Tuesday, 17 November 2015

مذہبی رواداری کا کیا مطلب؟

ایس اے ساگر
ان دنوں امت مسلمہ مذہبی رواداری کے حوالہ سے مختلف رویوں کیساتھ نظر آرہی ہے.غنیمت ہے کہ اہل علم حضرات اس سلسلہ میں رہبری فرماتے رہے ہیں. حضرت شیخ محمد تقی عثمانی مد ظلم 11/16, 10 نواز شریف کے دیوالی کی تقریب میں شرکت سے متعلق اہم تحریر مشعل راہ ہے. 
کیا ہے اسلامی تعلیم؟
اسلام نے دوسرے مذھب کے پیرؤوں کے ساتھ رواداری کی بڑی فراخ دلی کے ساتھ تعلیم دی ہے ۔ خاص طورپر جو غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے باشندے ہوں ، ان کے جان ومال ، عزت وآبرو اور حقوق کے تحفظ کو اسلامی ریاست کی ذمہ داری قراردیا ہے ۔ اس بات کی پوری رعایت رکھی گئی ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے مذھب پر عمل کرنے کی آزادی ہو ، بلکہ انہیں روزگار ، تعلیم اور حصولِ انصاف میں برابر کے مواقع حاصل ہوں ، اُن کے ساتھ حسن ِ سلوک کا معاملہ رکھا جائے اور ان کی دلآزاری سے مکمل پرہیز کیا جائے ۔ ہمارے فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ “اگر کسی شخص نے کسی یہودی یا آتش پرست کو اے کافر ! کہہ کر خطاب کیا ، جس سے اس کی دل آزاری ہوئی ، تو ایسا خطاب کرنے والا گنہگار ہوگا” (فتاوی عالمگیر یہ ص ۵۹ ج ۵)
قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ :
”اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو ۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “(ترجمہ سورہ ۶۰ آیت ۸) اسی بنیاد پر احادیث کا ذخیرہ اور اسلامی فقہ اور تاریخ کی کتابیں غیرمسلم شہریوں کے ساتھ نہ صرف رواداری ، بلکہ حسنِ سلوک اور برابر کے انسانی حقوق کی تاکید وترغیب سے بھری ہوئی ہیں(میں نے اپنی کتاب “اسلام اور سیاسی نظریات” میں ان تعلیمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے) لیکن رواداری ، حسن سلوک اور انصاف کا یہ مطلب ہر گزنہیں ہے کہ مذاھب کے درمیان فرق اور امتیاز ہی کو مٹادیا جائے ، اور مسلمان رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقیدہ ومذھب ہی کی تائید شروع کردیں ، یا اس عقیدہ پر مبنی مذھبی تقریبات میں شریک ہوکر یا ان کے مذھبی شعائر کو اپنا کران کے مذھب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو واضح طرز عمل بتایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ “تمہارے لئے تمہارادین ہے ،اور میرے لئے میرادین”۔
اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذھبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے ، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئی رکاوٹ ڈالے ، نہ دوسروں کو ڈالنے دے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی وہ مذھبی رسمیں جو ان کے عقیدے پر مبنی ہیں ، ان میں کوئی مسلمان انہی کے ایک فرد کی طرح حصہ لینا شروع کردے۔ پچھلے دنوں ھندؤوں کے دیوالی کے تہوار کے موقع پر ہمارے متعدد سیاسی رھنماؤں نے رواداری کے جوش میں دیوالی کی تقریبات میں باقاعدہ حصہ لیا ،بعض رھنماؤں نے ھندؤوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے تِلک بھی لگایا، اور اس کی وسیع پیمانے پر فخریہ انداز میں نشرواشاعت بھی ہوئی ۔ خود ہمارے وزیر اعظم بھی دیوالی کی تقریب میں نہ صرف شریک ہوئے ، بلکہ کیک بھی کاٹا۔ اور اخباری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ انہیں ہولی کے موقع پر بھی بلایاجائے اور ان پر رنگ بھی پھینکا جائے، غالباً ان کے ذہن میں یہ یکطرفہ پہلُو رہا کہ ھندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ عدم برداشت کے جو مظاہرے ہورہے ہیں ، ان کے مقابلے میں پاکستان کی رواداری کو نمایاں کیا جائے کہ پاکستانی حکومت کس طرح ھندؤو ں کی خوشی میں برابر کی شریک ہے ، لیکن یہ پہلُو ان کی نظر سے اوجھل ہوگیا کہ دیوالی کے ساتھ بہت سے عقائد اور تصورات وابستہ ہیں جن کی بنیاد دیویوں اور دیوتاؤں کے مشرکانہ عقیدوں پر ہے اور اس طرف بھی ان کی توجہ نہ گئی کہ دیوالی میں شریک ہوکر کیک کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے ؟ دنیا کے عام رواج کے مطابق عموماً کیک کاٹنے کی رسم کسی کے یوم پیدائش کے موقع پر ادا کی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ دیوالی کے موقع پر کس کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے ؟ بہت سے ھندؤوں کے عقیدے میں دولت اور خوشحالی کی دیوی (goddess)لکشمی بھی دیوالی کے پہلے دن پیدا ہوئی تھی، اور صحت وشفاکا دیوتا (god) دھن ونتری کا بھی یوم پیدائیش یہی ہے (وکی پیڈیا)۔چنانچہ دیوالی کے دنوں میں لکشمی کے بُت کی پوچا دیوالی کی تقریب کا ایک اہم حصّہ ہے ۔ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے ، وہ کیک کاٹیں ، یادئیے جلائیں یہ ان کے مذہب کا تقاضا ہے ،لیکن جو مسلمان توحید کا عقیدہ رکھتا ہو، اور لَااِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ پر ایمان اس کی شناخت کا لازمی حصہ ہو ، اس کے لئے اس عقیدے کے عملی مظاہرے کا حصہ بننا رواداری نہیں ، مداھنت اور اپنے عقیدے کی کمزوری کا اظہار ہے ۔ خاص طور پر ملک کے وزیر اعظم کا برسرِ عام قول وعمل صرف ان کی ذات کی حدتک محدود نہیں رہتا ، بلکہ وہ پوری قوم کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لئے اس میں تمام پہلوؤں کی رعایت اور مختلف جہتوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ وطن کے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ، حسن سلوک اور ان کی باعزت اور آرام دہ زندگی کا خیال رکھنا یقینا ضروری اور مستحسن ہے ، لیکن ہر چیز کی کچھ حدود ہوتی ہیں ان حدود سے آگے نکلنے ہی سے انتہا پسندی کی قلمرو شروع ہوتی ہے ۔غیر مسلموں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا، یا ان کے اپنے مذھب پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالنا یقینا گناہ اور قابل مذمت ہے ، لیکن کسی مسلمان کا ان کے عقیدوں پر مبنی مذھبی رسوم میں شریک ہونا بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے ۔ اعتدال کا راستہ افراط وتفریط کی انتہاؤں کے درمیان سے گذرتا ہے ۔
اسلام اور مذہبی رواداری:
مولانا کمال اختر قاسمی‏، رکن ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ، کے مطابق، اسلام نام ہے زندگی گزارنے کے اس طریقہ کاجو آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا،اور بعد میں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا،اسی طریقہ کی تبلیغ و اشاعت کیلئے  دنیا میں انبیاءعلیہ السلام  کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا:
          شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أوْحَیْنَا الَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہ ابْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسیٰ أنْ أقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ․
          ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا،اور جس کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی،اور جس کا حکم موسی اور عیسی کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔(شوری:۱۳)
          ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرام علیہم السلام  کا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے:
          اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاسْلَام (آل عمران:۱۹)
          ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
          ایسے عمومی دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقہ کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے؛ تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔
          قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ، انَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ نَارًا․(الکہف:۲۹)
          ترجمہ: اے نبی آپ کہہ دیجیے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔
مذہبی تعصب اور اسلام
          اسلام اپنے افکارونظریات کو بہ زور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے،ارشاد خداوندی ہے :
          لاَ اکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُوٴْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیٰ لاَانْفِصَامَ لَہَا(البقرہ:۲۵۶)
          ترجمہ: دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے،سرکشی کے معاملہ میں ہدایت واضح ہو چکی ہے، جو معبودانِ باطل کا منکر اور اللہ پر ایمان رکھتا ہو،اس نے مضبوط سہارا تھام لیا،جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
          دیگر مذہبی شعائر کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے؛
          وَلاَ تَسُبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْم(انعام:۱۰۸)
          ترجمہ:اللہ کے علاوہ جن معبود کو یہ لوگ پکارتے ہیں،انھیں گالیاں مت دو،کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی بنیاد پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔
          ہر انسان کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواپنی اپنی عبادت گاہوں سے والہانہ عقیدت ہوتی ہے،ان کے مسمار کر دینے سے ان فسادیوں کے تئیں اس کے دل میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے، جب بھی اسے موقع ملتا ہے اس کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور وہ تشددو فساد پر ا ترآتا ہے،جس سے پورا شہر اور ملک دہشت و فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔
          خلیفہٴ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کفار کے مذہبی معاملات کے تعلق سے جو معاہدہ لکھا، اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
          لاَیُہْدَمُ لَہُمْ بِیْعَةٌ وَلاَ کَنِیْسَةٌ وَلاَ قَصْرٌ مِنْ قُصُوْرِہِمْ الَّتِي کَانُوْا یَتَحَصَّنُوْنَ اذَا نَزَلَ بِہِمْ عَدُوٌّ لَہُمْ وََلَا یُمْنَعُوْنَ مِنْ ضَرْبِ النَّوَاقِیْسِ وَلاَ مِنْ اخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ عِیْدِہِمْ․
          ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے،اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائے گی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملہ میں قلعہ بند ہو تے ہیں،ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی،اور نہ تہواروں کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے، (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۱۷۲)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل:
          حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کیلئے جو معاہدہ تحریر فرمایا، اس کے بعض اجزا اس طرح ہیں:
          ”یہ امان ہے جو اللہ کے غلام امیر المومنین عمرنے اہلِ ایلیا کو دی،یہ امان جان و مال، گرجا، صلیب،تندرست و بیمار اوران کے تمام اہلِ مذہب کے لیے ہے،نہ ان کے گرجا میں سکونت اختیار کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے،نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔“(الفاروق،ج:۲،ص:۱۳۷)
          حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تمام معاہدوں کو اسی طرح باقی رکھا جس طرح عہدِ رسالت،حضرت ابو بکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے عہد میں تھے۔
          ایک مرتبہ غیر مسلموں کی شکایت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنرولید بن عتبہ رضی اللہ عنہ کوایک تادیبی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
          ”عراق میں مقیم نجران کے باشندوں کے سردار نے آکر میرے پاس شکایت کی ہے اور مجھے وہ شرط دکھائی ہے جو عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ طے کی تھی، میں نے ان کے جزیہ میں سے تیس جوڑوں کی تخفیف کر دی ہے،انھیں میں نے اللہ جَلَّ شَانُہ کی راہ میں بخش دیا ہے،اور وہ ساری زمین دے دی جو عمر نے انھیں یمنی زمین کے عوض صدقہ کی تھی،اب تم ان کے ساتھ بھلائی کرو؛ کیوں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ذمہ حاصل ہے،عمر نے ان کے لیے جو صحیفہ تیار کیا تھا، اسے غور سے دیکھ لو،اور اس میں جو کچھ درج ہے وہ پورا کرو“!( کتاب الخراج، اردو ترجمہ::۲۷۶)
          کچھ غیر مسلموں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کے گورنر عمرو بن مسلمہ رضی اللہ عنہ  کی سخت مزاجی کی شکایت کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گورنر کو لکھا :
          ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے علاقہ کے غیر مسلموں کو تمہاری سخت مزاجی کی شکایت ہے،اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے،نرمی اور سختی دونوں سے کام لو؛لیکن سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے․․․․ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو“!
          اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے؛ تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو۔
دشمنوں کے ساتھ عفو ودر گزر:
           دنیا کے ذخیرئہ اخلاق میں مذہبی رواداری کے تعلق سے یہ بات نادر الوجود ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے دشمنوں، بطور خاص مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزرکے برتاؤ کو لازمی قرار دیا ہو، اسلامی تعلیما ت میں اس طرح کے ہزاروں عملی ثبوت تاریخ کے صفحات پہ جلی قلم سے ثبت ہیں۔
          قرآن مجید میں ارشاد ہے:
          اِدْفَعْ بِالتِي ہِيَ أحْسَنُ فَاذَ الَّذِيْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہ وَلِيٌّ حَمِیْم․(حمٓ السجدہ:۳۴)
          ترجمہ: تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیاہے۔
          آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ان تعلیمات کا مطالعہ کیجیے جو صحیح ترین سندوں کے ساتھ ہم تک پہونچی ہیں،اندازہ ہو گا کہ دشمنوں کے ساتھ عفوو درگزر ،ہمدردی و غمخواری،اور حسن سلوک کی جو مثالیں پیش کی ہیں، معلوم دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتیں،نمونہ کے لیے چند واقعات اختصار کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:
          اللہ کے رسول… نے اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی کبھی انتقام کا معاملہ نہیں کیا۔
          اہلِ مکہ نے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ جو ظلم اور زیادتیاں کی ہیں،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں متعدد مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا،ایک مرتبہ تمام قبائل کے افراد آپ… کو قتل کرنے کے لیے گھر میں گھس آئے،بالآخر آپ کو اپنے محبوب شہراور خانہ کعبہ کو الوداع کہنا پڑا؛لیکن ۹سال بعد جب اسی شہر مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ ہو گیا،اور سامنے وہی ظالم و جابر اب بھی موجود تھے جنہوں نے اسی شہر میں آپ… کو پورے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں محصور کر کے مکمل بائیکاٹ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پوری توانائی صرف کر دی تھی،جب آپ… اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے،لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے؛لیکن ہادئیِ برحق نے ان کے توقع کے خلاف یہ اعلان کردیا:
          لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ؛ اِذْہَبُوْا فَأنْتُمُ الطُّلَقَاءُ․
          ترجمہ:آج تم پر کوئی الزام نہیں،اللہ تمہاری غلطی کو معاف کرے گا،جاؤ تم سب آزادہو۔ (ابن ہشام،ج:۲ص:۲۷۳)
