Wednesday 16 December 2020

مرنے کے بعد انسان پر کیا گزرتی ہے؟

مرنے کے بعد انسان پر کیا گزرتی ہے؟
مرنے کے فوراً بعد انسانی دماغ کی سرگرمی اچانک بڑھتی ہے اور پھر اتنی ہی تیزی سے بالکل ختم ہوجاتی ہے. یعنی حیاتیاتی نقطہ نظر سے جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو اس کے مادّی جسم پر کیا گزرتی ہے.
سیکنڈوں کے بعد:
مرنے کے فوراً بعد انسانی دماغ کی سرگرمی اچانک بڑھتی ہے اور پھر اتنی ہی تیزی سے بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
مرنے کے ساتھ ہی جسمانی درجہ حرارت 1.6 ڈگری فیرن ہائیٹ (0.89 ڈگری سینٹی گریڈ) فی گھنٹہ کی شرح سے کم ہونے لگتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اردگرد کے درجہ حرارت جتنا ہوجاتا ہے۔
منٹوں کے بعد:
آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے جسمانی خلیات مرنے لگتے ہیں اور ان میں ٹوٹنے پھوٹنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان خلیوں کے اندر بند مواد خارج ہونے لگتا ہے۔
گھنٹوں کے بعد:
پٹھوں میں کیلشیم جمع ہونے لگتا ہے جس کے باعث لاش اکڑ کر سخت ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت مرنے کے تقریباً 36 گھنٹے بعد تک برقرار رہتی ہے۔
اس کے بعد جب پٹھے ایک بار پھر سے نرم پڑتے ہیں تو جسم میں باقی رہ جانے والے فضلہ جات (پیشاب اور پاخانہ) بھی خارج ہوجاتے ہیں۔
رگوں میں خون کا بہاؤ رُک جانے کی وجہ سے کششِ ثقل اس خون کو نیچے کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ نتیجتاً سرخ و سفید رنگت والی جلد پیلی پڑجاتی ہے اور اس پر جگہ جگہ سرخ دھبے نمایاں دکھائی دینے لگتے ہیں۔
بتدریج خشک ہونے کی وجہ سے کھال سکڑ جاتی ہے جس کے باعث یوں دکھائی دیتا ہے جیسے مُردے کے ناخن اور بال کچھ لمبے ہوگئے ہوں (حالانکہ اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ صرف کھال کے سکڑ جانے کی وجہ سے ایسا صرف محسوس ہوتا ہے)۔
دنوں کے بعد:
مرنے کے ایک سے دو دن بعد ہی مُردے کے جسم سے شدید ناگوار بدبو اُٹھنے لگتی ہے کیونکہ اس دوران گلتے سڑتے جسم سے بدبو پیدا کرنے والے مرکبات کی بڑی مقدار خارج ہورہی ہوتی ہے۔
گلنے سڑنے کے اسی عمل میں جسم اعضاء پر بیکٹیریا (جراثیم)، خامروں سے مدد لیتے ہوئے دھاوا بول دیتے ہیں اور انہیں ہڑپ کرکے ختم کرنے لگتے ہیں۔ اس وجہ سے مُردے کے جسم میں (اندر اور باہر کی طرف) سبز رنگت خاصی نمایاں ہوجاتی ہے۔
ہفتوں کے بعد:
لاش کے کیڑے مُردہ جسم پر بسیرا کرلیتے ہیں اور نرم جسمانی بافتوں کا 60 فیصد حصہ صرف ایک ہفتے کے اندر اندر کھاکر ہضم کرجاتے ہیں۔
مُردے کے بال بھی ایک سے دو ہفتے میں جھڑنے لگتے ہیں۔
لاش کو گلانے سڑانے والے جراثیم اپنا کام جاری رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں مرنے کے لگ بھگ تین ہفتے بعد مُردے کی رنگت جامنی پڑجاتی ہے۔
مہینوں کے بعد:
اگر مُردہ جسم کے ارد گرد ماحول کا درجہ حرارت تقریباً 50 ڈگری فیرن ہائیٹ (10 ڈگری سینٹی گریڈ) رہے تو جسم کے سارے نرم حصے (سافٹ ٹشوز) صرف چار مہینوں میں گلنے سڑنے کے بعد مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں؛ اور یوں ہڈیوں پر مشتمل مُردے کا ڈھانچہ ہی باقی رہتا ہے۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں نیچر، جرنل آف کرمنل لا اینڈ کرمنالوجی، مائیکروبائیالوجی ٹوڈے، برٹش میڈیکل جرنل اور آسٹریلین میوزیم کی ویب سائٹس پر دستیاب معلومات سے مدد لی گئی ہے۔ 
