Wednesday, 11 November 2015

ہندوستان میں مذہبی عصیت

عروف دانشور ، کالم نویس اور تاریخ داں رام چندر گہا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہر سوچنے سمجھنے والے ہندوستانی کے ذہن میں گاندھی اور مارکس ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں  اسی طرح یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ہر سوچنے سمجھنے والے ہندوستانی کی سوچ اورگفتگو میں فرقہ پرستی، کرکٹ اور سیاست کے لئے ایک جگہ مخصوص ہوتی  ہے۔ نکڑکی چائے دوکان سے لے کرٹی وی چینلز کے دمکتے اسٹوڈیوز تک اور ڈرائنگ روم سے لے کر پارلیمان  کے ایوانوں تک  رہ رہ کران کی گونج سنائی دیتی  ہے۔ مگراس ہمہ گیر 'مقبولیت' کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بحیثیت ایک سیاسی وحدت ہم ان تینوں کے منفی اثرات کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ مثلاً ،فرقہ پرستی اب فسطائیت کے اس مرحلے پر ہے جہاں وہ ایک منتخب جمہوری حکومت کی سرپرستی میں بنیادی آئینی حقوق پرکھلے  بندوں حملے کر کے ہندوستانی جمہوریہ کی فلسفیانہ بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔گزشتہ چند مہینوں میں پیش آنے والے واقعات  اسی حقیقت کا عملی اظہار ہیں۔  اسی طرح کرکٹ اپنے تمام تر نوآبادیاتی لواحق و سوابق کے ساتھ  ملک کامقبول ترین کھیل ہے۔ حالیہ برسوں میں  عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ  سرمایہ اور گلیمر کے عناصر کی شمولیت نےاسے دیگر کھیلوں کے لئے برگد کے اس درخت کی مانند بنا دیا ہے جس کے سائے میں کسی اور پودے کی نشو ونما ممکن نہیں ہوتی ہے۔اور جہاں تک سیاست کاسوال ہے تو اس کی اقداری گراوٹ کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست داں ہونا اور کرپٹ ہونا اب ایک ہی حقیقت کے دو پہلو بن چکے ہیں۔ 
گرچہ ملی قیادت کے لئےیہ بات ہمیشہ اہمیت کی حامل تھی کہ  وہ ملک میں موجوددائیں بازو کی سرگرمیوں کے متعلق ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی کرےتاکہ سماج  میں نفرت و عداوت کی جو فضا بنا نے  یا قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کا سد باب ہو سکے۔افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور ملی  قیادت اس قسم کا کوئی اقدامی لائحہء عمل نہیں بنا سکی جس کا نتیجہ اب یہ نکل کر سامنے آیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف  منفی پروپیگنڈہ کا جو کام کبھی سنگھ پریوارکے رضا کار کرتے تھے اب  اعلا سرکاری مناصب پر فائز افسران، دانشوران،  میڈیا ہاؤسز، اورگلی محلوں میں موجود عام لوگ کر رہے ہیں۔ مگر کف افسوس ملنے سے بہتر ہے کہ ملی قیادت کھلے ذہن کے ساتھ اس نازک مسئلہ کی جانب متوجہ ہواور اس ناسور کے خاتمہ کےلئے ایک منصوبہ بند طویل المیعاد زمینی جد جہد کا آغاز کرے۔   
اس مضمون کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں جدید ہندوستان کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے ان  وسیع ترعوامل و محرکات کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے ملک میں فرقہ پرستی کورواج دینے  میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  دوسرے حصہ میں ملی قیادت  کے اہم سنگ ہائے میل  کا جائزہ اس اعتبار سے لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس  کی تاریخ کے خدو خال، اور مزاج و رجحان   کسی حد تک واضح ہو کر سامنے آجائیں تاکہ مستقبل  کے لئےلائحہ سازی کا عمل دفتری خانہ پری کے بجائے  ایک طویل اجتماعی جد و جہد کا نقش اولیں ثابت ہو۔
آگے بڑھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون کے مرکزی الفاظ ¬– جدید ہندوستان، فرقہ پرستی اور ملی قیادت – کا مفہوم مختصراًواضح کردیاجائےتاکہ آنے والے مباحث کوسمجھنے میں آسانی ہو۔
'جدید ہندوستان 'سے مراد 1857 کے بعد سے اب تک کا زمانہ ہے۔
فرقہ پرستی سے مراد' حقائق کے متعلق افراط و تفریط پرمبنی وہ ذہنی و عملی رویہ ہے جس کا حامل فرد یا سماج زندگی کے مسائل اور امکانات کوکسی مخصوص سماجی اکائی یا گروہ کےمخصوص مفادات کی عینک سے دیکھتا ہے اور دیگرافراد و سماجی اکائیوں کے متعلق نفرت، شک، اور خوف کے جذبات رکھتا ہے،اور اس کا بدترین اظہارفرقہ وارانہ تشدد اور  فسادات کی شکل میں ہوتا ہے۔اس رویے کی تشکیل میں بے شمار چھوٹے بڑے عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر مذہب کا حصہ بوجوہ زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے'۔ 
ملی قیادت سے میری مراد 'وہ تنظیمیں ،جماعتیں  اور ادارے ہیں جن کی سرگرمیوں کا محورہندوستانی مسلمانوں کی فلاح و بہبود  اور ان کے مسائل کا حل ہے'۔
اس اعتراف کے ساتھ کہ فرقہ پرستی اور ملی قیادت کی مذکورہ بالا تعریف یا وضاحت کئی وجہوں سے ناقص ہے ہم اب نفس مسئلہ کی طرف آتے ہیں کیونکہ اس مضمون کا مقصدفی نفسہ ان اصطلاحات کی  جامع اور مانع تعریف متعین کرنا نہیں ہے۔
جدیدہندوستان،انتخابی جمہوریت، اورفرقہ پرستی
