Wednesday 30 September 2015

Letter Written By Molana Saeed Ahmad Khan Sahib Rahmatullah Alaih

Letter written by Maulana Saeed Ahmad Khan Sahab R.A. to Tableeghi shura in 1977:
● Ahle shura me se kisi se bhi naraaz nahi hona chahiye.
● Aap sathiyon me jo ameer ka faisala ho wo qabool karna chahiye, beshak tabiyat me bojh hi kyun na ho.
● Apni mehnat ko hamesha kam samajhna kabhi ye khayal na aye k maine jaan aur maal lagaya hai.
● Kabhi tableegh ka ILm ya zikr se muqabala na karna,
Balki islaah-e ilm aur zikr ko phaylane k liye dawat wa tableegh k ilawa koi raasta nahi hai.
● Aap k mulk me jo bhi ahle ilm aur zikr hai unse muhabbat karna aur unko hadiya dena.
● Ameero ko kabhi ghareebo pe tarjee na dena , balki ghareebo k sath zyada muhabbat se baat karna.
● Agar aap ne ghareebo me kaam chalu kar diya toh pure Aalam k ameer log khud apne jaan maal laga k aap k paas ayenge Allah subhanahu wa ta'aala ki baat sunne.
● Ummat k har tabqe mein Hazrat Muhammad sallalahu alaihi wa sallam wali fikar k sath kam karna.

اینٹی بایوٹک سے بہتر

ھائیر اینٹی بایوٹیک سے بھی کڑوروں گنازیادہ کارآمد کیا ہوسکتا ہے؟جبکہ فی زمانہ شاید ھی کوئی ایسا انسان ھوگاجو انٹی بایوٹیک دواؤں اور اسکی افادیت سے واقف نہ ھو آج میں آپکو ھائیر سے ھائیر انٹی بایوٹیک سے بھی کڑوروں گنا فائدہ مند چیز بتانے جا رھا ھوں غور سے سنیں اور اس دوا کو یاد کرلیں قیمت بہت ھی کم محنت کچھ بھی نھیں فوائد بے شمار اور سب سے اھم اور بڑی بات یہ ھیکہ بخدا ذرہ برابر بھی سائیڈ افیکٹ نہیں صرف صبح شام ھی استعمال کرنا ھے اور بس کہیئے ایسی چیز آپ جاننا چاھیں گے یا نہیں؟
        بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شيئ في الارض ولافي السماء وهوالسميع العليم
صبح شام صرف تین تین بار پڑھ لیں صبح پڑھ لیںگے تو شام تک اور شام کو پڑھ لیں تو صبح تک کوئی چیز آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی یقین واعتماد شرط ھے اور کیوں یقین نہ کیا جائے کہ یہ نسخہ تعلیم دیا ھے صادق ومصدوق ھمارے اور آپکے آقاومولی جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے آپ پورے اعتمادویقین کے ساتھ استعمال کرکے دیکھیں استقلال شرط ھے حضرت عمر فاروق نے یہی دعا پڑھ کے سنکھیا کی شیشی پی لی تھی اور زھرقاتل نے انکو کچھ بھی گزند نہیں پہونچایا
(ع ـ خ ـ)

کیا دولت اسلامیہ کا شمار خوارج میں ہوگا؟

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

عرب کے شیخ الحدیث، مفسر قرآن، مفتی اعظم ڈاکٹر طرھونی کا مناظرہ کا چیلنج دیتے ہوئے دولت اسلامیہ کو خوارج کہنے والوں کی بولتی بند کردی

خاص رپورٹ : انصاراللہ اردو

خلافت اسلامیہ کیخلاف ثقافتی وفکری جنگ لڑنے میں مصروف دنیا بھر کے طواغیت کے علمائے سوء نے اپنے مقاصد کو پانے کے لیے اسلام میں تحریف کرتے ہوئے خوارج کی احادیث کو دولت خلافت اسلامیہ پر فٹ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔

یہ سلسلہ عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان کو خلافت اسلامیہ سے دور اور متنفر کرنے کے لیے شروع کیا گیا تاکہ اسلام کا نام لیکر ہی اہل اسلام کو خلافت اور ان کے دین سے دور کیا جاسکے۔

یہ سلسلہ اس قدر بڑھ چکا کہ اسلام کا مذاق اڑایا جانے لگا اور جو بھی کفار ومرتدین کو اچھا نہیں لگتا، اسے خارجی قرار دیکر بدنام کرنے کا سلسلہ ایسے شروع کررکھا ہے جیساکہ اسلام اللہ کا نازل کردہ دین نہیں بلکہ کفار وطواغیت کے درباری علماء کا دین ہے۔

اس کا بنیادی سبب وہ علمائے سوء تھے جنہوں نے اسلام کا نام لیکر کفار ومرتدین کے اہداف پورا کرتے ہوئے مجاہدین کیخلاف فکری وثقافتی جنگ کو برپا کیا۔

