Friday 19 May 2023

کتب فقہ میں ضعیف روایات کیوں؟

کتب فقہ میں ضعیف روایات کیوں؟
(بقلم: مفتی اویس پراچہ)
(ہر تعلیمی سال کے شروع میں اسے دوبارہ نشر کردیتا ہوں، شاید کسی کے کام آجائے)
===============
اگر آپ کا تعلق کتب فقہ سے ہے تو امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے تو واقف ہوں گے۔ یہ بلند پایہ شافعی عالم ہیں۔ فقہ میں ان کی کتاب "الشرح الکبیر" کے نام سے معروف ہے اوراسے پڑھنے والے اس کے گرویدہ ہوئے بنا نہیں رہتے۔ ان کی وفات 623 ہجری میں ہوئی۔ "الشرح الکبیر" میں رافعی رحمۃ اللہ علیہ کا طرز صاحب ہدایہ سے ملتا جلتا ہے۔ یہ مسئلے کی دلیل عموماً منصوص و معقول، دونوں قسم کی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ روایات بھی ذکر کرتے ہیں۔
رافعی رحمۃ اللہ علیہ کی "الشرح الکبیر" کی احادیث کی تخریج کرنے والوں میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت علمی محتاج تعارف نہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب "التلخیص الحبیر" میں ان احادیث کی تخریج کی ہے اور اس قدر عمدہ تحقیق کی ہے کہ یہ کتاب بذات خود ایک مصدر سمجھی جاتی ہے۔ لیکن فقہ کا طالب علم اس وقت حیرانی کا شکار ہوجاتا ہے جب وہ بے شمار احادیث کے بارے میں حافظ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول دیکھتا ہے: "مجھے یہ حدیث نہیں ملی"۔  اسی طرح حافظ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سی روایات کی تضعیف بھی کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ علامہ ذہبیؒ کی تاریخ اسلام اٹھائیں تو رافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریفیں ابن الصلاح اور نووی رحمہما اللہ جیسے محدثین سے ملتی ہیں۔ انہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی "مسند الشافعی" کی شرح بھی لکھی ہے۔ وہ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود بڑے محدث تھے، علوم الحدیث کے ماہر تھے، تصحیح و تضعیف کی صلاحیت رکھتے تھے اور متون حدیث پر ان کی گہری نظر تھی۔ تو پھر بھلا یہ کیا ہے؟ "الشرح الکبیر" میں انہوں نے ضعیف اور موضوع بلکہ معدوم روایات کیسے ذکر کر دیں؟ یہ سوال بجا طور پر فقہ کے طالب کو چکرا دیتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ حنفی فقہاء کاسانی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب بدائع الصنائع)، مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب ہدایہ) اور دیگر فقہاء کرام کے ساتھ ہے۔ یہ حضرات بھی کئی ایسی روایات ذکر کرتے ہیں جو تخریج کرنے والوں کو نہیں ملتیں یا وہ انتہائی ضعیف ہوتی ہیں۔ یہ فقہاء کرام علمی لحاظ سے اس مرتبے کے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ سوء ظن رکھنا انتہائی مشکل ہے کہ انہوں نے اپنے مسالک کی تائید کے لیے غلط روایات بیان کی ہوں۔ خصوصاً فقہ حنفی، جس کے اکثر مسائل ثابت شدہ قواعد فقہیہ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان قواعد کو فقہاء کرام باقاعدہ دلیل کے طور پر ذکر کرتے ہیں، اسے آخر حدیث سے بلاواسطہ تائید کی ایسی کیا ضرورت تھی کہ اس کے لیے اس درجے پر بھی حدیثیں گھڑی جاتیں؟ فقہ حنفی دراصل فقہ اہل عراق ہے اور اس کا طرز فقہ اہل حجاز سے کافی مختلف ہے۔ اس میں عام طور پر نصوص و دلائل سے ایک قاعدہ اولاً ثابت ہوتا ہے اور پھر اس پر مسائل کی تخریج ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ مسائل ہوتے ہیں جو اس کے برخلاف منصوص ہوتے ہیں۔ ان کی یا تو ان قواعد کے ساتھ تطبیق کی جاتی ہے اور یا انہیں خلاف قیاس احترازی مسائل کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ اس پر تفصیل سے پھر کبھی بات کریں گے۔ سر دست ہم ان ممکنہ وجوہات پر غور کرتے ہیں جن کی وجہ سے کتب فقہ میں ایسی روایات آئیں:
