Sunday 30 April 2017

حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ

سوال: حضرت جی مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کا نسب نامہ کیا ہے۔؟
ان کی مختصر حالات زندگی؟
نیز ان پر دعوت و تبلیغ کا کام کس طرح کھولا گیا؟ اور یہ کام کس طرح شروع ہوا؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں

الجواب وباللہ التوفيق:
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی:
حضرت مولانا محمد الیاس ۱۳۰۳؁ھ میں پیدا ہوئے مولانا محمد اسماعیل صاحب کاندھلوی کے چھوٹے صاحبزادے تھے اور مولانا محمد یحیٰ صاحب کے بھائی،الیاس اختر تاریخی نام تھا مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی کی صاحبزادی ’’امی بی‘‘جو رابعہ سیرت خاتون تھیں اور اپنے زمانہ کی نہایت عابد اور زاہد اور خدا رسیدہ بی بی تھیں آپ کی نانی تھیں ان کو آپ سے انتہائی محبت تھی وہ آپ کو بچپنے ہی میں دیکھ فرماتی تھیں۔
’’اختر مجھے تجھ سے صحابہ کی خوشبو آتی ہے۔‘‘ آپ کا بچپن نانہال کاندھلہ اور والد بزرگوار کے پاس بستی نظام الدین دہلی میں گزارا قرآن مجید کی تعلیم کاندھلہ میں ہوئی اور والد صاحب کے پاس قرآن شریف حفظ کیا ابتدائی کتابیں اپنے والد صاحب اور مولانا ابراہیم صاحب کاندھلوی سے پڑھیں بچپن ہی سے اکابر و مشائخ کے محبوب رہے اس لئے کہ شروع ہی سے آپ میں صحابہ کرام کے والہانہ انداز اور دینی بیقراری کی جھلک پائی جاتی تھی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے بڑے بھائی کے پاس گنگوہ چلے گئے یہ ۱۳۱۴؁ھ کا سال تھا اور حضرت گنگوہی کی بارگاہ صلحاء اور علماء کامرکز بنی ہوئی تھی ،آپ کو ان علماء کی صحبت نصیب ہوئی خصوصاحضرت گنگوہی کی خدمت میں ہر وقت رہنا ہوا اور حضرت کی شفقتوں سے سرفراز ہوتے رہے جس کی وجہ سے آپ کے اندر دینی جذبات کی پرورش ہوتی رہی ،تعلیم اپنے بھائی سے حاصل کرتے رہے اور صحبت حضرت گنگوہی کی میسر آتی رہی اور کچھ عرصہ کے بعد حضرت گنگوہی نے آپ کے غیر معمولی حالات و کیفیات کو دیکھ کر بیعت فرمالیا۔
۱۳۲۳؁ھ میں حضرت گنگوہی کا وصال ہوا تو آپ بالیں پر موجود تھے اور سورہ یٰسین پڑھ رہے تھے فرماتے ہیں۔
’’دوہی غم میری زندگی میں سب سے بڑھ کر ہوئے ایک والد کا انتقال ،ایک حضرت کی وفات‘‘
حدیث کی کتابیں اپنے بھائی مولانا محمد یحیٰ صاحب سے پڑھیں اور ۱۳۲۶؁ ھ میں دیوبند جاکر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کے حلقہ میں بیٹھ کر بخاری اور ترمذی کی سماعت کی۔
حضرت گنگوہی کے بعد حضرت شیخ الہند سے بیعت ہونے کو عرض کیا لیکن انکے مشورہ سے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اﷲ مرقدہ سے بیعت ہوئے اور انکی ہی نگرانی ہی میں منازل سلوک طے کئے اور نیابت و خلافت سے سرفراز ہوئے ۔
شوال ۱۳۲۸؁ھ میں مدرسہ مظاہر علوم میں مدرس ہوئے ۱۳۳۳؁ھ میں حضرت شیخ الہند اور حضرت سہارنپوری کی معیت میں پہلا حج کیا ،۱۳۳۴؁ ھ میں اپنے بھائی مولانا محمد یحیٰ صاحب کے انتقال کا بڑا اثر لیا اور اس چوٹ کا درد محسوس کیا اس کے بعد متواتر والدہ صاحبہ کا نتقال ہوا اور بڑے بھائی مولانا محمد صاحب جو بستی نظام الدین میں اپنے والد ماجد کی جگہ دعوت و تبلیغ کاکام انجام دے رہے تھے وفات پاگئے ،اس بناء پر اہل تعلق نے اصرار کیا کہ آپ مدرسہ چھوڑ کو اپنے والد اور بھائی کی جگہ نظام الدین تشریف لاکر تبلیغ و دعوت کا کام کریں آپ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی اجازت پر بستی نظام الدین تشریف لے گئے یہ زمانہ بڑی تنگدستی اورعسرت کا تھا،اکثر اوقات فاقے ہوتے تھے مولانا کا یہ دور بڑے مجاہدے ،جفا کشی اور ریاضت کا گزرا۔
میوات جو دہلی کے قریب مسلمان میواتیوں کا ایک بڑا زرخیز علاقہ ہے ،میواتی مدتوں سے دینی تعلیم سے نا آشنا تھے اور تھوڑا بہت تعلق آپ کے والد اور بھائی سے رکھتے تھے وہ میوات دعوت و تبلیغ کا مرکز بنا اول اول آپ نے اس علاقہ میں مکاتب قائم کئے اور میوات جانا شروع کیا اس طرح میوات کے لوگوں کو آپ سے گہرا تعلق قائم ہوگیا اور وہ لوگ آپ کی خدمت میں آنے جانے لگے،آپ نے ان کے نزاعات اور جھگڑوں کو اپنی حکمت اور روحانیت سے ختم کیا اور پھر ان میں ایک عوامی دینی تحریک چلائی جو آگے چل کر ایک منظم اور کامیاب تحریک بن گئی۔