علمائے سوء کی وجہ سے اسلام کے اڑائے جانے والے مذاق کی صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر عرب کے شیخ الحدیث، مفسر قرآن، مفتی اعظم ڈاکٹر محمد طرھونی حفظہ اللہ نے پوری دنیا کے علمائے سوء کو چیلنج دیا کہ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دولت خلافت اسلامیہ والے خوارج ہیں تو وہ آکر ان سے کہیں بھی اور کسی بھی طریقے سے مناظرہ کرلیں۔

محدث شیخ محمد طرھونی کے اس چیلنج سے خلیج وآل سعود کے گمراہ کن علماء کو شدید دھچکا لگا کیونکہ شیخ محمد طرھونی کوئی عام عالم دین نہیں ہے بلکہ وہ اس وقت کے نامور جید شیوخ الحدیث ومفسرین قرآن اور مفتیان اسلام میں سے ایک ہیں جن کے سینکڑوں علماء شاگرد ہیں۔

شیخ محمد طرھونی کو عرب خطے میں رہنے والا ہر مسلمان جانتا ہے جبکہ وہ یہاں مدینہ منورہ میں قرآن کریم کی دس قراءتوں، تجوید، حدیث، تفسیر ، فقہ اور دیگر اسلامی علوم کئی علماء کو پڑھاکر ان کو سندوں کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دیتے تھے۔

سعودیہ کے سینکڑوں علماء ان کے شاگرد ہیں جبکہ عرب خطے اور پوری دنیا میں ان کے ہزاروں علماء شاگرد ہیں۔

تجوید کے جو دروس وہ اپنی مسجد العامر میں رمضان میں دیتے تھے، ان میں سے کئی دروس میں سعودی حکومتی امیر سلطان بن عبد العزیز بھی شریک ہوتے تھے۔

اسی طرح وہ امیر عبد اللہ بن فیصل بن مساعد بن سعود بن عبد العزیز آل سعود کے استاذ خاص تھے۔

اس کے علاوہ مجمع الملک فہد، کئی تعلیمی اداروں ، یونیورسٹیوں، اسلامی ریسرچ سینٹرز میں پڑھانے، تحقیقی کام کرکے قرآن وتفسیر اور اسلامی علوم سے متعلق بیسیوں کتابیں لکھنے اور علمی پروجیکٹوں پر کام کرنے والے تھے۔

انٹرنیٹ پر حدیث شریف اور اسلامی ریسرچ کا اوپن یونیورسٹی قائم کرنے کا آئیڈیا بھی انہی کا تھا جبکہ وہ تعلیمی اداروں میں نصاب تشکیل دینے اور کئی دیگر علمی وفتاوی سرگرمیوں کو انجام دیتے تھے۔

انہوں نے اپنے ہم عصر کبار علمائے کرام شیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ ، شیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ، شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ، شیخ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ ، شیخ عامر السید عثمان رحمہ اللہ کی صحبت میں رہ کر ان کے علم سے فیض یاب ہوئے۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کے شاگرد خاص تھے اور انہی کے کہنے پر اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ میں داخلہ لیکر وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔

آپ 4 رجب1379ھ بمطابق جنوری 1960ء میں القاہرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کی نسبت عرب طرھونہ کی طرف ہیں۔ یہ وہ عرب لوگ ہیں جنہوں نے الحجاز سے مصر اور لیبیا کی طرف ہجرت کرکے وہاں سکونت اختیار کرلی۔

آپ کا پورا مکمل نام محمد بن رزق بن عبد الناصر بن طرھونی الكعبی السلمی ابو الارقم المصری المدنی ہے۔

آپ نے عصری تعلیم، قرآن کریم حفظ اور شرعی علوم مکمل طور پر مصر میں حاصل کیا اور پھر مدینہ منورہ چلے گئے جہاں آپ نے تمام اسلامی علوم مکمل طور سیکھتے ہوئے وہی درس وتدریس کا کام کرنا شروع کردیا۔

حرم مدنی کے امام شیخ قاضی ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم جیسے کئی امام وخطباء آپ کے شاگرد ہیں اور قرآن کو روایت کرنے کی سند انہوں نے آپ سے حاصل کی ہے۔

آپ نے مزید تعلیم کے لیے مدینہ منورہ چھوڑنا نہ چاہا لیکن اپنے علماء ساتھیوں کے کہنے پر ازہر یونرسٹی جاکر اسلامی علوم میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔

مدینہ منورہ میں اس وقت قائم الخندق مدارس کی بنیاد آپ ہی نے رکھی تھی۔

الغرض آپ ممتاز حافظ ، مفسر ، مفتی اور اسلامی مصنف ہیں۔ آپ نے کئی موضوعات پر تحقیقی کتابیں لکھیں ہیں ۔

2003ء میں انٹرنیٹ پر سعودی جیلوں میں علماء اور مجاہدین پر ہونے والے تشدد سے متعلق ایک مضمون نشر ہوا، اس مضمون کو لکھنے کا الزام آپ پر لگاکر سعودی حکومت نے آپ کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرلیا۔آپ نے اس مضمون سے کسی قسم کا تعلق ہونے کی تردید کی ، لیکن آپ کو 10 سال قید رکھنے کے بعد جج نے یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ آپ بڑے عالم دین ہے اور شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ہم سے غلطی ہوئی اس لیے معذرت ۔‘‘

