Friday, 27 November 2015

داعش پر اٹکلیں

ایس اے ساگر

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر چند انگریزی روزناموں کے حوالہ سے پتہ چلا کہ جس طرح  ہندوستان میں سیمی ایس آئی او اور جماعت اسلامی میں نظریاتی فرق نہیں رہا ہے بلکہ  ملک کے بدلتے منظرنامے کی وجہ سے کچھ معاملات میں سیمی نے اختلاف کرتے ہوےُ  شدت پسندانہ رویہ اختیار کیا جو جماعت اسلامی کو پسند نہیں تھا  یا یوں کہ لیجئے کہ جماعت پرامن تحریک اور دعوت و لیٹر یچر کے ذریعے ماحول کو بدلنے کی حامی رہی ہے -مگر  مودودی کے نظریات اور نصب العین پر دونوں کا اتفاق ہے ...اسی طرح عرب کی جتنی بھی اسلامی  تحریکیں ہیں یہ سب اخوان کی شاخ ہیں -ان میں حماس کا تعلق اور اس کی ساری سرگرمی فلسطین تک محدود ہیں لیکن اس کے سارے لیڈران اخوان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ خود اخوان کا وجود بھی فلسطین کی آذادی کیلئے ہوا تھا ....کچھ تفصیل آپ کو مصطفیٰ طٰحیٰ کی کتاب فلسطین صہیونیت کے نرغے میں مل جاےُ گی ...
1980 کے بعد ایمن الظہواری اور بن لادن کی القاعدہ کا وجود بھی اخوان سے ہی ہوا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ اخوان کے دشمن ہو گںُے بلکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ  گوانتاناموبے کی جیل میں القاعدہ کے قیدی سید قطب شہید کی نظمیں پڑھ کر اپنا وقت گذارا کرتے تھے اور آپ کو یاد ہوگا کہ 2012 میں جب اخوان حکومت میں آےُ تو مصر کی جیلوں میں قید القاںُدہ کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا ان میں ایک ایمن الظہواری کے سگے بھائی بھی تھے ...
افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ کے بچے کھچے لوگ عرب واپس لوٹ گںُے اور یہی وہ دور تھا جب عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم ہو چکی تھی اور عراق کی شیعہ غلبہ والی حکومت نے سنی مسلمانوں پر ظلم کرنا شروع کر دیا تھا اور خاص طور سے صدام حسین کے سنی فوجیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ عروج پر تھا  -یعنی ایک طرف امریکی فوج  عراق میں مصعب الزرقاوی کی قیادت میں سرگرم  القاںُدہ عراق سے برسر پیکار رہی تو دوسری طرف عراقی حکومت نے  اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے صدام حسین کے وفادار سنی فوجیوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا -اسی دوران موجودہ داعش کے سربراہ جو شروع میں بغداد کے قریب ایک دیہات میں  مسجد کی امامت اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ہیں اور اخوان سے متاثر تھے انہوں نے عراق میں سنی مسلمانوں پر ہو رہے ظلم کو دیکھتے ہوےُ اہل سنہ والجماعت کے نام سے ایک  تحریک کی شروعات کی اور کچھ دنوں کے بعد القاںُدہ عراق سے منسلک ہو گںُے اور  2004 میں گرفتار کر لیے گںُے -مگر 2009 میں جب امریکہ نے اپنے کیمپ کو بند کیا تو ابوبکر البغدادی جن کا اصلی نام امریکی جیل کی فہرست میں درج. تھا وہ ابراہیم ہے اور اسی نام سے انہوں نے بغداد کی اسلامی یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی بھی کی ہے رہا کر دیںے گںُے - چونکہ  2006 میں القاںُدہ عراق کے لیڈر مصعب الزرقاوی  جو خود بھی بن لادن وغیرہ سے بھی زیادہ شدت پسند واقع ہوےُ تھے اور عراق میں خودکش دھماکوں کی شروعات بھی انہوں نے ہی کی تھی ان کی شہادت کے بعد ایک دوسرے لیڈر  ابو عمر نے قیادت کی ذمداری سمبھال رکھی تھی وہ بھی شہید کر دیے گںُے تو القاںُدہ عراق نے اپنا نام بدل کر النصرہ فرنٹ رکھ لیا جسکی قیادت ابوبکر البغدادی کے