Saturday 28 December 2019

Qunoot - e - Naazilah: دفع مصائب کا غیبی علاج: قنوت نازلہ کا اہتمام

دفع مصائب کا غیبی علاج: قنوت نازلہ کا اہتمام
اللہ قادرمطلق ہیں اور انسان اپنے خالق کے مقابلہ عاجز محض، دنیا میں کوئی بھی واقعہ جو پیش آتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر وہ وقوع پذیر نہیں ہوسکتا؛ اس لئے ایک صاحب ایمان کا کام یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے دوچار ہو، اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے خزانۂ غیب سے مدد کا طلبگار ہو؛ اسی لئے اسلام میں ایک مستقل نماز 'نمازِ حاجت' رکھی گئی کہ انسان کی کوئی بھی ضرورت ہو، دو رکعت نماز خاص اسی نیت سے پڑھ کر اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے، بعض دفعہ ضرورتیں یا ابتلائیں غیرمعمولی ہوجاتی ہیں، ان مواقع کے لئے شریعت نے مخصوص نمازیں رکھی ہیں، جیسے کسی کی وفات ہوجائے تو نمازِ جنازہ، بارش نہ ہو تو نماز استسقاء، کسی معاملہ کے بارے میں اضطراب ہو کہ کیا پہلو اختیار کرنا چاہئے؟ تو نمازِاستخارہ، سفر کے موقع پر دوگانۂ سفر۔
اسی طرح اگر دشمنوں سے مقابلہ ہو، خواہ مسلمان اعداء اسلام کے خلاف اقدامی جہاد کررہے ہوں، یا مدافعت کے موقف میں ہوں، یا ظلم وابتلاء سے دوچار ہوں، تو ایسے مواقع کے لئے کوئی مستقل نماز تو نہیں رکھی گئی؛ لیکن ایک خصوصی دُعاء رکھی گئی ہے، جس کو ’’قنوتِ نازلہ‘‘ کہتے ہیں، نازلہ کے معنی مصیبت وآزمائش کے ہیں اور قنوت کے متعدد معانی آتے ہیں، جن میں سے ایک معنی دُعاء ہے اور اس تعبیر میں یہی معنی مراد ہے، پس قنوتِ نازلہ کے معنی ہوئے مصیبت کے وقت کی دُعاء، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو کمزور لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اہل مکہ انھیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے تھے، ان کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، اسی طرح ایک خاص واقعہ پیش آیا، جس میں حفاظ کی ایک بڑی تعداد شہید کردی گئی، یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں بئرمعونہ سے مشہور ہے، اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی ہے۔
قنوتِ نازلہ کے سلسلہ میں کئی باتیں قابل ذکر ہیں، قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا، یا آج بھی امت کے لئے باقی ہے؟ قنوتِ نازلہ کن مواقع پر پڑھی جائے گی؟ کس نماز میں پڑھی جائے گی؟ اور نماز میں قنوت پڑھنے کا کیا محل ہے؟ کون پڑھے گا؟ بآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ؟ جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے ؟ قنوتِ نازلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کن الفاظ میں منقول ہے؟
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ قنوتِ نازلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھی؛ لیکن تمام قابل ذکر فقہاء وائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قنوت نازلہ کا حکم باقی ہے؛ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت آپ نے قنوتِ نازلہ پڑھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعض مواقع پر قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، آپ کی قنوت کے الفاظ بھی کتب ِاحادیث میں تفصیل کے ساتھ منقول ہیں، خلیفۂ راشد سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ کے موقع پر دونوں نے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، (دیکھئے: منحۃ الخالق علی البحر: ۲ ؍ ۴۴) — اس لئے صحیح یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص نہیں تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ (دیکھئے: حلبی: ۴۲۰، شرح مہذب: ۳ ؍ ۵۰۶، المقنع: ۴ ؍ ۱۳۵)
فقہاء رحمہم اللہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وجدال کے علاوہ دوسری مصیبتوں کے مواقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنی مسنون ہے، امام نووی شافعی رحمہم اللہ نے وباء اور قحط میں قنوت پڑھنے کا ذکر کیا ہے، (روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتیین: ۱ ؍ ۲۵۴) حنابلہ کے یہاں بھی ایک قول یہ ہے کہ وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے، (دیکھئے: الانصاف مع المقنع: ۴ ؍۱۳۹) حنفیہؒ نے بھی لکھا ہے کہ طاعون کی بیماری پھیل جائے تو اس کا شمار بھی نوازل میں ہوگا، (ردالمحتار: ۲ ؍ ۴۴۷) ویسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وبائی امراض وغیرہ میں قنوتِ نازلہ پڑھنا ثابت نہیں؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جو 'طاعون عمواس' ('طاعون عمواس' خلافت فاروقی میں شام کے قریہ 'عمواس' میں پھیلنے والی ایک وبا جس سے بہت سے صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین وفات پاگئے۔ 18ھ میں بہت ہی خطرناک اور مہلک طاعون کی وبا پھیلی جس سے ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وفات پاگئے مؤرخین نے دور فاروقی کا اہم واقعہ شمار کیا ہے۔ اس می بہت اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وفات ہوئی ان میں ابو عبیدہ بن جراح معاذ بن جبل یزید بن ابی سفیان حرث بن ہشام سہیل بن ہشام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے) کا واقعہ پیش آیا، تو اس موقع پر قنوت نہیں پڑھی گئی (الانصاف : ۴ ؍ ۱۳۹) گویا اصل میں تو قنوتِ نازلہ جنگ کے موقع پر پڑھی گئی ہے؛ لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے دوسری مصیبتوں میں بھی قنوتِ نازلہ کی اجازت دی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح میں قنوت اسی وقت پڑھتے تھے، جب کسی گروہ کے حق میں دُعاء کرنا یا کسی گروہ کے خلاف بد دُعاء کرنا مقصود ہوتا، (اعلاء السنن، حدیث نمبر: ۱۷۱۵) اسی مضمون کی روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (اعلاء السنن: حدیث نمبر: ۱۷۱۴)
گویا جب مسلمان اعداء ِاسلام سے جنگ کی حالت میں ہوں تب تو خاص طور پر قنوتِ نازلہ مسنون ہے؛ لیکن دوسری اجتماعی مصیبتوں کے موقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔
قنوتِ نازلہ کس نماز میں پڑھنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ایک ماہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبنوسلیم، رعل، ذکوان، عصیّہ قبائل کے لئے بددُعاء فرمائی ہے، (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۴۴۳) بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھا کرتے تھے، (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنا حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہما سے بھی مروی ہے، (طحاوی :۱ ؍ ۱۴۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں نمازِ عشاء میں قنوتِ نازلہ پڑھنے اور مکہ کے مستضعفین کے لے دُعاء کرنے کا ذکر ہے، امام طحاوی رحمة اللہ علیہ نے اس کو متعدد سندوں سے نقل کیا ہے؛ چنانچہ فقہاء شوافع کے نزدیک تو پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے، (شرح مہذب: ۲ ؍۵۰۶، روضۃ الطالبین: ۱؍۲۵۴) حضرت امام احمد رحمة اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے، ایک قول کے مطابق فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہئے، ایک قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتا ہے اور ایک قول کے مطابق صرف نماز فجر میں، (دیکھئے: الشرح الکبیر: ۴ ؍ ۱۳۷، الانصاف مع المقنع: ۴ ؍ ۱۳۷) غرض حنابلہ رحمہم اللہ کے مختلف اقوال اس سلسلہ میں منقول ہیں۔
