Friday 31 July 2020

نذر کی قربانی، میت کی طرف سے کی گئی قربانی اور بقرعید کی قربانی کے گوشت کے مصارف؟

انوارالفقھاء:
نذر کی قربانی، میت کی طرف سے کی گئی قربانی اور بقرعید کی قربانی کے گوشت کے مصارف؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: نذر کی قربانی کا گوشت اور میت کی طرف کی گئی قربانی اور بقرعید کی قربانی کے گوشت کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ نیز دوسرے کو دینے یا بیچنے اور کسی چیز سے تبادلہ کرنا کیسا ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی مہمانی ہوتی ہے، اور مہمان کو کھانے پینے کی پوری اِجازت ہوتی ہے؛ لیکن کسی چیز کے بیچنے اور فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اِس لئے بندہ قربانی کے گوشت کو کھانے اور کھال کو جوتے وغیرہ کے کام میں پورے طور پر استعمال کرسکتا ہے، اور دوسرے کسی شخص کو بلاکسی معاوضہ کے دے سکتا ہے؛ لیکن کسی چیز کی اُجرت میں دینا جائز نہیں ہے۔ 
لأنہا من ضیافۃ اللّٰہ عز شانہ التي أضاف بہا عبادہ، ولیس للضیف أن یبیع من طعام الضیافۃ شیئًا۔ 
(بدائع الصنائع ۴؍۲۲۵ زکریا)
قربانی کے گوشت کے متعلق جو احکامِ شرعی معلوم کئے گئے ہیں، اُن کو تین الگ الگ سرخیوں میں واضح کیا جائے گا:
(۱) گوشت کو اپنے استعمال میں لانا 
(۲) کسی دوسرے کو دینا 
(۳) بیچنا یا کسی چیز سے تبادلہ کرنا۔ ذیل میں ترتیب وار ہر ایک کو واضح کیا جاتا ہے۔
___________________________ 
(۱) گوشت کو اپنے استعمال میں لانا:- 
اگر نذر اور منت کی قربانی ہے تو اُس کا سارا گوشت غریبوں پر خرچ خیرات کرنا ضروری ہے، خود استعمال نہیں کرسکتا، اگر استعمال کرلیا تو اُس کے برابر قیمت کا صدقہ کرنا لازم ہے۔ 
(بہشتی زیور مکمل مدلل ۳؍۱۳۹)
اگر میت نے قربانی کی وصیت کی تھی، تو میت کی طرف سے وصیت کردہ قربانی کا گوشت نہیں کھاسکتا، اُس کا صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے، اور اگر میت کی طرف سے بطور تبرع قربانی کیا ہے، تو اُس کا گوشت کھانے اور دوسرے کو دینے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
 (احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۶، امداد الفتاویٰ ۳؍۵۳۳)
اور اگر قربانی کا گوشت ہے تو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے، اور دوسرے کو بلامعاضہ دے سکتا ہے۔ 
(مالابد منہ ۱۶۸)
لیکن قربانی کے گوشت میں اَفضل اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ کل گوشت کے تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ غریب اور مسکین پر صدقہ کردیا جائے، اور ایک حصہ اعزہ واَقارب کی مہمان نوازی کے لئے اپنے پاس روک لے، اور ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لئے رکھے؛ لیکن اگر کوئی ایک تہائی سے کم غریبوں کے لئے خیرات کرے، یا کچھ بھی خیرات نہ کرے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔ 
(بہشتی زیور ۳؍۱۶۵)
اور اگر کوئی زیادہ اَولاد والا ہے اور خوش حال نہیں ہے، ایسے شخص کے لئے گوشت کا تہائی حصہ صدقہ کرنا مستحب ہے، اور اگر گوشت کو سکھاکر یا فریج میں رکھ کر کئی دنوں تک استعمال کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ 
(فتاویٰ محمودیہ ۴؍۲۱۵)
ولا یأکل الناذر منہا، فإن أکل تصدق بقیمۃ ما أکل۔ 
(الدر المختار مع الشامي ۹؍۴۶۴ زکریا)
والمختار أنہ إن بأمر المیت لایأکل منہا وإلا یأکل۔ 
(شامي ۹؍۴۷۲ زکریا)
وإن تبرع بہا عنہ لہ الأکل؛ لأنہ یقع علی ملک الذابح والثواب للمیت۔ 
(شامي ۹؍۴۸۴ زکریا)
ویسحب أن یأکل من أضحیتہ ویطعم منہا غیرہ۔ 
(الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۰۰)
والأفضل أن یتصدق بالثلث ویتخذ الثلث ضیافۃ لأقربائہ وأصدقائہ، ویدخر الثلث، ویستحب أن یأکل منہا، ولو حبس الکل لنفسہ جاز؛ لأن القربۃ في الإراقۃ والتصدق باللحم تطوع۔ 
(شامي ۹؍۴۷۴ زکریا، بدائع الصنائع ۴؍۲۲۴ زکریا)
وندب ترکہ لذي عیال غیر موسع الحال۔ (شامي ۹؍۴۷۴ زکریا)
____________________________
(۲) قربانی کا گوشت کسی دوسرے کو دینا:- 
قربانی کا گوشت مسلم، غیرمسلم مال دار اور فقیر سب کو دیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کسی معاوضہ میں نہ دیا جائے۔
 (احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۵، فتاویٰ رحیمیہ ۶؍۱۶۵)
خوش حال لوگوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ گوشت میں سے تہائی حصہ فقیروں پر صدقہ کردے، اور کسی دوسرے کی قربانی کا دیا ہوا گوشت کھانا یا کسی کو دینا یا فروخت کرکے اُس کی قیمت استعمال کرنا جائز اور درست ہے۔ 
(فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۲۵۰)
یہب منہا ما شاء للغني والفقیر والمسلم والذمي، کذا في الغیاثیۃ۔ 
(الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۰۰ زکریا)
وندب أن لاینقص الصدقۃ من الثلث۔ (البحر الرائق ۸؍۳۲۶ زکریا)
أن إطعامہا والتصدق أفضل إلا أن یکون الرجل ذا عیال وغیر موسع الحال الخ۔ (بدائع الصنائع ۴؍۲۲۵ زکریا)
_________________________________
(۳) بیچنا یا کسی چیز سے تبادلہ کرنا:- 
قربانی کے گوشت کو روپے پیسوں اور ایسی چیز کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں، جس کے باقی رہتے ہوئے نفع اٹھانا ممکن نہیں، مثلاً کھانا، تیل، گوشت، اَناج، سرکہ، مصالح وغیرہ اور جن چیزوں کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن ہو، اُن سے تبادلہ درست ہے، جیسے مصلی کپڑے وغیرہ، پس اگر کسی نے روپے کے عوض یا ایسی چیز کے عوض بیچا جس کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن نہیں، تو اُس کی قیمت اور تبادلہ میں حاصل شدہ چیز کا صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے، ذبح کرنے والے کو ذبح کی اُجرت میں اور کام کرنے والے مزدور کے کھانے میں قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں، اگر کسی نے دے دیا، تو اُس کے برابر قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔ (احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۴)
فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ۔ (الدرالمختار) أي وبالدراہم فیما لو أبدلہ بہ۔ 
(الدرالمختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا)
ولا یعطی أجر الجزار منہا؛ لأنہ کبیع۔ (الدر المختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا)
اگر بفروشد کسے گوشت اضحیہ را بدراہم یا تبدیل کند از سرکہ وغیرہ پس واجب است کہ تصدق کند قیمت آں را۔ (مالابد منہ ۱۶۹)
ولو باعہ نفذ سواء کان من النوع الأول أو الثاني فعلیہ أن یتصدق بثمنہ۔ (بدائع الصنائع ۴؍۲۲۴ زکریا) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱۰؍۱۴۲۸ھ 
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ 
=============================
واللہ اعلم بالصواب 
محمد مصروف مظاہری
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_31.html?m=1

Wednesday 29 July 2020

حج مبرور کی علامت

حج مبرور کی علامت!

