Tuesday, 24 November 2015

بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا!

ایس اے ساگر
ان دنوں واٹس ایپ کے گروپس کی بدولت بہت سے عجیب و غریب قسم کے انکشافات منظر عام پر آرہے ہیں. انھیں میں جاوید غامدی کے عقائدو نظریات پر مشتمل بیانات بھی شامل ہیں.  انھیں سن کر امت کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا. رسالہ تحفظ کی بدولت پتہ چلا کہ یوں تو تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں جنم لینے والے بہت سے فتنوں مثلا خوارج، روافض، معتزلہ، باطنیہ، بہائیہ، بابیہ، دیابنہ، قادیانیت، اور منکرین حدیث وغیرہما ذالک کی طرح ہمارے ہاں چند برس پیشتر ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے جو دراصل تجدد پسندی کی کوکھ سے برآمد ہوا ہے مگر جس نے اسلام کے متوازی ایک مذہب کی شکل اختیار کرلی ہے اس فتنہ  کا نام ہے غامدیت.
تجدد پسند گروہ :
یہ دور حاضر کاایک تجدد پسند گروہ Miderbusts ہے۔ جس نے مغرب سے مرعوب و متاثر ہوکر دین اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کیلئے  قرآن و حدیث کے الفاظ کے معانی اور دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ برصغیر ہند، پاک میں اس فتنے کی ابتدا سرسید احمد خان نے کی۔ پھر ان کی پیروی میں دو فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ان میں سے ایک سلسلہ عبداﷲ چکڑالوی اور شیخ اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز تک پہنچتا ہے۔ دوسرا سلسلہ حمید الدین فراہی اورشیخ امین احسن اصلاحی سے گزرتا ہوا جناب جاوید احمد غامدی تک پھیلتا ہے۔ گویا یہ دونوں فکری سلسلے ’دبستان سرسید‘ کی شاخیں اور برگ و بار ہیں اور ’ نیچریت‘ کے نمائندہ ہیں۔ اگرچہ پرویز صاحب اور غامدی صاحب کا طریقہ واردات الگ الگ ہیں۔تاہم نتیجے کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں ۔دونوں تجدد، انکار حدیث، الحاد اور گمراہی کے علم بردار ہیں۔ دونوں اجماع امت کے مخالف اور معجزات کے منکر ہیں۔ یہ دونوں حضرات فاسد تاویلوں کے ذریعہ اسلامی شریعت میں تحریف و تبدیل اور ترمیم وتنسیخ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مسٹر غامدی صاحب بھی اسی گروہ کا ایک نمائندہ فرد ہے جس نے دور حاضر میں تجدد اور انکار حدیث کی نئی بنیاد ڈالی ہے اور اپنے چند خود ساختہ اصولوں کو تحقیق کے نام سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔
مسٹر غامدی صاحب احادیث صحیحہ کے انکار کے ساتھ ساتھ قرآن کی مصنوعی تحریف کرنے کے بھی عادی ہیں. اگرچہ غامدی اپنے حلقہ میں بزعم خود ’امامت‘ کے درجے کے قریب تر ہونے کے وہم میں مبتلا ہیں، اسی بناء پر اکثر تبصرے اور اختلافی مضامین خواہ وہ لکھیں یا لکھوائیں، ان کے حاشیہ نشینوں کے نام سے شائع ہوتے ہیں جس میں وہ غامدی صاحب کو ’استاذ محترم‘ ہی لکھتے ہیں‘ (ماخوذ ’مکالمہ بین المذاہب‘ صفحہ  251 تا 252)
غامدی صاحب کے نزدیک پوری امت میں سے صرف دو ہی ’علماء‘ (ان کے زعم میں) ان کے ممدوح ہیں جن کو وہ ’آسمان‘ کا درجہ دیتے ہیں، جبکہ باقی علمائے امت کو وہ ’خاک‘ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب مقامات میں لکھتے ہیں کہ:
’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا، لیکن امین احسن اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ :
غالب نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت
(مقامات، ص 52-58، طبع دسمبر 2001)
اب ہم انشاء اﷲ غامدی صاحب کے نظریات باطلہ و عقائد فاسدہ ذیل کی سطور میں پیش کریں گے۔
(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں (میزان ص 32,26,25، طبع دوم اپریل 2002)
(2) سنت قرآن سے مقدم ہے (میزان ص 52، طبع دوم اپریل 2002)
