Thursday 26 January 2017

تپ دق؛ تیزی سے پھیلتا ہوا مرض

متین خان

تپ دق جسے عام طور پر ٹی بی بھی کہہ دیتے ہیں، دراصل ایک قدیم ترین مرض ہے۔ یہ مرض عام طور پر غریبوں میں پایا جاتا ہے اور پسماندہ علاقوں اور جھگی جھوپڑیوں میں پنپتا ہے. یہاں کے مکینوں میں پائی جانے والی یہ بیماری قابل علاج تصور کی جاتی ہے. یہ متاثرہ شخص کے کھانسنے اور چھینکنے سے دیگر افراد میں بھی منتقل ہوجاتی ہے ۔
1921ء کے دوران پیرس میں پہلی بار ٹی بی کا حفاظتی ٹیکہ بی سی جی استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگر ادویات دریافت ہوتی گئیں اور اس پر پوری طرح قابو پالیا گیا جس کے نتیجے میں یہ بیماری قابل علاج قرار دی گئی۔ 1950 سے 1990تک ٹی بی کی شرح میں واضح کمی دیکھی گئی لیکن ایچ آئی وی یا ایڈز  پھیلنے کے بعد ٹی بی کی شرح میں یکایک اضافہ دیکھنے میں آیا. چالیس برس تک دبے رہنے کے بعد ٹی بی نے پھر سے سر اٹھالیا۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق  بائیس ممالک میں رپورٹ کئے گئے ٹی بی کے کیس جن میں سے 60 فی صد کا تعلق مغربی بحر الکاہل، چین، آسٹریلیا، ہانگ کانگ، کمبوڈیا  اور جنوب مشرقی ایشیا وغیرہ سے سے ہے ۔ ٹی بی کے سب سے زیادہ نئے کیسز افریقی ریاست میں رپورٹ ہوئے ہیں ۔ تشویشناک بات یہ کہ کوئی ملک ایسا نہیں جہاں ٹی بی کے مریض موجود نہ ہوں۔
مرض سے بچاؤ اور علاج سے پہلے اس مرض سے متعلق چند حقائق کا جاننا اہم اور ضروری ہے.
قوت مدافعت کی کمزوری ٹی بی کی وجوہات میں سب سے  اہم وجہ ہے جن افراد کا نظام مدافعت کمزور ہو ایسے افراد ٹی بی سے جلد متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی موت اکثر ٹی بی کے سبب ہوتی ہے ۔تمباکو اور سگریٹ نوشی دیگر نقصان کے علاوہ بالخصوص مدافعتی نظام کمزور کرنے کا سبب ہے. دنیا میں اب تک پوری طرح ٹی بی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے.
ٹی بی کی ابتدائی علامات میں مسلسل بخار رہنا، کھانسی اور منہ سے خون آنا اور ساتھ ہی ہروقت تھکاوٹ محسوس ہونا
قابلَ علاج ہونے کے باوجود اسکا علاج مشکل ترین ہوتا ہے، اس مرض میں ابتدائی علاج کے طور پر بھی کئی مہینوں تک اینٹی بیوٹک کا کورس کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ شخص اگر ذیابیطس کا مریض ہے تو علاج اور پیچیدہ ہوجاتا ہے. چوں کہ ذیابیطس کے سبب مدافعتی نظام بھی کمزور ہو جاتا ہے. اسی لئے پیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری عام افراد کی بنسبت ذیابیطس کے مریض پر ٹی بی بآسانی حملہ آور ہو سکتی ہے۔
اس وقت ٹی بی یا تپ دق  ایچ آئی وی یعنی ایڈز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتا ہوا مرض وبائی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تپ دق کے باعث ہونے والی اموات کی تعدا د ایچ آئی وی کے علاوہ تمام وبائی امراض میں سب سے زیادہ ہے ۔
کچھ برسوں میں ٹی بی کے مریضوں میں بڑی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک سال میں ٹی بی کے باعث 11 لاکھ افراد جاں بحق ہو ئے جبکہ ایڈز کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ ہے جن میں سے زیادہ تر افراد ایسے ہیں جو ایڈز کے ساتھ ساتھ ٹی بی کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔ ایچ آئی وی یا ایڈز کی وجہ سے انسانی ایمون سسٹم یا مدافعتی نظام تباہ ہونے لگتا ہے اور اس کے نتیجے میں ٹی بی کے کیسز میں اضافہ ہوتا ہے۔
اینٹی ٹیوبرکلوسس ڈرگ رزسٹنس صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے.
ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی ایک مخصوص قسم کا ٹی بی انفکشن ہے جو ٹی بی کی دو انتہائی ضروری اور اہم ادویات ریفامپسین RMP اور آئسونائزڈ INH کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی کے مریض دنیا کے ہر کوشے میں ہیں ۔ ڈاکٹرز ان جراثیم کے جسم میں بننے کا سبب ٹی بی کی ادویات کے غیر ضروری یا نامناسب استعمال یا نامکمل علاج کو ٹھہراتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جس میں ٹی بی کے جراثیم ہوں وہ بیمار ہو.
ایل ٹی بی آئی:
یہ وہ جراثیم ہے جو پیدا تو جائے لیکن جسم میں ٹی بی کی علامات ظاہر نہ کرے تو یہ لیٹنٹ ٹی بی انفکشن کہلاتا ہے.
متاثرہ شخص نہ خود بیمار ہوتا ہے اور نہ ہی اسککی وجہ سے کوئی دوسراشخص متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ٹی بی کی دوسری اقسام میں ہے کہ مریض کے ساتھ دوسرے لوگ بھی متاثر ہوسکتے ہیں لیکن ایل ٹی بی آئی میں ایسا نہیں ہوتا ہے لیکن  متاثرہ شخص وقتی محفوظ ہے مستقبل میں ٹی بی کا شکار ہونے کا قوی خدشہ ہے.
ٹی بی کے خاتمے کے لئے بروقت اور مکمل علاج بے حد ضروری ہے ٹی بی کا علاج ادھورا چھوڑنا بے حد خطرناک ہوسکتا ہے۔ ادویات کا کورس بیچ میں چھوڑد دینے کے باعث ٹی بی کے جراثیم ادویات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں  اسکے بعد ان پر ان دواؤں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
اگر مریض ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی میں مبتلا نہ ہو تو علاج کے لئے ایک وقت میں ایک ہی قسم کی ادویات کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اس وقت ٹی بی کی کئی قسم کی دوائیں دستیاب ہیں اگر مریض ملٹی ڈرگ رزسٹنٹ ٹی بی میں مبتلا ہو تو اسے دو یا تین قسم کی اینٹی بیوٹک دی جاتی ہیں۔
مختصر یہ کہ ٹی بی ایک قابل علاج مرض ہے لیکن طویل علاج اور پرہیز اکثر انسان کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیتا ہے .ادویات کی پابندی اور مثبت فکر کے ساتھ علاج کروایا جائے تو ٹی بی کے مرض سے مکمل طور پر نجات حاصل ہوجاتی ہے ۔

متین خان
(ایڈیٹر پیغام میڈیا)
  mateenkhan@live.in

Wednesday 18 January 2017

تعزیت کا اسلامی طریقہ

تعزیت مسنونہ، تعزیتی اجلاس کا ثبوت، طعام میت
اور
سوگ میں خموشی 

اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے ۔اس میں زندگی کے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے ۔کسی بھی دوسرے مذہب اور تہذیب وتمدن سے کچھ لینے اور خوشہ چینی کی ضرورت نہیں۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر 208 مسلمانوں سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ بہت ہی عام ہے کہ اسلامی عقائد واعمال اور احکام وتعلیمات کی صداقت وحقانیت پہ دل ودماغ بھی مطمئن ہو اور اعضاء وجوارح بھی عملی ثبوت پیش کریں۔

یہ حقیقت مسلم ہے کہ یہ دنیا رنج وراحت کا الگ الگ انداز رکھتی ہے۔
یہاں آرام وخوشی کے ساتھ دکھ ورنج بھی ہے۔غمی کے ساتھ شادمانی بھی ہے۔تلخی کے ساتھ شیرینی بھی ہے۔سردی کے ساتھ گرمی بھی یے۔
خوشی اور مسرت وشادمانی کے موقعوں پر مبارکباد دینا "تہنیت " ۔اور غم کے موقعوں سے مصیبت زدہ کے غم میں شریک ہونا ۔اسے تسلی دینا صبر دینا ماتم پرسی کرنا دلاسہ اور ہمت دلانا "تعزیت " کہلاتا ہے۔
معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں "تعزیت وتہنیت"
کی تشفی بخش ھدایات موجود ہیں ۔یہاں تفصیل کا موقع نہیں
صرف اس قدر عرض ہے ہر صاحب ایمان بندے کے لئے تعزیت ونصیحت اور تسلی وتشفی دینا "سنت " ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت کے رواج یافتہ تمام ماتمی رسومات ختم فرماتے ہوئے انسانی فطری غم کے اظہار کے لئے تعزیت کا مسنون طریقہ یہ بتایا ہے کہ موت کے بعد خواہ قبل دفن ہو یا بعد دفن۔تین دن تک میت کے تمام رشتہ داروں سے تعزیت کی جائے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ہاں عورتوں کے سلسلہ میں یہ قید ہے کہ وہ محرم ہوں۔غیر محرم عورتوں سے تعزیت درست نہیں ۔تین دن کے بعد تعزیت کرنا پسندیدہ نہیں کہ اس سے خواہ مخواہ غم تازہ ہوگا اور شکستگی اور مایوسی تازہ ہوتی جائے گی۔
البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جسکی تعزیت کی جارہی ہے وہاں موجود نہ ہو یا اسے علم نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی حرج نہیں  اور خط وکتابت کے ذریعہ بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل کے بیٹے کے انتقال پہ تعزیت نامہ لکھوایا تھا۔

عن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ أنہ مات لہ ابن، فکتب إلیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعزیہ علیہ: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ من محمد رسول اللّٰہ إلی معاذ بن جبل، سلام علیک، فإني أحمد اللّٰہ إلیک الذي لا إلٰہ إلا ہو۔ أما بعد! فأعظم اللّٰہ لک الأجر، وألہمک الصبر، ورزقنا وإیاک الشکر، فإن أنفسنا وأموالنا وأہلینا وأولادنا من مواہب اللّٰہ عزوجل الہنیئۃ، وعواریہ المستودعۃ، متَّعک بہ في غبطۃٍ وسرورٍ، وقبضہ منک بأجرٍ کبیرٍ، الصلاۃُ والرحمۃُ والہدیٰ إن احتسبتَہ فاصبِر، ولا یحبط جزعُک أجرَک فتندَمَ، واعلم أن الجزع لا یردّ شیئًا، ولا یدفع حزنًا، وما ہو نازلٌ فکان قد۔ والسلام۔ (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ / ذکر مناقب أحد الفقہاء الستۃ من الصحابۃ، معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ ۳؍۳۰۶ رقم: ۵۱۹۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت، المعجم الکبیر للطبراني / محمود بن لبید الأنصاري ۲۰؍۳۲۴ مکتبۃ الزہراء الموصل، وہٰکذا في مجمع الزوائد / باب التعزیۃ ۳؍۳ دار الریان للتراث القاہرۃ)
ولا بأس بتعزیۃ أہلہ وترغیبہم من الصبر، وفي الشامي: أي تصبیرہم والدعاء لہم بہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۱۴۷)
ونقل الطحاوي عن شرح السید: أنہ لا بأس بالجلوس لہا ثلاثۃ أیامٍ من غیر ارتکاب محظورٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ / مادۃ تعزیۃ ۱۲؍۲۸۹ کویت)

اگرمیت کے متعلقین تک خود جاکر تعزیت کا موقع نہ ہواور میت ایسی مرکزی شخصیت کی مالک ہوکہ جس کے انتقال سے بہت لوگوں کوصدمہ ہو، یابہت لوگ تعزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہو تواس کے لئے سہل صورت یہ ہے کہ ایک جلسہ کرکے تعزیت کردیجائے اس میں بڑی جماعت سفر کی زحمت سے بچ جاتی ہے اور میت کے متعلقین پرکثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتا اور مجمعِ عظیم کی متفقہ دُعاء بھی زیادہ مستحق قبول ہے، بظاہر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں؛ لیکن بہت جگہ اس نے محض رسم کی صورت اختیار کرلی ہے کہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اخبار میں نام آجائے اور ہماری شہرت ہوجائے؛ اگرہم نے تعزیتی جلسہ نہ کیا تولوگ ملاملت کریں گے وغیرہ وغیرہ؛ اگرچہ یہ صورت ہوتو پھرا س کا ترک کرنا چاہئے۔
(فتاویٰ محمودیہ:۹/۲۵۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)۔۔۔حضرت مغیرہ بن شعبہ حضرت امیر معاویہ کے عہد امارت میں کوفہ کے والی تھے۔سنہ ٥٠ہجری میں ان کا انتقال ہوا ۔ بیٹے عروہ کو عارضی طور پہ نائب بناگئے تھے تو حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کوفہ میں سب کو جمع فرمایا ۔اجتماع عام سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت مغیرہ کے اوصاف وکمالات پہ روشنی ڈالی ۔ان کے لئے استغفار فرمایا۔اور یوں تعزیتی جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا۔
58 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمْ الْآنَ ثُمَّ قَالَ اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ
صحيح البخاري. كتاب الإيمان.
باب الدين النصيحة.
وأخرجه مسلم برقم 56 و 83....والترمذي برقم 192....والنساي في سننه برقم 4156....وأحمد برقم 18671.....والدارمي برقم 2540. ).

