Wednesday 29 January 2020

کرونا وائرس: قوم لوط ہی کی طرح خبیث بُرائی

کرونا وائرس: قوم لوط ہی کی طرح خبیث بُرائی

قوم لوط ہی کی طرح خبیث بُرائی میں ایک اور
قوم بھی مبتلا ہوئی۔ اس بدترین قوم کو تاریخ Pompeii کے نام سے جانتی ہے۔ یہ روم میں رہنے والی وہ قوم تھی جس کی تعمیرات کا حسن بے مثال تھا۔ مگر جب یہ قوم اللہ تعالٰی کی نافرمانی میں حد سے آگے بڑھی تو پھر اس قوم پر اچانک ہی عذاب الٰہی کا نزول ہوا۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ جس حالت میں تھے، اسی حالت میں ان کی موت آگئی ...
عزیز دوستو! سلطنت روم کا یہ شہر بھی اسی طرح جنسی بدفعلیوں کا شکار تھا، جیسا کہ قوم لوط تھی۔ اس کا انجام بھی قوم لوط جیسا ہی ہوا اور اس شہر کی تباہی بھی ایک آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے ہوئی۔ Vesuvius آتش فشاں کو اطالیہ خصوصََا Naples کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ 2000 سال سے خاموش ہونے کے باوجود اسے #ڈراوے_کی_پہاڑی کے نام سے پکارا جاتا ہے ...
اس آتش فشاں کو یہ نام بلاوجہ نہیں دیا گیا۔ وہ تباہی جو سدوم اور عمورہ میں آئی، اسی طرح Pompeii پر آئی۔ Mount Vesuvius کے دائیں طرف Naples اور بائیں طرف Pompeii شہر واقع ہے۔ اس بڑے آتش فشاں سے دو ہزار سال قبل نکلنے والے لاوے اور آگ نے اس شہر کے مکینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تباہی اتنی اچانک تھی کہ عین دن کے وقت رواں دواں زندگی اس کی لپیٹ میں آگئی، اور آج بھی اس کے آثار اس طرح موجود ہیں جیسا کہ 2000 سال قبل تھے۔ ایسے لگتا ہے کہ وقت کے دھارے کو منجمد کر دیا گیا ہو ...
میرے پیارو! Vesuvius کے آتش فشاں نے سارا شہر آنََا فانََا صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس المیے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آتش فشاں کا شور سُن کر کوئی شخص فرار نہ ہوا۔ گویا وہ اپنی مستی میں اتنے مگن تھے کہ انہیں خیال تک نہ آیا۔ ایک خاندان جو کھانا کھا رہا تھا اسی حالت میں پتھر بن گیا۔ جب اس جگہ کی کھدائی ہوئی تو بہت سے لوگ قوم لوط والے فعل کی حالت میں مُردہ حالت میں ملے۔ لاوے سے متحجر ہونے والے اکثر جوڑے جنسی فعل میں مشغول تھے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر جوڑے ہم جنس تھے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل تھے۔ اسلام کی زینت و حیا کی وجہ سے یہاں یہ کم فہم فرحان ان کی زیادہ تفصیل لکھنے سے گریز کرنا چاہے گا، سو فہم حاصل کرنے کی خاطر ان ہی چند سطروں پر اکتفا کرتے ہیں ...