غامدی صاحب کے ہاں یہ کھلا تضاد موجود ہے کہ وہ کبھی قرآن کو سنت پر مقدم مانتے ہیں، اور کبھی سنت کو قرآن سے مقدم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ قرآن کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہر شخص پابندہے کہ اس (قرآن) پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھرائے‘‘ (میزان ص 23، طبع دوم اپریل 2002)
پھر اسی کتاب (میزان) میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’سنت قرآن سے مقدم قرآن کے بعد نہیں‘‘ (ص 52)
یہاں غامدی صاحب نے دونوں مقامات پر حرف ’’پر‘‘ اور حرف ’’سے‘‘ کا مغالطہ دیا ہے، مگر یہ مغالطہ اس وقت صرف مغالطہ نہیں رہتا بلکہ ایک کھلا تضاد بن کر سامنے آتا ہے جب اسے اردو زبان کے درج ذیل جملوں کی روشنی میں دیکھا جائے۔
(1) اﷲ تعالیٰ پر کسی چیز کو مقدم نہیں ٹھہرانا چاہئے۔
(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ﷲ تعالیٰ سے مقدم ہے
کیا جو شخص اردو زبان جانتاہو، مذکورہ بالا جملوں میں کھلا تضاد نہ پائے گا؟
(3) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے (میزان صفحہ  10،65، طبع دوم)
(4) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے (میزان ص 10، طبع دوم)
غامدی صاحب مئی 1998، ماہنامہ اشراق ص 35 میں سنت کی ایک فہرست تیار کی جس میں انہوں نے 40 سنتوں پر مشتمل فہرست جاری کی (یہاں اختصار کی بناء پر وہ سنتیں لکھنے سے قاصر ہیں، ذوق والے افراد جاوید غامدی اور افکار حدیث غامدی مذہب اور اس جیسی کتابوں یا ان کی ’’کتب و رسائل‘‘ کا مطالعہ فرمائیں)
دوسری جانب اپریل 2002ء میں غامدی صاحب نے 40 سنتوں کی فہرست سے 13 سنتوں کو حذف کردیا اور صرف 27 سنتوں کی فہرست جاری کردی۔
دس برس میں 13 سنتوں کو حذف کردیا تو آئندہ 20 برسوں میں غامدی صاحب کیا ہم یہ توقع رکھیں کہ بقیہ 27 سنتیں بھی ہم سے چھوٹ جائیں گی (العیاذ باﷲ)
سنتیں جب گھٹ گئیں تو دین کامل ہوگیا
غامدی کو گوہر مقصود حاصل ہوگیا
(5) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے ہوتا ہے (میزان ص10طبع دوم)
(6) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا (میزان ص 64 طبع دوم)
(7) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں (میزان ص 48 طبع دوم)
اسلام میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ماخذ شریعت ہیں
(8) دین میں معروف و منکر کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے (میزان ص 49)
(9) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا (ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)
جھوٹے نبوت کے داعی ان کے عقائد و زعم باطلہ میں غیر مسلم نہیں
(10) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے (قانون عبادات، ص 119)
(11) اسلام میں موت کی سزا صرف دوجہ ائم (قتل نض، اور فساد فی الارض) پردی جاسکتی ہے (برہان، ص 143، طبع چہارم، جون2006)
غامدی صاحب کے نزدیک مرتد اور شاتم رسول کی سزا موت نہیں ہے
(12) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا (برہان ص 19,18، طبع چہارم)
(13) قتل خطاء میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے، یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے (برہان ص 19,18، طبع چہارم)
(14) عورت اور مرد کی دیت Blood Momey برابر ہوگی (برہان ص 18، طبع چہارم)
(15) مرتد کیلئے قتل کی سزا نہیں ہے (برہان، ص 40، طبع چہارم)
(16) شادی شدہ اور کنواری ماں زانی دونوں کیلئے  ایک ہی سزا  100 کوڑے ہیں (میزان ص 299، 300 طبع دوم)
(17) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے (برہان ص 138، طبع چہارم)
(18) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں (میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)
