Tuesday 19 February 2019

کینڈل مارچ (Candal March) کا شرعی حکم

کینڈل مارچ (Candal  March) کا شرعی حکم
سوال و جواب:
(مسئلہ نمبر 407)
كتاب الحظر و الإباحة جديد مسائل
سوال: ظلم کے خلاف یا کسی کو انصاف دلانے کیلئے جو کینڈل مارچ نکالا جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بسم ملہم الصواب

کسی کو انصاف دلانے کیلئے یا  ظلم کو روکنے کے لئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا نا یہ کہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور بسااوقات واجب بھی ہے اور اس کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی اقدام کیا جائے یا تدبیر اختیار کی جائے وہ جائز اور ضروری ہے، قرآن مجید کی آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے اور لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا پورا حق مظلوم کو حاصل ہے(١)
احادیث مبارکہ میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ایک صحابی تھے، ان کا پڑوسی انہیں سخت پریشان کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے باہر نکال کر سڑک پر رکھ دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اب گزرنے والے لوگ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو وہ پڑوسی کے ظلم کی روداد سنادیتے، چنانچہ ہر کوئی اسے لعنت ملامت کرتا، جب یہ بات پڑوسی کو معلوم ہوئی تو اس نے انہیں گھر بھیجا اور ہمیشہ کے لئے ظلم سے باز رہنے کا وعدہ کیا(٢)
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی در اصل ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور احتجاج کرنے کی ایک صورت تھی؛ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتائی اور اس کا صحیح نتیجہ بھی برآمد ہوا؛ اس لئے بطورِ احتجاج اپنا حق حاصل کرنے کے لئے یا ظلم کو روکنے کے لئے یا کسی کو انصاف دلانے کیلئے احتجاجاً کینڈل مارچ نکالا جائے تو شرعاً اس کی اجازت ہے؛ کیونکہ اس کا تعلق محض ایک تدبیر سے ہے اور جائز حد میں رہتے ہوئے ایسی تدابیر جو مؤثر ہوں اور مظلوم کو انصاف ملنے کی امید ہو اختیار کی جا سکتی ہیں؛ بشرطیکہ اس میں انسانوں کا جانی و مالی نقصان نہ ہو یا ظلم کے مزید بڑھ جانے کا اندیشہ نہ ہو(٣)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
-------------------------------------

و الدليل على ما قلنا:
(١) لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا (النساء (148)
إلا من ظلم أي إلا جهر من ظلم فإنه غير مسخوط عنده تعالى و ذلك بأن يدعو على ظالمه او يتظلم منه و يذكره بما فيه من السوء  (روح المعاني ج ٤ تفسير سوره النساء ١٤٨)
(٢) عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال‏:‏ إن لي جاراً يؤذني فقال‏:‏ ‏(‏إنطلق فأخرج متاعك إلى الطريق‏)‏‏ ففعل فاجتمع عليه الناس يقولون ما شأنك فجعل يقول جاري يؤذيني فجعلوا يقولون اللهم العنه اللهم اخزه فبلغه ذلك فأتاه فقال أرجع إلى منزلك فوالله لا أؤذيك أبداً‏.‏ (تفسير القران العظيم لإبن كثير ٧٤٦/٤ سورة النساء ١٤٧)
(٣) الضرر يزال، الضرر الأشد يزال بالضرر الاخف، الضرر يدفع بقدر الإمكان. (شرح المجلة ٣٦/١. ٣٧. ٤١)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 2/7/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/candal-march.html

کینڈل مارچ احتجاج یا تعزیت؟

کینڈل مارچ احتجاج یا تعزیت؟
اسلام سراپا امن وآشتی کا مذہب ہے، دنیا میں  اسلام ہی نے سب سے پہلےحقوق انسانی کی بنیاد رکھی،حقوق انسانی کا اسلامی منشور انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے،
اس نے تمام قسم کے امتیازات، ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑکر تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بحیثیت انسان تمام انسانوں؛ امیر، غریب، سفید، سیاہ، مشرقی، مغربی، مرد، عورت، عربی، عجمی، گورا، کالا،
شریف اور وضیع کو یہ چھ 6 بنیادی حقوق فراہم کئے ہیں:
(1) جان کا تحفظ-
(2) عزت وآبرو کا تحفظ-
(3) مال کا تحفظ-
(4) اولاد کا تحفظ-
(5) روزگار کا تحفظ-
(6) عقیدہ ومذہب کا تحفظ-
یہ منشور پر امن معاشرتی زندگی کا ضامن ہے یعنی ان  بنیادی چھ حقوق کے ذریعہ انسان معاشرہ میں ہر طرح پرامن زندگی گزار سکتا ہے
انسانیت کو فراہم کردہ ان بنیادی حقوق پہ ظلم و تعدی کو اسلام قطعی برداشت نہیں کرتا
ظلم و زیادتی دیکھنے کا مشاہدہ کرنے والے کو نمبر وار ہدایت کی گئی ہے کہ
طاقت ہو تو دست وبازو سے روکے، نہیں تو زبان سے ظلم وجبر پہ آواز بلند کرے، یہ بھی نہ ہو تو دل سے اسے برا سمجھے، لیکن کسی طور ظالم کا ممد ومعاون نہ بنے!
ہر جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کرے، اسکے حقوق کی پاسداری نہ کرے یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوشش کی جائے تو اب اس طبقہ کی ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے اس ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جد وجہد کے ساتھ پر امن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے کے مرادف ہے ۔
ایسے موقع سے کی جانے والی کوشش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "افضل الجھاد" کہکر تحسین فرمائی ہے۔
أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
سنن النساي 4209
مظلوم اور معاشرہ میں دبے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد  خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ جو "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا۔
یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قدآور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا ۔سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔ اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی۔
زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل" نامی تین اشخاص تھے۔
جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا
یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ایک عملی شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت»
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .
الراوي: عبدالرحمن بن عوف المحدث: الألباني - المصدر: فقه السيرة - الصفحة أو الرقم: 72
خلاصة حكم المحدث: سند صحيح لولا أنه مرسل. ولكن له شواهد تقويه وأخرجه الإمام أحمد مرفوعاً دون قوله، لو دعيت به في الإسلام لأحببت وسنده صحيح)

معاشرتی اور سماجی خلفشار کے خلاف انفرادی آواز مقتدر حلقوں کے لئے نقار خانے میں طوطے کی آواز سے زیادہ اثر نہیں رکھتی!
لیکن جب بہت سے افراد ہم آواز ہوکے اس کے ساتھ  اٹھ کھڑے ہوں تو پھر اجتماعیت کی قوت سامنے حکمراں مطالبات تسلیم کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں
ظلم وجور کے خلاف اجتماعی آواز اٹھانے کی ایک مثال سنت نبویہ سے تو اوپر آگئی
لیکن ظلم وجور کے خلاف سڑکوں پہ دھرنا دینے کی مثال بھی سنت نبوی میں موجود ہے، پڑوسی سے ستائے ہوئے پریشان حال ایک صحابی سے بطور چارہ کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے باہر نکال کر سڑک پر رکھ دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اب گزرنے والے لوگ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو وہ پڑوسی کے ظلم کی روداد سنادیتے، چنانچہ ہر کوئی اسے لعنت ملامت کرتا، جب یہ بات پڑوسی کو معلوم ہوئی تو اس نے انہیں گھر بھیجا اور ہمیشہ کے لئے ظلم سے باز رہنے کا وعدہ کیا۔ اور یوں سڑک پہ پرامن احتجاج سے اپنا حق وصول ہوا:
جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يشكو جاره فقال اطرح متاعك على الطريق فطرحه، فجعل الناس يمرون عليه ويلعنونه، فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال "يا رسول الله ما لقيت من الناس"، فقال : وما لقيت منهم؟ قال: "يلعنوني"، قال: لقد لعنك الله قبل الناس، قال: "إني لا أعود"، فجاء الذي شكاه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ارفع متاعك فقد كفيت. ورواه البزار بإسناد حسن بنحو إلا أنه قال: "ضع متاعك على الطريق أو على ظهر الطريق" فوضعه، فكان كل من مر به قال: "ما شأنك؟"، قال جاري يؤذيني فيدعو عليه فجاء جاره فقال: "رد متاعك فلا أؤذيك أبدا". و"روى" أبو داود واللفظ له وابن حبان في صحيحه والحاكم وصححه على شرط مسلم: (جاء رجل يشكو جاره فقال له: «اذهب فاصبر»، فأتاه مرتين أو ثلاثا، فقال اذهب فاطرح متاعك في الطريق ففعل، فجعل الناس يمرون ويسألونه ويخبرهم خبر جاره فجعلوا يلعنونه فعل الله به وفعل، وبعضهم يدعو عليه فجاء إليه جاره فقال: "ارجع فإنك لن ترى مني شيئا تكرهه" (كتاب الزواجر عن اقتراف الكبائر باب الصلح، الكبيرة العاشرة بعد المائتين: إيذاء الجار ولو ذميا).(تفسير القران العظيم لإبن كثير ٧٤٦/٤ سورة النساء ١٤٧)
دوسری مثال دیکھیں!
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشرف باسلام ہوجانے کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم علانیۃً سڑکوں سے ہوئے اور مشرکین وسرداران قریش کو اپنی قوت وحشمت کا دکھاتے ہوئے مسجد حرام داخل ہوئے، اب تک چھپے چھپائے رہتے تھے، لیکن آج کے اجتماعی مظاہرے سے دشمنوں پہ خاصا رعب طاری ہوا، اور یہ سڑکوں پہ مظاہرے حضور کی معیت میں ہوئے:
روى أبو نعيم في الحلية بإسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما وفيه: فقلت: يا رسول الله ألسنا على الحق إن متنا وإن حيينا؟ قال: «بلى، والذي نفسي بيده إنكم على الحق إن متم وإن حييتم»، قال فقلت: "ففيم الاختفاء؟ والذي بعثك بالحق لتخرجن"، فأخرجناه في صفين: حمزة في أحدهما، وأنا في الآخر، له كديد ككديد الطحين حتى دخلنا المسجد، قال فنظرت إلي قريش وإلى حمزة فأصابتهم كآبة لم يصبهم مثلها، فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ الفاروق. وفرق الله به بين الحق والباطل" انتهى (حلية الأولياء 1/40).
وأورد صاحب الإصابة في أسماء الصحابة هكذا: "وأخرج محمد بن عثمان بن أبي شيبة في تاريخه بسند فيه إسحق ابن أبي فروة عن ابن عباس أنه سأل عمر عن إسلامه فذكر قصته بطولها وفيها أنه خرج ورسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين حمزة وأصحابه الذين كانوا اختفوا في دار الأرقم فعلمت قريش أنه امتنع فلم تصبهم كآبة مثلها، قال فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ الفاروق" انتهى (الإصابة 2/512).
وذكره ابن حجر ـ رحمه الله ـ في فتح الباري قائلاً: "وروى أبو جعفر بن أبي شيبة نحوه في تاريخه من حديث ابن عباس، وفي آخره "فقلت يا رسول الله ففيم الاختفاء؟"، فخرجنا في صفين: أنا في أحدهما، وحمزة في الآخر، فنظرت قريش إلينا فأصابتهم كآبة لم يصبهم مثلها"، وأخرجه البزار من طريق أسلم مولى عمر عن عمر مطولاً" انتهى (فتح الباري 7/59)
جائز حقوق کی وصولی یا معاشرتی ظلم وجور کے احتجاجی دھرنا کی حیثیت محض "انتظامی اور تدبیری" ہے، اس کی حیثیت شرعی نہیں! شرعی امور کی بنیاد "اتباع" پہ ہوتی ہے، جبکہ دنیوی اور تدبیری وانتظامی امور کی بنیاد "اِبتِدَاعْ" پہ ہوتی ہے، یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے سے تطبییق حکم شرعی میں الجھنوں اور شبہات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا!
احتجاج کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں! شرعی اور ریاستی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے جائز ، موثر ،قابل سماع اور زود اثر احتجاجی طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔
موم بتتیاں جلانا گوکہ پہلے کبھی کسی اور پس منظر میں انجام دیا جاتا ہو! لیکن عالی احوال اور ان کے احتجاجی مظاہروں پہ نظر رکھنے والے باخبر احباب بخوبی واقف ہیں کہ اب کینڈل کی حیثیت پرامن مظاہرے کی بن گئی ہے
کسی خاص مقام پہ دوسری حیثیت بھی اگر برقرار ہو تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا
پوری دنیا میں حتی کہ برائے نام اسلامی ملکوں میں بھی “المسايرة بالشموع" کینڈل مارچ پرامن احتجاج ہی کا استعارہ بن گیا ہے، اس میں عالم اسلام کے نامور علمی شخصیات شریک ہوتی ہیں، ایسے مظاہروں کو منظم کر نے کے لئے اخبارات میں باضابطہ ہفتوں قبل سے اشتہارات نکلتے ہیں
ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے یا اپنے  ریاستی حقوق کے مطالبہ کے لئے کینڈل مارچ کے ذریعہ لوگ سڑکوں پہ آکے حکمرانوں پہ اپنے حقوق منوانے کے لئے دباؤ بناتے ہیں
مسلح جلد وجہد یا پرتشدد مظاہرہ کے متبادل کے طور پہ یہ طریقہ احتجاج فروغ پارہا ہے، سیکورٹی فورسز اور امن عامہ عامہ بحال وبر قرار رکھنے  کے ذمہ ریاستی ادارے بھی اس مارچ کو اپنی آواز بلند کرنے میں فری ہینڈ دیتے ہیں
اگر یہ جلوس پر امن رہے، تشدد، جلاؤ گھیراؤ اور  ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے جسے ہو ہاؤ اور شرانگیزیوں  سے محفوظ رہے، راہ گیروں، دکانداروں، بیماروں، اسپتالوں اور دیگر ضرورت مندوں کی آمدورفت یا دیگر بنیادی انسانی حقوق اس احتجاج کی وجہ سے تعطل کا شکار نہ ہوں
تو احتجاج کے لئے اس کینڈل مارچ کے جواز میں کوئی محظور شرعی نہیں ہے
ہاں اگر یہ طریقہ اظہار سوگ، تعزیت یا ایصال ثواب کے لئے اپنایا گیا ہو تو پھر شرعا اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے!
شریعت اسلامیہ میں سوگ اور ایصال ثواب کے سارے طریقے متعین کردیئے گئے ہیں، اب کہیں دوسری جگہ تاک جھانک کے کوئی نیا طریقۂ تعزیت امپورٹ کرنے کی ہماری شریعت میں قطعی کوئی گنجائش نہیں!
بتصریح قرآن کریم ہرگروہ اور ہر جماعت خواہ اہل حق میں سے ہو یا اہل باطل میں سے اپنی ہی مزعومات ومعتقدات اور آئیڈیالوجی میں مگن ہے۔ "كل حزب بما لديهم فرحون"  (الروم ۔32۔)۔
اس بنیاد پر اگر کسی تہذیب ومعاشرت میں اجتماعی تعزیت کے موقع سے کچھ دیر کی "خاموشی" یا موم بتیاں جلانا یا جھنڈے سر نگوں کرنا مروج ہو تو یہ اس کا "اندرون خانہ" معاملہ ہے۔ کسی کے عمل، طریقہ اور رواج کی تحقیر وتضحیک کئے بغیر اسلامی طریقہ تعزیت پہ عمل کی کوشش کرنی چاہئے۔ تعزیت کے یہ طریقے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔ اسلامی طریقہ تعزیت سے ہٹ کے نئے نئے طریقے وضع کرنا افسوس ناک بھی یے اور اسلامی غیرت اور دینی حمیت کے خلاف بھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقہ کی پیروی کرنے لگے وہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔
اس لئے مسلمانوں کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر مسلمان خاموشی والی نوعیت میں کہیں مبتلا ہوجائے تو موقع اور حالات کے لحاظ سے کوئی پہلو یا حکمت عملی اختیار کرلے ۔۔
کینڈل مارچ کے سلسلے میں اوپر کی سطروں میں جو کچھ عرض کیا گیا وہ اس طالب علم کا اپنا مطالعہ ہے، دوسروں پہ اپنا موقف تھوپنے کا مزاج بحمد اللہ نہیں ہے، دلائل کی روشنی میں ارباب علم ودانش ومسافران علم وتحقیق اس بابت دوسرا موقف اپناتے ہوں تو یہ ان کا علمی حق ہے، باعتبار نیت وکاوش دونوں فریق ماجور و برحق ہونگے،  ہاں! دو مختلف نقطہائے نظر  میں شدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایک کو فیصلہ کن فتوی قرار دینا اور دوسرے فریق پہ غیر علمی وغیر شائستہ فقرے کسنا غلط ہے۔ ایسا بندہ عند اللہ ماخوذ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائیوی
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_6.html

