ایس اے ساگر
واٹس ایپ پر ایک پوسٹ نظر سے گذری. سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ کے چاہنے والوں کیلئے یہ خبر قدرے ناخوشگوار ہے کہ أزهر ہند جامعہ نظامیہ کے استاد مولانا حافظ و قاری خالد علی قادری صاحب دو دن قبل جامعہ ازهر (مصر) سے حیدرآباد تشریف لا چکے ہیں. مولانا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جامعہ سے دكتورة وغیرہ کر رہے ہیں. مولانا کے بقول اس وقت جامعہ ازهر و جامعہ قاهرة میں 105ممالک کے تقریباً 20 لاکھ طلبہ علوم دینیہ و عصریہ حاصل کر رہے ہیں.
مصر وہ مبارک سرزمین ہے جس میں اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کیلئے ایک سورج اور چاند اور 11ستاروں نے سجدہ تعظیمی کیا.
اپنے گھر و خاندان سے دور ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے سینکڑوں مصائب برداشت کرتے ہوئے آخر کار عزیز مصر کی سلطنت سنبھالی جبکہ وہ اسی کے دارالحکومت قاہرہ کے ایک بازار میں فروخت کئے گئے تھے جسے آج بھی بازار ہی کی حیثیت سے باقی رکھا گیا ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام کا زندہ معجزہ کہا جا سکتا ہے.
حضرت یوسف علیہ السلام نے سرزمین مصر کیلئے فرمایا تھا کہ
خزینة الأرض
آج مصر میں عہد انبیاء کرام علیہم السلام کے متعدد آثار پائے جاتے ہیں. علم ایک ایسا خزانہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے والا صرف اپنی دنیا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی آخرت بھی سنوار لیتا ہے. مصر میں علم کے طلبگار دنیا کے کونے کونے سے کشا کشا چلے آتے ہیں.
تاریخ شاہد ہے کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں کے علاقے سینا کے جبل طور پر اللہ سبحانه وتعالى نے اپنے نبی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے گفتگو فرمائی اور اپنی تجلیات کا نزول فرمایا. مولانا خالد على صاحب کے بقول سینا کے ہر پتھر پر ایک درختکا سایہ نظر آئے گا .آپ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب اللہ جل شانہ نے اپنی تجلیات کا نزول فرمایا اس وقت درمیان میں یہ درخت حائل تھا جس سے ہو کر یہ تجلیات کوہ طور پر جاتیں. جہاں جہاں یہ تجلیات پہنچیں، وہاں اس درخت کا سایہ مہر کی شکل میں نظر آئے گا.
مصر کی یہ خوبی ہے کہ وہاں کبھی بارش نہیں ہوتی اگر ہوتی بھی ہو تو صرف چند منٹ کی اس کے باوجود
آیة من آية الله
رود نیل کی وجہ سے یہ ملک سر سبز و شاداب ہے. جس کی جھیلیں نپ صرف ملک کے کئی علاقوں سے گزرتی ہیں بلکہ اہلیان مصر اسی دریا کا فلٹر شدہ پانی پیتے ہیں.
مولانا نے جامعہ نظامیہ کے طلبہ کو بہت خوش قسمت کہا کہ جامعہ نظامیہ کے پاس ایک قیمتی جوهر ہے اس کی ہمیں قدر کرنی چاہئے . وہ کہتے ہیں کہ استاذ الاساتذہ، مصباح القراء ، فضيلة الشيخ علامہ حافظ و قاری محمد عبد اللہ قریشی ازهری صاحب قبلہ ادام الله فیوضہ (نائب شیخ الجامعة الجامعة النظامية حیدرآباد دکن، خطیب مکہ مسجد حیدرآباد دکن و سرپرست اعلیٰ دار القرات والتجويد حیدرآباد دکن) گذشتہ 5 دہائیوں سے فن قرات میں ہزاروں افراد کو بلا معاوضہ آراستہ کر چکے ہیں. ہمیں اپنے شیخ کے ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے اس زمانے میں بڑی بڑی ملازمتوں کے آفر کے باوجود اپنے ملک میں قرآن مجید کی خدمت کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ وہ آج بھی خرابی صحت کے باوجود مسلسل فن قرات کی کلاس با ضابطہ بلا معاوضہ چلاتے ہیں جبکہ یہی کلاس مصر کے کسی بھی ادارے میں 50 پونڈ میں لی جاتی ہے جس کا اگر ہم روپے میں تقابل کریں تو ایک طالب علم کو یومیہ 400 روپے خرچ کرنے پڑیں گے.
