Saturday 28 November 2015

مولانا وحید الدین خان کے عقائد و نظریات

ایس اے ساگر

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر غیر معتبر پوسٹس کی کوئی حد نہیں.  جن شخصیات کو قابل اعتبار سمجھا جارہا ہے ان میں نام نہاد دانشور وحیدا الدین خان بھی شامل ہیں. اسلوب کلام کی دنیا کا ایک انتہائی معتبر اور فکر کی دنیا کا انتہائی مشتبہ شخصیت مولانا وحید الدین خان کے نظریات پر بہت سے لوگ تنقید کرتے رہے ہیں لیکن تمام لوگ تنقید کے بجائے گالی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ آپ کو اگر جواب پڑھنا ہے اور تنقید دیکھنی ہے تو ’مولانا وحید الدین خان صاحب: فکری بنیادیں‘ کا یہ بے لاگ تحریری سلسلہ پڑھئے ۔ ماہنامہ اعتدال کے صفحات پر ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کے انکشافات قابل غور ہیں.

علاماتِ قیامت :

کتاب وسنت میں قیامت قائم ہونے کی کچھ نشانیاں بیان کی گئی ہیں جن میں ظہورِ مہدی‘عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کا نزول‘ یاجوج ماجوج کا خروج‘ دجال کی آمد‘ زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا‘ سورج کا مغرب سے طلوع ہوناوغیرہ شامل ہیں۔ خان صاحب اِن تمام علاماتِ قیامت سے متعلقہ نصوص کا اثبات کرتے ہیں لیکن اُن میں تاویل کرتے ہوئے اُنہیں حقیقت کی بجائے ایک ایسی تمثیل قرار دیتے ہیں جوکسی نہ کسی حوالے سے خان صاحب کی ذات اور صفات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔

مسیحِ موعود اور مہدیٔ زمان

مہدی اور مسیح علیھما السلام کے بارے میں خان صاحب کا موقف یہ ہے کہ دونوں درحقیقت ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ تمام مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک آنے والا آئے گا اور وہ ایک خصوصی رول ادا کرے گا۔ یہی تعلیم اسلام میں بھی ہے۔۔۔حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں‘ اُن میں اِس سلسلے میں تین لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ رجل مؤمن‘ مہدی‘ مسیح۔ بظاہر یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔‘‘
بحوالہ، ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۳
ایک اور جگہ مہدی، رجل مؤمن اور مسیح کے ایک ہی شخصیت ہونے کی لغوی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ ایک حدیث (سنن ابن ماجہ‘ کتاب الفتن‘ باب الصبر علی البلاء) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی اور مسیح‘ دونوں ایک ہی شخصیت کے علامتی طور پر دو الگ الگ نام ہیں۔ آخری دور میں ظاہر ہونے والی ایک ہی شخصیت ہے‘ جس کو کسی روایت میں رجل مؤمن کہا گیا ہے‘ اور کسی روایت میں مہدی‘ اور کسی روایت میں مسیح۔ ایک اعتبار سے ‘ ظاہر ہونے والا شخص‘ اُمت محمدی کا ایک فرد ہو گا‘ اِس اعتبار سے اس کو رجل مؤمن کہا گیا۔ دوسرے اعتبار سے وہ گمراہی کے عمومی اندھیرے میں ہدایت کی روشنی کو مکمل طور پر دریافت کرے گا‘ اِس اعتبار سے اُس کو مہدی کہا گیا ہے‘ یعنی ہدایت پایا ہوا شخص۔ ایک اور اعتبار سے وہ شخص اُمتِ محمد کے آخری زمانے میں وہی رول ادا کرے گاجو اُمتِ یہود کے آخری زمانے میں حضرت مسیح علیہ السلام نے انجام دیا تھا۔ گویا کہ یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے تین پہلوؤں کو بتاتے ہیں‘ نہ کہ الگ الگ تین مختلف شخصیتوں کو۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۴۱)
ایک اور جگہ خان صاحب ان تینوں کے ایک ہی شخص ہونے کے بارے میںدلیل نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ حدیث کی روایتوں میں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے شخص کے لیے تین الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رجل مؤمن‘ مہدی اور مسیح۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں کا رول ایک ہی بتایا گیا ہے‘ اور وہ دجال کو قتل کرنا۔ اس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ تینوں سے مراد ایک ہی شخصیت ہے‘ ورنہ حدیث میں تینوں کے لیے الگ الگ رول بیان کیے جاتے۔ ‘‘(ماہنامہ الرسالہ‘ جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۴)