لطیف شکایت اور اس کا حکیمانہ ازالہ

لطیف شکایت اور اس کا حکیمانہ ازالہ
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا: "امیر المؤمنین! میرے شوہر جیسا نیک آدمی شاید دنیا میں کوئی نہيں، وہ دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں." یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی- حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی بات کا منشا پوری طرح نہ سمجھ پائے اور فرمایا: الله تمہیں برکت دے اور تمہاری مغفرت کرے۔ نیک عورتیں اپنے شوہر کی ایسی ہی تعریف کرتی ہیں۔“
عورت نے یہ جملہ سنا، کچھ دیر جھجکی رکی اور پھر واپس جانے کے لئے کھڑی ہوگئی۔
کعب بن سوار رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی موجود تھے، انھوں نے عورت کو واپس جاتے دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا:
”امیر المومنین! آپ اس کی بات نہیں سمجھے، وہ اپنے شوہر کی تعریف نہیں، شکایت کرنے آئی تھی، اس کا شوہر جوش عبادت میں زوجیت کے پورے حقوق ادا نہیں کرتا۔“
”اچھا یہ بات ہے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”بلاؤ اسے!“
وہ پھر عورت واپس آئی، اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ واقعی حضرت کعب بن سوار رضی اللہ عنہ کا خیال صحیح تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ: ”اب تم ہی اس کا فیصلہ کرو۔“
”امیر المومنین! آپ کی موجودگی میں کیسے فیصلہ کروں؟“ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا۔
”ہاں تم نے ہی اس کی شکایت کو سمجھا تم ہی اس کا ازالہ کرو.“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.
اس پر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ”امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو زیادہ سے زیادہ چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے، اگر کوئی شخص اس اجازت پر عمل کرتے ہوئے چار شادیاں کرے تو بھی ہر بیوی کے حصے میں چار میں سے ایک دن رات آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر چوتھا دن رات ایک بیوی کا حق ہے۔ لہٰذا آپ فیصلہ دیجئے کہ اس عورت کا شوہر تین دن عبادت کرسکتا ہے، لیکن چوتھا دن لازماً اسے اپنی بیوی کے ساتھ گزارنا چاہئے۔“
یہ فیصلہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھڑک اٹھے اور فرمایا: ”یہ فیصلہ تمہاری پہلی فہم و فراست سے بھی زیادہ عجیب ہے۔“
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا قاضی بنا دیا۔
(ابن عبد البرؒ الاستیعاب تحت الاصابہ ص ٢٨٦ ج ٣ مطبعة مصطفیٰ محمد مصر ١٣٥٨ھ)
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_19.html

Monday 18 February 2019

دوسرے مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرنا کیسا ہے؟

دوسرے مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرنا کیسا ہے؟
السلام علیکم
دوسرے مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرنا کیسا ہے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہودیوں کے صحائف لانے کی وجہ سے غضب ناک انداز میں پیش آئے تھے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کے حوالہ سے جواب مرحمت فرمائیں۔
حافظ محمد تابش، پہلواری شریف، پٹنہ
الجواب وباللہ التوفیق:
مسند احمد اور دارمی کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے تورات کے مطالعے پر ناگواری کا اظہار کیا اور ان کو "تنبیہ" کی۔
اس حدیث کو بعض محدثین نے صحیح جبکہ دیگر بعض محققین محدثین نے ضعیف کہا ہے؛
عن جابر بن عبد الله: أنَّ عمر بن الخطَّاب أتى النَّبيَّ صلَّى الله عليه وسلّم بكتابٍ أصابَه من بعض أهل الكُتُبِ [في (ق) ونسخة في (س): الكتاب.] فقَرَأه على [لفظة ((على)) سقطت مِنْ (م).] النَّبيّ صلَّى الله عليه وسلّم فغضب وقال: ((أَمُتَهَوِّكُونَ فيها يا ابْنَ الخطَّاب، والَّذي نَفْسي بِيَده، لقد جِئتُكم بها بيْضاء نَقيَّة، لا تَسألوهُم عنْ شيءٍ فيخبِروكُم بِحَقٍّ فَتُكَذِّبوا به، أو بِبَاطلٍ فَتُصَدِّقوا به، والَّذي نَفْسِي بِيَده، لو أنَّ موسى كان حيًّا، ما وَسِعَه إلاَّ أنْ يَتْبَعَني)). [إسنادُه ضعيف لضعف مجالد: وهو ابن سعيد. ونَقَل ابْنُ حَجَر في ترجمة عبد الله بن ثابت مِنَ ((الإصابة)) 4/30 عَنِ البُخاريّ أنَّه قال: قال مجالد عَنِ الشَّعبيِّ عنْ جابر: إنَّ عُمَرَ أتى بكتاب، ولا يصحّ. قلنا: وقوله: ((ولا يصحّ)) لم يَرِدْ في المطبوع مِنَ ((التّاريخ الكبير)) للبخاريّ 5/39.
وأخرجه أبو عُبَيْد في ((غريب الحديث)) 3/28-29، وابن أبي شيبة 9/47، وابن أبي عاصم في ((السُّنَّة)) (50)، والبزَّار (124-كشف الأستار)، والبيْهقيّ في ((شُعَبِ الإيمان)) (177)، والبَغَوِيّ في ((شرح السُّنَّة)) (126)، وابن عبد البرّ في ((جامع بيان العلم وفضله)) 2/42 مِنْ طُرُق عنْ هشيم بن بشير، بهذا الإسناد. وتحرَّف ((هشيم)) في المطبوع مِنْ ((مُصَنَّف ابن أبي شيبة)) و((شرح السُّنَّة)) إلى: هشام.
وأخرجه بنحوه الدّارميّ (435) مِنْ طريق ابْنِ نمير، عن مجالد، به.
وسلف مِنْ طريق حمّاد بْنِ زيد، عنْ مجالد برقم (14631).
وسيأتي قريبٌ منه في ((المسند)) 4/265 مِنْ طريق جابر الجعفيّ، عن عامر الشّعبيّ، عن عبد الله بن ثابت قال: جاء عمر بن الخطّاب إلى النّبيّ صلّى الله عليه وسلّم... فذَكَر نَحْوَه، وهذا إسناد ضعيف، جابر بن يزيد الجعفيّ ضعيف.
وأخرج ابن الضّريس في ((فضائل القرءان)) (89)، وأبو عُبَيد في ((غريب الحديث)) 3/29، ومِنْ طريقه البيهقيّ في ((الشُّعَب)) (178) عَنِ الحَسَن البصريّ: أنَّ عمر بن الخطَّاب قال: يا رسول الله، إنَّ أهل الكتاب يُحَدِّثوننا بأحاديث قد أخذت بقلوبنا وقد همَمْنا أنْ نَكتُبَها، فقال: ((يا ابْنَ الخطَّاب أمُتَهَوِّكُونَ أنتم كما تَهوَّكَتِ اليَهُودُ والنَّصارى؟ أما والَّذي نَفْسُ محمّد بيده لقد جئتُكم بها بيضاء نقيَّة، ولكنِّي أُعْطِيتُ جوامِعَ الكَلِم، واخْتُصِرَ لِيَ الحديثُ اختِصارًا))، ورجالُه ثقات إلاَّ أنَّه مِنْ مراسيل الحسن البصريّ.
وأخرج نحوه العقيليّ في ((الضُّعَفاء)) 2/21 مِنْ طريق عليّ بْنِ مسهر، عَنْ عبدِ الرَّحمن بن إسحاق، عن خليفة بن قيس، عن خالد بن عرفطة، عن عمر بن الخطّاب قال: انْتَسَخْتُ كتابًا مِنْ أهل الكتاب... فَذَكَرَه. وهذا إسناد ضعيف، عبد الرّحمن بن إسحاق -وهو أبو شيبة الواسطيّ- ضعيف، وخليفة بن قيس مجهول، وقال البخاريّ في ترجمته مِنَ ((التّاريخ)) 3/192: لم يصحَّ حديثُه. يعني هذا الحديث كما يُفْهَم مِنْ ترجمته عند العقيليّ.
وفي الباب عن أبي الدّرداء، قال: جاء عمر بجوامع مِن التّوراة إلى رسول الله صلّى الله عليه وسلّم... فَذَكَرَه. أورده الهيثميّ في ((مجمع الزّوائد)) 1/174 وقال: رواه الطَّبرانيّ في ((الكبير)) وفيه أبو عامرٍ القاسمُ بْنُ محمّد الأسديّ ولم أرَ مَنْ ترْجَمَه، وبقيَّة رجاله موثَّقون.]
ابتدائے اسلام میں اسرائیلیات سے بیان کرنا اور اس سے روایتیں لینا یا اس کا مطالعہ کرنا ممنوع تھا 
جب اسلام صحابہ کے دلوں میں راسخ ہوگیا تو اب یہ ممانعت زائل ہوگئی 
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دیدی کہ قواعد اسلامیہ اور قرآن وسنت کے خلاف اور احکام شرعیہ سے متصادم و متضاد کوئی روایت توریت و انجیل وغیرہ کی نہ لی جائے یہ مشروط اجازت اس حدیث سے صراحۃ ثابت ہے:
- بَلِّغُوا عَنِّي ولو آيَةً، وَحَدِّثُوا عن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ..
    الراوي: عبدالله بن عمرو 
    المحدث: البخاري
    المصدر:  صحيح البخاري
    الصفحة أو الرقم:  3461 
    خلاصة حكم المحدث:  [صحيح]
آج بھی اسی شرط کے ساتھ دیگر آسمانی مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ جائز ہے کہ ان کے مطالعہ سے  اسلامی احکام وقواعد میں اشتباہ یا شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں 
اگر ذہنی الجھنوں یا اسلام پہ اعتراضات واشکالات پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو ان کتابوں کے مطالعہ سے روکا جائے گا 
تقابلی مطالعہ کسی مستند ادارے سے فارغ التحصیل عالم دین کی نگرانی میں ہونا از بس ضروری ہے 
عالم دین کی نگرانی و رہنمائی کے بغیر اپنے طور پر تقابلی مطالعہ تجرباتی طور پر خاصا خطرناک ثابت ہوا ہے 
ایسا بندہ دیر سویر باطل افکار وخیالات کے تزویراتی دام کا آسان شکار بن جاتا ہے 
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_18.html>