https://saagartimes.blogspot.com/2020/12/blog-post_16.html
:: نقلہ: #ایس_اے_ساگر

Tuesday 8 December 2020

اسلام میں فعل خلاف فطرت کا کیا حکم ہے؟

اسلام میں فعل خلاف فطرت کا کیا حکم ہے؟
جنسی بے اعتدالی کی اس سے بھی بدترین شکل لواطت اور استلذاذ بالمثل ہے۔ یہ نہایت خلاف فطرت اور اسلام کی نگاہ میں مبغوض اور قبیح فعل ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر محض اسی وجہ سے سخت بھیانک اور عبرت ناک عذاب نازل ہوا، زمین پر پتھر کی سخت بارش ہوئی اور اس کی سطح پلٹ کررکھ دی گئی۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ چار اشخاص کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی صبح وشام اللہ کی غضب اور ناخوشنودی کی حالت میں ہوتی ہے، ان میں ایک اس فعل کا مرتکب بھی ہے۔
اس جرم کی شناعت کی وجہ سے فقہاء مضطرب ہیں کہ آخر ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟ بعض کہتے ہیں کہ پہاڑ سے گراکرہلاک کردیا جائے، بعض زانی کی سزا جاری کرنے کے قائل ہیں، بعض قتل کے اور بعض قاضی کی صوابدید پررکھتے ہیں۔
 حضرت علیؓ کی ایماء پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غیرشادی شدہ لوطی پر زانی کی سزا سو کوڑے جاری کرائی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردینے کی ہدایت فرمائی ہے اور اکثر فقہاء کا رجحان اسی طرف ہے کہ ایسے مجرم کو قتل کردیا جائے۔ البتہ یہ ’’تعزیر‘‘ کے قبیل سے ہے اور تعزیر میں عدالت کو حالات وواقعات کے اعتبار سے کم وزیادتی کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جن اقوام میں یہ برائی عام ہے ان کو خود قدرت جان لیوا اور عبرت ناک امراض کی صورت میں جیتے جی بھیانک سزادے رہی ہے اور آخرت کی پکڑ اس سے سوا ہے کہ ’’ان بطش ربک لشدید‘‘
جانوروں سے تکمیل ہوس:
ایسے ہی قبیح افعال میں جانوروں کے ذریعہ جنسی خواہش کی تکمیل و تسکین ہے اور واقعہ ہے کہ یہ ایسا عمل ہے کہ اس پر حیوانیت اور بہمیت کی جبین حیا بھی عرق آلود ہے… آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے شخص اور خود جانوردونوں کو قتل کردو۔ فقہاء نے گواس فرمان کو شدت وتوبیخ پر محمول کیا اور ازراہ تعزیر عادی مجرم کے لئے قتل کی گنجائش رکھی ہے تاہم ایسا شخص قابل سرزنش ہے اس پر اتفاق ہے۔جانور بھی ذبح کردیا جائے گا اور زندہ ومردہ اس سے کوئی نفع نہیں اُٹھایا جائے گا۔ بعض روایات میں جانور ذبح کے بعد جلادینے کا بھی ذکر ہے لیکن ایسا کرنا واجب نہیں۔ کیونکہ اصل مقصود یہ ہے کہ برائی کے نشان کو باقی نہ رہنے دیاجائے کہ ایسا نہ کیا جائے تو انگشت نمائی ہوگی، برائی کا ذکر پھیلے گا اور اس سے خود ایک برائی کی طرف ذہن انسانی منتقل ہوگا۔
جنسی بے راہ روی کا سدباب:
 شریعت نے ناجائز چیزکو روکنے اور عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے اور شرم وحیا کی بقا کے لئے مختلف تدبیر یں کی ہیں۔ جن میں سب سے اول تو نکاح ہے لیکن اس کے علاوہ بعض اور احتیاطی تدبیریں بھی کی گئی ہیں، ان میں بدنگاہی کی ممانعت اور استیذان خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بدنگاہی آنکھوں کا زنا ہے۔ ارشاد ہوا کہ شرم گاہ کے ذریعہ تو آخری درجہ کی تصدیق ہوتی ہے ورنہ آنکھیں، ہاتھ، پائوں اور زبان یہ سب زنا کرتے ہیں، یعنی اس فعل زنا میں معاون ہیں۔ اس لئے کہ برائی کااولین خیال یہی نگاہ دل میں پیداکرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم فرمایا کہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں’’قل للمومنین یغضوامن ابصارھم‘‘ یہی حکم مسلمان عورتوں کو بھی دیا گیا کہ نگاہیں پست رکھیں اور اپنی زیبائش اور آرائش کا اظہار نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ کو شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر قراردیا ہے۔