فقہاء احناف کے یہاں دو طرح کی تعبیرات ملتی ہیں، ایک یہ کہ تمام جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا چاہئے، فقہ حنفی کی اکثر متون یعنی بنیادی کتابوں میں یہی لکھا ہے: ’’فیقنت الامام فی الصلوٰۃ الجہریۃ‘‘ (ملتقی الابحر علی ہامش المجمع : ۱؍ ۱۲۹) مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی رحمة اللہ علیہ نے بھی بعینہٖ یہی الفاظ لکھے ہیں، (درمختار مع الرد : ۲ ؍ ۴۴۸) مشہور محقق امام طحطاوی رحمة اللہ علیہ نے بھی جہری نمازوں میں قنوت کی اجازت نقل کی ہے، (طحطاوی علی المراقی: ۲۰۶) یہی بات بعض دوسرے فقہاء احناف سے بھی منقول ہے، (دیکھئے : رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) ماضیٔ قریب کے اہل علم میں مولانا انورشاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے، (فیض الباری: ۲ ؍ ۳۰۲) اور علامہ حموی رحمة اللہ علیہ نے اسی قول کو زیادہ درست قرار دیا ہے، (منحۃ الخالق علی البحر: ۲ ؍۴۴) — دوسری رائے یہ ہے کہ صرف نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنا درست ہے، علامہ شامی رحمة اللہ علیہ کا رجحان اسی طرف ہے، شامی رحمة اللہ علیہ کا گمان ہے کہ ممکن ہے کہ بعض نقل کرنے والوں نے ’’صلاۃ الفجر‘‘ کو غلطی سے ’’صلاۃ الجہر‘‘ لکھ دیا ہو، (دیکھئے: ردالمحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) لیکن جب اتنی ساری نقول موجود ہیں، تو محض ظن وتخمین کی بناء پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے خود علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شاید اس سلسلہ میں احناف کے دو قول ہیں: ’’ولعل فی المسئلۃ قولین‘‘۔ (منحۃ الخالق علی ہامش البحر: ۲ ؍ ۴۴)
پس، جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ قنوتِ نازلہ مغرب، عشاء اور فجر تینوں میں پڑھنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ اس سلسلہ میں احادیث موجود ہیں؛ البتہ چوںکہ فجر کے بارے میں اتفاق ہے اور دوسری نمازوں کی بابت اختلاف؛ اس لئے بہتر ہے کہ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے پر اکتفا کیا جائے — رہ گئی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت جس میں ظہر وعصر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا ذکر ہے، تو اکثر فقہاء کے نزدیک وہ منسوخ ہے اور احادیث میں بعض قرائن اس کے منسوخ ہونے پر موجود ہیں۔
نماز میں قنوتِ نازلہ کب پڑھی جائے گی؟ تو اس سلسلہ میں احادیث قریب قریب متفق ہیں کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے، (دیکھئے: بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۲، ابوداؤد: حدیث نمبر: ۱۴۴۴) فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ (منحۃ الخالق علی ھامش البحر: ۲ ؍ ۴۴)
دُعاء ِقنوت زور سے پڑھی جائے یا آہستہ؟ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ مضر کے خلاف بد دُعاء کرتے ہوئے جہراً قنوت پڑھی ہے، (بخاری کتاب التفسیر، باب قولہ: لیس لک من الامر شئی) اس لئے راجح قول یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ امام کو جہراً پڑھنا چاہئے، اسی کو اہل علم نے ترجیح دی ہے، (دیکھئے: اعلاء السنن: ۶ ؍۱۱۲) یوں دُعاء آہستہ کرنا بھی درست ہے؛ بلکہ عام حالات میں آہستہ دُعاء کرنا افضل ہے؛ لہٰذا آہستہ دُعاء کرنے کی بھی گنجائش ہے — جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے؟ اس سلسلہ میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر امام جہراً دعاء قنوت پڑھے، تو مقتدی آمین کہنے پر اکتفاء کرے اور اگر آہستہ قنوت نازلہ پڑھے تو مقتدی بھی دُعاء کو دہرائے، (ردالمحتار: ۲ ؍ ۴۴۹) — اس بات پر حنفیہ کا اتفاق ہے کہ جیسے نماز سے باہر ہاتھ اُٹھاکر دُعاء کی جاتی ہے، اس طرح قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اُٹھاکر دُعاء نہیں کی جائے گی؛ لیکن ہاتھ باندھ کر رکھا جائے؟ یا چھوڑدیا جائے؟ اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث موجود نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہاتھ باندھنا بہتر ہے اور امام محمد رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہاتھ چھوڑے رکھنا بہتر ہے، (دیکھئے: اعلاء السنن : ۶ ؍۱۲۲) چوںکہ قنوتِ نازلہ ’’قومہ‘‘ کی حالت میں پڑھا جاتا ہے اور قومہ کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا مسنون ہے، اس لئے بہتر یہی معلوم ہوتا ہے، کہ ہاتھ چھوڑے رکھے؛ البتہ بعض شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قنوتِ نازلہ میں بھی اسی طرح ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے، جس طرح عام دُعاؤں میں، (دیکھئے: المغنی: ۲ ؍ ۵۸۴ بہ تحقیقی ترکی وغیرہ) مگر خاص نماز کی حالت میں ہاتھ اُٹھاکر دُعاء کرنے میں غالباً کوئی حدیث نہیں۔
رہ گئے قنوتِ نازلہ کے الفاظ، تو اس سلسلہ میں کچھ خاص الفاظ ہی کی پابندی ضروری نہیں: ’’واما دعاء ہ فلیس فیہ دعاء موقت‘‘ (البحرالرائق : ۲ ؍۴۱) البتہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینسے ثابت ہوں، ان کو پڑھنے کا اہتمام کرنا بہتر ہے، اس سلسلہ میں ایک تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان الفاظ میں دُعاء سکھائی:
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْت، وَ بَارِک لِی فِیْمَا اَعْطَیْت وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَایُقْضٰی عَلَیْکَ وَاِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۴۲۵)
اے اللہ! مجھے بھی ان لوگوں کیساتھ ہدایت عطا فرمائیے، جنھیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ عافیت میں رکھئے، جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے اور میری بھی ان لوگوں کے ساتھ نگہداشت فرمایئے، جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے، جو کچھ آپ نے عطا فرمایا ہے، اس میں میرے لئے برکت عطا فرمایئے، قضاء وقدر کے شر سے میری حفاظت فرمائیے؛ کیوںکہ آپ فیصلہ کرتے ہیں، آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، جسے آپ دوست بنالیں وہ ذلیل نہیں ہوسکتا، اور جس کے آپ دشمن ہوں وہ باعزت نہیں ہوسکتا، پروردگار! آپ کی ذات، مبارک اور بلند ہے۔
حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کے بھی ایک دُعاء پڑھنا منقول ہے، جس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بیہقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے، (الاذکار: ۹۷) اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے، جو وتر والی دُعاء قنوت پڑھنے کے بعد وہ پڑھا کرتے تھے، اس دُعاء میں حضرت عمرؓی دُعاء کا عطر بھی آگیا ہے، اس لئے اس دُعاء کے الفاظ کا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
اللھم اعفر للمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات والف بین قلوبھم وأصلح ذات بینہم و انصرھم علی عدوک وعدوھم، اللھم العن کفرۃ اھل الکتاب الذین یکذبون رسلک ویقاتلون اولیاء ک، اللھم خالف بین کلمتہم وزلزل أقدامھم وأنزل بھم باسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین۔ (ردالمحتار: ۲ ؍ ۳۳،۴۳۲)
الٰہی! اصحابِ ایمان مردوں اور عورتوں اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرمادیجئے ، ان کے دلوں کو جوڑدیجئے، ان کے باہمی اختلاف کو دور فرمادیجئے، ان کی آپ کے دشمن اور ان کے دشمن کے مقابل مدد فرمایئے، اے اللہ! کفار اہل کتاب پر آپ کی لعنت ہو جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور آپ کے اولیاء سے برسرپیکار ہیں، اے اللہ! ان کے درمیان اختلاف پیدا کردیجئے، ان کے قدم کو متزلزل فرمادیجئے اور ان کو آپ اپنے اس عذاب میں مبتلا فرمایئے، جو مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دعاء قنوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھی بھیجنا چاہئے: ’’ویصلی علی النبی وبہ یفتی‘‘۔ (دالمختار: ۲ ؍ ۴۴۲)
یہ وقت ہے کہ ہرمسلمان اپنی جبینِ بندگی خدا کے سامنے خم کردے اور پورے الحاح اورفروتنی کے ساتھ اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے، کہ دنیا میں اسلام کا نام سربلند ہو اوراسلام اور مسلمانوں سے بغض رکھنے والے بالآخر آخرت کی طرح دنیامیں بھی محرومی کا حصہ لے کر واپس ہوں: ’’وما ذٰلک علی اﷲ بعزیز، انہ علٰی کل شییٔ قدیر‘‘۔ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) (ایس اے ساگر)