میت اگر صاحب ایمان تھا تو تعزیت کرنے والے اس کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب  کرے۔ اور اہل میت کے لئے تسلی کے کلمات کہے اور صبر کی تلقین کرے۔
تعزیت کے الفاظ اور اس کا مضمون متعین نہیں الگ الگ اور مختلف ہے۔صبر وتسلی کے لئے جو کلمات بھی موزوں اور مناسب ہوں وہ کہے جائیں۔بہتر یہ ہے کہ یہ جملہ کہے :
ان لله ما أخذ وله ما أعطي وكل عنده بأجل مسمى .فالتصبر ولتحتسب. (جو لیا وہ اسی کا تھا اور جو دیا وہ اسی اللہ کا تھا ۔اللہ کے یہاں ہر چیز ایک معین مدت تک کے لئے ہے۔پس صبر کر اور ثواب کی امید رکھ ۔مشکوة صفحہ150۔باب البکاء علی المیت  ) ۔۔۔۔۔۔بعض حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں :
أعظم الله أجرك وأحسن عزاك وغفر لميتك. (اللہ تم کو اجر عظیم عطاء فرمائے ۔تیرے صبر کا اچھا بدلہ دے۔اور تیرے مردے کو بخش دے۔۔درمختار جلد 1۔صفحہ 843۔مطلب فی الثواب علی المعصیہ ۔
اگر میت بچہ یا مجنوں یا کوئی بھی غیر مکلف ہو تو "غفر لمیتک "نہ کہے۔
اسلام کےاعلی اخلاق واقدار کی ہی تعلیم  ہے کہ وہ غیر مسلم کی بیماری میں مزاج پرسی کو اللہ کی رضاء وقرب کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مسلم مریض کی عیادت ثابت ہے۔
فقہی کتابوں میں ان کے انتقال کے وقت ان کے رشتہ داروں کے لئے تعزیت کا جواز اور مناسب کلمات تعزیت بھی مصرح ہے۔
غیر مسلم کی تعزیت کے وقت یہ کلمات کہے جائیں:
أعظم الله أجرك وأحسن عزاك
(اس مصیبت پہ اللہ تعالی بڑا اور اچھا بدلہ دے۔۔الموسوعہ 289/12 )
اسی طرح یہ جملہ بھی آیا ہے
"أخلف آلله عليك خيرا واصلحك"
(اللہ اچھا بدلہ دے۔بعد میں اچھی صورت نکالے اور حال درست فرمائے۔۔۔محمودیہ 161/9 )

بتصریح قرآن کریم ہرگروہ اور ہر جماعت خواہ اہل حق میں سے ہو یا اہل باطل میں سے اپنی ہی مزعومات ومعتقدات اور آئیڈیالوجی میں مگن ہے۔"كل حزب بما لديهم فرحون"  (  الروم ۔32۔)۔
اس بنیاد پر اگر کسی تہذیب ومعاشرت میں اجتماعی تعزیت کے موقع سے کچھ دیر کی "خاموشی" یا موم بتیاں جلانا یا جھنڈے سر نگوں کرنا مروج ہو تو یہ اس کا " اندرون خانہ" معاملہ ہے ۔کسی کے عمل ،طریقہ اور رواج کی تحقیر وتضحیک کئےبغیر اسلامی طریقہ تعزیت پہ عمل کی کوشش کرنی چاہئے ۔ تعزیت کےیہ طریقے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔اسلامی طریقہ تعزیت سے ہٹ کے نئے نئے طریقے وضع کرنا افسوس ناک بھی یے اور اسلامی غیرت اور دینی حمیت کے خلاف بھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقہ کی پیروی کرنے لگے وہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔
اس لئے مسلمانوں کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر مسلمان خاموشی والی نوعیت میں کہیں مبتلا ہوجائے تو موقع اور حالات کے لحاظ سے کوئی پہلو یا حکمت عملی اختیار کرلے ۔۔
فتاوی رحیمیہ385/1۔۔۔۔و 84/7۔
خیر الفتاوی 219/3۔۔۔۔اسرار حیات صفحہ 154۔
ترمذی شریف 127/1۔۔۔ابن ماجہ 116۔مشکوة 150۔۔الموسوعہ الفقہیہ 289/12۔۔درمختار 843/1۔

میت کے رشتہ داروں کی طرف سے
پرتکلف کھانے کا اہتمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس کے گھر میت ہو جائے اس کے پڑوس اور دور کے رشتہ داروں کے لئے یہ حکم ہے کہ ایک دن ایک رات متوسط اور معتدل انداز کا  افراط سے پاک قدر ضرورت طعام  بناکر اہل میت کے گھر بھیجیں ۔انہیں بزور واصرار کھلائیں۔ان کے یہاں دور دراز سے نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جو مہمان آئیں گے انہیں بھی کھلائیں۔
اس طرح صرف ایک دن ایک رات کھانا بھجوانا سنت ہے ۔اس میں بھی یہ شرط ہے کہ نام نمود ریاء وشہرت سے پاک ہو ۔پرتکلف کھانے کا ایسا اہتمام نہ ہو جیسا ولیمہ کے موقع سے کیاجاتا یے۔اگر اس طرح کے انتظامات ہونگے تو پہر کھانے میں قباحت پیدا ہوگی اب تعزیت کے لئے جانے والوں کو نہ کھانا بہتر ہے۔
اس طرح کھانا بھیجنا تو جائز ہے ۔مختلف حدیثوں سے ثابت ہے۔اس کھانے کو "طعام لاھل المیت " کہتے ہیں۔
لیکن بعد دفن اسی روز یا دوسرے تیسرے چالیسویں روز اہل میت کی طرف سے لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا  "طعام میت " کہلاتاہے جو امور جاہلیت میں سے ہےبدعت ہے اور گناہ ہے۔ہاں اگر نیت ایصال ثواب کرنے کی ہو تو گنجائش ہے بشرطیکہ کھانے والے صرف فقراء ہوں ،اسراف سے پاک ہو اور تمام ورثاء کی رضامندی سے ہو .
وان اتخذ ولي الميت طعاما للفقراءكان حسنا الا ان يكون في الورثة صغير فلا يتخذ ذلك من التركة .طحطاوي على المراقي 617.
۔ہندوپاک میں یہ رسم بد درآئی ہے کہ ایام مخصوصہ میں اہل میت کی طرف سے یا رشتہ داروں کی طرف سے ولیمہ کی طرح بریانی وقورمہ جیسے پرتکلف کھانے کا انتظام نہیں بلکہ اھتمام کیاجاتا ہے ۔ جس میں امراء غرباء سب ہی شریک ہوتے ہیں حالانکہ دعوت وضیافت کا اھتمام تو خوشی کے مواقع میں ہوتا ہے مصیبت اور غم کے مواقع میں نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس طرح کے کھانوں میں نیت نام نمود کی ہوتی ہے ۔اس لئے تمام ہی فقہاء ومحدثین نے اسے ناجائز کہاہے۔ اس قسم کے کھانے سے بہر طور پرہیز کرنا چاہئے ۔
تمام جزئیات کے دلائل ملاحظہ فرمائیں :

ص: 195] بَاب صَنْعَةِ الطَّعَامِ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ
3132 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ
سنن أبي داؤد۔

( اصنعوا لآل جعفر طعاما ) : فيه مشروعية القيام بمؤنة أهل البيت مما [ ص: 312 ] يحتاجون إليه من الطعام لاشتغالهم عن أنفسهم بما دهمهم من المصيبة . قاله في النيل .

وقال السندي : فيه أنه ينبغي للأقرباء أن يرسلوا لأهل الميت طعاما ( أمر يشغلهم ) : من باب منع أي عن طبخ الطعام لأنفسهم . وعند ابن ماجه قد أتاهم ما يشغلهم أو أمر يشغلهم وفي رواية له إن آل جعفر قد شغلوا بشأن ميتهم فاصنعوا لهم طعاما .
قال ابن الهمام في فتح القدير شرح الهداية : يستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم ليلتهم ويومهم ، ويكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة انتهى .
ويؤيده حديث جرير بن عبد الله البجلي قال : كنا نرى الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة أخرجه ابن ماجه وبوب باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام ، وهذا الحديث سنده صحيح ورجاله على شرط مسلم . قاله السندي : وقال أيضا : قوله كنا نرى هذا بمنزلة رواية إجماع الصحابة أو تقرير من النبي صلى الله عليه وسلم ، وعلى الثاني فحكمه الرفع وعلى التقديرين فهو حجة .
وبالجملة فهذا عكس الوارد إذ الوارد أن يصنع الناس الطعام لأهل الميت فاجتماع الناس في بيتهم حتى يتكلفوا لأجلهم الطعام قلب لذلك : وقد ذكر كثير من الفقهاء أن الضيافة لأهل الميت قلب للمعقول لأن الضيافة حقا أن تكون للسرور لا للحزن انتهى .
قال المنذري : والحديث أخرجه الترمذي وابن ماجه ، وقال الترمذي حسن صحيح .
عون المعبود

[ص: 323] بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُصْنَعُ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ
998 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ
سنن الترمذي. كتاب الجنائز.

قوله : ( لما جاء نعي جعفر ) أي : ابن أبي طالب أي : خبر موته بمؤتة ، وهي موضع عند تبوك سنة ثمان ( ما يشغلهم ) بفتح الياء والغين ، وقيل بضم الأول وكسر الثالث ، قال في القاموس : شغله كمنعه شغلا ويضم ، وأشغله لغة جيدة ، أو قليلة ، أو رديئة ، والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم فيحصل الهم ، والضرر ، وهم لا يشعرون ، قال الطيبي : دل على أنه يستحب [ ص: 67 ] للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت . انتهى ، قال ابن العربي في العارضة : والحديث أصل في المشاركات عند الحاجة ، وصححه الترمذي ، والسنة فيه أن يصنع في اليوم الذي مات فيه لقوله صلى الله عليه وسلم فقد جاءهم ما يشغلهم عن حالهم فحزن موت وليهم اقتضى أن يتكلف لهم عيشهم ، وقد كانت للعرب مشاركات ومواصلات في باب الأطعمة باختلاف الأسباب ، وفي حالات اجتماعها . انتهى ، قال القاري ، والمراد طعام يشبعهم يومهم ، وليلتهم ، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم ، ثم إذا صنع لهم ما ذكر سن أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء ، أو لفرط جزع . انتهى ، وقال ابن الهمام : ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام يشبعهم يومهم ، وليلتهم ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم اصنعوا لأهل جعفر طعاما ، وقال : يكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت ؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور ، وهي بدعة مستقبحة . انتهى " وقال القاري : واصطناع أهل البيت الطعام لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة بل صح عن جرير رضي الله عنه كنا نعده من النياحة ، وهو ظاهر في التحريم . انتهى . قلت : حديث جرير رضي الله عنه أخرجه أحمد وابن ماجه بلفظ : قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت ، وصنعة الطعام بعد دفنه من النياحة . انتهى ، وإسناده صحيح .
تحفة الاحوذي  شرح سنن الترمذي.

6866 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنْ النِّيَاحَةِ
مسند أحمد.

بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الِاجْتِمَاعِ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةِ الطَّعَامِ
1612 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ح وَحَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ أَبُو الْفَضْلِ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنْ النِّيَاحَةِ
سنن ابن ماجة. كتاب الجنائز.

