ایس اے ساگر
گجرات سے لیکر بہار تک کی سیاست میں کتنے بے قصوروں نے جام شہادت پیا ہے اورکتنے لوگ مظالم کی چکی میں پسے ہیں،یہ تو ایک نہ ایک دن کھل کے رہے گا جبکہ بہار کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے شکست تسلیم کر لی ہے۔مودی کا 40 سے زیادہ انتخابی ریلیوں سے خطاب اور دلی میں ’ٹکنالوجی روم‘ اور ’وار روم‘ کچھ کام نہ آیا۔6 لاکھ سے زیادہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکن اور حامیوں کی بھی ہوا نکل گئی۔نتیش کمار، لالو پرساد اور کانگریس کے محاذ نے وزیر اعظم نریندر مودی کوایسی دھول چٹائی کہ جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا۔گویا کہ قومی سیاست کی سمت بدلنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔بہار کے صوبائی انتخابات کے نتائج کو بی جے پی کے مخالفین غرور، منافرت اور عدم رواداری کے بی جے پی کے نظریہ کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کون سے ہیں تین اہم پہلو؟
انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر شیکھر گپتا نے آئینہ دکھایا ہے کہ حکومت کو اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ’اپوزیشن پاکستانی نہیں ہے....اور بی جے پی کا یہ خواب کے ایک کے بعد ایک وہ تمام ریاستیں فتح کرتی چلی جائے گی، شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔‘یعنی حکومت کو اب حزب اختلاف کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا جبکہ وہ اب تک ایسا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ جمن شبراتی کو تو کیا خاک ہی یہ علم ہوگا لیکن سیاسی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایوان بالا عرف راجیہ سبھا میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور اس وجہ سے کئی اہم قانون منظوری کے منتظر ہیں اور التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قانون سازی کا عمل اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور اقتصادی اصلاحات پر اگر حکومت عمل کرنا چاہتی ہے تو اب اس کے پاس حزب مخالف کے خدشات کو یکسر مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
کیا ملا مذہبی منافرت سے؟
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ملک میں مذہبی منافرت کا ماحول بڑھا ہے۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں گلا پھاڑ کر چیخ رہی ہیں کہ حالیہ انتخابات کے دوران مذہبی منافرت کے ذریعہ ہندوو ¿ں کا ووٹ متحد کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ مودی نے اس انتخاب کو ہر قیمت پر جیتنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اگر بہار میں ان کی جیت ہوئی ہوتی تو ان کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا۔دلی ریاست کے بعد بہار میں مسلسل ان کی دوسری شکست ہے۔ مودی اور امت کی قیادت کے بارے میں یقیناً سوالات پیدہ ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی کی اتھارٹی کمزور ہوگی۔اس شکست سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔گذشتہ کچھ عرصے سے بی جے اور آر ایس ایس سے وابستہ سخت گیر ہندو توا کے رہنماو ¿ں کی طرف سے تشویشناک نفرت انگیز بیانات آتے رہے ہیں۔ بہار کی شکست کے بعد مودی کیلئے ان عناصر پر قابو پانا اور بھی مشکل ہوگا۔خود بی جے پی کے کئی سینئر رہنماو ¿ں اور پارٹی کے نظریاتی اتحادیوں کے بیانات کی وجہ سے منافرت کا ماحول فروغ پا رہا ہے اور بہار کے انتخابات میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ شاید 1990 کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ سنائی دے رہی تھی۔
