Monday 30 November 2015

غصہ کے جواب میں بردباری

ایس اے ساگر

دنیاوی زندگی میں اگر کوئی شخص غصہ کے جواب میں مشتعل ہونے کی بجائے تحمل اور بردباری  سے کام لے تو نہ صرف بہت سے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے بلکہ بیشمار فتوحات بھی نصیب ہوسکتی ہیں. حکما نے غصہ کو نفس کا غلبہ قرار دیا ہے جسے قلب سے ہی زیر کیا جاسکتا ہے. یعنی جب کوئی آپ سے اشتعال انگیزی کرے تو اس کے جواب میں کمال برداشت کا مظاہرہ کیا جائے. اس سلسلے میں سعودی عرب کے شگفتہ مزاج خطیب سلیمان الجبیلان صاحب کا خوبصورت واقعہ قابل غور ہے ، کہتے ہیں کہ ایک بار میں اپنی کار میں دو  دیگر علماء کرام کیساتھ کہیں سفر میں تھا، ایک مقام پر ایک بوڑھا ساربان سڑک کنارے  اپنی جیپ میں بیٹھا  اپنے اونٹوں کو  سڑک کی دوسری طرف ہانک کر بھیج رہا  تھا۔ لامحالہ مجھے بریک لگا کر رکنا پڑا۔ اور تو سب کچھ ٹھیک رہا مگر ایک  بھاری بھرکم اونٹ خراماں خراماں چلتے چلتے سڑک کے بیچوں بیچ آ کر مزید سست رفتار ہو  گیا۔

میں نے محض اس وجہ سے کہ،  بس اونٹ بدکے بنا چلتا رہے، ہلکا سا ہارن بیب بیب ،بیب بیب کر کے دوبار بجا دیا۔ یہ کوئی اتنی معیوب حرکت بھی نہیں تھی مگر نجانے اس پر بوڑھا ساربان نہ جانے کیوں اتنا تَپ گیا کہ مجھے گالیاں دینا شروع کر دیں:
لعنت تیرے باپ پر، تو ہوتا ہے کون ہے میرے اونٹ پر ہارن بجانے والا، لعنت تجھے پیدا کرنے والی پر،
اور نجانے اس نے میرے خاندان کےکس کس  فرد کو ملعون ٹھہرایا، شاید سب پر ایک ایک کرکے لعنت بھیج ڈالی۔

ہارن کے بدلے میں گالیاں :

بڑے ادب کیساتھ بجائے ہوئے ہلکے سے  اس ہارن کے بدلے میں اتنی گالیاں بالکل نہیں بنتی تھیں، بلکہ جس ردھم کے ساتھ میں نے ہارن بجایا تھا اس کا تو شاید مطلب بھی یہی بنتا تھا کہ اونٹ جی چلتے رہو، اونٹ جی چلتے رہو۔   اور اس کا یہ بدلہ ملا تھا۔ میں نے انتہائی خوفناک تیور بنا کر  زور سے کار کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر پوری قوت کیساتھ  دھڑام سے بند کرکیا۔ میرے ساتھی علماء کرام میں شیخ صالح صاحب نے گھبراتے ہوئے پوچھا؛
کیا پریشانی پیدا کرنے جا رہےہو؟
میں نے کہا؛ گھبرائیے نہیں، آپ کو کچھ نیا کر کے دکھاتا ہوں۔

خلاف توقع عمل :

میں بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے، اپنی قمیض کے بازو اوپر کو چڑھاتے لپیٹتے ہوئے  جیپ کی طرف گیا۔ بوڑھا بدو میرے تیور دیکھ کر بہت زیادہ گھبرا چکا تھا اور اس کی حالت پوری طرح  ڈانواں ڈول ہوتی دکھاتے دے رہی تھی۔  میں نے جھٹکے سے اس کی جیپ کا دروازہ کھولا اور اور اُس کے  سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا؛ بزرگو، مجھے معافی دیدو، مجھے لگتا ہے کہ میں نے آپ کے اونٹ کیساتھ بے ادبی کرکے اسے ناراض کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آپ کے اونٹ کیساتھ ساتھ آپ کو بھی ناراض کیا ہے۔ اللہ آپ کو بہت جزائے خیر عطا کرے، مجھے معاف کر دیجئے۔