قال فی الشامی فی کتاب الوصیۃ عن آخر الجنائز من الفتح ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اہل المیت لانہ شرع فی السرور دون الشرور وہی بدعۃ مستقبحۃ ۔روی الا مام احمد عن جرید بن عبد اللّٰہ قال کنا نعد الا جتماع الی اہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ (شامی کتاب الوصیۃ ص ۴۶۴ ج۵)
واللہ اعلم بالصواب

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

Sunday 15 January 2017

چمڑے کے موزوں پر مسح

چمڑے کے موزوں پر مسح 
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
جو آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے نور سے منہ موڑے گا وہ لازما بدعت کے اندھیروں میں بهٹکتا رہے گا.   
منهاج السنة النبوية 6/442
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ المائدہ ۶ میں ارشاد فرمایا ہے:
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہرے کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھولو، اپنے سر کا مسح کرلو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک دھولو۔
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھنے سے قبل وضو کرلیا کرو جس میں چار چیزیں ضروری ہیں، جن کے بغیر وضو ہوہی نہیں سکتا۔
۱) پورے چہرہ کا دھونا۔
۲) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔
۳) سر کا مسح کرنا۔
۴) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔
اہل وسنت والجماعت کے تمام مفسرین ومحدثین وفقہاء وعلماء کرام نے اس آیت ودیگر متواتر احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا ہی شرط ہے، سر کے مسح کی طرح پیروں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے۔ لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے بعض مرتبہ پیر دھونے کی بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ  صلی الله علیہ وسلم ﮐﻮ ﻣﻮﺯﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﭘﺮ ﻣﺴﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ 162:
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے، وضو کے صحیح ہونے کے لئے دونوں پیروں کا دھونا شرط ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد (چمڑے کے ) موزے پہن لے تو مقیم ایک دن و ایک رات تک اور مسافر تین دن و تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کی بجائے (چمڑے کے ) موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرسکتا ہے، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص چمڑے کی بجائے سوت یا اون یا نایلون کے موزے پہنے ہوئے ہے تو جمہور فقہاء و علماء کی رائے ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ پیروں کا دھونا ہی ضروری ہے۔
موزوں کے اقسام:
اگر موزے صرف چمڑے کے ہوں تو اُنہیں خُفَّین کہا جاتا ہے۔ اگر کپڑے کے موزے کے دونوں طرف یعنی اوپر ونیچے چمڑا بھی لگا ہوا ہے تو اسے مُجَلّدین کہتے ہیں۔ اگر موزے کے صرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہے تو اسے مُنَعَّلین کہتے ہیں۔
جَوْرَب: سوت یا اون یا نایلون کے موزوں کو کہا جاتا ہے، اِن کو جُرَّاب بھی کہتے ہیں۔
موزے کی ابتدائی تینوں قسموں پر مسح کرنا جائز ہے، لیکن جمہور فقہاء وعلماء نے احادیث نبویہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ جراب یعنی سوت یا اون یا نایلون کے موزوں پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب ان میں ثخین (یعنی موٹا ہونے) کی شرائط پائی جاتی ہوں، یعنی وہ ایسے سخت اور موٹے کپڑوں کے بنے ہوں کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔ معلوم ہوا کہ سوت یا اون یا نایلون کے موزوں (جیساکہ موجودہ زمانے میں عموماً پائے جاتے ہیں) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
مروجہ اونی یا سوتی جرابوں پر مسح جائز نہیں:
زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھا تا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔ عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ان فتنوں میں سے ایک بڑا اور اہم فتنہ غیرمقلدیت کا ہے، جن کا کام امت کے معمول بہا اعتقادات اور اعمال کے مقابلے میں نئے اعتقادات اور اعمال مارکیٹ میں متعارف کروانا ہے۔ یہ فرقہ دعوی تو عمل بالحدیث کا کرتا ہے لیکن درحقیقت عامل علیٰ حدیث النفس ہے۔ انھوں نے اپنا سارا زور فروعی مسائل پر لگایا اور اس حد تک گئے کہ مستحب، اولیٰ وغیر اولیٰ کے اختلاف کو خِلاف کا جامہ پہنا تے ہوئے اہل السنۃ والجماعۃ کے اکثر مسائل کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا۔ من جملہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جرابوں پر مسح کرنا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے فرمایا:
یاایھاالذین امنوا۔۔ وارجلکم الی الکعبین (المائدہ: آیت6)
قرآن مجید کی اس آیت کا تقاضایہ تھا کہ وضو میں ہمیشہ پاؤں دھوئے جائیں۔ کسی بھی صورت میں ان پر مسح جائز نہ ہو، لیکن موزوں پر مسح حضور ﷺ کے اتنی قولی ،فعلی اور تقریری احادیث سے ثابت ہے جومعنیً متواتر یا کم از کم مشہور کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں پاؤں دھونے کا حکم تب ہے جب موزےنہ پہنے ہوں اور اگر موزے پہنے ہوں تو تب دوران وضو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ۔
(۱) محدث کبیر امام ابن منذرؒ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل فرماتے ہیں:
حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ ﷺ انہ مسح علی الخفین
(الاوسط لابن المنذر ج1ص430)
ترجمہ: حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
2: قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة (فتح الباری کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین)
ترجمہ: حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
(۳) حضرت ملاعلی قاریؒ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار۔ (المرقاة ج 2 ص77)
ترجمہ: حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے۔
موزوں پر مسح کے جواز اور عدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
(۱) حقیقی خفین: (چمڑے کے موزے ) ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
(۲) حکمی خفین: (وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناءپر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے، جمہور فقہاء کا فتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے۔
(۳) غیر حقیقی غیرحکمی خفین: (مروجہ اونی، سوتی یانائیلون کی جرابیں) ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں۔
(۱ ) ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
”فان کانا رقیقن یشفان الماءلایجوز المسح علیھا باجماع“ (بدائع الصنائع ج 1 ص 83 کتاب الطہارة)
ترجمہ: اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔
(۲) امام ابومحمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“ میں مسئلہ ”مسح علی الجوربین“ کے تحت فرمایا ہے:
لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر۔ (المغنی لابن قدامہ ج 1ص 377 مسئلہ 85)
ترجمہ: کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں) تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
ہر مسئلے کی طرح لامذہب فرقہ غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا۔ (نماز نبوی ص77)
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔
غیرمقلدین کے مستدلات اور ان کا جائزہ:
(۱) عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین)
(سنن ابی داود ج 1 ص 33 باب المسح علی الجوربین)
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے
(۱) 'ضعفہ کثیر من ائمة' الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
(تحفة الاحوذی ج 1 ص 346,347 باب ماجاء فی المسح علی الجوربین)
(۳) امام بیہقی ؒ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی ج1ص290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی ؒ کے حسن صحیح کہنے پر“
(تحفة الاحوذی ج1ص347)
دوسری دلیل:
عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ ﷺ توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ ج1ص186کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی۔ اس لئے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب ج 8 ص 212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی ؒاپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے۔
(میزان الاعتدال ج 5 ص 376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں۔
تیسری دلیل:
عن بلال ؓ ان رسول اللہ ﷺ یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی ج 1 ص 350 رقم 1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج 1 ص 185,186)
(۲) حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔
(تقریب ج  2  ص 365)
چوتھی دلیل:
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ ﷺ سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔ (ابوداود ج 1 ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22 پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔
(تحفة الاحوذی ج 1 ص 330)
(۲) تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔
(۱) ہانڈیاں
(۲) موزے
(۳) علماءکے سر پر ڈالنے کا کپڑا
(المنجد ص474)
لہذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔
مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابر کی رائے
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے: ”مذکورہ (اونی یا سوتی) جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں.“
(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج 1 ص 327)
(۲) دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک ) جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے۔“
(۳)غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ: ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح) نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چند صحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔لہذا خف چرمی (موزوں) کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں۔“ (زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا۔) پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں۔ لہذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اور جمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین ؒ کےعین موافق ہے، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں سنت صحیحہ کی اتباع کی توفیق نصیب. فرمائے۔
آمین
.............
سوال # 63248
(۱) کیا چمڑا کے سوا کسی اور موزے پر مسح کرنا درست ہے؟
(۲) کیا کتا کے چمڑے کو مصلی بنا سکتے ہیں؟
Published on: Jan 30, 2016 
جواب # 63248
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 300-300/B=4/1437-U
(۱) جی نہیں۔ (سوتی اور نائیلون کے موزے پر مسح درست نہیں)
(۲) دباغت کے بعد احناف کے یہاں کتے کی کھال بھی پاک ہوجاتی ہے، اس لئے اسے مصلی بناسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
......
میں نے سنا ہے کہ وضو کرکے چمڑے کے موزے پہن لئے جائیں تو دوبارہ وضو کرتے ہوئے پاوں دهونا ضروری نہیں، کیا اس کے لئے کوئی خاص قسم کے چمڑے کے موزے ہوتے ہیں یا آج کل جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں وہ بهی ٹهیک ہیں؟دوسرا سوال یہ کہ کتنے گهنٹے تک ہم بلاپیر دهوئے وضو کرسکتے ہیں؟ کیا وضو اتنے گهنٹوں تک برقرار رہے گا؟
اگر موزے مخصوص شرائط پر پورے اترتے ہوں اور پاکی کی حالت میں پہنے گئے ہوں تو پاوں دهونے کی بجائے ان موزوں پر مسح جائز ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایسے موزے جو پورے چمڑے کے ہوں یا ان کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو یا صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں:
1 گاڑھے ہوں کہ ان پر پانی ڈالا جائے تو پاوں تک نہ پہنچے.
2 اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بهی تین میل پیدل چلنا ممکن ہو.
3 سخت بهی ایسی ہوں کہ بغیر باندهے پہننے سے نہ گریں، ان پر بهی مسح جائز ہے، ان کے علاوہ اونی سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح جائز نہیں، مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے پاوں دهوکر پاکی کی حالت میں موزے پہنے جائیں، اس کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹ جانے پر وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرسکتے ہیں ، یعنی موزوں کے اوپر والے حصے پر گیلا ہاته پهیریں گے یعنی پاوں کی انگلیوں پر تر ہاته رکه کر اوپر کی طرف کهینچیں گے، مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات یعنی چوبیس گهنٹے ہیں، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں یعنی بہتر گهنٹے ہیں، یہ مدت موزے پہننے کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے، اس دوران اگر کوئی وضو توڑنے والی صورت پیش آئے تو وضو ٹوٹ تو جاتا ہے اور اسی طرح دوبارہ وضو بهی کرنا ہوگا، البتہ پیر دهونے کی بجائے ان پر مسح کرنا جائز ہوتا ہے،
واللہ اعلم
.........
مسح علی الخفین کے شرائط واحکام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭خفین طہارت کی حالت میں پہنے ہوں۔
٭خفین پیر دھونے کے بعد پہنے ہوں۔ اور حدث سے پہلے وضو مکمل ہو گیا ہو ۔
٭خفین نے ٹخنوں کو ڈھانک لیا ہو ۔
٭خفین ۳ چٹّی انگلی کے برابر پھٹے ہوئے نہ ہوں۔
٭پیروں پر بغیر باندھے ہوئے رک جانے والے ہوں۔
٭ان دونوں موزوں کو پہن کر برابر چلنے والا ہو (چلنا ممکن ہو )
٭مسح کے لئے ۳ چھوٹی انگلی کے بقدر پیر پر مسح کیا جا سکے۔
٭مسح کے لئے مسح کرنے والی انگلیاں کھول کر پیر کی انگلیوں کی طرف سے پنڈلی کی جانب کھینچنے کا طریقہ اپنائے۔
( مسح کی مدت، کب تک کیا جا سکتا ہے )
٭مقیم ایک دن رات تک مسح کر سکیگا ۔
٭مسافر ۳ دن رات تک مسح کر سکے گا ۔
٭مسح کی یہ مدت خفین کے پہننے کے وقت سے نہیں بلکہ حدث وبے وضو ی لاحق ہونے سے ہے۔
٭اگر مقیم نے مسح شروع کیا اور مدت پوری ہونے سے پہلے وہ مسافر ہو گیا تو وہ مسافر کی مدت پوری کر لے گا ۔
٭اسی طرح اگر کوئی مسافر ایک دن رات پورا کرنے سے پہلے مقیم ہو جائے تو وہ اس مدت اقامت کو پورا کرے۔
٭اور اگر کوئی مسافر ایک دن رات پورا کرنے سے پہلے مقیم ہو جائے تو وہ اپنی یہ مدت (اقامت )پوری کر لے گا ۔
( مسح علی الخفین ( موزوں کا مسح ) کب ٹوٹ جائے گا کیسے ٹوٹ جائے گا )
(۱) جو چیز یں وضو کو توڑدیتی ہیں وہی موزوں کے مسح کو بھی توڑدیں گی ۔
(۲) موزوں کو اتار دینے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا ۔
(۳) قدم کا اکثر حصہ موزوں کی پنڈلی تک آ جانے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا ۔
(۴) مسح کی مدت پوری ہو جانے سے بھی موزوں کا مسح ٹوٹ جائے گا ۔
(۵) پانی کسی ایک خف کے اکثر حصہ تک پہنچ جائے تو بھی ٹوٹ جائے گا ۔
عمامہ پر ۔ ٹوپی پر سر کے مسح کے عوض میں مسح کرنا کافی وبدل نہیں ہو گا ۔ اسی طرح دستانوں پر بھی دھونے کے عوض میں مسح کر لینا کافی نہیں ہو گا ۔
پٹّی ( زخم پر باندھی ہوئی پٹی پر بھی) مسح کیا جا سکتا ہے جبکہ پٹی کو ہٹا کر دھونا ممکن نہ ہو دشوار ہو ۔ اذیت رساں ہو ۔
اس میں پٹی کے پاک حالت میں باندھنا شرط نہیں ہے ۔
صحیح حصہ کو دھو کرپٹی والے حصہ کا مسح کر لیں گے۔
پٹی کے مسح کے لئے نیت شرط نہیں۔
پٹی گر جانے پر دوسری پٹی باندھ لیں گے اور دوسری پٹی پر مسح کر لینا اچھا ہو گا افضل ہو گا ۔
تیمم کے لئے تو نیت شرط ہے لیکن موزوں پر اور پٹی پر مسح کرنے کے لئے نیت شرط نہیں.
واللہ اعلم بالصواب