عورتیں اگر بضرورت گھر سے باہرنکلیں تب بھی ان کے لئے یہ ہدایت فرمائی کہ تبرج اور آرائش کا اظہار نہ کریں، عام گزرگاہ سے بچ کر کنارے چلاکریں، مسجد میں آئیں تو ان کی صف سب سے آخری ہو، گفتگو ایسی نہ کریں جس میں لوچ ہو۔آواز میں شیرینی اور جاذبیت نہ ہو جس سے اجنبی مردوں کا دل ان کی طرف کھنچے۔اجنبی مرد وعورت کا تخلیہ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ’’لایخلون رجل بامرأۃ الاکان ثالثھما الشیطان‘‘ اصل میں یہ ساری قدغنیں اسی لئے ہیں کہ آخری درجہ کی برائی بیک خیال نہیں آتی، یہ زہر بتدریج پروان چڑھتاہے، پہلے نگاہیں ملتی ہیں ،پھر نگاہ کا تیردل میں اترتا ہے اور دل میں آگ سلگتی ہے پھر اول زبان دامن حیا کو تار تار کرتی ہے اور اپنا مدعائے ہوس رکھتی ہیں، پھر تنہائی اور ماحول کا اختلاط اس فتنہ کی آنچ کو اور تیز کرتا ہے، زیبائش و آرائش کا اظہار، جاہلانہ تبرج اور زبان کی حلاوت اس آتش فتنہ کو اور سلگاتی اور بڑھاتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ نوبت یہاں تک آپہنچتی ہے کہ انسان آخری درجہ کی برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے، جب انسان بالخصوص عورت کے جسم سے ایک بار حیا کی چادراترتی ہے تو پھر اس کا آشفتہ ہوس اور وارفتۂ نفس بدن کبھی اس چادر کو اوڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ کل جس کی نگاہ اٹھتے ہوئے شرماتی تھی اور جس کو زبان کھولنے میں بھی حجاب آتا تھا۔ آج اسے رقص گاہوں میں تھرکنے اور ناچنے اور محفلوں میں اپنے مدح سرائوں کے سازدل کو چھیڑنے اور تارنفس کو بجانے میں لطف آنے لگتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامی اس فتنہ کے آغاز ہی پر روک لگاتی ہے اور اس فتنہ چنگاری کو سلگنے اور شعلہ و آتش بننے کی اجازت نہیں دیتی۔
جنسی بے راہ روی ہی کی ایک صورت جلق اور استمناء بالید کی ہے، اسلام کی نگاہ میں انسان کا پوراوجود اور اس کی تمام ترصلاحیتیں اللہ کی امانت ہیں، قدرت نے ان کو ایک خاص مقصد کے تحت جنم دیا ہے جو شخص جسم کے کسی حصہ کا غلط استعمال کرتا ہے وہ دراصل خدا کی امانت میں خیانت اور خلق اللہ میں من چاہے تغیر کا مرتکب ہوتا ہے۔ انسان کے اندر جو جنسی قوت اور مادئہ منویہ رکھا گیا ہے وہ بھی بے مقصد اور بلاوجہ نہیں ہے بلکہ اس سے نسل انسانی کی افزائش اور بڑھوتری مقصود ہے اور اس قسم کا عمل چاہے جلق و استمناء بالید ہو یا اغلام بازی یا خود اپنی بیوی سے لواطت، اس مقصد کے عین مغائر اور اس سے متصادم ہے۔
اس لئے یہ عمل بھی ممنوع اور حرام ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے شخص کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن توجہ نہیں فرمائیں گے۔ ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ایسے شخص پر اللہ اور اس کے فرشتوں کی لعنت بھیجی ہے۔ اس کی حرمت پر سورۃ المومنون کی آیت ۵ تا ۷ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جس میں جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے دوہی راستوں کی تحدید کردی گئی ہے، ایک بیوی، دوسرے لونڈی، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک تیسری صورت ہے، فقہاء احناف نے اسے قابل تعزیر جرم قراردیا ہے۔  