خان صاحب کی یہ بات کسی طور درست نہیں ہے کہ احادیث میں رجل مؤمن یا مہدی کا یہ رول بتلایا گیا ہے کہ وہ دجال کو قتل کریں گے۔ احادیث میں دجال کو قتل کرنے کی نسبت صرف اور صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے جبکہ رجل مؤمن اور مہدی کو امت مسلمہ کے ایک اہم شخص یا سیاسی لیڈر کے طور پیش کیا گیا ہے جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
خان صاحب کے نزدیک مسیح سے مراد آسمان سے نازل ہونے والاکوئی نبی نہیں بلکہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عام فرد ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں وہ جسمانی طور پر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ یہ تصور اگرچہ لوگوں میں کافی پھیلا ہوا ہے‘ مگر وہ اپنی موجودہ صورت میں نہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے اور نہ احادیث سے۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں تقریباً دو درجن معتبر روایتیں ہیں جن میںمسیح کے ظہور کا بیان پایا جاتا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اُن میں سے کسی روایت میں صراحتاً یہ الفاظ موجود نہیں کہ مسیح جسمانی طور پر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے۔اِس سلسلے میں جو بات ہے ‘ وہ صرف یہ ہے کہ روایتوں میں نزول اور بعث کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مگر صرف اِس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر کر نیچے زمین پر آئیں گے۔ عربی زبان میں نزول کا لفظ سادہ طور پر آنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے‘ نہ کہ آسمان سے اترنے کے معنی میں۔ اِسی اعتبار سے مہمان کو نزیل کہا جاتا ہے‘ یعنی آنے والا۔‘‘
بحوالہ،  ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۴۶
ایک اور جگہ مسیح کے ایک عام فرد ہونے کی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں:
’’ مسیح‘ امت مسلمہ کے ایک فرد کے مصلحانہ رول کا نام ہے‘ نہ کہ جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہونے والی کسی پُراَسرار شخصیت کا نام۔ اُمتِ مسلمہ کے ایک فرد کا یہ رول عیسیٰ بن مریم کے رول کے مشابہ ہو گا۔ اس لیے اس کو اُمتِ مسلمہ کا مسیح کہا گیا ہے۔‘‘
بحوالہ،  ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۵۰

مسیحِ موعود اور مہدی زمان کی صفات :

مولانا وحید الدین خان صاحب نے اپنے تئیں احادیث کی تاویلات کی روشنی میں مسیح اور مہدی کی کچھ صفات بیان کی ہیں تا کہ اُن کی پہچان میں آسانی ہو۔ ہم ذیل میں اِن صفات کو اُن ہی کے الفاظ میںبیان کر رہے ہیں:
مہدی یامسیح کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عام انسانوں جیسا ہوگا۔مصلح ہو گااور عالمی کمیونکیشن کے دور میں پیدا ہو گا۔ خان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ المہدی کو ئی انوکھی چیز نہیں ہو گا‘ وہ عام مصلحین کی طرح ایک مصلح ہو گا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ عام مصلحین اور مجددین عالمی کمیونکیشن سے پہلے پیدا ہوئے‘ جب کہ المہدی کی امتیازی صفت یہ ہو گی کہ وہ عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں پیدا ہو گا۔ اِس بناپر اُس کی دعوتی اور فکری جدوجہد کا دائرہ عالمی بن جائے گا‘ جب کہ اُس سے پہلے مصلحین اور مجددین کا دائرہ صرف محلی اور مقامی ہوا کرتا تھا۔ ‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جنوری ۲۰۱۱ء‘ ص: ۴۲)