عام طور پر ہندوستانی تاریخ میں جدید دور کا  نقطہ آغاز 1857 کی جنگ آزادی کو مانا جاتا ہے۔گویا عہد وسطیٰ کی مغلیہ سلطنت اور تاج برطانیہ کے جدید ہندوستان کے مابین 1857 ایک حد فاصل ہے۔ اس کے بعد کی ایک صدی اس لحاظ سےبہت اہم ہے کہ اسی دور میں  ہندوستانی قوم کےاس سیاسی اور فکری ما ہئے کی تشکیل ہوتی ہے  جس کا منطقی نتیجہ آئین ہند کی تریب اور نفاذ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس دور  کے سیاسی، سماجی ، مذہبی،اور فکری معرکوں نے جدید ہندوستان اور ہندوستانی سیاسی قومیت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ہمارے موضوع کے اعتبار سے یہ بات دلچسپ ہے کہ عہد وسطیٰ سے عہد جدید تک کے سفر میں ہندوستانی سماج میں  فرقہ پرستی کے تعلق سے فکری اور عملی دونوں سطح پر ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوتی   ہے۔ مغلیہ عہد میں شاہی طرز حکومت کی وجہ سے فرقہ پرستی کو ابھر نے اور پھلنے پھولنے کا کوئی موقع نہیں ملا ۔ ایسا ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ ملوکیت میں حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے لئے کسی مخصوص مذہبی یا سماجی اکائی کی حمایت کی مطلق ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ، جمہوریت کے برعکس،  ہر کوئی ان کی خوشنودی  کا طالب ہو تا ہے۔نیز اس طرز حکومت میں بغاوت اور لا قانونیت کسی صورت برداشت نہیں کی جاتی تھی اورشر پسند عناصر کی سرکوبی فی الفور کی جاتی تھی۔ اس دور میں فرقہ پرستی یا اس  پر مبنی تشدد کے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تب فرقہ وارانہ تشدد صرف  دو مذاہب کے ماننے والوں کےدرمیان تصادم سے زیادہ اس علاقے میں ریاست یا  بادشاہ  کے مخالفین کے لئے اشارہ ہو تا  کہ ابھی بغاوت کے لئےحالات سازگار ہیں ۔ ان وجوہات سے فرقہ پرستی کی سیاسی سرپرستی  عہد وسطیٰ میں ممکن تھی اور نہ مطلوب۔
انگریزوں کے دور میں بھی استبدادی طرز حکومت کی وجہ سے یہی صورتحال برقرار رہنا چاہئے تھا مگر اپنے  سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطرانگریزوں نے جب بھی مناسب خیال کیا  علمی اور انتظامی دونوں سطح پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین شک و شبہ اور نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کی۔اسی لئے عہد وسطی کے بر خلاف جدید ہندوستان میں معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ تشدد معمول بن گیااور ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین شک وشبہ اور عداوت کی وہ خلیج پیدا ہو گئی جو آج تک پاٹی نہیں جا سکی ہے۔
اسی دور میں اعلا ذات کے ہندوؤں میں ایک ایسا طبقہ بھی ابھر کر سامنے آیا جس نے عہد وسطیٰ کی تاریخ کو غلامی  کا دور قراردیا اور مسلمانوں کے متعلق شد و مد سے  اس بات کی تشہیر کرنے لگا کہ یہ ہندوستان کے اصل باشندے نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت بیرونی حملہ آوروں کی ہے۔انہوں نے  عہد وسطیٰ کی تہذیبی  و انتظامی ترقیوں کو نظر انداز کر تے ہوئے ایک ایسے  تہذیبی اور علمی عہد زریں کا خیال پیش کیا جو بیرونی مسلمان حملہ آور وں کی وجہ سےآگے  اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکا۔ تاریخ کے ان واقعات کوجس  میں ، اس تشریح و تعبیر کے مطابق ،مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا تھا خوب مرچ مسالہ لگار کر مسلسل بیا ن کیا جانے لگا۔اس کے بالمقابل عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی وہ سماجی تاریخ جس میں مختلف مذاہب کے لوگ بقائے باہم کے اصول پر زندگی گزارتے تھے  نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔
جد و جہدآزادی کی آخری تین دہائیوں میں گاندھی جی کی شخصیت ایک کرشمائی اور  ہر فن مولا رہنما کی حیثیت سے نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ انہوں نے نہ صرف آزادی کی لڑائی کو فیصلہ کن مرحلہ تک پہونچایا بلکہ ایک سماجی مصلح اور سیاسی و اجتماعی زندگی میں اخلاقی قدروں کے علمبردار کی حیثیت سے  معاشرہ اور اس کے مسائل کےمتعلق بھی کھل کر اور تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے اپنی تحریر و تقریر اور سیاسی سرگرمیوں میں ہندو عقائد اور دیو مالا کا بار بار ذکر کیا ۔ اسی لئے  ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور منصوبہ بندی کے  اعتراف کے با وجود کچھ مؤرخین اور مبصرین کی جانب سےان پر  یہ الزام  عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے عوام تک اپنا پیغام پہونچانے کے لئے جن ہندوتاریخی و اساطیری علائم وآثار اور شحصیات کاسہارا لیا اس نے  'ہندو ' مذہبی شعور کو  بیدار کرکے دائیں بازو کے لئے زمین ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
برطانوی استعماریت کے خلاف آزادی کی یہ جد وجہد جس طریقہ سے اپنے اختتام کو پہونچی اس نے  بھی ملک میں فرقہ پرستی کو گویا 'ریزرویشن' دلادیا۔   اسی لئے آزادی کی جدو جہد کے دوران جب آنے والی جدید ہندوستانی قوم  کی تشکیل ہو رہی تھی ایسے واقعات کثرت سے ہونے لگے جس میں مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے حریف اور مد مقابل بن کر سامنے آگئے۔خاص طور پر سیاست  کے میدان میں آزادی سے پہلے کے آخری پانچ  دس برس جذباتی نعروں، اشتعال انگیز تقریروں، مذہبی علٰحیدگی پسندی اور موہوم امیدوں اور اندیشوں کا دور تھا۔ عوام اس مسئلے کے سیاسی اور تہذیبی پہلوؤں  اور پیچیدگیوں کا کتنا ادراک رکھتے تھے یہ ایک الگ بحث ہے مگر جو بات ان کے ذہنوں میں بالآ خر راسخ ہو کر  عوامی حافظہ کا حصہ بن گئی وہ یہ تھی کہ مسلمان اس ملک کی تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔اس ایک واقعہ نے ہندو-مسلم تعلقات کے پورے ڈھانچہ کو نا تلافی نقصان پہنچایا۔ اس طرح فرقہ پرستی کا وہ جن جسےآزادی کی جد و جہد کے زمانے میں  انگریزوں نے بوتل سے باہر نکالا تھا آج تک باہر ہی ہے اور بوتل میں واپس جانے کے لئے کسی صورت  تیار نہیں ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا جائزے  سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید ہندوستان میں  جب اس سیاسی قومیت کا ارتقاء ہو رہا  تھا جو عہد وسطیٰ کے سیاسی نظام کے برعکس ایک نئے سیاسی شعور کی علامت تھی تو دوسری جانب فرقہ پرستی بھی اس دائرہ میں اپنے پاؤں پسار رہی تھی جو بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات کی وجہ سے اسے میسر آرہا تھا۔