عدم مہارت فن: 
علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ہر فن کے لئے کچھ لوگ مخصوص ہوتے ہیں۔" یہ ممکن ہے کہ ایک شخص فقیہ ہو لیکن اسے علوم حدیث پر وہ ملکہ حاصل نہ ہو جو اسے فقہ پر حاصل ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص اعلی پائے کا محدث ہو لیکن اسے فقہ میں مہارت نہ ہو۔ ایسا فقیہ جسے علوم حدیث میں مہارت نہ ہو، بآسانی کتب میں ضعیف روایت ذکر کرسکتا ہے۔ لہذا ہمیں کتب فقہ میں ضعیف روایات ملتی ہیں۔ البتہ ایسا شخص اپنی طرف سے گھڑکر روایت نہیں درج کرتا۔
اس موضوع پر جواب دیتے ہوئے عدم مہارت کا یہ عذر اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن ذرا غور کیجئے! یہ کتب فقہ دفعتاً نہیں لکھ دی گئیں اور نہ ہی یہ راتوں رات پبلشر کے پریس سے گزرکر منصہ شہود پر آگئی ہیں۔ یہ تو مصنف کی سالہا سال کی محنت ہوتی تھی جسے وہ ضبط قلم میں لاتا تھا۔ پھر اس کی کتاب کئی مرتبہ اس سے سنی جاتی تھی، املاء کروائی جاتی تھی، اس پر پڑھی جاتی تھی، اس سے اس کتاب کی روایت کی اجازت لی جاتی تھی اور اس سے نقل کی جاتی تھی۔ کیا اس دوران کوئی ایسا عالم مصنف سے نہیں مل سکتا تھا جو اسے کتاب میں موجود احادیث کے ضعف سے باخبر کرتا؟ نیز اگر مصنف خود صاحب فن نہ تھا تو بالکل علوم سے جاہل بھی تو نہیں تھا۔ کیا اسے علم نہیں تھا کہ حدیث و فن حدیث کی بھی کتب ہوتی ہیں؟ کیا وہ خود کسی عالم کی جانب رجوع نہیں کر سکتا تھا۔ کیا وہ اور کچھ نہیں تو امام ترمذی و ابو داؤد رحمہما اللہ کی کتب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی ان سے حوالہ نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا؟ یہ سوچنا بھی عجیب لگتا ہے۔ اس لیے راقم کی رائے میں یہ عذر کچھ کمزور ہے۔
روایت بالمعنی: 
فقہاء کرام کے یہاں روایت بالمعنی کثرت سے ہوتی تھی۔ یعنی کسی روایت کے بجائے اس کے معانی بیان کر دیے جاتے تھے۔ محدثین کرام کو جب یہ بیان کردہ روایت ان الفاظ میں نہیں ملتی  تو وہ اس پر نادر یا غیر موجود کا حکم لگا دیتے ہیں۔
یہ عذر کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ کتب فقہ میں ایسی کئی روایات ملتی ہیں جن کے معانی کتب حدیث میں موجود دیگر احادیث میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عذر نادر روایات کے لئے تو درست ہوسکتا ہے لیکن ضعیف روایات کے لئے اسے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ضعیف روایت کے تو الفاظ بعینہ موجود ہوتے ہیں، پھر انہیں روایت بالمعنی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ نیز کئی ایسی روایات بھی کتب فقہ میں مذکور ہیں جن میں کسی شق یا قید کا اضافہ یا کمی ہے۔ یہ اضافہ یا کمی تو روایت بالمعنی سے نہیں آ سکتی۔
اختلاف جرح: 