مہدی یامسیح کی دوسری خاصیت یہ ہوگی کہ وہ دنیا میں پھیلے ہوئے غلط نظریات کا ابطال کرے گا‘ فکری کنفیوژن دور کرے گا اور اسلام کی ایک تعبیر پیش کرے گا جو معاصر غلط نظریات کی استدلالی موت کا باعث ہو گی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیںـ:
’’ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ آخر میں اُمت محمدی کے اندر ایک شخص اٹھے گا۔ حدیث میں اس کو المہدی کہا گیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں المہدی کا رول اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے : یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما (کتاب المھدی‘ ح : ۲۴۸۵)یعنی مہدی زمین کو قسط اور عدل سے بھر دے گا‘ جیسا کہ اِس سے پہلے وہ جَوروظلم سے بھر دی گئی تھی۔ اِس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے‘ وہ سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں ہے‘ بلکہ وہ نظریاتی توسیع کے معنی میں ہے۔۔۔اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مہدی سے پہلے دنیا میں غلط نظریے کی عمومی اشاعت ہو جائے گی۔ مہدی اِس کے بجائے یہ کرے گا کہ وہ دنیا میں صحیح نظریے کی عمومی اشاعت کرنے میں کامیاب ہو گا۔‘‘
بحوالہ،  ماہنامہ الرسالہ: جنوری ۲۰۱۱ء‘ ص:۴۲
خان صاحب کے نزدیک غلط نظریے کے ابطال سے مراد فتنہ دہیماء کے بعد پیدا ہونے والے فکری کنفیوژن کو دور کرناہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ قیامت سے پہلے آخری زمانے میں ایک دور آئے گا جس کو حدیث میں فتنہ دہیماء کہا گیا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد : الفتنۃ السوداء المظلمۃہے‘ یعنی مکمل تاریکی کا فتنہ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو فکری تاریکی intellectual darkness کہا جا سکتا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد قیامت سے پہلے کا وہ زمانہ ہے جب کہ اشاعتی ذرائع کی کثرت کے نتیجے میں مختلف قسم کے افکار کا جنگل اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ اِس نازک دور میں اللہ کی سنت کے مطابق‘ کسی بندۂ خدا کے ذریعے کامل سچائی ظاہر ہو گی۔‘‘
بحوالہ،  ماہنامہ الرسالہ: جون ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۰
ایک اور جگہ خان صاحب‘ مسیح کی پہچان کے بارے میںلکھتے ہیں :
’’ روایت کے مطابق‘ مسیح کی ایک پہچان یہ ہو گی کہ اُن کے زمانے میں خدا اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کر دے گا : یھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا إلا الإسلام۔ (سنن أبی داؤد‘ کتاب الملاحم‘ باب خروج الدجال) اِس سے مراد بقیہ ملتوں کی جسمانی ہلاکت نہیں ہے‘ بلکہ اُن کی استدلالی ہلاکت ہے۔۔۔حدیث کے مطابق‘ استثنائی طور پر یہ کام مسیح انجام دیں گے‘ جب کہ دوسرے لوگ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو پوری طرح عاجز پا رہے ہوں گے۔ یہ واقعہ مسیح کی شخصیت کی ایک پہچان ہو گا۔‘‘
بحوالہ،  ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۵۱۔۵۲
مسیح یا مہدی یارجل مؤمن‘ جو در حقیقت ایک ہی شخص ہے‘ دجال کو قتل کرے گا۔ دجال کے قتل سے مراد اُس کا نظریاتی قتل ہے۔ یعنی سائنسی دور میں لوگ سائنس کو بنیاد بناتے ہوئے خدا کا انکار کر دیں گے جبکہ مسیح اور مہدی کی پہچان یہ ہو گی کہ وہ اس الحادی فتنے کا ردّسائنسی دلائل ہی کی روشنی میں کریں گے۔ ایک جگہ مولانا اپنے موقف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت دراصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہو گاکہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تأثر دیں گے کہ حق‘ علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا۔پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اس دجالی فتنے کا خاتمہ کر دے گا۔ وہ دجالی دلائل کو زیادہ برتر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کر دے گا۔ یہ واقعہ‘ اپنی نوعیت کے اعتبار سے‘ تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہو گا۔ وہ دعوتِ حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہو گا۔ اسی لیے اس کی بابت صحیح مسلم میںیہ الفاظ آئے ہیں : ھذا أعظم الناس شھادۃ عند ربّ العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔‘‘