اب ہم  جدید ہندوستان کے اس دور کی طرف آتے ہیں جس کی ابتداء 1947 سے ہوتی ہے اور جس میں ایک نئے آئین کے تحت ملک کو سیکولر، سوشلسٹ  ڈیموکریٹک ریپبلک قرار دے کر اس کی ہمہ جہت تعمیر کا عمل شروع ہوا۔ ایشیاء اور افریقہ کے بہت سارے ممالک کے برعکس ہندوستان میں جمہوریت کا تجربہ کامیاب رہا اور  آج   ہمارا ملک دنیا  میں  سب سے بڑی جمہوریت  بن کر ابھر ا ہے۔ دیگر ممالک میں فوجی آمریت  اور خانہ جنگیوں  کی وجہ سے جمہوری قدریں سماج میں اپنا قدم جمانے میں ناکام رہیں۔ اس لحاظ سے ہندوستان  میں جمہوریت کا تجربہ  اور اس کے نتیجہ میں وجودمیں آنے والا سیاسی نظام اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک مختلف اور حوصلہ افزا منظر نامہ پیش کرتا ہے: انتخابات کا تسلسل،  پر امن انتقال اقتدار، عدلیہ کی آزادی،  حق رائے دہی کا استعمال، اظہار خیال کی آزادی، جمہوری حقوق کی یقین دہانی، وغیرہ ایسے بنیادی جمہوری  اقدار و تصورات  ہیں جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوںمیں ہندوستانی سماج  کے سیاسی تجربہ کا حصہ بن گئے ہیں۔
اس  خوش آئند حقیقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مسلم ہے کہ  بحیثیت مجموعی ہندوستانی سیاسی طبقہ یا پالیٹیکل کلاس خود آئین کی روح کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی ہے۔  مثلاً انتخابات کے عمل کو، جو جمہوریت کی فصل کے لئے کھاد پانی کے مترادف ہے ،ان کی سیاسی ابن الوقتی  نے حقیقی معنوں میں ناکارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے پالیسی اور پروگرام، عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے نئے اور اچھوتے حل، تعلیمی اصلاحات کے ذریعے نئی نسلوں میں سائنسی طرز فکر کی ترویج ، وغیرہ کےلئے  سنجیدگی سے پالیسی سازی اور قانون سازی کے بجائے  سیاست دانوں نے ذات پات، مذہب، علاقائیت ، وغیرہ کے آزمودہ نسخے کو اپنا کر اقتدار تک پہنچنا اپنا مطمح نظر قرار دےدیا۔اس سیاسی طرز فکر نے آئین سازوں کے اس خواب کو کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہونے دیا کہ یہ ملک عالمی منظر نامہ پرجدید سیاسی اصولوں پر قائم ایک روشن خیال جمہوری فلاحی ریاست کی شکل میں ابھر ے۔ انتخابات  کی روح  کو مجروح کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ قدیم سماجی ناہمواری، مذہبی نارواداری اور جاگیردارانہ فکر، دام ہمرنگ زمین  کی صورت جمہوریت کےقالب میں اپنا کھیل کھیلنے لگیں۔
مگر پانی سر سے اونچا اس وقت ہواجب  ہندوستانی سماج کا وہ حصہ جوآزادی سے قبل مسلم دشمنی اور فسطائیت کا نظری علمبردار بن کر اٹھا تھا اب ایک محسوس سیاسی قوت بن کر انتخابی سیا ست کے راستے اقتدار کے مراکز پر قا بض ہونے لگا۔ انتخابی سیاست کےاس بحرانی دور میں کرسی کے پجاریوں نے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی عوام کو ٹکڑوں میں  تقسیم کرنا شروع کیا اورکلاسیکی فسطائی طریقہء کار پر عمل کرتے ہوئےمسلمانوں  کے خلاف  سماج کے دیگر طبقات میں شک و شبہ اور نفرت و حقارت کی فضا پیدا کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین متنازعہ مسائل کو ابھار کر اس طرح پیش کیا کہ ایک جانب وہ دونوں  قوموں کی 'ناک' کا مسئلہ بن گئے اور دوسری طرف ان گنت خانوں میں تقسیم ہندوسماج کو متحد کرنا  بھی ان کے لئے آسان ہوگیا۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ فرقہ پرستی کی اس یورش میں صرف دائیں بازو کی اعلا ذات   (جنہیں اکثر لوگ غلطی سے  صرف ہندو کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں) کے سیاسی نظریہ ساز اورمنصوبہ ساز شامل تھے  بلکہ نام نہاد سیکولر سیاست دانوں نے بھی اس معرکہ میں خوب خوب داد شجاعت دی اور آئین کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں اپنا کرداربہت خلوص کے ساتھ ادا کیا۔ اب نوبت ایں جا  رسید  کہ فرقہ وارانہ فساد یا کشیدگی انتخابی منصوبہ بندی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اس کار خیر  میں بھی  ہندوستانی  سیاست میں فرقہ پرست اور سیکولر کہا  جانے والا ہر دو خیمہ شامل ہے ۔
یہاں مزید تین عوامل کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس نے شہروں سے دور دیہات اور قصبات کی روادار اور پر امن فضاؤں کو بھی فرقہ پرستی کے زہر سے مسموم کر دیاہے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ  بڑے شہروں کے آرام دہ کمروں میں بیٹھےنفرت کے آڑھتیوں کو پھیرے لگانے والے  انہیں گاؤوں اور چھوٹے شہروں سے ملتے ہیں۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بالعموم شہروں میں ہوتے ہیں ۔دیہی علاقے اس درندہ کا فطری مسکن نہیں ہے۔ مگر اب یہ ان علاقوں میں بھی آ نکلتا ہے۔اس سلسلے میں اقتدار کےعدم ارتکاز کے نظریئے کے تحت  ہونے والے پنچائتوں اور کونسلوں کے انتخابات کا ہندو-مسلم تعلقات پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا بہت ٖضروری ہے۔  کیو نکہ  ان مواقع پر یہ پر امن جزیرے بھی نفرت کے تھپیڑو ں کی زد میں آ جا تےہیں۔  انتخابات تو دیر سویر گزر جاتے ہیں مگر  اپنے پیچھے سماجی تعلقات میں ڈھیر ساری تلخیاں چھوڑ جاتے ہیں  جو بارود کا کام کرتی ہیں اور کوئی معمولی واقعہ یا حادثہ ان کے لئے چنگاری کا کام دیتا ہے۔