حدیث کی جرح و تعدیل کے میدان میں تین طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں: اصول حدیث کا اختلاف، پھر الفاظ جرح و تعدیل کا اختلاف اور اس کے بعد جرح و تعدیل دونوں کی موجودگی میں ترجیح کا اجتہادی اختلاف۔ ان تین اختلافات کی چھلنیوں سےچھن کر کسی  حدیث کا حکم کسی ایک عالم کے یہاں دوسرے عالم سے مختلف ہو سکتا ہے (بلکہ کثرت سے واقع بھی ہے)۔  لہذا یہ ممکن ہے کہ کسی فقیہ کی ذکر کردہ حدیث ضعیف اس کے یا اس کے متبع عالم کے نزدیک ضعیف نہ ہو۔ البتہ یہ عذر نادر روایات کے بارے میں کارآمد نہیں ہے۔
ذکر برائے تائید: 
فقہاء کرام عموماً اور فقہاء احناف خصوصاً کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد کسی فقہی قاعدے پر ہوتی ہے۔ فقہی قواعد ایسے قواعد ہوتے ہیں جو شریعت مطہرہ کے مضبوط دلائل سے ثابت ہوتے ہیں (مثلاً "لا ضرر و لا ضرار" کا قاعدہ وغیرہ) اور ان قواعد سے مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔ مسئلہ بیان کرنے کے بعد یہ فقہاء کرام برائے تائید اس مسئلے میں کوئی صریح روایت بھی پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ صریح روایت ضعیف ہوتی ہے۔ صاحب ہدایہ روایت پہلے ذکر کرتے ہیں اور قاعدہ عقلی استدلال کے طور پر بعد میں بیان کرتے ہیں۔
یہ عذر بھی ان ضعیف روایات کے وجود کا سبب ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کا اطلاق نادر روایات پر کرنا ممکن تو ہے لیکن مشکل ہے۔
فقدان کتب:  
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السیرالصغیر کی شرح السیرالکبیر ساٹھ جلدوں میں تحریر کی تھی جس میں ہر مسئلے کی دلیل میں ایک حدیث مذکور تھی۔ لیکن یہ کتاب آج موجود نہیں ہے۔ پانچویں صدی ہجری کے بغدادی کاتب ابن الندیم  نے امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کی جتنی کتب ذکر کی ہیں ان کا دسواں حصہ بھی کسی کو نہیں ملتا۔  امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ ایک شاندار محدث ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی کئی کتابیں ذکر کی ہیں۔ ایک کتاب تو ایسی تھی جس میں اسی ابواب تھے جن میں فقہاء کے درمیان اختلافات کی تفصیل تھی اور امام طحاویؒ وہ مکمل بھی نہیں کر سکے۔ یہ کتاب بھی بالکل غائب ہے۔ اس طرح کی ان گنت کتب ہیں جن کا اب نام و نشان بھی نہیں ملتا۔
یہ کتب آخر کہاں گئیں؟ حدیث و فقہ کا اتنا بڑا ذخیرہ امت نے کیسے نہیں سنبھالا؟ اگر کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا تو یہ کتب خانوں میں پڑی کیوں نہ رہ گئیں؟ راقم کے خیال میں اس کا جواب عالم اسلام پر تاتاریوں کے حملے میں پوشیدہ ہے۔ تاتاریوں کے حملے کا ذکر امام سیوطیؒ اپنی کتاب مشتہی العقول میں یوں کرتے ہیں: "انہوں نے سولہ لاکھ افراد کو قتل کیا اور دجلہ (کے پانی) کو کتابوں سے روک دیا۔"  (یہ کتاب غالباً طبع نہیں ہوئی ہے۔ میں نے یہ حوالہ لائبریری آف کانگریس کی سائٹ سے حاصل کردہ مخطوطے سے نقل کیا ہے۔)  ذرا سوچئے! وہ کتنی کتب ہوں گی جنہوں نے دجلہ جیسے دریا کا پانی روک دیا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ دجلہ کا پانی کئی دن تک ان کتب کی سیاہی سے کالا آتا رہا تھا۔ ان کتب میں بظاہر حدیث و فقہ کی وہ عظیم کتب بھی تھیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