Many people who work far from home have a problem of doing Wudu in offices especially in non-muslim society. It is observed that due to laziness of doing wudu by removing shoe and socks made few few to skip thier Salah (Asthaghfirulla). Few other people do masaah on normal cotton socks. Ulema say that masaah can’t be done on cotton socks cause these obsorb the sweat, dust, water resulting in no proper Wudu. Do remember that no Wudu then no Salah. Be careful and do use only Leather (or other hard material) Socks and do masaah on them during wudu.

The right way to do masaah on leather socks is explained in video with Hadith proofs.

Masaah on Leather Socks – Right Procedure:
http://fahm-e-deen.com/masaah-on-leather-socks-right-procedure/
http://fahm-e-deen.com/masaah-on-leather-socks-right-procedure/

حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ

ایس اے ساگر
اس وقت عالم اسلام ممتاز عالم دین، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ کے انتقال پر شدید صدمہ سے دوچار ہے. دو ہفتہ میں برصغیر کے تیسرے شیخ الحدیث دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔۔
١/شيخ ثاني شيخ عبد الحق اعظمی (دار العلوم ديوبند)
٢/شيخ يوسف کاوی من غجرات (جامعہ ڈابھیل)
اور اب ٣/ شیج الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمهم الله. حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ کے انتقال پر مدینہ سے اظہار تعزیت کیا ہے. رئیس المحدثین استاد محترم حضرت مولانا مفتی خورشید عالم عثمانی رحمتہ اللہ علیہ، سابق شیخ الحدیث و مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند وقف کے درسی ساتھیوں میں سے تھے. موصولہ تفصیلات کے مطابق آپ کا انتقال 96 برس کی عمر میں ہوا جبکہ آپ تین روز سے اسپتال میں زیر علاج تھے. آپ کا آبائی تعلق پاکستان کے آزاد قبایلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے جبکہ آباواجداد تقسیم وطن سے قبل ہندوستان منتقل ہوگئے تھے. حضرت شیخ نے دینی علوم حاصل کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا. پاکستان کے جس علاقے سے ہندوستان منتقل ہوئے. آج وہ علاقہ خیبر ایجنسی میں تیراہ کے قریب چورا کہلاتا ہے۔ آپ 25 دسمبر 1926ء کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن  پور لوہاری کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے ایک خاندان ملک دین خیل سے ہے۔ حسن پور لوہاری ہمیشہ اکابرین کا مسکن و مرجع رہا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں سکونت پذیر رہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت کے مشہور خلیفہ مولانا مسیح اللہ خان صاحب کے مدرسہ مفتاح العلوم میں حاصل کی۔ 1942 میں آپ اپنے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے لئے ازہر ہند، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، جہاں آپ نے فقہ، حدیث و تفسیر و دیگر علوم و فنون کی تکمیل کی اور1947 کے دوران آپ نے امتیازی نمبروں کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے علاقے میں موجود اپنے استاد و مربی حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة الله علیہ، خلیفہ خاص حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  کی زیر نگرانی مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں تدریسی وتنظیمی امور انجام دینے شروع کئے۔  آٹھ سال تک شب وروز کی انتہائی مخلصانہ محنت کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ مدرسہ حیرت انگیز طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا اور مدرسہ کے طلبا کا تعلیمی اور اخلاقی معیار اس درجہ بلندا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں یہاں کے طلبا کی خاص پذیرائی ہونے لگی۔ مدرسہ مفتاح العلوم میں آٹھ سال کی شبانہ روز محنتوں کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدظلہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله  علیہ کی قائم کردہ پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ دارالعلوم ٹنڈوالہ یار سندھ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لئے پاکستان تشریف لے آئے۔ تین سال یہاں پر کام کرنے کے بعد آپ معروف دینی ادارے دارالعلوم کراچی میں تشریف لائے اور پھر مسلسل دس سال  دارالعلوم کراچی میں حدیث، تفسیر، فقہ، تاریخ ، ریاضی، فلسفہ اور ادب عربی کی تدریس میں مشغول رہے. اسی دوران آپ ایک سال حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمة الله علیہ کے اصرار پر جامعة العلوم الإسلامیہ بنوری ٹاؤن میں دارالعلوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف اسباق پڑھانے کے لئے تشریف لاتے رہے۔ قدرت نے آپ کی فطرت میں عجیب دینی جذبہ ودیعت فرمایا تھا جس کے باعث آپ شب وروز کی مسلسل اور کامیاب خدمات کے باوجود مطمئن نہیں تھے اور علمی میدان میں ایک نئی دینی درس گاہ جو موجودہ عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو، کی تاسیس کو ضروری خیال فرماتے تھے۔ چناں چہ 23 جنوری1967ء مطابق شوال1387ھ میں آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی۔ آپ کی  یہ مخلصانہ کوشش الله تبارک و تعالیٰ کے ہاں اتنی قبول ہوئی کہ تاسیس جامعہ کے بعد سے لے کر تادم تحریر تعلیمی وتعمیری میدان میں جو ترقی ہے وہ ہر خاص وعام کے لیے باعث حیرت ہے ۔ فللہ الحمد علی ذلک آج الحمدلله جامعہ فاروقیہ کراچی ایک عظیم دینی و علمی مرکزکی حیثیت  سے پاکستان اور بیرون پاکستان ہر جگہ معروف مشہور ہے اور یہ الله تبارک وتعالیٰ کے فضل واحسان اور حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب کی مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
وفاق المدارس سے لازوال تعلق:
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے 1980ء میں آپ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا آپ نے وفاق کی افادیت اور مدارس عربیہ کی تنظیم وترقی اور معیار تعلیم کے بلندی کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ وفاق کی تاریخ میں ایک قابل ذکر روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ کے لئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ درج ذیل ہیں:
آپ نے وفاق کے طریقہ امتحانات کو بہتر شکل دی ، بہت سی بے قاعدگیاں پہلے ان امتحانات میں ہوا کرتی تھیں انہیں ختم کیا۔ پہلے وفاق میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ آپ نے وفاق میں دورہ حدیث کے علاوہ سادسہ(عالیہ)، رابعہ،ثالثہ (ثانویہ خاصہ) ثانیہ (ثانویہ عامہ) ، متوسطہ، دراسات دینیہ اور درجات تحفیظ القرآن الکریم کے امتحانات کو لازمی قرار دیا۔ نئے درجات کے امتحانات کے علاوہ آپ نے ان تمام مذکورہ درجات کے لئے نئی دیدہ ذیب عالمی معیار کی سندیں جاری کروائیں۔ وزارت تعلیم اسلام آباد سے طویل مذاکرات کیے جن کے  نتیجے میں بغیر کسی مزید امتحان میں شرکت کئے وفاق کی اسناد کو بالترتیب ایم اے، بی اے، انٹر، میٹرک، مڈل او رپرائمری کے مساوی قرار دیا گیا۔ فضلائے قدیم جو وفاق کی اسناد کے معادلے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد سے محروم تھے ان کے لیے خصوصی امتحانات کا اہتمام کرایا تاکہ انہیں بھی وفاق کی سندیں فراہم کی جاسکیں۔ وفاق سے ملحق مدارس میں پہلے سے موجود قلیل تعداد کو جو چند سو پر مشتمل تھی اور جس میں ملک کے بہت سے قابل ذکر مدارس شامل نہیں تھے اپنی صلاحتیوں سے قابل تعریف تعداد تک پہنچایا۔ حتی کہ 2007ء میں یہ تعداد پندرہ ہزار مدارس و جامعات تک پہنچ گئی۔ جس کی بنا پر اب وفاق المدارس العربیہ کو ملک کی واحد نمائندہ تنظیم قرار دیا گیا۔ مدارس عربیہ میں موجود نظام کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے نصاب درس اصلاحی کی مہم شروح کی چناں چہ اب پورے پاکستان میں یکساں نصاب پورے اہتمام سے پڑھایا جارہا ہے ۔جبکہ پہلے صورت حال نہایت ابتر تھی اور تقریباً ہر مدرسہ کا اپنا الگ الگ نصاب ہوا کرتا تھا۔ وفاق کے مالیاتی نظام کو بھی آپ نے بہتر کیا جب کہ پہلے کوئی مدرسہ اپنی فیس یا دیگر واجبات ادا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب آپ کی مسلسل توجہ کے نتیجے میں وفاق ایک مستحکم ادارہ بن چکا ہے۔ آپ نے وفاق کی مرکزی دفاتر کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس کے لیے بہتر و مستقل عمارت کا انتظام کروایا جب کہ اس معاملے میں پہلی عارضی بندوبست اختیار کیا جاتا تھا۔ آپ کی انہی گراں قدر خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو 1989 میں وفاق کا صدر منتخب کر لیا گیا، جب سے لے کر آج تک آپ بحیثیت صدر و فاق کی خدمات انجام دینے میں مصروف رہے۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب مدظلہم کے بے بایاں فیوض کو صحت و سلامتی کے ساتھ ہمارے لئے اور سارے عالم کے لئے قائم ودائم رکھیں۔ آمین۔ الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت کو تدریسی میدان میں جو کمال عطا ء فرمایا ہے وہ قدرت کی عنایات کا حصہ ہے آپ کی تدریسی تاریخ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے، بے شمار لوگ آپ کے چشمہٴ فیض سے سیراب ہوئے ہیں، قدرت نے آپ کو فصاحت وبلاغت کا وافر حصہ عطا فرمایا، مشکل بحث کو مختصر اور واضح پیرائے میں بیان کرنا آپ ہی کی خصوصیت ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے آپ کے تقریری ودرسی ذخیرے کو مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کے صحیح البخاری کے دروس کشف الباری اور مشکوٰة المصابیح کے لیے آپ کی تقاریر نفحات التنقیح کے نام سے شائع ہو کر علماء وطلبا میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، سن2007 تک کشف الباری کی 12 جلدیں اور نفحات التنقیح کی تین جلدیں منصہ شہود پر آچکی تھیں جب کہ بقیہ جلدوں پر کام جاری ہے۔ ‏اللہ غریق رحمت کرے.
حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کا اظہار تعزیت سننے کے لئے مندرجہ ذیل لنک کا استعمال کریں؛
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1254284387962485&id=120477478009854

Sunday 8 January 2017

شیعہ جب شیعہ کافر ہیں تو حج کرنے کی اجازت کیوں؟

سوال:  شیعہ کے اکثر فرقے کافر ہیں پہر بہی حرم مکی میں اس نقطہ نظر سے حکومت کی طرف سے داخلہ پر پابندی کیوں نہیں، کیا حکومت ان کو کافر نہیں سمجھتی یا کو ئی اور دوسری وجہ ہے۔ اس سلسلے میں جو بھی بات آپ حضرات کے ذہن میں ہو مطلع فرمائیں۔
بندہ خدا

جواب: اس سلسلہ میں بندے کے ذہن میں دو باتیں ہیں جو اس جواز دخول کا سبب ہیں،  اور بحیثیت مجموعی، انفرادا نہیں.