گلے شکوے ہوئے دور :

بوڑھے کیلئے یہ ایک نیا جھٹکا تھا،  شرمساری اور خجالت کے مارے برا حال، اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا؛ میں نے تجھ پر، تیرے ماں باپ پر اور تیرے سارے خاندان پر لعنت بھیجی ہے اور تو الٹا  میرے سر پر بوسہ دے رہا ہے اور مجھ سے معافی مانگ رہا ہے۔  مجھے نہیں، تجھے ناراضی ہوئی ہے، مہربانی کر، مجھے معاف کر دے۔

میں نے کہا؛ اللہ کی قسم، میں تو تجھے قیامت  تک معاف نہیں کرونگا،  تو نے مجھے اور میرے خاندان کو جتنی گالیاں دیں ہیں، اُن   سب کی معافی کا تو  بس اب ایک ہی طریقہ بچا ہے  کہ  اگر تو میری ایک شرط مان لے تو؟

بوڑھے نے کہا؛ میں حاضر ہوں، بتا تیری کیا شرط ہے؟ مین نے کہا؛ میری یہ شرط ہے کہ تو ہم سب کو اپنی اونٹنیوں کا دودھ پلا۔  بوڑھے نے کہا؛ بخدا یہ تو کوئی بڑی شرط نہیں ہے، میں بالکل حاضر ہوں۔ اور جلدی سے جیپ سے اُتر کر نیچے زمین پر قالین بچھایا، گدے نکال کر لگائے، میں نے اپنے ساتھیوں سے نیچے آنے کو کہا، اور ہم سب بیٹھ گئے۔  بوڑھے نے جیپ کا ہارن بجا کر دور کھڑے اپنے  خادم کو  بلا کر  ذمے لگایا کہ جلدی سے اونٹنیوں کا دودھ نکال کر لائے اور ہم سب کو پلائے۔

میرے پوچھنے پر کہ تجھے شعر کہنا آتے ہیں تو اس نے ہمیں بدوی ادب کے ڈھیروں شعر سنا  ڈالے۔ یہ محفل آدھا گھنٹہ جمی اور ایسا ماحول بنا کہ جیسے ہم برسوں کے واقفکار ہوں۔ یقینی بات ہے باتوں باتوں میں بوڑھا بھی جان چکا تھا کہ ہم کون لوگ ہیں۔ آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم  نے اجازت لیکر اٹھنا چاہا تو بوڑھے نے ہم تینوں کی قمیضیں پکڑ لیں، کہنے لگا؛ اللہ گواہ ہے مجھے تم لوگوں سے پیار ہو گیا ہے۔ میں تم لوگوں کو ایسے نہیں جانے دونگا۔

میں نے بوڑھے سے کہا؛ ہمیں پہلے بھی بہت دیر ہو چکی ہے، کھانا وغیرہ بشرط زندگی پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں، تو بس ہمیں اجازت دیدے۔ بوڑھے نے اپنے اونٹوں کے پیچھے بہت دور (اونٹ ڈیڑھ سو سے زیادہ تھے)  گہرے پردے میں ڈھپی چھپی تین لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ وہ دیکھو؛ وہ میری  تین بیٹیاں ہیں، تم تینوں عالم فاضل لوگ ہو، مجھے عزت بخشو اور  ایک ایک سے نکاح کر لو۔

نیکی اور بدی میں تفریق :

حاضرین کرام، کیا خیال ہے پھر،  گالیوں کے  بدلے میں ایک نہیں تین تین رشتے۔  یہ اس لئے ہے کہ "نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست
(سورة فصلت-34)"

اس سارے قصے کا ایک اور  خاتمہ بھی ہو  سکتا تھا کہ جب بوڑھے نے مجھے گالیاں دی تھیں، میں بھی باہر نکل کر اُسے للکارتے ہوئے کہتا؛  ارے او بڈھے شیطان، تو میرے ماں باپ پر لعنت بھیجتا ہے؟ اور بوڑھے نے اپنی جیپ کی نشست کے نیچے جو کلاشنکوف رکھی ہوئی تھی نکال کر مجھے  ایک برسٹ  مارتا اور اس فتنے کا ایسا سیاہ خاتمہ ہو جاتا۔

No comments:

Post a Comment