Thursday 26 December 2019

حفاظت کا ایک خاص عمل: کیا یہ درست ہے؟

حفاظت کا ایک خاص عمل: کیا یہ درست ہے؟

علمائے دیوبند کے اکابر میں سے ایک بزرگ تھے جو حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے استاد بھی تھے یعنی مفتی تقی عثُمانی مدظلہ کے دادا استاد، وہ فرمایا کرتے تھے کہ حفاظت کا ایک عمل ایسا ہے کہ کچھ خاص لوگوں کو ہی بتایا کرتا ہوں لیکن اب چوں کہ عمر کا آخری حصہ ہے اس لیے دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان تک یہ پہنچ جائے۔ اس کی تائید حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ نے بھی کی تھی اور یہ عمل کیا کرتے تھے۔ وہ عمل ذیل میں ارسال کیا جارہا ہے۔
*اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم (تین مرتبہ)
*بسم اللہ الرحمن الرحیم (تین مرتبہ)
*اعوذ بِکَلِماتِ اللہِ التَّامَّات مِن شرِّ مَا خَلَق (تین مرتبہ)
*بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ اخلاص
*بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ فلق
*بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ الناس
*فَاللہُ خَیرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرحَمُ الرَّاحِمِین (تین مرتبہ)
*وَ اَنَّ اللہَ قَد اَحَاطَ بِکُلِّ شَیئٍ عِلمًا (تین مرتبہ)
آخر میں کوئی بھی درود شریف تین مرتبہ
اس کے بعد پورے جسم پر دم کرلیں، اپنے اہل وعیال اور بچوں کا بھی حصار کرلیں۔ 
فجر کی نماز کے بعد، مغرب کی نماز کے بعد ان شاءاللہ بے شمارفوائدو برکات کھلی آنکھوں سے نظر آئیں گی اور شیطانی قوتوں اورہمہ قسم بداثرات سے حفاظت ہوگی- مفتی صاحب! کیا یہ عمل درست ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
واضح رہے کہ جائز مقاصد کے حصول کے لیے وہ وظائف جو بزرگوں کے مجربات ہوتے ہیں، اگر وہ مجربات شریعت کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں، تو انہیں بطور علاج پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ ان وظائف کو فرض واجب سمجھنا درست نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ "وظیفہ حفاظت" بھی ایک مجرب عمل ہے، قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے، لہذا اسے پڑھنا مفید ہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
----------------------------------------------
حفاظت کا خاص مجرب عمل
البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ پانچ آیات ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان میں اسم اعظم ہے۔ ان میں سے ہر ایک آیت میں دس قاف ہیں تو جو ان آیات کو اپنا معمول بنالے اسے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ ان آیات کی تاثیر کا ایک عجیب واقعہ بھی روایات سے ملتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک بادشاہ کو اپنے وزیر سے سخت دشمنی تھی۔ ایک روز بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا کہ جب وزیر آئے تو میں تجھے اشارہ کروں گا تم اس کی گردن اڑادینا۔ مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ جب وزیر بادشاہ کے سامنے آیا تو بادشاہ کا سارا بغض محبت میں بدل گیا اور جلاد کو اشارہ کرکے کہا کہ واپس چلا جائے۔ پھر کئی روز تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ جب وزیر غائب ہوجاتا تو بادشاہ اس کے قتل کا حکم دیتا اور وزیر جیسے ہی سامنےآتا تو اس کا غصہ محبت میں تبدیل ہوجاتا۔ ایک روز بادشاہ نے وزیر سے کہا میں تجھ سے ایک بات پوچھتا ہوں سچ سچ بتاؤ؟ وزیر نے کہا آپ حکم کیجئے میں اعلان کرتا ہوں کہ درست کہوں گا۔ بادشاہ نے کہا ایک عرصہ سے میں تیرے قتل کا ارادہ کرتا ہوں مگر جب تیری شکل دیکھتا ہوں تو سارا غصہ کافور ہوجاتا ہے اور تیری محبت دل میں جاگ جاتی ہے تو بتا اس کا راز کیا ہے؟ سچ کہہ دے‘ خوف نہ کر‘ اس لیے کہ میں تجھے معاف کرچکا ہوں۔ وزیر نے کہا حضور میرے استاد نے مجھے چند آیتیں ہمیشہ پڑھنے کی تلقین کی تھی اور فرمایا تھا ان میں سے ہر آیت میں دس ’’قاف‘‘ ہیں جو ان آیات کو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے پڑھے گا سب لوگ اس پر مہربان ہوں گے‘ اگر سلطان و حاکم ان کو پڑھتا رہے تو اس کی حکومت قائم رہے گی اور رعایا اور نوکروں پر اس کا رعب قائم رہے گا اور اگر کوئی حاجت مند ان آیات کو پڑھ کر حاجت مانگے تو اس کی حاجت پوری ہوگی۔ بادشاہ نے جب وزیر سے یہ باتیں سنیں تو بہت پسندیدگی کا اظہار کیا اور بادشاہ نے بھی آیات یاد کرلیں۔ یہ درج ذیل پانچ آیات ہیں انہیں ایک بار صبح وشام ضرور پڑھ لیا کریں:
پہلی آیت: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 246
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰى​ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ؕ قَالَ هَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَيۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِيَارِنَا وَاَبۡنَآئِنَا ​ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِيۡلًا مِّنۡهُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏
دوسری آیت: سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 181
لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيۡرٌ وَّنَحۡنُ اَغۡنِيَآءُ ​ۘ سَنَكۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَقَتۡلَهُمُ الۡاَنۡۢبِيَآءَ بِغَيۡرِ حَقٍّ ۙۚ وَّنَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏
تیسری آیت: سورۂ نساء کی آیت نمبر 77
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ قِيۡلَ لَهُمۡ كُفُّوۡۤا اَيۡدِيَكُمۡ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰ تُوا الزَّكٰوةَ ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ يَخۡشَوۡنَ النَّاسَ كَخَشۡيَةِ اللّٰهِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡيَةً​ ۚ وَقَالُوۡا رَبَّنَا لِمَ كَتَبۡتَ عَلَيۡنَا الۡقِتَالَ ۚ لَوۡلَاۤ اَخَّرۡتَنَاۤ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيۡبٍ​ ؕ قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡيَا قَلِيۡلٌ​ ۚ وَالۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ فَتِيۡلًا‏ ﴿4:77﴾
چوتھی آیت: سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 27
وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ ابۡنَىۡ اٰدَمَ بِالۡحَـقِّ‌ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِهِمَا وَلَمۡ يُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِؕ قَالَ لَاَقۡتُلَـنَّكَ‌ؕ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿۲۷﴾
پانچویں آیت:سورۂ الرعد کی آیت نمبر 16
قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ قُلِ اللّٰهُ​ؕ قُلۡ اَفَاتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لِاَنۡفُسِهِمۡ نَفۡعًا وَّلَا ضَرًّا​ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ ۙ اَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنُّوۡرُ اَمۡ جَعَلُوۡا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوۡا كَخَلۡقِهٖ فَتَشَابَهَ الۡخَـلۡقُ عَلَيۡهِمۡ​ؕ قُلِ اللّٰهُ خَالِـقُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّهُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ‏  ﴿13:16﴾
قارئین! ان پانچ آیات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں‘ ہر روز صبح وشام صرف ایک مرتبہ پڑھنا ہے اور پھر اس کی کرامات اپنی زندگی میں جاگتی آنکھوں کے ساتھ خود دیکھیں۔ آپ کو کوئی مسئلہ ہے‘ گھریلو حالات خراب ہیں‘گھر میں ہروقت لڑائی جھگڑے رہتے ہوں‘ میاں بیوی یا گھر کے دیگر افراد ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے‘ کاروبار حالات ٹھیک نہیں‘ گاہک دکان پر نہیں آتا‘ جادو‘ بندش‘ نظر بد ہے تو ان آیات سے اپنی پریشانیاں بھگائیے اور سکون سے جینے کا گُر سیکھ لیں۔
(ایس اے ساگر)



ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک سے میت کا قرض معاف کروانا

ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک سے میت کا قرض معاف کروانا 

السلام علیکم ورحمةالله وبركاته 
محترم مفتی صاحب ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے،
اس نے بینک سے لون (قرض) لیا تھا اور اس کے گھر میں اس کے علاوہ قرض کے ادا کرنے والا کوئی شخص موجود نہیں ہے،
اب سوال یہ ہے اگر بینک میں اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ (انتقال کی سند) بتایا جائے تو قرضہ معاف ہوجاتا ہے،
تو کیا اس طرح کرنے سے مرحوم پر قرض نہ لوٹانے کا گناہ تو نہیں ہوگا؟
نوٹ:- مرحوم کی کفالت میں اس کے بوڑھے والدین اور بیوی اور دو بچے تھے_ 
محترم مفتی صاحب اسی کے ضمن میں ایک اور سوال یہ ہے کہ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں اور ان کے لانے لیجانے کی ذمہ داری بچوں کی والدہ کرتی ہے اور بازار وغیرہ کے کام کاج بھی اسی کے ذمہ ہے اور اس کے ساس اور سسر اس قابل نہیں کہ اس ذمہ داری کو نبھاسکے،
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عورت حالت عدت میں سابقہ ذمے داریاں نبھاسکتی ہے خصوصاً بچوں کو لانے لیجانے والی ذمے داری؟
محترم مفتی صاحب جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں.
جزاک اللہ خیرا
سید محمد بلال بمبئی
الجواب وباللہ التوفیق:
عمومی اور معتدل حالتوں میں بینک سے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، حددرجہ مجبوری واحتیاج کے وقت اس کی گنجائش نکلتی ہے. 
میت کے ذمے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، جب تک اسے ادا نہ کیا جائے وہ جنت سے محروم رہتا ہے۔
میت کے قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن کی جان اس کے ذمے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، حتیٰ کہ اسے ادا کردیا جائے۔" (سنن الترمذی، الجنائز: 1078)
قرض کی ادائی خواہ اس کے ترکہ سے کی جائے ، یا اقارب اس کی طرف سے ادا کردیں، یا مسلمان آپس میں مل کر کوئی بندوبست کرلیں یا بیت المال یا رفاہی تنظیم سے اس کی بھرپائی کردی جائے، یا قرض خواہ خود ہی معاف کردے۔
جو شکل بھی ہو، دخول جنت کے لئے قرض کی ادائی ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقروض کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس کا جنازہ پڑھائیں، اس کا قرض میں ادا کروں گا۔ (صحیح البخاری، الکفالۃ: 2289)
ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کرنے سے بینک اگر یہ قرض معاف کردے تو میت اس سے بھی بری الذمہ ہوجائے گی کہ یہ دائن کا خود قرض معاف کرنا ہے۔
دوران عدت کسی شدید  ضرورت کے بغیر عورت کا گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔ 
اگر بچوں کو اسکول چھوڑنے والا واقعی کوئی نہ ہو تو بربنائے ضرورت دن کے اوقات میں وہ نکل سکتی ہے. 
لیکن رات گھر میں گزارنا ضروری ہے:
ومعتدۃ موت تخرج فی الجدید وتبیت أکثر اللیل فی منزلہا لأن نفقتہا علیہا فتحتاج للخروج۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ زکریا ۵/۲۲۴، کراچی ۳/۵۳۶)
والمتوفی عنہا زوجہا تخرج نہارا وبعض اللیل۔ (ہندیہ زکریا قدیم ۱/۵۳۴، جدید ۱/۵۸۶، ہدایہ اشرفی ۲/۴۲۸)
واللہ اعلم بالصواب 