۱۳۴۴؁ ھ میں علماء و مشائخ کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نوراﷲ مرقدہ میوات تشریف لے گئے شرکاء کا بیان ہے کہ انسانوں کا ایک جنگل تھا جو اس علاقہ میں جمع تھا۔
۱۳۴۴؁ھ ہی میں اپنے مرشد و شیخ کی معیت میں دوسرا حج کیا حج سے واپسی پر پوری تند ہی سے تبلیغی کام میں لگ گئے اور آپ کی مسلسل کوششوں سے ایسا نظام بنا کہ میوات میں ایک وقت میں گشت ،ایک وقت میں اجتماع ،ایک وقت میں تعلیم عام ہونے لگی اور ہر وقت دعوتی سفر ہونے لگے اور جماعتیں پھر پھر کر تبلیغی کام کرنے لگیں گویا کہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ ،متحرک دینی مدرسہ ،اخلاقی اور دینی تربیت گاہ بن جاتی تھی ۔
۱۳۵۱؁ ھ میں تیسرا حج فرمایا اور حج سے واپسی پر میوات کے دو دورے کئے جو تبلیغی کام کیلئے انتہائی مفید اور مؤثر ثابت ہوئے پورے میوات میں جماعتوں کا ایک جال بچھا دیا۔
۱۳۵۶؁ھ میں آپ نے آخری حج کیا اس حج میں جہاز سے لیکر حجاز تک تبلیغ و دعوت کا بڑا چرچا ہوا اہل عرب نے اس کو سنا اور سراہا حج سے واپسی پر اس مبارک کام میں آپ نے اپنی ساری متاع زندگی لگادی،میواتیوں کی جماعیتں مختلف صوبوں اور شہروں میں بھیجیں ،اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف عربی مدارس کے طلباء اور علماء نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اپنے مقامات پر کام شروع کیا۔
۱۳۶۰؁ھ میں قصبہ نوح (میوات)میں ایک بڑا تبلیغی اجتماع کیا میوات کی سرزمین میں اس سے پہلے اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا تھا،یہ انسانوں کا جنگل ایک جلسہ بھی تھا ایک خانقاہ بھی اور ایک مدرسہ بھی اس اجتماع کے بعد میواتی،دہلی کے تاجر مدارس کے علماء کالجوں کے طلباء اور استاذ باہم مل کر جماعتیں بنا بنا کر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھرنے لگے۔
۱۳۶۲؁ھ میں آپ ایک بڑی جماعت کے ساتھ لکھنؤ تشریف لائے ۔اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ میں کئی دن قیام فرمایا جس سے لکھنؤ کی فضا دعوت و تبلیغ کی آواز سے گونجھ اٹھی اور سو تا ہوا شہر صدائے ایمان و یقین سے جاگ اٹھا۔
مسلسل دعوت نے پیہم،دوروں نے ،بے انتہا مجاہدوں نے آپ کو بیمار کردیا اور کام کی بیچینی اور مسلسل بیقراری نے اندر اندر آپ کو گھلا دیا ،آپ لاغر ہوئے اور ایسے ہوئے کہ صاحب فراموش ہوگئے،دو آدمیوں کے سہارے جماعت میں شریک ہوتے کبھی کبھی غفلت ہونے لگی اور دورے پڑنے لگے جب بھی ہوش آتا تو دین کی وہی بیقراری سامنے آجاتی ایک بار دو گھنٹے کی غشی طاری ہوئی یکایک آنکھیں کھلیں تو زبان پر یہ کلمات جاری تھے الحق تعلوولا یُعلیٰ پھر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی پھر تین دفعہ فرمایا کان حقا علینا نصر المومنین ،پھر کچھ دیر بعد فرمایا کاش علماء اس کام کو سنبھال لیتے اور پھر ہم چلے جاتے۔
زندگی کی آخری شب میں جو ۲۱ِ رجب۱۳۶۳؁ھ کو تھی اپنے صاحبزادے مولانا محمد یوسف صاحب کو بلایا اور فرمایا یوسف آمل لے ہم تو چلے اور صبح کی آذان سے پہلے جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر تبلیغ و دعوت کی اس تحریک کو ہندوستان گیر سے عالمگیر بنایا اور دنیا کے ہر ہر خطہ میں پہونچا یا وہ بھی ۱۳۸۵؁ھ میں اپنے والد ماجد سے جاملے ،روحانی یادگار عالمگیر تحریک تبلیغ ہے،جو اس وقت کروڑوں انسانوں کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنی ہے اور برابر اس میں وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے آپ نے اپنے انتقال سے پہلے فرمایا تھا۔
’’لوگ آدمی چھوڑ کرجاتے ہیں میں اپنے پیچھے الحمد ﷲ پورا ملک چھوڑ کر جارہاہوں۔‘‘
فقط
....
فقہی سمینار  
آج کا سوال نمبر 206
112رجب المرجب؁ھ1438
مطابق
10 اپریل ؁2017ع بروز دو شنبہ