اسی طرح فرقہ پرستی کے نفوذ اور فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پرالیکڑانک اور سوشل میڈیا ، بالخصوص علاقائی میڈیا، کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان ذرائع سے اگر ایک جانب معلومات اور انٹرٹینمنٹ پروسا جاتا ہے تو دوسری جانب 'اندرونی ہندوستان' یعنی دور افتادہ گاؤں اور قصبوں تک وہ آوازیں بھی پہونچ جاتی ہیں جو نفرت   کی پرستار اور فرقہ پرستی کی علمبردار ہیں۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہاں میڈیا کی نیت پر حملہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس بات کا تجزیہ مقصود ہے کہ اسے کس طرح فرقہ پرستی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے یا وہ خبر رسانی کا فرض ادا کرتے کرتے کس طرح  غیر شعوری طور پرفرقہ پرستوں کے کام آ جاتا ہے۔
فرقہ پرستی کے فروغ میں غربت بھی ایک اہم عامل ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غربت اور فرقہ پرستی لازم و ملزوم ہیں اور سماج کے غریب طبقات فطرتاً تشدد پسند اور فرقہ پرست ہوتے ہیں۔ دراصل دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو جب بھی امن عامہ میں خلل ڈالنا ہوتا ہے وہ وہ لالچ دےکر اور دھونس جما کر غریبوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ غربت اور بے بسی کے چکر ویوہ میں صدیوں سےپھنسے یہ مجبور لوگ جب تشدد پر آمادہ ہوتے ہیں تو یہ کسی نظریہ اور پالیسی کے تحت نہیں ہوتا بلکہ ان کے سامنے دو وقت کی روٹی اور اپنے معصوم بچوں کا بھوک سے مرجھایا چہرہ ہوتا ہے۔   
جدید ہندوستان میں جمہوریت کی بظاہر چہل پہل کے باوجود فرقہ پرستی کی 'مقبولیت '  کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے دیگرکئی ایشیائی اور افریقی ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی  جمہوریت ایک طرز زندگی ، رویے اور اگر ایک لفظ میں کہا جائے تو ایک بنیادی اخلاقی قدر کی حیثیت سے عوام کی انفرادی اور سماجی زندگی میں راسخ نہیں ہو سکی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ  ہمارے ملک میں جمہوریت کو صرف ایک طرز حکومت سمجھا گیا ہے جس کا تعلق خاندان، تعلیم، ادب، تربیت، ادارہ سازی، دفتر، باہمی تعلقات، مجلسی گفتگو، وغیرہ  سے نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے نئی نسل سے یہ توقع رکھنا کہ گھر کی چار دیواری میں اپنی ماں  اوربہنوں کے حقوق کی پامالی دیکھنے کے بعد جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھے تو جمہوری اقدار اور اخلاقیات کی علمبر دار ہو ،سادہ لوحی ہوگی۔   اس لحاظ سے ہندوستانی سماج میں مذہب اور جمہوریت کی حالت بہت حد تک یکساں ہے۔ یہاں مذہبی رسوم و تقریبات انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جاتی ہیں مگر مذہبی اقداروروحانیت، جو ان کا مقصود ہے، عنقا ہے۔ اسی طرح انتخابات کو'جشن جمہوریت' سمجھ کر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا یا جاتا ہے مگر جمہوری قدروں کی پاسداری کی بات دیوانے کی بڑ سمجھی جاتی ہے۔
مسلم قیادت اور فرقہ پرستی کا چیلنچ
گزشتہ صفحات سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ جدید ہندوستان میں فرقہ پرستی اور سماجی و سیاسی جدیدیت پہلو بہ پہلو اپنا دائرہ  اثر بڑھاتی رہیں۔ اس کا آغاز ، جیسا کہ پہلے گزرا، آ زادی کی جد و جہد کے زمانے میں ہی،  جو جدید ہندوستانی سیاسی قوم کا تشکیلی دورتھا، ہو چکا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو ایک عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا:  ایک جانب انہیں ملک کی تقسیم کا ذمہ دار مانا جارہا تھا اور انہیں اس 'جرم' کا بار بار احساس بھی دلایا جاتا تھا تو دوسری جانب وہ ایک 'سوشلسٹ جمہوری ری پبلک'کے آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے دیگر سماجی اکائیوں کی طرح ان تمام حقوق و فرائض کے مکلف و سزاوار تھے  جن کی ضمانت اس ملک کا آئین اپنے شہریوں کو دیتا ہے۔  ان  ہمت شکن حالات کی سنگینی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ بات بھی اپنے پیش نظر رکھیں کہ  مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے طبقے کی ایک بڑی تعدادتقسیم کے زمانہ میں نقل مکانی کر کے پاکستان جا چکی تھی ۔ سونے پہ سہا گہ یہ کہ آزادی کے بعد  شمالی ہند میں پے درپے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ا ور جان و مال کا تحفظ اور دینی و ملی تشخص کو برقرار رکھنا ان کی  اہم ترین ترجیحات بن گئیں۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ  جب  ملک کی آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے ہندوستانی سماج  کے دیگر طبقات اور اکائیاں تعلیم  اور معیشت کے میدانوں میں آگے بڑھ رہی تھیں مسلمان اپنی  جان و مال کی حفاظت اور نان شبینہ کے انتظام میں مشغول  تھے۔ اس کے بعد بھی اگرآج  مسلمان تعلیم اور روزگار کے میدانوں میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں تو کیا تعجب ہے!