رہا ہونے کے بعد آپ کو مصر بھجوادیا گیا اور سعودی حکومت نے آپ کی سعودی بیوی کو مصر نہ جانے دینے اور طلاق دینے پر مجبور کیا لیکن ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔

بہرحال مصر میں آنے کے بعد آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور آپ نے عیسائیوں سے مناظرے کرکے ان پر اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کا دعوتی کام کرنے لگ گئے جس سے بیسیوں عیسائی آپ کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔

اس کے علاوہ آپ نے قرآن کریم کی قراءتوں ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم کو پڑھاکر ان کو روایت کرنے کی سند جو آپ کے پاس آپ کے استاڈ سے ہوتے ہوئے ہر دور کے مایہ ناز جید علماء سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام تک موجود ہیں، اسے دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس پر مستزاد انٹرنیٹ پر حدیث اور اسلامی دراسات کے کالج کو چلاتے ہوئے آپ دنیا بھر میں موجود اپنے کئی شاگروں کو پڑھارہے ہیں۔

انٹرنیٹ پر کئی اسلامی دعوتی ویب سائٹوں میں آپ تحقیقی مواد لکھ کر نشر کرتے ہیں جبکہ سوشل ویب سائٹوں پر کئی تبلیغی رومز میں آپ ہر ہفتے دنیا بھر کے عام مسلمانوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی آپ کی کافی سرگرمیاں ہیں اور ان سب کا احاطہ یہاں کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آپ کی سیرت زندگی اور مکمل تعارف آپ کی اپنی ویب سائٹ اور انسائیکلوپیڈیا پر یہاں سے پڑھیں :

http://www.tarhuni.org/
https://ar.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%B1%D8%B2%D9%82_%D8%B7%D8%B1%D9%87%D9%88%D9%86%D9%8A

خلافت اسلامیہ کے قائم ہوجانے کے بعد آل سعود وخلیج حکام کے درباری علماء نے دولت اسلامیہ والوں کو خوارج قرار دینے کی مہم شروع کی ۔

اب اس مہم میں نام تو اسلام کا استعمال کیا جارہا ہے، مگر حقیقت میں اسلام کی جگہ اپنے طواغیت کے دین ارتداد کو فروغ دیا جارہا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے دیکھا کہ کس بے شرمی کے ساتھ علمائے سوء اپنے طواغیت حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے قرآن وحدیث کے دلائل کی اپنی من مانی تشریح کرتے ہوئے دولت خلافت اسلامیہ والوں کو خوارج قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں، تو آپ سے یہ برداشت نہیں ہوا۔

اسی وجہ سے آپ نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی دولت خلافت اسلامیہ کو خوارج کہتا ہے، تو وہ مجھ سے اس پر مناظرہ کرلیں اور جہاں اور جس طرح وہ چاہے گا، میں مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہو۔

آپ نے یہ مناظرہ دولت خلافت اسلامیہ کے ساتھ کسی قسم کے تعلق ہونے کی تردید کرتے ہوئے صرف اس بنا پر کررہے ہیں کہ آپ کو اسلام کے تمام علوم بالمشافہ سند کے ساتھ حاصل کرنے کے بعد یاد ہیں۔

آج اسلام ہی کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے علمائے سوء اس کا حلیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے حکمرانوں کی خوشنودی کو پانے کے لیے غلط فتاوی دیتے ہوئے عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں۔

اس مناظرے سے آپ کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ خوارج اصل میں کون تھے اور دولت خلافت اسلامیہ والے کسی بھی طرح خوارج نہیں ہیں۔

آپ کے مناظرے کا چیلنج دینے سے بہت سے علمائے سوء کی زبانیں بند ہوگئی اور وہ مناظرے پر آنے کی بجائے کترانے لگے۔

آل سعود نے اپنے ایک درباری عالم دین شیخ عصام العوید کو مناظرہ کے لیے تیار کیا اور علماء کا ایک پورا وفد اسے بطور مدد فراہم کیا۔

لیکن شیخ عصام العوید سے المسلم فورم پر تحریری مناظرہ ہوا جہاں وہ نہ خوارج کی تعریف بیان کرسکا اور نہ ہی دولت اسلامیہ کا تعارف کراسکا۔

آپ نے ہی پہلے دولت اسلامیہ کا تعارف کراتے ہوئے ثابت کیا کہ وہ کس طرح تنظیم نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک مملکت وریاست ہے ۔ پھر اس کے بعد آپ نے خوارج کی تعریف اور اس کے اوصاف کو بیان کیا ۔

پھر آل سعود کے درباری عالم دین شیخ عصام العوید سے آپ نے مطالبہ کیا کہ وہ بیان کریں کہ کس طرح دولت اسلامیہ والے خوارج ہیں؟