بحوالہ،  ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۸۔۱
ایک اور جگہ خان صاحب اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ مہدی اور مسیح استدلال کے ذریعے دجال کے فتنے کو ختم کریں گے:
’’ دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اِس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اِس قتل سے مراد استدلالی قتل ہے‘ نہ کہ جسمانی قتل۔ صحیح مسلم میں اِس سلسلے میں جو لفظ آیا ہے‘ وہ حجیج ہے۔ حجیج کا مطلب ہے حجت اور دلیل کے ذریعے غالب آنے والا۔دجال کا نظریاتی فتنہ تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہو گا۔ اِس لیے استدلال کی سطح پر اُس کا خاتمہ کرنا بھی تاریخ کا ایک انتہائی عظیم واقعہ ہو گا۔ اِسی بات کو صحیح مسلم‘ کتاب الفتن کی ایک روایت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ھذا أعظم شھادۃ عند ربّ العالمین۔ اِس حدیث میں واضح طور پر شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے۔ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہاں شہادت سے مراد گواہی ہے‘ یعنی دلائل ربانی کے ذریعے دلائل شیطانی کو آخری حد تک باطل ثابت کرنا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۴)
مہدی یا مسیح صاحب معرفت ہو گا اور اُس میںتجزیہ کی صلاحیت کمال درجہ میں ہو گی۔ ایک جگہ خان صاحب فرماتے ہیں:
’’ مہدی دراصل اِسی قسم کا ایک صاحب معرفت انسان ہو گا۔ اُس کے اندر خدا کی خصوصی توفیق سے یہ صلاحیت ہو گی کہ وہ لفظی مغالطے کو سمجھ سکے‘ وہ خوش نما الفاظ اور حقیقی استدلال کے فرق کو جانے‘وہ ایک گمراہ کن بیان کا تجزیہ کر کے اس کی گم راہی کھول سکے۔ اس کے اندر تجزیہ کی طاقت (power of analysis)کمال درجے میں موجود ہو‘ وہ محدد تبیین (precise description) کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اپنی اِسی معرفت کی بنا پر وہ خود الفاظ کے فتنے سے بچے گا اور دوسروں کے لیے الفاظ کے فتنے سے بچنے کا ذریعہ بنے گا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص: ۳۷)
مہدی یا مسیح کی ایک پہچان اُن کا استثنائی رول ہو گا‘ یعنی وہ عام مصلحین یا اہل علم سے ہٹ کر ایک رول ادا کریں گے۔ ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں:
’’ حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کی پہچان صرف ایک ہو گی‘ اور وہ اُس کا استثنائی رول exceptional role ہے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۳)
مہدی اور مسیح کے استثنائی رول کی مزید وضاحت میں خان صاحب لکھتے ہیں کہ مہدی معرفت وہدایت کا حامل اور امن کا نمائندہ ambassador of peace ہو گا:
’’ رجل مؤمن کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اُس کی معرفت استثنائی درجے کی معرفت ہو گی۔ مہدی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وقت کے تمام سوالات میں وہ استثنائی طور پر درست رہنمائی دینے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔ مسیح کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وہ رافت اور رحمت بالفاظ دیگر امن peaceکے اصول کا کامل معنوں میں اظہار کرے گا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۵)