(19) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)
(20) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی (یا شوہر) کے حصوں سے بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا، ان کو کل ترکے کا دو تہائی 2/3 نہیں ملے گا (میزان، حصہ اول ص 70، مئی 1985) (میزان ص 168، طبع دوم اپریل 2002)
(21) عورت کیلئے  دوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں (ماہنامہ اشراق، مئی 2002ص 47)
(22) کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت، غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ (میزان ص 311 طبع دوم)
(23) بعض انبیاء کرام قتل ہوئے ہیں مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا (میزان حصہ اول، ص 21، طبع 1985)
(24) حضرت عیسٰی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں (میزان حصہ اول، 24,23,22 طبع 1985)
(25) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں (ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)
(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں) جبکہ دجال احادیث کی رو سے یہودی شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا
(26) جانداروں کی تصویریں بنانا بالکل جائز ہے (ادارہ الحورد کی کتاب ’’تصویر کا مسئلہ‘‘ ص 30)
(27) موسیقی اور گانا بجانا بھی جائز ہے (ماہنامہ اشراق، مارچ 2004 ص 19,8)
(28) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)
(29) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے (میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)
(30) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں (میزان ص 270، طبع دوم اپریل 2002)
اسلامی متفقہ عقائد اور غامدی صاحب کے عقائد باطلہ و نظریات فاسدہ کا موازنہ کریں تو غامدی صاحب کا مکروفریب واضح ہوجائے گا.
متفقہ اسلامی عقائد و اعمال سے تقابل
مزید تحقیق اور جستجو کیلئے  کتب اسلامیہ اور علمائے امت کی طرف رجوع فرمائیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے عقائد و نظریات امت مسلمہ اور علمائے اسلام کے متفقہ و اجماعی عقائد و اعمال کے بالکل متبائین (ضد) میں ہے۔ انہوں نے سبیل المومنین کو چھوڑکر غیر سبیل المومنین کا راستہ اختیار کرلیا ہے جوکہ ضلالت و بدبختی کا ایک ایسا عمیق گڑھا ہے کہ اس سے اگر اس فانی دنیا کی زندگی میں نکل گئے تو عاقبت بخیر ہے ورنہ انجام بدمنتظر۔
متفقہ اسلامی عقائد و اعمال
غامدی کے عقائدو نظریات
(1) قرآن مجید کی 7 یا 10 (سبعہ یا عشرہ) قرائتیں متواتر اور صحیح ہیں
(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں
(2) قرآن کی متشابہ آیات کا واضح اور قطعی متعین نہیں کیا جاسکتا
(2) قرآن کی متشابہ آیات کا بھی ایک اور واضح اور قطعی مفہوم سمجھا جاسکتا ہے
(3) سورہ نصر مدنی ہے
(3) سورہ نصر مکی ہے
(4) اصحاب فیل کو اللہ نے پرندوں کے ذریعے ہلاک فرمایا
(4) اصحاب فیل کو پرندوں نے ہلاک نہیں کیا، بلکہ وہ قریش کے پتھراؤ اور آندھی سے ہلاک ہوئے تھے، پرندے صرف ان کی لاشوں کو کھانے کیلئے آئے تھے
(5) اصحاب الاخدود کا واقعہ بعثت نبوی علیہ السلام سے پہلے کا ہے
(5) قرآن میں اصحاب الاخدود سے مراد دور نبوی علیہ السلام کے قریش کے فراعنہ ہیں
(6) سورہ لہب میں ابو لہب سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا مراد ہے
(6) سورہ لہب میں ابو لہب سے مراد قریش کے سردار ہیں
(7) قرآن سنت پر مقدم ہے
(7) سنت قرآن سے مقدم ہے
(8) سنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات (خاموشی تائیدیں) سب شامل ہیں اور وہ سب حضور سے شروع ہوتی ہیں
(8) سنت صرف افعال کا نام ہے۔ اس کی ابتداء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے۔