ہاتھ میں آئ -بعد میں ابوبکر البغدادی اور ان کے کچھ ساتھیوں نے تنظیم کا نام بدل کر دولت اسلامیہ عراق رکھ دیا مگر کچھ ساتھیوں نے النصرہ فرنٹ کو اسی حالت میں رکھ کر اپنی تحریک جاری رکھی -جیل میں چونکہ ابوبکر البغدادی  صدام حسین کے سنی فوجیوں کے رابطے میں آچکے تھےُ اس لیُے صدام حسین کے فوجیوں کی مدد سے ان کی تحریک کو بہت بڑی مدد ملی -انہوں نے عراقی حکومت کے اسلحہ خانوں کو لوٹنا شروع کیا اور خاص طور سے 2011 میں امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد انہیں ایک اور سنہری موقع ملا اور کہا جاتا ہے کہ طیب اردگان کی قیادت میں چل رہی حکومت ترکی کی مدد سے انہوں نے  فلوجہ پر حملہ کر کے عراق کے بہت بڑے اسلحے پر قبضہ کر لیا اور پھر یہاں سے ان کے عروج کا جو دور شروع ہوتا ہے انہیں شام, سعودی عرب اور تیونس وغیرہ سے جہاد کیلئے نوجوان دستیاب ہونے لگے -اسی موقع کا فاںُدہ اٹھاتے ہوےُ یہ تحریک شام تک پھیل گںُی اور اس کا نام بدل کر انہوں نے دولت اسلامیہ عراق اور شام رکھ دیا -اس طرح داعش کا وجود عمل میں آجاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی فرقہ ہے بلکہ میں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا بھی ہے کہ النصرہ فرنٹ اور فری سیرین آرمی سب ایک ہیں فرق اتنا ہے کہ انہیں ہتھیار خریدنے اور تیل بیچنے کیلئے ایک جاںُز فرنٹ کی ضرورت ہے اور یہ کام فری سیرین آرمی جسکے امریکہ کے ساتھ روابط کا پوری دنیا کو علم ہے کر رہی ہے -ایک وقت آےُ گا جب ساری تحریکیں ایک پرچم کے نیچے ضم ہو جاںُیں گی اور ہر تحریک امت کے مفاد میں  اسی طرح قربانی پیش  کریگی جیسے کہ ملا محمد عمر نے القاںُدہ اور بن لادن کیلئے اپنی حکومت کی قربانی پیش کی تھی -اور بھی بہت ساری سیاست ہے اور خود امریکہ بھی فری سیرین کی آڑ میں داعش کو مضبوط کر رہا ہے تاکہ روس جو کہ پھر سے ابھر کر آرہا ہے اسے کمزور کرنے کیلئے داعش کا استعمال اسی طرح کیا جاسکے جیسا کہ سردجنگ کے دوران امریکہ نے  افغان مجاہدین کی مدد کر کے روس کو تباہ کر دیا اور جیسا کہ العرابیہ کے حالیہ انٹر ویو میں ملا متوکل نے بھی اعتراف کیا ہے کہ روس کی سرحد پر پانچ ہزار کے قریب داعش کے جنگجو متحرک ہیں -بظاہر طالبان ایک حکمت عملی کے تحت داعش سے اپنے اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو بیان دیا جاےُ وہی سچ ہو -جنگ میں جھوٹ کی اجازت اسلام بھی دیتا ہے اس بات کو  مدنظر رکھتے ہوےُ اگر دیکھا جاےُ تو داعش اور ابوبکر البغدادی کے پروپگنڈہ کرنے میں ایران اور اس کے میڈیا کا اہم کردار ہے کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط سنی ملیشیا سے ایران کو زیادہ خطرہ ہے اور اب تو عرب کے حکمراں بھی اسی طرح  خطرہ محسوس کرتے ہیں جیسے کہ وہ مصر میں  پرامن تحریک اخوان کی حکومت کو نہیں برداشت کر سکے -ایک بات اور بتا دی جاےُ کہ بغداددی نے اپنے خطبے میں مولانا مودودی اور حسن البنا کا بھی تذکرہ  بہت ہی احترام کے ساتھ لیا تھا کہ عالم اسلام کی ان شخصیتوں نے کس طرح ایک ایسے وقت میں اسلامی طرز سیاست کی وکالت کی جبکہ پوری دنیا سے خلافت کا تصور مٹ چکا تھا - اس پوسٹ میں کیا گیا ہے کہ یہ معلومات ہندوستان ٹاںُمس ، اکنامکس ٹاںُمس ، ممبئی مر ر اور گو گل کے حوالے پیش کی گئی ہیں ہوں ، واللہ علم با الثواب

حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کا حالیہ مضمون داعش ؛ نہ امریکہ کی ایجنٹ،  نہ اسرائیل کی ایجنٹ،  وہ ایک متحد اور انتہاپسند '' سلفی'' تنظیم ہے بھی قابل غور ہے:

No comments:

Post a Comment