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

انسان ہو یا حیوان، شجر ہو یا حجر، جمادات ہوں یا نباتات، عبادات ہوں یا مطلق اعمال، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر ایک کی ہیئت، صورت اور ظاہری شکل بنائی ہے اور ایک اس کا باطنی وجود وروح اس میں مقرر کی ہے۔ اور ان دونوں کے ملاپ سے چیز وجود میں آتی اور برقرار رہتی ہے۔ اگر ان میں سے ایک ہو اور دوسری نہ ہو تو وہ چیز نہ وجود میں آتی ہے اور نہ ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ مثلاً: عالم ارواح میں انسان کی روح تھی، لیکن جسم نہ تھا، اس لئے خالی روح کو کسی نے انسان نہیں کہا۔ عالم دنیا میں جب انسان بچہ کی صورت میں پیدا ہوا تو روح اور جسم سے مرکب تھا، لیکن انسانی وجود سے روح جیسے ہی خارج ہوئی تو اب وہ انسانی ڈھانچہ، میت یا لاش تو کہلایا، کسی نے اس کو کامل اور مکمل انسان نہیں کہا۔ یہی حال اعمال کا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعمال کی ایک ہیئت وصورت اور شکل بنائی ہے اور ایک اس میں روح رکھی ہے، مثلاً: نماز، قیام، رکوع، سجود اور تشہد پر مشتمل ہے، یہ نماز کی ظاہری صورت اور شکل ہے اور مسلمان نماز صرف اپنے خالق ومالک اور اپنے معبود برحق کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہی پڑھتا ہے، یہ اس کی روح اور حقیقت ہے۔ روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، علم، حتیٰ کہ ایک ایک عمل میں یہی دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور عمل کو مقبولیت کے درجہ تک پہنچاتی ہیں، جیسا کہ نماز کی ظاہری ہیئت وشکل کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’صلوا کما رأیتمونی أصلی‘‘۔ (بخاری، ج:۲، ص: ۸۸۸) ۔۔۔۔۔ 
’’نماز اسی طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو‘‘۔ 
یعنی نماز پڑھنے کا طریقہ اور انداز بھی وہی ہونا چاہئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا اور اختیار کیا۔ اس طریقہ میں جان بوجھ کر تبدیلی کی گئی یا عدم توجہی اختیار کی گئی تو وہ نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پاسکے گی، جیسا کہ ایک صحابی ؓ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور اپنے انداز میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ نے اُسے فرمایا: 
’’ارجع فصل فإنک لم تصل۔‘‘ (بخاری، ج:۱، ص:۱۰۹، طبع: قدیمی) ۔۔۔۔۔۔ 
’’جاؤ! نماز پڑھو، تم نے صحیح طریقے سے نماز ادا نہیں کی۔‘‘ 
گویا نماز کی شکل وصورت کا لحاظ ازحد ضروری ہے۔ اسی طرح نماز صرف اور صرف اپنے رب کی رضا کے حصول اور اس کی خوشنودی کے لئے پڑھنا چاہئے، اس میں ریا، دکھاوا اور کوئی غلط نیت نہیں ہونی چاہئے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: 
’’من صلّٰی یرائی فقد أشرک۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص: ۴۵۵) ۔۔۔۔۔۔۔ 
’’جس نے ریاکاری کے طور پر نماز ادا کی، اس نے شرک کیا‘‘۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اُسے کہا جائے گا کہ جس کے لئے تم نے نماز پڑھی تھی، اس کا ثواب بھی اسی سے وصول کرو۔ اسی طرح حج کی بھی ایک ظاہری شکل ہے کہ حاجی محرم ہو، مرد ہے تو احرام کی علامت دو چادروں میں لپٹا ہو، زبان پر تلبیہ کا ترانہ، بیت اللہ کا طواف، حجر اسود کا استلام، طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس دوگانہ واجب الطواف، پھر استلام کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور دعائیں ہوں، آٹھ ذوالحجہ سے نو ذوالحجہ کی صبح تک منیٰ میں قیام اور پانچ نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو، نو ذوالحجہ زوال سے مغرب تک عرفات میں وقوف ہو، غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ کی طرف کوچ ہو، مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا دھیان اور فکر ہو۔ دس ذوالحجہ کی صبح کو سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کی طرف روانگی، پھر جمرہ عقبہ کی رمی، قربانی، حلق، طوافِ زیارت، طوافِ وداع۔ یہ سب اعمال حج کی شکل اور صورت ہیں اور اس شکل وصورت کاہر لحاظ سے خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان افعال واعمال کو کرنا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا ہے، انہیں ایام میں کرنا جو اس کے لئے مخصوص ہیں، اسی ترتیب سے کرنا جس ترتیب پر آپ صلی اللہ علیہ نے کیا ہے اور انہی مقامات: بیت اللہ، صفا، مروہ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ پر ان کو کرنا حج کہلاتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر انہیں مقامات اور انہیں ایام میں حج کے افعال واعمال کرکے بتلایا اور فرمایا تھا: 
’’لتأخذوا مناسککم۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص: ۲۳۰) ۔۔۔۔۔ 
’’کہ مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘
اسی طرح حج کی ایک روح بھی ہے اور اس کی رعایت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ‘‘ (آل عمران: ۹۷) 
ترجمہ: ’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پروا نہیں رکھتا جہاں کے لوگوں کی‘‘۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: 
’’من حج للّٰہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص: ۲۲۱) 
ترجمہ: ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے حج کیا اور کوئی بے ہودگی اور گناہ کا کام نہیں کیا تو وہ اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے جنا‘‘۔ اسی طرح جب حج کی ظاہری شکل وصورت کا بھی خیال رکھا جائے اور اس کی روح کو بھی اپنایا جائے تو ایسا حج‘ حج مبرور کہلاتا ہے، جس کا ثواب جنت ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:  
’’العمرۃ من العمرۃ کفارۃ لما بینہما والحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ‘‘۔ (مشکوٰۃ، ص: ۲۲۱) 
ترجمہ: ’’عمرہ کے بعد عمرہ کرنا دونوں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزاء جنت کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘  
یعنی حج مبرور کرنے والے کے صرف گناہ معاف نہیں ہوتے، بلکہ بلاحساب وکتاب اُسے جنت کا داخلہ نصیب ہوجاتا ہے، اس لئے صحابہ کرام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جمرات کرتے ہوئے یہ دعائیں کرتے تھے: 
’’أللّٰہم اجعلہ حجًّا مبرورًا وذنبًا مغفورًا۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی، ج: ۵، ص: ۲۱۱، طبع: دارالکتب العلمیۃ بیروت) ۔۔۔۔۔ 
’’اے اللہ! ہمارے حج کو حج مبرور بنادے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے۔‘‘ 
حج مبرور کیسے بنے گا؟ اس کی کیا علامات ہیں؟ اس بارہ میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں: 
۱:… حج مبروروہ حج ہے جس میں حج کے مسائل اور اس کے مناسک پر پورے طور سے عمل ہوا ہو، مکمل طور پر اُسے ادا کیا گیا ہو، یہ اسی وقت ہوگا جب حج کی ادائیگی شریعت اور سنت کی روشنی میں ہوگی، اپنی من مانی اور رخصتوں کو، گنجائشوں کو تلاش کرکے خلافِ سنت نہ کیا گیا ہو، نہ دم اور صدقہ واجبہ سے تلافی کی گئی ہو، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: 
’’الحج الذی وفیت أحکامہ ووقع موقعًا‘‘۔ (فتح الباری، ج: ۳، ص:۲۹۸) 
۲:… حج مبرور وہ حج ہے جس میں ریا اور شہرت نہ ہو: 
’’الذی لاریاء ولا سمعۃ فیہ‘‘۔ (شرح لباب، ص:۲۹، مرعاۃ، ص:۹۶)
یعنی حج میں یہ ذہن میں نہ ہو کہ لوگ جان لیں، تاکہ مجھ کو اچھا سمجھیں، لوگوں کو معلوم اور ظاہر ہوجائے کہ میں حج کی سعادت حاصل کررہا ہوں، لوگ میرے معتقد ہوجائیں، مجھے حاجی کہیں۔ اس سے آج کل عوام کا بچنا مشکل ہورہا ہے۔ ایسی بات اختیار کرتے ہیں جس سے ریا اور شہرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لوگوں میں اعلانِ اشتہار ہوتا ہے، ایک بھیڑ جمع کی جاتی ہے۔ روانگی اور واپسی میں جشن منایا جاتا ہے، اسٹیج پر کرسی پر بیٹھ کر مجمع میں حج کے واقعات اور اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں تعریف حاصل کرنا ہوتا ہے، پس ایسا حج‘ حج مبرور کی صفت سے خالی ہے۔ روانگی کے وقت گھروں پر اور ائیرپورٹ پر جشن کی شکل دیکھئے! تب اندازہ ہوگا۔ 
۳:… حج مبرور وہ ہے جو قبول ہوجائے: الحج المبرور المقبول۔ (فتح الباری، ج: ۳، ص: ۲۹۸) ظاہر ہے کہ حج میں مقبولیت کی شان اسی وقت پیدا ہوگی جب اس میں حرام یا ملاجلا مال یا مشتبہ مال نہ لگایا ہو، خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو، تقویٰ، خوف خدا، شریعت اور سنت کے طریقہ پر کیا گیا ہو۔ 
۴:… حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ شامل نہ ہو: ’’الحج المبرور الذی لایخالطہ شیء من المأثم‘‘ (عمدۃ، ج: ۹، ص: ۱۳۳، شرح لباب، ص: ۲۹) 
یعنی حج کے امور میں سے کوئی بات ایسی نہ ہوئی ہو، جس کی تلافی دم یا صدقہ واجبہ سے کی گئی ہو یا یہ کہ حج میں عام گناہ، جیسے: بدنگاہی، بے پردگی، غیبت، ایذا رسانی، جھگڑا، وغیرہ جو گناہ غفلت اور نفس کی وجہ سے ہوجاتے ہیں، وہ نہ ہوئے ہوں، یہ بھی بڑی ہمت اور عزیمت کی بات ہے۔ عموماً عورتیں بے پردگی بہت کرتی ہیں، جس کی وجہ سے حج مبرور کی فضیلت سے محروم ہوجاتی ہیں۔ ۵:…حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد گناہوں سے بچتا ہو، گناہوں کا ارتکاب نہ ہوتا ہو، یعنی پہلے کے مقابلہ میں اس میں احتیاط پیدا ہوگئی ہو، چونکہ گناہ کی سزا مواخذہ اور مبرور کی جزا جنت دونوں میں تضاد ہے: ’’الذی لایعقبہ معصیۃ ‘‘۔ (ابن ماجہ، کتاب الحج، ج: ۲،ص: ۹۶۴، طبع: دارالفکر، بیروت) 
۶:… حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد اس کے حالات پہلے سے بہتر ہوگئے ہوں، تقویٰ اور نیکی کے امور میں زیادتی ہوگئی ہو۔ (معارف، ص: ۲۳۲) اعمال حسنہ اور ذکر وعبادت وغیرہ پہلے سے زائد ہورہے ہوں، آخرت کے اعمال میں زیادتی ہو: ’’من علامات القبول أنہ إذا رجع یکون حالہ خیرًا ماکان‘‘۔ (معارف، ج: ۲، ص: ۲۳۲) 
۷:… حج مبرور وہ ہے جس میں حج کے بعد دنیا سے زہد، بے پرواہی اور آخرت کی جانب رغبت ہو: ’’أن یرجع زاہدًا فی الدنیا راغبًا فی الآخرۃ‘‘۔ (القریٰ، ص:۳۴، شرح لباب، ص: ۳۰) پس جو حجاج کرام ان تمام باتوں کی رعایت کریں گے اور جن میں یہ باتیں پائی جائیں گی، وہ حج مبرور کے مستحق ہوں گے۔ حجاج کرام کو چاہئے کہ وہ اپنے حج کو حج مبرور بنانے کی کوشش فرمائیں۔ حجاج کرام کے پیش نظر رہے کہ حج میں توحید اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مظاہرہ ہے، اس میں اپنے نفس اور خواہش کو بالکل آڑے نہ آنے دیں۔ اسی طرح سفر حج سفرِآخرت کا نمونہ بھی ہے، جیسے مرنے والا کفن میں لپٹا ہوا بے یارومددگار پڑا ہوتا ہے اور دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے، اسی طرح حاجی کو بھی چاہئے کہ احرام پہن لینے کے بعد اب اپنی مرضی، اپنی چاہت سب کچھ ختم کرکے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوجائے۔ حاجی کو سوچنا چاہئے کہ جن مقاماتِ مقدسہ میں جارہا ہے، یہ وہ تمام مقامات ہیں جہاں انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اولیائے عظام، علماء، صلحاء، اتقیاء اور بزرگانِ دین رحمہم اللہ تشریف لائے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ِبیکراں اور فیوضِ غیرمتناہیہ کا افاضہ ہوا تھا، امید ہے کہ جب حاجی ان کا اتباع کرے گا اور ان افعال کو ٹھیک ٹھیک ادا کرے گا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوگا۔ حج ایک امتحان بھی ہے، جو سچے عاشق ہوتے ہیں وہ تکالیف اور مصائب کی پروا نہیں کرتے، وہ سب کچھ اپنے محبوب کی رضا اور خوشنودی کے لئے برداشت کرتے ہیں۔ حجاج کرام کو چاہئے کہ وہ نیت کریں کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لئے ہی حج کررہا ہوں۔ ریا، نمود ونمائش اور شہرت میرا مطلوب ومقصود نہیں اور نہ ہی حج کے نام پر سیر وسیاحت، تفریح اور آب وہوا کی تبدیلی کے لئے حج کا سفر اختیار کیا ہے۔علمائے کرام اور بزرگانِ دین نے حجاج کرام کے لئے جو نصائح اور ہدایات تلقین کی ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً اُنہیں یہاں نقل کردیا جائے: 
’’۱:… آدمی کو چاہئے کہ روانگی سے قبل اپنے ملنے والوں سے معافی تلافی کروالے، تاکہ اگر سفر میں موت آجائے تو معاملہ صاف ہو۔ 
۲:… روانگی سے قبل دو رکعت نفل ادا کرے اور دل میں تصور ہو کہ یہ نمازِ استغفار پڑھ رہا ہوں۔ 
۳:… پھر نفل ادا کرنے کے بعد مراقبہ کرے، آنکھ بند کرکے دل میں سن بلوغ سے آج تک گناہوں کا تصور کرے اور ساتھ ہی اپنی ذلت، رسوائی اور اللہ کی عزت وعظمت کا تصور کرے، پھر اپنے گناہوں پر پشیمانی کا تصور کرے، پھر دعا مانگے کہ یا اللہ! میں آئندہ کوئی گناہ نہ کروں گا، اب مجھے بخش دے، مگر دو رکعت نفل کے بعد مراقبہ سے قبل تین بار
’’استغفراللّٰہ ربی من کل ذنب وأتوب إلیہ‘‘ 
پڑھ لے۔ 
۴:… مکہ شریف میں جاکر مراقبۂ موت ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ کرے، پھر شب کو ۳۱۳ بار ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرے۔ 
۵:… مکہ مکرمہ میں صدقہ وخیرات میں کثرت کی جائے، اس لئے کہ یہاں ایک کا لاکھ ملتا ہے۔ 
۶:… مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے رہنے والے اگر غیرشرعی کام بھی کریں تو نہ وہاں سعودی عرب میں اور نہ واپس آکر اپنے ملک میں، نہ دل میں اور نہ زبان سے کسی غیر کے سامنے ان کی عیب جوئی کرے، کیونکہ وہ اللہ کے شہر والے ہیں اور وہ مدینہ والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر والے ہیں، ہمیں کیا حق ہے کہ ہم ان کی عیب جوئی کریں۔ اور یہ بات اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند ہے۔ 
۷:… جب مدینہ منورہ یا روضۂ رسول اللہ دکھائی دے، درود کثرت سے شروع کردے۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے غسل یا وضو کرے اور دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کرے، اس وقت پڑھے: ’’الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ !‘‘ اس کے بعد ’’السلام علیک یا أبابکر الصدیقؓ خلیفۃ رسول اللّٰہ !‘‘ پھر پڑھے: ’’السلام علیک یا عمر بن الخطاب خلیفۃ رسول اللّٰہ!‘‘ مدینہ شریف میں حتیٰ الوسع نماز مسجد نبوی میں پڑھنی چاہیے اور مسجد قبا میں بھی کچھ نوافل وغیرہ پڑھنی چاہئیں۔ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلٰی التَّقْوٰی، یہ مسجد قبا کی تعریف میں فرمایا گیا ہے۔ مقام احد میں جاکر زیارت کرنا اور وہاں دعاء مانگنا کہ یا اللہ! ان شہداء کے طفیل میرے قلب کو منور فرما اور جنت البقیع میں روزانہ یا کبھی کبھی زیارت کے لئے جانا اور وہاں بھی دعاء مذکورہ بالا مانگنا چاہئے اور سفر حج میں جو دعائیں بزرگوں نے لکھی ہوئی ہیں، وہ ضرور ی نہیں، بلکہ مدینہ منورہ میں فرض وسنت کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت رکھنی چاہئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو حج مبرور کی سعادت سے نوازیں اور بار بار اپنے گھر کی مقبول حاضری نصیب فرمائیں۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین


فوت شدہ نابالغ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا؟

فوت شدہ نابالغ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا؟
-------------------------------
--------------------------------
اس وفات شدہ بچے کی طرف سے جس کا عقیقہ حین حیات نہ کیا گیا ہو بعد وفات عقیقہ کی مشروعیت و عدم مشروعیت  کے بارے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے 
حنفیہ و مالکیہ کے یہاں بعد وفات بچے کی طرف سے عقیقہ مشروع نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقہ دراصل دافع البلاء ہے، یعنی اس کے بغیر  بچہ مصیبتوں اور بلائوں میں گھرا رہتا ہے، اس کی نشو ونما موقوف رہتی ہے "الغلام مرتهن بعقيقته" کی ایک تفسیر و تشریح یہ بھی ہے۔ عقیقہ کردینے کے بعد یہ بندھن کھل جاتا ہے اور بچہ بالکل فری ہوجاتا ہے. موت کی وجہ سے جب زندگی ہی نہ رہی تو جسمانی نشوونما کہاں؟ لہذا بعد موت بچے کی طرف سے عقیقہ بے معنی و مقصد ہونے کے باعث اصلاً تو مشروع نہیں؛ تاہم روز قیامت سفارشی بننے کی نیت سے اگر فوت شدہ نابالغ بچے کی طرف سے عقیقہ کردیا جائے تو گنجائش نکل سکتی ہے۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ عقیقہ زندگی میں اور ساتویں دن کیا جاتا ہے حدیث عقیقہ میں "تُذْبَح عنه يومَ سابعه" رواه الترمذي (1522) کا ذکر ہے۔ وفات کی وجہ سے اب اس پہ عمل ممکن نہیں ہے؛ اس لئے اب عقیقہ کی مشروعیت بھی باقی نہیں رہے گی. 
احناف کی طرح شوافع کا ایک قول بھی موت کی وجہ سے سقوط عقیقہ کا ہے؛ لیکن ان کے صحیح قول کے مطابق وفات یافتہ بچہ کی طرف سے عقیقہ کا استحباب باقی رہتا ہے، حنابلہ بھی یہی کہتے ہیں: 
"مع الغُلامِ عقيقةٌ، فأَهْريقوا عنه دَمًا، وأَمِيطوا عنه الأذَى" رواه البخاري (5154) 
اور ”كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته“ کی وجہ سے (کیونکہ اس میں موت اور زندگی کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے، بلکہ پیدائش پر ہی عقیقہ کو موقوف کردیا گیا ہے) بعد وفات بھی وہ عقیقہ کے استحباب کو باقی رکھتے ہیں بشرطیکہ والدین وغیرہ کو اس کی طرف سے عقیقہ کرنے پر قدرت بھی ہو. جس حدیث ”كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته“ کو لیکر اعتراض کیا جارہا ہے اس کے مفہوم کی تشریح وتوضیح میں شراح حدیث کا اختلاف ہے. امام احمد بن حنبل وغیرہ نے "محبوس بالشفاعة" یعنی شفاعت سے محرومی کی بات فرمائی ہے جبکہ دیگر ائمہ حدیث "محبوس بالأذى" یعنی نشو ونما موقوف رہنے سے اسکی توضیح فرمائی ہے؛ اس لئے تو روایت بخاری کے اخیر میں "أميطوا عنه الأذى" کی بات آئی ہے. اس تشریح کی روء سے وفات ہوجانے کی وجہ سے عقیقہ کی مقصدیت (ازالہ اذی اور مصائب سے تخلص وتحفظ)  فوت ہوجاتی ہے اس لئے اب اس کی مشروعیت بھی ختم، یہاں کوئی تعارض نہیں ہے. 
واللہ اعلم بالصواب 

فوت شدہ بچے کی طرف سے عقیقہ؟

فوت شدہ بچے کی طرف سے عقیقہ؟
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ. دونوں عبارت کے خط کشیدہ الفاظ پر غور کریں اور تطبیق کی کیا صورت ہوسکتی ہے ذرا رہنمائی فرمائیں



الجواب وباللہ التوفیق: 
اس فوت شدہ بچے کی طرف سے جس کا عقیقہ حین حیات نہ کیا گیا ہو بعد وفات عقیقہ کی مشروعیت و عدم مشروعیت  کے بارے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے 
حنفیہ و مالکیہ کے یہاں بعد وفات بچے کی طرف سے عقیقہ مشروع نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقہ دراصل دافع البلاء ہے، یعنی اس کے بغیر  بچہ مصیبتوں اور بلائوں میں گھرا رہتا ہے، اس کی نشو ونما موقوف رہتی ہے "الغلام مرتهن بعقيقته"  کی ایک تفسیر و تشریح یہ بھی ہے۔ عقیقہ کردینے کے بعد یہ بندھن کھل جاتا ہے اور بچہ بالکل فری ہوجاتا ہے. موت کی وجہ سے جب زندگی ہی نہ رہی تو جسمانی نشوونما کہاں؟ لہذا بعد موت بچے کی طرف سے عقیقہ بے معنی و مقصد ہونے کے باعث مشروع نہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ عقیقہ زندگی میں اور ساتویں دن کیا جاتا ہے حدیث عقیقہ میں "تُذْبَح عنه يومَ سابعه" رواه الترمذي (1522)  کا ذکر ہے۔ وفات کی وجہ سے اب اس پہ عمل ممکن نہیں ہے؛ اس لئے اب عقیقہ کی مشروعیت بھی باقی نہیں رہے گی. احناف کی طرح شوافع کا ایک قول بھی موت کی وجہ سے سقوط عقیقہ کا ہے؛ لیکن ان کے صحیح قول کے مطابق فوت شدہ بچہ کی طرف سے عقیقہ کا استحباب باقی رہتا ہے، حنابلہ بھی یہی کہتے ہیں. 
مع الغُلامِ عقيقةٌ، فأَهْريقوا عنه دَمًا، وأَمِيطوا عنه الأذَى“ رواه البخاري (5154) 
اور  ”كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته“ کی وجہ سے (کیونکہ اس میں موت اور زندگی کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے، بلکہ پیدائش پر ہی عقیقہ کو موقوف کردیا گیا ہے) بعد وفات بھی وہ عقیقہ کے استحباب کو باقی رکھتے ہیں بشرطیکہ والدین وغیرہ کو اس کی طرف سے عقیقہ کرنے پر قدرت بھی ہو. جس حدیث ”كلُّ غلام مُرْتَهِن بعقيقته“ کو لیکر اعتراض کیا جارہا ہے اس کے مفہوم کی تشریح وتوضیح میں شراح حدیث کا اختلاف ہے. امام احمد بن حنبل وغیرہ نے ”محبوس بالشفاعة“ یعنی شفاعت سے محرومی کی بات فرمائی ہے جبکہ دیگر ائمہ حدیث ”محبوس بالأذى“ یعنی نشو ونما موقوف رہنے سے اس کی توضیح فرمائی ہے؛ اس لئے تو روایت بخاری کے اخیر میں  ”أميطوا عنه الأذى“ کی بات آئی ہے. اس تشریح کی روء سے وفات ہوجانے کی وجہ سے عقیقہ کی مقصدیت (ازالہ اذی اور مصائب سے تخلص وتحفظ)  فوت ہوجاتی ہے اس لئے اب اس کی مشروعیت بھی ختم، یہاں کوئی تعارض نہیں ہے 
واللہ اعلم بالصواب 