Wednesday 13 February 2019

فاسق اور بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا

فاسق اور بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا
سوال: ]۲۳۴۷[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
(۱) زید دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتا ہے، اور زید کے مکان کے اطراف میں جتنی مساجد ہیں، وہ سب بدعتی لوگوں کی ہیں اور امام مسجد بھی بدعتی ہے، اور پائجامہ تہبند ٹخنوں سے نیچار کھتے ہیں، اور زید کے مسلک کی مسجد زید کے گھر سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پر ہے، اور زید کا اتنی دوری پر پنج وقتہ نماز میں پہنچنا دشوار ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ زید کا بدعتی امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ٹھیک ہے یا اپنی فرداً نماز پڑھنا درست ہے؟ جواب دیں؟
(۲) جماعت اسلامی کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا ٹھیک ہے یا نہیں؟
المستفتي: سید محمد سہیل، محلہ بروالان نل والی مسجد، ضلع: مرادآباد

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
ایسی مجبوری میں فاسق اور بدعتی کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ میں افضل اور بہتر ہے۔
عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله ﷺ: الصلاۃ واجبۃ خلف کل مسلم براً کان أو فاجراً ، وإن عمل الکبائر۔ (سنن ابي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ البر والفاجر، دارالسلام ۹۷، رقم: ۵۹۴)
یہ روایت ہندی نسخہ میں دستیاب نہیں ہوئی ۔
قلت: في أمرہ بالصلاۃ خلف الفاجر مع أن الصلاۃ خلف الفاسق، والفاجر مکروہۃ عندنا دلیل علی وجوب الجنازۃ ۔(بذل المجہود، کتاب الصلاۃ ، باب إمامۃ البر والفاجر ، دارالبشائر الإسلامیہ بیروت جدید۵/۴۷۷، مطبع میرٹھ قدیم ۱/۳۳۲)
لو صلی خلف فاسق أو مبتدع ینال فضل الجماعۃ لکن لاینال کما ینال خلف تقی ورع الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ کوئٹہ ۱/۳۴۹، زکریا۱/۶۱۰)
فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۲۶؍ربیع الاول ۱۴۱۲ھ
(الف فتویٰ نمبر:۲۷/۲۶۰۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲۶؍۳؍۱۴۱۲ھ
فتاویٰ قاسمیہ ششم
--------
بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر ہے یا تنہا پڑھنا
سوال: ]۲۳۴۶[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص کسی کے گھر پر عصر کے بعد کسی کام سے جاتا ہے، مغرب کے بعد وہاں سے واپسی ہوتی ہے، اس جگہ پر دو مسجد یں ہیں، اور دونوں بدعتیوں کی ہیں، تو کیا یہ شخص اس مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر پڑھ سکتاہے تو جس طرح وہ لوگ کرتے ہیں، تو یہ بھی اس طرح کرے یا نہیں؟ مثلاً أشہدأن محمد رسول الله پر انگوٹھے چومنا اور حی علی الفلاح پر کھڑے ہونا سلام کے بعد ان کی دعا پر آمین کہنا یا یہ شخص جس کے گھر پر جاتا ہے، اسی میں تنہا نماز پڑھے یا کچھ آدمیوں کے ساتھ جماعت کرلے۔
المستفتي: محمد اختر، بجنور

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اگر امام فاسق یا بدعتی ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا اگر چہ مکروہ ہے لیکن تنہا پڑھنے سے ان کی جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔ (مستفاد: امدادالفتاویٰ ۱/۳۷۹)
عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله ﷺ الجہاد واجب علیکم مع کل أمیر ، براً کان أو فاجراً، والصلاۃ واجبۃ علیکم خلف کل مسلم براً کان أو فاجراً، وإن عمل الکبائر، الحدیث: (سنن أبي داؤد ، کتاب الجہاد، باب الغز ومع ائمۃ الجور ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۳۴۳، دارالسلام رقم: ۲۵۳۳)
وخلفہ مع الکراھۃ۔ (الہندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث زکریا قدیم۱/۸۴، جدید۱/۱۴۱)
صلی خلف فاسق ومبتدع نال فضل الجماعۃ وفی الشامی أفاد أن الصلوٰۃ خلفہا أولیٰ من الانفراد۔(شامی ، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ ،کراچی ۱/۵۶۱، زکریا۲/۳۰۱، الہندیہ زکریا قدیم۱/۸۴، جدید۱/۱۴۱)

علامہ شامی رحمہ اللہ نے اذان کے وقت انگوٹھے چومنے کوعلامہ قہستانی وغیرہ سے مستحب نقل کرنے کے بعد علامہ جراحی سے نقل کیا ہے، کہ کسی حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے، اس طرح کی تمام روایتیں ضعیف تر ہیں، اس لئے اذان کے وقت انگوٹھے نہ چومے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۱/۳۷۹)
وذکر ذلک جراحی وأطال ثم قال ولم یصح فی المرفوع من ہذا شیئی ۔ (شامی ، کتاب الصلاۃ ، باب الآذان کراچی ۱/۳۹۸، زکریا۲/۶۸)
اور اقامت کے شروع میں کھڑے ہونے کا مقصد صفوں کو درست کرنا ہے ، آپ تنہا کھڑے ہوکر بیٹھنے والوں کی صفوں کو کیا درست کریں گے، اسلئے حی علی الفلاح تک بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ (مستفاد :احسن الفتاویٰ ۲/۳۰۷) فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۱۰؍صفر المظفر ۱۴۲۳ھ
(الف فتویٰ نمبر:۳۶/۷۴۹۶)
فتاویٰ قاسمیہ ششم
-------
سوال: میرا سوال یہ ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟جتنے سارے اعلی حضرت کے متبعین ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟اور کہنا یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب قاسمی ہیں ، لیکن عید میں گلے ملتے ہیں اور تراویح کا پیسہ بھی لیتے ہیں، قرآن خوانی بھی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو کہنا یہ ہے کہ یہ سب بھی بدعت ہے تو کیا ان کے پیچھے نماز ہوجائے گی؟ اگر ان کے پیچھے نماز ہوگی تو ان کے پیچھے کیوں نہیں جن کے عقائد درست نہیں ہے، ان کے پیچھے نماز نہیں تو بدعتی کے عقائد بھی تو درست نہیں تو ان کے پیچھے جائز کیسے ہوگی؟ اور کوئی کہے کہ عقائد ہم دل میں کیسے دیکھیں تو یہ کیا صحیح ہے؟
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
بدعتی کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، گلے ملنا، مروجہ قرآن خوانی کرنا، تراویح پڑھانے پر اجرت لینا؛ یہ سب امور بھی شریعت کی رو سے صحیح نہیں ہیں، اگر کوئی امام ان چیزوں کا مرتکب ہے، تو اُس کے پیچھے بھی نماز مکروہ ہوگی، لیکن بدعتی کا معاملہ زیادہ نازک ہے؛ اس لئے کہ بعض بدعتی کے عقائد سراسر اِسلام کے خلاف اور کفریہ ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں اور جن بدعتیوں کے عقائد و اعمال فسقیہ ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ اندرون اور دل سے ہے؛ لیکن ظاہری اعمال ہی سے باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔
قال الحصکفي :و یکرہ امامة العبد۔۔۔۔۔و مبتدع، أي: صاحب بدعة، و ہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ۔۔۔۔لایکفر بہا ۔۔۔وان کفر بھا، فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً ۔قال ابن عابدین: قولہ: (وہي اعتقادالخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن الی الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا؛ فان من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔۔۔۔(الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۵۴۔۔۲۵۷، ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
---------------------------------------
سوال: موجودہ دور کے بدعتی عالم کے پیچھے کے عقائد ظن غالب ہے کہ باطل ہی ہوں گے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ کیا مشرک کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی مشرک ہو جاتا ہے؟
جواب: (۱، ۲): بریلوی فرقہ (بہ شمول عوام اورعلما) اگرچہ گمراہ اور اہل السنة والجماعة سے خارج ہے (فتوی دار العلوم دیوبند ومظاہر علوم سہارن پور بہ حوالہ: آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۱: ۵۳۸- ۵۴۲، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند )؛ لیکن ہمارے اکابر نے احتیاطاً اس فرقہ کی تکفیر نہیں کی ہے ؛ بلکہ ان کے عقائد میں تاویل کی ہے اور انھیں مسلمان ہی شمار کیا ہے؛ اس لیے اگر اہل السنة والجماعة سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے کسی بریلوی عالم کے پیچھے کوئی نماز پڑھ لی تو نہ وہ مشرک ہوگا اور نہ ہی اس کی نماز مکمل طور پر کالعدم شمار ہوگی؛ بلکہ کراہت کے ساتھ اس کی ادائیگی ہی کا حکم ہوگا؛ البتہ چوں کہ یہ کراہت مکروہ تحریمی والی ہے؛ اس لیے بریلوی فرقہ کے پیچھے نماز بالکل نہیں پرھنی چاہیے۔ ویکرہ… إمامة …مبتدع أي:صاحب بدعة،وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شہبة……لا یکفر بہا …،وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورة کفر بہا…فلا یصح الاقتداء بہ أصلا (الدر المختار مع الرد،کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲:۲۹۸-۳۰۱، ط مکتبة زکریا دیوبند)،فھو- أي:الفاسق- کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیة علی أن روایة کراھة تقدیمہ کراھة تحریم لما ذکرنا (رد المحتار، ۲: ۲۹۹)۔
--------------
سوال: کیا ہماری نماز کسی بریلوی کے پیچھے ہوسکتی ہے؟ میں دیوبندی ہوں۔
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
جس بریلوی (بدعتی) کے اعمال و عقائد کفر و شرک تک نہ پہنچے ہوں اس کے پیچھے نماز ہوتو جاتی ہے لیکن مکروہ تحریمی ہوتی ہے، ثواب میں کمی آجاتی ہے؛ اس لیے اگر آپ نماز کے لیے کسی ایسی مسجد میں جاسکتے ہوں جہاں کا امام دیوبندی مسلک کا ہو تو آپ بریلوی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔
--------------------------------------
اہل بدعت کے پیچھے نماز پڑھنا
سوال: ہمارے آفس میں ایک بریلوی شخص امامت کراتا ہے اور اکثر بدعات بھی کرتا ہے، تو کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ اور کیا ہمیں اکیلے نماز پڑھنا بہتر ہے؟ مذکورہ امام صاحب پوری نماز پڑھانے کے بعد دوبارہ سے اجتماعی دعا کرتے ہیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟
جواب: مذکورہ شخص کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اس لیے کسی صالح اور متبع سنت امام کے پیچھے نماز پڑھنا لازم ہے۔ البتہ اگر کہیں اور باجماعت نماز کا موقع میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ فقط واللہ أعلم
-------------------------
سوال: ہم لو گ پارک میں ہیں قریب ہی بریلوی کی مسجدکیا ان کی  مسجد  میں نماز جماعت  سے پڑھنا افضل ہے  یا پارک  میں اپنی جماعت  کرکے پڑھنا افضل ہے؟
فتویٰ نمبر: 112
جواب: ایسی مجبوری کی صورت  میں بریلوی  کی مسجد میں نماز جماعت  سے پڑھنا افضل  ہے تاکہ  جماعت  کے چھوڑنے  کا گناہ  نہ ہو اور جو 25 یا 27 درجے کا ثواب ہو وہ بھی مل جائے۔ بریلوی گو مزارات پر جاتے ہیں نیاز وغیرہ  کرتے ہیں لیکن  یہ سب  شرک عملی  ہے اس کے کرنے  سے وہ شرک  نہیں ہوجاتے۔ اس لئے ان کی  مسجد میں ضرورت  اور عذر کے وقت  نماز پڑھ سکتے  ہیں۔
جیسا کہ ”فتاوٰی عثمانی میں ہے کہ:
اگر مجبوری کی وجہ  سے ان کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہوجائیگی یہ تنہا  نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ ان کی  ان کی  اقتدا کرلی جائے  البتہ  بلاعذر  ان کے پیچھے  نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ  عثمانی۔ 1/403)