 قضاء شہوت کی نیت سے ایسا کرنا قطعاً جائز نہیں، ہاں اگر شہوت کا غلبہ ہو، زنا سے بچنے اور شہوت میں سکون اور ٹھہرائو پیدا کرنے کے لئے ایسا عمل کیا جائے تو لکھتے ہیں کہ امید ہے کہ اس پر وبال اور عذاب نہ ہوگا، چنانچہ ایسے حالات میں حضرت ابن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، مجاہدؒ، حسن بصریؒ وغیرہ سے اس کا جواز نقل کیا گیا ہے۔ اسی ضرورت کے ذیل میں علاج اور میڈیکل جانچ کی غرض سے مادئہ منویہ کا نکالنا بھی ہے، تاہم ان سب کا تعلق اتفاق سے ہے۔ عادتاً تو کسی بھی طرح اجازت نہ دی جائے گی کہ یہ نہ صرف اخلاق کو متأثر کرتا ہے اور فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے بلکہ صحت انسانی کے لئے بھی سخت مضر ہے۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ (شمارہ 479) 
---------------------------------
قرآن پا ک میں ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَo اِلاَّ عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اس آیت کے تحت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہر ی میں لکھا ہے کہ آیت خود دلیل ہے مشت زنی کے حرام ہونے پر۔ پھر ابن جریج کا قول نقل کیا کہ انھوں نے حضرت عطاء سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مکروہ بتایا اور پھر فرمایا میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کے ہاتھ حاملہ ہوں گے۔ اور میرا خیال ہے کہ اس سے مراد یہی لوگ ہیں۔ اورحضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عذاب دیں گے جو اپنے ذَکر کے ساتھ کھیل کرتے تھے۔ ارو ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ناکح الید ملعون یعنی مشت زنی کرنے والا ملعون ہے۔ ہاں اگر کوئی زنا میں مبتلا ہوجانے کا قوی اندیشہ رکھتا ہے تو زنا سے بچنے کے لیے مشت زنی کرلے تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ (ملاحظہ فرمائیں تفسیر مظہری، ج: 5، ص:۳6۵) اور در مختار)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------------------------------
کتاب و سنت کے دلائل کے مطابق مشت زنی اور خود لذتی حرام ہے۔
اول: قرآن مجید سے دلائل:
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: امام شافعی  اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام نے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے عمل کو اس آیت سے حرام قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ اور وہ لوگ جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں [5] ما سوائے اپنی بیویوں  کے یا لونڈیوں کے جن کے وہ مالک ہیں۔ [المؤمنون: 5، 6]
امام شافعی کتاب النکاح میں لکھتے ہیں: "جب  مومنوں کی صفت یہ بیان کر دی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہیں  استعمال نہیں کرتے، اس سے ان کے علاوہ کہیں بھی شرمگاہ کا استعمال حرام ہوگا۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ چنانچہ جو شخص ان کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 7] اس لیے مردانہ عضوِ خاص کو صرف بیوی اور لونڈی  میں ہی استعمال کیا جاسکتا ہے، اس لیے مشت زنی حلال نہیں ہے، واللہ اعلم" ماخوذ: امام شافعی کی "کتاب الام"