Monday 23 December 2019

نماز میں خصر کی ممانعت کا حوالہ مطلوب ہے؟

نماز میں خصر کی ممانعت کا حوالہ مطلوب ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
حدثني الحکم بن موسی القنطري حدثنا عبد الله بن المبارک قال ح و حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا أبو خالد وأبو أسامة جميعا عن هشام عن محمد عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم أنه نهی أن يصلي الرجل مختصرا وفي رواية أبي بکر قال نهی رسول الله صلی الله عليه وسلم
مسلم شریف
-------------------------------------------------------------------------------
راوی: وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ صقَالَ نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْخَصْرِ فِی الصَّلٰوۃِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
جلد اول مشکوۃ شریف نماز کا بیان مشکوۃ شریف۔ جلد اول۔ نماز کا بیان۔ حدیث 947
"اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں خصر (کوکھ پر ہاتھ رکھنے) سے منع فرمایا ہے۔" (صحیح البخاری وصحیح مسلم)
اس روایت میں لفظ خصر ہے بعض راویتوں میں نھی عن الاختصار اور ان یصلی مختصراً کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ 
خصر کی تعریف: لغت میں خصر انسان کی کمر اور کوکھ کو کہتے ہیں، علماء کے ہاں "خصر واختصار" کی تعریف "کمر یا کوکھ پر ہاتھ رکھنا" کی جاتی ہے حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نماز میں کوئی آدمی اپنی کوکھ یعنی پہلو پر ہاتھ رکھ کر کھڑا نہ ہو۔
نماز میں خصر ممنوع کیوں ہے: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع کیوں فرمایا گیا؟ جواب یہ ہے کہ اس کی مختلف وجوہ ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونا سماجی حیثیت سے کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی جاننے والے جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا یا چلنا دنیا کے ان بدنصیب لوگوں کا شیوہ ہے جنہیں دنیا و سماج کے ہر طبقے میں انتہائی ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی "ٹرنخے اور ہیجڑے"
اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ اس کی توجیہ یہ فرمائی گئی ہے کہ اختصار اہل نار کی حالت آرام کا ایک ذریعہ ہے جس کی تشریح یوں کی جاتی ہے کہ قیامت کے روز میدان حشر میں جب تمام لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت کثرت مشقت اور لعب کی وجہ سے وہ لوگ جن کے حصے میں دوزخ کی آگ ہوگی اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوں گے تاکہ اس طرح کچھ دیر کے لئے آرام مل جائے جیسا کہ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی ایک طویل عرصہ تک کھڑا کھڑا تھک جاتا ہے تو ایک ٹانگ پر پورے بدن کا بوجھ ڈال کر اور کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوجاتا ہے یا یہ کہ اس حدیث میں اہل نار سے مراد یہودی ہیں کہ ان کی عادت اسی طرح کھڑے ہونے کی ہے۔
تیسری توجیہ ایک روایت کی روشنی میں یہ ہے کہ جس وقت شیطان مردود کو زمین پر اتارا گیا اور اسے ملعون قرار دیا گیا اس وقت وہ اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا۔
لہٰذا ان تمام توجیہات کے پیش نظر کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا چونکہ اہل نار اور شیطان ملعون کی صفت ہے اس لئے ان کی مشابہت سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے نہ ہوں نھی عن الخصر کا صحیح مطلب اور تشریح جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علمائے سلف رحمہم اللہ علیہ سے منقول ہیں مذکورہ بالا ہے لیکن بعض حضرات نے اس حدیث کی تشریح یہ بھی کی ہے کہ خصر (مخصرہ) کے معنی میں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں عصا پر ٹیک لگاکر کھڑا نہ ہونا چاہئے اس کے علاوہ دیگر تشریحات بھی کی گئی ہیں مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے صحیح تشریح اور توضیح وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی۔ (اشعۃ اللمعات)






Thursday 19 December 2019

آج نہیں تو کل!

آج نہیں تو کل! مادروطن کے سیکولر آئین کے تانے بانے کو ادھیڑ بن کرنے کی حماقت کربیٹھنے والے آر ایس ایس کے چٹے بٹّے فاشزم، تنگ نظر، انتہا اور رجعیت پسند حکمرانوں کے خلاف ہندوستان کی سڑکوں پہ عوامی سمندر امنڈ آیا ہے، آزاد ہندوستان میں حکمرانوں کے خلاف غم وغصہ کا یہ انوکھا تجربہ ہے، یہاں کوئی جماعت ہے، نہ کوئی لیڈر۔ سیاسی وفاداریوں، بینروں اور قیادتوں کے بغیر ہی مرد وعورت، بوڑھا اور جوان، پڑھا لکھا اور اَن پڑھ، مزدور، محنت کش وکیل، ڈاکٹر اور پروفیسر سڑکوں پہ نکل آئے ہیں اور ملک کے جمہوری تانے بانے کی حفاظت کے لیے مظاہرے کررہے ہیں۔ ملک ودستور کے تحفظ کے لئے کی جانے والی اس پاکیزہ جدوجہد اب تک درجنوں جانوں کا خراج وصول کرچکی ہیں، سینکڑوں گرفتاریاں ہوچکیں ہیں، ہزاروں لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ زعفرانی حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں کہ بات کریں تو کس سے؟ مظاہرین کی حمایت میں یوروپی وامریکی ملکوں میں بھی لوگ سڑکوں پہ آچُکے ہیں اور انڈین ہائی کمیشنز کے سامنے مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ بھگوائی حکمرانوں کو احساس ہوچلا ہے کہ ”بھڑ“ کے چھتے میں ہاتھ ڈال کر اس نے بڑی حماقت کرلی ہے، انہوں نے آئین ہند کی جس دفعہ کو لقمہ تر سمجھ کر چبانے کی کوشش کی تھی، وہ نوالہ تر نہیں؛ بلکہ ”آہنی چنا“ ثابت ہوگا جو طالع آزمائوں کے دانت توڑ ڈالے گا۔ ان شاء اللہ۔ مودی حکومت کی ”انا“ بہت جلد خاک میں ملنے والی ہے، کبر وغرور اور عددی برتری کے پندار کا غبارہ بس پہٹنے ہی والا ہے۔ عوامی سمندر حکمرانوں کے سارے عزائم خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا، مظاہرہ پوری قوت سے جاری رکھیں، کمر پوری طرح کس لیں، کہیں سے بھی تعب وتھکن یاس وناامیدی کو قریب پھٹکنے تک نہ دیں۔ انقلاب آکر رہے گا، آج نہیں تو کل! شکیل منصور القاسمی بیگوسرائے ۱۹ دسمبر
https://saagartimes.blogspot.com/2019/12/blog-post_22.html



کیا شیر خوار بچوں کا پیشاب بھی ناپاک ہے؟

کیا شیر خوار بچوں کا پیشاب بھی ناپاک ہے؟

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
امید ہیکہ مفتی شکیل صاحب بخیر ہونگے، اللہ تعالیٰ آپ کو بعافیت باکرامت تادیر سلامت رکھے، آمین۔
مفتی صاحب مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ اگر چھوٹا بچہ (چار ماہ کا، جو ابھی صرف ماں کا دودھ ہی پیتا ہے) کپڑے اور بدن پر پیشاب کردے اور وہ پیشاب کپڑے اور بدن پر ہی (ہوا، دھوپ وغیرہ سے) سوکھ جائے، اور انہی کپڑوں پر (بغیر دھلے) نماز پڑھ لیں تو کیا نماز ہونگی؟؟؟ 
زید امام ہے زید نے انہیں کپڑوں پر (بھول سے) تین نمازیں پڑھادی ہیں عصر مغرب عشاء، ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟؟؟؟
الجواب وباللہ التوفیق:
شیر خوار بچوں کا پیشاب بھی ناپاک ہے 
جن کپڑوں پہ بچے پیشاب کردیں انہیں دھونا ضروری ہے بغیر دھوئے نماز پڑھ لینے سے نماز نہ ہوگی 
پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ ضروری ہے 
وبول غیر ماکول ولو من صغیر لم یطعم ……اھ (الدرالمختار)
قولہ(لم یطعم) ای لا یاکل, فلا بد من غسلہ الخ” (رد المحتار ٣١٨/١)
"فالغلیظة کالخمر ………. بول مالایوکل لحمه کالادمی ولو رضیعا" (مراقی الفلاح) وکذا فی الفتاوی العمگیریہ (٤٦/١)
امام مسجد مقتدیوں کو ان نمازوں کو انفراداً لوٹا لینے کا اعلان کرے 
واللہ اعلم 