بہر حال ، اب موجودہ صورت  حال یہ ہے کہ تقریبا ایک صدی کی منظم ،مستحکم اورمسلسل جد و جہد کے نتیجے میں فسطائی طاقتوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ ہنگامی طور پر چند مظاہرے اور احتجاجی جلوس ، کچھ میمورنڈم اور تجاویز، اکا دکا کانفرنسیں اور لاطائل اخباری بیانات ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ اس کے لئےسنجیدگی کے ساتھ طویل المیعاد منصوبہ بندی کرکے ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہےکیونکہ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کر ریلیف ورک کے  ذریعہ ہم وقتی طور پر چند خاندانوں کوناگزیر فوری امداد تو پہونچا سکتے  ہیں مگر اس عفریت کی یلغار کو روک نہیں سکتے جس کی زد میں آج نہیں تو کل ہم سب ،یعنی تمام ہندوستانیوں، کو آنا ہے۔ میری رائے میں ملی قیادت ، جس کے ساتھ ہم میں سے کچھ لوگ 'نام نہاد' اور  'لولی لنگڑی' کا سابقہ لگانا ضروری سمجھتے ہیں، اس سلسلے میں اہم پیش رفت کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ عجلت پسندی کی جگہ منصوبہ بندی اور قرارداد اور اعلامئے کی جگہ کارکردگی کی اہمیت   عملاًتسلیم کرلے۔ آئیے اس  قیادت کی تاریخ کا سرسری جائزہ لے کر اس کے عناصر ترکیبی اور نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں  تاکہ اس کی قوت و نفوذ اور کمزوریوں اور خامیوں  کاپوراپورا ادراک ہو سکے۔
مگر ملی قیادت  ہے کیا؟ میرے خیال میں سیاسی اقتدار کے عہد زوال  میں یا اس کے کلیتہً خاتمہ کے بعد  دانشوران قوم بالخصوص علماء  کا مسلمانوں کے اجتماعی مسائل و معاملات میں نئے خطوط پر رہنمائی کے لئے منظم کوششوں کو ہم 'ملی قیادت' سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ 18 ویں صدی کے وسط میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں سے علماء کی ملی قیادت کاپہلا دور شروع ہوا جو 19 ویں صدی کے وسط میں دیوبندنامی قصبہ میں ایک چھوٹے سے مدرسہ  کے قیام پر ختم ہوتا ہے۔ 1857 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے بڑ ا مسئلہ یہ تھا کہ تبدیل شدہ سیاسی اور معاشرتی حالات کے تئیں انفرادی او راجتماعی سطح پر ان کا رویہ کیا ہو؟ آئندہ چار پانچ دہائیوں میں مسلم ڈسکورس تعلیم اور سماجی سدھار – میں یہاں دانستہ'اصلاح معاشرہ' کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہا ہوں کیونکہ اب اس کا استعمال بہت محدود مذہبی معنی میں ہوتا ہے – کے ارد گرد گھومتا رہا۔  اس دور میں علماء نے  رئیر گارڈ ایکشن یا رضاکارانہ پسپائی کی پالیسی اختیار کر کے اپنی سرگرمیوںکو مذہبی تعلیم اور عوام کی فقہی اور انفرادی دینی ضرورتوں  کی تکمیل تک محدود کر لیا۔ عہد وسطی ٰ کے برعکس پہلی بار عوام اور علماء میں قریبی روابط پیدا ہوئے ۔ بادشاہ اور امراء کی سرپرستی سے محرومی کے بعد مسلمان اہل ثروت اور عوام نے علماء کی معاشی ضرورتوں کا بیڑا اٹھا یا۔ روابط اور تعلقات میں ان بنیادی نوعیتوں کی تبدیلی کے بعد علماء اور عوام  میں وہ مضبوط تعلق پیدا ہو گیا جس کا وجود بھی عہد وسطیٰ میں نہیں ملتا ہے۔  اسی وجہ سے  ریاستی سرپرستی سے محرومی کے باوجود علماء نے اس دور میں جو زمینی اور ٹھوس کام انجام دئے  وہ اپنے اثرات کے اعتبار سے ہمہ گیر بھی تھے اور دور رس نتائج کے حامل بھی ۔
جدید تعلیم اور تہذیب کے فروغ کے لئے سر سید کی علمی اور تعلیمی کوششوں سے اعلا ذات کے مسلمانوں میں ایک ایسا متوسط طبقہ وجود میں آگیا جس نے عہد وسطیٰ کے جاگیرداروں کے خاتمہ سے پیدا ہونے والے سماجی خلاء کو پر کیا۔ مگر سر سید سے فکری تعلق کے دعووں کے باوجود ملی محاذ پر  یہ طبقہ ہمیشہ راسخ العقیدہ مذہبی طبقہ کی سند اور سرپرستی کا محتاج اور اس کے زیر اثر رہا۔ جدید ہندوستان میں  ملی قیادت کا  یہ پہلا سنگ میل تھا۔
جدید ہندوستان میں ملی قیادت کا دوسرا سنگ میل 'خلافت تحریک' تھا ۔ اس تحریک نے علماء کو پہلی بار اپنی مقبولیت اور عوام میں نفوذ کو ایک نیم مذہبی نیم سیاسی مقصد کے لئے اجتماعی پلیٹ فارم سے  استعمال کرنے کا موقع دیا ۔ قوم پرست سیاسی جماعت نے بھی گاندھی جی کی قیادت میں ان کا ساتھ دے کر اس تحریک کو وقتی طور زبردست عوامی مقبولیت فراہم کر دی۔
علماء کے حوالے سے اس تحریک کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلا کہ علماء جنگِ آزادی کی تحریک میں ، جو گاندھی جی  کی قیادت میں نظریاتی اور عملی ہر دو سطح پر ایک نیا رخ اختیار کر رہی تھی، ایک قوم پرست عنصر کی طرح شامل ہوگئے۔خلافت تحریک کے دم توڑدینے کے بعد بھی علماء  مختلف تنظیموں اور اور انجمنوں کے پلیٹ فارم سے آزادی وطن اور ملت کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم رہے اور کسی سیاسی جماعت کے لیے ،خواہ وہ قوم پرست کانگریس ہو یا مسلم علٰحیدگی پسند مسلم لیگ، انہیں نظر اندازکرنا ممکن نہیں رہا۔