کھدائیوں سے نکلنے والے اکثر متحجر انسانی چہرے بالکل صحیح اور سالم ہیں۔ اور ان کے چہروں پر انتہائی بوکھلاہٹ، پریشانی اور سخت اذیت کی تکلیف نمایاں ہے۔ یہاں کے باشندوں کی درناک اور اذیت بھری صورتوں کو قدرت نے محفوظ کر لیا تھا تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے درس عبرت ہو۔ اس تباہی کے منظر کا ناقابل فہم پہلو یہ ہے کہ یہ ہزاروں لوگ کس طرح کوئی چیز دیکھے اور سُنے بغیر موت کے انتظار میں پڑے رہے ...؟
اس پہلو کا جواب یوں ملتا ہے کہ :
" اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰی اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتََا وَّ ھُمْ نَآئِمُوْن۔ اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰی اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحََی وَّ ھُمْ یَلْعَبُوْن۔ اَفَاَمِنُوْا مَکْرَاللہ۔ فَلَا یَاْ مَنُ مَکْرَاللہِ اِلّّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْن ... "
" پھر کیا بستیوں کے لوگ اس سے بےخوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جبکہ وہ سوئے ہوئے پڑے ہوں؟ یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی اچانک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو ... "
(#سورۃ_اعراف_۹۷_۹۹)
میرے دوستو! Pompeii کی تباہی بھی ماضی کی قوموں کی اس تباہی سے مشابہ ہے، جسے قرآن مجید فرقان حمید نے #اچانک_تباہی سے موسوم کیا ہے۔ سورۃ یٰسین میں ساکنانِ شہر کی تباہی کو اس طرح ایک لمحے میں یک لخت تباہی کہا گیا، ارشاد ہوتا ہے کہ :
" #اِنْ_کَانَتْ_اِلَّا_صَیْحَۃََ_وَّاحِدَۃََ_فَاِذَا_ھُمْ_خَامِدُوْن "
" بس یہی ایک چنگھاڑ تھی وہ سب اسی دم بجھ کر رہ گئے ... "
آج دنیا میں ایسے ایسے کھنڈرات موجود ہیں جو ان بڑی تہذیبوں کے غرور و تکبر کا منہ بولتا ثبوت ہے جو آج سے ہزاروں برس قبل پھلی پھولی تھیں۔ بڑے بڑے شہر تعمیر کرنے والے جن کا تعلق تاریخ کے مخلتف ادوار سے ہے، آج بے نام ہیں۔ ان کی دولت، ٹیکنالوجی، یا صناعی کے شاہکار انہیں ایک تلخ انجام سے صرف اور صرف بوجہ نافرمانیء رب نہ بچا سکے۔ اور مسخ شدہ صورت لئے خود پر گزرنے والے عذاب الٰہی کی پکار پکار کر گواہی دیتے ہیں ...
قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ :
" عبرت حاصل کرنے والے کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔ اور ہر بستی آج بھی سیدھے راستے پر موجود ہے اور اس میں اہل ایمان کیلئے نشانیاں ہیں ... "
(#الحجر_۷۷)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالٰی ہوا کہ :
" اور یقینََا ہم نے اس بستی کو واضح عبرت کی جگہ بنا دیا، ان لوگوں کیلئے جو دانش مند ہیں ... "
(#العنکبوت_۳۵)
اللہ تبارک و تعالٰی مجھ گناہ گار و بےعمل سمیت ہم تمام مسلمانان عالم کو حیا اور پاکبازی کا خیال رکھتے ہوئے بےحیائی سے بچنے کی سعادت نصیب فرماتے ہوئے عین صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثمہ آمیــــــــــــــن یارب العالمین ...