Saturday 29 April 2017

شب برات کی فضیلت اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

ایس اے ساگر
برصغیر ہند، پاک میں نہ صرف شعبان المعظم کا چاند نظر آگیا ہے بلکہ  گیارہ مئی کو شب برأت کا اعلان بھی کردیا گیا ہے. شب برأت کے سلسلے میں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر منفی اور مثبت  تبصرے شروع ہوگئے ہیں. غنیمت ہے کہ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم ماہنامہ البلاغ اگست 2010 کے صفحات پر واضح کرچکے ہیں کہ شب ِبرات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان  فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
شب برات میں عبادت:
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔
عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں:
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شبِ برات میں قبرستان جانا:
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف  لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ  شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
15 شعبان کا روزہ:
ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28 اور 29 شعبان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے  روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔

اکابرین امت کے اقوال:

علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ (المتوفى: 737هـ) فرماتے ہیں کہ،
”اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے، اورہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے."
(المدخل لابن الحاج:1/299)
 
*علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ” شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے.“
۔(لطائف المعارف:۱۴۴)
*علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو بیداررہنا مستحب ہے.“
(البحر الرائق:۲/۵۲)
  
*علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے.“
(الدر مع الرد:۲/۲۴،۲۵)
  
*علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”بیشک یہ رات شب براء ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں.“
(العرف الشذی،ص:۱۵۶)
   
*شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس رات بیداررہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ،یہی امام اوزاعی کا قول ہے“۔
(ما ثبت بالسنة،ص:۳۶۰)
  
*حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”شب براء ت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اور برکت والا ہے“۔
(بہشتی زیور،چھٹا حصہ،ص:۶۰)
*کفایت المفتی میں ہے کہ
”شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے.“(۱/۲۲۵،۲۲۶)
 
*فتاوی محمودیہ میں ہے کہ”شب قدر وشبِ براءت کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے.“
*مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ”واقعہ یہ ہے کہ شبِ براءت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں؛ لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبارسے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید میں بہت سی احادیث ہوجائیں تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے.“
(اصلاحی خطبات:۴/۲۶۳ تا۲۶۵، ملخصاً)

پندرہ شعبان کی عبادت:

حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتھم العالیہ، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند کے خطاب کو عادل سعیدی دیوبندی نقل فرماتے ہیں کہ؛ 
پندرہ شعبان کے سلسلے میں چار باتیں صحیح ہیں: 