آزادی کے بعد ملی قیادت کا تیسرا اور صبر آزما دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں حالات بہت ہمت شکن تھے اورملی قیادت بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو بحال کرکے ان کی دینی شناخت کی بقا کے لئے کوشاںرہی۔  اس دور میں جب ملک کی تعمیر نوکا عمل  -  انتہائی وسیع معنوں میں  - تیزی سے چل رہا تھا حالات کے جبر نے علماء اور دانشوروں کو ایک 'وفاقی ملی قیادت' کی ضرورت کا احساس دلایا اور 1965 میں 'آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت' کا قیام عمل میں آیا۔ مگروسیع النظر ی اور وسیع المشربی کی کمی ، معاصرانہ چشمک ، تنظیمی رقابت،  وغیرہ نے اس 'نمائندہ'پلیٹ فارم کو بہت جلد'ملی سیاست ' کے بساط میں تبدیل کر دیا۔ 
ساتویں دہائی کے نصف اول میں مسلمانوں کے سامنے وہ چیلنج سامنے آیا جوکسی بھی سیکولر جمہوریہ میں ایک مذہبی اقلیت کو دیر سویر پیش آکر رہتا ہے۔ کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف  ملی قیادت ایک بار پھر بقا ء اور شناخت کی 'لڑائی' کے لئے 'آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ' کے نام سے منظم ہوئی۔ اس بات کی خصوصی کوشش کی گئی کہ اسے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ حکومت کی نظروں میں بھی اسے جلد ہی ایک 'مسلم نمائندہ تنظیم' کی حیثیت حاصل ہوگئی اور مسلمانوں نے بھی اس تنظیم کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اس کی آواز پر لبیک کہنا اپنا ملی فریضہ سمجھا۔ مگر ہمیں اعتراف حق کے باوجود اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے میں  بھی کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ بورڈ کی معنویت، طریقہء کار، نمائندگی کے دعوے اور کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں  اور مسلکی شدت پسندی کی وجہ سے اس کا اعتبار بھی مجروح ہوا ہے۔ بورڈ کی تنظیمی ہیئت، ویزن کا غیر واضح یا یکسر معدوم ہونا، اور مسلکی و مشربی اختلاف کے نتیجہ میں  اس پرایک مخصوص مکتب فکرکے افراد کا  حاوی ہونا اس کےاہم  اسباب ہو سکتے ہیں۔بورڈ کی معنویت اور ساکھ کو بر قرار رکھنے کے لئے ایک  ایسی عمومی  بحث کی ضرورت ہے جس میں علماء ، دانشور، صحافی، وکلاء، ماہرین قانون، طلبہ ، اور عام مسلمان مسلک و مشرب کی تنگنائیوں سے اوپر اٹھ کر حصہ لیں تاکہ اس 'اجتماعی پلیٹ فارم 'کو اےسی فرسٹ کلاس کا ویٹنگ روم بننے سے روکا  جاسکے۔لیکن اگر اس قسم کی کو ئی کوشش نہیں ہوتی ہے اور ملی قیادت کے مختلف حلقے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیوں میں مبتلاء  رہتے ہیں تو یہ ملت کا بہت بڑا خسارہ ہوگا کیونکہ آج بورڈ ہی وہ واحد ادارہ ہے جو تمام مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اور اس دعویٰ کی سچائی کو پرکھنے کی بھی ایک ہی صورت ہے کہ ملی قیادت کے مختلف دھڑے ایک سنجیدہ مکالمہ کا آغاز کریں۔
  بہر حال ، پرسنل لاء کے تحفظ کے لئے قیام میں آنے والی اس تنظیم نے رفتہ رفتہ اپنا دائرہ  کار  وسیع کرتے ہوئے بہت سارے مسلم مسائل و معاملات کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنا لیا۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں  شاہ بانو کیس اور بابری مسجد کے حوالوں سے  ملی قیادت سرخیوں میں رہی اور بعض 'قائدین' کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے دائیں بازو کی اس تحریک کو کمک ملتی رہی جو بالآخر بابری مسجد کی شہادت پر منتج ہوئی اور ملک میں ایک نئے سیاسی اور سماجی دور کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس سیاہ حادثے پر اب ربع صدی گزر چکی ہے ۔ دائیں بازو کی تحریکوں نےاس وقفہ میں ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ اپنی تنظیمی قوت ، اتحاد، عمدہ کارکردگی اور منصوبہ بندی کے ذریعہ اب وہ اس پوزیشن میں آ چکے ہیں جہاں وہ آرایس ایس کے نظریات کو عملی جامہ پہناکر ہندوستانی جمہوریہ کی فلسفیانہ اساس کو بدلنے کے عزم کا برملا اظہار کررہے ہیں۔  جہاں تک ہماری ملی قیادت کا تعلق ہے تو وہ اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہے کہ بعض استثنائی مثالوں کےوہ اب بھی شناخت  رخی انفعالی ملی سرگرمیوں کو  مسلمانوں کی فلاح و بہبود  کے لئے کافی سمجھتی ہے  ، اور اتحاد امت کے لئے گلوگیر آواز اور پرنم آنکھوں کے ساتھ طویل دعاؤں کے باوجود اجتماعی مسائل میں بھی اپنے ذوق و مشرب کوحق و صداقت کا معیار سمجھتی ہے۔
فرقہ پرستی  اور ملی قیادت: چند گذارشات
1۔ ملی قیادت کے لئے اس حقیقت کا ادراک اور اظہار  ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کے دو پہلو ہیں: خارجی اور داخلی۔ خارجی سے مراد یہ ہےکہ فرقہ پرستی صرف مسلمانوں کا  داخلی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ہندوستانی سماج کا مسئلہ ہے۔ ہمیں نظری اعتبار سے اس بات کا بر ملا اظہار کرنا چاہئے کہ یہ مسئلہ کسی مخصوص فرقہ کا  مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے ملک کی سالمیت، امن و امان، اور خوشحالی و ترقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ اسی  طرح اس نزاکت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہم اکثریتی  فرقہ پرستی کو اقلیتی فرقہ پرستی کے ذریعہ حل نہیں کرسکتے ہیں۔ فرقہ پرستی اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے ایک ہے اور اس کی ہر قسم اپنے مخالف کیمپ کی فرقہ پرستی سے غذا حاصل کرتی ہے۔ وہ تمام عناصر بد جو فرقہ پرستی کو اپنے سیاسی  اور معاشی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں ان سے ملی قیادت واضح الفاظ اور دو ٹوک لہجے میں اپنی بے زاری اور برات کا اظہار کرےخواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور ذات سے ہو۔اور سماج کے وہ تمام طبقات جو فرقہ پرستی سے متاثر ہوتے ہیں وہ ملی قیادت کی ہمدردی  کے مستحق ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور ذات سے ہو۔اس سلسلے میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