(9) سنتیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں
(9) سنتیں صرف 27 اعمال کا نام ہے
(10) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں واضح فرق ہے۔ سنت کے ثبوت کے لئے اجماع شرط نہیں
(10) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے
(11) حدیث سے بھی اسلامی عقائد اور اعمال ثابت ہوتے ہیں
(11) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا
(12) رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کیلئے  بہت اہتمام فرمایا
(12) حضور علیہ السلام نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے بھی کوئی اہتمام نہیں کیا
(13) امام ابن شہاب زہری علیہ الرحمہ ماوریت حدیث میں ثقہ اور معتبر راوی ہیں اور انکی روایت قابل قبول ہے
(13) ابن شہاب زہری کی کوئی روایت بھی قبول نہیں کی جاسکتی وہ ناقابل اعتبار راوی ہے۔
(14) دین و شریعت کے مصادر و ماخذ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس (اجتہاد) ہیں
(14) دین کے مصادر قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف بھی ہیں
(15) معروف و منکر کا تعین وحی الٰہی سے ہوتا ہے
(15) معروف و منکر کا تعین انسانی فطرت کرتی ہے
(16) جو شخص دین کے بنیادی امور یعنی ضروریات میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے تو اس کو کافر قرارد یا جاسکتا ہے
(16) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا
(17) امام کی غلطی پر عورتوں کیلئے  بلند آواز میں ’سبحان اﷲ‘ کہنا جائز نہیں ہے
(17) عورتیں بھی باجماعت نماز میں امام کی غلطی پر بلند آواز سے ’سبحان اﷲ‘ کہہ سکتی ہیں
(18) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر شدہ ہے
(18) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے
(19) اسلامی ریاست کسی چیز یا شخص کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں کرسکتی
(19) ریاست کسی بھی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرسکتی ہے
(20) بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں
(20) بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز ہے
(21) اسلامی شریعت میں موت کی سزا بہت سے جرائم پر دی جاسکتی ہے
(21) اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل نفس اور فساد فی الارض) پر دی جاسکتی ہے
(22) دیت کا حکم اور قانون ہمیشہ کے لئے ہے
(22) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا
(23) قتل خطا میں دیت کی مقدار تبدیل نہیں ہوسکتی
(23) قتل خطا میں دیت کی مقدار تبدیل ہوسکتی ہے
(24) عورت کی دیت، مرد کی دیت سے آدھی ہے
(24) عورت اور مرد کی دیت برابر ہے
(25) اسلام میں مرتد کیلئے قتل کی سزا ہمیشہ کیلئے ہے
(25) اب مرتدکی سزائے قتل باقی نہیں ہے
(26) شادی شدہ زانی کی سزا از روئے شریعت سنگسار کرنا ہے
(26) زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ، دونوں کی سزا صرف 100 کوڑے ہیں
(27) چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا صرف سنت سے ثابت ہے
(27) چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا قرآن سے ثابت ہے
(28) شراب نوشی کی شرعی سزا ہے جو اجماع کی رو سے 80 کوڑے مقرر ہیں
(28) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے
(29) حدود کے جرائم میں عورت کی شہادت معتبر نہیں ہے
(29) عورت کی گواہی حدود کے جرائم میں بھی معتبر ہے
(30) کوئی کافر کسی مسلمان کا کبھی وارث نہیں ہوسکتا
(30) صرف عہد نبوی کے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے وارث نہیں ہوسکتے
(31) میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں ہوں تو ان کو کل ترکے کا دو تہائی (2/3) حصہ دیا جائے گا
(31) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی کو شوہر کے حصوں سے بچا ہوا ترکے کا دو تہائی (2/3) حصہ ملے گا۔