پارٹی کے گلے کی ہڈی :
بی جے پی کے صدر امت شاہ کا یہ کہنا کہ پارٹی اگر ہار گئی تو پٹاخے پاکستان میں چھوڑے جائیں گے یا ایک انتخابی ریلی میں وزیراعظم کا یہ بیان کے بہار کی حکومت دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتی ہے اور پسماندہ طبقات سے چھین کر ریزرویشن کا ایک حصہ ’ایک اقلیت‘ کو دیناچاہتی ہے، یہ موقف اب خود پارٹی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔
گائے کی سیاست :
سینئر صحافی کرن تھاپر نے تو یہاں تک کہا کہ ریزرویشن سے متعلق وزیراعظم کا بیان ان کے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ صرف ایک فرقے کے وزیر اعظم نہیں ہیں۔ پارٹی کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ گائے کی سیاست سےاسے کہیں فائدہ کم اورنقصان تو زیادہ نہیں ہورہا ہے؟
حکومت کو رواداری پر جاری بحث پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔ تجزیہ نگار شاہد ہیں کہ ہر اس شخص کو قوم مخالف یا غدار قرار دینے سے، جو حکومت کی رائے سے اتفاق نہ کرتا ہو، سیاسی بحث کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور یہی وہ ماحول ہے جس کے خلاف بڑی تعداد میں دانشور، ادیب، فلم ساز ، مورخ، مصنف اور سنگیت کار آواز اٹھا رہے ہیں۔نریندر مودی جب پارٹی کے لیڈر بنے تو پارٹی کی باقی قیادت کا تقریباً صفایہ ہوگیا تھا۔ اس وقت پارٹی بنیادی طور پر صرف تین لوگوں کے ہاتھ میں بتائی جاتی ہے، وزیراعظم، ان کے قریبی معتمد اور پارٹی کے صدر امت شاہ اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی۔ جب تک نریندر مودی کا انتخابی جادو چل رہا تھا، باقی ماندہ رہنما خاموش بیٹھے تھے لیکن دہلی کے بعد بہار میں کراری شکست کے بعد بی جے پی کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہونا ناگزیر ہیں اور وزیراعظم کیلئے انھیں اب نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔
گوبر، گائے اور گنیش،
اتر گیا سنگھی گنویش !!
لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ چوہے مارنے والی دوا پر پابندی کیوں نہیں لگتی جبکہ چوہا گنیش جی کی سواری ہے....سانپ مارنے والے سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ہیں جبکہ بھولےناتھ کے گلے کا ہار ہے سانپ۔۔۔پورے ہندوستان میں گائے کی طرح سور کی بھی پوجا ہوتی کیونکہ وہ بھی تو وشنو کا اوتار ہے ....ہنومان سے سچی عقیدت کے سبب تجربہ گاہوں میں بندر نہ مرتے جبکہ ان سب کو مسلمان کھانے میں استعمال بھی نہیں کرتا۔ نسل پرست اعلی ذات نسل کی تنظیم آر ایس ایس کی سیاسی اکائی بی جے پی کا اتنا جلد اور ایسا برا حشر ہو گا، یہ کس نے سوچا ہو گا؟ موجودہ انتخابات میں پہلی بار آر ایس ایس اور بی جے پی کو اس کے حقیقی نام سے پکارا گیا۔ ان دونوں تنظیموں کو ان کے صحیح نام سے بلائیے ، ان کا دم نکل جائے گا۔ یقین نہ ہو تو آپ بھی آج سے ہی یہ کرکے دیکھئے۔
زبردست سیاسی دھچکا:
سیاسی پارٹیوں اور حکومت کومذہبی منافرت کی بجائے اب ترقی کے ان وعدوں پر توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہئے جبکہ بی جے پی نے گذشتہ برس پارلیمانی انتخابات کے دوران خم ٹھوکنے کا ریکارڈ ہی توڑ دیا تھا کہ ہر شہری کو 15 لاکھ کی خطیر رقم نصیب ہوگی۔ ماہرین کے مطابق اس الیکشن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ووٹروں کو روزگار چاہئے ، ایک بہتر زندگی چاہئے، یہی فارمولہ گذشتہ برس کامیاب ہوا تھا اور جن پارٹیوں کو الیکشن جیتنا ہے، انہیں اسی پر عمل کرنا ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ الیکشن کے بعد ہندوستانی سیاست ایک غیر معمولی موڑ پر کھڑی ہے، بہار نے رام مندر کی تحریک کےدوران بھی راستہ دکھایا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ لالو پرساد یادو نے رام مندر کی تعمیر کیلئے لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو نہ صرف روکا تھا بلکہ انہیں گرفتار کیا تھا اور اب پھر انہی زخموں کو ہرا کرکے رکھ دیا ہے۔