❶ اس رات میں اللہ سبحانہ وتعاليٰ جتنی توفيق دیں، اتنی گھر میں انفرادي عبادتیں کرنا، مگر ہم نے اس رات کو ہنگاموں کی رات بنا دیا ہے، مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے اور شور کرتے ہیں، یہ سب غلط ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس رات میں نفلیں پڑھنی چاہئیں، اور پوری رات پڑھنی ضروری نہیں، جتنی اللہ تعالیٰ توفيق دیں گھر میں پڑھے، یہ انفرادي عمل ہے، اجتماعی عمل نہیں۔ 

❷ اگلے دن روزہ رکھے، یہ روزہ مستحب ہے۔ 

❸ اس رات میں اپنے لئے، آپنے مرحومین کےلئے، اور پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے،  اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں، اس رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان ضرور گئے ہیں، مگر چپکے سے گئے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاقاً پتہ چل گیا تھا، نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا، اس لئے ہمارے یہاں جو تماشے ہوتے ہیں، وہ سب غلط ہیں۔ 

❹ جن دو شخصوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور اختلاف ہو، وہ اس رات میں صلح صفائی کر لیں، اگر صلح صفائی نہیں کریں گے، تو بخشش نہیں ہوگی۔ 

یہ چار کام اس رات میں ضعیف حدیث سے ثابت ہیں، اور ضعیف کا لحاظ اس وقت نہیں ہوتا جب سامنے صحیح حدیث ہو، صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف حدیث کو نہیں لیا جاتا، لیکن اگر کسی مسئلہ میں ضعیف حدیث ہی ہو، اس کے مقابلے میں صحیح حدیث نہ ہو، تو ضعیف حدیث لی جاتی ہے، اور ایسا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے، بہت سے مسائل ہیں، جن میں ضعیف حدیثیں ہیں، اور ضعیف احادیث سے مسائل ثابت ہوئے ہیں، جیسے صلوۃ التسبیح کی گیارہ روایتیں ہیں، اور سب ضعیف ہیں، مگر سلف کے زمانے سے صلوۃ التسبیح کا رواج ہے۔ 

البتہ ضعیف حدیث سے واجب اور سنت کے درجہ کا عمل ثابت نہیں ہو گا، استحباب کے درجے کا حکم ثابت ہوگا، پس صلوۃ التسبیح پڑھنا مستحب ہے، ایسے ہی پندرہ شعبان کے بارے میں، جو روایات ہیں وہ بھی ضعیف ہیں، مگر ان سے استحباب کے درجہ کا عمل ثابت ہو سکتا ہے، پس احادیث میں بیان کئے گئے چاروں کام مستحب ہوں گے، شب برأت، اس کے اعمال اور اسکے اعمال کو بالکل بے اصل کہنا درست نہیں، البتہ سورہ دخان کی تیسری آیت: انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ کا مصداق شب برأت نہیں، اس کا مصداق شب قدر ہے، کیونکہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے۔ 
علمی خطبات
جلد: 2
صفحہ نمبر: 247
واللہ اعلم بالصواب


Saturday 22 April 2017

گود لینے کے احکام

ایس اے ساگر

معاشرے میں گود لینے کا مسئلہ قدیم ہے. فقہا نے اس سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر کو واضح کیا ہے؛
سوال # 63522
پندرہ سال ہوچکے ہیں، لیکن تاحال بے اولاد ہوں، بچہ گود لینا چاہتاہوں، کچھ سوالات پوچھنے ہیں؛
(۱) بچہ گود لینا چاہتاہوں، شریعت میں اس کی حیثیت کیا ہے؟
(۲) ناجائز بچہ کا گود لینا اسلام کی نظر میں کیسا ہے؟
(۳) ایک ناجائز بچے کی ولدیت کے خانہ میں کیا نام لکھنا ہوگا ؟
(۴) اگر اپنا نام والد کی جگہ نہ لکھا تو سوسائٹی میں وہ کیسے زندہ رہے گا ؟کیوں کہ اسکول ایڈمیشن میں فارم بی مانگتے ہیں ، کیا جائے ؟
(۵) اگر اپنا نام والد کی جگہ لکھوں ، اللہ کی پکڑ میں تو نہیں آؤں گا ؟
(۶) بہت پریشان ہوں، خدارا، فیصلہ کرنے میں میری مدد کریں ۔ بچہ گود لوں یا نہیں؟ایسا نہ ہو کہ اللہ کی گرفت میں آجاؤں؟
Published on: Mar 16, 2016