ریاستی جبرواستبداد کے خلاف پرامن احتجاجی جدوجہد

ریاستی جبرواستبداد  کے خلاف پرامن احتجاجی جدوجید
اسلام سراپا امن وآشتی کا مذہب ہے، دنیا میں  اسلام ہی نے سب سے پہلےحقوق انسانی کی بنیاد رکھی،حقوق انسانی کا اسلامی منشور انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے،
اس نے تمام قسم کے امتیازات ، ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بحیثیت انسان تمام انسانوں: امیر، غریب، سفید، سیاہ، مشرقی، مغربی، مرد، عورت، عربی، عجمی، گورا، کالا، شریف اور وضیع کو یہ چھ 6 بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں:
(1) جان کا تحفظ-
(2) عزت وآبرو کا تحفظ-
(3) مال کا تحفظ-
(4) اولاد کا تحفظ-
(5) روزگار کا تحفظ-
(6) عقیدہ ومذہب کا تحفظ-
یہ منشور پر امن معاشرتی زندگی کا ضامن ہے یعنی ان  بنیادی چھ حقوق کے ذریعہ انسان معاشرہ میں ہر طرح پرامن زندگی گزار سکتا ہے. انسانیت کو فراہم کردہ ان بنیادی حقوق پہ ظلم و تعدی کو اسلام قطعی برداشت نہیں کرتا. ظلم و زیادتی دیکھنے کا مشاہدہ کرنے والے کو نمبر وار ہدایت کی گئی ہے کہ طاقت ہو تو دست وبازو سے روکے، نہیں تو زبان سے ظلم وجبر پہ آواز بلند کرے، یہ بھی نہ ہو تو دل سے اسے برا سمجھے، لیکن کسی طور ظالم کا ممد ومعاون نہ بنے!
ہر جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کرے، اسکے حقوق کی پاسداری نہ کرے یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوشش کی جائے تو اب اس طبقہ کی ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے اس ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جد وجہد کے ساتھ پر امن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے کے مرادف ہے ۔
ایسے موقع سے کی جانے والی کوشش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے " افضل الجھاد " کہکر تحسین فرمائی ہے۔
أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ 
سنن النساي 4209
مظلوم اور معاشرہ میں دبے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد  خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ جو "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا۔ یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قدآور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا۔ سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔ اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل" نامی تین اشخاص تھے۔ جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا. یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ایک عملی شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت»
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .
عن عبدالرحمن بن عوف۔ (فقه السيرة - الرقم: 72- الحدیث مرسل. ولكن له شواهد تقويه وأخرجه الإمام أحمد مرفوعاً دون قوله, لو دعيت به في الإسلام لأحببت وسنده صحيح)
معاشرتی اور سماجی استبداد وخلفشار کے خلاف انفرادی آواز مقتدر حلقوں کے لئے نقار خانے میں طوطے کی آواز سے زیادہ اثر نہیں رکھتی! لیکن جب بہت سے افراد ہم آواز ہوکے اس کے ساتھ  اٹھ کھڑے ہوں تو پہر اجتماعیت کی قوت سامنے حکمراں طبقہ مظلوم  طبقہ کے مطالبات تسلیم کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔
ظلم وجور کے خلاف اجتماعی آواز اٹھانے کی ایک مثال سنت نبویہ سے تو اوپر آگئی لیکن ظلم وجور کے خلاف سڑکوں پہ دھرنا دینے کی مثال بھی سنت نبوی میں موجود ہے ،پڑوسی سے ستائے ہوئے پریشان حال ایک صحابی سے بطور چارہ کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے باہر نکال کر سڑک پر رکھ دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اب گزرنے والے لوگ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو وہ پڑوسی کے ظلم کی روداد سنا دیتے، چنانچہ ہر کوئی اسے لعنت ملامت کرتا، جب یہ بات پڑوسی کو معلوم ہوئی تو اس نے انہیں گھر بھیجا اور ہمیشہ کے لیے ظلم سے باز رہنے کا وعدہ کیا۔ اور یوں سڑک پہ پرامن احتجاج سے اپنا حق وصول ہوا:
جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يشكو جاره فقال اطرح متاعك على الطريق فطرحه، فجعل الناس يمرون عليه ويلعنونه، فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال "يا رسول الله ما لقيت من الناس"، فقال : وما لقيت منهم؟ قال: "يلعنوني"، قال: لقد لعنك الله قبل الناس، قال: "إني لا أعود"، فجاء الذي شكاه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ارفع متاعك فقد كفيت. ورواه البزار بإسناد حسن بنحو إلا أنه قال: "ضع متاعك على الطريق أو على ظهر الطريق" فوضعه، فكان كل من مر به قال: "ما شأنك؟"، قال جاري يؤذيني فيدعو عليه فجاء جاره فقال: "رد متاعك فلا أؤذيك أبدا". و"روى" أبو داود واللفظ له وابن حبان في صحيحه والحاكم وصححه على شرط مسلم: (جاء رجل يشكو جاره فقال له: «اذهب فاصبر»، فأتاه مرتين أو ثلاثا، فقال اذهب فاطرح متاعك في الطريق ففعل، فجعل الناس يمرون ويسألونه ويخبرهم خبر جاره فجعلوا يلعنونه فعل الله به وفعل، وبعضهم يدعو عليه فجاء إليه جاره فقال: "ارجع فإنك لن ترى مني شيئا تكرهه" (كتاب الزواجر عن اقتراف الكبائر باب الصلح، الكبيرة العاشرة بعد المائتين: إيذاء الجار ولو ذميا). (تفسير القران العظيم لإبن كثير ٧٤٦/٤ سورة النساء ١٤٧)
دوسری مثال دیکھیں: 
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشرف باسلام ہوجانے کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم علانیۃً سڑکوں سے ہوتے ہوئے اور مشرکین وسرداران قریش کو اپنی قوت وحشمت دکھاتے ہوئے مسجد حرام داخل ہوئے، اب تک چھپے چھپائے رہتے تھے، لیکن آج کے اجتماعی مظاہرے سے دشمنوں پہ خاصا رعب طاری ہوا، اور یہ سڑکوں پہ مظاہرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہوئے:
روى أبو نعيم في الحلية بإسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما وفيه: فقلت: يا رسول الله ألسنا على الحق إن متنا وإن حيينا؟ قال: «بلى، والذي نفسي بيده إنكم على الحق إن متم وإن حييتم»، قال فقلت: "ففيم الاختفاء؟ والذي بعثك بالحق لتخرجن"، فأخرجناه في صفين: حمزة في أحدهما، وأنا في الآخر، له كديد ككديد الطحين حتى دخلنا المسجد، قال فنظرت إلي قريش وإلى حمزة فأصابتهم كآبة لم يصبهم مثلها، فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ الفاروق. وفرق الله به بين الحق والباطل" انتهى (حلية الأولياء 1/40).
وأورد صاحب الإصابة في أسماء الصحابة هكذا: "وأخرج محمد بن عثمان بن أبي شيبة في تاريخه بسند فيه إسحق ابن أبي فروة عن ابن عباس أنه سأل عمر عن إسلامه فذكر قصته بطولها وفيها أنه خرج ورسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين حمزة وأصحابه الذين كانوا اختفوا في دار الأرقم فعلمت قريش أنه امتنع فلم تصبهم كآبة مثلها، قال فسماني رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ الفاروق" انتهى (الإصابة 2/512).
وذكره ابن حجرـ رحمه الله ـ في فتح الباري قائلاً: "وروى أبو جعفر بن أبي شيبة نحوه في تاريخه من حديث ابن عباس، وفي آخره "فقلت يا رسول الله ففيم الاختفاء؟"، فخرجنا في صفين: أنا في أحدهما، وحمزة في الآخر، فنظرت قريش إلينا فأصابتهم كآبة لم يصبهم مثلها"، وأخرجه البزار من طريق أسلم مولى عمر عن عمر مطولاً" انتهى (فتح الباري 7/59)
جائز حقوق کی وصولی یا معاشرتی ظلم وجور کے خلاف احتجاجی دھرنا کی حیثیت محض"انتظامی اور تدبیری" ہے، اس کی حیثیت شرعی نہیں! شرعی امور کی بنیاد "اتباع" پہ ہوتی ہے، جبکہ دنیوی اور تدبیری وانتظامی امور کی بنیاد "اِبتِدَاعْ" (تقاضے اور نئے چیلنجس کے مطابق ردعمل) پہ ہوتی ہے، یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے سے تطبییق حکم شرعی میں الجھنوں اور شبہات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ احتجاج کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے۔ شرعی اور ریاستی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ہر جائز، موثر، قابل سماع اور زوداثر احتجاجی طریقوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔
تشدد، جلائو، گھیرائو، ریاستی وعوامی  املاک کو نقصان پہنچانے، شرانگیزی، راہگیروں، دکانداروں، بیماروں، ہاسپیٹلوں اور ضرورت مند شہریوں  کی آمدورفت یا دیگر بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کئے بغیر ہر قسم کے احتجاجی مظاہروں کی اجازت ہے۔ رواں ماہ پارلیمان میں اپنی عددی برتری کے زعم میں ہندو انتہاء پسند برسر اقتدار بھارتی جنتا پارٹی نے ہندوستان  کے سیکولر دستور سے متصادم  شہریت کا متنازع بل پاس کروادیا ہے۔ متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔ اس کے بعد  صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے بھی اس متنازع شہریت بل دستخط کردیئے، ان  کے دستخط کے بعد یہ سیاہ اور ظالمانہ بل باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا۔ یہ بل مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہہریت ملنے کا ضمانت دیتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پہ شہریت ملنے کا تصور ہمارے ملک کے سیکولرآئین کی روح کے خلاف اور سراسر غیر آئینی وبد نیتی پر مبنی  اقدام ہے۔ اس ظالمانہ و  شاطرانہ بل کی کانگریس، این سی پی، ایس پی، آر جے ڈی، بی ایس پی سمیت ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے ایوان میں مخالفت کی تھی۔ لیکن  طاقت کے نشہ میں بدمست حکمراں جماعت نے ایک نہ سنی۔ بل پاس ہوجانے کے بعد شمال مشرقی علاقوں آسام ومیگھالیہ  میں  اس تعلق سے پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے، دیکھتے دیکھتے یہ مظاہرہ  راجدھانی دہلی، پٹنہ، اتر پردیش دیوبند، لکھنو، علی گڑھ، کرناٹک،  کیرل، مہاراشٹر غرضیکہ ملک کے چپہ چپہ میں پھیل گیا۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف عوامی غم وغصہ اب ملک گیر شکل اختیار کرچکا  ہے، مذہب اور دھرم کی تفریق کے بغیر ہر محب وطن ہندستانی سڑکوں پہ آگیا ہے۔ عوام کا یہ ردعمل بتاتا ہے کہ سیکولرازم ہی اس ملک کے سماجی تنوع کی حفاظت وبقاء کا ضامن ہے۔
 نئی دہلی ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے، مسلم اکثریتی علاقہ اوکھلا اور جامعہ نگر میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے پرامن مظاہرین اور نہتے طلبہ وطالبات پہ پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا بہیمانہ تشدد جاری ہے۔ رہائشی عمارت پر براہ راست فائرنگ اور پتھراؤ، لائبریری اور مسجد کے توڑ پھوڑ کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے۔ پولیس گردی میں اب تک کئی طلبہ اور معصوم  شہری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک کو  کہنا پڑا  کہ متنازع قانون بنیادی طور پر امتیازی ہے، انہوں نے حکومت ہند سے اس کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی حکومت کو اپنی جمہوری اقدار اور آئین کی پاسداری کا لحاظ کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے،ادھر بدھ 18 دسمبر کو  سپریم کورٹ نے شہریت کے متنازع قانون کا نفاذ فوری طور پر روکنے سے انکار کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 60 سے زائد درخواستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے، مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ان درخواستوں پر 22 جنوری کو سماعت کرے گا۔ ملک کی مختلف تنظیموں نے جمعرات کو ملک گیر احتجاج اور بھارت بند کا اعلان بھی کر رکھا ہے، 
ملک کے سیکولر ڈھانچہ کے تحفظ اور دستور وآئین کے بقاء کے لئے پورا ملک سڑکوں پہ امنڈ پڑا ہے، ایسی عوامی بیداری اور سیاسی شعور پہلے دیکھنے میں کم ہی آئی ہے، پرامن احتجاجی دھرنوں اور اجتماعی جدوجہد میں جادوئی طاقت اور سحر انگیزی  ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ کے جبروظلم اور ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز یہی شہریت ترمیمی قانون بنے گا۔
مودی حکومت کیا؟ حقیقی جمہوریت کے مطالبے  کے لئے احتجاجی مظاہروں ودھرنوں نے نہ جانے  تاریخ کی کیسی کیسی طاقتور سلطنتوں کو زیر وزبر کردیاہے۔ 'کیا پِدّی کیا پِدّی کا شوربہ؟؟'
اگر مودی حکومت کے جبرواستبداد کے خلاف اٹھنے والے عوامی غم و غصہ کو  فرقہ جاتی ومذہبی رنگ دیئے بغیر، مکمل شعور،  دوراندیشی اور حکمت ودانائی کے ساتھ آئین کی بالا دستی پہ یقین رکھنے والے محب وطن  تمام برادران وطن کے اشتراک و تعاون اور انہیں ساتھ ملاکر  ہینڈل کیا گیا تو اس عوامی جدوجہد کی لہریں بڑی انقلاب آفریں ہونگی اور ایوانِ اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لیکر انہیں زیر وزبر کرکے رکھدیں گی ان شاء اللہ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مصلحت اندیشی کی چادر اتار پھینکیں، جمہوریہ ہند کے جمہوری اقدار پہ فاشسٹ عناصر کا راست حملہ ہورہا  ہے، دستور اورملک کے جمہوری ڈھانچے کے تحفظ کے لئے عزم وحوصلہ کے ساتھ گھروں سے نکلیں، مادروطن کی عظمت وتقدس کی حفاظتی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں۔ تانا شاہ مودی حکومت کے مکروہ اور دستور مخالف عزائم کو پرامن آئینی جدوجہد سے خاک میں ملادیں۔ بابری مسجد تو ہاتھ سے جاچکی، اب اپنی شہریت بھی خطرے میں ہے، آخر گھروں سے اب نہیں نکلیں گے تو پھر کب؟؟ عدل ومساوات، دستوری آزادی، ملک کی جمہوری اقدار وروایات اور  قومی یگانگت وہم آہنگی کے بقاء وتحفظ کے لئے جد وجہد کرنے، وقت کے طاغوت کی فرعونیت کا مقابلہ کرنے، اس راہ میں عزم وجواں مردی، ثبات وشجاعت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے قربانیاں دینے، خون وپسینہ اور دل وجان نذر کردینے والے عظیم  بھائیوں وبہنوں کو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ پیش کرتا ہوں۔  خدا وند تعالی آپ کی حفاظت ونصرت فرمائے۔ 
شکیل منصور القاسمی 
بیگوسرائے
18 دسمبر 2019 ،چہار شنبہ
https://saagartimes.blogspot.com/2019/12/blog-post_19.html