پارٹی کے اندر ان کے مخالفین ان کے رفیق اور صدر امت شاہ کی قیادت کی مخالفت بھی شروع کر سکتے ہیں۔یہ انتخابی شکست ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عدم رواداری کے خلاف پورے ملک میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور نفرت کی سیاست کے خلاف ہر شعبہ سے صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہیں۔مودی اس شکست سے پارٹی اور اپنے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی لائیں گے؟یہ اس مرحلے پر اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس نتیجے سے بی جے پی کو زبردست سیاسی دھچکا لگا ہے اور اپوزیشن کو نئی طاقت ملی ہے۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سیاسی حیثیت کافی بڑھ گئی ہے اور مستقبل کی سیاست میں وہ مودی کے خلاف ایک نئے محاذ کی تشکیل کا محور ہوں گے۔ مصیبت تو یہ ہے کہ جلدی ہی کئی دوسری بڑی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نریندر مودی کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
کیا ٹوٹ گیا غرور؟
سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پرمنظوم پیغام گردش کررہا ہے کہ
آج ایک فرعون کا غرور ٹوٹا ہے
اندھیرے سے روشنی کا ظہور پھوٹا ہے
±اسے کہہ دو اپنے تصور کو بدل دے
ابھی صرف ہاتھ سے بہار چھوٹا ہے
لیکن ایسے تاثرات کی بھی کمی نہیں ہے کہ تمام پارٹیوں میں صرف مسلم چہرے ہیں؛ ہمارے نمائندے نہیں ہیں ۔ذرا تلخ ضرور ہے لیکن یہ تجزیہ بھی قابل غور ہے کہ عظیم اتحاد کی کامیابی پر ہم بہت خوش ہیں کسی کو خوش ہونے سے روکا بھی نہیں جاسکتا۔اگر ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہم نے سیکولر پارٹی کو کامیاب بنایا ہے تو ماضی میں بھی ہم نے سیکولر پارٹیوں کوہی کامیاب بنایا تھااور ہم ہمیشہ خوش ہوتے رہے کہ یہ پارٹی ہمارے لئے کام کرے گی اور ہمیں ہمارا حق دلوائے گی، لیکن کیا ہم کسی ایک پارٹی کا بھی نام لے سکتے ہیں جس نے ہمارے مطالبات اور پریشانیوں پر خاطر خواہ توجہ دی ہو بلکہ الٹا ہمیں کنارے لگانے کی کوشش ہوتی رہی۔ اس سلسلہ میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ سچر کمیٹی؛ رنگناتھ مشرا کمیشن اور اس جیسی دیگر رپورٹیں ہماری بد حالی کو بتانے کیلئے کافی ہیں ۔اور اگر ہم اس بات پر خوش ہیں کہ عظیم اتحاد کے سہارے متعدد مسلم لیڈر کامیاب ہوئے۔ اتر پردیش کے گذشتہ اسمبلی الیکشن میں اپنے ووٹوں سے 60 سے بھی زیادہ مسلم امیدواروں کو کامیاب کیا تھا؛ مگر کیا انہوں نے ضرورت پڑنے پر ہماری مدد کی؟جب فسادات میں ہمیں مارا کاٹا گیا تو کیا کسی ایک نے بھی ہمارے حق میں اسمبلی کے اندر یا باہر لب کشائی کی جرات کی کہ ایسا کیوں ہوا؟جبکہ یہ اس لئے ہوا چونکہ وہ مسلم لیڈر اپنی اپنی پارٹی میں محض مسلم چہرے ہیں؛ وہ ہمارے نمائندے بن کران پارٹیوں میں نہیں ہیں۔ ان کو اپنی پارٹی محبوب ہے؛ ہم نہیں جنہوں نے ان کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا۔ ملک کو آزاد ہوئے تقریباً 70 برس ہو گئے جبکہ ہر گزرتے ہوئے لمحہ کیساتھ ہماری حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے؛ تو کیا یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہے گا، اس کے باوجود لوگ خوش ہو رہے ہیں، کیا اقبال اشہر کا یہ شعر دعوت فکر نہیں دیتا....