اس پر آل سعود سے قریب تر مسلم فورم کا ایڈمن رضا احمد جو دونوں فریقین میں مناظرہ کرانے کی ذمے داری نبھارہا تھا، وہ غائب ہوگیا اور واپس نہیں آیا۔

اس کے بعد تحریری مناظرہ رک گیا اور آپ شیخ ڈاکٹر محمد الطرھونی نے آل سعود کے درباری عالم دین شیخ عصام العوید کو پال ٹاک PALTALK پر مناظرہ پورا کرنے کی طرف بلایا لیکن وہ بھی بھاگ کھڑا ہوا اور مناظرہ پورا کرنے سے انکار کردیا۔

اس پر آپ نے تنہا ہی پالٹوک پر ہزاروں مسلمانوں سے مخاطب ہوکر مناظرے کو تنہا مکمل کرتے ہوئے مناظرے کے تمام موضوعات پر تفصیلی گفتگو فرمائی اور دولت خلافت اسلامیہ کے مخالفین کے تمام شبہات واعتراضات کا تفصیلی جواب دیا اور پھر واضح کیا کہ اسلام میں خوارج کون ہیں اور ان کے اوصاف کیا ہیں؟

پھر اس کے بعد آپ نے واضح کیا کہ خوارج کی صفات کا انطباق دولت خلافت اسلامیہ پر کسی طرح نہیں ہوتا ہے بلکہ خوارج کے اوصاف سے قریب تر آل سعود وخلیجی حکام اور ان کی افواج ہیں۔

آپ نے درباری عالم دین کے بھاگ جانے کے بعد کئی گھنٹوں مناظرے سے متعلق تمام موضوعات پر تفصیلی گفتگو فرماتے ہوئے مسلمانوں کو ان موضوعات پر اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کرایا ہے، جن کی ویڈیوز یوٹیوب پر ان دو چینلوں پر مکمل موجود ہیں، جسے یہاں سے سنا جاسکتا ہے
https://www.youtube.com/channel/UCYbUBp4YHb0HsrtJKd9HPIA/videos

https://www.youtube.com/channel/UC_rhaESYOuF0Bs0AD88vd0Q/videos

باقی آپ نے جو درباری عالم دین شیخ عصام العوید سے تحریری مناظرہ کیا، اس کا مکمل عربی متن یہاں سے ملاحظہ فرمائیں :

https://justpaste.it/T_3

یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور آپ شیخ ڈاکٹر محدث محمد الطرھونی حفظہ اللہ اب تک دولت خلافت اسلامیہ کے تمام مخالفین اور درباری علمائے سوء کو کا تعاقب کرتے ہوئے ان کو تکفیر وخارج کے موضوعات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بے نقاب کررہے ہیں ۔

اس کے علاوہ عام مسلمانوں کے تمام سوالات اور خوابوں کی تعبیر سمیت شیعوں، نصاری اور دیگر دشمنان اسلام سے مناظرہ کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور صحیح عقیدہ کو مختلف سماجی ویب سائٹوں اور پالٹوک پر ’’ حراس العقیدۃ‘‘ (عقیدۃ کے محافظ) کے نام سے موجود روم میں گفتگو کرکے نشر کررہے ہیں اور عام مسلمانوں کو صحیح اسلام وتوحید سے آگاہ کررہے ہیں ۔

https://4.bp.blogspot.com/-HRQOsLoj-N0/VgCA4E-OD_I/AAAAAAAAzuw/6s1WQ-CkwQs/s640/2015-09-22_001122.png

اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر آپ کئی دعوتی پروگرامز لائیو کرتے ہیں، جن کی تفصیلات اور ان کو آپ الہدی چینل پر سے سن سکتے ہیں، جس کا ٹوئٹر ایڈریس یہ ہے:

https://twitter.com/AlhodaChanel

شیخ ڈاکٹر محدث محمد الطرھونی حفظہ اللہ کا اب بھی دولت خلافت اسلامیہ کو خوارج کہنے والے تمام علمائے سوء کو چیلنج ہے کہ وہ آکر ان سے مناظرہ کرلیں۔

اب تک طواغیت کے درباری علماء میں سے دوبارہ کسی نے ہمت نہیں کی ہے اور نہ ہی القاعدۃ کے نام نہاد السباعی، المقدسی ،ابوقتادۃ وغیرہ علمائے سوء میں سے کسی کو جرأت ہوئی ہے کہ وہ اس موضوع پر ایک اسلام کے حقیقی معنوں میں محدث عالم دین سے مناظرہ کرسکے۔

اللہ تعالی آپ بزرگ شیخ ڈاکٹر محدث محمد الطرھونی حفظہ اللہ کو جزائے خیر دے ۔ آپ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دولت خلافت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود اسلام کی خاطر اس کا دفاع کیا اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے کہ آپ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور آپ کو دولت خلافت اسلامیہ کا دفاع کرنے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے جیساکہ دیگر علمائے کرام کے ساتھ ہوا ، جنہوں نے دولت خلافت اسلامیہ کی بیعت یا اس کی حمایت کرنے کا اظہار صرف چند جملوں میں کیا تو ان کو گرفتار کرکے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھجوادیا گیا۔