1. سیاست دینیہ کے تحت.
جیسا کہ اولائل منافقین کے ساتھ اس لئے قتال نہیں ہوا کہ دنیا کہے گی کہ یہ اپنوں کو ہی قتل کرتے ہیں.
تو روافض اگرچہ ہمارے یہاں کافر ہیں لیکن دنیا کے سامنے وہ اسلام کا اقرار واعتراف کرتے ہیں، اس لئے انھیں دنیا کے سامنے کئے ہوئے اقرار کے تحت آنے دینا عذر داری کا سبب عظیم ہے.

2. حجۃ الاسلام ایک خالص عبادت ہے، تاہم  دینی تحریک، تنظیم، اسلام یا اہل اسلام کی کوئی ادنی خدمت نفس حج سے وابستہ نہیں.
سب حج کو آتے ہیں، کرکے چلے جاتے ہیں، اور  حج  نتیجہ و ثمرہ  لحاظ سے ان کی اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے، اس کا نفع متعدی نہیں.

چنانچہ یہ بھی اس تسامح کی دوسری بڑی وجہ ہے کہ حج کے لئے روافض کو آنے دینے میں ان سے اسلام و مسلمانوں کا کوئی نفع و نتیجہ وابستہ نہیں، جس سے ان احادیث کا مفہوم بھی وابستہ ہے جن میں ہر دور میں طائفہ منصورہ اور سواد اعظم کے غلبہ کا وعدہ ہے، چنانچہ انھیں حج کے لئے آنے دینے سے موعودہ غلبہ و احقاق حق میں کوئی بھی معمولی شراکت ان کی نہیں بنتی.

نیز چونکہ یہ ایک عبادت محضہ ہے، اگر وہ اس میں شریک نہ بھی ہوں تو اس عبادت کی شوکت میں ادنی کمی واقع نہ ہوگی، بلکہ اللہ تعالی نے تو دکھا بھی دیا کہ سال رواں ایرانیوں نے حج کا بائیکاٹ کیا تھا، عرب کی سفارتی پالیسیوں کے وجہ سے لیکن آسمان کا تھوکا انھیں کے حلق میں آیا.
بہر کیف یہ ایک عبادت ہے،  جس سے اسلام و مسلمانوں کے لئے نفع ان کی طرف سے متعدی ہوکر آنے  والا نہیں.
ان دونوں باتوں کے مجموعی لحاظ سے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کوئی تامل ان کے حج میں آنے کے تسامح پر نہیں ہوتا.
ورنہ بندے کی بھی ناقص تحقیق عامہ روافض کے سلسلہ میں یہ ہے دن تاریک اور رات روشن ہوسکتی ہے،  لیکن رافضی کافر ہے.
واللہ اعلم وعلمہ اتم
محمد توصيف  قاسمى

عقیقہ میں کتنے جانور ذبح کئے جائیں؟

عقیقہ میں کتنے جانور ذبح کئے جائیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی بیٹا کی طرف سے استعداد نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی جانور عقیقہ کرے تو کیا عقیقہ ادا ہوجائے گا ؟
۔۔۔۔ ۔۔ ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
پیدائش کے ساتویں عقیقہ کرنامسنون ہے۔ بیٹے کی طرف سے دو بکرے یا بکری اور بیٹی کی طرف سے ایک بکرا یا بکڑی کرنا افضل و بہتر ہے۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرہم عن الغلام شاتان مکافئتان، وعن الجاریۃ شاۃ۔
(سنن الترمذي ۱؍۲۷۸)
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ قال: سُئل رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن العقیقۃ۔ فقال: لا یُحبُّ اللّٰہُ العُقوقَ، کأنہ کرہ الاسمَ۔ وقال: من ولد لہ ولدٌ فأحبَّ أن ینسُک عنہ فلینسُک عن الغلام شاتین، وعن الجاریۃ شاۃٍ۔ رواہ أبو داؤد والنسائي۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، کتاب الصید والذبائح / باب العقیقۃ ۸؍۸۰-۸۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۸؍۱۵۹ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
شاتان عن الغلام وشاۃ عن الجاریۃ۔ (شامي / آخر کتاب الأضحیۃ ۹؍۴۸۵ زکریا)
اگر استطاعت نہ ہو تو بیٹا کی طرف سے  ایک بھی ذبح کر دیا جائے تو کافی ہے۔ اور عقیقہ کی سنت اُس سے بھی ادا ہوجائے گی۔
: حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح فرمائی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! بچہ کا سر مونڈو اور اس کے ہم وزن چاندی خیرات کرو (علی فرماتے ہیں کہ) ہم نے حسن کے بالوں کو وزن کیا تو اُن کا وزن ایک درہم تھا یا کِسی قدر کم (ترمذی) بَاب الْأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ

1514 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَا أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ فِي الْعَقِيقَةِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا أَنَّهُ عَقَّ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِشَاةٍ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ
سنن الترمذي. كتاب الأضاحي.
واللہ اعلم بالصواب
(مفتی) شکیل منصور القاسمی
.......
Meri beti paida hooi  2 sal pehly
Aqeeqa kia tha ek bakry ka
Ab. Mashaa Allah. Allah NY beta ata farmaya hy
BETY k aqeeqay k 2 bakry hoty hn
Mgr gunjaish nhi hy. Kia kroon?

اگر گنجائش نہیں ہے تو ایک سے بھی عقیقہ ہوجائے گا.

Thursday 5 January 2017

حلال فوڈ کی مقبولیت

حلال فوڈ سے مراد محض چکن اور بیف ہی نہیں بلکہ حلال فوڈ میں سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم حتیٰ کہ چاول، پانی، پولٹری خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل مصنوعات بھی شامل ہیں جن کی تیاری کے عمل میں استعمال کئے جانیوالے تمام کیمیکل اور Additives میں اسلامی نکتہ نظر کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس دوران کوئی حرام عنصر شامل نہ ہو۔ حلال ایک اسلامی قدر (Value) ہے جس کی رو سے مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں حرام عنصر یا عمل کی ممانعت ہے۔ دنیا میں اس وقت 25 ممالک میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کے 200 سے زائد ادارے قائم ہیں جہاں حلال سرٹیفکیشن جاری کرتے وقت پروڈکٹ کے اجزاء اور پروسیس کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ کچھ ماہ قبل ایک سیمینار میں ملائیشیا کے IHIA کے سربراہ درہم دلی ہاشم نے مجھے بتایا کہ آر او (RO) پلانٹ کے ذریعے تیار کئے جانے والے منرل واٹر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی آمیزش بھی کی جاتی ہے جو کئی ذرائع سے حاصل ہوتی ہے جن میں ہڈیاں بھی شامل ہیں اور اگر یہ ہڈیاں خنزیر (سور) کی ہوں تو یہ پروسیس حلال کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح چاول کی پولشنگ کے لئے استعمال ہونے والے کیمیکلز کے بارے میں بھی یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں ایسا کوئی عنصر شامل نہ ہو جو حرام اشیاء سے حاصل کیا گیا ہو جبکہ لیدر مصنوعات اور ڈینم جینز کی تیاری میں ایسے کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیں جو سور کی چربی سے تیار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرفیومز میں عموماً الکوحل (ایتھانول) استعمال ہوتا ہے جو شرعی اعتبار سے حلال نہیں جبکہ یورپ میں چاکلیٹ اور میک اپ مصنوعات کی تیاری میں %80 فیصد سْور کی چربی استعمال ہوتی ہے۔
جانوروں کو ذبح کرنے کے معاملے پر بھی دنیا میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں جانوروں کو الیکٹرک گن سے ہلاک کیا جاتا ہے لیکن فرانس میں مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنے جانور چھری سے ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ حال ہی میں ایک فرانسیسی مسلمان مصنف نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ یورپ میں جانور کو ذبح کرتے وقت ایک لمبی چین پر لٹکا دیا جاتا ہے اور جب چھری جانور کے سامنے پہنچتی ہے تو ریکارڈ شدہ تکبیر کی آواز میں جانور کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ مصنف کے بقول ذبح کرنے کا یہ طریقہ غیر اسلامی ہے کیونکہ جانور کو ذبح کرتے وقت تکبیر کہنے کے لئے وہاں کسی مسلمان کا ہونا لازمی ہے۔
 انہوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ جانوروں کو اسلامی طریقے سے ذبح کرنے سے اُن سے خارج ہونے والے خون اور فاسد مادے کی وجہ سے گوشت حفظان صحت کے مطابق ہو جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس جانوروں کو الیکٹرک گن سے ہلاک کرنے کی صورت میں خون اور فاسد مادے جانور کے جسم میں ہی رہ جاتے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ورلڈ حلال فورم کی حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں حلال فوڈ کی سالانہ تجارت 650 ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا کی مجموعی حلال مارکیٹ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس کے 80 فیصد کاروبار پر غیر مسلم ممالک کا کنٹرول ہے جن میں امریکہ، برازیل، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس شامل ہیں جو حلال فوڈ برآمد کرنے والے بڑے ممالک شمار کئے جاتے ہیں جبکہ ایشیاء میں حلال فوڈ برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھائی لینڈ ہے جس کے بعد بالترتیب فلپائن، ملائیشیاء، انڈونیشیاء، سنگا پور اور بھارت حلال فوڈ برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صرف یورپی ممالک میں حلال ٹریڈ کا حجم سالانہ 66 ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں فرانس کی 17ارب ڈالر اور برطانیہ کی 600 ملین ڈالر کی ٹریڈ شامل ہیں جبکہ امریکہ کی حلال فوڈ ٹریڈ 13 ارب ڈالر ہے۔ برازیل دنیا میں حلال منجمد چکن برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو 100 سے زائد ممالک کو 10 لاکھ میٹرک ٹن حلال منجمد چکن برآمد کرتا ہے جبکہ فرانس سالانہ ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال منجمد چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ اسی طرح امریکہ دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی حلال بیف کی برآمدات% 80 جبکہ نیوزی لینڈ بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی بیف کی برآمدات %40 ہیں۔ خلیجی ممالک گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سالانہ 44 ارب ڈالر کا حلال فوڈ امپورٹ کرتے ہیں جنہیں سب سے زیادہ یعنی %54 گوشت برازیل فراہم کرتا ہے جبکہ گاؤ ماتا کی پوجا کرنے والا ملک بھارت خلیجی ممالک کو %11 فیصد گوشت فراہم کرتا ہے تاہم گزشتہ کچھ ماہ سے سعودی عرب نے یورپ سے حلال گوشت درآمد کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے کیونکہ 8 یورپی ممالک سے گائے کے نام پر بھیجے جانے والے گوشت تجزیہ کرنے پرگھوڑے کا گوشت ثابت ہوئے تھے۔
اسی طرح انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سپلائی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلم امہ کے دوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان کی حلال ٹریڈ صرف 100 ملین ڈالر سالانہ ہے جو دنیا کی حلال مارکیٹ کا صرف 2.9 فیصد ہے حالانکہ پاکستان دنیا میں گوشت کی پیداوار میں سولہواں بڑا ملک ہے۔ لائیو اسٹاک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں گائے اور بیل کی تعداد تقریباً 3 کروڑ، بھینسوں کی تعداد پونے تین کروڑ، بھیڑوں کی تعداد ڈھائی کروڑ، بکروں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ اور اونٹوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے۔ سروے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم بھی حلال فوڈ کی انٹرنیشنل سرٹیفکیشن کا حصہ بن جائیں تو اس سے اربوں ڈالر سالانہ کماسکتے ہیں لیکن ہم ابھی تک ’’حلال پاکستان برانڈ‘‘ کو صحیح معنوں میں متعارف نہیں کراسکے حالانکہ 2011ء میں پاکستان حلال پروڈکٹ ڈیولپمنٹ بورڈ کے قیام کی منظوری دی جاچکی ہے۔حلال فوڈ کے بعد اب دنیا مسلمان مسافروں اور سیاحوں کی اربوں ڈالر کی مسلم ٹریول مارکیٹ کے بزنس کو فوکس کر رہی ہے کیونکہ دنیا میں ابھی تک ہوٹلوں، ایئرلائنز اور ٹور آپریٹرز نے مسلم سیاحوں کو اُن کی ضروریات کے مطابق خاطر خواہ سہولتیں فراہم نہیں کی ہیں۔
اس سلسلے میں OIC کے اسلامک فنانس کے سربراہ رشدی صدیقی اور مسلم طرز زندگی ٹریول مارکیٹ اسٹڈی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ سال مسلم ٹریولر جن میں ملائیشیا، ترکی اور عرب امارات سرفہرست ہیں، نے ٹریولنگ پر 130 ارب ڈالر خرچ کئے جو دنیا کی مجموعی ٹریولنگ کا %13 ہے اور یہ 2020ء تک بڑھ کر 200 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، کویت، مصر، قطر، امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے مسلم ٹریولر بھی قابل ذکر ہیں جن کی اہم ضروریات میں کھانے پینے کی حلال اشیاء کی دستیابی، نماز کی ادائیگی کے لئے سہولتیں، مسلم بیت الخلا اور ان کی رہائش کے ارد گرد غیر اخلاقی سرگرمیوں کا نہ ہونا شامل ہے لیکن ان میں سب سے اہم معاملہ ایئرلائنز اور ہوٹلوں میں حلال فوڈ کی دستیابی ہے کیونکہ کوئی بھی مسلمان حلال فوڈ پر کسی طرح سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میں پاکستان میں یمن کے مریضوں کے لئے مسلم ہیلتھ ٹورازم متعارف کرا چکا ہوں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امہ کی حلال فوڈ اور سروس کی بڑی مارکیٹ کے پوٹینشل کے پیش نظر مسلم امہ میں ’’حلال پاکستان برانڈ‘‘ موثر حکمت عملی کے تحت متعارف کرایا جائے۔