تنبیہات سلسلہ نمبر 62 ذی الحج میں پہلی اولاد کی خصوصی دعا

تنبیہات 
سلسلہ نمبر 62
ذی الحج میں پہلی اولاد کی خصوصی دعا

● سوال:
گذشتہ کئی روز سے مندرجہ ذیل پوسٹ گردش کررہی ہے اور اس عمل کو پھیلایا جارہا ہے، کیا یہ عمل درست ہے؟
وہ عمل حسب ذیل ہے:
ذی الحج کی ۷، ۸، ۹ اور ۱۰ تاریخ کو خاص طور پر اولاد کے حق میں دعا مانگنی ہے۔
کیونکہ ان دنوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دعا مانگی تھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی تھی۔
اولاد کی زندگی، صحت، مال اور عزت میں برکت کے لئے دعا کرنی ہے۔
اولاد کے اچھے نصیب اور نیک جوڑے کے لئے دعا کرنی ہے۔
 ہر ماں باپ یہ عمل ضرور کریں.
١. حج کے دن ٤:٣٠ سے ٥:٣٠ بجے کے درمیان کا وقت قبولیت کا وقت ہے۔
٢. ٤٤٧ بار لبیك اللّٰھم لبیك۔
٣. اول و آخر ٢١ بار درودِ ابراہیمی.
پھر کوئی بھی جائز دعا کریں، ان شاءاللہ عزوجل وہ دعا ضرور قبول ہوگی.
▪ الجواب باسمه تعالی:
واضح رہے کہ ذی الحج کے دس دن ان افضل ترین ایام میں سے ہیں جن کی اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں قسم اٹھائی ہے:
{والفجر وليال عشر}
اور حضور علیہ السلام نے ان دس دنوں کو افضل ترین ایام فرمایا ہے.
● حدیث:
ما مِن أيَّامٍ أفضلُ عندَ اللهِ مِن أيَّامِ عشْرِ من ذي الحجَّةِ. قال: فقال رجلٌ: يارسولَ اللهِ! هنَّ أفضلُ أم عِدَّتُهنَّ جهادًا في سبيلِ اللهِ؟ قال: هنَّ أفضلُ مِن عِدَّتِهنَّ جهادًا في سبيلِ اللهِ؟ وما مِن يومٍ أفضلُ عندَ اللهِ مِن يومِ عرفةَ ينزِلُ اللهُ إلى السَّماءِ الدُّنيا فيُباهي بأهلِ الأرضِ أهلَ السَّماءِ فيقولُ: انظُروا إلى عبادي شُعْثًا غُبْرًا ضاحِينَ جاؤوا مِن كلِّ فجٍّ عميقٍ يرجون رحمتي ولم يرَوْا عذابي، فلم يُرَ يومٌ أكثرُ عِتْقًا مِن النَّارِ مِن يومِ عرفةَ.
- الراوي: جابر بن عبدالله.
- المحدث: ابن حبان.
- المصدر: صحيح ابن حبان.
- الصفحة أو الرقم: 3853.
- خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه.
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی بھی قول یا عمل کو بغیر دلیل اور ثبوت کے نہ صرف قبول کرلیں بلکہ اس کو پھیلانا بھی شروع کردیں، جبکہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی جھوٹی بات کو میری ذات کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے.
■ اولاد کیلئے دعا کرنا:
اس پوسٹ میں خاص ان ایام میں اولاد کیلئے دعا کے متعلق کہا گیا ہے، تو اگر اس سے مراد پہلی اولاد کیلئے دعا کرنا اور اس عمل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا مقصود ہے کہ انہوں نے پہلی اولاد کی دعا ان دنوں میں کی ہے تو یہ بات بلکل باطل اور بےاصل ہے، اور اگر اس سے ان ایام میں اپنی اولاد کی اصلاح اور بہتری کی دعا کرنا مراد ہے تو ایسی بات بعض مفسرین نے ذکر تو ضرور کی ہے لیکن اس کیلئے کسی تاریخ یا کسی خاص وقت کا تعین کرنا ہرگز درست نہیں.
☆ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اولاد کیلئے مطلقا دعا کرنا قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے لیکن اس میں کسی مخصوص تاریخ یا دن کا تذکرہ نہیں ہے.
• فهذا سيدنا إبراهيم يرفع أكف الضراعة طالبا من الله تعالى أن يرزقه أبناء صالحين مصلحين فقال: {رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ} (الصافات: 100)
گویا مطلقا دعا کرنا تو ثابت ہے لیکن کسی خاص دن یا کسی خاص موقعے کا ذکر نہیں، بلکہ مفسرین نے وہ موقعہ تو ذکر فرمادیا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوئے تو فرمایا کہ میں یہاں سے بیت المقدس کی سرزمین کی طرف ہجرت کررہا ہوں، اے اللہ! مجھے صالح اولاد نصیب فرما.
□ قال ابن كثير رحمه الله في تفسيره:
يَقُول تَعَالَى مُخْبِرًا عَنْ خَلِيله إِبْرَاهِيم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام إِنَّهُ بَعْدَمَا نَصَرَهُ اللہ تَعَالَى عَلَى قَوْمه وَأَيِسَ مِنْ إِيمَانهمْ بَعْدَمَا شَاهَدُوا مِنْ الْآيَات الْعَظِيمَة هَاجَرَ مِنْ بَيْن أَظْهُرِهِمْ وَقَالَ: {إِنِّي ذَاهِب إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ○ رَبّ هَبْ لِي مِنْ الصَّالِحِينَ} يَعْنِي أَوْلَادًا مُطِيعِينَ يَكُونُونَ عِوَضًا مِنْ قَوْمه وَعَشِيرَته الَّذِينَ فَارَقَهُمْ.
□ قال العلامة السعدي رحمه الله في تفسيره:
وقال إبراهيم: إني مهاجر إلى ربي من بلد قومي إلى حيث أتمكن من عبادة ربي؛ فإنه سيدلني على الخير في ديني ودنياي.
□ قال القرطبي رحمه الله:
هَذِهِ الْآيَة أَصْل فِي الْهِجْرَة وَالْعُزْلَة. وَأَوَّل مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ إِبْرَاهِيم عَلَيْهِ السَّلَام، وَذَلِكَ حِين خَلَّصَهُ اللہ مِنْ النَّار (قَالَ إِنِّي ذَاهِب إِلَى رَبِّي) أَيْ مُهَاجِر مِنْ بَلَد قَوْمِي وَمَوْلِدِي إِلَى حَيْثُ أَتَمَكَّنُ مِنْ عِبَادَة رَبِّي فَإِنَّهُ (سَيَهْدِينِ) ای فِيمَا نَوَيْت إِلَى الصَّوَاب.
قَالَ مُقَاتِل: هُوَ أَوَّل مَنْ هَاجَرَ مِنْ الْخَلْق مَعَ لُوط وَسَارَة إِلَى الْأَرْض الْمُقَدَّسَة وَهِيَ أَرْض الشَّام.
وَقِيلَ: ذَاهِب بِعَمَلِي وَعِبَادَتِي، وَقَلْبِي وَنِيَّتِي.
☆ سوال میں مذکور پوسٹ میں ان ایام میں اپنی اولاد کی خیر وبرکت کیلئے دعا کا لکھا گیا ہے. یقینا ہر انسان کو اپنی اولاد کیلئے تمام حالات میں اور خاص طور پر ان بابرکت ایام میں دعا ضرور مانگنی چاہئے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول رہا ہے کہ کبھی تو اولاد کیلئے ہدایت کی اور شرک سے بچنے کی دعا مانگ رہے ہیں:
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ} (إبراهيم:35)
• اور کبھی ان کی آخرت کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا کی بھلائی اور کامیابی کیلئے دعا مانگ رہے ہیں: {رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ} (إبراهيم:37)
• اور کبھی ان کے نیک اعمال پر جمنے کی دعا مانگ رہے ہیں:
{رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ} (إبراهيم:40).
● بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو یہ ایام حج تھے اور آپ نے اولاد کیلئے دعا مانگی.
پوری آیت اس طرح ہے: {رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ} (البقرة:128)
■ تعمیر بیت اللہ سے فارغ ہونے کی روایات:
٢٠٦٩- حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبدالرزاق قال، أخبرنا ابن جريج قال، قال ابن المسيب: قال علي بن أبي طالب: لما فرغ إبراهيم من بناء البيت، قال: "فعلت أي رب، فأرنا مناسكنا" (أی أبرزها لنا، علمناها) فبعث الله جبريل، فحج به. (طبری)
□ وأخْرَجَ الأزْرَقِيُّ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قالَ: "لَمّا فَرَغَ إبْراهِيمُ مِنَ البَيْتِ الحَرامِ، قالَ: أيْ رَبِّ، قَدْ فَعَلْتُ، فَأرِنا مَناسِكَنا. فَبَعَثَ اللهُ إلَيْهِ جِبْرِيلَ، فَحَجَّ بِهِ، حَتّى إذا جاءَ يَوْمُ النَّحْرِ، عَرَضَ لَهُ إبْلِيسُ، فَقالَ: احْصِبْ، فَحَصَبَ سَبْعَ حَصَياتٍ، ثُمَّ الغَدُ، ثُمَّ اليَوْمُ الثّالِثُ، فَمَلَأ ما بَيْنَ الجَبَلَيْنِ، ثُمَّ عَلا عَلى ثَبِيرٍ، فَقالَ: ياعِبادَاللہ، أجِيبُوا رَبَّكم. فَسَمِعَ دَعْوَتَهُ مَن بَيْنَ الأبْحُرِ مِمَّنْ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن إيمانٍ، قالُوا: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ....." الخ (درمنثور)
▪ خلاصہ کلام:
ان ایام میں دعا کو اولاد کیلئے مخصوص کرنا اور اس کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی دلیل پیش کرنا اگرچہ بعض مفسرین سے منقول ضرور ہے لیکن اس میں کسی تاریخ کو متعین کرنا یا کسی خاص وقت کو متعین کرنا ایک ایسی زیادتی ہے جو قطعی اور یقینی نہیں، لہذا ایسے ہر قسم کے دعوے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ فضیلت والے دن اور راتیں ہیں، لہذا ان میں نیک اعمال کرنا، روزے رکھنا، اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلئے دعائیں کرنا بہت برکت والا عمل ہے.
    《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》
0333-8129000
٢٩ ذوالقعده ١٤٣٨ مکہ مکرمہ