لیکن آپ نے جان کی پرواہ کیے بغیر اسلامی غیرت رکھتے ہوئےببانگ دہل حق کو واضح کیا اور اسلام وخلافت اسلامیہ کا دفاع کیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اس کا اجر عظیم نصیب کرے۔ آمین

معاشرتی ویب سائٹیں ؛ ایڈمن کیلئے لمحہ فکریہ

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے چلن نے یوں تو بہت سی سہولیات مہیا کردی ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اس کے سبب بے شماردنیوی و اُخروی نقصانات بھی صارفین کیلئے مقدر بن گئے ہیں. بکثرت استعمال ہونے والے واٹس اپ اور فیس بک نے تو تہلکہ مچارکھاہے.   شروع شروع میں تو صارفین ان کے استعمال سے مکمل طور پرآشناناتھے لیکن جوں جوں استعمال بڑھتاگیا...اور لوگ مکمل طور پر واقف ہوتے گئے.پھر لوگوں اپنی عقل و فہم کی بنیاد پر گروپ تشکیل دینا شروع کئے.  اب المیہ یہ ہے کہ ہر یوزراپنے چند دوستوں کو لےکر اپنے ذوق کے مطابق مختلف گروپس تشکیل دے رہاہے.  اور پھر اِن گروپس میں کیا ہوتاہے،کیسے ہوتا یہ ہر شوشل میڈیاپر سرگرم عمل شخص بخوبی جانتاہے. 
میں اپنے اس مختصر سے مضمون میں جِس بات کی طرف اشارہ کرناچاہتاہوں وہ یہ کہ وہاٹس اپ، فیس بُک کا استعمال کرنا، ان پر گروپس بنانا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے اِلاّ یہ کہ جب ان کا استعمال شرعی احکام کی پامالی، فرائض سے دوری اور دین بیزاری کا سبب بننے لگے تو پھر ان کا استعمال صرف گناہ ہی نہیں بلکہ حرام تک  ہوجاتاہے لیکن جیسے ہی آپ کسی گروپ کے ایڈمین بنتے ہیں آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے.  آپ ایڈمن بننے کے ساتھ ساتھ اپنےگروپ اور ممبران کے متعلق اخرت میں جواب دہی کے بھی ذمہ دارہوجاتے ہیں.
آج کل یہ بیماری بری طرف عام ہوتی جارہی  ہے. ہربندہ اپنا گروپ بنارہاہے. گروپ میں سو،سودو،دوسو ممبران کو شامل کررہاہے. یہ بھی کوئی بُری بات نہیں لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِى عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِىَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ».
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سنو! تم میں سے ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا،امیر لوگوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا ، اور مرد اپنے اہل خانہ پر حاکم ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ،اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار اور مسئول ہے اس سے ان کےبارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو! تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔
(صحیح مسلم 34/14 .صحیح بخاری 2/5 حدیث نمبر 893 )
اس حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اسکے ماتحتوں کے متعلق کل قیامت کے دِن سوال کیا جائے.
محترم قارئین! اب ہم غور کریں کہ ایف بی  یا واٹس  اپ پر گروپ تشکیل دینے کے بعد ہم پر کتنی بڑی ذمہ داری عائدہوجاتی ہے.  جب آپ کوئی گروپ تشکیل دیتے ہیں تو اس گروپ میں آپکی حیثیت ذمہ دار یا ایڈمن کی ہوتی ہے اور گروپ کا ہر ممبر آپ کا ماتحت ہوتاہے. گروپ کریٹ کرتے ہی حدیث شریف کی رو سے مسئول یعنی جس سے سوال کیاجائے ایڈمن بن جاتے ہیں اور گروپ کے تمام ممبران کی آخرت کے بننے یا بگڑنے کے ذمہ دار بھی.  اور پھر انہی ممبران کی آخرت کے بننے یا بگڑنے سے متعلق کل قیامت میں آپ سے سوال ہونا ہے. کہ آپکی ماتحتی میں آجانے کے بعد آپ نے انکی آخرت کی کتنی فکر کی؟؟؟