ایک دوسرے کی غیبت مت کرو

ایس اے ساگر











العیاذ باللہ ہمارے معاشرے میں غیبت کا خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے کہ ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے اور معاشرے کی جڑوں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے، معاشرے کا بیش تر حصہ بلاتفریق مردوزن کے اس بیماری و اخلاقی برائی میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عورتوں کو موردالزام ٹھہرایا جاتا تھا کہ یہ غیبت و چغل خوری کرنے، رائی کا پہاڑ بنانے، بات کا بتنگڑ بنانے، ایک کے ساتھ دس لگانے اور اپنی غیبت و چغل خوری کا ماہرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے گھروں میں فساد کروانے اور خاندانوں میں پھوٹ ڈلوانے میں یہ یدطولیٰ رکھتی تھیں ، لیکن اگر ہم اپنے گردوپیش کا بنظر غائر جائزہ لیں تو مرد حضرات بھی اس برے اور قبیح فعل میں عورتوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں، زمیندار ہوں یا گاؤں کے چوہدری حضرات ، دوران سفر بس میں سوار خواتین و حضرات ہوں یا نماز کے بعد مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازی لوگ ، سب کے سب واضح و پوشیدہ انداز یا اشارہ و کنایہ سے غیبت و چغل خوری میں مصروف نظر آئیں گے۔ اس خطرناک اور تباہ کن مرض میں مبتلا مردوزن جن کے نزدیک غیبت یا چغل خوری کرنا، کسی کا راز فاش کرنا، کسی کے گھریلو معاملات کو برسرِعام کرنا، مسلمانوں کے عیوب کا پردہ فاش کرنا کوئی عیب یا گناہ نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے یہ چلتے پھرتے بظاہر انتہائی شریف اور معصوم نظر آنے والے یہ لوگ پس پردہ خطرناک اور مذموم مقاصد کار فرما ہوتے ہیں ۔ بظاہر ہمدردی و تعاون کی آڑ میں نہایت عیاری اور چالاکی سے کسی محفل یا مجلس مین بیٹھے مرد ہوں یا گھر میں بیٹھی ہوئی چار عورتیں ، اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھانے ( غیبت کرنے ) سے پہلے روایتی طور پر چند جملے ضرور کہتے نظر آئیں گے، قسم سے ڈرلگتا ہے کہیں غیبت نہ ہو جائے، میں یہ بات صرف تیرے ساتھ ہی کر رہا ہوں ( یا کر رہی ہوں ) غیبت و چغل خوری کرنا تو گناہ ہے ایک بات بتاتا ہوں…. تو پھر یہ لوگ ایسے ماہرانہ اور فاضلانہ انداز میں مسلمانوں کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتے ہیں کہ سامعین بھی ان کی معلومات اور ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ 
:گناہ ہی نہیں سمجھا
 اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا جبکہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور عام طور سے اس سے بے تو جہی ہے۔ انھیں کون سمجھائے کہ مسلمان کی غیبت و آبروریزی ہے اوربدظنی، بدگمانی گناہ کبیرہ ہے۔ برکة العصرکة قطب الاقطابشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ نے فضائل ماہ رمضان کی فصل اول میں بہت ہی درد بھرے الفاظ میں قلبی کڑھن و بے چینی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
”ہم لو گ اس سے بہت ہی غافل ہیں۔ عوام کا ذکر نہیں، خواص مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر، جو دنیادار کہلاتے ہیں، دین داروں کی مجالس بھی بالعموم اس سے کم خالی ہوتی ہیں۔ اگر اپنے یا کسی کے دل میں کچھ کھٹک بھی پیدا ہو جائے تو ا س پر اظہارِ واقعہ اور بیانِ حقیقت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی محفلوں، مجلسوں اور گفتگو پر جب نظر ڈالیں گے تو پھر ہی اندازہ ہو گا کیا کما کر اور گنوا کراٹھتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سود کے علاوہ اتنے سخت الفاظ ذکر نہیں فرمائے۔نبی کریم رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس معصیت پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ﴾
یعنی ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو (کیوں کہ یہ ایسابرا عمل ہے جیسے اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا) کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اس کو برا سمجھتے ہو“
لہٰذا جب اس عمل کو برا سمجھتے ہو تو غیبت کو بھی برا سمجھو۔ سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ
”سود بہت بڑا گناہ ہے۔بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے، اس گناہ کا ادنی درجہ یہ ہے کہ ”العیاذباللہ“ جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا (بدکاری) کرے“ پھر فرمایا کہ سب سے بدترین سودیہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی آبرو (عزت) پر حملہ کرے۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ”غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے(کیوں کہ زنا کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن غیبت کو گناہ نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے)۔“
حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ”ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا 
یا رسول اللہ ! غیبت کیا ہے؟
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”ذکرک اخاک بما یکرہ“ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں ایسی بات کرنی جو اسے نا گوار ہو۔
سائل نے پوچھا: ”ان کان فی اخی ما اقول؟“
اگر اس میں واقعةً وہ بات موجود ہو جو کہی گئی ہے؟
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب ہی تو غیبت ہے۔ اگر واقعةً موجود نہ ہو تب تو بہتان ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے۔
ایک مسلم جان کی حرمت وتقدس:
علامہ شکیل منصور القاسمی صاحب رقمطراز ہیں:
اسلام میں ایک مسلم جان کی حرمت وتقدس کعبہ سے بھی بڑھ کے ہے۔ عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ حضورصلَّى اللهُ عليه وسلَّم کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں 
-  رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يطوفُ بالكعبةِ ويقولُ ما أطيبَك وما أطيبَ ريحَك ما أعظمَك وما أعظمَ حُرمتَك والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِه لحُرمةُ المؤمنِ عند اللهِ أعظمُ من حُرمتِك مالُه ودمُه
الراوي:
عبدالله بن عمرو
المحدث: 
المنذري        -   المصدر:  الترغيب والترهيب  -   الصفحة أو الرقم:  3/276خلاصة حكم المحدث:  [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]۔
اسی لئے اسلام نے ہر مومن کے عیوب واقعی کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔کسی کےافشاء راز کی اجازت قطعا نہ دی ۔ایسا کرنا اسلام میں سخت گناہ قرار پایا۔
حقیقت غیبت:
اپنے بھائی کے بارے میں اس کے خاندان، اخلاق، جسمانی ساخت ،قول و فعل، حرکات و سکنات، یہاں تک کہ کپڑا، مکان اور سواری کے بارے میں"غائبانہ" ایسی واقعی بات کہنا یا اشارہ کنایہ کرنا جو متعلق شخص کو ناگوار گذرے "غیبت"؛کہلاتا ہے.
(احیاء علوم الدین ۔جلد 3۔صفحہ 143 )
پیٹھ پیچھے تکلیف دہ واقعی بات کا تذکرہ کرنا غیبت ہے۔ غیر واقعی بات کا تذکرہ کرنا خواہ سامنے ہو یا پیچھے "بہتان" کہلاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود غیبت اور بہتان کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
ذكرك أخاك بما يكره..........ان كان فيه ما تقول فقد اغتبته. وان لم يكن فيه فقد بهته
(أخرجه مسلم جلد4.صفحه 2001.باب تحريم الغيبة)
غیبت کی تعریف میں یہ قید ضروری ہے کہ کسی کے امر واقعی کا ذکر اس کے غائبانہ میں ہو. اور یہ تذکرہ اس کے لئے باعث تکلیف بھی ہو ۔
اس کے بغیر غیبت کی تعریف صادق نہیں آئے گی۔
ایک لفظ بہتان آتا ہے اس کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ تکلیف دہ امر غیر واقعی کو بیان کیا جائے خواہ سامنے ہو یا غیبوبت میں۔
تو غیبت کے لئے غیبوبت ضروری ہے.
جرجانی رحمہ اللہ لکھتے ہی،
معنی اصطلاحی معنی لغوی سے خارج نہیں ہو سکتے۔
والفرق بين الغيبة والبهتان هو أن الغيبة ذكر الإنسان "في غيبته" بما يكره.والبهتان وصفه بما ليس فيه.سواء أكان ذا لك في غيبته أم في وجوده.
دیکھئے جامع البیان جلد 26۔صفحہ 137۔ط الحلبی۔۔التعریفات 143۔
غیبت کی شناعت: 
جمہور علماء امت کے یہاں غیبت حرام ہے اور گناہ کبیرہ میں داخل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ قرآن نے اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت قرار دیا ہے.
(الحجرات :12  احکام القرآن للقرطبی ۔جلد 16۔صفحہ 237۔الزواجر ۔جلد 2۔صفحہ7۔)
مختلف احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔
ایک حدیث میں ہے سب سے بڑا گناہ کسی کی عزت کے پیچھے پڑنا ہے۔
ان من اکبر الکبائر استطالة المرء فی عرض رجل مسلم بغیر حق۔
(اخرجہ ابودائود جلد5۔صفحہ 193۔عن ابی ھریرہ)
ایک حدیث میں ہے  کہ قیامت کے دن غیبت کر نے والے کے ناخن پیتل کے ہوں گے اور خود اپنے ناخن سے اپنے چہرے اور سینے کو نوچیں گے۔
(اخرجہ ابو داءود جلد 5۔صفحہ 164۔عن انس بن مالک ۔وصححہ العراقی) ۔
ایک حدیث میں ہے کہ غیبت زناء سے بھی زیادہ سخت ہے۔کیونکہ آدمی احوال سے مغلوب ہوکے اگر زناء کرلے پہر ندامت کے بعد توبہ کرلے تو اللہ اسے معاف فرمادیتے ہیں۔ جبکہ غیبت ایسا گناہ ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے اس کی مغفرت نہیں ہوگی۔
(یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کے معنی صحیح ہیں )
-  الغِيبةُ أشدُّ من الزِّنا ، قالوا : يا رسولَ اللهِ ! وكيف الغِيبةُ أشدُّ من الزِّنا ؟ قال : إنَّ الرَّجلَ ليزني فيتوبُ فيتوبُ اللهُ عليه ، وفي روايةِ حمزةَ : فيتوبُ فيغفرُ له ، وإنَّ صاحبَ الغِيبةِ لا يُغفَرُ له حتَّى يغفِرَها له صاحبُه
الراوي:
أبو سعيد الخدري و جابر بن عبدالله
المحدث: 
البيهقي        -   المصدر:  شعب الإيمان  -   الصفحة أو الرقم:  5/2298خلاصة حكم المحدث:  إسناده ضعيف
چونکہ غیبت سے انسانی عزت کی دھجیاں اڑتی ہیں اور ایک مسلم بے آبرو ہوتا ہے، اس لئے انسانی عزت کے پاس ولحاظ میں شریعت اسلامیہ میں اس کو حرام قرار دیا گیا.
(الفروق للقرافی2001/4 )
غیبت ہی سے ملتے جلتے الفاظ بہتان، حسد، حقد و بغض، سب وشتم، چغلخوری (نمیمہ ) وغیرہ ہیں
ان میں معمولی فرق کے سوا  کوئی قابل ذکر بیں، فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسلام کی نظر میں اخلاقی بیماریاں ہیں جن سے اسلامی معاشرہ کی تطہیر ضروری ہے۔
پتے کی بات:غیبت کے زنا سے بھی شدید تر ہونے کی وجہ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں :
زناء " گناہ باہی"  (شہوت سے صادر ہونے والا ) ہے۔ اور غیبت " گناہ جاہی" (تکبر سے صادر ہونے والا گناہ ) ہے۔زناء کے صدور کے بعد آدمی میں ندامت وشرمندگی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے توبہ کی توفیق مل جاتی ہے اورمعافی مانگ کر اللہ کی مغفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔جبکہ مبتلائے غیبت کو ندامت تک نہیں ہوتی کیونکہ اسے ہلکا اور معمولی سمجھتا ہے بلکہ بعض اوقات اسے گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا ۔جس کی وجہ سے نہ توبہ کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ ہی توفیق۔ یوں توبہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔اس لئے حدیث میں اسے زناء سے زیادہ سخت کہاگیا ہے ۔ملفوظات حکیم الامت 218/2۔ملفوظ نمبر 693۔۔
غیبت کیوں کی جاتی ہے ؟
غیبت ایک اختیاری، اخلاقی اور نفسیاتی بیماری ہے۔اس کے صدور کی تہ میں کوئی نہ کوئی اخلاقی کمزوری ضرور ہوتی ہے۔ اللہ حضرات فقہاء کو جزاء خیر عطاء فرمائے کہ ان کی دقیقہ و نکتہ سنج طبیعتوں نے یہاں بھی نکتہ سنجی کرتے ہوئے یہاں تک ذکر فرمادیا کہ آدمی کتنے وجوہ و محرکات کے تحت دوسروں کی غیبت کرتا ہے. امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء میں اس کے گیارہ اسباب گنوائے ہیں۔ آٹھ اسباب عوام میں پائے جاتے ہیں اور تین خواص و اہل دین میں۔
(احیاء علوم الدین۔جلد 3۔صفحہ 145۔ط الحلبی۔)۔
عوام میں غیبت کے محرکات;
1۔۔۔۔غصہ۔۔۔کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے دوسروں کی برائی بیان کی جاتی ہے۔
2۔۔۔۔دوستوں کی مجلس میں دیکھا دیکھی دوسروں کی برائی بیان کی جاتی ہے ۔
3۔۔اپنے خلاف دی جانے والی کسی کی سچی گواہی کو غیر موثر اور ناقابل سماع کرنے کی خاطر پہلے ہی سے اس آدمی کی برائی بیان کی جانے لگتی ہے۔
4۔۔۔حقیقت بیانی ۔۔۔۔یعنی کسی پہ کسی چیز کا بےبنیاد اور جھوٹا الزام تھونپ دیاجائے۔جبکہ اصل مجرم کا اسے پتہ ہے۔تو ذاتی برات وتصفیہ  کے لئے اب اصل مجرم کا نام اور برے کام بتایا جائے۔
5۔۔۔۔تکبر۔۔۔
خود کو بڑا باور کرانے کے لئے دوسروں کے عیوب بیان کیا جائے کہ مبادا اس کی بھی نہ تعظیم ہونے لگے !
6۔۔۔۔حسد ۔۔۔ابھرتے ہوئے شخص کو دیکھ کر اس کی عزت کو خاک میں ملانےکے درپے ہوجانا اور اس کی ترقی وعوامی پذیرائی کو روکنے کے لئے اس کی کردار کشی کی جائے ۔ اور تسکین انا کی خاطر اس کے خلاف بے بنیاد الزامات کے جال بنے جائیں ۔
7۔۔۔ہنسی مذاق اور دوسروں کو ہنسانے کے لئے یا مجمع کو قہقہہ زار بنانے کے لئے دوسروں کی پگڑی اچھالی جائے اور عیوب بیان کئے جائیں ۔
8۔۔۔تمسخر اور استہزاء کے لئے کسی کی برائی بیان کی جائے ۔
خواص میں غیبت کے اسباب:
1۔۔۔تعجب
2۔۔۔رحمت
3۔۔۔غضب
تعجب: کسی شخص کے ناجائز عمل پہ نکیر کرنے کے بعد مجلس میں جاکر بطور اظہار تعجب اس کا نام لیکر اس کے منکر کو بیان کیا جائے ۔منکر پہ نکیر اور پہر اس پہ تعجب یقینا امر مستحسن ہے لیکن نام لے لینے کی وجہ سے اب معروف منکر میں بدل گیا۔
رحمت: کسی کے فسق وفجور وآوارگی کو دیکھ کر تڑپ اٹھنا اور اس کے لئے سسکیاں یا آہیں بھرنا یقینا باعث ثواب عمل وجذبہ ہے لیکن پہر نجی مجلسوں میں جاکر اس شخص کا نام لے لینے سے اب یہ جذبہ حسیں غیبت کے زمرہ میں آگیا اور جو ثواب کمائے تھے شیطان نے اس پہ غیبت پہ قلعی چڑھا کے رائیگاں کردیا۔
غضب  :  کسی کی معصیت دیکھ ک غصہ ہوجانا اچھا جذبہ بیشک ہے !! لیکن اس اظہار غضب کے لئے مرتکب شخص کانام لینا غیبت ہو جائے گا۔
احیاء العلوم 143/3۔۔۔منہاج القاصدین ص 171 ۔۔۔
مباح شکلیں: 
قرآن و حدیث کی دلائل کی وجہ سے غیبت تو اصلا حرام ہی ہے لیکن بعض ناگزیر شرعی ضرورتوں کے پیش نظر بر بنائے مصلحت اس کی بعض شکلیں مباح ہیں۔
امام غزالی، علامہ نووی، امام قرطبی، قاضی شوکانی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ جیسے محققین نے اس  کے جواز کی چھ شکلیں نقل فرمائی ہیں۔
1۔۔۔۔ظلم سے بچنے کے لئے حاکم یا قاضی کو کسی شخص کے ظلم وعدوان کی خبر دینا۔
2۔۔۔۔۔کسی برائی کے دور کرنے اور اصلاح کے مقصد سے کسی کی غلطی اور خامیوں کو ذکر کرنا۔ بشرطیکہ اصلاح مقصود ہو  کسی کی توہین نہیں ۔
3۔۔۔دینی مسئلہ معلوم کرنے کے لئے کہ فلاں  مثلا میرے باپ یا بھائی نےمیرے ساتھ ایسے ویسے  ظلم کیا ہے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟۔
4۔۔کسی مسلمان کو دین یا دنیا کے نقصان سے بچانے کے لئے کسی کی غیبت کی جاسکتی ہے تاکہ دوسرے مسلمان اس کے دام فریب میں نہ آسکیں ۔رشتہ ناطہ کے بارے میں کوئی کسی سے استفسار کرے تو صحیح صورتحال کی وضاحت ضروری ہے چاہے اس میں کسی کی عیب جوئی ہی کیوں نہ کرنا پڑے!
5۔۔۔اگر انسان کسی ایسے لقب سے مشہور ہو جس میں اس کے نقص کا اظہار ہو لیکن یہی نام اس کے لئے معروف ہوچکا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے جیسے "اعمش" اعرج وغیرہ۔
6۔۔۔۔ایسے شخص کی غیبت بھی ناجائز نہیں جس کی زندگی کے ظاہری احوال ہی اس کے گناہوں کا اعلان کرتے ہوں اور وہ برسر عام فسق وفجور کا مرتکب ہو۔(احیاءعلوم الدین جلد 3۔صفحہ 145۔ شرح صحیح مسلم للنووی جلد2۔صفحہ322۔ط ھند۔الاذکار للنووی صفحہ 303۔۔رفع الریبہ للشوکانی صفحہ 13۔ط سلفیہ۔۔۔الجامع لاحکام القرآن جلد 16۔صفحہ 339۔۔ط مصر۔۔۔۔فتح الباری جلد 10۔صفحہ 472۔ط الریاض۔۔
جواز کی ان شکلوں کی بنیاد حضرت ھند زوجہ ابو سفیان کی وہ حدیث ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ سے اپنے شوہر ابو سفیان کی برائی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ،
"ابو سفیان بڑا مکھی چوس ہے."
ان ابا سفیان رجل شحیح"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عیب جوئی پہ کوئی نکیر نہ فرمائی
(اخرجہ البخاری ۔فتح الباری 507/9۔ و مسلم 1338/3 ۔قاموس الفقہ 446/4۔)
اس سلسلہ میں مسند ابویعلی کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے "اذکروا الفاجر بمافیہ یحذرالناس"
اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل مبارک نقل فرماتے ہیں کہ ہم سفر کے دوران ایک منزل پہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ٹھہرے ۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مختلف افراد آتے۔ چلے جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کسی کے بارے میں فرماتے،
یہ بہت گھٹیا آدمی ہے۔
کسی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے،
یہ بہت اچھا آدمی ہے۔
عن ابی ھریرہ : نزلنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منزلا فجعل الناس یمرون  فیقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعم عبد اللہ ھذا۔وبئس عبد اللہ ھذا۔
(مرقات المفاتیح شرح مشکات المصابیح لعلی القاری ۔جلد 11۔صفحہ 446۔ط رشیدیہ۔
غیبت کے مفاسد:شیخ عبد الوہاب شعرانی تنبیہ المغترین میں لکھتے ہیں کہ جو شخص غیبت کرتا ہے وہ اپنی نیکیوں کو منجنیق پر رکھ کر منتشر کرتا ہے اور دوسروں کو دے رہا ہے ۔
حضرت سلطان ابراھیم بن ادھم کسی کے یہاں مہمان بنے۔میزبان نے کسی کی غیبت کی۔فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ پہلے ہی گوشت کھلادیا ! وہ بھی مردہ بھائی کا ! اب کھاکر کیا کریں ؟؟؟ اگر شرم کی جگہ زخم ہو تو سوائے معالج کے کسی کو  دیکھنادکھانا جائز نہیں ۔اسی طرح اپنے بھائی کے عیوب کو صرف اور صرف معالج اور مصلح کے علاوہ کسی سے کہنا جائز نہیں ۔حرام ہے۔غیبت کرنا اور سننا دونوں حرام ہے ایسا شخص قیامت کے روز مفلس اٹھے گا۔
حضرت سفیان بن حسین ایک مرتبہ قاضی ایاس بن معاویہ کی مجلس میں بیٹھ کر کسی  کا تذکرہ کرنے لگے ۔جو غیبت تک جاپہنچا۔ تو قاضی ایاس بن معاویہ نے بڑی خوبی کے ساتھ اس پر متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ نے رومیوں کے ساتھ جہاد کیاہے ؟؟؟؟ 
کہنے لگے نہیں !! 
پہر فرمایا کہ کیا آپ نے سندھ وہند کے جہاد میں شرکت کی ؟؟ 
کہا نہیں ! 
تو قاضی صاحب نے فرمایا: عجیب بات ہے ! روم سندھ وہند کے کفار تو آپ کی تلواروں سے محفوظ رہے  لیکن ایک بیچارہ مسلمان بھائی آپ کی زبان اور غیبت سے نہ بچ سکا۔ آپ نے زبان کی تلواریں اس پر چلادیں !  
"دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ " والا معاملہ !!!
حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے قاضی صاحب کے اس جملہ کا اتنا اثر ہوا کہ اس کے بعد زندگی بھر پہر میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔
البدایہ والنہایہ 336/9 ۔۔
غیبت سے تحفظ کی صورتیں:
غیبت انسان اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اس سے بچنا بھی اس کے اختیار میں ہے۔درج ذیل صورتوں سے بچا جاسکتا ہے ۔
2۔۔۔اللہ سے اس سے بچنے کی دل سے دعاء کرے۔
2۔۔۔غیبت کی مذمت میں جو وعیدیں وارد ہیں ان کا استحضار کرے۔جیسے کہ غیبت کرنے سے محنت کی کمائی مفت میں ہاتھ سے چلی جائے گی ۔اچھے اعمال غیبت کئے ہوئے آدمی لوگوں کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں ۔اور ان کی برائی اس کے سر تھونپ دی جائے گی ۔
- ( أتدرون مَن المُفلِسُ ؟ ) قالوا: المُفلِسُ فينا يا رسولَ اللهِ مَن لا درهمَ له ولا متاعَ له فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ( المُفلِسُ مِن أمَّتي مَن يأتي يومَ القيامةِ بصلاتِه وصيامِه وزكاتِه وقد شتَم هذا وأكَل مالَ هذا وسفَك دمَ هذا وضرَب هذا فيقعُدُ فيُعطى هذا مِن حسناتِه وهذا مِن حسناتِه فإنْ فنِيَتْ حسناتُه قبْلَ أنْ يُعطيَ ما عليه أُخِذ مِن خطاياهم فطُرِحت عليه ثمَّ طُرِح في النَّارِ )
الراوي:
أبو هريرة
المحدث: 
ابن حبان        -   المصدر:  صحيح ابن حبان  -   الصفحة أو الرقم:  4411خلاصة حكم المحدث:  أخرجه في صحيحه۔
امام غزالی منہاج العابدین میں لکھتے ہیں کہ اگر اسلام میں غیبت جائز ہوتی تو ماں کی غیبت جائز ہوتی تاکہ ان کے عظیم احسانات کے بدلہ اولاد کی نیکیاں وضع ہوکے ماں ہی کو مل جائے ۔یعنی گھر کی نیکی گھر ہی میں رہ جائے !!!
3۔۔۔جب غیبت کا داعیہ پیدا ہو تو اس کے تقاضا پہ عمل نہ کرے۔بلکہ اپنے عیوب پہ فورا نظر ڈال لے ۔جس کو اپنے عیوب کی فکر ہو وہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں کیوں پڑے گا ؟؟؟؟ جو خود بیمار ہو اسے دوسرے بیماروں کی کیا فکر ؟؟؟؟
بہادر شاہ ظفر مرحوم نے کتنی ظفر مندانہ بات کہی ہے
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائی پہ جو نظر تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا
4۔۔۔کسی کا کوئی تذکرہ ہی نہ کرے ۔نہ اچھا نہ برا!