<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_55.html>

سنت غیرمؤکدہ کی نیت باندھی اور جماعت کھڑی ہوگئی

سنت غیرمؤکدہ کی نیت باندھی اور جماعت کھڑی ہوگئی
۱۔ عصر سے قبل چار رکعت سنت غیر مؤکدہ کی نیت باندھی، اسی دوران جماعت کھڑی ہوگئی تو دو رکعت پر سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوگیا یہ ہونا گناہ تو نہیں؟
۲۔کیا یہ چار رکعت سنت غیر مؤکدہ دوبارہ پڑھنا لازم ہوجاتا ہے؟

الجواب بعون الوھاب۔۔۔
نہیں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ عصر سے قبل چار رکعت سنت غیر مؤکدہ ہیں۔۔
نیز بعد میں کوئی قضاء نہیں ہے
ایک تو عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز نہیں  ہے دوسری بات یہ خود سنت غیر مؤکدہ ہیں۔۔
اور عصر سے پہلے چار رکعت اور دورکعت دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔۔
لہذا عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت یا دو رکعت نماز مستحب ہے۔
اگر موقع ہو تو چار کعت پڑھے، اور اگر موقع نہ ہو یا کوئی عذر ہو تو دو رکعت پڑھ لینا بھی کافی ہے  عصر اور عشاء سے قبل چار رکعت یا دو رکعت دونوں پڑھ سکتا ہے۔۔
روایات سے ثابت  ہے۔ ’’مالابدمنہ‘‘ میں ہے۔ و پیش از نماز عصر دو رکعت یا چہار رکعت مستحب است (ص ۶۰)
(اور ’’شرح نقایہ‘‘ میں ہے وحبب ای ندب الا ربع قبل العصر لما روی ابوداؤدوالترمذی وقال حدیث حسن عن ابن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ رحم اﷲ امرء ًا صلی قبل العصر اربعاً وبقول علی کان علیہ السلام یصلی قبل العصر رکعتین رواہ ابوداؤدورواہ الترمذی واحمد وقال اربعاً۔ولما رواہ الطبرانی بسند حسن عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ ومن صلی قبل العصر اربعاً حرمہ اﷲ علی النار وحبب قبل العشاء وبعدہ‘ الخ (شرح نقایہ ص ۱۰۰ باب الوتر والنوافل)
واما العصر فلیس فیہ سنۃ مؤکدۃ الا ان لمندوب ان یصلی قبلھا اربع رکعات او رکعتین لما روی ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال ان رسول اﷲ ﷺ قال رحم اﷲ امرء صلی قبل العصر اربعاً وعن امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجہہ قال کان یصلی رسول اﷲ ﷺ قبل العصر رکعتین رواھما ابو دائود وان شاء صلا ھما بتسلیمتین لما عن امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجھہ‘ قال کان النبی ﷺ یصلی قبل العصر اربع رکعات یفصل بینھن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تابعھم من المسلمین والمؤمنین رواہ الترمذی وقال الفقہاء المندوب ان یصلی قبل العشاء اربع رکعات وسمعت مطلع الا سرار الا لھیۃ مجمع العلوم۔ العقلیۃ والنقلیۃابی قدس سرہ یقول لم یوجد ذکر ھذہ الا ربع فی کتب الحدیث ولکن کان ھو رحمہ اﷲ مواظباً علیھا حتی مات رحمہ اﷲ تعالیٰ(رسائل الا رکان ص ۱۳۳ ،ص۱۳۴ایضاً)
_________
واللہ اعلم بالصواب

<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_13.html>


Friday 8 February 2019

آل دیوبند سے چند سوالات اور ان کے جوابات

آل دیوبند سے چند سوالات اور ان کے جوابات
آل دیوبند سے چند سوالات کے جواب
مندرجہ ذیل سوالواں کے جواب مطلوب ہیں:
آل دیوبند سے چند سوالات
آل دیوبند کے ایک جھوٹے، آدمی الیاس گھمن دیوبندی نے ایک کتاب لکھی "ہاں فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے"
اس کتاب میں .... دیوبندی .... نے جھوٹ خیانت دوغلی پالیسی اور تہمت بازی سے خوب کام لیا۔
اب چونکہ کتاب کا نام اس .... صفت دیوبندی نے  "ہاں فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے" رکھا ہے لہذا کتاب کے نام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیوبندیوں سے انکی نام نہاد کتب فقہ سے چند مسائل کے متعلق سوالات پیش خدمت ہیں
ہم امید رکھتے ہیں کہ ان مسائل کو یہ لوگ "قرآن و حدیث کا نچوڑ" ثابت کرینگے جیسا کہ کذاب و خائن الیاس گھمن دیوبندی کا دعوی ہے ۰
مسئلہ 1) فقہ حنفیہ کا مشہور مسئلہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح ہوجاتا ہے ۔ (فتاوی عالمگیری، ھدایہ، بہشتی زیور)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
مسئلہ 2) شراب جب سرکہ بن جائے تو حلال ہے۔ (ھدایہ، بہشتی زیور)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
مسئلہ 3) کافر ذمی کے بدلے میں مسلم کو قتل کردیا جائے (ھدایہ)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
مسئلہ 4) مدینہ حرم نہیں ہے (در مختار)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
مسئلہ 5) کتا اٹھاکر نماز پڑھنے سےنماز فاسد نہیں ہوتی ۔ (در مختار)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں ۰
مسئلہ 6) ابوحنیفہ کے نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ ہیں ۔ (فتاوی عالمگیری)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں ۰
مسئلہ 7) کتے کی کھال کی جائے نماز بناکر اس پر نماز پڑھنا جائز ہے۔  (در مختار)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
مسئلہ 8) میت کی طرف سے اس کا ولی روزے نہ رکھے (ھدایہ)
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
9) استسقاء کے موقع پر باجماعت نماز مسنون نہیں ۔
یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں۰
10) کتے کی فروخت جائز ہے (ھدایہ)
بس ہمیں اتنا بتاؤ کہ یہ قرآن کریم کی کس آیت کا نچوڑ ہے کس صحیح حدیث کا نچوڑ ہے آل دیوبند مکمل حوالے کے ساتھ جواب دیں ۰