اس لئے اگرآپ کسی گروپ کے ایڈمین یا ذمہ دار ہیں تواب آپکی حیثیت صرف ایڈمین کی ہی نہیں بلکہ مسئول اور امیر کی بھی ہوجاتی ہے.اور آپ ایک مکمل کارواں کےرہبر بن جاتے ہیں.اب کارواں کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے چاہے جِس سمت موڑدیں بھلائی کی طرف یا پھر بُرائی کی طرف. اور اگر آپ بھلائی کی طرف اپنے قافلے کو نہیں لے کر چلتے تو  اس کےلئے تیار رہیں کہ کل قیامت کے دِن آپ سے اس بارے میں بھی سوال ہوناہے.  ورنہ اس سے پہلے کہ آپ قیامت کے دِن مسئول یا ایڈمن کی حیثیت سے سوال کیا جائے  اور آپ سے آپ کے گروپ کے ممبران کے بارے میں سوال ہو اگرآپ اسکی اہلیت نہیں رکھتے کہ آپ ہرممبر کی آخرت سنوارنے کی فکر کرسکیں اور آخرت کی جوابدہی سے بھی بچنا چاہتے ہیں  تو جتنی جلدی ہوسکے اپنے گروپس close کیجیئے.
خود کی بھی آخرت برباد ہونے سے بچائیے اور دوسروں کی بھی.
ورنہ کل قیامت کے دِن یہی گروپ ممبرس، ان کا قیمتی سرمایہ،وقت، صلاحیتیں جو آپکی کی وجہ سے یعنی گروپ بنانے سے ضائع ہورہی ہیں  آپ کےلئے خسارے کا سبب  بن سکتے ہیں ...
گروپ اور ایڈمن گروپ اور ایڈمن میں مسؤلیت کا تعلق مسؤول عن رعیتہ جیسا نہیں ہے، کیوں کہ کسی بھی زاویہ سے ایڈمن پر مسؤل ہونے کی تعریف جچتی نہیں ہے۔ 
گروپ ایک خوبصورت باغ کی طرح ہوتا ہے، جس میں ہم مزاج یار دوست، اکٹھا ہوکے، کھلے اور صحتمند ماحول میں گفتگو کرتے ہیں، بات چیت کا موضوع متعین ہو یا آزاد، اسمیں اظہاِ رائے کی آزادی ہونا ضروری ہے۔
① ایڈمن آدمی کسی گروپ کا شیخ یا استاذ نہیں،بلکہ مشاہد ہوتا ہے، اس کی نظر گروپ کے کیلئے بنائے گئے اصول اور فوائد پر رہنی چاہئے، چنانچہ ایڈمن کا انداز، ساتھی اور دوست کے جیسا ہونا چاہئے، کسی بالادست شخصیت والا نہیں۔
(۲) اگر کوئی گروپ کسی خاص موضوع کے لئے تشکیل دیا گیا ہے، تو غیرموزوں آدمی کو احترام کے الفاظ کے ساتھ رخصت کرنا چاہئے۔
(۳) کسی گروپ میں علم و ادب، افکار اور فنون ِلطیفہ کیلئے گنجائش ہے، تو شرعی احکام کا لحاظ سب کی ذمہ داری ہے، کیونکہ اکیلا ایڈمن، اتنے موضوعات کی باریکیوں کا ادراک اور مطالعہ کرے یہ ضروری نہیں ہے، خلاف شرع بات پر گروپ میں جم کے مگر مدلل جرح کوئی بھی کرسکتا ہے۔ موضوعات میں توسعات کے سبب ممکن ہے کہ کسی ساتھی کی کج فہمی یا کم فہمی سے الجھن ہوتی ہو، مگر جید علماء کو چاہئے کہ، ایسے بقراطی ملفوظات کی علمی گھیرابندی کریں ، اور یوں سمجھیں کہ عالمانہ تشخص جو نہیں کہہ سکتا ہے، اس کو ایک فکری بدو کہہ رہا ہے، اس بہانہ سے مباحثہ میں خیالات شیئر ہوتے ہیں،
البتہ،
اگر مجمع مستند اور متکلم علماء کا نہیں ہے، وہاں فکری کج کلامی کرنے والے ساتھی کو اعزاز سے رخصت کرنا چاہئے تاکہ گروپ کے سادہ ساتھیوں کے دماغ میں، فاسد فلسفہ کے وائرس داخل نہ ہوسکیں۔
(۴) اگر ساتھی کسی شخص یا موضوع سے خلجان محسوس کریں تو غیرافادیت اور مفسدہ پر کھل کے کلام کریں، ایڈمن کو چاہئے کہ مفاد عامہ میں فیصلہ لے۔
(۵) بسااوقات گروپ میں نت نئے موضوع زیربحث آتے ہیں، اسوقت ساتھی جذبات میں فلاں کام کرنا چاہتے ہیں، مگر واٹساپ گروپ ایک جمع غائب ہے، اسلئے ایکدوسرے کے مزاج اور فطرت سے آگہی نہیں ہوتی ہے،چونکہ ایسا کوئی بھی مثبت کام، ملاقات اورتفکروتدبر کا متقاضی ہوتا ہے،اسلئے محض افکار میں مشابہت کا ہونا، اور ساتھی شخصیات سے کماحقہ واقف نہ ہونا، یہ دلجمعی سے آگے بڑھنے کیلئے کافی نہیں ہے۔
وما توفیقِ اِلاّ بِاللّٰہ