ابن کثیر کے مطابق بغداد کو تاتاریوں نے 654 یا 655 ہجری میں تاراج کیا۔ اب آپ دلچسپ اتفاق دیکھئے کہ کاسانی، رافعی اور مرغینانی، جن کی کتب فقہ میں یہ احادیث مذکور ہیں، اس واقعے سے پہلے کے ہیں۔ جبکہ زیلعی، ابن حجر اور ابن الملقن، جو روایات کی تخریج کرتے ہیں، اس واقعے کے بعد کے ہیں۔ اس واقعے کے بعد کے حضرات عموماً پہلے والے حضرات کی بچنے والی کتب سے نقل کرتے ہیں۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان پہلے والے حضرات کی دسترس میں جو کتب تھیں وہ بعد والوں کی دسترس میں نہیں رہیں۔ ان میں کتب حدیث بھی تھیں اور وہ کتب فقہ بھی جن میں احادیث اسناد کے ساتھ مذکور تھیں۔ ان کتب سے یہ حضرات حدیث نقل کر دیتے تھے۔ وہ احادیث ان کتب میں جن اسناد سے تھیں وہ ضعف سے پاک تھیں۔ نیز وہ اس قدر معروف تھیں کہ انہیں حوالہ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ جو چاہتا وہ ان کتب خانوں میں جا کر دیکھ لیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کتب کی کسی معدوم حدیث پر ابن الملقن اور زیلعی رحمہما اللہ "غریب" کا اور ابن حجرؒ " لم اجدہ" کا حکم لگاتے تھے۔ یہ حضرات اس سے واقف تھے کہ علم کے ساتھ چند عشروں قبل کیا ہوا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ان حضرات نے ان فقہاء پر ایسی روایات کے لکھنے کے باوجود وضع حدیث کا الزام نہیں لگایا۔ یہ راقم کا ایک سرسری تجزیہ ہے۔ اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق کر کے مقالہ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
یہ سب وہ ممکنہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر کتب فقہ میں ضعیف و نادر روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کسی کتاب میں کوئی ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے، ایک سے زائد بھی اور تمام بھی۔ یہ اب مطالعہ کرنے والے پر منحصر ہے وہ کہاں کیا تلاش کر پاتا ہے۔
ایک روایت بطور مثال:
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے السیرالکبیر میں ایک روایت نقل فرمائی ہے: "جب اہل مکہ قحط میں مبتلا ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ سو دینار بھیجے اور یہ ابو سفیان اور صفوان بن امیہ کو دینے کا حکم فرمایا کہ وہ مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دیں۔ ابو سفیان نے قبول کر لئے اور صفوان نے انکار کیا اور کہا: محمد (ﷺ) اس سے ہمارے نوجوانوں کو دھوکے میں ڈالنا چاہتا ہے۔"
یہ ایک بہت شاندار روایت ہے جو مسلمانوں کی عالی ظرفی بتاتی ہے اور عالمی سیاست کا ایک گر بھی سکھاتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ساٹھ جلدوں پر مشتمل السیر الکبیر موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس صرف اس کتاب پر امام سرخسیؒ کی شرح ہے جس میں انہوں نے طوالت سے بچنے کے لیے روایت مختصر اور بلا سند نقل فرمائی ہے۔ یہ روایت ہمیں کسی اور کتاب میں بھی نہیں ملتی۔
امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت یہ ہے:
وبعث رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خمس مائة دينار إلى مكة حين قحطوا، وأمر بدفع ذلك إلى أبي سفيان بن حرب وصفوان بن أمية ليفرقا على فقراء أهل مكة. فقبل ذلك أبو سفيان، وأبى صفوان وقال: ما يريد محمد بهذا إلا أن يخدع شباننا.
(سرخسی: شرح السیر الکبیر، 1/96، ط: الشركة الشرقية للإعلانات)
و الله اعلم
متفرق_خیالات  
مفتی اویس پراچہ ( #ایس_اے_ساگر )