کچھ اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی خود لذتی کو حرام قرار دیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ اور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس وقت تک عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے[النور: 33] لہذا عفت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے علاوہ ہر قسم کی جنسی تسکین سے صبر کریں۔
دوم: احادیث نبویہ سے خودلذتی کے دلائل:
علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت کو دلیل بنایا کہ جس میں ہے کہ: "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  تھے اور ہمارے پلے کچھ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے شادی  کی ضروریات [شادی کے اخراجات اور جماع کی قوت] رکھتا ہے وہ شادی کرلے؛ کیونکہ یہ نظروں کو جھکانے والی ہے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے والی ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے لازمی رکھے، یہ اس کیلیے توڑ ہے [یعنی حرام میں واقع ہونے سے رکاوٹ بن جائے گا])" بخاری: (5066)
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں  روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی حالانکہ روزہ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن آپ نے خود لذتی کی اجازت نہیں دی، حالانکہ خود لذتی روزے کی بہ نسبت ممکنہ آسان حل ہے اور ایسی صورت میں فوری حل بھی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔ :: نقلہ: #ایس_اے_ساگر
https://saagartimes.blogspot.com/2020/12/blog-post.html

ایپ BURSE سے روپیہ کمانے کا تفصیل حکم

ایپ BURSE  سے روپیہ کمانے کا تفصیل حکم

آج کل BURSE نامی ایک ایپ رائج ہے، جس سے عام مسلمان، خصوصا نوجوان طبقہ، جانے انجانے میں روپیہ کما رہا ہے، 
اس ایپ کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ اس ایپ میں آرڈر کی شکل میں صرف خریداری کا نظام ہے، حقیقت میں خریداری نہیں ہے، حقیقت جس کی یہ ہے کہ اس ایپ کو اوپن کرنے کے بعد صرف یہ چیزیں شو ہوتی ہے، گنگن، کوکر، ورزش کی مشین اور دو، چار قسم کی فریج ۔۔۔۔ اور ہرایک کے نیچے آرڈر کا بٹن ہوتا ہے، آرڈر کے بٹن پر ٹاسک کرنے کے بعد ریٹرن کا بٹن نمودار ہوتا ہے، پھر ریٹرن کے بٹن پر ٹاسک کرنا ہوتا ہے، یہ ایک مرتبہ کا عمل ہوا
اس طرح یومیہ کم از کم تیس مرتبہ کرنا ہوتا ہے، اگر اس سے کم ٹاسک ہوئے تو وہ نفع کا مستحق نہیں ہوگا
اس ایپ میں چار مرحلے ہیں

(1) کچھ بھی روپیہ جمع کئے بغیر ۱۰۰ روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر آرڈر دینا ہوتا ہے، پھر اس آرڈر کو ریٹرن کرنا ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں صارف کا وہ اکاؤنٹ جو ایپ میں ہے، اس میں نفع کے نام سے معمولی روپیہ جمع ہوتا ہے، پھر صارف اگر چاہے تو نفع کے عنوان سے دئیے گئے ان روپیوں کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرسکتا ہے۔

(2)  ۵۰۰ روپیہ جمع کرکے ۵۰۰ روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر سابق عمل کرنا ہوتا ہے،
 اس مرحلہ میں اول کے مقابلہ میں نفع کے نام سے کچھ زیادہ روپیہ جمع ہوتا ہے
(3)  ۵۵۰۰ روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے، جس میں سے ۵۰۰ روپیہ ممبرشپ کے عنوان سے کٹ جاتا ہے، پھر اس میں بھی ۵۰۰۰ روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر سابق عمل کرنا ہوتا ہے اور اس مرحلہ میں نمبر دو سے، زائد روپیہ نفع کے نام سے جمع ہوتا ہے