تاہم مصر کی غذا ہندوستان سے قدرے مختلف ہے. مہنگائی کے ساتھ ساتھ وہاں علم کی رفتار رود نیل کی رفتار سے بھی زیادہ سریع ہے جس کے سبب کہیں کوئی ملازمت کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی. یعنی مصر کا خواندگی شرح بہت عمدہ ہے.
مصر اسلامی تاریخ کے لحاظ سے بڑی اہمیت والا ملک ہے جہاں انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ محدثین و فقہاء کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں.
جامعہ ازهر کے بالکل رو برو ہی سبط رسول اللہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کا آستانہ ہے جہاں پر سابق صدر مصر حسنی مبارک نے بڑے اچھے انتظامات کئے ہیں.
جامعہ ازهر کے قریب ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جس کے اطراف خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے حضرت عمر ابن العاص رضی اللہ عنہ نے قبرستان بنایا تھا جہاں پر ہزاروں بزرگوں کے مزارات بھی موجود ہیں.
مصر میں مدفون بزرگوں کے متعلق بیان کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ جب مسلمانوں نے مصر فتح کیا تو یہودیوں نے کہا کہ یہ سارا مصر لے لو اور اس پہاڑ کو ہمارے حوالے کر دو . جب خلیفہ المسلمين حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہود کا یہ مطالبہ معلوم ہوا تب آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ پہاڑ ہی چاہئے باقی کچھ نہیں. یہ وہی قبرستان ہے جو جامعہ ازهر سے نہایت قریب ہے. جہاں سینکڑوں علماء صلحاء وغیرہ مدفون ہیں.
یہ الگ بات ہے کہ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے جامعہ ازهر کو جو عہد فاطمی میں قائم ہوا کو اہلِ تشیع کا قائم کردہ کہ کر بند کر دیا تھا جس کے باعث یہ تقریباً 90 برس تک بند رہا جسے بعد ازاں صلاح الدین ایوبی کی تحریکات و آثار کے ختم ہونے پر دوبارہ کھول دیا گیا.
مولانا خالد على قادری صاحب کا کہنا ہے کہ جامعہ ازهر کے نائب رئيس الجامعة ، فضيلة الشيخ علامہ سید إبراهيم بن صلاح الهدهد صاحب قبلہ مد ظله بڑی روحانیت کے مالک ہیں. وہ دن اور رات میں محض 4 گھنٹے آرام کرتے ہیں باقی سارا وقت تعلیم و تعلم میں صرف ہوجاتا ہے. وہ ہفتہ بھر میں ایک دفعہ اپنے مکان، جو جامعہ سے قریب ہی ہے واقع ہے، تشریف لاتے ہیں اور اپنے کشادہ مکان میں موجود باغ سے سبزیاں جمع کر کے اسے ہی استعمال میں لاتے ہیں. وہ نہ صرف طلبہ کے ہمدرد ہیں بلکہ اپنے سارے علاقے میں فیاض و مونس کہلاتے ہیں. ہر شہری ان کا خلوص دل سے ادب و احترام بجا لاتا ہے.
فضیلة الشيخ سيد إبراهيم بن صلاح الهدهد صاحب قبلہ(مد الله فیوضہ) جنہوں نے صد سالہ عرس و جلسہ عام حضرت شیخ الاسلام علامہ حافظ محمد انواراللہ فاروقی قادری چشتی نقشبندی رفاعی قدس سرہ العزیز (المعروف بہ بانئ جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن) میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی تھی علماء جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن اور حیدرآبادی تہذیب سے بہت متاثر ہیں.
اس وقت مصر کی کئی جامعات میں ہندوستان کے قدیم ترین اور اعلیٰ جامعات کے سینکڑوں طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جن میں قابل ذکر
1)جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن،
2) ندوة العلماء،
3)مرکز ثقافة سنیه،
4)دارالعلوم دیوبند،
5)جامعہ اشرفیہ مبارکپور،
6)مدرسہ قادریہ بدایوں وغیرہ شامل ہیں. جہاں ان سب نے انڈین ایمبیسی کے عہدیداروں اور مصریوں کا دل موہ لیا.
حسن یوسف پہ کٹی مصر کی انگشت زناں.
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب.
مولانا خالد على قادری صاحب صرف12دن کیلئے حیدرآباد آئے ہوئے ہیں.
بشکریہ مدثر احمد
No comments:
Post a Comment