(32) سور نجس العین ہے۔ لہذا اس کی کھال اور دوسرے اجزاء کا استعمال اور تجارت حرام ہے
(32) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال ممنوع نہیں ہے
(33) عورت کیلئے  دوپٹہ اور اوڑھنی پہننے کا حکم قرآن کی سورۂ النور آیت 31سے ثابت ہے
(33) عورت کیلئے  دوپٹہ پہننا شرعی حکم نہیں ہے
(34) کھانے کی بہت سی چیزیں حرام ہیں مثلا کتا، بلی، پالتو ، گدھے کا گوشت وغیرہ
(34) کھانے کی صرف (4) چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اﷲ کے نام کا ذبیحہ
(35) ازروئے قرآن بہت سے نبیوں اور رسولوں (دونوں) کو قتل کیا گیا
(35) کئی انبیاء قتل ہوئے مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا
(36) حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان پر زندہ اٹھالئے گئے، وہ قرب قیامت دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے
(36) عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں
(37) یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی دو الگ الگ نشانیاں ہیں، احادیث کی رو سے دجال ایک یہودی شخص ہوگا جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا
(37) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں
(38) جہاد و قتال ایک شرعی فریضہ ہے
(38) جہاد وقتال کے بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے
(39) کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کا حکم ہمیشہ کے لئے ہے اور مفتوح کفار(ذمیوں) سے جزیہ لیا جاسکتا ہے
(39) کافروں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ نہیں لیا جاسکتا
(40) قرآن کے ناموں میں سے میزان کوئی نام نہیں ہے
(40) قرآن کا ایک نام میزان بھی ہے
جاوید احمد غامدی صاحب کے چند مزید عقائد و نظریات باطلہ
1۔ عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق مئی 2005،ص 35 تا 45)
2۔ عورت نکاح خواں بن سکتی ہے (حوالہ اس کی ویب سائٹ کا ہے جو آئندہ دیا جائے گا)
3۔ مردوں کا داڑھی رکھنا دین کی رو سے ضروری نہیں
4۔ ہندو مشرک نہیں ہیں
5۔ مسلمان لڑکی کی شادی ہندو لڑکے سے جائز ہے
6۔ ہم جنس پرستی ایک فطری چیز ہے، اس لئے جائز ہے
7۔ اگر بغیر سود کے قرضہ نہ ملتا ہو تو سود پر قرضہ لے کر گھر بنانا جائز اور حلال ہے
8۔ قیامت کے قریب کوئی امام مہدی نہیں آئیگا (ماہنامہ اشراق جنوری 1996، ص 60)
9۔ امریکہ، افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہے (انٹرویو زندگی)
10۔ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا نہیں، اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے (اشراق جولائی 2003، اور اشراق مئی، جون 2004ئ)
11۔ تصوف اسلام سے الگ ایک متوازی دین ہے (برہان ص 188، طبع جون 2006)
12۔ مسلمانوں کے تمام صوفیاء غیر مسلم ہیں (برہان ص 188، طبع جون 2006)
13۔ اقامت دین یعنی دین کو قائم کرنے اور دین شریعت کا نفاذ کرنے کا کوئی شرعی حکم موجود نہیں (برہان ص 147، طبع جون 2006)
غامدی صاحب کے نزدیک رویت ہلال (چاند دیکھ کر روزہ و عید کرنے کا حکم کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مہینے کی تعین کے لئے چاند دیکھنے کو لازم نہیں کیا گیا۔ علم کی ترقی نے یہی صورت 29 کے بارے میںبھی پیدا کردی ہے۔ اب ہم پوری قطعیت کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کیلئے  چاند کی پیدائش کب ہوگی۔ گھڑی ایجاد ہونے کے بعد ہم اپنی نمازوں کیلئے  جس طرح سورج کے طلوع وغروب دیکھنے کے پابند نہیں رہے، اسی طرح قمری مہینوں کے تعین کیلئے رویت ہلال کے پابند بھی نہ رہے‘‘ (اشراق جنوری 2009، شنہ دات، ص 3، لاہور)
مذکورہ بالا حقائق میں کسی کو تردد ہو تو وہ مندرجہ ذیل کتب اور لنکس سے رجوع کرسکتا ہے.