ان سوالات کے جوابات دینے کی بجائے ہمیں الٹا انہیں سے سوالات کرنے چاہئے
غیر مقلدین کے عقائد و مسائل ماخوذ نزل الابرار من فقہ نبی المختار وحید الزمان جسے دیکھ کر غیر مقلدین جھوٹ پہ جھوٹ بولتے ہیں مگر جان نہیں چھوٹتی ان کی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1
عرش خدا کا مکان ہے ۔ج 1 ص 3
2
خدا تعالٰی جس شکل میں چاھے تجلی فرماسکتا ہے۔ ج 1 ص 3
3
خدا کا چہرہ، آنکھ، ناک، کان، کندھا، پسلی، ٹانگ، پاؤں انگلیاں سب کچھ ہے۔ ج 1 ص 3
4
ہم اہلحدیث اس کے قائل ہیں کہ مردے قبروں میں زندوں کی پکار سنتے ہیں۔ ج1 ص 4
5
زندہ اور مردہ بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ ج1ص5
6
اللہ تعالٰی کا وعدہ خلافی کرنا عقلا ممکن ہے گو امتناع بالغیر ہے۔ ج1ص5
7
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر ممکن اور تحت قدرت ہے، امتناع بالغیر ہے۔ ج1ص5
8
ہمارے بعض اصحاب خلف و عید کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ ج 1 ص 5
9
اب نئی شریعت والا نبی نہیں آئے گا۔ ج 1 ص 6
10
کرامات اولیاء حق ہیں۔ ج 1 ص 6
11
خدا تعالٰی کو خواب میں دیکھنا جائز ہے۔ ج 1 ص 7
12
ایل حدیث شیعان علی ہیں۔ ج1ص7
13
نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت وغیرہ کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے۔ ج1ص7
14
عامی کے لئے مجتہد یا مفتی کی تقلید لازمی ہے۔ ج 1 ص 7
15
تمام مسائل میں خاص ایک امام کی تقلید بدعت مزمومہ ہے۔ ج1ص7
16
تقلید شخصی شرک فی العادت ہے۔ ج1ص4یا8
17
ہمارا ایک نام ہے اہل حدیث، ان کو وہابی کہنے والے بدعتی ہیں۔ ج1ص8
18
حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو امام کی بات پر مقدم سمجھیں تو یہ لوگ مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں شامل ہیں۔ ج 1 ص
19
جسم پر مکھیوں کا پاخانہ لگا ہو تو دھونا ضروری نہیں۔ اس میں حرج ہے۔ ج 1 ص 12
20
اہل بیت سے متواتر روایات سے ثابت ہے کہ وضو میں پاؤں دھونے کی بجائے مسح کیا جائے۔ ج 1 ص 13
21
اگر سر، موزہ، پٹی کو بے وضو آدمی نے برتن میں ڈال دیا تو مسح ہوگیا۔ ج1ص13
22
سر کی بجائے وضو میں پگڑی پر مسح جائز ہے۔ ج 1 ص 13
23
پگڑی پر مسح کرنے کے بعد پگڑی اتار ڈالی تو اب مسح سر پر ضروری ہے۔ ج 1 ص 13
24
کھڑے ہوکر کھانا پینا مسافر کے لئے مکروہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہھم سے اس کا ثبوت ہے۔ ج 1 ص 18
25
خون پیپ اور قے سے وضوع نہیں ٹوٹتا۔ ج 1 ص 18
26
صحیح یہ ہے کہ قے کے ناپاک ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ ج 1 ص 19
27
صحیح یہ ہے کہ (الخمر) شراب ناپاک نہیں۔ ج 1 ص 19
28
نماز میں بالغ آدمی قہقہہ لگاکر ہنسے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ ج1ص19
29
عورت کو مساس کرنے یا بے ریش لڑکے کو مساس کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ج1ص19
30
مرد و عورت ننگے ہوکر شرم گاہیں ملائیں تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ ج1ص19
31
اگر انگلی پاخانے کی جگہ داخل کی تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ج1ص20
32
اگر شرم گاہ میں لکڑی داخل کی، اگر خشک نکل آئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ ج1ص20
33
اگر لوہے یا کسی اور چیز کا (ذکر بناکر) داخل کیا، وہ خشک نکل آیا تو وضو نہیں ٹوٹا۔ج1ص20
34
اگر لوہے اور لکڑی کا زکر اندر ہی غائب ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ ج1ص20
35
غیر مکلف (نابالغ) نے نابالغ سے صحبت کی یا کروائی تو نابالغ پر غسل فرض نہیں۔ ج 1 ص 23
36
بواسیر کا موہکا باہر نکل کر خود بخود اندر چلاجائے تو وضو نہیں ٹوٹا۔ ہاتھ سے اندر کیا تو وضو ٹوٹ گیا۔ ج1ص20
37
کیڑا (چمونا) باہر نکلا پھر خود واپس دبر میں داخل ہوگیا تو وضو نہیں ٹوٹا۔ ج1ص20
38
اگر کوئی شخص اعضاء وضو کو ہمیشہ ایک ایک بار ہی دھوتا رہے (یعنی دو اور تین بار دھونے کی تمام احادیث کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہے) تو بھی کوئی گناہ نہیں۔ ج1ص16
39
عورت کی شرم گاہ کا بیرونی حصہ (فرج خارج) مثل انسان کے منہ کے ہے۔ ج1ص21
40
آنکھوں میں ناپاک سرمہ ڈالا تو آنکھوں کا دھونا غسل و وضو میں فرض نہیں۔ ج1ص20
41
غسل فرض ہو اور پردہ کی جگہ نہ ہو تو مرد کو مردوں کے سامنے اور عورت کو عورتوں کے سامنے ننگے ہوکر غسل کرنا ضروری ہے۔ ج1ص22
42
عورت نے صحبت کے بعد غسل کرکے نماز پڑھ لی پھر عورت کی باقی ماندہ منی باہر نکل آئی تو غسل کا دھرانا نہیں ہے کیونکہ منی بغیر شہوت کے خارج ہوئی ہے۔ ج1ص23
43
مرد نے منی نکلنے سے قبل عضو مخصوص کو زور سے پکڑ لیا یہاں تک کہ شہوت ختم ہوگئی اب چھوڑ دیا اور منی باہر نکل آئی تو غسل فرض نہیں ہوا۔ ج1ص23
44
غیر مکلف (دیوانے) نے عاقل سے صحبت کی یا کروائی تو غیر مکلف پر غسل فرض نہیں۔ج1ص23
45
جن نے عورت سے صحبت کی، عورت کو انزال نہیں ہوا تو عورت پر غسل فرض نہیں۔ ج1ص23
46
جانور کی شرم گاہ میں جماع کیا تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص23
47
جانور کی دبر میں جماع کیا تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص23
48
آدمی کے پاخانے کے مقام (دبر) میں جماع کیا تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص23
49
مردہ عورت سے جماع کیا تو غسل فرض نہیں۔ج1ص 23
50
قریب البلوغ لڑکے یا لڑکی نے صحبت کی یا کروائی تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص23
51
امام بخاری کے نزدیک عاقل مرد عورت جماع کریں، انزال نہ ہوتو غسل فرض نہیں۔ ج1ص23
52
کسی نے اپنا آلہء تناسل اپنی دبر میں داخل کیا تو غسل فرض نہیں ۔ج1ص24
53
خنثٰی مشکل نے کسی سے جماع کیا تو دونوں میں سے کسی پر غسل فرض نہیں۔ ج1ص 24
54
آلہ تناسل پر کپڑا لپیٹ کر جماع کیا، جماع کی لزت نہ آئی تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص24
55
کسی عورت نے انگلی استعمال کی تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص24
56
کسی عورت نے غیر آدمی (یعنی غیر انسان) کا آلہ تناسل اپنی شرم گاہ میں داخل کروایا، تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص24
57
اگر کوئی عورت لکڑی (یا لوہے) کا ذکر بناکر استعمال کرے تو غسل فرض نہیں ہوتا ۔ج1ص 24
58
مندرجہ بالا عورت اگر لکڑی، لوہے کا ذکر اس صفائی سے استعمال کرے کہ ذکر تو سارا اندر جاتا رہے مگر ہاتھ کی ہتھیلی اندام نہانی کو نہ لگے تو وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔ جص
59
اگر عورت کسی مرد کا ذکر اپنی شرم گاہ میں داخل کرے تو بھی غسل فرض نہیں۔ ج1ص24
60
پیسوں کو جوڑ کر ذکر بنالے اور عورت استعمال کرے تو غسل فرض نہیں۔ جلد1ص24
61
اگر عورت نے لڑکے کا آلہ تناسل داخل کروایا جو بالغ نہ تھا تو کسی پر غسل فرض نہیں۔ج1ص24
62
عورت نے کسی خسرے سے جماع کروایا تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص24
63
اگر کسی کنواری لڑکی سے جماع کیا اور کنوار پٹی نہ ٹوٹی تو غسل فرض نہیں۔ ج1ص24
64
مرد بھی اپنی دبر میں لکڑی لوہے یا مردے جانور کا آلہ تناسل داخل کرے تو غسل فرض نہیں۔ج1ص24
65
حیض نفاس والی عورت اور جنبی دعا اور ثناء کی نیت سے قرآن کا ایک ایک کلمہ کرکے پڑھیں تو جائز ہے۔ ج1ص26
66
ہمارے بعض اصحاب (یعنی نام نہاد اہل حدیث اکابرین) کے نزدیک بہ نیت تلاوت بھی حیض، نفاس والی اور جنبی کو قرآن پڑھنا جائز ہے۔ج1ص25
67
آخر اہل حدیث کے نزدیک بے وضو شخص قرآن کو ہاتھ لگاسکتا ہے۔ ج1ص26
68
قرآنی دعائیں پڑھنا حائضہ اور جنبی کے لئے مکروہ نہیں۔ ج1ص26
69
قرآن پڑھنے والے بچے، پڑھانے والا استاد بے وضو قرآن کو پکڑ سکتے ہیں۔ ج1ص26
70
قرآن پر غلاف ہوتو سر کے نیچے (تکیہ کی جگہ) یا پیٹھ کے پیچھے رکھ لینا مکروہ نہیں۔ج1ص27
71
فلسفہ، منطق اور کلام (عقائد) کی کتابوں سے استنجاء کرنا جائز ہے۔ ج1ص27
72
پاخانہ یا استنجاء کرتے وقت دل میں قرآن پڑھتے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ ج1ص27
73
عرق گلاب سے وضو جائز ہے۔ ج1ص28
74
پانی خواہ کتنا تھوڑا ہو جب تک نجاست سے اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہ بدلے وہ پاک رہتا ہے۔ج1ص29
75
مستعمل اور غیر مستعمل پانی میں کوئی فرق نہیں۔ ج1ص29
76
انسان، کتے، خنزیر وغیرہ ہر جاندار کی کھال رنگنے سے پاک ہوجاتی ہے۔ ج1ص29
77
خنزیر، کتے، بلی وغیرہ کے چمڑے کو دھوپ میں سکھائے تو بغیر رنگے پاک ہیں۔ ج1ص30
78
جن جانوروں کی کھالیں رنگنے سے پاک ہوجاتی ہیں (مثلا آدمی، کتا، خنزیر وغیرہ) ان کو اگر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا تو پھر بغیر رنگے بھی ان کی کھال پاک ہوجاتی ہے۔ ج1ص32
79
مردار جانور اور خنزیر کے بال، ہڈیاں، پٹھے، کھر اور سینگ پاک ہیں۔ ج1ص30
80
کتا اور اس کا لعاب محققین اہل حدیث کے نزدیک پاک ہے۔ ج1ص30
81
کتے کو بیچا جاسکتا ہے، کرائے پر دیا جاسکتا ہے، کسی کا کتا مارڈالا تو تاوان دینا پڑے گا۔ج1ص30
82
کتے کی کھال کا جائے نماز بنانا جائز ہے۔ج1ص30
83
کتا کنویں میں یا حوض یا پانی میں گرگیا اگرچہ اس کا منہ پانی تک پہنچا تو پانی پاک ہے۔ ج1ص30
84
بھیگے کتے کی چھینٹیں بدن یا کپڑوں پر پڑیں تو بدن اور کپڑا پاک ہے۔ ج1ص30
85
کتے نے کاٹا اگرچہ جسم یا بند کو اس کا لعاب بھی لگ گیا تو بھی جسم اور کپڑا پاک ہے۔ ج 1 ص 30
86
کتے اور خنزیر کا جوٹھا پانی، دودھ وغیرہ بھی پاک ہے۔ ج 1ص 30
87
کتے کو اٹھاکر نماز پڑھے تو جائز ہے۔ ج 1 ص 30
88
شراب کی میل آٹے میں گوندھ کر روٹی پکائی تو وہ پاک بھی ہے اور حلال بھی۔ج1ص30
89
حرام دوا کا استعمال حالت اضطرار میں جائز ہے۔ج 1 ص 31
90
گدھا، خنزیر نمک کی کان میں گرکر نمک بن گیا تو وہ پاک ہے اور کھانا حلال ہے۔ ج1ص50
91
کتے کا پاخانہ اور پیشاب بھی پاک ہے۔ ج1ص50
92
ناپاک زمین خشک ہوجائے تو اس پر تیمم جائز ہے۔ ج1ص31
93
ایک شخص کو نجاست لگی ہے، پانی تھوڑا ہے وہ نجاست دھلے گی نہیں، نجاست دھوئے تو وضو کے لئے پانی نہیں بچے گا اور وضو کرے تو نجاست نہیں دھلے گی، تو وہ نجاست نہ دھوئے بلکہ وضو کرلے اور نجاست سے نماز پڑھ لے۔ج1ص 32
94
حائضہ اور جنابت والے کو بسم اللہ اور قرآنی دعائیں۔ ان کا اٹھانا، چھونا سب جائز ہے۔ج1ص46
95
ٹوپی، برقع اور دستانوں پر مسح جائز نہیں۔ ج 1 ص 41
96
منی پاک ہے، خشک ہویا تر، پتلی ہو ہا گاڑھی۔ ج 1 ص 49
97
ہر حلال و حرام جانور کا پیشاب پاک ہے۔ ج 1 ص 49
98
گندم، چنوں میں اتنا انسان کا پیشاب ڈالا کہ گندم اور چنے پھول گئے ،ان کو پانی میں ڈال کر نکال کر خشک کرلو تو پاک ہوگئے۔ ج 1 ص 50
99
شراب جب سرکہ بن گئی تو اس کا کھانا حلال ہے۔ ج 1 ص 50
100