Wednesday 10 May 2023

دینی مقاصد کے لئےخواتین سے رابطہ

"دینی مقاصد کے لئےخواتین سے رابطہ رکھنے کے حوالے سے مفتی محمود اشرف عثمانی قدس اللہ تعالیٰ سرہ کی فکرانگیز تحریر"
______________
نیک دل طالبات اور دیندار خواتین کسی کو بزرگ سمجھ کر اس کی طرف زبانی یا تحریری طور پر رجوع کرتی ہیں، ان کا دینی جذبہ بالعموم قابلِ قدر ہوتا ہے، اور انہیں دینی رہنمائی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ یہ سب خواتین قابلِ احترام اور پاک دامن اور سادہ دل ہوتی ہیں، اللہ رسول کی محبت اور اپنی آخرت کی تیاری کی وجہ سے رجوع کرتی ہیں…مگر عام طور سے مرد ایسے پاک دامن صاف دِل نہیں ہوتے، مردوں کے دل دماغ میں شہوانی اور جنسی خیالات بآسانی آجاتے ہیں، نفس اور شیطان انہیں شہوانی اور جنسی خیالات کی طرف بآسانی راغب کردیتا ہے اور وہ دھیرے دھیرے گناہ کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں … خواتین میں محبت یا نفرت کا جذبہ غالب اور شدید ہوتا ہے، خواتین طبعی طور پر محبت کرتی ہیں اور محبت ہی کی خواہشمند ہوتی ہیں۔ مگر یہ محبت کہاں تک اللہ رسول کی محبت ہے اور کس مرحلہ پر جاکر اجنبی مرد کی محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے، سادہ دِل ہونے کی وجہ سے اس کا خود انہیں بھی انداز نہیں ہوتا جب کہ مرد محبت کا مطلب وہی سمجھتا ہے جو اُس کا نفس اور شیطان اُسے سمجھاتا ہے، اس لئے کسی بھی مرحلہ پر جاکر دونوں سخت گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا مبتلا ہوسکتے ہیں اور صراطِ مستقیم اور سلوک الی اللہ کے بجائے گناہوں کی دلدل کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں، خاص طور پر کنواری خواتین یا وہ خواتین جو اپنے گھر یا گھروالوں سے نالاں ہوں، نامحرم مرد سے اُن کی جائز محبت بہت جلد ناجائز محبت میں تبدیل ہوسکتی ہے اور انہیں خود اس کا اندازہ بھی نہیں ہوپاتا۔ اس لئے تمام اکابر نامحرم خواتین سے دینی تعلق رکھنے میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کسی خاتون کا دینی خط بھی صرف اس وقت قبول کرتے تھے جب اس پر اس کے شوہر کے دستخط ہوں یعنی اس خاتون کا وہ خط اس کے شوہر کی نگاہ سے گزرچکا ہوں۔
احقر کا طویل عرصہ سے دارالافتاء سے تعلق ہے، وہاں مختلف واقعات نظروں کے سامنے گزرتے رہتے ہیں اور یہ کہ کسی طرح بعض مشائخ کا خواتین سے دینی تعلق آہستہ آہستہ ناجائز تعلق میں تبدیل ہوا، سامنے آتے رہتے ہیں۔ خود احقر کو کبھی بھی اپنے شرارتی نفس پر بھروسہ نہیں ہوسکا، اس لئے احقر خواتین سے ذاتی طور پر ہمیشہ معذرت کردیتا ہے اور ایک تحریر شدہ خط انہیں بھیج دیتا ہے۔
یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ اگر گھر کے سربراہ اور گھر کے ذمہ دار مردوں کا کسی بزرگ الله والے سے اصلاحی تعلق ہو تو اس گھر کے بچوں اور خواتین کی دینی اصلاح و تربیت خود ہوتی رہتی ہے اور بچوں اور خواتین کو علیحدہ سے بیعت و ارشاد کی ضرورت نہیں رہتی، لہٰذا اگر گھر کے تمام مرد حضرات اکابر علماء و مشائخ سے تعلق رکھیں اور حکمت و موعظہ حسنہ کے ساتھ زندگی گزاریں تو  گھر کی خواتین کی اصلاح خود بخود ہو جاتی ہے۔ بہرحال کچھ عرصہ قبل مدارس بنات کی طالبات اور کچھ خواتین کی طرف سے مجھے خطوط موصول ہونے شروع ہوئے کہ ہم آپ سے اصلاحی تعلق قائم کرنا چاہتی ہیں، احقر نے ایک جواب تحریر کیا، جو ہر ایک خط کے جواب میں بھیجا جاتا رہا، جو یہ ہے:
احقر کامکتوب:
عزیزہ سلمها الله تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا خط ملا۔ آپ کا دینی جذبہ قابل قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو علم نافع عطا فرمائے اور آپ کو دنیا و آخرت میں عافیت کے ساتھ بہترین زندگی عطا کرے۔ آمین
آپ ابھی نو عمر ہیں، آپ کا اس طرح خط و کتابت کرنا مناسب نہیں۔ آپ دلجمعی سے دینی اور دنیوی تعلیم حاصل کریں تا کہ آپ کی دنیا و آخرت درست ہو اورتعلیم آپ کے لئے دنیا وآخرت میں مفید ثابت ہو۔ جب آپ بڑی ہوجا ئیں، شادی شدہ ہوں، اس وقت شوہر کی اجازت کے ساتھ کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق قائم کرسکتی ہیں۔ فی الحال آپ درج ذیل چیزوں کا اہتمام کریں:
1…نماز اول وقت میں ادا کرلیا کریں۔ نماز میں کوتاہی نہ ہو۔
2…قرآن مجید کی تلاوت ضرور کیا کریں۔ بہتر ہے کہ روزانہ ایک پارہ ہو۔
3…مناجاتِ مقبول عربی یا اردو کی دعائیں ایک منزل روزانہ ضرور پڑھا کریں۔
4…دنیا کے ہنر مثلا کھانا پکانا، سلائی کڑھائی وغیرہ جو آپ کی اگلی زندگی میں کام آئیں ضرور سیکھ لیں ورنہ عورت کو تکلیف ہوتی ہے۔
5…اپنا کام اور اپنے گھر کے کام خود کرنے کی کوشش کریں کسی کی محتاج نہ بنیں۔
6…والدین اور قریب ترین محارم کو راحت پہنچانے کی کوشش کریں۔ کسی کے لئے اذیت یا تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ اس کا بہت گناہ ہے، اور بڑی نحوست کی بات ہے۔
7…شکر کا اور دُعا کا بہت اہتمام رکھیں۔ جو نعمت نظر آ جائے، اس پرفورا شکر ادا کریں اور جو کچھ مانگنا ہو اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہیں۔ ہاتھ اٹھاکر بھی اور چلتے پھرتے بھی…والسلام
دعاگو محمود اشرف غفر اللہ لہٗ
۲۱/ جمادی الثانیہ ۱۴۳۵ھ
۲۲/ اپریل ۲۰۱۴ء
------------
ناقل: محمد بشارت نواز
-----------
کتاب کا نام: احباب کے لئے مضامینِ تصوف
صفحہ نمبر: (67 تا 70)
مصنف: مفتی محمد اشرف عثمانی صاحب مدظلہم
ناشر: ادارہ اسلامیات کراچی-لاہور ( #ایس_اے_ساگر )