غیبت کا علاج :
1۔۔استحضار عقوبت وقت غیبت
2۔۔۔تامل قبل کلام
3۔۔۔معافی چاہنا بعد صدور غیبت
4۔۔۔اپنے اوپر کچھ جرمانہ نقدی یا نوافل کا ۔ تسہیل تربیت السالک 160/3۔۔۔۔
غیبت سے معافی کا طریقہ:
دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اگر کبھی کسی کی غیبت کرلی گئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ یہ ہے کہ
اس آدمی کے پاس جاکے جو غیبتیں کی گئی تھیں ان کا تفصیلا بیان کرکے  خلوص دل سے ان تمام برائیوں سے معافی مانگی جائے ۔البتہ اگر تفصیلی بیان میں اندیشہ ضرر ہو تو مجہولا بیان ہی میں معافی مانگ لے۔ اگر اس آدمی تک غیبت کی خبر نہ پہنچی ہو یا مرگیا ہو یا کافی دور دراز علاقہ میں رہتا ہو تو اس کے لئے اتنی مغفرت کرے کہ دل گواہی دیدے کہ اس گناہ کی تلافی ہوگئی ہوگی۔ اس کی تعریف کی جائے۔ اس کے لئے دعائے خیر کی جائے۔ اس کے لئے ایصال ثواب کیا جائے ۔
- إنَّ من كفَّارةِ الغيبةِ أن تستغفِرَ لِمَن اغتبتَهُ تقولُ اللَّهمَّ اغفِر لنا ولَهُ
الراوي:
أنس بن مالك
المحدث: 
البيهقي        -   المصدر:  الدعوات الكبير  -   الصفحة أو الرقم:  2/213خلاصة حكم المحدث:  في [إسناده] ضعف
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
+597 8836887
غیبت کر نیوالوں کا انجام:
سنن ابی داؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے۔
”قَالَ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم: لما عرج بی مررت بقوم لھم اظفار من نحاس، یخمشون بھا وجوھھم و صدورھم، فقلت:من ھوٴلآء یا جبریل؟قال: ھوٴلآء الذین یأکلون الناس، ویقعون فی أعراضھم“․ 
(کتاب الادب،باب الغیبة) 
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب مجھے معراج کرائی گئی تو وہاں میرا گذر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے وسینے کو نوچ رہے تھے۔  میں نے حضرت جبرئیل غیبت میں مشغول سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ یہ ”وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے(غیبت کرتے تھے) اورلوگوں کی عزت وآبرووٴں پر حملے کیاکرتے تھے۔“ 
ایک حدیث پاک میں ہے کہ غیبت کرنے والوں کو پل صراط کے اوپر جانے سے روک دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ تم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک اس غیبت کا کفارہ ادا نہ کردو گے، یعنی جن کی غیبت کی ہے ان سے معافی نہ مانگ لو اور وہ تمہیں معاف نہ کردیں، اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔
غیبت میں مشغول:
حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے نقل فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔ روزے میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت بن گئی، ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا اور قے کرنے کا حکم فرمایا۔ دونوں نے قے کی تو تازہ کھایا ہوا خون اور گوشت کے ٹکڑے نکلے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیرت پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا کہ لوگوں کی غیبت میں مشغول رہیں۔
اگر یہ صحیح ہے تو....
بندہ نے اپنے بڑوں سے سنا کہ ایک مرتبہ حضرت لقمان حکیم علیہ السلام نے اپنے خادم وغلام کو جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا اور کہا کہ سب سے عمدہ اور بہترین حصہ لے کر آوٴ،وہ زبان اور جگر لایا، دوسرے دن پھر ذبح کرنے کا حکم دے کر کہا کہ آج سب سے خراب گوشت کا حصہ لانا۔چناں چہ اس نے دوسرے دن بھی زبان و جگرہی پیش کیا، جس پر تعجب ہوا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک ہی چیز عمدہ وطیب بھی اور خراب و خبیث بھی؟
اس نے دست بستہ عرض کیا کہ حضرت! اگر یہ صحیح ہے تو تمام بدن و اعمال صحیح اور اگر یہ خراب تو پھر سب کچھ خراب ہے۔ 
عبرت ناک خواب:
حضرت ربعی رحمةاللہ علیہ ایک تابعی ہیں ،وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے ہیں ،میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا،دوران گفتگو غیبت شروع ہو گئی،مجھے یہ بہت ناگوار ہوا اورمیں اٹھ کر چلا گیا،تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ غیبت کا موضوع ختم ہو گیا ہو گا، چناں چہ واپس آکر بیٹھ گیا پھر تھوڑی دیر مختلف باتیں ہوتی رہیں،اس کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہو گیا، اب میری ہمت کمزور پڑگئی اور میں اٹھ کرنہ جا سکا۔
ان لوگوں کی غیبت پہلے تو میں سنتارہا اور پھر میں نے بھی غیبت میں ایک دو جملے کہہ دیے۔جب اس مجلس سے اٹھ کر گھر آگیا اور رات کو سویا تو خواب دیکھا ”انتہائی سیاہ فام(حبشی) آدمی ایک بڑے طشت میں میرے پاس گوشت لایا، غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے اور سیاہ فام آدمی مجھے یہ گوشت کھانے کو کہہ رہا ہے کہ کھاوٴ! یہ خنزیر کا گوشت۔میں نے کہا کہ میں تو مسلمان آدمی ہوں،یہ گوشت ناپاک حرام ہے، کیسے کھاوٴں؟اس نے کہا کہ تمہیں کھانا پڑے گا اور وہ ٹکڑے اٹھا، اٹھا کر زبردستی میرے منہ میں ٹھونسنے شروع کردیے۔میں منع کررہا ہوں اور وہ ٹھونس رہا ہے۔اسی شدید اذیت وتکلیف میں آنکھ کھل گئی۔
غیبت کا اثر:
بیدار ہونے کے بعد سے تیس دن تک میرایہ حال رہا کہ جب بھی کھانے کے وقت کھانا کھاتا تو خنزیر کا گوشت بدترین، بدبودار، خراب وہی ذائقہ، جو خواب میں کھاتے ہوئے محسوس ہوا تھا، میرے کھانے میں شامل ہو جاتا، اس واقعہ اور خواب کے ذریعہ اللہ کریم نے مجھے متنبہ کردیا کہ ذراسی دیر جو میں نے غیبت کی تھی اس کا یہ اثر ہے کہ تیس دن تک براذائقہ برداشت کرنا پڑا۔ غیبت کا تعلق اللہ جل شانہ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی حق تلفی سیبھی ہے، یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ شانہ اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی سخت الفاظ کے ذریعہ اس کی حرمت کو بیان کیا ہے۔یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مردوعورت،امیر،غریب،مالک،مزدور،استادو شاگرد، والدین، میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ،آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔غیبت کا دنیا میں بدترین اثریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قلوب میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اللہ کی رحمت سے محرومی ہو جاتی ہے۔آپس کی محبتیں ختم ہو جاتی ہیں اور دیگر کئی گناہ وجود میں آتے ہیں، ہم کو اس طرف بہت ہی توجہ کرنی چاہیے کہ ابتلائے عام ہے۔اس طرف بھی توجہ کریں کہ ماتحتوں،ملازمین،گھر میں کام کرنے والیوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کے بجائے دعائیہ جملے کہہ دیا کریں۔مثلاً اللہ تم کو ہدایت دے،اللہ تمہیں جنت میں لے جائے،اللہ تم کو نیک بخت کرے۔
چھٹکارا پانے کا طریقہ:
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام گناہوں سے بچنے، بالخصوص غیبت سے چھٹکارا پانے اور تلافی کا طریقہ بھی اپنی امت کو تعلیم فرمایا۔
(الف) مندرجہ ذیل دعا خوب اہتمام سے اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے۔
”اللہم، انی اتخذ عندک عھداً لن تخلفنیہ، فانما انا بشر، فایما رجل موٴمن اٰذیتہ، او شتمتہ، او لعنتہ، او جلدتہ، او ضربتہ، او غبتہ، او ظننتہ سوءً فاجعلھا لہ صلٰوة و زکٰوةً، تقربہ بھا الیک“․
(ب) ہر مجلس کے اختتام پر مجلس کے کفارہ والی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔سبحانک اللہم وبحمدک، نشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک، ونتوب الیک۔دوسری دعا۔سبحان ربک رب العزت عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمدللہ رب العالمین․
(ج) جس مسلمان کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگی جائے۔ اگر معافی مانگنا ممکن نہ ہو تو خوب ایصال ثواب کیا جائے۔
(د) خود غیبت سے بچنے کی کوشش کریں کہ ہر مجلس کے بعد چند لمحوں کے لیے سوچیں کہ غیبت تو نہیں ہوئی۔
(ھ) کوئی غیبت کررہا ہے تو پیار محبت سے اس کو منع کریں یا خود اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”فوالذی نفسی بیدہ لا یوٴمن احدکم حتٰی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ“․
”تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک تم اپنے بھائی(دوسرے مسلمان) کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے کرتے ہو۔“ جب ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہماری غیبت کرے تو ہم بھی دوسرے کی غیبت نہ کریں۔  اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور اس گناہ کبیرہ کی نفرت نصیب فرمایا کر چھوڑنے، بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
غیبت کا کفارہ کیا ہے؟
راوی: أنس رضي الله عنه قال صاحب الزنا يتوب وصاحب الغيبة ليس له توبة . روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بہیقی نے اپنی کتاب دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
تشریح
دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے میں حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہو جائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی دعاء مغفرت قبول ہو گئی۔
" اغفرلنا " میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر " اغفرلی " کے الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس شخص سے اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کر سکے تو پھر یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چنانچہ اس کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہو جائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق ومواخذہ باقی نہیں رہ جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلا مر گیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو، اور اس کے فضل و کرم سے یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔
فقیہ ابوللیث رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لئے یہ جائز ہے یا نہیں؟ کہ اس نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کروائے بغیر توبہ کرے چنانچہ بعض علماء نے اس کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کر لے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ بہیقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کرنا کافی ہو جاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 808
غیبت کا کفارہ