جادو سیکھنے کے شرعی احکام

جادو سیکھنا شرعا کیسا ہے تاکہ برےلوگوں کے جادو سے بچ سکیں؟
الجواب حامدا ومصليا
جادو کی کئی قسمیں ہیں اور ہر قسم کا شرعی حکم الگ ہے، چنانچہ جادو کی جس قسم میں کفر کا کوئی عمل اختیار کیا گیا ہو،مثلا:شیاطین یا جنات سے مدد طلب کرنا  یا ستاروں کی تاثیر کو مستقل سمجھنا یا قرآن کریم یا دیگر شعائرِاسلام کی توہین کرنا یا جادو کو معجزہ قرار دیکر نبوت کا دعوی کرنا وغیرہ توایسا جادو کرنے والا دائرہ ِ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور جادو کی اس قسم کا سیکھنا ،سکھانا اور اس میں کسی قسم کی معاونت کرنا  حرام ہے۔
اور جادو کی جو قسم مذکورہ بالا جیسے کفریہ عمل یا عقیدہ پر مشتمل نہ ہو ،لیکن اِسے دوسروں کو ضرر پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے تو ایسا جادو کرنے والا اگرچہ دائرہِ اسلام سے خارج تو نہیں ہوگا،لیکن جادو کی یہ قسم بھی شرعاًٍ حرام ہے جس کی وجہ سے جادوگر سخت گناہ کا مرتکب ہوگا۔
اور اگر جادو کی اس قسم کو کسی صحیح غرض کے لیے استعمال کیا جائےمثلاً:جادو کے اثر کو زائل کرنے کے لیے یا دفع ِضرر کے لیے تو اس کی گنجائش ہے۔(ماخذہ:امداد المفتین:۲۱۳)
واضح رہے کہ محض شک کی بنیاد پر یاکسی عامل کے کہنے پر کسی پر جادو کا الزام نہیں لگایاجاسکتا،بلکہ اس کے لیے خودکرنے والے کا اقرار یا شرعی گواہی ضروری ہے،لہذا جس شخص کا جادو کرنا شرعی طریقے سے ثابت ہوجائے تو پھرجادو کی جو قسم کفر ہے اس قسم کا جادوگر اگر سچے دل سے توبہ نہ کرے تو حکومت اس کو قتل کرسکتی ہے، اور جادو کی وہ قسم جو کفر تو نہیں ،لیکن اُسے دوسروں کو ضرر پہنچانے کے لیےاستعمال کیا جائے ایسی قسم کے جادوگر کو حکومت تعزیراً جو سزا مناسب سمجھے وہ دے سکتی ہے،نیز جو لوگ کسی جادوگر کی مذموم حرکتوں سے متاثر ہوں وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنے تحفظ اور دفاع  کے لیے جائز تدابیر اختیار کرسکتے ہیں ،مثلا: کسی ایسے مستند شخص کے ذریعے جادو کا توڑ کرسکتے ہیں جو شریعت کے دائرہ میں رہ کر عمل کرتا ہو،لیکن سزا خود جاری نہیں کرسکتے، اس کے لیے عدالت کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔
حواله جات:
...................................................................
أحكام القران للشيخ ظفر أحمد العثماني(1،48 تا 50)
قد تحصل مما ذكرنا أن السحر أقسام، ولكل قسم منه أحكام، فأولها: ماكان فيه اعتقاد أو عمل ما هو كفر كالاستعانة بالشياطين والتقرب إليهم،أو اعتقاد تأثير الكواكب بالاستقلال،أو ادعاء أنه معجزة كمعجزات الأنبياء عليهم السلام، أو عمل ما فيه إهانة القران كأن يدعي في كلام مؤلف أنه مثل القران أو فوقه فهو كفر إجماعا، وهو المحكوم عليه بالكفر في الكتاب العزيز، وحكم عامله أنه يقتل ولا يستتاب،،،إلى قوله: وحكم تعلمه وتعليمه أنه حرام على المختار،،،،،،إلى قوله:و ثانيها: مالم يكن فيه وجه كفر ولكن فيه إضرار بالمسلمين و سعيا في الأرض بالفساد، فذلك حرام فعله وتعليمه وتعلمه، كما يستفاد من مقدمة رد المحتار، وعامله وإن لم يكن كافرا، لكنه يقتل للسعي بالفساد،،، إلى قوله:وثالثها: ما لم يكن فيه كفر ولا إضرار بالمسلمين، ولكنه يستلزم معصية في حكمه، كاستعمال النجاسات والمحرمات وتسخير الجنة والجنيات جبرا وقهرا من غير رضاهم به، وترك الذكر والصلوات، وما استلزم المعصية فهو معصية شرعا، أو يترتب عليه معصية أو مفسدة كفساد اعتقاد العامة والتلبيس عليهم،،،،إلى قوله: لم أر من صرح بذكر هذا النوع و حكمه جزئيا، ولكن مقتضى القواعد أن ذلك معصية أيضا، فإن المفضي إلى المعصية كمستلزمها، وحكم تعليمه وتعلمه كحكم عمله و عامله يعزر و لايقتل، ورابعها:مالا يكون فيه كفر ولاضرر ولاإضرار ولامعصية ولايفضي إلى معصية ولايترتب عليه مفسدة ولاانهماك،فهو في نفسه مباح، لا بأس به مالم يقصد به التلهي و التلعب، بل كان لغرض صحيح على أصل صحيح، وإن أريد به التلهي ففيه من التفصيل ما في اللهو واللعب،
