Thursday 19 November 2015

جمعہ کی رات کو وعظ و نصیحت کا اہتمام

ایس اے ساگر
دعوت و تبلیغ کے عنوان سے جاری محنت کے ذریعہ زندگیوں میں دین زندہ ہورہا ہے .یہ الگ بات ہے کہ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جنھیں مراکز میں ہفتہ واری اجتماع پر اشکال ہوتا ہے جبکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ فرمایا کرتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا:
اے ابو عبدالرحمان! میری آرزو یہ ہے کہ آپ ہر روز وعظ فرمایا کریں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا (یہ کچھ مشکل نہیں) مگر آپ کو اکتا دینا مجھے اچھا نہیں لگتا، اور میں(آپ لوگوں کی خوشی کا) موقع اور وقت دیکھ کر نصیحت کرتا ہوں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقت اور موقع دیکھ کر نصیحت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی یہی خدشہ تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔
          
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ‏.‏ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَتَخَوَّلُنَا بِهَا، مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا
Narrated By Abu Wail :
'Abdullah used to give a religious talk to the people on every Thursday. Once a man said, "O Aba 'Abdur-Rahman! (By Allah) I wish if you could preach us daily." He replied, "The only thing which prevents me from doing so, is that I hate to bore you, and no doubt I take care of you in preaching by selecting a suitable time just as the Prophet used to do with us, for fear of making us bored."
زنا مشکل،  نکاح آسان :
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے دور میں نکاح کرنا آسان تھا. حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی شادی کا پیغام دینے گئے اور (گھر کے) کے اندر جاکر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے فضائل اور محاسن بیان کئے،
اور انہیں بتایا آپ کی لڑکی سے شادی کرنا چاھتے ہیں،
ان لوگوں نے کہا! حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے کو تو ہم تیار نہیں ہیں البتہ آپ سے کرنے کو تیار ہیں، چنانچہ وہ اس لڑکی سے شادی کرکے باہر آئے اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا اندر کچھ بات ہوئی ھے لیکن اسے بتاتے ہوئے مجھے شرم آرہی ھے،
بہر حال حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے انہیں ساری بات بتائی،
یہ سن کر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا (آپ مجھ سے کیوں شرما رھے ہیں) وہ تو مجھے آپ سے شرمانا چاہئے،
کیوں کہ میں اس لڑکی کو شادی کا پیغام دے رہا تھا جو اللہ نے آپ کےمقدر میں لکھی ہوئی تھی (ابو نعیم)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو (انکی بیٹی) حضرت ام کلثوم سے شادی کا پیغام دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے تو یہ فیصلہ کیا ہوا ھے کہ اپنی تمام بیٹیوں کی شادی صرف (اپنے بھائی) حضرت جعفر کے بیٹوں سے کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں، آپ اسکی مجھ سے شادی کردیں، اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی مرد ایسا نہیں ھے جو اسکے اکرام کا اتنا اہتمام کر سکے جتنا میں کروں گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا میں نے (اس بیٹی کا نکاح آپ سے) کردیا،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آکر مہاجرین سے کہا! مجھے شادی کی مبارک باد دو، انہوں نے انہیں مبارک باد دی اور پوچھا آپ نے کس سے شادی کی ھے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھے کہ میرے رشتہ دار اور تعلق کے علاوہ ہر رشتہ اور تعلق قیامت کے دن ختم ہوجائیگا،
میں نے اپنی بیٹی کی شادی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تھی اب میں نے چاہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی سے میری شادی ہوجائے تو مزید رشتہ کا تعلق حاصل ہوجائے .حوالہ کیلئے الاصابہ صفحہ  68 سے رجوع کیا جا سکتا ہے.
پاکیزہ معاشرے کا راز :
مخلوط معاشرے کے حامی بھلا جانیں کہ عورتوں کیلئے چہرے کا پرده کرنا بهی واجب و ضروری ہے، پردے میں چہرہ بهی شامل هے.
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا "
سوره الاحزاب آیت 59
یعنی کہ اے نبی جی،! اپنی بیویوں بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو  کہ وہ لٹکا دیا کریں اپنے (چہروں کے) اوپر کچھ حصہ اپنی چادروں کا یہ طریقہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جایا کریں پھر ان کو کوئی ایذاء نہ پہنچنے پائے اور اللہ تو بہرحال بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔
امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یوں فرماتی ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح ڈھکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔حوالہ کیلئے تفسیر حضرت امام ابن کثیر ، سوره احزاب آیت نمبر 59 و تفسیر ابن جریر سے رجوع کیا جاسکتا ہے.

No comments:

Post a Comment