Tuesday 17 December 2019

دو تصویروں کے درمیان 800 سال کا فرق 2 PICTURES WITH AN 800 YEAR DIFFERENCE

 دو تصویروں کے درمیان 800 سال کا فرق
2 PICTURES WITH AN 800 YEAR DIFFERENCE
ان دو تصویروں کے درمیان 800 سال کا فرق ہے،
نیچے کتابی تصویر امام عبداللہ بن زکریا بن محمد القزوینی کی ہے، جو اس نے اپنے کتاب 'عجائب المخلوقات وغرائب الموجودات' میں شائع کی تھی، اور دوسری تصویر نیشنل جیوگرافک کی ہے۔ امام عبداللہ کے مطابق ایک ایسا پرندہ بھی ہے جو مگرمچھ کے دانتوں میں سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے اور مگرمچھ کو بھی اس سے سکون ملتا ہے۔ 
واللہ خیر الرازقین لہذا اپنے دینی مآخذ کی قدر کرو.
‏وأي شيء أعجب من طائر ليس له رزق إلا أن يخلل أسنان التمساح، ويكون ذلك له .
- الجاحظ
‏وأي شيء أعجب من طائر ليس له رزق إلا أن يخلل أسنان التمساح، ويكون ذلك له .
- الجاحظ
ابوعبد اللہ بن زکریا بن محمد القزوینی، ان کا نسب عالمِ مدینہ امام مالک بن انس پر جاکر ختم ہوتا ہے، قزوین میں کوئی 605ھ کو پیدا ہوئے اور 682ھ کو وفات پائی، کچھ عرصہ قاضی رہے، مگر علمی تصنیف وتالیف جاری رکھی، وہ فلکیات دان، طبیعیات دان اور علومِ حیات کے ماہر تھے، مگر ہوائی رصد میں ان کے نظریات عظیم الشان ہیں، ان کی اہم تصانیف میں ان کی مشہور کتاب 'عجائب المخلوقات وغرائب الموجودات' ہے، اس میں انہوں نے آسمان اور اس کے ستارے، اجرام، بروج، ان کی ظاہری حرکت اور اس سب کی وجہ سے سال کے موسموں کے اختلاف پر بحث کی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ہوائی کرہ، ہواؤں کے چکر، سمندر اور اس کے جاندار، پھر خشکی اور اس میں موجود جمادات، نباتات اور حیوانات پر بھی بڑی خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے اور اس سب کو انہوں نے بہت دقیق ابجدی ترتیب دی ہے۔ ان کی ایک اور مشہور کتاب 'آثار البلاد واخبار العباد' ہے، اس میں انہوں نے شہر اور گاؤں بنانے کی ضروت، ملکوں کے خواص اور موسم کا انسانوں، درختوں اور جانوروں پر اثر بیان کیا ہے، کتاب میں قوموں کی خبریں، علما، ادبا اور شاہوں کے تراجم اور فسادات کا بیان بھی قابلِ ذکر ہے۔ انہوں نے قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق زمین وآسمان پر اللہ تعالٰی کی آیات پر غور وفکر پر زور دیا، یہاں غور وفکر سے ان کی مراد معقولات پر فکر اور محسوسات پر نظر اور ان کی حکمت کی تلاش ہے۔

Subhan'Allah 
2 PICTURES WITH AN 800 YEAR DIFFERENCE
First pic is a photo from from National Geo
and Second pic and illustration from
Imam Abu Yahya Zakariya' ibn Muhammad al-Qazwini
(Born 605 Hijri' Passed Away 682 Hijri)
Book 'The Wonders of Creation' where it is made mention of such a bird (Egyptian Plover bird)
Which gets into the crocodile’s mouth and picks out the tiny bits of food stuck in his teeth, eats them and often this completes her diet.
This cleans the crocodile’s teeth and keeps his mouth fresh and free from infections.