          وحشی رضی اللہ عنہ جورسول اللہ کے عزیز ترین چچا کا قاتل،ہند زوجہٴ ابو سفیان جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا سینہ چاک کر کے دل و جگرکوچبایا تھا، سب کو معاف کردیا۔(بخاری، کتاب المغازی،باب قتل حمزہ،بخاری کتاب الفضائل،ذکر ھند)
          حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جو اسلام کے شدید ترین دشمن ابو جہل کے بیٹے ہیں،اسلام لانے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے میں ابو جہل سے کم نہ تھے؛لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا ۔(موطا امام مالک ،کتاب النکاح،باب نکاح المشرک)
           اور دوسری روایت میں وارد ہے کہ ان کیلئے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پہ یہ کلمات جاری تھے:
          مَرْحَبًا بِالرَّاکِبِ الْمُہَاجِرِ․ اے ہجرت کرنے والے سوار خوش آمدید۔(مشکوٰة کتاب الادب،باب المصافحة والمعانقہ،بحوالہ ترمذی)
          عمروبن وہب رضی اللہ عنہ  جنھیں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پرمامور کیا تھا،فتح مکہ کے روز ڈر کے مارے جدہ بھاگ گئے ،صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ہی کے کہنے پر،ان کو واپس بلا کر معافیِ عام میں شامل کیاگیا۔( سیرت ابن ہشام،ج:۲ص:۲۷۶)
          ہباربن الاسود جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو جب وہ حاملہ تھیں،جان بوجھ کر دشمنی کی وجہ سے اونٹ سے گرا یا،جس سے ان کو سخت اذیت پہنچی اور حمل ضائع ہو گیا، فتح مکہ کے روز جب ہبار قبضہ میں آئے تو ان کو بھی معاف کر دیا گیا۔( اصابہ،ذکر ھبار بن الاسود،ج:۶ص:۲۷۹)
          ابو سفیان رضی اللہ عنہ جو دشمنانِ اسلام کے سردار تھے،فتحِ مکہ کے روز ان کو صرف معاف ہی نہیں کیا گیا؛ بلکہ یہ اعلان کردیاگیا کہ جو کوئی ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہو جائے اس کا قصور بھی معاف ہو جائے گا۔ (بخاری ومسلم،فتح مکة)
          رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اشعث بن قیس مرتدین کے ساتھ ہوگئے تھے، وہ جب گرفتار کر کے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ  کے سامنے حاضر کیے گئے، تو اشعث نے توبہ کر لی،حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو معاف کر دیا۔(خلفائے راشدین ص:۵۷،یعقوبی ج:۲،ص۱۴۹)
اسلام اور انسانی برادری
          اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے، جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر وفساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری ہوئی دنیاجنت نشان بن جائے،محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی۔آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
          ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ،اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔(بخاری کتاب الادب)
          ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
          جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(ایضاً)
          تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا۔(حاکم مستدرک ،کتاب البر والصلة)
          اسلام کی دی ہوئی رافت ورحمت کی تعلیم میں انسان کے ساتھ جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اللہ کے رسول کا ارشاد ہے:
          جو انسان کوئی درخت لگائے گا اس میں سے جو انسان یا پرندہ بھی کھائے گا،اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔(بخاری،کتاب الادب ،باب رحمةالناس والبھائم )
          ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا جس نے ایک جانور کے ساتھ حسن سلوک کیا تھا،تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس کے اس کام پر بھی ثواب ملا،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاجانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے میں ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اس چیز کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے جس میں زندگی کی تری (ترجگر) ہے۔ (بخاری،کتاب الادب ،باب رحمةالناس والبھائم)
          ایک غیر مسلم بوڑھے شخص کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ،آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟اس نے جواب دیا ٹیکس ادا کرنے کیلئے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو اپنے گھر لے گئے ،کچھ دیا اور خزانہ کے انچارج کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ اس کی اور اس جیسے لوگوں کی دیکھ بھال کیا کرو،خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم لوگ کھائیں اور بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں،قران میں فقراء ومساکین کیلئے  صدقہ کی اجازت ہے،فقراء تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں،اور یہ لوگ غیر مسلم مساکین ہیں،ان سے جزیہ نہ لیا جائے،اور مسلمانوں کے بیت المال سے ایسے لوگوں کے لیے وظیفہ جاری کر دیا جائے۔(کتاب الخراج)
مذہبی رواداری کا کیا مطلب؟  http://saagartimes.blogspot.com/2015/11/blog-post_33.html

No comments:

Post a Comment