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (4 / 241)
وَعُلِمَ بِهِ وَبِمَا نَقَلْنَاهُ عَنْ الْخَانِيَّةِ أَنَّهُ لَا يَكْفُرُ بِمُجَرَّدِ عَمَلِ السِّحْرِ مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ اعْتِقَادٌ أَوْ عَمَلُ مَا هُوَ مُكَفِّرٌ، وَلِذَا نَقَلَ فِي [تَبْيِينِ الْمَحَارِمِ] عَنْ الْإِمَامِ أَبِي مَنْصُورٍ أَنَّ الْقَوْلَ بِأَنَّهُ كُفْرٌ عَلَى الْإِطْلَاقِ خَطَأٌ وَيَجِبُ الْبَحْثُ عَنْ حَقِيقَتِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي ذَلِكَ رَدَّ مَا لَزِمَ فِي شَرْطِ الْإِيمَانِ فَهُوَ كُفْرٌ وَإِلَّا فَلَا. اهـ. وَالظَّاهِرُ أَنَّ مَا نَقَلَهُ فِي الْفَتْحِ عَنْ أَصْحَابِنَا مَبْنِيٌّ عَلَى أَنَّ السِّحْرَ لَا يَكُونُ إلَّا إذَا تَضَمَّنَ كُفْرًا،
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي - (5 / 136)
السَّاحِرُ إذَا تَابَ فَهُوَ عَلَى وُجُوهٍ إنْ كَانَ يَعْتَقِدُ نَفْسَهُ خَالِقًا لِمَا يَفْعَلُ فَإِنْ تَابَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ هُوَ اللَّهُ تَعَالَى وَتَبَرَّأَ عَمَّا كَانَ يَقُولُ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَلَا يُقْتَلُ وَإِنْ كَانَ السَّاحِرُ يَسْتَعْمِلُ السِّحْرَ بِالتَّجْرِبَةِ وَالِامْتِحَانِ وَلَا يَعْتَقِدُ لِذَلِكَ أَثَرًا لَا يُقْتَلُ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِكَافِرٍ وَسَاحِرٌ يَجْحَدُ السِّحْرَ وَلَا يَدْرِي كَيْفَ يَفْعَلُ وَلَا يَقْرَبُهُ قَالُوا لَا يُسْتَتَابُ بَلْ يُقْتَلُ إذَا ثَبَتَ أَنَّهُ يَسْتَعْمِلُ السِّحْرَ وَفِي بَعْضِ الْمَوَاضِعِ ذُكِرَ أَنَّ الِاسْتِتَابَةَ أَحْوَطُ وَقَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ إذَا تَابَ السَّاحِرُ قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَلَا يُقْتَلُ وَإِنْ أُخِذَ ثُمَّ تَابَ لَمْ تُقْبَلْ تَوْبَتُهُ وَيُقْتَلُ وَكَذَا الزِّنْدِيقُ الْمَعْرُوفُ الدَّاعِي وَالْفَتْوَى عَلَى هَذَا الْقَوْلِ اهـ.
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
التشريع الجنائي في الإسلام - (4 / 301)
ومذهب أبى حنيفة على عدم قبول توبة كل من:
الساحر: لما روى عن الرسول من أن حد الساحر ضربه بالسيف, ولكن الكثير من فقهاء الحنفية يفضلون مذهب الشافعى(أي:تقبل توبته)فى هذه المسألة, ويلاحظ أن القائلين بقتل الساحر يرون قتل الساحرة؛ لأن القتل حد لا يستتاب
فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي - (12 / 176)
وَفِي الْفَتَاوَى : رَجُلٌ يَتَّخِذُ لُعْبَةً لِلنَّاسِ وَيُفَرِّقُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجَتِهِ بِتِلْكَ اللُّعْبَةِ فَهَذَا سِحْرٌ وَيُحْكَمُ بِارْتِدَادِهِ وَيُقْتَلُ . قَالَ فِي الْخُلَاصَةِ : هَكَذَا ذَكَرَهُ الْقَاضِي مُطْلَقًا ، وَهُوَ مَحْمُولٌ عَلَى مَا إذَا كَانَ يَعْتَقِدُ أَنَّ لَهُ أَثَرًا انْتَهَى . وَعَلَى هَذَا التَّقْدِيرِ فَلَمْ يَذْكُرْ حُكْمَ هَذَا الرَّجُلِ ، وَعَلَى هَذَا التَّقْدِيرِ : أَعْنِي عَدَمَ الْحُكْمِ بِارْتِدَادِهِ فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ حُكْمُهُ أَنْ يُضْرَبَ وَيُحْبَسَ حَتَّى يُحْدِثَ تَوْبَةً .
شادمحمدشاد