So, the Plover bird gets her food and the crocodile gets his mouth cleaned. In this way, both are able to help each other.
This tiny bird is called the Egyptian Plover bird. She gets into the crocodile's mouth and picks out the tiny bits of food stuck in his teeth. The plover bird flies inside the crocodile's mouth, which may seem dangerous for the bird ... Food stuck in the mouth of the crocodile can cause infection, and the plover bird's picking cleans the crocodile's teeth. Therefore, when a crocodile needs its mouth cleaned, it will open it and wait for the plover bird's help.
Zakariya al-Qazwini
Abu Yahya Zakariya' ibn Muhammad al-Qazwini ( أبو یحیی زکریاء بن محمد القزویني) ‎(1203–1283) was a physician, astronomer, geographer and writer of Arab descent. He belonged to a family of jurists who had long before settled in Qazwin. He drew his origin from an Arab family and was probably a descendant of the Medinian Sahabi (Companion of the Prophet Muhammad) Anas bin Malik.
Career
Born in Qazwin, Iran, Zakariya Qazwini served as a legal expert and judge in several localities in Iran and at the city of Baghdad. He traveled around in Mesopotamia (modern Iraq) and the Levant, and finally entered the circle patronized by the governor of Baghdad, Ata-Malik Juvayni (d. 1283 CE).
It was to the latter that Qazwini dedicated his famous cosmography titled "The Wonders of Creation" (عجائب المخلوقات وغرائب الموجودات, Marvels of Creatures and Strange Things Existing). Written Arabic, this treatise, frequently illustrated, was immensely popular and is preserved today in many copies.
Qazwini was also well known for his geographical dictionary "Monument of Places and History of God's Bondsmen" (آثار البلاد وأخبار العباد). Both of these treatises reflect extensive reading and learning in a wide range of disciplines.
Qazvini mentioned how alchemists dubbed "swindlers" claimed to have carried out the transmutation of metals into gold; he states:
…they ruined the development of the science of chemistry, by fooling powerful rulers such as Imad ad-Din Zengi and thus many scholars and various colleagues turned against alchemy thus resulting in the isolation of the science.
https://saagartimes.blogspot.com/2019/12/800-2-pictures-with-800-year-difference.html


Sunday 15 December 2019

ڈھول، تاشے، میوزک اور گانے بجانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

ڈھول، تاشے، میوزک اور گانے بجانے کا شرعی حکم کیا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
حدیث:۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اکرم صلی اللہُ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالی نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور ہدایت بناکر بھیجا ہے۔ اور مجھے منہ اور ہاتھ سے بجائے جانے والے موسیقی اور سازوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔ اور ان بتوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے جن کی زمانہ جاہلیت میں پوجا ہوتی تھی اور میرے رب نے اپنی عزت کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا کہ: میرے بندوں میں سے جس نے شراب کا ایک گھونٹ پیا اس کو اس کے بدلے میں جہنم کا کھولتا ہوا پانی پلاوں گا خواہ اسے عذاب ہو یا بخشا جائے اور جو شخص کسی بچہ کو شراب پلائے گا اس کو بھی کھولتا ہوا پانی پلاوں گا۔ اور گانے والی عورتوں کی خرید وفروخت اور گانے کی تعلیم اور تجارت اور ان کی قیمت سب حرام ہے۔
(مسند امام احمد بن حنبل، جلد: ۵؍ ص: ۲۵۷، بحوالہ شرح صحیح مسلم سعیدی، جلد: ۲؍ ص: ۶۷۸)
حدیث:۔ حضرت ابومالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میری امت کے بعض لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے ان کے پاس آلات موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں ہوں گی۔ اللہ تعالی ان کو زمین میں دھنسادے گا اور ان کو بندر اور خنزیر بنادے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد: ۸؍ ص: ۱۰۷)
حدیث:۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ: اللہ تعالی نے میری امت پر شراب، جوا، بانسری، طبل، اور بربط (یعنی گانے بجانے کے سامان) کو حرام کردیا ہے اور وتر کی نماز کو زیادہ کردیا ہے۔
(مسند امام احمد بن حنبل، جلد: ۲؍ ص: ۱۶۵)
حدیث:۔ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میرے رب تبارک وتعالی نے مجھ پر شراب، طبل اور بربط (یعنی آلات موسیقی) کو حرام کردیا ہے اور غبیرا شراب سے بچو کیونکہ وہ تمام جہانوں کے شراب کا تیسرا حصہ ہے۔
(مسند امام احمد بن حنبل، جلد:۳؍ ص: ۴۲۲)
حدیث:۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ: اس امت میں زمین میں دھسنا اور شکلوں کا مسخ ہونا اور پتھروں کا برسنا واقع ہوگا، ایک شخص نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم! یہ کب ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ: جب گانے والی عورتوں اور آلات موسیقی کا رواج ہوجائے اور شرابیں پئے جائیں۔ (ترمذی، حدیث :۲۲۱۲)
حدیث:۔ رسول مکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب، اور باجوں کو حلال قرار دیں گے اور کچھ ایسے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہیں گے کہ جب شام کو وہ اپنے بکریوں کا ریوڑ لے کر لوٹیں گے اور ان کے پاس کوئی فقیر اپنی حاجت لے کر آئے گا تو کہیں گے کہ: کل آنا۔ اللہ تعالی پہاڑ گرا کر ان کو ہلاک کردے گا اور دوسرے لوگوں (یعنی شراب اور باجوں وغیرہ کو حلال کرنے والوں) کو مسخ کرکے قیامت تک کے لئے بندر اور خنزیر بنادے گا۔
(صحیح بخاری، ج: ۲؍ ص: ۸۳۷)
ان تمام حدیثوں سے واضح ہوا کہ ڈھول، تاشے، میوزک اور گانا بجانا ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ اور چونکہ فلم میں گانے بجانے کے علاوہ اور بھی برائیاں شامل ہوتی ہیں اس لئے وہ بھی سخت ناجائز وحرام اور عذاب الہی کا ذریعہ ہے 
ماخوذ از دعوت القرآن ایجوکیشنل 
طالب دعاء 
محمد اسعد المظاھری الہ آبادی عفی عنہ (ایس اے ساگر)