جواب # 63522
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 540-527/N=6/1437
(۱):تربیت ،پرورش اور کفالت وغیرہ کے لیے کسی دوسرے کے بچے کو گود لینا جائز ہے، لیکن گود لیا ہوا بچہ مذہب اسلام میں کسی بھی حکم میں حقیقی اولاد کا درجہ نہیں رکھتا؛ اس لیے گود لینے والے کا اس کے نام کے ساتھ بحیثیت باپ اپنا نام لگانا، وراثت میں اس کا حق دار ہونا اور بالغ یا قریب البلوغ ہونے کے بعد مرد گود لینے والے مرد یا عورت کا اس سے پردہ شرعی نہ کرنا (جب کہ اس بچہ یا بچی سے گود لینے والے مرد یا عورت کے لیے حرمت کا کوئی رشتہ نہ ہو) وغیرہ درست نہ ہوگا۔ زمانہ جاہلیت میں گود لینے کی ایک حیثیت تھی اور کسی دوسرے کے بچے کو گود لینے سے یا اسے اپنا بیٹا قرار دینے سے وہ حقیقی اولاد کے حکم میں ہوجاتا تھا، گود لینے والا اس کے ساتھ مکمل طور پر حقیقی اولاد جیسا معاملہ کرتا تھا، لیکن جب اسلام آیا تو اس نے اسے باطل وبے بنیاد قرار دیا اور فرمایا:ذلکم قولکم بأفواھکم(سورہ احزاب،آیت:۴)،یعنی: یہ صرف تمہارے منھ کی باتیں ہیں ،حقیقت میں ان سے کوئی رشتہ وغیرہ ثابت نہیں ہوتا، اور بعض ملکوں میں اس کو قانون کی حیثیت دیدی گئی ہے جو مذہب اسلام کی رو سے درست نہیں؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ گود لینے والے بچے کو احکام میں حقیقی اولاد کا درجہ دیں اور اس کے ساتھ حقیقی اولاد کا معاملہ کریں؛ بلکہ اس کی تربیت وپرورش محض گود لیے ہوئے بچہ کی حیثیت ہی سے ہونی چاہئے۔
(۲):جائز ہے؛ بلکہ اگر مقصد ایک انسانی جان کی حفاظت اور اس کی دینی تربیت وپرورش کی جائے تو یہ بہت بڑا کار خیر اور عظیم اجر وثواب کا باعث ہوگا،البتہ وہ کسی بھی حکم میں حقیقی اولاد کے درجہ میں نہ ہوگا ۔
(۳):جب وہ بچہ ناجائز ہے تو ولدیت کے خانہ میں کچھ نہ لکھا جائے،البتہ سرپرست (گارجین)کے خانہ میں یا ولدیت کا خانہ سرپرست کے خانہ میں تبدیل کراکے اس میں گود لینے والا اپنا نام درج کراسکتا ہے ۔
(۴):ناجائزبچہ یا گود لیے ہوئے کسی بھی بچہ کی ولدیت میں اپنا نام ڈالنا ہرگز جائز نہیں ،شریعت اسلام میں حرام ہے اور حدیث پاک میں اس پر وعید وارد ہوئی ہے، البتہ اگر پرورش اور کفالت کرنے والا اس پرست کی حیثیت سے اس کے ساتھ اپنا نام لگائے، اور ولدیت کے خانے میں کچھ نہ لکھے یا ولدیت کا خانہ سرپرست کے خانہ میں تبدیل کراکے اس میں اپنا نام لکھے تویہ درست ہے(جیسا کہ اوپر بھی لکھا گیا)، اور سوسائٹی میں ننگ وعار سے بچنے کے لیے اتنا کرسکتے ہیں کہ اس بچے کے ناجائز ہونے کی تشہیر بھی نہ کی جائے اور گود لینے والا اسے اپنی طرف منسوب بھی نہ کرے ،اور اس کے باوجود جو لوگوں میں تھوڑا موڑا ذکر رہے تو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور اسے بہت زیادہ اہمیت نہ دی جائے ،اور اگر یہ سب مشکل ہو تو آگے نمبر ۶ کا جواب ملاحظہ فرمائیں، قال اللہ تعالی:ادعوھم لآبائھم ھو أقسط عند اللہ الآیة(سورہ احزاب ، آیت:۵)،وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم:من ادعی إلی غیر أبیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولاعدل (مشکوة شریف ص ۲۳۹، بحوالہ: صحیحین )، وقال في روح المعاني (۲۱: ۲۲۶،ط:مکتبة إمدادیة، ملتان،باکستان):ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب شخص إلی غیر أبیہ وعد ذلک بعضھم من الکبائر اھ۔
(۵): جی! نہیں، گناہ ہوگا اور آخرت میں پکڑ ہوسکتی ہے۔
(۶):شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ بچہ گود لے سکتے ہیں،اور اگر شرعی حدود کی رعایت مشکل ہو تو کوئی بچہ گود نہ لیں،بچہ گود لے کر احکام شرع کی رعایت نہ کرنا اور اخروی گرفت کے اسباپ پیدا کرنا عقل مندی کا کام نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