اگر بغیر عزر کے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تو جائز مع الکراہت ہے۔ ج 1 ص 53
101
گندگی پر سوگیا، گندگی کپڑے یا جسم پر ظاہر نہیں ہوئی تو جسم اور کپڑا پاک ہے۔ ج 1 ص 54
102
چوہا شراب میں گرا، پھر وہ شراب سرکہ بن گئی تو پاک ہے۔ ج 1 ص 54
103
اہل ذمہ کافروں اور فاسقوں کے کپڑے پاک ہوتے ہیں۔ ج 1 ص 54
104
استنجا کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا مکروہ نہیں۔ ج 1 ص 53
105
جانور کی مینگنی، گوبر یا جگالی میں “جو“ ہے تو دھوکر کھالو۔ ج1ص54
106
بچے نے گندگی کھالی پھر پانی وغیرہ پی لیا تو باقی پانی وغیرہ ناپاک نہیں۔ ج 1 ص 55
107
کھانا حاضر ہوتو کھانے سے پہلے جو نماز پڑھی وہ نماز نہیں ہوئی۔ ج 1 ص 57
108
آج کل اذان پر اجرت لینا جائز ہے۔ ج 1 ص 62
109
نجاست لگے ہوئے کپڑے میں نماز پڑھی تو نماز صحیح ہے۔ ج1ص 64+شوکانی، صدیق حسن)
110
جسم پر نجاست لگی تھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو نماز صحیح ہے۔ ج 1 ص 64+ شوکانی، صدیق حسن
111
پلید مرد و عورت (جنبی) کو اٹھا کر نماز پڑھ لی تو نماز صحیح ہے۔ ج 1 ص 64
112
شوکانی، نواب صدیق حسن فرماتے ہیں: کپڑا ہوتے ہوئے ننگے نماز پڑھی تو بھی نماز صحیح ہے۔ ج 1 ص 65
113
عورت کی آواز کا پردہ نہیں۔ ج1 ص 65
114
شرم گاہ کی رطوبت پاک ہے۔ ج 1 ص 49
115
جوتے پہن کر نماز پڑھنا سنت ہے۔ ج 1 ص 68
116
زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔ ج1ص69
117
نماز کے تمام اذکار میں صرف تکبیر، فاتحہ، آخری تشہد اور سلام ہی ضروری ہیں۔ج 1 ص 84
118
عورت اپنے ہاتھ پستانوں تک اٹھائے اور سجدوں میں سمٹ کر اور مل کر سجدہ کرے۔ ج 1 ص 84
119
اذان اور خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں جائز ہے۔ج1ص82
120
اس طرح نماز میں قرآن پڑھنا جائز ہے ا ل ح م د ل ل ہ ر ب ا ل ع ا ل م ی ن ۔ ج 1 ص 86
121
زمین پر کھڑا ہوکر سجدہ میز پر کرے تو درست ہے۔ ج 1 ص 89
122
حنفی، شافعی، مالکی حنبلی سب مسلمان ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ج1ص98
123
نماز باجماعت مرد و عورت ساتھ ساتھ ایک صف میں مل کر پڑھیں تو نماز فاسد نہیں۔ ج 1 ص 100
124
امام نے نماز پڑھانے کے بعد کہا کہ میں بے وضو تھا تو مقتدی نماز نہ دھرائیں ان کی نماز صحیح ہے۔ ج1ص101
125
امام نے نماز کے بعد کہا، میں کافر ہوں تو مقتدیوں‌ کی نماز صحیح ہے دھرانے کی ضرورت نہیں۔ ج 1 ص 102
126
امام نے بعد نماز کہا، میں ناپاک ہوں، مقتدیوں کی نماز صحیح ہے۔ ج 1 ص 102
127
نماز پڑھتے ہوئے اشارہ سے پانی مانگا یا پانی خرید لیا تو نماز باطل نہ ہوگی۔ ج 1 ص 107
128
نماز پڑھتے ہوئے اک ہاتھ سے اگال دان اٹھاکر تھوک لیا تو نماز فاسد نہیں ہوئی۔ ج 1 ص 107
129
عورت نماز پڑھ رہی تھی مرد نے شہوت سے اس کا بوسہ لیا اور چھوا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 111
130
مرد نماز میں تھا عورت نے اس کا بوسہ لے لیا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 111
131
نماز میں چوپائے کو بھگادیا یا چند قدم کھینچ لیا سینہ قبلہ سے نہ پھرا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 111
132
نمازی نے نماز پڑھتے ہوئے پتھر اٹھاکر پرندے یا آدمی کو دے مارا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 112
133
نمازی لکھے ہوئے کو دیکھ کر سمجھتا رہا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 113
134
نماز میں لڑائی کے لئے لشکر کی تیاری کا منصوبہ بناتا رہا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ج 1 ص 113
135
نماز میں دینی مدرسہ کا نصاب وغیرہ سوچتا رہا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 113
136
اگر نماز پڑھتے ہوئے سر سے ٹوپی گر جائے تو نماز میں ہی اٹھاکر سر پر رکھ لینا جائز ہے۔ ج 1 ص 114
137
اگر نماز میں کلائی سے گھڑی، آنکھوں سے عینک گرجائے تو نماز میں ہی اٹھالینا جائز ہے۔ ج 1 ص 114
138
نماز میں جوئیں مارنا یا مکھیاں مارنا ناپسند ہے مگر نماز ہوجاتی ہے۔ ج 1 ص 116
139
نماز پڑھتے ہنڈیا ابل جائے تو نماز توڑ ڈالے۔ج1ص117
140
حقہ سگریٹ پینے والے کو مسجد سے نکال دینا مستحب ہے۔ ج 1 ص 117
141
مسجد کو کسی فرقہ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں جیسے مسجد احناف، مسجد اہل حدیث۔ ج 1 ص 119
142
مسجد کی دیواروں پر کچھ نہ لکھنا چاہئے۔ ج 1 ص 121
143
مسجد میں ریاکاری کا خوف نہ ہو تو ذکر جہر مکروہ نہیں۔ ج 1 ص 121
144
دو التحیات سے تین وتر پڑھنا منع ہے۔ ج 1 ص 123
145
جو شخص مؤکدہ سنتیں ادا نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ج 1 ص 125
146
نماز تراویح کی رکعات کا کوئی خاص عدد معین نہیں ۔ ج1ص126
147
اگر ایک ہزار رکعت ایک سلام سے پڑھے تو جائز ہے۔ ج 1 ص 131
148
نماز فرض رہ جائے تو اس کو قضا پڑھنا جائز نہیں۔ ج 1 ص 131
149
اک شخص نماز پڑھ کر مرتد ہوگیا ،پھر اسی وقت کے اندر مسلمان ہوگیا تو دوبارہ نماز نہ پڑھے۔ ج 1 ص 136
150
بوقت نکاح باجے بجانے واجب ہیں۔ج2ص3
151
کسی شخص نے اک عورت سے زنا کیا ،اس عورت کی ماں اور پیٹی اس مرد پر حلال ہیں۔جلد2ص21
152
بیٹے نے عورت سے زنا کیا، باپ کے لئے وہ عورت حلال ہے۔ ج 2 ص 21
153
سات سال کے لڑکے نے کسی عورت سے صحبت کی تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی۔ ج 2 ص 21
154
سات سال کی لڑکی نے جوان مرد سے صحبت کروائی تو بھی حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی۔ ج 2 ص 21
155
کسی عورت کی شرم گاہ کو شہوت سے دیکھا، چھوا بلکہ شرمگاہیں ملائیں تو بھی حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ ج 2 ص 21
156
ساس کا بوسہ لیا، اس کو کاٹا، گلے لگایا، بلکہ اس سے صحبت بھی کی تو نکاح قائم رہا۔ ج 2 ص 28
157
فقہاء حجاز کے ہاں متعہ کرنا جائز ہے۔ ج 2 ص 35
158
فقہاء اہل مدینہ کے نزدیک عورتوں کا غیر فطری مقام استعمال کرنا جائز ہے۔ج 2 ص 35
159
نکاح میں خمر یا خنزیر کا مہر مقرر کیا تو نکاح صحیح ہے۔ ج 2 ص 48
160
بیوی سے آلہ تناسل کے علاوہ کسی اور عضو سے جماع کیا یا پتھر لوہے ،لکڑی کا زکر بناکر جماع کیا اور اس طرح وہ مرگئی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ ج 2 ص 57
161
غیر عورت سے پتھر، لکڑی لوہے کے آلہء تناسل سے جماع کیا وہ مرگئی تو کوئی مہر نہیں۔ ج 2 ص57
162
بعض صحابہ فاسق تھے مثلا ولید، معاویہ، عمرو، مغیرہ، سمرہ۔ج 3 ص 94 ((العیاذباللہ))
163
پیشاب کے چھینٹے جو نظر نہ آئیں ناپاک نہیں۔ ج 1 ص 64
164
موزہ اور جوتا مٹی پر رگڑنے سے پاک ہوجاتا ہے نجاست خشک ہو یا تر، جسم والی ہو یا بغیر جسم۔ ج 1 ص 64
165
گوبر اور پاخانے کی راکھ پاک ہے۔ ج 1 ص 50
166
کپڑے کی کوئی ایک جانب ناپاک ہوگئی مگر یاد نہیں رہی کہ کون سی تھی تو تحری سے ایک طرف دھولے۔ ج 1 ص 50
167
حائضہ عورت اور جنبی کو خانہ کعبہ کا غلاف پہننا جائز ہے۔ ج1ص
168
جنبی کو قرآن لکھنا مکروہ نہیں بشرطیہ کہ مکتوب نہ چھوا جائے۔ج1ص27
169
شراب پینے والے کا جھوٹھا ہر حال میں پاک ہے چاھے شراب پیتے ہی فورا جھوٹھا کرے۔ ج 1 ص 31
170
اگر کیچڑ میں پانی غالب ہو تو اس سے تیمم جائز نہیں۔ ج 1 ص 34
171
اگر تیمم کی نیت سے زمین پر لوٹا جائے تو نماز ہوجائے گی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ پر انکار نہ فرمایا۔ ج 1 ص 33
172
اگر کسی نے ضاد کو ظا پڑھا تو نماز درست ہے کیونکہ دونوں صفات متشابہ ہیں۔ج 1 ص 112
173
نماز جنازہ میں تیسرا رکن سورۃ الفاتحہ ہے۔ ج 1 ص 113
174
نماز میں سلام وغیرہ کے لئے اشارہ جائز ہے۔ ج 1 ص 113
175
اگر کسی نے درد کی وجہ سے نماز میں آہ یا اف کہا تو نماز مکروہ ہے۔ (مفسد نہیں) ج 1 ص 108
176
اگر نمازی کے منہ سے ہاں یا البتہ یا نہیں نکل گیا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 109
177
نماز میں صرف چہرہ (قبلہ) سے پھیر لیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ ج 1 ص 111
178
بے وضو ہوجانے کے خیال میں قبلہ سے پھر کر چل دیا،مسجد سے نکلنے سے پہلے یاد آگیا کہ بے وضو نہیں ہوا،تو واپس آجائے نماز نہیں ٹوٹی۔ج1ص111
179
قبلہ کی طرف منہ کرکے آگے یا پیچھے کی طرف چلتا رہا تو نماز نہیں ٹوٹے گی۔ ج 1 ص 111
180
کسی نے نمازی سے پوچھا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتادیا تو نماز نہیں ٹوٹی۔ ج 1 ص 115
181
جو شخص مر گیا اس کے زمہ نمازیں رہ گئیں اس نے وصیت کی تو ہر نماز کے بدلے مصل صدقہ فطر کفارہ دے۔ ج 1 ص 136
182
ایک شخص نے چار رکعت نماز ایک ایک رکعت چاروں طرف تحری سے پڑھی،نماز ہوگئی۔ ج 1 ص 70
183
فجر کی نماز میں کبھی کبھی قنوت پڑھ لیا کرے اکثر چھوڑ دیا کرے۔ج1ص123
184
کسی خطیب نے بغیر وضو کے خطبہ پڑھ دیا تو جائز ہے مع الکراہت۔ ج 1 ص 154
185
جو خطیب سے دور ہو اس پر خاموش رہنا واجب نہیں،درود و زکر کرنا مباح ہے۔ج1ص154
186
ذمی سے شراب اور مردار کی کھال کی قیمت کا بیسواں حصہ وصول کیا جائے گا۔ ج1ص206
187
اگر عورت کی طرف دیکھا اور تفکر کیا جس سے منی خارج ہوگئی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ ج1ص228
188
دبر میں لکڑی یا لوہا داخل کیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ج1ص228
189
اگر مرد نے اپنی انگلی دبر میں داخل کی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ج1ص229
190
اگر عورت نے اپنی انگلی اپنی شرم گاہ میں داخل کردی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ج1ص229
191
اگر عورت سے فرج کے علاوہ جماع کیا ، انزال نہیں ہوا تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ج1ص229
192
اگر عورت مرد نے قصدا جماع کیا تو مرد پر کفارہ و قضا دونوں لازم ہیں عورت پر صرف قضا لازم ہے۔ج1ص231
193
اگر عورت سے زبردستی صحبت کی تو اس پر قضا بھی لازم نہیں۔(گویا اسکا روزہ ٹوٹا ہی نہیں)ج1ص231
194
دو عورتیں آپس میں چپٹی لڑائیں ، انزال نہ ہوتو روزہ نہیں ٹوٹا۔ ج1ص228
195
مرد نے عورت کی دبر زنی کی، انزال بھی ہوگیا تو مرد پر قضا لازم ہے کفارہ لازم نہیں۔ جلد1ص231
196
پہلے بھولے سے جماع کرلیا روزہ یاد نہ تھا پھر قصدا جماع کرلیا اب روزہ نہیں تو کوئی کفارہ نہیں۔ج1ص230
197
حالت اعتکاف میں بغیر شہوت کے مباشرت کی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ج1ص238
198
حرم مدینہ میں کسی نے درخت کاٹا یا شکار کیا تو اس کے جسم پر جو کچھ ہے وہ چھین لیا جائے گا اور چھیننے والے کے لئے حلال ہے،نہ جزا ہے نہ قیمت۔ج 2 ص 185
200
جس نے جانور سے جماع کیا اس پر تعزیر ہے۔ ج 2 ص 298
وحید الزمان غیر مقلد کہتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنا نفل نماز سے زیادہ ثواب ہے. (کنزالحقائق)