(4) اکتیس ھزار روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے، جس میں سے ایک ھزار روپیہ ممبرشپ کے عنوان سے کٹ جاتا ہے، پھر اس میں تیس ھزار روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر بھی سابق عمل کرنا ہوتا ہے اور اس مرحلہ میں درجہء سوم کے مقابلہ میں زیادہ روپیہ، نفع کے نام سے جمع ہوتا ہے
پھر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اول مرحلے کا صارف نمبر دوم، سوم اور چہارم کی چیز پر آرڈر کرنا کا عمل کرنا چاہے، تو نہیں کرسکتا، اس کے سامنے ان تین آپشن میں سے کوئی آپشن کھلیگا ہی نہیں، اسی طرح نمبر دو والے کے لئے تیسرا اور سوم مرحلہ  والے کے لئے چوتھا آپشن کھلے گا ہی نہیں، جب تک کہ ایپ کی طرف سے متعین کردہ مخصوص رقم جمع نہ کروائے اور ممبرشپ کے عنوان سے متعین کردہ رقم نہ کٹوائے، 
زیادہ نفع کا حصول ۔۔۔۔
پھر اگر کوئی صارف زیادہ روپیہ حاصل کرنا چاہے تو آگے کسی کو ممبرشپ دے سکتا ہے، ممبرشب کی وجہ سے اس کو مزید روپیہ ملیگا، پھر نمبر دو کا ممبر یہ ممبرشپ آگے منتقل کرے گا اور دوم نمبر والا ممبر کمپنی کے اپنے اکاؤنٹ میں ریچارج کرے گا تو اس کی وجہ سے دوم نمبر والے کو تو نفع ملے گا ہی، ساتھ نمبر اول والے کو بھی نفع ملے گا، اگرچہ درجہء سوم کے ممبر کو اول درجہ کا ممبر جانتا اور پہچانتا نہ ہو، اس تیسرے ممبر کی وجہ سے اول کو دوم کے مقابلہ میں کم روپیہ ملے گا، لیکن ملے گا ضرور۔۔۔ اسی طرح یہ سلسلہ اور کڑی نیچے کی طرف چلتی رہے گی، اور نیچے کے ممبران کے ریچارج کرنے کی صورت میں اوپر کے تمام ممبران کو ایپ کی طرف سے متعین کردہ تناسب کے حساب سے ہرایک کو کمیشن ملتا رہے گا۔
واضح رہے کہ یہ ممبرشب لازمی نہیں ہے، اختیاری ہے، لیکن زیادہ روپیہ کمانے کے چکر میں تقریبا ہر صارف ممبر زیادہ بنانے کی فکر میں رہتا ہے
یہ نفع کس وجہ سے آتا ہے؟
اس کے متعلق ایپ کے ڈائریکٹر سے بذریعہء واٹس ایپ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ آپ نے ہماری تجارت کو فروغ دینے میں اشیاء کا اشتہار کیا، یہ اس اشتہار کی اجرت ہے، جو ہم آپ کو دے رہے ہیں۔
ہم نے اس کی مصنوعات کی تفصیل جاننا چاہی، تو اس نے ایماژون کا حوالہ دیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایپ ایماژون کی اشیاء کا اشتہار کررہا ہے، لیکن بسیار تحقیق کے باوجود اس بات کا واضح  ثبوت نہیں مل سکا کہ یہ ایپ ایماژون کے ساتھ کنیکٹ ہے۔
صارفین اور خود کی تحقیق سے مذکورہ بالا طریقہ اور سسٹم کا علم ہوا ہے۔
 شرعی لحاظ سے اس میں شریک ہونا اور اس سے روپیہ حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب و باللہ التوفیق
حامدا و مصلیا و مسلما:
اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اگر واقعی طریقہء کار یہی ہے جو اوپر سوال میں مذکور ہے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ  غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عقد اجارہ کے ساتھ ہے، لیکن اجارہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں۔
اول یہ کہ اس میں معقود علیہ بقول اس کے اشتہار ہے اگر واقعی اشتہار ہی مقصود ہے تو اولا عام طور اشتہار  کے لئے کوئی رقم جمع کروانا ضروری نہیں ہوتا، اشتہار کے لئے اصل چیز محنت و عمل ہے،  بغیر رقم جمع کروائے بھی اشتہار کا عمل ہوسکتا ہے، بلکہ رقم جمع نہ کرنے کی صورت میں مشتہرین کی تعداد میں کئی گنہ اضافہ ہوگا۔
