Friday 20 November 2015

جدید مواصلات اور علم و ادب

ایس اے ساگر

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عبدالماجد دریا آبادی اور حسین آزاد اگر میرے اس عہد میں ہوتے تو ایس ایم ایس پیکج کا سہارے لیتے۔ ایس ایم ایس گفتگو کا مجموعہ تو اب شائع ہونے سے رہا صاحب۔ لہذا سراسر محرومی رہتی!
شبلی نعمانی اگر ہوتے تو یقینا واٹس اپ انہیں راس آتا۔ یوں ان کی خط وکتابت پہ مشتمل کتاب کبھی شائع نہ ہوتی۔
مولوی عبدالحق کے اس شاہکار مقدمہ  سے بھی ہم محروم جاتے جو شبلی نعمانی کے مجموعہ خطوط پہ انہوں نے لکھا۔
ابوالکلام آزاد آج ہوتے تو جی میل پہ ان کا اکاونٹ ہوتا. مجھے نہیں لگتا کہ وہ اپنا پاسورڈ اپنے سیکریٹری پرو فیسر اجمل خان کو دیتے۔ خود بتائیں کہ ان کے خطوط پھر کیسے شائع ہوتے.
قلعہ احمد نگر کی قید میں آزاد صاحب ریڈیو کی بجائے اپنا لیپ ٹاپ منگواتے۔ لیپ ٹاپ پہ وہ صدیق مکرم کو خطوط ہی کیوں لکھتے اگر لکھتے تو سیکریٹری کو کیوں دیتے؟ یوں کیا ہم ”غبار خاطر“ کا لطف اٹھا پاتے؟ بالکل بھی نہیں ۔
رجب علی بیگ سرور ہوتے تو وائبر استعمال کرتے. یوں ہم ان کی "انشائے سرور" سے محروم ہوجاتے. وہ انشائے سرور، جس نے مکتوب نویسی میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
علامہ اقبال اور حسین احمد مدنی اپنے فکری مکالمے لازماً اسکائپ کرتے۔ ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ کن دلائل کا سہارا لے کر انہوں نے اپنے نقطہ ہائے نظر مرتب کئے۔
مشفق خواجہ ہوتے تو بیک وقت ایس ایم ایس، واٹس اپ، وائبر اور اسکائپ کا سہارا لیتے۔ یوں برصغیر میں سب سے زیادہ خطوط لکھنے کا اعزاز پانے سے محروم رہ جاتے۔
مولانا الطاف حسین حالی، سرسید احمد خان، اکبر الہ آبادی، نیاز فتح پوری، غلام رسول مہر، سید سلیمان ندوی اور ابن انشا زیادہ وقت میسنجر پہ رہتے۔ ان کے کمپیوٹرز پہ کوڈ لگے ہوتے. موبائل فونز پہ پیٹرن لاک لگے ہوتے۔ ان کے مکالموں تک کس کی رسائی ہوتی۔ ان کے خط پارے ہم تک کیسے پہنچتے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اہل علم و ادب کی کئی نوادرات میسنجر، ویٹس ایپ، وائبر اور ای میلز کی نذر ہوگئیں۔

وہ خط ہو یا ایس ایم ایس ، اس کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں بات لکھی نہیں جاتی، بات صادر ہوجاتی ہے. صادر اور سرزد ہوجانے والی چیزیں ہی ہوتی ہیں, جو شہ پارے کہلاتی ہیں.

No comments:

Post a Comment