خان صاحب کے نزدیک مہدی کا استثنائی رول یہ بھی ہو گا کہ وہ سچائی اور معرفت کو پا لے گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کا ظہور ‘ فتنہ دہیماء (تاریک فتنہ) کے زمانے میں ہو گا۔ اُس وقت تمام لوگ معرفت حق کے بارے میں اندھیرے میں پڑے ہوئے ہوں گے۔ ایسے تاریک دور میں معرفت حق کی روشنی کسی کو صرف خدا کی خصوصی توفیق سے مل سکتی ہے‘ یعنی وہبی طور پر‘ نہ کہ اکتسابی طور پر۔ سیاہ فتنے کے دور میں کوئی شخص نہ بطور خود سچائی کو پاسکے گا اور نہ وہاں دوسرا کوئی شخص موجود ہو گاجو اُس کو سچائی کی روشنی دکھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ فتنۂ دہیماء کے دور میں کسی کو صرف خداوند ذوالجلال کی طرف سے ہدایت مل سکتی ہے۔مہدی کا مہدی ہونا‘ اپنے آپ بتا رہا ہے کہ مہدی کی پہچان کیا ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ مہدی اپنے ماحول کے برعکس‘ استثنائی طور پر ایک ہدایت یاب انسان ہو گا‘ جب کہ لوگ عمومی طور پر ہدایت حق سے محروم ہو چکے ہوں گے۔ مہدی ایک استثنائی انسان کا نام ہے‘ اور یہی استثنا وہ چیز ہے جس کے ذریعے پہچاننے والے اُس کو پہچانیں گے۔ مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا‘ اور نہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے ‘ اُس کو مانو اور اُس کا اتباع کرو۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ:مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۳۶)
مہدی یا مسیح کوئی انقلابی یا سیاسی لیڈر نہیں ہو سکتا بلکہ وہ عارف باللہ ہو گا ۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ بعض لوگوں نے مہدی کو ہادی کے معنی میں لے لیا۔ اِس خود ساختہ تصور کے مطابق‘ انھوں نے کہا کہ مہدی جدید دور کا ایک انقلابی لیڈر ہو گا‘ جو عالمی سیاسی نظام قائم کرے گا۔ مہدی کی یہ تعریف سر تا سر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہدی جدید دور کا ایک عارف ہو گا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص: ۳۹)
کچھ لوگوں کو مہدی یا مسیح کی نسبت سچے خواب آئیں گے۔ یہ بھی مہدی یا مسیح کی علامات میں سے ایک علامت ہو گی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید رؤیائے صادقہ (سچے خواب) کی شکل میں ظاہر ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق‘ جن لوگوں کے اندر سچی تلاش کا جذبہ ہو گا‘ اُن کو مہدی کی نسبت تائیدی خواب دکھائے جائیں گے۔ یہ خواب گویا کہ مہدی کے حق میں تائید مزید کے ہم معنی ہوں گے۔ ایسے خوابوں کو دیکھنے والے اہل ایمان یہ یقین کر لیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں مہدی کے لفظ سے کی گئی ہے‘ اور پھر وہ دل سے اُس کے ساتھی بن جائیں گے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ:جون ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۱)
مہدی یا مسیح یادورِ آخر کے مجدد کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ قرآن اور دین اسلام کی غلط تعبیرات سے گزر کر دین حق کو سامنے لائے گا۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
’’ اب یہ سوال ہے کہ دورِ آخر کے مجدد کی پہچان کیا ہو گی۔ اُس کی پہچان بلاشبہ یہ نہیں ہو گی کہ وہ کچھ بَرعجوبہ صفات کا مالک ہو گا۔ اُس کی پہچان بنیادی طور پر دو ہو گی۔ یہ دونوں چیزیں واضح طور پر قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔دورِ آخر کے مجدد کی سب سے پہلی علامت یہ ہو گی کہ وہ خدا کی خصوصی توفیق سے‘ دین حق کو دوبارہ اُس کی حقیقی صورت میں دریافت کرے گا۔ وہ ظاہری فارم سے گزر کر‘ اسلام کی اصل سپرٹ کا فہم حاصل کرے گا۔ وہ قرآن کی مغالطہ آمیز تشریح سے گزر کر قرآن کے اصل پیغام کو سمجھے گا۔ وہ دین اجنبی کو اپنے لیے دوبارہ دین معروف بنائے گا۔دوسرے لفظوں میں وہ خدا کے دین کو دوبارہ اِس طرح دریافت کرے گا‘ جس طرح اَصحابِ رسول نے اُس کو دریافت کیا تھا۔ زمانے کے اعتبار سے ‘ وہ بعد کا انسان ہو گا‘ لیکن معرفت کے اعتبار سے وہ اَصحابِ رسول جیسی معرفت کا حامل ہو گا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص۵۰:۔۵۱)