1۔ غامدی مذہب کیا ہے… پروفیسر محمد رفیق صاحب
2۔ جاوید غامدی اور ان انکار حدیث…پروفیسر محمد رفیق صاحب
3۔ مکالمہ بین المذاہب… مولانا ولی خان مضظر
اس کے علاوہ چند ویب سائٹس جن کا ذکر اوپر کیا تھا وہ یہ ہے
www.ghamidi.org
www.urdu.understandingislam.org
ادارہ المورد جوکہ غامدی صاحب کے زیر سرپرستی میں ان کی ویب سائٹس
www.al-mawrid.org
www.tv.al-mawrid.org
www.monthly.renaissance.com
کتابوں اور سی ڈیز کے حصول اور سوال و جواب کے لئے ای میل نمبر rj.almawrid@gmail.com
info@al-mawrid.org
reery@monthly-renaissance.com
مختصر طور پر  یہ چند عقائد و نظریات باطلہ نیز اس جیسے اور کئی ایک گمراہ کن عقائد جاننے کیلئے   ان کی کتابوں اور بیانات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ گویا کہ غامدی صاحب  ایک ایسا گمراہ کن شخص ہے جو بہت سی باتوں میں یہ سمجھتا ہے کہ پوری امت چودہ صدیوں سے گمراہی و ضلالت میں مبتلا رہی ہے۔ قرآن کے کئی ایک فیصلوں کو نہ ماننا احادیث کا انکار اور اس کو دلیل وحجت نہ ماننا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ رکھنا کہ وہ فوت ہوگئے وغیرہ اس میں شامل ہیں. آج جناب غامدی صاحب، مغربی ایجنسیوں، این جی اوز، قادیانیت اور میڈیا کی پشت پناہی میں امت مسلمہ کو ان کے عقائد حقہ سے پھیرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں.
غامدی صاحب کا یہ فتنہ دراصل سرسید احمد خان کے فتنے کا نتیجہ ہے جس کا آغاز تو سرسید احمد خان نے کیا پھر چند مزید افراد اس باطل عقائد کو لے کر آگے بڑھے۔ پھر غلام احمد پرویز صاحب نے اس کو خوب پروان چڑھایا اور غامدی جی (بزعم خود امام الوقت) نے اس کو ضلالت و گمراہی کی آخری انتہا کو پہنچا دیا۔ جدیدیت Modernity کے نام سے پھیلایا جانے والا فتنہ فتنہ ہزار رنگ ہے۔ جو قادیانیت، پرویزیت، مغربیت، تجدد، اور اعتدل پسند روشن خیالی Enlightened Moderation جیسے عناصر کا مرکب ہے جس میں مسلمہ دینی امور کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط تاویلات ہیں۔ قرآن مجید و برہان رشید کی مصنوعی تحریف ہے۔ جس کے عقیدے میں قرآن کی ایک قرأت کے سوا باقی قرأتیں باطل ہیں۔ جس میں حدیث و سنت کا استخفاف و انکار ہے۔ دینی اصطلاحات کے مفاہیم بدلنے کی سازش ہے۔ مسلمات دین اور اجماع امت کا انکار ہے۔ علمائے امت کی تحقیر ہے۔ مغربی گندی تہذیب کو اسلام کے لبادے میں پیش کرنے کی ناپاک جسارت ہے۔ مسلمان عورتوں کے لئے پردے کا انکار اور اور شراب نوشی پر سزا کا انکار اور مجسمہ سازی Sculptures اور موسیقی گانے بجانے کا جواز ہے پھر چونکہ اس فتنے کو سرکار (حکومت وقت) این جی اوز میڈیا اور یہود ونصاریٰ کی پشت پناہی حاصل ہے، لہذا علمائے امت کا دینی، سماجی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ اس فتنے کے سدباب کے لئے کوششیں کی جائیں۔ تاکہ امت مسلمہ بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص اس فتنے کی نذر نہ ہوجائے اور اس فتنے کو معمولی سمجھ کر ہرگز نظر انداز نہ کریں۔ ایسے میں ہر فرد امت کیلئے ضروری ہے کہ وہ تادم مرگ ایمان کامل کیساتھ ، ہدایت طلب کر ے ، سرکشوں، بدمذہبوں کی صحبتوں اور ان کے وار، مکرو  فریب سے پناہ مانگے ۔ اگر ہدایت ایسے افراد کا مقدر ہے تو جلد انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرمادے بصورت دیگر  انہیں ان کے انجام بد تک پہنچائے !

No comments:

Post a Comment