Tuesday 28 July 2020

تھکن دور کرنے کا نبوی وظیفہ

تھکن دور کرنے کا نبوی وظیفہ 
تسبیح فاطمہ کسے کہتے ہیں؟ اس کی کیا فضیلت ہے؟

سوال: تسبیح فاطمہ کسے کہتے ہیں؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1438=1203/ل
33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ، 34 بار اللہ اکبر، تسبیح فاطمی کہلاتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ماخذ: دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :8655
تاریخ اجراء :Nov 17, 2008
------
اس کا نام تسبیح فاطمہ ہے: 2388 -[8]: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَقَالَ: «أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ خَادِمٍ؟ تُسَبِّحِينَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتَحْمَدِينَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَتُكَبِّرِينَ اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَعِنْدَ مَنَامِكِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں خادم مانگنے آئیں ۱؎ تو فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتا دو جو خادم سے بہتر ہے ۳۳ بار سبحان اللہ پڑھا کرو اور ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار  اللہ اکبر ہر نماز کے وقت اور سوتے وقت پڑھ لیا کرو۲؎ (مسلم)
۱؎ حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر کیونکہ اس دن حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کا قیام انہی کے دولت خانہ میں تھا کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت لونڈی غلام آئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسلمانوں میں تقسیم فرمارہے ہیں تم بھی جاؤ ایک لونڈی حاصل کرلو جیسا کہ پچھلی حدیث میں گزرا۔ خیال رہے کہ خادم مذکر مؤنث دونوں کو کہا جاتا ہے، یہاں مؤنث مراد ہے کیونکہ حضرت خاتون جنت نے لونڈی مانگی تھی جو چکی چولہے کا کام کرسکے۔ (ازمرقات)
۲؎ پچھلی حدیث میں صرف صبح شام کا ذکر تھا یہاں ہر نماز کا ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے تو صرف صبح شام کا حکم دیا ہو بعد میں ہر نماز کے بعد یا اس کے برعکس بہرحال احادیث میں تعارض نہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقر غنا سے افضل ہے اور صبر شکر سے بہتر، یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو محنتی، عابد، زاہد، متقی بنائیں۔ انہیں صرف مالدار کرنے کی کوشش نہ کریں لڑکی کے لیے بہترین جہیز اعمال صالحہ ہیں نہ کہ صرف مال، یہ حدیث تربیت و تعلیم کا خزانہ ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکی سسرال کی تکالیف کی شکایت ماں باپ سے کرسکتی ہے ازالۂ تکلیف کے لیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ سسرال کی تکلیف پر ماں باپ لڑکی کو گھر نہ بٹھالیں بلکہ وہاں ہی رکھیں اور صبر و شکر کی تلقین کریں، اس سے خانگی زندگی کے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
------
صحیح بخاری - کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3748 - حدیث نمبر: 3748 - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلَام فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ فَجَعَلَ يَنْكُتُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالْوَسْمَةِ.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلَام شَكَتْ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَلَمْ تَجِدْهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ قَالَ: فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْتُ أَقُومُ، فَقَالَ: مَكَانَكِ، فَجَلَسَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَاهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا أَوْ أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، فَكَبِّرَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهَذَا خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ، وعَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: التَّسْبِيحُ أَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ 
 فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ «الله اكبر» کہو، تینتیس (33) مرتبہ «سبحان الله» کہو اور تینتیس (33) مرتبہ «الحمد الله» کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے اور شعبہ سے روایت ہے ان سے خالد نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس (34) مرتبہ کہو۔ Sahih Bukhari #6318
غیرنبی کے لئے منفرداً ”علیہ السلام “ یا ”صلی اللہ علیہ“ کہنے کا مسئلہ صحابہ، تابعین وعلماء مجتہدین کے درمیان اختلافی رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس، طاووس، عمر بن عبدالعزيز، امام ابوحنيفة، مالک، سفيان بن عيينة، سفيان ثوري اور علماء شوافع میں امام جوینی وغیرہ کے لئے یہاں مکروہ ہے. پھر بعض مکروہ تحریمی یعنی ناجائز، جبکہ دیگر بعض کراہت تنزیہی کے قائل ہیں. حضرت حسن بصري، خصيف، مجاهد، مقاتل بن سليمان ومقاتل بن حيان، إمام أحمد، إسحاق بن راهويه، أبوثور اور محمد بن جرير الطبري وغیرہ کے یہاں اہل بیت رسول واصحاب رسول کے لئے علیہ السلام کہنا جائز ہے بشرطیکہ یہ کسی گمراہ فرقے کا شعار نہ بن گیا ہو۔ امام ابن قیم جوزیہ نے ”جلاء الأفهام في فضل الصلاة على محمد خير الأنام صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“ ص (465- 482) میں اس مسئلے پہ  سب سے زیادہ شرح وبسط کے ساتھ کلام کرتے ہوئے مانعین ومجیزین کے دسیوں دلائل نقل کئے ہیں. ہمارے علماء کراہت تحریمی کے قائل بھی اسی لئے ہیں کہ یہ روافض کا شعار ہے جیساکہ ملا علی قاری نے تصریح فرمائی ہے؛ کیونکہ روافض حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت عمر و عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم  کے لئے نہیں؛ بلکہ صرف چوتھے خلیفہ حضرت علی، فاطمہ اور اولاد رسول کے لیے ہی علیہ السلام لکھتے ہیں 
ظاہر ہے یہ صریح تفضیل وتفریق اصحاب رسول ہے جوکہ ممنوع ہے. 
اگر کبھی کبھار اصحاب رسول یا اہل بیت میں سے کسی کے لئے علیہ السلام لکھدیا جائے تو حنابلہ اور دیگر محدثین اس کی گنجائش دیتے ہیں. اسی لئے بعض محدثین یا نسّاخ حدیث اہل بیت رسول کے ساتھ یہ صیغہ لکھتے آئے ہیں. 
آپ نے جن احادیث میں حضرت علی، فاطمہ یا ان کی اولاد کے لئے علیہ السلام لکھے جانے کا حوالہ دیا ہے. وہ اسی قول و نظریے کی بنیاد پر نسّاخ حدیث نے تحریر فرمائے ہیں ،متن حدیث کا وہ جزو نہیں ہے. مشہور محقق ومحدث، بلوغ المرام للحافظ کے شارح، صاحب سبل السلام امیر صنعانی اپنی مذکورہ شرح میں اسی وجہ سے جابجا اہل بیت رسول کے لئے علیہ السلام لکھتے نظر آئے ہیں. فریقین کے دلائل کے لئے درج ذیل مصادر کی مراجعت فرمائیں:
جلاء الأفهام" ص (465- 482)، "تفسير ابن كثير"لقوله تعالى: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) الأحزاب/56 )، الأذكار للنووي ص 274 ) الفقہ الاکبر ص 167, الفتاوى الكبرى لابن تيمية (2/173)، الموسوعة الفقهية (27/239)، فتاوی الشيخ ابن عثيمين رحمه الله)
واللہ اعلم بالصواب
----------------------------------
۱۔ تسبیحات فاطمہ رضی اللہ عنہا 
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا کہ میں تمھیں اپنا اور فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی تھیں قصہ سناؤں۔ شاگرد نے کہا ضرور۔ فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جس کی وجہ سے ہاتھ میں نشان پڑ گئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑگئے تھے اور گھر کی جھاڑو وغیرہ بھی خود ہی دیتی تھیں جس کی وجہ سے تمام کپڑے میلے کچیلے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام باندیاں آئیں۔ میں نے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے کہا کہ تم جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خدمت گار مانگ لو تاکہ تم کو کچھ مدد مل جاوے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاں مجمع تھا اور شرم مزاج میں بہت زیادہ تھی۔ اس لئے شرم کی وجہ سے سب کے سامنے باپ سے بھی مانگتے ہوئے شرم آئی۔ واپس آگئیں۔ دوسرے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے۔ ارشاد فرمایا کہ فاطمہ کل تم کس کام کے لئے گئی تھیں؟ وہ شرم کی وجہ سے چپ ہوگئیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کی یہ حالت ہے کہ چکی کی وجہ سے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے اور مشک کی وجہ سے سینہ پر رسی کے نشان ہوگئے. ہر وقت کے کاروبار کی وجہ سے کپڑے میلے رہتے ہیں۔ میں نے ان سے کل کہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس خادم آئے ہوئے ہیں ایک یہ بھی مانگ لیں اس لئے گئی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ میرے اور علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس ایک ہی بسترہ ہے اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال ہے۔ رات کو اس کو بچھاکر سو جاتے ہیں، صبح کو اسی پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کو کھلاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیٹی صبر کر ۔ حضرت موسیؑ اور ان کی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا (بسترہ) تھا۔ وہ بھی حضرت موسی (علیہ السلام) کا چوغہ تھا۔ رات کو اسی کو بچھا کر سو جاتے تھے۔ تو تقوٰی حاصل کر اور اللہ سے ڈر اور اپنے پروردگار کا فریضہ ادا کرتی رہ اور گھر کے کاروبار کو انجام دیتی رہ اور جب سونے کے واسطے لیٹا کرے تو سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ، الحمد اللہ ۳۳ مرتبہ اور اللہ اکبر ۳۴ مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ یہ خادم سے زیادہ اچھی چیز ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے راضی ہوں۔
(فضائل اعمال، سبق حکایات صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)، باب دہم) (پیش کش: ایس اے ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_49.html?m=1

کھٹمل ختم کرنے کے لئے دعاء

کھٹمل ختم کرنے کے لئے دعاء

سوال: السلام علیکم گھر میں اگر کھٹمل آجائیں تو ان کو کیسے ختم کیا جائے؟ کوئی عمل یا دعاء بتائیں!
الجواب وباللہ التوفق:
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 18، سورہ یٰسین کی آیت نمبر 65 (کا اتنا حصہ اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰی اَفوَاھِھِم
سورہ مرسلٰت کی آیت نمبر 36 اور عم پارے میں سورہ مطففین پڑھ کر اس جگہ دم کریں جہاں کھٹمل ہوں۔ نیز ایسی موذی چیزوں کے خاتمے کے لئے جو دوائیں ہیں ان کو بھی استعمال کیا
جائے۔
 فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143507200013 - دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 
 ------------
صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَایَرۡجِعُوۡنَ.
اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰی اَفوَاھِھِم.
وَلَا یُؤۡذَنُ لَہُمۡ  فَیَعۡتَذِرُوۡنَ.
یہ کھٹمل کیا بلا ہے؟