کورٹ میرج کرنا کیسا ہے؟ اہلِ حدیث کا مطلب، ائمۂ اربعہ کسے کہتے ہیں؟ سعودی عرب میں رفع یدین کرتے ہیں، ہندوستان میں کیوں نہیں؟

(کورٹ میرج کرنا کیسا ہے؟ اہلِ حدیث کا مطلب، ائمۂ اربعہ کسے کہتے ہیں؟
سعودی عرب میں رفع یدین کرتے ہیں، ہندوستان میں کیوں نہیں؟)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام مسائلِ ذیل کے بارے میں:
(1) کورٹ میریج کرنا کیسا ہے؟
(2) اہلِ حدیث کس کو کہتے ہیں؟
(3) امام کسے کہا جاتا ہے اور ائمۂ اربعہ کس کو کہتے ہیں؟
(4) سعودی عرب میں رفع یدین کرتے ہیں اور ہندوستان میں کیوں نہیں کرتے آخر فرق کس بات پر ہے؟
ان سوالوں کے جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دینے کی زحمت فرمائیں، عین نوزش ہوگی۔
(نوٹ: اگر کورٹ میریج کا جواب ہندی میں تحریر فرمادے تو مہربانی ہوگی)۔
محمد اسلم جامعی
(جے پور، راجستھان)
الجواب 
حامدا و مصلیا و مسلما اما بعد
(1) دو مسلمان گواہوں کے سامنے نا محرم مرد و عورت باہم رشتہ زوجیت قائم کرنےکے لیے زبانی یا تحریری رضامندی ظاہر کردیں تو دونوں کا رشتہ زوجیت منعقد ہوجاتا ہے۔ قانونی تحفظ کے لیے مسلمان جج (یا حاکم) کے سامنے قانونی خانہ پری کے ساتھ یہی کاروائی دو گواہوں کی موجودگی میں ہو تو اس کو کورٹ میرج سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ جائز ہے۔
اگر حاکم مسلمان نہیں ہے اور اور شرعی قانون کے مطابق گواہوں کا اہتمام نہ ہو تو کورٹ میرج کی قانونی کارروائی سے نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح شریعت کے اصول کے خلاف کورٹ میرج کرنا جائز نہیں ہے۔
(2) محدثین کی اصطلاح میں اہل حدیث ان بڑے علماء کو کہتے ہیں جو علم حدیث کے ماہر ہیں۔
موجودہ دور میں ایسی جماعت کو اہل حدیث کہا جاتا ہے جو حدیث کے نام پر اسلام میں شک پیدا کرنے اور امت کو حدیث سے دور کرنے کی نامسعود کوشش کرتی ہے۔ عوام کو علماءِ امت سے بدظن کرکے ان سے دور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے۔ رات دن حدیث، حدیث کی گردان کرنے والی یہ جماعت کسی مسئلے میں حدیث کی اصل کتاب سے حدیث دکھانے کے بجاے ڈاکٹر، ماسٹر، پینٹر، کنڈکٹر، چنٹو، پنٹو کی طرف سے دستیاب ہندی اردو کی کتابیں پرچے اپنی پتلون میں رکھ کر گھومتی ہے۔ اور انہیں پرچوں پر اعتماد کرکے لوگوں کو ورغلاتی ہے۔ یہ جماعت خود کو اہل حدیث کہتی ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ جس طرح یہ جماعت، علماء کی باغی ہے اسی طرح حدیث پر عمل سے بھی محروم ہے۔
(3) باجماعت نماز میں جو بالکل آگے ہوتا ہے لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور پیچھے لوگ اس کی اقتداء کرتے ہیں، عام اصطلاح میں اسے امام کہا جاتا ہے۔ جو شریعت کے مطابق حاکم ہو اس کو بھی امام المسلمین کہتے ہیں؛ نیز جو کسی فن میں ماہر ہو اسے اس فن کا امام کہاجا تا ہے۔ جیسے فن حدیث میں امام بخاری، امام مسلم رحمہم اللہ۔ فن نحو میں امام سیبویہ۔ قراتِ قرآن کے ماہر امام حفص رحمة اللہ علیہ۔ برصغیر میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت انہیں کی تقلید کی جاتی ہے؛ جب کہ قرآن سات طرح پڑھنے کی صحیح روایات موجود ہیں اور سات طرح سے سات ماہرینِ قرأت یعنی سات اماموں کی تقلید کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین مسائل براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر معلوم کرلیا کرتے تھے۔ اور جو لوگ ایسا نہیں کرسکتے تھے وہ صحابہ کرام سے احکام شریعت معلوم کر کے عمل کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں باقاعدہ زندگی کے ہر ہر باب سے متعلق احکام مدون نہیں تھے۔ شریعت کے احکام کو قرآن و سنت کی روشنی میں ابواب کی ترتیب پر فقہاء کرام نے جمع اور مدون فرمایا۔ ان فقہاء میں سب سے زیادہ کامیابی اور مقبولیت اللہ کی طرف سے چار اماموں کو حاصل ہوئی: اما م اعظم ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رحمہم اللہ۔ ان کو ائمہ اربعہ کہتے ہیں۔
(4) پورے سعودی میں ہر کوئی رفع یدین نہیں کرتا ہے؛ بلکہ ایک بڑ ی تعداد ایسی ہے جو ہمیشہ بغیر رفع یدین کے نماز ادا کرتی ہے۔ 
ہندوستان میں بھی ایسا نہیں کہ کوئی رفع یدین نہیں کرتا ہے؛ بلکہ ایک تعداد رفع یدین کر نے والوں کی ہے۔ البتہ رفع یدین کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں۔ایک تو سنت سمجھ کر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تحقیق پر اعتماد کرکے رفع یدین کرتے ہیں۔ 
دوسرے چنٹو پنٹو پلمبر بھٹیارا کی پتلون میں رکھی ہوئی حدیث کے عنوان سے ہندی اردو میں پرچے پڑھ کر علماء اور حدیث سے گلو خلاصی اور اپنی آوارہ دماغی کے سبب رفع یدین کرتے ہیں۔ رفع یدین کرنے والے دوسری قسم کے لوگ درحقیقت دجال کے ہتھے چڑھ کر گمراہی و ضلالت کے گڑھے میں جاچکے ہیں۔ اور پہلے لوگ ناجی (نجات پانے والے) ہیں۔
رفع یدین کرنے اور نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں دونوں طرح کی روایات ہیں۔ کچھ روایات رفع یدین کرنے کی ہیں، ان حدیثوں کو سامنے رکھتے ہوے فقہ کے ماہر نامور علماء یعنی ائمہ فقہ نے نماز میں رفع یدین کو سنت قرار دیا ہے۔
اور آپ علیہ السلام کی رحلت سے قبل آخری ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبارے میں تقریبا 300 حدیثیں ایسی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری ایام میں رفع یدین نہیں فرماتے تھے۔ اس بنیاد پر فن فقہ کے ماہر امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے رفع یدین نہ کرنے کو سنت قرار دیا ہے۔ ہندوستان میں بالعموم امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی تحقیق و تدوین پر اعتماد کرنے والے زیادہ ہیں؛ اس لیے یہاں اکثر لوگ ان کی تحقیق پر اعتماد کرکے رفع یدین نہیں کرتے ہیں۔ عرب کے بعض ملکوں خصوصا سعودیہ میں دوسرے ائمہ فقہ کی تحقیق پر اعتماد کر نے والے زیادہ ہیں؛ اس لیے وہاں زیادہ لوگ رفع یدین کرتے ہیں۔
اس قسم کے سوالات ان لوگوں کی طرف سے پھیلاے جارہے ہیں، جو علماء کے باغی ہیں اور حدیث کے نام پر امت کو حدیث سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ علماء حق نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ ان سوالوں کے جو ابات لکھے ہیں؛ اس لیے راقم الحروف صرف نفسِ جواب پر اکتفا کرتا ہے۔ حوالہ وغیرہ کبھی بعد میں تحریر کیا جائے گا۔ اگر کسی کو جواب میں کسی زاویے سے اطمینان نہ ہو تو اختلاف رکھنے والے کسی عالم کو ہمارے پاس لے آئے اور اصل کتب حدیث سامنے رکھ کر رفعِ یدین اور ترکِ رفعِ یدین، اسی طرح لفظ اہل حدیث کی حقیقت اور ائمہ اربعہ کی ضرورت اور عظمت پر بات کروں گا۔ فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبه: محمد اشرف قاسمی 
خادم الافتاء شہر مہدپور،اجین ایم پی
۳۰ جمادی الاول ۱٤٤٠ھ
6؍ فروری 2019ء
ashrafgondwi@gmail.com
ناقل: محمد توصیف صدیقی قاسمی
معین مفتی و منتظم گروپ:
دارالافتاء شہر مہدپور

Tuesday 5 February 2019

تصوف اور روحانیت ....اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں

تصوف اور روحانیت ....اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں!

اسلام میں روحانیت کا صحیح مفہوم ”قرب الٰہی“ ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت ہوتا ہے۔ اسلام میں قرب الٰہی کے حصول کا دار و مدار قرآن و سنت پر عمل کرنے میں ہے۔ انسانیت کے پاس دینی و سماوی علم کا سرچشمہ اب صرف قرآن کریم ہے اور سنت رسول ﷺ اس علم کی تشریح و تجسیم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
((تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ))(1)
ایک اور حدیث قدسی کے مطابق دین کے تین درجے ہیں:
(1) اسلام،
(2) ایمان اور
(3) احسان۔
اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے اس بات کا اقرار کرے کہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ ایما ن یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا مقصد و مفہوم انسان کے قلب میں راسخ ہوجائے اور عمل میں ڈھل جائے، بلکہ اس کی زندگی کا شعار بن جائے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
چوں می گوئم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ الا اللہ!

علامہ اقبال ؒ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہونے کا اقرار کرکے مَیں احساس ذمہ داری سے کانپ اٹھتا ہوں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ لا الہ الااللہ کا اقرار کرکے کیا کچھ عمل کرنا پڑتا ہے اور کیا چھوڑنا پڑتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ اسلام اور ایمان انسان کے عمل میں حسن کے ساتھ ظاہر ہوں اور جھلکتے ہوئے نظر آئیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ روحانیت کا تعلق مرتبہ احسان میں مسلسل ترقی کرتے رہنے سے ہے، ایک انسان کی زندگی جیسے جیسے مرتبہ احسان میں آگے بڑھتی جاتی ہے، اس کی روحانیت میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا جاتا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روحانیت کے اصل ماڈل اور ماہتاب کامل ہیں، خود اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں کے لئے نبی اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بہترین نمونے قرار دے دیا اور اسی نمونہ کو اپنانے اور اس کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔
(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ  كَثِيرًا)
صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین جنہوں نے رسول اللہ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بہترین نمونے کو اپنایا اور اسی راہ راست پر چلتے ہوئے اپنی جانیں تک قربان کردینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے، جن کی زندگیوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن ستاروں (اصحابی کالنجوم) (2)کی مانند قرار دیا اور فرمایا کہ جو میرے صحابہ ؓ کی زندگیوں کو اپنائے گا، وہ راہ راست پر ہوگا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بلاشبہ تصوف اور روحانیت کی معراج پر تھے۔ تمام صحابہ ؓ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کی جائے ہدایت پالی جائے گی۔
دوسری اور تیسری صدی ہجری کے تابعین اور تبع تابعین جن میں امام حسن بصری، ابراہیم ادھمؒ، فضیل بن عیاضؒ، معروف کرخیؒ، سفیان ثوری، جنید بغدادیؒ، ابو طالب مکی ؒ اور چھٹی صدی ہجری کے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ جیسے بزرگ، جن کو تمام صوفیاء اپنے مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں، اسلام کے شیوخ ہیں۔ یہ سب حضرات اہل علم تھے، کتاب و سنت کے پابند تھے، نہایت صالح، صلح کل، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر زور دینے والے اور اکل حلال (حلال روزی کماکر کھانے) کی تلقین کرتے تھے۔باطن کی صفائی پر زور دیتے تھے اور تکبر اور غرور والوں سے ہمیشہ دور رہنے والے تھے۔ یہ حضرات علمی لحاظ سے بھی ممتاز تھے اور اپنے علم کے مطابق عمل کے لحاظ سے بھی۔ ان حضرات نے تقرب الہٰی کے مسنون طریقوں کا اہتمام کیا اور عبادت الٰہی اور حسن عمل کے بہترین نمونے پیش کئے۔ انہوں نے تقرب الٰہی کے وہی طریقے اپنائے جن کا ذکر قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے۔ یہ حضرات اپنی انفرادی کوششوں سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو منور رکھتے اور فکر آخرت کے دیپ جلاتے رہے۔ یہ سب شیوخ زہد وتقویٰ میں یگانہ روزگار اور دین کی گہری بصیرت رکھنے والے تھے۔
چوتھی صدی ہجری میں فقہائے اسلام اور محدثین کرام نے بعض صوفیاء کی کچھ حرکتوں کو خلاف قرآن و سنت پاکر ان سے سخت اختلاف کیا۔ بعض صوفیاء نے کئی خلاف شریعت باتیں کیں، مثلاً حسین ابن منصور حلاج نے انا الحق (میں ہی حق ہوں) کا نعرہ مستانہ بلند کردیا۔ کسی کو خط لکھا تو اس طرح شروع کیا کہ:
”یہ خط ہے رحمان اور رحیم کی طرف سے“
کسی نے کہا کہ تم نے ربوبیت کا دعویٰ کردیا ہے تو حلاج نے جواب دیا کہ مَیں نے دعویٰ نہیں کیا، البتہ یہ وہ چیز ہے جو ہم صوفیوں کے نزدیک ”عین الجمع“ سے تعبیر کی جاتی ہے۔
افسوس ہے کہ بعد کے زمانوں میں علم اور اخلاق کے زوال سے جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں، تصوف کے پاک چشمے کو بھی گندا کردیا گیا۔ لوگوں نے گمراہ قوموں سے طرح طرح کے فلسفے سیکھے، یونانی فلسفے کی کئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، تصوف کے نام سے ان فلسفیانہ مباحث کو بھی شامل کردیا گیا، ایران کی زردشتی تہذیب کے کچھ مظاہر کا اثر قبول کرلیا گیا، ہندوانہ تہذیب کا بھی اثر ہوا، عجیب عجیب قسم کے عقیدوں اور طریقوں پر تصوف کا نام چسپاں کردیا گیا، جن کی کوئی اصل قرآن و حدیث میں نہیں ہے، پھر اس قسم کے لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو شریعت کی پابندیوں سے بھی آزاد کرلیا، طریقت کے نام پر نیا راستہ اختیار کرلیا اور یہ گمراہ کن دعویٰ بھی کردیا کہ تصوف کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اس قسم کی لغویات اکثر جاہل صوفیوں سے سننے میں آتی ہیں۔
اسلام میں ایسے کسی تصوف کی گنجائش نہیں جو شریعت کے احکام سے بے تعلق ہو۔ کسی صوفی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نماز، روزے، حج اور زکوٰة کی پابندی سے خود کو آزاد قرار دے یا دوسروں کو آزادی کے سرٹیفکیٹ بانٹتا پھرے۔کوئی صوفی ان قوانین کے خلاف عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا جو معاشرت اور معیشت، اخلاق اور معاملات، حقوق و فرائض اور حلال و حرام کی حدود کے متعلق اللہ اور اس کے رسول 
صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں اور جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
تصوف تو دراصل خدا اور رسول 
صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، بلکہ عشق کا نام ہے۔ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بال برابر بھی انحراف نہ کیا جائے، پس اسلامی تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لانے اور اطاعت میں اللہ کی محبت اور اس کے خوف کی روح بھر دینے ہی کا نام تصوف ہے۔
صوفیاء نے سلوک کی منازل طے کروانے کے لئے تین درجے مقرر کئے۔
(1) فنا فی الشیخ
(2) فنا فی الرسول
(3) فنا فی اللہ
فنا فی الشیخ ہونے کے نام پر بہت سی بدعات کو رواج دیا گیا۔ میرے خیال میں حدیث قدسی میں دین کے جو تین درجے اسلام ایمان اور احسان بیان کئے گئے ہیں، انہی کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اسلام اور ایمان کے بعداحسان کے درجے میں تکمیل کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ علامہ اقبال ؒ فقر کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
فقر جوع و قص و عریانی کجا است
فقر سلطانی است رہبانیت کجا است