مہدی یا مسیح کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ عصری اُسلوبِ کلام میں اسلام پیش کرے گا۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
’’ اُس کی دوسری علامت وہ ہوگی جو قرآن میں پیغمبروں کی نسبت سے اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے : {وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ} (ابراھیم : ۴) ۔اِس آیت میں لسان سے مراد صرف زبان نہیں ہے‘ اِس میں وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک کامیاب زبان کا ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں‘ مثلاً وضوح ‘ مؤثر اسلوب‘ ایسا کلام جو معاصر ذہن کو پوری طرح ایڈریس کرنے والا ہو‘ وغیرہ۔اِس قسم کا طاقتور اُسلوب کبھی اکتسابی نہیں ہوتا‘ وہ ہمیشہ وہبی طور پر کسی ایسے شخص کو عطا ہوتا ہے جس سے خدا اپنے دین کی تبیین کا کام لینا چاہتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص۵۰:۔۵۱)
مہدی یا مسیح اپنے مہدی یا مسیح ہونے کا اعلان نہیں کریںگے‘ یہ بھی اُن کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں:
’’ واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں‘ لیکن اِن روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا‘ اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اُس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اُس کا اعتراف کریں۔ اِس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۵)
خان صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’ اِس سلسلے میں غور وفکر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس آنے والے شخص کی پہچان یہ نہیں ہو گی کہ وہ اپنے بارے میں اعلان کرے گا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۳)
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب آنے والا یہ دعویٰ نہیں کرے گا کہ وہ مسیح یا مہدی یا مجدد ہے تویقینی طور کیسے معلوم ہو گا کہ کون مسیح یا مہدی یا مجدد ہے؟ اِس کے جواب میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس کا یقینی علم آخرت میں ہی حاصل ہو گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ یہاں اِس معاملے کی وضاحت ضروری ہے کہ مہدی اور مسیح کے مسئلے کو اصولی طور پر بیان کرنا ایک الگ چیز ہے اور خود اپنے بارے میں مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ کرنا بالکل دوسری چیز۔کون شخص مہدی تھا یا کس نے مسیح کا رول ادا کیا‘ اِس کا تحقق صرف آخرت میں خدا کے اعلان کے ذریعے ہو گا۔ اِس لیے دنیا میں اس قسم کا دعویٰ کرنا اپنے آپ میں ایک بے بنیاد دعویٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۴۰۔۴۱)
مہدی اور مسیح کی ایک علامت یہ بھی ہو گی کہ معاصر مسلمان اُن کا انکار کریں گے۔ ایک جگہ مولانا وحید الدین خان صاحب لکھتے ہیں:
’’ قدیم زمانے کے یہود نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم  کے منتظر تھے ‘ مگر اُن کا حال یہ ہوا کہ جب پیغمبر آئے تو وہ اُن کا انکار کرنے والے بن گئے۔ یقینی طور پر یہی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ مہدی اور مسیح جب ظاہر ہوں گے تو موجودہ مسلمان یقینی طور پر اُن کا انکار کرنے والے بن جائیں گے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: جنوری ۲۰۱۱ء‘ ص: ۴۳)
خان صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’ اصل یہ ہے کہ مہدی کا زمانہ فتنۂ دہیماء کا زمانہ ہو گا۔ اُس زمانے میں افکار کی کثرت کے نتیجے میں حقائق مشتبہ ہو جائیں گے۔ تمام لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ ایسی حالت میں مہدی کے ظہور کے باوجود لوگوں کے لیے مہدی پر یقین کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگ دیکھیں گے کہ مہدی جو بات کہہ رہا ہے‘ وہ پوری طرح مبنی برحق ہے۔ لیکن مہدی عام انسانوں جیسا ایک انسان ہو گا‘ اِس بنا پر لوگوں کے لیے شبہ کا ایک عنصر باقی رہے گا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ:جون ۲۰۱۰ء‘ ص:۱۱)