پِسُّوْ جسے انگریزی میں Flea کہتے ہیں دراصل سائپفوناپٹیرا (Siphonaptera) زمرے کے حشرات الارض ہیں۔ ان کے پنکھ نہیں ہوتے اور داہنی حصہ جِلد کو چھیدنے اور خون چوسنے کے لئے خاص طور سے بنے ہوتے ہیں۔ پسو فضائی طفیلی ذی حیات ہے اور حمل گیرندہ جانوروں اور پرندوں کا خون چوس کر اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ یہ بہت ڈھیٹ اور موذی مخلوق ہے. خصوصا ایسے علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں کی آب و ہوا نم ہو۔ اس کو اردو میں کھٹمل اور انگلش میں بیڈ بگز (bed bugse) بھی کہتے ہیں. یہ اتنا تیز اور چالاک ہوتا ہیں کہ کاٹنے کے بعد سیکینڈوں میں غائب ہوجاتا ہے۔کچھ لوگوں کو پسو یا کھٹمل سےالرجی ہوتی ہیں اور سب سے پریشانی کی بات تو یہ ہیں کہ یہ ایک انسان کی بیماری بہت آسانی سے دوسرے انسان میں منتقل کردیتے ہیں. 1890 میں کلکتہ سے ایک سمندری جہاز کراچی آیا اس جہاز میں چوہے اور پسو بھی بڑی تعداد میں آگئے تھے جس سے طاعون کی وبا پھیل گئی تھی. انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی کھٹمل پائے جاتے ہیں. کانگو وائرس ایک خطرناک بیماری ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں انہی کھٹملوں کی وجہ سے منتقل ہوتی ہیں. اب تک اس کو مکمل ختم کرنے کا کوئی خاص دوا مارکیٹ میں نہیں ہیں لوگ مختلف ٹوٹکے آزماتے ہیں لیکن تا حال کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے ۔۔۔ پسو یا کھٹمل نم جگہوں کے ساتھ ہر اس جگہ بہت جلد پیدا ہوجاتے ہیں جہاں صفائی ستھرائی نہ ہو کمرے ہوا دار نہ ہو۔ اس لئے رہائشی کمروں کی کھڑکیاں کھولنا نہایت ضروری ہیں تاکہ باہر کی تازہ ہوا اور سورج کی شعاعوں سے کمرے میں بدبو گندگی اور جراثیم کا خاتمہ ہو ۔۔۔
کھٹمل، چھوٹے سہی مگر ان سے لڑنا مشکل:
محققین کا کہنا ہے کہ حشرات کش ادویات کے خلاف کھٹملوں کی کئی اقسام غیرمعمولی مدافعت کی حامل ہوگئی ہیں۔ ’سپر بیڈ بگ‘ کی اصطلاح لینچ ایسی ہی اقسام کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی دوا اثر کرتی نظر نہیں آتی۔ اسی تناظر میں کئی کمپنیاں اب کھٹملوں کے خاتمے کے لیے بھاری رقوم لے کر آپریشنز کرتی ملتی ہیں۔ قریب چھ سو یورو یا اس سے بھی زائد رقوم کے عوض ماہر افراد متاثرہ گھر میں پہنچ کر مختلف کمروں کا درجہ حرارت 60 تا 70 سینٹی گریڈ تک کرتے ہیں۔ کھٹمل زیادہ سے زیادہ 48 ڈگری سینٹی گریڈ  تک زندہ رہ سکتے ہیں اور درجہ حرارت اس سے زائد ہو جائے، تو ان کے اندر کا پروٹین پگھل جاتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں۔ اس موقع پر کمرے سے اخراج کے راستوں پر زہر بھی استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ درجہ حرارت بڑھنے پر گھر سے نکلنے کی کوشش کرنے والے کھٹمل بھی ہلاک ہو جائیں۔ تاہم ان ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں فقط ایک بار اس آپریشن سے ان کا صفایا نہیں ہوتا ہے اور یہ عمل دوہرانا پڑتا ہے۔
سیکنڈوں میں خاتمہ کرنے والا گھریلو نسخہ:
کھٹملوں کو مارنے والی ایک دوا ایسی بھی ہے جسے آپ گھر میں موجود چیزوں کی مدد سے تیار کرسکتے ہیں اور یوں اسے تقریباً مفت ہی سمجھنا چاہیے۔
اسے تیار کرنے کے لیے آپ کو یہ چیزیں درکار ہوں گی:
1: کھانے کے 2 چمچے واشنگ پاؤڈر (کپڑے دھونے کا پاؤڈر)
2: کھانے کے 2 چمچے جراثیم کش محلول (ڈس انفییکٹینٹ) مثلاً ڈیٹول وغیرہ اور
3: 500 ملی لیٹر (2 گلاس) پینے کا صاف پانی
ان تمام چیزوں کو اسپرے گن والی بوتل میں ڈال کر خوب اچھی طرح سے ہلاکر محلول تیار کرکے کھٹملوں پر چھڑک دیں جس کے بعد کھٹمل صرف تین سیکنڈوں میں مرجائیں گے۔ اگر گھر میں کھٹملوں کی تعداد زیادہ ہو تو اس دوا کو تب تک استعمال کرتے رہیں جب تک کھٹمل مکمل طور پر ختم نہ ہوجائیں۔ کھٹمل مارنے کا یہ طریقہ نہایت آسان، محفوظ، کم خرچ اور بدبو سے پاک بھی ہے جس پر مہینے میں ایک سے دو بار عمل کرتے رہیں گے تو آپ کے گھر سے کھٹملوں کا صفایا ہوجائے گا۔ البتہ کھٹمل کیونکہ سخت جان ہیں اور بار بار اپنی آبادی بڑھاتے رہتے ہیں اس لیے ممکنہ طور پر آپ کو سال میں کم سے کم ایک مرتبہ اس کھٹمل مار گھریلو محلول کو ضرور استعمال کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایس اے ساگر 
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_77.html?m=1

Monday 27 July 2020

کھال خراب کیوں ہوتی ہے اور اسے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

کھال خراب کیوں ہوتی ہے اور اسے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
 
عیدقربان پرلاکھوں جانور ذبح کئے جاتے جن میں چھوٹے بڑے سبھی قسم کے مویشی ہوتے ہیں۔ قربانی کی یہ کھالیں چمڑے کے کارخانوں میں سپلائی کی جاتی ہیں جہاں ان کھالوں سے چمڑا تیار ہوتا ہے۔ بھیڑ بکری کی کھال سے 3 تا 6 مربع فٹ جبکہ گائے کی کھال سے 10 تا 20 مربع فٹ تک چمڑا حاصل ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کھالوں سے جو چمڑا تیار کیا جاتا ہے اس کی عالمی منڈی میں قدر 20 ارب روپے سے زائد ہے۔ جب اس چمڑے سے جیکٹیں، جوتے، پرس اور دیگر مصنوعات تیار ہوتی ہیں تو اس کی قدر میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ سب اسی صورت ممکن ہوتا ہے اگر کھالوں کو جانور کے جسم سے اتارتے وقت انھیں مناسب طریقے سے محفوظ کیا جاسکے۔ بصورت دیگر یہ کھالیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کھال کو محفوظ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ اس بات سمجھنے کے لئے ماہرین کی رائے کا جاننا ضروری ہے کہ کھال خراب کیوں ہوتی ہے؟ ہوسکتا ہے آپ کو یہ بات جان کر حیرانی ہو کہ وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں ان میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ لیکن یہ جراثیم اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کرتے جب تک انہیں اپنی نشوونما کے لئے مطلوبہ ماحول میسر نہ آئے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے گندم کے دانے سال ہا سال تک بوریوں میں پڑے رہنے کے باوجود اس وقت تک اگنے کی کوشش نہیں کرتے جب تک انہیں مناسب پانی، گرمائش اور جڑیں داخل کرنے کے لئے مٹی میسر نہ آئی۔ جیسے ہی گندم کے بیج کو یہ تینوں چیزیں میسر آتی ہے، بیج فوراََ حرکت میں آتا ہے اور اپنا اگاؤ شروع کر دیتا ہے۔ لہذا جیسے ہی ہم قربانی کے جانور کی کھال اتارتے ہیں، ہوا میں موجود جراثیم فوراََ اس کھال کے ساتھ چمٹ کر اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ تازہ کھال میں 65 فیصد پانی اور 35 فیصد پروٹین (ماس) ہوتا ہے۔ ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ اگر ان جراثیموں کو 4 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ گرمائش میسر آجائے تو یہ جراثیم کھال کے اوپر اور اندر داخل ہو کر نشوونما شروع کردیتے ہیں۔ مناسب ماحول میسر آتے ہی یہ جراثیم انتہائی تیزی کے ساتھ اپنی آبادی میں اضافہ کرنے لگتے ہیں۔ ایک جراثیم (بیکٹریا) بغیر کسی جنسی ملاپ کے ہر20 منٹ کے بعد ایک بچہ پیدا کردیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر 20 منٹ کے بعد کھال پر موجود جراثیم کی آبادی دو گنی ہو جاتی ہے۔ اس حساب سے 24 گھنٹے کے اندر اندر ایک جراثیم اپنی افزاءش نسل کے ذریعے 4 ارب جراثیم پیدا کر یتا ہے۔
کھال پر نشوونما پاتے ہوئے جراثیم:
کھال پر نشوونما پاتے ہوئے جراثیم

ذرا سوچئے کہ جس کھال کو 4 ارب جراثیم کھا رہے ہوں اس کھال کا حشر کیا ہوتا ہو گا۔ یہ جراثیم اپنی نشوونما کے دوران خاص قسم کی گیسیں چھوڑتے ہیں جس کی وجہ سے کھال میں سے ایک ضاص قسم کی بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ اگر ایک دفعہ یہ جراثیم کھال میں گھس جائیں تو پھر چھوٹے موٹے ٹوٹکے سے ان کی افزائش کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس لئے کھال کو ان جراثیموں سے بچانے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی جانور کی کھال اتاری جائے فوراََ کھال کو اچھی طرح سے نمک لگا دیں۔ نمک لگانے سے جراثیم کھال پر اپنی کارروائی شروع ہی نہیں کرسکیں گے۔ خیال رہے کہ اگر ایک دفعہ کھال جراثیم سے متاثر ہوجائے تو پھر اس سے معیاری چمڑا پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کھال کو اتارنے کے فوراََ بعد اگر نمک نہ لگایا جائے تو چار گھنٹے کے بعد کھال خراب ہوجاتی ہے۔ اس لئے جتنی جلدی ہو سکے کھال کو نمک لگا دینا چاہئے۔
کھال کو کتنا نمک لگانا چاہئے؟
کھال کو کتنا نمک لگانا چاہئے؟ اس بات کا دارومدار کھال کے وزن پر ہے۔ کھال کے وزن کے 40 فیصد وزن کے برابر نمک کھال کو لگانا چاہئے۔ بھیڑ بکری کی تازہ کھال کا وزن 3 سے 5 کلوگرام اور گائے کی تازہ کھال کا وزن 10 سے 20 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 10 کلوگرام وزنی کھال کو 4 کلوگرام اور 5 کلو وزنی کھال کو 2 کلوگرام نمک لگانا چاہئے۔
کھال کو نمک کیسے لگانا چاہئے؟
یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کھال کے بالوں والے حصے کی طرف نمک لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نمک لگانے کے لئے کوشت والے حصے کو اوپر کر کے کھال کو زمین پر بچھا دیں۔ اب پسا ہوا نمک لے کر کھال کے اوپر چھڑکتے جائیں۔ خیال رہے کہ کھال کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ رہے جس پر نمک چھڑکنے سے رہ گیا ہو۔
کھال کو زمین پر بچھاکر اچھی طرح نمک چھڑک دیا گیا ہے:

اب اپنے ہاتھوں سے نمک کو اچھی طرح کھال کے اوپر مسلتے جائیں۔ خاص طور پر کھال کے گردن، ٹانگوں اور دم والے حصوں پر نمک کو اچھی طرح رگڑیں۔ کھال کے کناروں پر بھی اچھی طرح نمک کو ملیں۔ ہاں اگر کھال اتارتے ہوئے آپ سے کھال پر کوئی کٹ لگ گیا ہو تو کٹ والی جگہ پر اچھی طرح سے نمک رگڑیں۔ پوری تسلی کرنے کے بعد کھال کو ایک طرف پھیلا کر رکھ دیں۔ خیال رہے کہ کھال کو پلاسٹک کے شاپر میں نہ ڈالیں اور جلدی ممکن ہو پیوپاری یا فلاحی ادارے وغیرہ کے حوالے کردیں۔ آپ کی معلومات کے لئے بتاتے چلیں کہ نمک کھال کے پانی کو چوس لیتا ہے۔ نمک لگانے کے بعد آپ کی کھال کا وزن 15 فیصد تک کم ہو جاتا ہے جس سے جراثیم کو اپنی نشوونما میں مشکل پیش آتی ہے۔ اب آپ کو بتاتے ہیں کہ اگر کھال کو صحیح وقت پر اور صحیح طریقے سے نمک نہ لگایا جائے تو اس کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔ دنیا میں بہترین کوالٹی کا چمڑا دانے دار چمڑا سمجھا جاتا ہے۔
یہ دانے دار چمڑا ہے جس میں دانے نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں:
دانے دار چمڑا وہ ہوتا ہے جو کھال کے بال اتار کر ہلکی سی صفائی کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن جراثیم کے حملے کی وجہ سے کھال کی اوپر والی تہہ جس پر دانے بنے ہوتے ہیں ضائع ہوجاتی ہے جس سے چمڑے پر نظر آنے والے دانے ختم ہوجاتے ہیں۔ بین الاقوامی منڈیوں میں دانے کے بغیر والے چمڑے کے دام بہت کم ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مسائل آتے ہیں ان میں چمڑے کی رنگائی، چمڑے کی لچک میں کمی اور چمڑے کی پائیداری میں کمی آنا شامل ہیں۔ ظاہر ہے غیر معیاری چمڑا پیدا کرنے سے نہ صرف یہ کہ چمڑا بدنام ہوتا ہے بلکہ کارخانہ دار بھی قربانی کی کھال کے زیادہ دام دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ جبکہ چمڑا پوری دنیا میں مقبول ہے۔ لہذا اپنے معیار کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کھال جیسے قدرت کے انمول عطیہ کو نمک لگاکر اچھی طرح سے محفوظ بنائیں تاکہ قربانی کی کھال اپنے بہترین مصرف کی شکل میں سامنے آئے اور نقصان سے حفاظت ہوسکے!
ایس اے ساگر