Saturday 14 December 2019

خبر لیجے زباں بگڑی: دلی کی عدالت بمقابلہ اردو

خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ دلی کی عدالت بمقابلہ اردو۔۔۔                                       
اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، وہیں پلی بڑھی۔ دہلی، لکھنؤ اس کے بڑے دبستان سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب یہیں اس کو ’ستی‘ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں دہلی کی عدالت نے پولیس ایف آئی آر میں اردو کے الفاظ کو مشکل قرار دے کر انہیں نکالنے کا حکم دیا ہے اور پولیس کی سرزنش بھی کی ہے۔ کبھی اردو زبان پورے ہندوستان میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی تھی، تاہم ہندوئوں نے اسے صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت نے اس لفظ کا متبادل نہیں بتایا اور عدالت کو عدالت ہی کہا ہے۔ یہ لفظ عدل سے ہے اور عربی کا ہے جو اردو میں عام ہے اور پورے ہندوستان میں سمجھا بھی جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں انگریزی کے الفاظ ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ یہ الفاظ ایک عام ہندوستانی کے لیے نامانوس ہیں۔ عدالت نے تعزیراتِ ہند کا حوالہ دیا ہے، جب کہ تعزیرات بھی عربی سے اردو میں آیا ہے۔ ’’دہلی پولیس کی سرزنش‘‘۔ اس میں ’پولیس‘ کا لفظ انگریزی اور ’سرزنش‘ فارسی کا ہے جس کا مطلب ایک عام آدمی کو معلوم نہیں۔ حکم نامے میں یہ ہے کہ ایف آئی آر اہم دستاویز ہوتی ہے، اسے سہل زبان میں لکھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اردو، فارسی کے ایسے مشکل الفاظ کا استعمال بند کردے۔ اب اس میں ’’دستاویز، سہل، حکم، ضرورت، زبان، مشکل‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ بھی حکم نامے میں درج نہیں ہونے چاہئیں۔ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر کو چاہیے کہ ہائی کورٹ، چیف جسٹس، جسٹس جیسے انگریزی الفاظ کو بھی خارج کیا جائے اور ان کا ہندی متبادل لایا جائے۔ ’شدہ ہندی‘ تو انگریزی الفاظ سے بھی پاک ہونی چاہیے۔ دوسری طرف اردو کو دارالحکومت دہلی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ سنسکرت آمیز ہندی کے بارے میں بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ اب جو زبان بولی جارہی ہے وہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پنڈت جی کے نام میں ’جواہر‘ اور ’لعل‘ دونوں الفاظ عربی کے ہیں۔ ان کے والد موتی لعل تھے۔ کچھ اخبارات میں جواہر لعل کو جواہر لال لکھا جاتا ہے۔ چلیے لعل کو ’لال‘ کردیا لیکن جواہر کا بھی کچھ کریں۔ عدالت پنڈت جی کا نام بھی بدلے۔
عدالت کے حکم پر دہلی پولیس نے اردو کے 383 الفاظ پر مشتمل فہرست پیش کی کہ ان کا استعمال اب ترک کردیا گیا ہے۔ یہ فہرست طویل ہے لیکن ان الفاظ کا ہندی یا سنسکرت میں متبادل بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ فہرست میں ایک لفظ ’’مسمّی‘‘ بھی ہے جس کا تلفظ خود اردو بولنے والے بھی غلط کرتے ہیں۔ پاکستان کی عدالتوں میں عام طور پر یہ آواز لگتی ہے ’’مسمی فلاں حاضر ہوں‘‘۔ جبکہ اس کا تلفظ ’’مسما‘‘ ہے، مسمیٰ پر کھڑا زبر ہے جیسے عیسیٰ، موسیٰ۔ عدالت کے حکم پر پولیس ٹریننگ کالج اور اسٹاف کا متبادل تلاش کیا جارہا ہے لیکن فی الوقت انگریزی الفاظ سے مکتی حاصل کرنے کا ارادہ نظر نہیں آتا، کیونکہ یہ پورے برعظیم کے سابق آقائوں کی زبان ہے، وہ بُرا مان جائیں گے۔ ایران میں زبان سے انگریزی الفاظ کو نکالنے کی مہم چلی تھی، لیکن زیادہ کامیاب نہیں ہوئی، البتہ کئی الفاظ کو ’’مفرّس‘‘ کرلیا گیا۔
اہلِ ہند علامہ اقبالؒ کو اپنا شاعر قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ہندوستان ہی میں پیدا ہوئے اور انتقال بھی ہندوستان میں ہوا، اُس وقت تک پاکستان نہیں بنا تھا۔ وہاں علامہ اقبال پر علمی کام بھی بہت ہوا، ممکن ہے ان کی شاعری میں سے اردو کے الفاظ نکالنے کی مہم ابھی نہیں تو شاید جلد ہی شروع ہوجائے۔ علامہ کی اردو شاعری میں تو عربی اور فارسی کے الفاظ کی کثرت ہے۔ علامہ اقبال ہی نے کہا تھا:۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
علامہ کے اس گلستان سے اردو کو نکالا جارہا ہے۔ علامہ کے ذکر پر یاد آیا کہ بھارتی جمہوریہ کے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اقبال سے موسوم ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اقبال بہت اچھے شاعر تھے لیکن افسوس وہ پاکستان چلے گئے‘‘۔ واضح رہے کہ راجندر پرشاد پی ایچ ڈی تھے۔
دہلی عدالت کے حکم نامے کی مخالفت کرتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے سرگرم تنظیم ’اردو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر معید احمد خان نے کہا کہ اردو بھارت میں رابطے کی سب سے بڑی اور اہم زبان ہے۔ صحیح ہے، لیکن اردو کے فروغ کے لیے سرگرم مذکورہ تنظیم کم از کم اپنا نام ہی اردو میں رکھ لیتی۔ مثلاً ’تنظیم فروغِ اردو‘۔ افسوس کی بات ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے اپنے نام کے لیے انگریزی کو ترجیح دی، اور پھر کہا جائے کہ اردو دنیا کی پیاری اور عام فہم زبان ہے تو کیا آپ کو پیاری نہیں! بہت بڑے مزاحیہ شاعر دلاور فگار نے طنز کیا تھا:
’آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ‘۔ ایک زمانے میں کراچی میں یہ نعرہ لگتا رہا ہے ’وی وانٹ اردو‘۔
دہلی کی عدالت نے تو اردو کے الفاظ نکالنے کا حکم دیا ہے، اب پاکستان کی عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی قومی زبان سے بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف حکم جاری کریں۔ بھارت کی تو چھوڑیے، پاکستان میں اردو کے ساتھ کون سا اچھا سلوک ہورہا ہے! پروفیسر غازی علم الدین سے علم و ادب کی دنیا خوب شناسا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ میں اردو کی زبوں حالی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کی آئینہ دار اردو زبان کی زبوں حالی پر میں ایسے موقع پر خامہ فرسائی کررہا ہوں کہ خود پاکستان میں قومی زبان کا وجود خطرے میں ہے اور اس کے دشمن بزعمِ خویش اس کی تجہیز و تکفین کی تیاریوں میں سرگرم ہیں۔ اردو کے حق میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے 8 ستمبر 2015ء کے تاریخ ساز فیصلے کے بعد بدقسمتی سے نام نہاد دانشوروں اور اشرافیہ نے باہم مل کر اردو کے خلاف طبلِ جنگ بجادیا ہے۔ اب تو ایوانوں میں کھلے عام بے چاری اردو کے خلاف مشورے ہونے لگے ہیں۔ حال آں کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948ء کو قوم سے خطاب میں واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی، کوئی دوسری نہیں۔ آئینِ پاکستان بھی اسے قومی زبان کا درجہ دیتا ہے، مگر اس بے چاری کے حالات پاکستان میں کبھی اچھے نہیں رہے‘‘۔
یہ ایک ایسے دردمند اور اردو کے عاشق کی تحریر ہے جو معروف معنوں میں ’اہلِ زبان‘ نہیں۔ ہم ایک بار پھر واضح کردیں کہ ہمارے خیال میں اہلِ زبان وہ ہے جو زبان کا صحیح استعمال کرے، خواہ وہ کوئی سی زبان ہو۔ انگریزی سمیت ہر زبان میں ماہرینِ لسانیات ہوتے ہیں جو زبان کی تہذیب اور درستی کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔ اردو کے بارے میں کوئی ایسی کوشش کرے تو کہا جاتا ہے کہ ’’بات تو سمجھ آگئی ناں‘‘۔ لیکن بات تو ایک ناخواندہ شخص، ایک کسان اور مزدور کی بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس کے بعد جناب غازی علم الدین بھارت میں اردو کی صورت حال کے موضوع پر آتے ہیں لیکن ’’ہم کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ لیں‘‘۔ غازی صاحب نے عظیم اختر کے مضامین اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں جو دہلی کی زبان، اس کی تہذیب، تاریخ اور ادب کا چلتا پھرتا دائرۃ المعارف ہیں۔ اردو اور دہلی ان کی دو کمزوریاں ہیں۔ ہندوستان میں اردو کے حوالے سے ان کے کئی مضامین شامل کیے گئے ہیں، مگر ہمیں تو شکوہ اپنے طبقۂ اشرافیہ، ذرائع ابلاغ اور دانشوروں سے ہے کہ جن کے چنگل میں پھنس کر اردو کا حال یہ ہے کہ:۔
قیدِ قفس میں طاقتِ پرواز اب کہاں
رعشہ سا کچھ ضرور ابھی بال و پر میں ہے
لیکن جب تک درد مندانِ اردو موجود ہیں … اور یہ بڑی تعداد میں ہیں … اردو کی طاقتِ پرواز نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ اب سندھ کے وزیر جناب ناصر حسین شاہ مبنی (مب۔نی) پر تشدد کرکے اسے مبّنی کہتے رہیں، یا جسارت کے ایک بزرگ کالم نگار اپنے شریر خامہ کے ذریعے ’باقاعدہ‘ کو ’باقائدہ‘ لکھتے رہیں۔
’سوا‘ اور ’علاوہ‘ میں ذرائع ابلاغ فرق کرنے پر تیار نہیں۔ 3 دسمبر کو ایک ٹی وی چینل نے خبروں میں ’’فلاں کے علاوہ دیگر 4 افراد کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوگئے‘‘ کہا۔ 4 دسمبر کے ایک اخبار میں بھی یہی سرخی تھی۔ یہاں علاوہ کا مطلب ہے کہ ’’فلاں صاحب‘‘ بھی ان میں شامل ہیں جن کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔ جب کہ یہاں ’سوا‘ ہونا چاہیے تھا۔ اب بھارت کا کیا ذکر کریں، لیکن بھارتی فلموں میں ہندی کے نام سے اردو کے جو گانے مقبول ہیں، عدالت اُن پر کیا کارروائی کرے گی؟ مثلاً بڑا مشور گانا ہے ’’تعویذ بناکر پہنوں تجھے، آیت کی طرح مل جائے کہیں‘‘۔ تعویذ اور آیت کا ہندی ترجمہ کریں اور پھر مقبولیت دیکھ لیں۔
تحریر: اطہر علی ہاشمی
https://saagartimes.blogspot.com/2019/12/blog-post_81.html