مہدی یا مسیح کی ایک علامت یہ ہوگی کہ اُن کے ساتھ اَخوانِ رسول کی ٹیم ہو گی۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
’’ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمہ طور پر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے خدا نے آپ کو مضبوط افراد کی ایک ٹیم دی‘ جس کو اَصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح مہدی‘ یا مسیح جو کارنامہ انجام دیں گے‘ انھیں بھی خدا کی خصوصی مدد کے ذریعے ایک طاقت ور ٹیم حاصل ہو گی۔ غالباً یہی وہ ٹیم ہے جس کو حدیث میں اَخوانِ رسول کہا گیا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۴۳)
خان صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اَخوانِ رسول کی ٹیم سائنسی دور میں مسیح یا مہدی کے ساتھ مل کر دعوت کا کام کریں گے:
’’ غالباً یہ کہنا صحیح ہو گا کہ اَخوانِ رسول وہ اہلِ ایمان ہیں جو سائنسی دور میں پیدا ہوں گے‘ اور سائنسی دریافتوں سے ذہنی غذا لے کر اعلیٰ معرفت کا درجہ حاصل کریں گے‘ نیز یہی و ہ لوگ ہوں گے جو مہدی‘ یا مسیح کا ساتھ دے کر آخری زمانے میں اعلیٰ دعوتی کارنامہ انجام دیں گے۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء‘ ص:۴۴)
جبکہ خان صاحب کے نزدیک اَخوانِ رسول سے مراد اُن کے قائم کردہ ادارے ’سی پی ایس‘ کی ٹیم ہے۔ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوتی کام جنوری ۲۰۰۱ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اِس تنظیم کے صدر نے اِس دعوتی کام کو اِس سے بہت پہلے ۱۹۵۰ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارہ اشاعت اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اِس کے بعد یہ کام مسلسل بلاانقطاع جاری رہا۔ ۱۹۷۰ میں اِسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیا م عمل میں آیا۔ ۱۹۷۶میں اِس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹرنیشنل (۲۰۰۱) اِسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدت کے بعد اب خدا کے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اِسی کے ساتھ اِس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔ ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اُس کو اَخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔‘‘ (ماہنامہ الرسالہ : ستمبر ۲۰۰۶ء‘ ص:۴۰)
خان صاحب کے بقول سائنسی دور میں اخوانِ رسول‘ مہدی یا مسیح کا ساتھ دیتے ہوئے دعوتی کارنامہ انجام دیں گے اور اخوانِ رسول’ سی پی ایس‘ کی ٹیم ہے جو مولانا وحید الدین خان صاحب کے ساتھ مل کر سائنسی دور میں دعوتی کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔
اب مہدی اور مسیح کون ہوا؟ اس کا تعین ہم نہیں کرتے‘ کیونکہ خان صاحب نے تعین کرنے سے منع فرمادیا ہے اور صرف پہچان پر زور دیتے ہیں۔ خان صاحب کی مذکورہ بالا تحریروں کی روشنی میں ایک عام شخص کے لیے مہدی ومسیح کی پہچان اس قدر واضح ہو جاتی ہے کہ اُس کی زبان پر بے اختیار یہ جاری ہو جاتا ہے: ’’مسیح موعود اور مہدی زمان: مولانا وحید الدین خان‘ مولانا وحید الدین خان؟‘‘ ان تاثرات کے ردعمل میں ایک قاری کا کہنا ہے کہ اعتدال فکر وعمل کی ایک زندہ تحریک ہے۔ "ھٰذا حرام " کہہ کر چپ رہ جانے کی بجائے مسائل کا تجزیہ ہماری صحافت کا طرہ امتیاز ہے۔ زندگی کے پیچیدہ مسائل کوچھوڑنے کی بجائے چھیڑنا اس رسالے کے مزاج میں داخل ہے۔ علم کے نام پر معلومات وتحقیقات کے دفاتر لادنے میں ہم ہرگز یقین نہیں رکھتے علم کیساتھ سماج اور ادب کو ساھ لے کر چلنا از بس ضروری جانتے ہیں اور ہر اس گوشہ کو تحریر کا حصہ بناتے ہیں جو کسی وجہ سے نظر انداز کیا جارہا ہو۔ یعنی اعتدال دینی صحافت کا ایک نیا چہرہ ہے۔

No comments:

Post a Comment