Monday 1 May 2023

شوہر کیسے پاگل ہوتا ہے

👩ﺑﯿﻮﯼ : ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻝ ﮐﭩﻮﺍﻟﻮﮞ؟؟ 
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﮐﭩﻮﺍﻟﮯ ...😋

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﻟﻤﺒﮯ کئے تھے ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👩 ﺑﯿﻮﯼ : ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﮐﻞ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﺎﻝ ﻓﯿﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...😝

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﻟﻤﺒﮯ ﺑﺎﻝ ﺁﭘﮑﻮ ﺗﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺖ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👩 ﺑﯿﻮﯼ : ﻣﯿﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮕﮯ ﮔﯿﮟ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...😛

👱‍♀ ﺑﯿﻮﯼ : ﻣﮕﺮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﭨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﯽ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہﮐﭩﻮﺍ ...😝

👩ﺑﯿﻮﯼ : ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...😝

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﮔﮱ ﺗﻮ ...؟؟؟
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👩ﺑﯿﻮﯼ : ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﻮﮞ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...🤩

👱‍♀ ﺑﯿﻮﯼ : ﺍﮔﺮ ﺍﭼﮭﮯ نہ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👩 ﺑﯿﻮﯼ : ﻭﯾﺴﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﺎﻝ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻨﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...😝

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺮﮮ نہ ﻟﮕﯿﮟ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👩ﺑﯿﻮﯼ : ﺍﭼﮭﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﭩﻮﺍ
ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮﮞ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...😝

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﺐ ﭼﻠﯿﮟ ...؟؟؟
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﻣﯿﮟ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ...
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ ...🤪

👱‍♀ﺑﯿﻮﯼ : ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ؟؟؟ لگتا ہے آپ کا دھیان میری باتوں کی طرف نہیں ہے.....؟؟؟
👨ﺧﺎﻭﻧﺪ : ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ ...😝

👱‍♀بیوی: آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے ناں...؟؟؟
👨خاوند: تو پھر کٹوا لے...
😝😝

"اب ﯾﮧ 👨ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺑﯿﭽﺎﺭﮦ پالنپور ﮐﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ....😝

"ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﯾﮩﯽ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ..."

ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭩﻮﺍ ﻟﮯ😂😂😂
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ نہ ﮐﭩﻮﺍ 😂😂😂
تو پھر کٹوا لے😂😂😂
تو پھر نہ کٹوا😂😂..
😂😂😂😂😂😂😂