http://googleweblight.com/?lite_url=http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Education--Upbringing/63522&ei=XoWYFQjX&lc=en-IN&geid=28&s=1&m=65&host=www.google.co.in&ts=1492912693&sig=AJsQQ1A5R5Siou23RhhC_w2Dp-ob9JF28g

اس موضوع پر مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے. آپ رقمطراز ہیں کہ "اسلام میں نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین پرنظر ڈالی جائے تواس کے لیے اس کے اپنے مستقل صابطے اور اس کی اپنی حدود ہیں، مثلاً نکاح کن لوگوں سے کن رشتوں میں ہوسکتا ہے، کن میں نہیں ہوسکتا․․․․ اسی طرح طلاق کا معاملہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کس سے نکاح کرسکتی ہے، کس سے نہیں․․․․ اسی طرح اسلام میں وراثت کا قانون خون کے حقیقی رشتوں کی بنیاد پر حصے مقرر کرتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اسلامی معاشرت کا ایک اخلاقی معیار ہے۔ جن رشتوں میں یہ ضروری ہے کہ عورت اور مرد، لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ رہیں، ایک ساتھ پلیں بڑھیں، ایک ساتھ زندگی گذاریں۔ ان رشتوں میں اسلام نے ایسا ذہنی تقدس پیدا کردیا ہے کہ کسی برے خیال کا ان کے درمیان گذر نہ ہوسکے، مثلاً بہن کا رشتہ، باپ بیٹی کا رشتہ، ماں اور اولاد کا رشتہ؛ تاکہ ان رشتوں میں خلا ملا ہونے کے باوجود کوئی غلط نتیجہ سامنے نہ آسکے․․․ منھ بولے رشتے میں خواہ کتناہی تقدس پیدا کردیا جائے، مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدس پر بھروسہ کرکے اسلامی معاشرے کو گدلا نہیں کیا جاسکتا۔
عرب کا دستور
اسلام سے پہلے عرب کا دستور یہ تھا کہ یہ لوگ جس بچے کو گود لے کر متبنّیٰ بنالیتے تھے اس کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھتے تھے، اسے وراثت ملتی تھی، منھ بولی ماں اورمنھ بولی بہنیں اس سے وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے۔
منھ بولے باپ کی بیٹیوں کا اور اس کے مرجانے کے بعداس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھا، جس طرح سگی بہن اور حقیقی ماں کے ساتھ کسی کا نکاح حرام ہوتا ہے۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منھ بولا بیٹا مرجائے یا اپنی بیوی کو طلاق دیدے․․․ منھ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح ہوتی تھی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بیٹے زید رضی اللہ عنہ
۵۹۵ء میں جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے ایک پندرہ سالہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔ زید رضی اللہ عنہ یمن کے قبیلے بنوقضاعہ کے سردار حارثہ بن شراحیل کے لختِ جگر تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ زید کی والدہ سُعدیٰ بنتِ ثعلبہ قبیلہٴ طے کی شاخ بنی مَعن سے تھیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ نانیہال گئے، وہاں سفر میں ان کے پڑاؤ پر قین بن جسر کے لوگوں نے حملہ کیا، پکڑے جانے والوں میں نوعمر زید بھی تھے، ان لوگوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے قبیلے میں ان کو بیچ دیا۔ خریدار تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ۔ انھوں نے زید کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نظر کردیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہاں دیکھا اور ان کی عادات واطوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مانگ لیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔
کافی دنوں کے بعد زید کے گھروالوں کو پتہ لگا کہ زید مکے میں ہیں، تو ان کے والد حارثہ بن شراحیل اور ان کے ساتھ زید کے چچا تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کو تیار ہیں، ہمارا بچہ آپ ہمیں دے دیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں لڑکے کو بلاتا ہوں اوراس کی مرضی پر چھوڑ ے رہتا ہوں اگر وہ آپ کے پاس جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ نہ لوں گا اورآپ کا بچہ آپ کے حوالے کردوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بلایا اور ان سے کہا․․․․ ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟
انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ تمھیں لینے آئے ہیں، اگر تم جانا چاہو تو ان کے ساتھ جاسکتے ہو، میری طرف سے تمھیں اجازت ہے۔ زید نے چھوٹتے ہی جواب دیا: میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔
والد اور چچا حیران ہوگئے اور کہا زید کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے؟
زید نے جواب دیا․․․․ میں نے ان میں جو اوصاف دیکھے ہیں، اس کے بعد میں دنیا میں کسی کو بھی ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا بہ خوشی راضی ہوگئے کہ زید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے دیں۔
جب وہ مایوس ہوکر لوٹنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ اور ان کے والدین کو حرم میں لے جاکر قریش کے عام مجمع میں اعلان فرمایا کہ:
میں زید کو آزاد کرتا ہوں آپ سب لوگ گواہ رہیں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔
اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے ․․․․ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر
۲/فروری ۶۱۰/ کو جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں، جنھوں نے کسی تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نبوت سنتے ہی آپ کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کرلیا۔ ایک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، دوسرے حضرت زید رضی اللہ عنہ، تیسرے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور چوتھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ۔
اس وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کی عمر تیس سال تھی اور ان کو حضور کی خدمت میں رہتے ہوئے پندرہ سال گزرچکے تھے۔
ہجرت مدینہ کے بعد ۴/ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں نے اس رشتے کو نامنظور کردیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا:
اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ نَسَباً․
(میں اس سے نسب میں بہتر ہوں)۔
ابن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ:
لاَ اَرْضَاہُ لِنَفْسِیْ وَاَنَا اَیِّمُ قُرَیْشٍ․ (میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی، میں قریش کی شریف زادی ہوں)۔
حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی اور وہ بھی کوئی غیر نہیں؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پھوپی زاد بہن اور اس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں۔
مگر اسلام غلام اور آزاد کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہتا تھا، اس پر قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی کہ: وَمَا کَانَ لِمُوٴمِنٍ وَلاَ مُومِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِہِمْ، وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُّبِیْنَاً․ (سورئہ احزاب:۳۶)
”کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔“
اللہ کے اس حکم کو سنتے ہی حضرت زینب اور ان کے سب خاندان والوں نے بلاتامل سرِاطاعت خم کردیا۔ اس کے بعد نبی نے ان کا نکاح پڑھایا اور خود حضرت زید کی طرف سے دس دینار اور ساٹھ درہم مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان کر زید رضی اللہ عنہ کے نکاح میں جانا قبول کرلیاتھا؛ لیکن وہ اپنے دل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹاسکیں کہ زید رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام ہیں، ان کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے زید رضی اللہ عنہ سے ان کے ازدواجی تعلقات کبھی خوشگوار نہ ہوسکے۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدت گذری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔
اسلامی قانون- قدم بہ قدم
اسلام کا طریقہ ہے کہ: وہ جلدبازی میں کوئی قانونی آرڈی نینس جاری نہیں کرتا؛ بلکہ پہلے ذہن وفکر کو آمادہ کرتا ہے اور زمین کی تیاری کے بعد ہی تخم ریزی کرتا ہے۔
پہلا کام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے شروع ہوا کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا جائے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے فرزند کو زید بن محمد سے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ قرآن مجید میں ہے:
اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَائِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ․
(سورئہ احزاب:۵)
منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو! یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔
بخاری، مسلم اور ابوداؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے رایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ اَدْعَیٰ اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیْہ فَالْجَنَّہُ عَلَیْہ حَرَامٌ․
”جس نے اپنے آپ کو باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا دراں حالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے اس پر جنت حرام ہے۔“
اس مصنوعی نسبت کو بول چال میں بھی ختم کردینے سے ذہن بدلنے لگے۔ اس بات کی تشریح کردی گئی کہ کسی کو پیار سے یا اخلاقاً بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن اس کو باقاعدہ بیٹا بنالینا اور مصنوعی رشتے کو حقیقی رشتے کی جگہ دینا غلط ہے۔ بیٹوں یا بیٹیوں جیسا حسنِ سلوک کرنا اور قانونی طورپر اس کو حقیقی رشتے کی جگہ دینا اس میں فرق ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا اَخْطَاتُمْ بِہ وَلکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ، وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمَا․
(احزاب:۵)
”نادانستہ جوبات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے؛ لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو، اللہ درگذر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“
