہئے ۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے۔ اور ہمیں ہماری اولاد کی تربیت صحیح طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ان کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔
No comments:
Post a Comment