یعنی فقر بھوکا رہنا، ناچنا یا ننگے ہوجانا نہیں ہے، فقر تو حکمرانی ہے، رہبانیت یعنی ترک دنیا نہیں ہے .... فقر کے بارے میں حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒکہتے ہیں، فقر کی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں، بلکہ دل کو دنیا کی محبت سے خالی اور رغبت سے بے نیاز کرنا ہے، اس کے پاس سرے سے خواہ کچھ بھی موجود نہ ہویا اس کے پاس دنیا کے سارے اسباب ہی موجود کیوں نہ ہوں دونوں میں سے کسی حالت میں اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے۔ پس ذات خداوندی کے ماسوا دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے، فقر کی اصل عزت یہ ہے کہ اس کے تمام اعضاء و جوارح خدا کی نافرمانی سے محفوظ ہوں“۔
ایک حقیقی صوفی کی مثال جنگلی بطخ کی سی ہے جو پانی میں رہتی ہے، مگر اس کے پر گیلے نہیں ہوتے، یعنی حقیقی صوفی ترک دنیا کی بجائے دنیا کے اندر رہتے ہوئے اس کی آلائشوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
بعض لوگ آنحضور 
صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت سے قبل غار حرا میں جانے کے واقعہ کو بنیاد بناکر تقرب الٰہی کے لئے رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے اور تارک الدنیا ہونے کی دلیل دے کر شریعت کی پابندیوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا نہیں کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فطرت سلیم کی بدولت اس وقت کے عرب معاشرے میں پائی جانے والی بدترین خرابیوں، عبادت کے نام پر ہونے والے ننگے ہوکر طواف کرنے اور جھوٹ، مکر و فریب، شراب نوشی اور گناہ پر اترانے والے معاشرے سے نکل کر غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور کئی کئی گھنٹوں، بلکہ دنوں تک دنیا کے خالق ومالک اور ذات باری تعالیٰ کی ہستی پر غور و خوض اور فکر وسوچ و بچار کرتے اور اللہ سے ہدایت طلب کرتے رہتے تھے،لیکن جب انہیں نبوت عطا فرمادی گئی اور غار حراء میں حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور آپ سے کہا کہ "وما أقرأ؟"(3) یعنی پڑھئے! اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
"ما أنا بقارئ"(4)
جبرائیل نے اللہ تعالی ٰ کی طرف سے آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ اقراء کی پہلی پانچ آیات کی وحی پہنچادی تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب ہدایت دیدی گئی اور اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت اور آخرت کے عقیدے کی دعوت دو، اس کے مطابق فیصلے کرو اور لوگوں کی زندگیوں کو اس نور سے منور کرو، مولانا الطاف حسین حالی کے الفاظ میں:
نکل کر حراسے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کردکھایا
اب قرآن کریم اور آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ مبارک ہی قرب الہٰی کے حصول کا اصل سرچشمہ ہے، اس سے دور جاکر کوئی شخص اللہ کے مقرب بندوں میں شامل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی تصوف اور روحانیت کے مدارج اسلام اور ایمان کے مطابق عمل صالح اور احسان کے درجے کی تکمیل ہیں۔
------------------------
(1) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: (تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم) رواه الإمام مالك وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى اله عليه وآله وسلم خطب في حجة الوداع فقال: (إني تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً: كتاب الله وسنة نبيه) صححه الحاكم. وروى مسلم رحمه الله من خطبته صلى الله عليه وآله وسلم قوله (وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده ان اعتصمتم به كتاب الله وانتم تُسأَلون عني فما أنتم قائلون؟، قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأديت ونصحت، فقال باصبعيه السبابة يرفعها إلى السماء، وينكتها إلى الناس: اللهم اشهد، اللهم اشهد، ثلاث مرات). وعن زيد بن أرقم رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي احدهما اعظم من الآخر كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض، وعترتي أهل بيتي، ولن يتفرقا حتى يردا على الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما. رواه الترمذي والله تعالى أعلم.
-----------------------
(2) مذکورہ حدیث الفاظ کے اختلاف لیکن معانی کی یکسانیت کے ساتھ درج ذیل کتب میں منقول ہے: 
ابن عبد البر کی جامع بیان العلم وفضلہ صفحہ 895،
ابن حزم کی الاحکام جلد 6 صفحہ 244،
خطیب کی الکفایۃ فی علم الروایۃ صفحہ 48،
بیہقی کی المدخل صفحہ 152
دیلمی کی فردوس جلد 4 صفحہ 75 اور دیلمی ہی کی مسند جلد 2 صفحہ 190
تاریخ ابن عساکر جلد 19 صفحہ 383
-----------------------
(3) السيرة النبوية لابن إسحاق، تحقيق أحمد فريد المزيدي، منشورات دار الكتب العلمية، بيروت، ط1، 2004، ص. 167.
(4) صحيح البخاري، دار ابن كثير، دمشق بيروت، ط1، 2002، ص. 8.
==============
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_95.html

تلبیہ کا آخری وقت کب تک ہے؟

تلبیہ کا آخری وقت کب تک ہے؟

عمرہ میں احرام باندھنے کے بعد سے تلبیہ شروع کردیا جاتا ہے لیکن تلبیہ کا آخری وقت کب تک ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:
احرام باندھنے اور نیت کرلینے کے بعد سے تلبیہ پڑھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
حج میں تلبیہ جمرہ عقبہ کی رمی (دس ذی الحجہ) کرنے تک پڑھا جاتا ہے:
عن الفضل بن عباس رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبی حتی رمیٰ جمرۃ العقبۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۲۵۲، صحیح البخاري ۱؍۲۲۸)
اور عمرہ میں تلبیہ طواف شروع کرنے تک پڑھا جاتا ہے
عمرہ میں جو زائر میقات سے احرام باندھا ہو وہ استیلام کے وقت تلبیہ پڑھنا بند کردے
معتمر کے لئے تلبیہ پڑھنے کے آخری وقت کے بارے میں ائمہ حدیث کے مختلف اقوال ہیں
فقہ حنفی کے لحاظ سے معتمر طواف شروع کرنے تک تلبیہ پڑھ سکتا ہے۔
امام زیلعی نصب الرایہ جلد 3صفحہ 114 حدیث نمبر 4515 کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:

((قطع التلبية في عمرة القضاء حين استلم الحجر الأسود،
قلت‏:‏ أخرجه الترمذي ‏[‏عند الترمذي في ‏"‏باب متى يقطع التلبية في العمرة‏"‏ ص 124، وعند أبي داود في ‏"‏باب متى يقطع المعتمر التلبية‏"‏ ص 252 - ج 1، وص 253 - ج 1، وعبد الملك ابن أبي سليمان اسمه ميسرة أبو محمد، أحد الأئمة، قال ابن مهدي‏:‏ كان شعبة يعجب من حفظه، وقال ابن عيينة عن الثوري‏:‏ حدثني الميزان عبد الملك ابن أبي سليمان، وقال ابن المبارك عبد الملك ميزان، كذا في ‏"‏تهذيب التهذيب‏"‏ ص 397 - ج 6‏]‏ عن ابن أبي ليلى عن عطاء عن ابن عباس أن النبي عليه السلام كان يمسك عن التلبية في العمرة إذا استلم الحجر، انتهى‏.‏ وقال‏:‏ حديث صحيح، ورواه أبو داود، ولفظه‏:‏ أن النبي عليه السلام قال‏:‏ يلبي المعتمر حتى يستلم الحجر، انتهى‏.‏ قال أبو داود‏:‏ رواه عبد الملك بن أبي سليمان، وهمام عن عطاء عن ابن عباس موقوفًا، انتهى‏.‏ وفي إسناده محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى، وفيه مقال، ولم يصب المنذري في عزوه هذا الحديث للترمذي، فإن لفظ الترمذي من فعل النبي ـ صلى اللّه عليه وسلم ـ، ولفظ أبي داود من قوله، فهما حديثان، ولكنه قلد أصحاب ‏"‏الأطراف‏"‏ إذ جعلوها حديثًا واحدًا، وهذا مما لا ينكر عليهم، وقد بينا وجه ذلك في حديث‏:‏ ‏"‏ابدءُوا بما بدأ اللّه به‏"‏، وروى الواقدي في ‏"‏كتاب المغازي‏"‏ حدثنا أسامة بن زيد عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي عليه السلام لبى - يعني في عمرة القضية - حتى استلم الركن، انتهى‏.))
در مختار مع الشامی میں ہے:
وقطع التلبیۃ باولہا (درمختار) فی الحج الصحیح والفاسد مفرداً أو متمتعاً او قارناً ۔۔۔۔وقید بالمحرم بالحج لأن المعتمر یقطع التلبیۃ إذا استلم الحجر لأن الطواف رکن العمرۃ فیقطع التلبیۃ قبل الشروع فیہا۔ (شامي 532/3 زکریا)
عمدة القاري 21/10. معارف السنن 296/6
انوار مناسک 199. معلم الحجاج ؍106)
فتاوی ہندیہ  کے کتاب المناسک الباب الخامس فی کیفیۃ  افعال الحج جلد 1.صفحہ:248 کی عبارت:
"ويستحب أن يكون ملبّيا في دخوله حتى يأتي باب بني شيبة فيدخل   المسجد الحرام منه متواضعا خاشعا ملبيا ملاحظا جلالة البقعة  إلخ"
میں تلبیہ کے آخر وقت کا بیان نہیں ہے
بلکہ مسجد حرام میں باب بنی شبیہ سے داخلہ کے وقت بھی تلبیہ  پڑھنے کا ہی بیان  ہے، پتہ نہیں تعارض کیسے سمجھ لیا گیا! کوئی تعارض نہیں ہے، غور کرلیا جائے، مکمل عبارت میں نے نقل کردی ہے ۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_5.html>