اس طرح ہلکی سی ضرب اس رسم پرلگادی گئی اور ذہنوں کو تیار کردیا گیا۔ اب اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی عملی ابتدا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرائی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ رسمِ جاہلیت کا خاتمہ
اسی زمانے میں جب حضرت زید رضی اللہ عنہ اور زینب رضی اللہ عنہا کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ ہوچکا تھا کہ زید رضی اللہ عنہ جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیں توان کی مطلقہ بیوی سے آپ کو نکاح کرنا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عرب کی سوسائٹی میں منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔
ایک مشکل کام اور سول صلی اللہ علیہ وسلم سماج کے نشانے پر
اسلام کے خلاف ہنگامہ اٹھانے کے لیے منافقین اور یہود ومشرکین کو جو پہلے ہی بپھرے بیٹھے ہیں ایک زبردست شوشہ ہاتھ آجائے گا۔ اس نام پر جب حضرت زید نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو مجھے نکاح کی نبوت نہیں آئے گی، ورنہ اس کے طلاق دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہوگی اور مجھ پر وہ کیچڑ اچھالی جائے گی کہ پناہ بہ خدا؛ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اولوالعزمی کے اعلیٰ مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اور ایک بڑی مصلحت کی خاطر آپ سے یہ کام لینا چاہتا تھا۔ قرآن مجید میں ہے:
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ، وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہ وَتَخْشَیْ النَّاسَ․ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ․
(احزاب:۳۷)
”اے نبی! یاد کرو وہ مواقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ کھولنا چاہتاتھا۔ تم لوگوں سے ڈررہے تھے؛ حالانکہ اللہ ا س کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔“
آخر نوبت طلاق تک آگئی اور عدت پوری ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت زینب سے نکاح کیا، لوگ منھ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصورات رکھتے تھے وہ اس وقت تک ہرگز نہ مٹ سکتے تھے جب تک آپ خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑدیں۔
قرآن مجید میں ہے:
فَلَمَّا قَضٰیْ زَیجدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا، وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہ مَفْعُوْلاً․ (احزاب:۳۷)
”جب زیداس سے اپنی حاجت پوری کرچکے (یعنی عدت پوری ہوگئی) تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا نکاح تم سے کردیا؛ تاکہ مومنوں پر اپنے منھ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے؛ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میںآ نا ہی چاہیے تھا۔“
کہنے والوں کا ایک کہنا یہ تھا کہ: اچھا، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز قرار دیاگیا ہے، یہ صرف جائز ہے، ضروری تو نہیں، پھر ایسا کرنا ضروری کیوں تھا؟ اس کا جواب قرآن مجید میں دیاگیا:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ، وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللٰہ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ․ (احزاب:۴۰)
(لوگو!) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔
ایک تو یہ کہ ان کے کوئی بیٹا نہیں ہے اس لیے ان کی بہو کہاں ہوئی؟ دوسرے یہ کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خوامخواہ حرام کررکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کردیں اوراس کے حلال ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔ تیسرے یہ کہ وہ خاتم النّبیین ہیں، ان کے بعد نہ کوئی رسول آنے والا ہے اور نہ کوئی نبی کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کردے۔
اس طرح جاہلیت کے اس بت کو ایک کاری ضرب سے توڑ کر رکھ دیاگیا۔
* قرآن وحدیث اور اسوه رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ اسلام میں متبنّیٰ بنانا اور گود لینا اور دوسرے کے بچے کو گود لے کر اس کے ساتھ حقیقی اولاد کا معاملہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور قیامت تک یہ رسم ختم ہوچکی ہے۔
* گودلینا اکثر بے اولاد والدین کی اپنی خواہش ہوتی ہے یا پھر وہ لوگ گود لیتے ہیں، جن کے کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوتی، اولاد ہونا نہ ہونا یا لڑکے کا نہ ہونا یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ دنیا میں انسان کی ساری خواہشیں نہ پوری ہوسکتی ہیں، نہ ہوسکیں گی۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور گود لینا بہت سے اخلاقی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرتا ہے؛ اس لئے اسلام نے اس رسم کا دروازہ پورے طور پر بند کردیا ہے۔
http://googleweblight.com/?lite_url=http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/04-Islam%2520me%2520god%2520lena_MDU_10-11_Oct%2520%26%2520Nov_12.htm&ei=O0OXceoy&lc=en-IN&geid=28&s=1&m=65&host=www.google.co.in&ts=1492912693&sig=AJsQQ1D-YLc6k3e9y-Xk-eNVbRmuEgfnpw