2۔ اسی طرح ملی قیادت کو اپنے دائرہء کار کی محدودیت کا احساس بھی  ہو نا چاہیئے۔ فرقہ پرستی ایک کثیرالجہات اور کثیر الابعاد مسئلہ ہے ۔رسل و رسائل اور تعلیم کے عموم،اکہرے شناخت کا فزوں  تراحساس،  عالمی سیاست کے بساط پر مسلمانوں کی پوزیشن، اور ان جیسے متعدد سماجی، سیاسی اور معاشی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے فرقہ پرستی روز بروز ایک زیادہ پیچیدہ مسئلہ  کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔  اس کےحل کے  لئے پارلیمنٹ سے لے کر سماجی اداروں تک ، مذہبی پیشواؤں سے لے کر مذہب بیزار مگر انسان دوست طبقات تک ، انتظامیہ سے لے کر دانشوران تک اور طلبہ و نوجوانوں سے لے کر خواتین اور مزدوروں تک ہر ایک  کواپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہماری سمٹی سمٹائی ملی قیادت اس سلسلے میں سب کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ خواہ وہ جتنا بھی کرے ، جو وہ کرسکتی ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔
فرقہ پرستی کا داخلی پہلو یہ ہے کہ ملک میں ایک طبقہ نظری اور عملی اعتبار سے اس بات میں یقین رکھتاہے کہ مسلمانوں  اور دیگر اقلیتوں کو اعلا ذات کے ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت کو ، جسے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ 'ہندوستاتی تہذیب' کہا جاتا ہے، اپنانا چاہئے۔اس  بات  کوملک سے ان کی محبت اور وفاداری کے لئے اب معیار بنا دیا گیا ہے۔ اس نظریئے کے مطابق مسلمان کبھی بھی اپنے عقیدہ و اخلاقی نظام، مذہبی تصورات  اور معاشرتی رسوم ورواج کے ساتھ اس ملک کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ اور اگر وہ اس بات کو ماننے سے انکار کر تے ہیں تو انہیں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت حاصل ہوگی۔سنگھ پریوار نے فرقہ پرستی کو اپنی جارحانہ 'تہذیبی قوم پرستی'کی تبلیغ و اشاعت کے لئے ایک طریقہ ء کار کی حیثیت سے اختیار کر رکھا ہے۔  ظاہر ہے مسلمان اپنے مذہب، اس ملک میں اپنی تاریخ ، اور جدید ہندوستان کے مختلف سیاسی اورسماجی واقعات کی وجہ سے اس پالیسی کے لئے تختہء مشق بنتے ہیں، اس لئے فرقہ پرستی کے کڑوے کسیلے پھل بھی سب سے زیادہ انہیں کی جھولی  میں آتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ان کا داخلی مسئلہ ہے۔
3۔اگر ملی قیادت  فرقہ پرستی کے اس رتھ کی پیش رفت کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ہندوستانی سماج کے متعلق علٰحیدگی پسندی کے اپنے دیرینہ رویے میں تبدیلی  پیدا کرنا ہوگا۔یہ مسلم سماج کے مذہبی طبقہ کا  ایک 'واشگاف راز'ہے کہ وہ دین و دل کے تحفظ کی خاطر ان کی گلی میں جانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ یہ شناخت رخی  ملی قیادت کا نتیجہ ہے اور اس پر نظر ثانی کا وقت آگیا ہے۔  اب ہم 'دینی تشخص' والے دور سے آگے آ چکے ہیں۔ نئی نسل میں ،بحیثیت مجموعی ، اپنی روایات سے وابستگی ان نسلوں سے زیادہ ہے جواستعماری فکری غلامی کے دور میں پروان چڑھیں ،اس تبدیلی  کے متعدد اسباب  میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر بھی یہ دور علاقائی اور مذہبی قدروں کی بازیافت کا دور ہے۔ بہر حال،  اس بات کا اعتراف کشادہ دلی کے ساتھ کیا جانا چاہئے کہ ملی قیادت نے اس تشخص کو باقی رکھنے میں زبردست خدمات انجام دی ہیں۔ مگر اب ہمیں  اس سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نفرت کے علمبردار فسطائی جماعتوں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ مسلمان ہندوستان میں سماجی زندگی کے حاشیہ پر رہیں۔ یہ بات کہ سماج میں ہر طرف ہمارے خلاف سازشوں کے جال بچھے ہیں  اور ہم اگر اپنے دین و ایمان کی خیر چاہتے ہیں تو جتنا ممکن ہو ہم سماجی سرگرمیوں اور برادران وطن سے میل جول سے دور رہیں، اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔کسی اقلیت کے لئے اس سے بھیانک غلطی اور کچھ نہیں ہو سکتی  کہ وہ خود یہ 'سماجی مقاطعہ ' اختیار کرلے۔ ملی قیادت کو صاف لفظوں میں مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک نافع اور فعال عنصر بن کر رہیں۔ وہ جس بستی، محلہ، شہر، کالونی، دفتر اور ادارے میں ہوں وہاں محنت و ایمانداری اوراعلا کارکردگی کا معیار بننے کی کوشش کریں اورخود کو اس فوری اجتماعیت کے لئے ناگزیر ثابت کر دیں۔ سماج کے دبے کچلے مظلوم طبقات کے ساتھ با لخصوص اور دیگر تمام لوگوں کے ساتھ بالعموم ان کے رنج و غم اور خوشی و تہوار میں شرکت کے راستے تلاش کریں اور دوسروں کی خدمت کرنے اور ان کے کام آنے کے لئے ہمیشہ آمادہ  رہیں۔