نیک عورتوں کو جنت میں حوروں کے بدلے کیا ملے گا؟

نیک عورتوں کو جنت میں حوروں کے بدلے کیا ملے گا؟

سوال: جنت میں مردوں کے نیک اعمال کے بدلے میں حوروں کا وعدہ ہے، جب کہ کئی خواتین کہتی ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا؟
جواب: نیک عورت اگر شادی شدہ ہے تو جنت میں اپنے جنتی  شوہر کے ساتھ رہے گی اور شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہوگی، اور اللہ تعالیٰ اس عورت کو ان سب سے حسین وجمیل بنائیں گے اور  وہ میاں بیوی آپس میں ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہوں گے۔
اور اگر دنیا میں عورت کے متعدد شوہر ہوں یعنی عورت  نے اپنے شوہر کے انتقال یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کرلی ہو  یعنی اس عورت نے دو یا اس سے زیادہ شادیاں کی ہوں تو وہ جنت میں اپنے کس شوہر کے ساتھ رہے گی؟ اس بارے میں  مختلف اقوال ہیں:
(1)   اس عورت کو اختیار دیا جائے گا  کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کرلے۔
(2)   وہ عورت آخری شوہر  کے ساتھ رہے گی۔ حضرت  ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت  کو اس کا آخری شوہر ملے گا۔
(3) عورت اس شوہر کے ساتھ رہے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو اور وہ شوہر جس نے  عورت پر ظلم کیا ہوگا، اس کو تنگ کیا ہوگا وہ اس عورت سے محروم رہے گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ  انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کسی کے دو شوہر ہوں تو وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اختیار دیا جائے گا، پس وہ اس شوہر کو اختیار کرے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو، اور وہی اس کا جنت میں شوہر ہوگا، اے ام سلمہ! اچھے اخلاق والے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے گئے۔
(4) بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے کہ اگر سب شوہر حسن خلق میں برابر ہوں تو آخری شوہر کو ملے گی ورنہ اسے اختیار دیا جائے گا۔
اور اگر عورت  کنواری ہو یعنی اس کا شادی سے پہلے ہی انتقال ہوگیا ہو، یا شادی شدہ تو ہو، لیکن اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو جنت میں جس مرد کو بھی وہ پسند کرے گی، اس کے ساتھ اس کا نکاح ہوجائے گا، اور اگر موجودہ لوگوں میں کسی کو بھی پسند نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مرد جنت میں پیدا فرمائیں گے جو اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔ (فتاویٰ عبدالحی)
باقی یہ خواہش کہ ایک عورت بیک وقت کئی مردوں کی بیوی ہو خلافِ فطرت بھی ہی اور جنت میں یہ خواہش پیدا بھی نہیں ہوگی۔
''المعجم الأوسط للطبرانی''  میں ہے:
'' قال: خطب معاوية بن أبي سفيان أم الدرداء بعد وفاة أبي الدرداء، فقالت أم الدرداء: إني سمعت أبا الدرداء يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أيما امرأة توفي عنها زوجها، فتزوجت بعده فهي لآخر أزواجها»۔ وما كنت لأختارك على أبي الدرداء''۔ (3/ 275، من اسمہ بکر، برقم: 3130،  ط: دارالحرمین، القاہرہ)
''المعجم الكبير للطبراني'' میں ہے:
''عن أم سلمة، قالت: قلت: يا رسول الله أخبرني عن قول الله: ﴿حُوْرٌعِيْنٌ﴾ [الواقعة: 22]، قال: "حور: بيض، عين: ضخام العيون شقر الجرداء بمنزلة جناح النسور"، قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ [الطور: 24] ، قال: «صفاؤهم صفاء الدر في الأصداف التي لم تمسه الأيدي». قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿فِيْهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ﴾ [الرحمن: 70]، قال: «خيرات الأخلاق، حسان الوجوه» . قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ﴾ [الصافات: 49]، قال: «رقتهن كرقة الجلد الذي رأيت في داخل البيضة مما يلي القشر وهو العرفي». قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿عُرُباً اَتْرَاباً﴾ [الواقعة: 37] ، قال: «هن اللواتي قبضن في دار الدنيا عجائز رمضاء شمطاء خلقهن الله بعد الكبر، فجعلهن عذارى عرباً متعشقات محببات، أتراباً على ميلاد واحد». قلت: يا رسول الله أنساء الدنيا أفضل أم الحور العين؟ قال: «بل نساء الدنيا أفضل من الحور العين، كفضل الظهارة على البطانة». قلت: يا رسول الله وبما ذاك؟، قال: "بصلاتهن وصيامهن وعبادتهن الله، ألبس الله وجوههن النور، وأجسادهن الحرير، بيض الألوان خضر الثياب صفراء الحلي، مجامرهن الدر، وأمشاطهن الذهب، يقلن: ألا نحن الخالدات فلا نموت أبداً، ألا ونحن الناعمات فلا نبؤس أبداً، ألا ونحن المقيمات فلا نظعن أبداً، ألاونحن الراضيات فلا نسخط أبداً، طوبى لمن كنا له وكان لنا"، قلت: يا رسول الله المرأة منا تتزوج الزوجين والثلاثة والأربعة ثم تموت فتدخل الجنة ويدخلون معها، من يكون زوجها؟ قال: "يا أم سلمة إنها تخير فتختار أحسنهم خلقاً، فتقول: أي رب إن هذا كان أحسنهم معي خلقاً في دار الدنيا فزوجنيه، يا أم سلمة ذهب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرة'' ۔(23/ 367، ازواج رسول اللہ ﷺ،  ام سلمۃ، ط: مکتبہ ابن تیمیہ، القاہرہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143909201595
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Saturday 25 July 2020

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے

راوی: وعن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من اعتذر إلى أخيه فلم يعذره أو لم يقبل عذره كان عليه مثل خطيئة صاحب المكس. رواهما البيهقي في شعب الإيمان وقال المكاس العشار
"اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے اپنے کسی قصور پر عذر خواہی کرے اور وہ مسلمان شخص اس کو معذور قرار نہ دے یا اس کے عذر کو قبول نہ کرے یعنی یوں کہے کہ تم عذر تو رکھتے ہو مگر میں تمہارے عذر کو قبول نہیں کرتا تو وہ اسی درجہ گنہ گار ہوگا جس درجہ کا صاحب مکس گنہ گار ہوتا ہے ان دونوں حدیثوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ مکاس عشر لینے والے کو کہتے ہیں۔
تشریح: مکس کے معنی ہیں محصول لینا اسی اعتبار سے عشر لینے کا مکاس کہا جاتا ہے اور عام طور پر صاحب مکس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو از راہ ظلم و تعدی ناحق محصولات وصول کرے ناحق اور خلاف شرع محصولات لگانے اور وصول کرنے کا گناہ بہت سخت ہے ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ صاحب مکس جنت میں نہیں جائے گا عذرخواہی کو قبول نہ کرنے والے اور صاحب مکس کے درمیان مشابہت کی وجہ شاید یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی طرح مکس بھی محصول دہندہ کے کسی عذر اور دلیل کو قبول نہیں کرتا کوئی تاجر لاکھ کہے کہ مجھ پر اس قدر محصول عائد نہیں ہوتا میرے پاس مال تجارت کا نہیں ہے بلکہ امانت کا ہے اور یا یہ کہ میں قرض دار ہوں یہ محصول ادا نہیں کرسکتا وغیرہ مگر وہ اس کی بات کو تسلیم نہیں کرتا اس سے زبردستی محصول وصول کر لیتا ہے۔
عذر خواہی کو قبول نہ کرنے کی مذمت اور اس سے گناہ کے بارے میں حدیث بھی منقول ہے کہ چنانچہ طبرانی نے وسط میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ 
من اعتذر الی اخیہ المسلم فلم یقبل عذرہ لم یرد علی الحوض۔
اگر کسی شخص نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے عذر خواہی کی اور اس نے اس کے عذر کو قبول نہیں کیا تو اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہوگا۔طبرانی اور دوسرے محدثین نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں تو ضرور بتائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں برا شخص وہ ہے جو تنہا کسی منزل پر اترے اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپی عطا و بخشش سے محروم رکھے پھر فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جو قصور کرنے والے کے عذر کو تسلیم نہ کرے معذرت کو قبول نہ کرے اور خطا کو معاف نہ کرے پھر فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ بتائیں اگر آپ بہتر سمجھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص کہ جس سے خیر و بھلائی کی توقع نہ کی جائے اور اس کی فتنہ انگیزیوں سے امن ملتا نہ ہو۔
حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو عورتوں کے تئیں پاک دامن رکھو یعنی تم دوسروں کی عورتوں پر بری نظر نہ رکھو تمہاری عورتیں دوسرے لوگوں سے اپنے دامن عفت کو محفوظ رکھیں گیں۔ تم اپنے باپ سے اچھا سلوک کرو تمہارے بیٹے تم سے اچھا سلوک کریں گے اور جس شخص کے پاس اس کا کوئی مسلمان بھائی عذر خواہ بن کر آئے تو چاہیے کہ وہ اس کے عذر کو قبول کرے اور خواہ اس کا عذر صحیح ہو یا غلط۔ اگر اس نے اس مسلمان بھائی کے عذر خواہی کو قبول نہیں کیا تو وہ یاد رکھے اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہیں ہوگا۔ (حاکم نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔)
عذرخواہی کو قبول کرو - مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان۔ حدیث 980
http://saagartimes.blogspot.com/2020/07/blog-post_70.html?m=1

