اس بات کی خوشی تو ضرور ہے اور ہونی بھی چاہئے کہ بہار میں بی، جے، پی کی دال نہیں گل سکی اور وہ ہماری امید کے مطابق شکست سے دوچار ہوئی.
لیکن سیمانچل جوکہ بہار کے ایک گوشے میں پسماندگی میں مشہور ہے وہاں کے مجلس اتحاد المسلمین کے نتائج ضرور افسوس کرنے لائق ہیں، چھ امیدواروں میں سے ایک کے بھی کامیاب نہ ہوپانے کی وجہ سے گویا مجلس کی تمام تر محنتوں پر پانی پھر گیا؛ آخر کیوں؟
کیا اسدالدین اویسی کی کشن گنج میں ہوئی تقریر نے کچھ اثر نہ کیا؟ کیا اکبرالدین کی باتوں پر لوگوں کا اعتماد نہ جم سکا؟ کیا عوام کے سامنے مجلس کا تعارف اچھی طرح نہیں ہوپایا؟ یا پھر لوگوں میں کسی نئی پارٹی کے تئیں دلچسپی ختم ہوچکی ہے ؟
نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں. اویسی کی تقریروں نے بھی ذہنوں پر اثر کیا اور اکبر الدین کی آواز نے بھی ان کے ضمیر میں ہنگامہ برپا کیا، لوگوں کے سامنے مجلس کا تعارف بھی اچھی طرح پیش ہوا اور عوام کے ایک بڑے طبقے نے پارٹی پر مکمل اعتماد بھی کرلیا جس کی دلیل مجلس کی عوامی ریلیوں اور کانفرنسوں میں لاکھوں کی تعداد کا کا شریک ہونا اور بیک زبان مجلس کا ساتھ دینے کا اعلان کرنا اور پُر تپاک طریقے سے اویسی کا استقبال کرنا ہے.
پھر کیا وجہ ہوئی کہ مجلس کو امید کے خلاف مایوسی کا دن دیکھنا پڑا؟
کیا ایسا نہیں لگتا کہ سیمانچل کی بھولی بھالی عوام بھی سیاست میں اندھی تقلید کی خوگر ہوچکی ہے؟
بالکل ایسا ہی ہے.
وہاں کے لوگ بھی سیاست کے فریبی چہروں اور بناؤٹی باتوں میں آکر بہک جانے کے عادی ہیں.
ورنہ وہ نتیش کمار کے اس جملے پر کیوں کان دھرتے کہ "بہار میں بہاری حکومت کرے گا نہ کہ باہری" اس ایک جملے نے تو گویا عوام کے دلوں پر مہر لگادی کہ اب کسی باہری کو ووٹ دینا ہی نہیں ہے؛ یہ بات ایک حد تک بی، جے، پی اور باہر کی دیگر بدنام پارٹیوں کے لئے تو کارگر تھی اور کارگر ہی ثابت ہوئی؛ لیکن اس کا نقصان سیمانچل میں ایم، آئی، ایم کو بھی برابر بھگتنا پڑا وہاں کے لوگوں کا بھی رجحان یک لخت پلٹ گیا اور وہ بھی اویسی کی پارٹی کو باہری ہونے کی وجہ سے بھول گئے، پھر نہ انہیں اس پارٹی کی اچھائیاں یاد رہیں اور نہ اسد و اکبر کی تقریروں پر ہاتھ اٹھا اٹھا کر لگائے ہوئے نعرے اور حمایت کے وعدے یاد رہے حالانکہ یہ کوئی قاعدے اور ضابطے کی بات نہیں ہے کہ بہار میں بس بہاری ہی حکومت کرسکتا ہے اور باہری اس کا اہل نہیں؟
میں پوچھتا ہوں کیا ہندوستان کُل کا کُل ایک ملک نہیں ہے؟ کیا ایک صوبے کا آدمی دوسرے صوبے کے لئے باہری ہوجاتا ہے؟
اور جب ایک صوبے میں صوبائی اور مقامی پارٹیاں اپنی ذمہ داریاں درستی سے نہ نبھا پارہی ہوں اور صوبے کی ترقی برسہا برس سے ایک جگہ تھمی ہوئی ہو تو دوسرے صوبے کی فعال، ترقی پسند اور معتمد پارٹیوں کا کیوں نہ استقبال کیا جائے؟
سیمانچل والو! ذرا سوچو اور جواب دو.
چلو پارٹی باہر کی تھی؛ لیکن امیدوار تو سبھی تمہارے علاقوں کے تھے!
پھر کیوں تم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا؟
اسی طرح ایم، آئی، ایم کو مایوس کرنے میں افواہ بازوں کی افواہوں نے بھی پورا کام کیا ہے.
افواہوں پر بنا سوچے سمجھے اور مستقبل سے بے خبر ہوکر عام آدمی بہت جلد یقین کر بیٹھتا ہے.
افواہیں پھیلائی گئیں اور شدت سے پھیلائی گئیں، روپئے دے دے کر پھیلائی گئیں کہ اسدالدین اویسی بی، جے، پی کا ایجنٹ ہے اور وہ مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کردینا چاہتا ہے.
کتنی تعجب کی بات ہے کہ جو بی، جے، پی کا سب سے بڑا مخالف ہے اسی کو اس کا ایجنٹ بتایا جارہا ہے اور لوگ یقین بھی کر رہے ہیں؛
یہی تو اندھی تقلید اور کم علمی کی علامت ہے.
اسد الدین اویسی جو بے باک اور بے لاگ لیڈر ہے اور سیکولرزم کا خوگر ہے، سچا انسان اور صحیح قیادت کرنے والا، قوم و ملت کے درد سے سرشار ایماندار شخص ہے اس کے متعلق یہ افواہیں تو اس قابل تھیں کہ سن کر ان سنی کردی جائیں اور افواہ پھیلانے والوں کی پُرزور مخالفت کی جائے؛ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا اور سیمانچل میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے انتخابی نتائج مایوس کن رہے؛ تاہم مجلس کے کارکنان اور امیدواروں کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں، سیاسی میدان اگرچہ دھوکہ بازوں اور لٹیروں سے بھرا پڑا ہے؛ لیکن آج بھی سچائی اور امانت داری کا بول بالا ہے، آج بھی اچھوں اور نیکوں کی قدر ہے، آج بھی بہترین قیادت کرنے والوں کو پسند کیا جاتا ہے. آپ حضرات قوم و ملت کی ترقی کے لئے اخلاص کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہئے اور آئندہ انتخابات میں اللہ کا نام لے کر پھر میدان میں اترنے کا عزم رکھئے.
کامیابی سچوں ہی کے ہاتھ آتی ہے اگرچہ دیر میں آئے.
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے کہ جو گھٹنوں کے بل چلے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: آفتاب اظہر صدیقی کشن گنجوی
)جامعہ عربیہ مدرسۃ المؤمنین منگلور، اتراکھنڈ(
No comments:
Post a Comment