Saturday, 28 November 2015

کوئی غالب سے پوچھے کہ کیا گذری

ایس اے ساگر

اردو ادب سے مانوس ایسا کونسا قاری ہے جو مرزا اسد اللہ خان غالب کی شخصیت کو نہ جانتا ہو جبکہ  وطن عزیز میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین ۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا۔ اور آنے والے مصنفین کو طرزِ تحریر میں سلاست ، روانی اور برجستگی سکھائی ۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالب کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔

غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر وہ جدتیں پیدا کیں جنہوں نے اردو خطو ط نویسی کو فرسودہ راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسلوب اور طریقِ اظہار کے مختلف راستے پیدا کئے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلّق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 'محمد شاہی روشوں' کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفات کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔

خطوط کے آئینے میں آپ بیتی

لکھنؤ کے رفیق سلطان خان صاحب اپنی پیشکش میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہ اس کو نوکری سمجھو، خواہی مزدوری جانو، اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر، شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے۔ مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہٰذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری کیا حقیقت تھی؟ غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یازدہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر 1857ءتک بدستور ہے۔

غدر کے دنوں میں، میں نہ شہر سے نکلا، نہ پکڑ اگیا، نہ میری روبکاری ہوئی۔ جس مکان میں رہتا تھا وہیں بدستور بیٹھا رہا۔ بَلّی ماروں کے محلے میں میراگھر تھا۔ ناگا ہ ایک دن آٹھ سات گورے دیوار پر چڑھ کے اس خاص کوچے میں اُتر آئے، جہاں میں رہتا تھا۔ اس کوچے میں بہ ہمہ جہت پچاس یا ساٹھ آدمی کی بستی ہو گی۔ سب کو گھیر لیا اور ساتھ لے چلے۔ راہ میں سارجن (سارجنٹ) بھی آملا۔ اس نے مجھ سے صاحب سلامت کے بعد پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟
میں نے کہا:”آدھامسلمان“
اس نے کہا:”ویل صاحب! آدھا مسلمان کیسا؟“
میں نے کہا:”شراب پیتا ہوں، ہیم (خوک)نہیں کھاتا۔ “

اہل اسلام میںصرف تین آدمی باقی ہیں: میرٹھ میں مصطفی خان، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بَلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد، تینوں مردود و مطرود، محروم و مغموم:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسمان سے بادہء گلفام گو برسا کرے

میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہاہوں، لیکن فقیر آزاد ہوں، نہ شیّاد، نہ کیّاد۔ ستر برس کی عمر ہے، بے مبالغہ کہتا ہوں، ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے زمرہء خاص میں سے، عوام کا شمار نہیں .... میں آدمی نہیں آدم شناس ہوں:
نگہم نقب ہمے زد بہ نہاں خانہء دل
مژدہء باد اہلِ ریا را کہ زمیداں رفتم

No comments:

Post a Comment