نفلی قربانی کی بجائے قیمت مدارس اسلامیہ میں صدقہ کرنا؟

نفلی قربانی کی بجائے قیمت مدارس اسلامیہ میں صدقہ کرنا؟ 
-------------------------------
--------------------------------
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
1. بہت سے لوگ ایسے ہیں جو صاحب نصاب تو ہیں چاندی کے نصاب سے مگر انکے پاس بکرا خرید کرقربانی کرنے کی حیثیت نہیں ہے وہ لوگ اجتماعی قربانی میں بڑے جانور میں 1500 سے 2000 روپے تک کا بڑے جانور میں حصہ لیکر اپنی واجب قربانی کروالیتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں اجتماعی قربانی کی شکل بظاہر دشوار معلوم ہورہی ہے. خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائیاں بھی پولیس کرسکتی ہے اس لئے کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اجتماعی قربانی کو منع ہی کردیا ہے لیکن کچھ لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ بہار وغیرہ میں قربانی کرائیں گے لیکن دل مطمئن نہیں ہورہا ہے. موجودہ صورت حال میں کہ قربانی ہوپائے گی یا نہیں یاپھر پھر اطمینان کے بغیر حصہ کی رقم دیدی جائے؟ یا پھر ایسی شکل میں اوسط درجہ کے حصہ کے حساب سے رقم صدقہ کردیں یا بکری بکرا ہی صدقہ کرنا ضروری ہوگا؟
2. امسال نفلی قربانی نہ کرکے علماء ائمہ اور مدارس میں نفلی قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے زیادہ ثواب ملے گا یا نفلی قربانی سے اس لئے کہ اس وقت مدارس میں لگے علماء کرام وغیرہ کے حالات اچھے نہیں ہیں ان کا تعاون بھی ضروری ہے مسئلہ کی وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں
المستفتی عبداللہ پرتاپ گڑھی
الجواب وباللہ التوفیق: 
قربانی کے دنوں میں صاحب نصاب پہ جانور کا نذرانہ پیش کرنا اور اسے قربان کرنا ہی واجب و متعین ہے. اہراق دم رکن قربانی ہے، جب کسی مخصوص محل کے ساتھ وجوب امر متعلق ہو تو کوئی بھی دوسری چیز اس کا بدل نہیں بن سکتی، امر قربانی ذبح جانور کے ساتھ متعلق ہے، اب قیمت وغیرہ اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی. 
کورونا کے انتشار وپھیلاؤ کے باعث اگر واقعی کسی علاقے میں قربانی پر ہی حکومتی پابندی عائد کردی گئی ہو تو بدرجہ مجبوری صاحب نصاب اپنی قربانی کے لیے کسی ایسے علاقے میں کسی کو وکیل قربانی بناکر بقرعید کے دن قربانی کرنے کا حکم دیدیں جہاں اس طرح کی قانونی بندش و رکاوٹ نہ ہو اور مالی شفافیت کے ساتھ  اصول وشرائط اضحیہ  کی رعایت وپابندی سے  قربانی کا نظم وبندوبست ہو، غیر شفاف وغیرمستند مشکوک اشتہاری اداروں اور تنظیموں کی اجتماعی قربانی میں حصہ لینے لازمی طور پر بچا جائے۔ ایام قربانی (دس تا بارہ ذی الحجہ) میں واجب  قربانی کی جگہ اس کی رقم صدقہ کرنے کی اجازت  نہیں ہے۔ اگر جانور خریدا جاچکا ہو اور کوشش بسیار کے باوجود  ایام قربانی میں اسے ذبح نہ کیا جاسکا ہو تو بعینہ اس زندہ  جانور کو غریبوں یا رفاہی و خیراتی اداروں میں صدقہ کی نیت سے دے دیا جائے. اگر جانور نہ خریدا گیا ہو اور ایام قربانی گزرجائیں تو اس کے بعد ایک متوسط بکرے کی قیمت غریبوں پہ صدقہ کرنا واجب ہے، سبع بقرہ کی قیمت کا تصدق اب کافی نہیں ہوگا. اگر قانونی و حکومتی بندش اور عذر ومجبوری کی وجہ سے ایام قربانی میں جانور ذبح نہ کیا جاسکا ہو تو بارہ تاریخ کے بعد متوسط بکرے کی قیمت مستحقین پہ صدقہ کردیا جائے. 
 (ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا، ولو ذبحها تصدق بلحمها، ولو نقصها تصدق بقيمة النقصان أيضا ولا يأكل الناذر منها؛ فإن أكل تصدق بقيمة ما أكل.(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (6 / 320) ط: سعید) _ (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا) لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها.(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (6 / 321) ط: سعید) 
وقضائها بعد مضی وقتها بالتصدق بعینها اوبقیمتها ان کان من المضحی غنیا ولم یوجب علی نفسه شاۃ بعینها تصدق بقیمة شاۃ اشتری او لم یشتر (ہندیۃ 296/5)
کورونا کی مہا ماری میں جہاں پوری دنیا کی معیشت برباد ہوئی وہیں خالص مسلمانوں کی تبرعات پہ چلنے والے دینی مدارس کی حالت بھی دگرگوں ہوگئی، ایسی سخت مجبوری اور احتیاج عام کے دنوں میں نفلی قربانی کی بجائے اس کی قیمت مدارس دینیہ میں صدقہ کردینا زیادہ باعث اجر و ثواب ہوگا۔ حنفیہ میں امام محمد کے یہاں نفلی حج وعمرہ سے زیادہ بہتر ہے کہ اس کی قیمت ضرورت مندوں پہ صدقہ کردیا جائے۔ انفع للفقراء ومتعدی النفع عبادت کی انجام دہی زیادہ باعث اجر وثواب ہوتی ہے، نفلی قربانی یا نفلی حج وعمرہ کا نفع محدود ہے جبکہ حالات گزیدہ، ضروت مندوں اور پریشان حال لوگوں کی مالی معاونت کرنے کا نفع زیادہ متعدی اور دور رس ہے؛ اس لئے موجودہ حالات میں نفلی قربانی کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ مدارس اسلامیہ اور علمائے مستحقین کی مالی معاونت کی جائے، دینی مدارس اسلامی قلعے ہیں، ان کا تحفظ وبقاء ملی اور دینی فریضہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: 
أحبُّ الناسِ إلى اللهِ أنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ، وأحبُّ الأعمالِ إلى اللهِ عزَّ وجلَّ سُرُورٌ يدْخِلُهُ على مسلمٍ، أوْ يكْشِفُ عنهُ كُرْبَةً، أوْ يقْضِي عنهُ دَيْنًا، أوْ تَطْرُدُ عنهُ جُوعًا، و لأنْ أَمْشِي مع أَخٍ لي في حاجَةٍ أحبُّ إِلَيَّ من أنْ اعْتَكِفَ في هذا المسجدِ، يعني مسجدَ المدينةِ شهرًا، و مَنْ كَفَّ غضبَهُ سترَ اللهُ عَوْرَتَهُ، و مَنْ كَظَمَ غَيْظَهُ، و لَوْ شاءَ أنْ يُمْضِيَهُ أَمْضَاهُ مَلأَ اللهُ قلبَهُ رَجَاءً يومَ القيامةِ، و مَنْ مَشَى مع أَخِيهِ في حاجَةٍ حتى تتَهَيَّأَ لهُ أَثْبَتَ اللهُ قَدَمَهُ يومَ تَزُولُ الأَقْدَامِ، [و إِنَّ سُوءَ الخُلُقِ يُفْسِدُ العَمَلَ، كما يُفْسِدُ الخَلُّ العَسَلَ] أخرجه الطبراني في (المعجم الأوسط) (6026)، وأبوالشيخ في (التوبيخ والتنبيه) (97) باختلاف يسير) 
لگاتار اور بار بار حج و عمرہ کرنے کی تاکید حدیث میں آئی ہے: 
تابِعوا بين الحجِّ والعمرةِ فإنَّهما ينفيان الفقرَ ويزيدان في العمرِ والرِّزقِ كما ينفي كيرُ الحدَّادِ خبثَ الحديدِ قال أبو يوسفَ تابِعوا بين الحجِّ/ عن  عمر بن الخطاب. أخرجه ابن ماجه (2887)، وأحمد (167) مختصراً) 
لیکن اس قدر فضیلت اور اجروثواب کے باوجود غریبوں محتاجوں اور لاچار، بے کس وبے بس محتاجوں کی حاجت روائی اس سے زیادہ افضل قرار دی گئی ہے. حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کے کسی محتاج گھرانے کو ایک ماہ تک صبح شام روزی کا بندوبست کرنا میرے نزدیک پے در پے حج سے پسندیدہ و بہتر ہے: 
عن سيدنا الحسين بن علي   قال: "لَأَنْ أَقُوتَ أَهْلَ بَيْتٍ بِالْمَدِينَةِ صَاعًا كُلَّ يَوْمٍ، أَوْ كُلَّ يَوْمٍ صَاعَيْنِ شَهْرًا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حَجَّةٍ فِي إِثْرِ حَجَّةٍ". (المصنف لابن أبي شيبة: 13351)
فتاوی شامی میں ہے:
(قوله ورجح في "البزازية" أفضلية الحج)؛ حيث قال: الصدقة أفضل من الحج تطوعًا، كذا روي عن الإمام، لكنه لَمَّا حج وعرف المشقة أفتى بأن الحج أفضل، ومراده: أنه لو حج نفلًا وأنفق ألفًا فلو تصدق بهذه الألف على المحاويج فهو أفضل، لا أن يكون صدقة؛ فليس أفضل من إنفاق ألف في سبيل الله تعالى، والمشقة في الحج لَمَّا كانت عائدة إلى المال والبدن جميعًا فُضِّل في المختار على الصدقة. اهـ. (ردالمحتار 64/4، باب الھدی)
بحر کے حاشیے میں علامہ شامی لکھتے ہیں: 
ثم رأيت في متفرقات اللباب الجزم بأن الصدقة أفضل من الحج التطوع (منحة الخالق على البحر الرائق 544/2، کتاب الحج)
جب پریشانی ومحتاجگی اور فقر واحتیاج کے زمانے میں حج جیسی عظیم الشان عبادت سے بہتر محتاجوں کی حاجت روائی ہوسکتی ہے تو موجودہ مشکل ترین حالات میں نفلی قربانی کی بجائے غرباء کی خبرگیری بدرجہ اولی افضل وبہتر ہوگی. مالکیہ کے یہاں تو ایسے حالات میں صدقہ کرنا واجب ہوجاتا ہے، اگر آدمی عمومی فقر وافلاس کے زمانے میں صدقہ کی بجائے نفلی حج عمرہ وغیرہ میں مشغول ہوجائے تو گنہگار ہوگا. علامہ ابن رشد مالکی [ت 520هـ] کہتے ہیں: 
[وإنما قال: إن الحج أحب إليه من الصدقة، إلا أن تكون سنة مجاعة؛ لأنه إذا كانت سنة مجاعة، كانت عليه المواساة، فالصدقة واجبة، فإذا لم يُواسِ الرجلُ في سنة المجاعة مِن ماله بالقدر الذي يجب عليه المواساةُ في الجملة، فقد أثم، وقدرُ ذلك لا يعلمه حقيقةً؛ فالتوقي من الإثم بالإكثار من الصدقة، أولى من التطوع بالحج الذي لا يأثم بتركه] اهـ. [البيان والتحصيل لابن رشد (13/ 434)]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی محتاج کی  مالی معاونت کو حج نفل سے افضل قرار دیتے ہیں: 
«يضعها في أكباد جائعة أحب إلي -يعني من حج النافلة-» [الفروع لابن مفلح (3/ 386)]
شوافع کا بھی یہی رجحان ہے: 
[قال العبادي في "فتاويه": الصدقة أفضل من حج التطوع في قول أبي حنيفة، وهي تُحتَمَل في هذا الزمان] اهـ.البحرالمحيط فی اصول الفقہ للإمام الزركشي الشافعي 166/1)
واللہ اعلم بالصواب 
٢ذي الحجه ١٤٤١ هجري