ہمارے دور کا فرعون ڈوبتا ہی نہیں
کہاں چلے گئے پانی پہ چلنے والے لوگ
گجرات سے لیکر بہار تک کی سیاست میں کتنے بے قصوروں نے جام شہادت پیا ہے اورکتنے لوگ مظالم کی چکی میں پسے ہیں،یہ تو ایک نہ ایک دن کھل کے رہے گا جبکہ بہار کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے شکست تسلیم کر لی ہے۔مودی کا 40 سے زیادہ انتخابی ریلیوں سے خطاب اور دلی میں ’ٹکنالوجی روم‘ اور ’وار روم‘ کچھ کام نہ آیا۔6 لاکھ سے زیادہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکن اور حامیوں کی بھی ہوا نکل گئی۔نتیش کمار، لالو پرساد اور کانگریس کے محاذ نے وزیر اعظم نریندر مودی کوایسی دھول چٹائی کہ جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا۔گویا کہ قومی سیاست کی سمت بدلنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔بہار کے صوبائی انتخابات کے نتائج کو بی جے پی کے مخالفین غرور، منافرت اور عدم رواداری کے بی جے پی کے نظریہ کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کون سے ہیں تین اہم پہلو؟
انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر شیکھر گپتا نے آئینہ دکھایا ہے کہ حکومت کو اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ’اپوزیشن پاکستانی نہیں ہے....اور بی جے پی کا یہ خواب کے ایک کے بعد ایک وہ تمام ریاستیں فتح کرتی چلی جائے گی، شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔‘یعنی حکومت کو اب حزب اختلاف کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا جبکہ وہ اب تک ایسا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ جمن شبراتی کو تو کیا خاک ہی یہ علم ہوگا لیکن سیاسی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایوان بالا عرف راجیہ سبھا میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور اس وجہ سے کئی اہم قانون منظوری کے منتظر ہیں اور التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قانون سازی کا عمل اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور اقتصادی اصلاحات پر اگر حکومت عمل کرنا چاہتی ہے تو اب اس کے پاس حزب مخالف کے خدشات کو یکسر مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
کیا ملا مذہبی منافرت سے؟
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ملک میں مذہبی منافرت کا ماحول بڑھا ہے۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں گلا پھاڑ کر چیخ رہی ہیں کہ حالیہ انتخابات کے دوران مذہبی منافرت کے ذریعہ ہندوو ¿ں کا ووٹ متحد کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ مودی نے اس انتخاب کو ہر قیمت پر جیتنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اگر بہار میں ان کی جیت ہوئی ہوتی تو ان کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوتا۔دلی ریاست کے بعد بہار میں مسلسل ان کی دوسری شکست ہے۔ مودی اور امت کی قیادت کے بارے میں یقیناً سوالات پیدہ ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی کی اتھارٹی کمزور ہوگی۔اس شکست سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔گذشتہ کچھ عرصے سے بی جے اور آر ایس ایس سے وابستہ سخت گیر ہندو توا کے رہنماو ¿ں کی طرف سے تشویشناک نفرت انگیز بیانات آتے رہے ہیں۔ بہار کی شکست کے بعد مودی کیلئے ان عناصر پر قابو پانا اور بھی مشکل ہوگا۔خود بی جے پی کے کئی سینئر رہنماو ¿ں اور پارٹی کے نظریاتی اتحادیوں کے بیانات کی وجہ سے منافرت کا ماحول فروغ پا رہا ہے اور بہار کے انتخابات میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ شاید 1990 کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ سنائی دے رہی تھی۔
پارٹی کے گلے کی ہڈی :
بی جے پی کے صدر امت شاہ کا یہ کہنا کہ پارٹی اگر ہار گئی تو پٹاخے پاکستان میں چھوڑے جائیں گے یا ایک انتخابی ریلی میں وزیراعظم کا یہ بیان کے بہار کی حکومت دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتی ہے اور پسماندہ طبقات سے چھین کر ریزرویشن کا ایک حصہ ’ایک اقلیت‘ کو دیناچاہتی ہے، یہ موقف اب خود پارٹی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔
گائے کی سیاست :
سینئر صحافی کرن تھاپر نے تو یہاں تک کہا کہ ریزرویشن سے متعلق وزیراعظم کا بیان ان کے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ صرف ایک فرقے کے وزیر اعظم نہیں ہیں۔ پارٹی کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ گائے کی سیاست سےاسے کہیں فائدہ کم اورنقصان تو زیادہ نہیں ہورہا ہے؟
حکومت کو رواداری پر جاری بحث پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔ تجزیہ نگار شاہد ہیں کہ ہر اس شخص کو قوم مخالف یا غدار قرار دینے سے، جو حکومت کی رائے سے اتفاق نہ کرتا ہو، سیاسی بحث کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور یہی وہ ماحول ہے جس کے خلاف بڑی تعداد میں دانشور، ادیب، فلم ساز ، مورخ، مصنف اور سنگیت کار آواز اٹھا رہے ہیں۔نریندر مودی جب پارٹی کے لیڈر بنے تو پارٹی کی باقی قیادت کا تقریباً صفایہ ہوگیا تھا۔ اس وقت پارٹی بنیادی طور پر صرف تین لوگوں کے ہاتھ میں بتائی جاتی ہے، وزیراعظم، ان کے قریبی معتمد اور پارٹی کے صدر امت شاہ اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی۔ جب تک نریندر مودی کا انتخابی جادو چل رہا تھا، باقی ماندہ رہنما خاموش بیٹھے تھے لیکن دہلی کے بعد بہار میں کراری شکست کے بعد بی جے پی کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہونا ناگزیر ہیں اور وزیراعظم کیلئے انھیں اب نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔
گوبر، گائے اور گنیش،
اتر گیا سنگھی گنویش !!
لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ چوہے مارنے والی دوا پر پابندی کیوں نہیں لگتی جبکہ چوہا گنیش جی کی سواری ہے....سانپ مارنے والے سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ہیں جبکہ بھولےناتھ کے گلے کا ہار ہے سانپ۔۔۔پورے ہندوستان میں گائے کی طرح سور کی بھی پوجا ہوتی کیونکہ وہ بھی تو وشنو کا اوتار ہے ....ہنومان سے سچی عقیدت کے سبب تجربہ گاہوں میں بندر نہ مرتے جبکہ ان سب کو مسلمان کھانے میں استعمال بھی نہیں کرتا۔ نسل پرست اعلی ذات نسل کی تنظیم آر ایس ایس کی سیاسی اکائی بی جے پی کا اتنا جلد اور ایسا برا حشر ہو گا، یہ کس نے سوچا ہو گا؟ موجودہ انتخابات میں پہلی بار آر ایس ایس اور بی جے پی کو اس کے حقیقی نام سے پکارا گیا۔ ان دونوں تنظیموں کو ان کے صحیح نام سے بلائیے ، ان کا دم نکل جائے گا۔ یقین نہ ہو تو آپ بھی آج سے ہی یہ کرکے دیکھئے۔
زبردست سیاسی دھچکا:
سیاسی پارٹیوں اور حکومت کومذہبی منافرت کی بجائے اب ترقی کے ان وعدوں پر توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہئے جبکہ بی جے پی نے گذشتہ برس پارلیمانی انتخابات کے دوران خم ٹھوکنے کا ریکارڈ ہی توڑ دیا تھا کہ ہر شہری کو 15 لاکھ کی خطیر رقم نصیب ہوگی۔ ماہرین کے مطابق اس الیکشن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ووٹروں کو روزگار چاہئے ، ایک بہتر زندگی چاہئے، یہی فارمولہ گذشتہ برس کامیاب ہوا تھا اور جن پارٹیوں کو الیکشن جیتنا ہے، انہیں اسی پر عمل کرنا ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ الیکشن کے بعد ہندوستانی سیاست ایک غیر معمولی موڑ پر کھڑی ہے، بہار نے رام مندر کی تحریک کےدوران بھی راستہ دکھایا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ لالو پرساد یادو نے رام مندر کی تعمیر کیلئے لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو نہ صرف روکا تھا بلکہ انہیں گرفتار کیا تھا اور اب پھر انہی زخموں کو ہرا کرکے رکھ دیا ہے۔پارٹی کے اندر ان کے مخالفین ان کے رفیق اور صدر امت شاہ کی قیادت کی مخالفت بھی شروع کر سکتے ہیں۔یہ انتخابی شکست ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عدم رواداری کے خلاف پورے ملک میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور نفرت کی سیاست کے خلاف ہر شعبہ سے صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہیں۔مودی اس شکست سے پارٹی اور اپنے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی لائیں گے؟یہ اس مرحلے پر اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس نتیجے سے بی جے پی کو زبردست سیاسی دھچکا لگا ہے اور اپوزیشن کو نئی طاقت ملی ہے۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سیاسی حیثیت کافی بڑھ گئی ہے اور مستقبل کی سیاست میں وہ مودی کے خلاف ایک نئے محاذ کی تشکیل کا محور ہوں گے۔ مصیبت تو یہ ہے کہ جلدی ہی کئی دوسری بڑی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نریندر مودی کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
کیا ٹوٹ گیا غرور؟
سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پرمنظوم پیغام گردش کررہا ہے کہ
آج ایک فرعون کا غرور ٹوٹا ہے
اندھیرے سے روشنی کا ظہور پھوٹا ہے
±اسے کہہ دو اپنے تصور کو بدل دے
ابھی صرف ہاتھ سے بہار چھوٹا ہے
لیکن ایسے تاثرات کی بھی کمی نہیں ہے کہ تمام پارٹیوں میں صرف مسلم چہرے ہیں؛ ہمارے نمائندے نہیں ہیں ۔ذرا تلخ ضرور ہے لیکن یہ تجزیہ بھی قابل غور ہے کہ عظیم اتحاد کی کامیابی پر ہم بہت خوش ہیں کسی کو خوش ہونے سے روکا بھی نہیں جاسکتا۔اگر ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہم نے سیکولر پارٹی کو کامیاب بنایا ہے تو ماضی میں بھی ہم نے سیکولر پارٹیوں کوہی کامیاب بنایا تھااور ہم ہمیشہ خوش ہوتے رہے کہ یہ پارٹی ہمارے لئے کام کرے گی اور ہمیں ہمارا حق دلوائے گی، لیکن کیا ہم کسی ایک پارٹی کا بھی نام لے سکتے ہیں جس نے ہمارے مطالبات اور پریشانیوں پر خاطر خواہ توجہ دی ہو بلکہ الٹا ہمیں کنارے لگانے کی کوشش ہوتی رہی۔ اس سلسلہ میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ سچر کمیٹی؛ رنگناتھ مشرا کمیشن اور اس جیسی دیگر رپورٹیں ہماری بد حالی کو بتانے کیلئے کافی ہیں ۔اور اگر ہم اس بات پر خوش ہیں کہ عظیم اتحاد کے سہارے متعدد مسلم لیڈر کامیاب ہوئے۔ اتر پردیش کے گذشتہ اسمبلی الیکشن میں اپنے ووٹوں سے 60 سے بھی زیادہ مسلم امیدواروں کو کامیاب کیا تھا؛ مگر کیا انہوں نے ضرورت پڑنے پر ہماری مدد کی؟جب فسادات میں ہمیں مارا کاٹا گیا تو کیا کسی ایک نے بھی ہمارے حق میں اسمبلی کے اندر یا باہر لب کشائی کی جرات کی کہ ایسا کیوں ہوا؟جبکہ یہ اس لئے ہوا چونکہ وہ مسلم لیڈر اپنی اپنی پارٹی میں محض مسلم چہرے ہیں؛ وہ ہمارے نمائندے بن کران پارٹیوں میں نہیں ہیں۔ ان کو اپنی پارٹی محبوب ہے؛ ہم نہیں جنہوں نے ان کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا۔ ملک کو آزاد ہوئے تقریباً 70 برس ہو گئے جبکہ ہر گزرتے ہوئے لمحہ کیساتھ ہماری حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے؛ تو کیا یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہے گا، اس کے باوجود لوگ خوش ہو رہے ہیں، کیا اقبال اشہر کا یہ شعر دعوت فکر نہیں دیتا....
ہمارے دور کا فرعون ڈوبتا ہی نہیں
کہاں چلے گئے پانی پہ چلنے والے لوگ
Bihar Election Setback
By: S. A. Sagar
Prime Minister Narendra Modi has admitted defeat for his governing BJP in a key regional election in the eastern state of Bihar. According to reports, an alliance of regional parties took 178 seats out of 243. The BJP won 58.
Mr Modi won a convincing victory in last year's national elections, but this poll was seen as a referendum on his economic programme.
Defeat is a major setback for the prime minister, says the BBC's Sanjoy Majumder, in Delhi. However, a spokesman for the Hindu-led nationalist BJP rejected suggestions the result was a personal blow for Mr Modi, saying the party "managed a creditable performance".
No comments:
Post a Comment