  لیکن  فکر و عمل میں یہ بنیادی تبدیلی صرف اعلامئے، تجاویز، اور اخباری بیانات سے پیدا  نہیں ہوگی۔ کیونکہ حق تو یہ ہے کہ مذکورہ باتیں ملی قیادت کی دستاویزات میں ہر جگہ مل جاتی ہیں۔ مگر عملاً عام مسلمانوں میں ان کا کوئی اثر محسوس نہیں ہوتاہے۔میری رائے میں اس کی دو اہم وجہ ہے: ملی قیادت کی پالیسی اور پروگرام کا عوام تک عدم ترسیل و تذکیر اور ملی قائدین کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کا ان باتوں سے خالی ہونا۔ اس لئے ان دونوں کا تدارک ضروری ہے۔
اس سلسلے میں  یہ بات پیش نظر رہے کہ ملی قیادت  کے پاس مساجد، مدارس ، اردو اخبارات اور دینی مجالس کی صورت میں ایک طاقت ور  اور بہت حد تک ہمدرد اور حساس ابلاغی نیٹ ورک ہے ۔سالانہ اجلاس، عمومی و خصوصی میٹینگز وغیرہ کے اعلامئے، تجاویز اور قراردادکی مسلسل ترسیل  اور تذکیر ضروری ہے۔ جمعے کے خطبے، وعظ کے مجالس اور مدارس کے جلسے میں ان نکات پر گفتگو کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس روایتی ابلاغی نیٹ ورک کی اہمیت اور نفوذ کی اہمیت کو کم سمجھنا دنادانی ہوگی اور ان کا مناسب استعمال بصیرت کا عکاس۔
مگران اعلانات، پالیسی اور لائحہء عمل کی تشہیر ، اورمنظم طریقے سے اس کی افہام و تفہیم سے بھی اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اگر  ملی قیادت کے نماٰیاں چہرے اپنی انفرادی زندگیوں میں بھی اور اجتماعی طور پر بھی ان باتوں کی عملی تصویر پیش نہیں کریں ۔ ملی قیادت جس وسیع المشربی اور وسعت قلبی کاعام مسلمانوں اور ملک کے دیگر لوگوں سے مطالبہ کرتی ہے اسی کی امید عوام بھی ملی قیادت سے کرتی ہے۔ اس  لئے ضروری ہے کہ ملی قیادت سماج کے ہر طبقے کے مسائل اور حقوق کے لئے نظریاتی سطح پر اپنی آواز بلند کرے اور ہندوستانی سماج کے حاشیے پر زندگی گزار رہے  مظلوم لوگوں کی مؤثر آواز بننے کی کوشش کرے۔ ملی قیادت اپنی کانفرنسوں ، اجتماعات ، ادارے، مساجد، اور مدارس میں ہونے والے ڈسکورس کو ملی فریم ورک کے بجائے انسانی فریم ورک میں فٹ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مساجد، مدارس، ملی تنظیمیں، مسلمانوں کے زیر انتظام ادارے ، دفاتر، وغیرہ، روز مرہ کے لین دین اور میل جول میں جاہلی حمیت اور قوم پروری کے زعم میں عدل و اخلاق اور ضمیر و کردار کا سودا صرف اس لئے نہ کریں کہ ان کے مقابل ایک غیر مسلم ہے۔
4۔ ملی قیادت کو  یہ نکتہ بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اس وسیع النظری کے لئے ہنگامی حالات کو اخلاقی بنیاد بنا نا دانشمندی نہیں ہوگی۔ اس کے لئے قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ کی طرف رجوع کیا جانا چاہئےتاکہ اس منبع ِ فیض سے ایک ایسی 'سماجی دینیات' ابھر کر سامنے آئے جس میں اولعزمی، رواداری، کردار کی پختگی ، خلق خدا سے محبت اور ان کی خدمت کا جذبہ ابھرا ہوا ہو اور جسے اختیار کرکے ہندوستانی مسلمان سماجی زندگی کا ایک فعال اور حصہ دار رکن بن کر اٹھے نہ کہ ان کے نام سے گداگروں کی ٹولی کا تصور ابھرے۔
5۔ ملک میں انصاف پسند اور جمہوریت دوست لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ فرقہ پرستی کےخلاف اس طویل جد وجہد میں جتنے زیادہ لوگ اس قافلہ میں شامل ہوجائیں  ،  اتنا اچھاہے۔ ایسے لوگ جن کے لئے اکثر 'خاموش اکثریت' کا استعارہ استعمال کیا جاتا ہے  ملک میں واقعتہ ًاکثریت رکھتے ہیں مگر ہندوستانی سماج کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کا لبرل یا روشن خیال طبقہ کا تعلق سماجی سروکار سے اکثر کم ہی ہو تا ہے ۔ اس طبقہ کو اگر فرقہ پرستی کے حوالے سے ملی قیادت متحرک کردے تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔ 
6۔ملی قیادت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ  ماہرین تعلیم اور بالخصوص ماہرینِ تاریخ اور آثارقدیمہ پر مشتمل ایک واچ ڈوگ کی تشکیل کرے جو اسکولی نصاب  کے مواد پر کڑی نظررکھے ۔نفرت انگیز اور تاریخ کی غلط تعبیر و تشریح کرنے والے مواد کی فوری گرفت کرے اور ملی قیادت اس مسئلے کو آئینی اور علمی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے۔
7۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ ملی قیادت اور مسلم دانشوروں کی گفتگو میں دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کا عنصر جتنا 'کثیر' ہوتا ہے ہمارے پاس ان کے نظریات، ممتاز شخصیتوں، اداروں اور سرگرمیوں  سے متعلق تحقیقی اور بلا واسطہ معلومات  اتنی ہی 'قلیل' ہوتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ  ملی قیادت علا قائی اور مرکزی سطح پر ایک ایسا میکنزم تیار کرے جس سے ہمیں ان تنظیموں کی سرگرمیوں کا کچا چٹھا مستند ذرائع سے معلوم ہوتا رہے۔
8۔ملی قیادت کے لئے  اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی ایک طویل لڑائی ہے۔ اس کے خلاف علامتی جد و جہد کا  اس وقت تک کوئی مطلب نہیں ہے جب تک اس کے پیچھے طویل  اور منصوبہ بند لڑائی کا خاکہ نہ ہو۔ یہ ایک چو مکھی لڑائی ہے  کیونکہ کے مخالفین نے بیک وقت کئی محاذ کھول رکھے ہے اور ہر محاذہماری توجہ اور کوششوں کا طالب ہے۔
نجم الہدی ثانی
saninajmulhuda@gmail.com
M. 91- 7779842909
(بصیرت فیچرس)
www.baseeratonline.com

No comments:

Post a Comment