ایس اے ساگر
دوسروں کیلئے گڑھا کھودنے میں ماہر یوروپی یونین کی معیشت کا ایسا دیوالہ پٹا ہے کہ آج محض ایک وقت کی معمولی خوراک یا سینڈوچ کی خاطر عزتیں نیلام ہورہی ہیں .آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یونان میں نوجوان لڑکیاں محض ایک سینڈوچ کی خاطر جسم فروشی کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ اقتصادی بحران اور سخت سرکار ی بچت اقدامات کی وجہ سے اس یوروپی ملک کے عوام شدید مالیاتی مسائل کے شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یونان سستا ترین جسم فروشی میں مبتلا ممالک میں ایک بڑا ملک بن چکا ہے.
ایک نئے مطالعے کے نتائج کے مطابق جب یونان میں اقتصادی بحران شروع ہوا تھا تو وہاں ایک سیکس ورکر خاتون پچاس یورو کے عوض اپنی عزت کا سودا کرتی تھی لیکن اب تیس منٹ کے ایک سیشن کیلئے جسم فروش خاتون تقریبا 2 یورو پر بھی تیار ہو جاتی ہے۔
ظاہری چمک دمک کچھ بھی ہو لیکن یوروپی یونین میں آج 18 سال سے کم عمر افراد کا تقریباً ایک تہائی غربت اور سماجی سطح پر امتیازی سلوک کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ نتیجہ نکلا ہے جرمن فاؤنڈیشن بیرٹلزمن کے ایک تازہ جائزے سے۔
یورو زون بنام یونان:
ایتھنز میں واقع پین ٹیون Panteion یونیورسٹی سے وابستہ عمرانیات کے پروفیسر جارج لیکسوس نے لندن ٹائمز کو سنسی خیز اور شرمناک اعتراف کیا ہے کہ نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ نو عمر خواتین صرف ایک چیز پائے یا سینڈوچ کی خاطر بھی اپنی آبرو سے محروم ہو نے کو تیار ہو چکی ہیں، کیونکہ وہ بھوک سے پریشان ہوتی ہیں اور انہیں پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کچھ نہ کچھ مطلوب ہوتا ہے جبکہ ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں ہے جنھیں ٹیکس اور بلوں کی ادائیگی یا ضروری ادویات کی خریداری کیلئے بھی جسم بیچنے لگ گئی ہیں۔
80 فیصد مارکیٹ آلود :
جارج لیکسوس کی ٹیم نے تین سال کے دوران جمع کردہ اپنے اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اس دوران یونان بھر میں جسم فروشی کرنے والی سترہ ہزار خواتین کا انٹرویو بھی کیا گیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب یونان میں جسم فروشی کی مارکیٹ میں یونانی خواتین نے مشرقی یوروپی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 2010 تک یونان میں جسم فروشی کیلئے مشرقی یوروپی خواتین زیادہ فعال تھیں لیکن اب وہاں جسم فروشی کی 80 فیصد مارکیٹ یونانی خواتین کی ہی دسترس میں آ چکی ہے۔
ایک وقت کے کھانے کا سوال :
لیکسوس کو اپنی تحقیق کے دوران چار سو ایسے کیس ملے ہیں، جن میں خواتین صرف ایک وقت کے کھانے کی خاطر جسم فروشی کر رہی ہیں لیکن حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونان کے مالیاتی بحران سے قبل وہاں کی صورتحال ایسی ہرگز نہ تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ اس وقت یونان سستا ترین سیکس فروخت کرنے والے ممالک میں سے ایک بڑا ملک بن چکا ہے۔
عمرانیات کے پروفیسر جارج لیکسوس نے مزید کہا کہ مایوس نوجوان لڑکیاں، جو سستا ترین سیکس فروخت کر رہی ہیں، ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا نہیں کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ان کی تعداد میں کمی ہو گی۔
نوجوان لڑکیوں کی شامت :
یونان میں جسم فروشی شروع کرنے والی ایسی نوجوان لڑکیوں کی عمریں سترہ اور بیس برس کے درمیان ہیں۔ لیکسوس نے زور دیا ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے نا کہ وہ ان اہم معاشرتی مسائل کو نظر انداز کر دے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر منظر عام پر آئی ہے، جبکہ گزشتہ ماہ ہی یونان میں ایک ایسی چوالیس سالہ بے روزگار خاتون کو 33 برس کی سزائے قید سنائی گئی تھی، جس نے پیسوں کی خاطر اپنی بارہ سالہ بچی کو ایک پادری اور ایک ریٹائرڈ شخص کیساتھ جسم فروشی پر مجبور کر دیا تھا۔ اس خاتون کو ایک لاکھ یورو کا جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔ لیکسوس کے مطابق شدید مالیاتی مسائل یونانی عوام کیلئے پریشانی کا باعث تو بن ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کی وجہ سے معاشرتی سطح پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
گرجا گھر بھی نہیں محفوظ :
محض یونان ہی نہیں بلکہ برطانیہ میں تو محض دو سال میں ساڑھے چار لاکھ بچے بے آبرو ہوچکے ہیں. ایک رپورٹ کے مطابق صرف دو برسوں کے دوران برطانیہ کے ساڑھے چار لاکھ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جنسی زیادتی کے واقعات میں مشہور شخصیات، سیاستدان اور گھرجا گھروں سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔
Selling sex for the price of a sandwich
Greece's crippling recession pushes prices to an all-time low. According to reports, 28 Nov 2015, some women in Greece are selling sex for the price of a sandwich. Price of sex session has fallen from €50 to just €2 in some cases.
Greece's crippling debt crisis has meant that more women in the European country are selling sex with prices tumbling as low as the cost of a sandwich. A new report reveals that more Greek women than Eastern European women are working as prostitutes in Greece following the difficult years of austerity. 'Some women just do it for a cheese pie, or a sandwich they need to eat because they are hungry,' claims the report's author, sociology professor Gregory Lazos at the Panteion University, Athens. Professor Lazos said that his study, which records the cases of 18,500 sex workers in Greece, 'reflects a society in denial about the changes taking place.' The going rate for sex has fallen from €50 (£35) at the beginning of the crisis, to as low as just €2 for a single session, Professor Lazos toldThe Times. The academic carried out the three year piece of academic research, having previously written about trafficking and sexual values in Greece.
'These cases — about 400 — may be nominal compared with the thousands of other sex workers operating nationwide, but they never existed as a trend until the financial crisis,' he said. Greek prostitutes argue during a protest held by more than 50 prostitutes in front of a brothel in Athens 04 August 2003. Athens municipality had threatened to shut down at least 15 brothels for being too close to churches and schools. 'Factor in the growing number of girls who drift in and out of the trade, depending on their needs, and the total number of female prostitutes is startling,' Mr Lazos said. The Greek academic's findings suggest that Greek women now dominate 80 per cent of the sex trade industry, which has become a €600 million business. In 2003, over 150 prostitutes in Greece staged a vigil outside a brothel in protest to proposed changes to prostitution laws ahead of the 2004 Olympic Games. The Greek government had tried to shut down a number of brothels after they were found to be located close to schools and churches. Only ten of the estimated 525 brothels in Greece are thought to be operating with a legal license.
No comments:
Post a Comment