اور اگر رقم جمع کرنا ضروری ہی ہے تو سو روپیہ والے کو پانچسو روپیہ کی چیز کا، اسی طرح پانچسو روپیہ والے کو پانچ ھزار والی چیز کا اور پانچ ھزار روپیہ والے کو تیس ھزار روپیہ والی چیز کا اشتہار کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا ؟ جبکہ اس صورت میں رقم جمع  کروانے کے مقابلے میں اشتہار  زیادہ ہوگا، لیکن صورتحال ایسی نہیں ہے،
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایپ والے کو اشتہار مقصود نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنا مقصود ہے، اسی وجہ سے اس نے ممبرشپ کا بھی  نظام چلا رکھا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جاسکے، اس سے اشتہار کا معقود علیہ نہ ہونا متعین ہوگیا، جب معقود علیہ ہی متعین نہیں تو شرعی لحاظ سے یہ اجارہ فاسد ہے۔
      مزید یہ کہ یہ اجارہ مشروط ہے..ایپ والے کو پانچسو روپیہ، یا پانچ ھزار روپیہ یا تیس ھزار روپیہ بطور قرض دینے کے ساتھ۔۔۔ اگر یہ رقم جمع نہیں کی گئی تو اشتہار کا عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو یہاں ایک ہی معاملہ میں دو معاملے ایک ساتھ ہو رہے ہیں، *اجارہ اور قرض*،  اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک معاملہ کے ساتھ دوسرا معاملہ کرنے سے منع فرمایا ہے ( یعنی دو معاملے ایک ساتھ کرنے سے۔)
عن أبي هریرۃ رضي اللّٰہ عنه قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعة۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۳۳)
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنه قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم عن صفقتین في صفقة واحدۃ۔
(المسند لإمام أحمد ۱؍۳۹۸ رقم:۳۷۸۲)
اور صارف کے پاس سے جو رقم جمع کروائی جارہی ہے، اس کے متعلق ڈپاژٹ کی تاویل اس وجہ سے درست نہیں کہ ڈپاژٹ کا حصول، سکیوریٹی کی غرض سے ہوتا ہے اور یہاں ایپ والے کے لئے سکوریٹی کی کوئی ضرورت نہیں، اس لئے کہ صارف، ایپ والے کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، کنجی تو اسی کے قبضہ میں ہے، پھر سکیوریٹی کا کیا مطلب؟ بلکہ اس کے برعکس ایپ کی طرف سے صارف کو سکیوریٹی کی ضرورت ہے کہ صارف نے شرائط کے مطابق تیس ٹاسک پورے کئے، اس کے باوجود ایپ نے اس کی اجرت نہیں دی تو اب صارف اجرت کہاں سے وصول کرے؟ وصول کرنے کی کوئی صورت ہی نہیں، اگر ڈپاژٹ دیا ہوا ہوتا تو اس میں سے وصول کرنا ممکن تھا، اس تفصیل سے پیشگی جمع کردہ رقم کے متعلق ڈپاژٹ کا نہ ہونا متعین ہوگیا، اس رقم کا قرض ہونا متعین ہے اور اجرت کے نام سے جو روپیہ آرہا ہے، وہ قرض کے بالمقابل ہے، جو سود ہے، حرام ہے۔
    دوم یہ کہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کن چیزوں کا اشتہار کروارہے ہیں؟ تو اس نے ایماژون کا حوالہ دے دیا، جبکہ ایماژون کی اشیاء، پس پردہ ہیں، اس لئے کہ اس ایپ میں مذکورہ چار، پانچ چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آتی کہ جس کا اشتہار کیا جائے
تو یہاں جس چیز کا اشتہار کروایا جارہا ہے وہ تو پس پردہ ہے، جس کا صارف کو بھی علم نہیں اور یہ غیر متعین ہے، پس  یہ بھی مفسد عقد ہے
اور اگر نفس ٹاسک کو ہی عمل قرار دیا جائے، بایں طور کہ صارف کے لئے صرف ٹاسک کرنے کا عمل ہو، قطع نظر اس سے کہ اس کا ٹاسک، کس چیز کے اشتہار کے ساتھ لنک ہے؟ تو یہ بھی درست نہیں، اس لئے کہ ممکن ہے کہ صارف کا یہ ٹاسک، کسی ناجائز چیز، مثلا تصاویر، فحش، شراب، بینک، ٹی وی یا مردار کے گوشت وغیرہ ناجائز چیز کے ساتھ لنک ہو،اور اس کا اشتہار صارف سے کروایا جارہا ہو، اور ناجائز چیز کا اشتہار  بنص قطعی حرام ہے
ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان (القرآن الکریم)
(وفی البدائع) و منھا بیان محل المنفعة حتی لو قال آجرتك احدی ھاتین الدارین او احد ھذین العبدین او قال استاجرت احد ھذین الصانعین لم یصح العقد لان المعقود علیه مجھول لجہالة محله جہالة مفضیة الی المنازعة فتمنع صحة العقد
(بدائع الصنائع ۴/۲۵ و الفقه الاسلامی و ادلته ۴/۵۳۰)
و فی شرح المجلة:- النوع الثانی، تعیین الماجور (۲/۴۲۰)
سوم یہ کہ ممبرسازی کا نظام بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اصل مقصود زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنا ہے اور نیچے کے ممبران کے توسط سے اوپر کے تمام ممبران کو انھیں کے روپیوں سے کم و بیش کمیشن دینا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف روپیوں کی ہیرا پھیری ہے
خود پھنسو اور دوسروں کو بھی پھنساؤ۔۔۔۔یہ اسکیم معلوم ہورہی ہے
پھر اس رقم سے کون سا  کاروبار کیا جاتا ہے؟ یہ بھی واضح نہیں،
 اس  لیے یہ بظاہر غرر، دھوکہ، قمار اور  سودی لین دین ہی کی ایک شکل معلوم ہو رہی  ہے۔  
 حلال کمائی کے لیے کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو، ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
شعب الإيمان (2/ 434):
"عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ".
ترجمہ: آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کونسی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: آدمی کا  خود اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔
شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):
اس لئے مسلمان کے لئے،بحیثیت مسلمان ہونے کے اس ایپ میں شامل ہوکر اس سے منافع حاصل کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینا اب تک کی تحقیق کے مطابق جائز نہیں۔
اگر کسی نے منافع حاصل کرلئے ہیں تو وہ ایپ میں واپس کردئیے جائیں۔
اگر واپسی کی کوئی صورت نہ ہو تو مستحق زکاة کو دے دئیے جائیں 
فقط واللہ اعلم بالصواب و علمه احکم و اتم
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و ارنا الباطل باطلا و ازقنا اجتنابه۔۔
--------------------------------------------
حررہ وکتبه:- العبد محمد اسماعیل پالن پوری (ماہی)
مدرس و مفتی دارالعلوم چھاپی، شمالی گجرات
۱۸ ربیع الثانی ۱۴۴۲ ھجری
4 دسمبر سن عیسوی 2020
------------------------------
الجواب صحیح
مفتی اسامہ پالن پوری (ڈینڈرولوی)
خادم جامعہ تعلیم الدین، ڈابھیل
الجواب صحیح
مفتی سلمان قاسمی پالن پوری (کھلی)
جامعہ خلیلیہ، ماھی
الجواب صحیح
مفتی سعیداحمد قاسمی پالن پوری (مجادری)
الجواب صحیح
مفتی محمد حارث پالن پوری (میتوی)
مؤمن نگر، جوگیشوری، ممبئی
الجواب صحیح
مفتی یوسف ایلولوی
مفتی دارالعلوم کنتھاریہ، گجرات

---------------------------------------------
نوٹ:-
صارفین کی معاونت اور خود کی تحقیق سے جو حقائق اب تک سامنے آئے، اس کو سامنے رکھ کر خود (محمد اسماعیل) ہی نے سوال مرتب کیا اور جواب لکھا ہے
اور تائید کرنے والے پانچ مفتیان کرام پر جواب بھیج کر انھوں نے جواب غور سے پڑھا اور انھیں کی اجازت سے الجواب صحیح لکھا گیا ہے۔
ان کان الصواب فمن اللہ عز و جل وان کان خطآ فمنی و من الشیطان۔۔۔
اللھم احفظنا و جمیع المسلین من الضلال و الاضلال۔۔۔
https://saagartimes.blogspot.com/2020/12/burse.html