Wednesday 1 January 2020

سابقہ امت کا کوئی شخص نیک بندوں کی طرف جارہا تھا اور راستہ میں اس کا انتقال ہوگیا اس کا حوالہ بیان فرمائیں

سابقہ امت کا کوئی شخص نیک بندوں کی طرف جارہا تھا اور راستہ میں اس کا انتقال ہوگیا اس کا حوالہ بیان فرمائیں

سوال: میں نے ایک صاحب سے سنا کہ سابقہ امت کا کوئی شخص نیک بندوں کی طرف جارہا تھا اور راستہ میں اس کا انتقال ہوگیا، اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔ یہ حدیث کی کونسی کتاب میں ہے‘ براہ کرم یہ حدیث پاک اور اس کا حوالہ بیان فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
آپ نے جس حدیث پاک سے متعلق سوال کیا ہے وہ حدیث مبارک الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن کبری للبیہقی، معجم کبیر طبرانی، شعب الایمان للبیہقی ،مسند ابو یعلی، صحیح ابن حبان، جامع الاحادیث للسیوطی، الجامع الکبیر للسیوطی اور کنز العمال وغیرہ میں موجود ہے: 
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ كَانَ فِى بَنِى إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ يَسْأَلُ، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لاَ. فَقَتَلَهُ ، فَجَعَلَ يَسْأَلُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ ائْتِ قَرْيَةَ كَذَا وَكَذَا. فَأَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلاَئِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلاَئِكَةُ الْعَذَابِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِى. وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِى. وَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا. فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبُ بِشِبْرٍ، فَغُفِرَ لَهُ. 
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے والوں میں ایک شخص نے نناوے (99) قتل کئے، اور وقت کے سب سے بڑے عالم کے متعلق دریافت کیا، تو اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا اور وہ شخص اس راہب کے پاس گیا اور پوچھا کہ میں نناوے انسانی جانوں کا قاتل ہوں، کیا میرے لئے توبہ کا کوئی طریقہ ہے؟ راہب نے کہا: تیرے لئے توبہ کی کوئی صورت نہیں! تو اس شخص نے راہب کو قتل کردیا اور سو (100) جانوں کا قاتل ٹہرا- پھر وقت کے سب سے بڑے عالم کے متعلق دریافت کیا ، تو اسے ایک عالم کا پتہ بتادیا گیا اور وہ اس عالم کے پاس گیا اور پوچھا کہ میں سو (100) انسانی جانوں کا قاتل ہوں، کیا میرے لئے توبہ کی کوئی گنجائش ہے؟ اس عالم نے کہا: کیوں نہیں! تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان کونسی چیز حائل ہے؟ تم فلاں جگہ چلے جاؤ! وہاں اﷲتعالی کے کچھ برگزیدہ نیک بندے ہیں جو اﷲ تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ اﷲتعالی کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ اور اپنے وطن واپس نہ آؤ! یہاں برے لوگ رہتے ہیں، وہ شخص روانہ ہوگیا. ابھی وہ راستہ ہی میں تھا کہ پیام اجل آگیا وقت اخیر جب اس میں چلنے کی طاقت نہ رہی تو وہ اپنے سینہ کے بل صالحین کرام کی بستی کی طرف بڑھنے لگا، یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا، رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم تنازع ہوا کہ اس کی روح کو ن لے جائے گا. رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ شخص صدق دل سے توبہ کرکے اﷲکی رضا کی خاطر آرہا تھا. عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ایسے میں ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا، فرشتوں نے اپنا فیصلہ اس کے حوالہ کردیا، اُس فرشتہ نے کہا کہ زمین کی پیمائش کرو، یہ جس بستی کے قریب ہو اُسے ان ہی میں شمار کرلو (اگر صالحین کی بستی کے قریب تھا تو رحمت کا مستحق ہے اور اگر گنہگاروں کی بستی کے قریب تھا تو اسے عذاب کے فرشتے لے جائینگے) زمین کی پیمائش کی گئی تو نیک لوگوں سے اس کا فاصلہ قریب نکلا لہٰذا رحمت کے فرشتے اس کی روح لے گئے. صحیح بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے صالحین سے قریب والی زمین کو حکم فرمایا کہ وہ قریب ہوجائے اور گنہگاروں سے قریب والی زمین کو حکم فرمایا کہ دور ہوجائے۔ ﴿صحیح بخاری شریف کتاب احادیث الانبیاء، حدیث نمبر: 3470- صحیح مسلم شریف،کتاب التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل وإن کثر قتلہ. حدیث نمبر: 7184-، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2720- مسند امام احمد، حدیث نمبر: 11453- مصنف ابن ابی شیبہ ،ج:8،ص:109-سنن کبری للبیہقی، ج:8، ص:17- معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر: 16229- شعب الایمان للبیہقی ، حدیث نمبر: 6800 مسند ابویعلی، حدیث نمبر: 997- صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: 613-جامع الاحادیث للسیوطی، حدیث نمبر: 7852 -الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر: 1202- کنز العمال، حدیث نمبر: 10157- زجاجۃ المصابیح، باب الاستغفار والتوبۃ﴾