ایس اے ساگر
جمعہ کیلئے عجلت کرنے کی صورت میں بعض اوقاتاشکالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اہل علم نے رہنمائی کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضى اللہ تعالى عنہ روایت كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص پہلے وقت گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اورجو دوسرے وقت گيا گويا كہ اس نے گائے، اور جو تيسرے وقت گيا گويا كہ اسنے مينڈھا، اور جو چوتھے وقت گيا گويا كہ اس نے مرغى، اور جو پانچويں وقت گيا گويا كہ اس نے انڈے كى قربانى كى، اور جب امام منبر پر چڑھ جائے تو فرشتے بھى حاضر ہو كر خطبہ سننا شروع كر ديتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 841 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 850 ).
ان اوقات كى تحديد ميں علماء كرام كے تين اقوال ہيں:
پہلا قول:
يہ طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے.
دوسرا قول:
يہ طلوع شمش سے شروع ہوتا ہے، امام شافعى رحمہ اللہ علیہ ، امام احمد رحمہ اللہ علیہ وغيرہ كا مسلك يہى ہے.
تيسرا قول:
زوال كے بعد ايك وقت اور گھڑى ہے جس ميں يہ سارے وقت ہيں، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور بعض شافعيہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے.
اور يہ تيسرا قول ضعيف ہے، بہت سے علماء نے اس كا رد كيا ہے:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے ليے زوال سے متصل نكلا كرتے تھے، اور اسى طرح سب علاقوں اور ملكوں كے آئمہ كرام بھى اور يہ چھٹا وقت يا گھڑى گزرنے كے بعد ہوتا، تو يہ اس كى دليل ہے كہ جو شخص زوال كے بعد آئے اسے قربانى اور فضيلت سے كچھ حاصل نہيں ہوا؛ كيونكہ وہ تو صحيفہ بند ہونے كے بعد آيا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ وقت اور گھڑياں تو اس ليے بيان ہوئى ہيں كہ لوگوں كو جلدى آنے كے ليے تيار كيا جائے، اور پہلے آنے ميں سبقت لے جانے كى فضيلت حاصل ہو، اور پھر پہلى صف ملے، اور جمعہ كا انتظار اور نفل ونوافل اور ذكر واذكار ميں مشغول رہا جائے، اور زوال شمس كے بعد جانے سے يہ سب كچھ حاصل نہيں ہوتا، اور نہ ہى زوال كے بعد آنے كى كوئى فضيلت ہے؛ كيونكہ اس وقت تو اذان ہو گى اور اس سے تاخير كرنا حرام ہے" انتہى
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 414 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" امام مالك رحمہ اللہ كا قول آثار و احاديث كے خلاف ہے؛ كيونكہ جمعہ كى ادائيگى زوال كے وقت مستحب ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ جلد ادا كيا كرتے تھے، اور جب امام نكلتا ہے تو صحيفے اور رجسٹر بند كر ديے جاتے ہيں، جو شخص اس كے بعد آئے اس كا جمعہ نہيں لكھا جاتا، تو اس كو كونسى فضيلت ملى ؟! انتہى
بحوالہ : ( 2 / 73 ).
دوسرا قول صحيح ہے، يہ كہ يہ اوقات اور گھڑياں طلوع شمس سے شروع ہوتى ہيں، اور طلوع شمس سے ليكر جمعہ كى اذان تك يہ چھ اوقات تقسيم ہوتے ہيں، اور اس كا ہر جزء حديث ميں ساعۃ یعنی گھڑى مقصود ہو گا.
شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
جمعہ كے روز پہلى گھڑى يا وقت كب شروع ہوتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو اوقات يا گھڑياں ذكر كيں وہ پانچ ہيں:
فرمان نبوي صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" جو شخص پہلى گھڑى ميں آيا گويا كہ اس نے اونٹ قربان كيا، اور جو دوسرى ميں آيا گويا كہ اس نے گائے قربان كى، اور جو تيسرى ميں آيا گويا اس نے مينڈھا قربان كيا، اور جو چوتھى ميں آيا گويا كہ اس نے مرغى قربان كى، اور جو پانچويں ميں آيا گويا كہ اس نے انڈا قربان كيا "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے طلوع شمس سے ليكر امام كے آنے تك كو پانچ حصوں ميں منقسم كيا، تو اس طرح ہر حصہ تقريبا اس وقت معروف ايك گھنٹہ كے برابر ہو گا، اور بعض اوقات اس سے زيادہ يا كم بھى، كيونكہ وقت ميں تغير ہوتا رہتا ہے، لہذا طلوع شمس سے ليكر امام كے آنے تك پانچ گھڑياں ہيں، اور ان كى ابتدا طلوع شمس اور ايك قول يہ بھى ہے كہ طلوع فجر سے ہوتى ہے، ليكن پہلا قول زيادہ راجح ہے؛ كيونكہ طلوع شمس سے قبل تو نماز فجر كا وقت ہے" انتہى
بحوالہ مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / سوال نمبر1260 ).
اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كى كتاب " زاد المعاد ( 1 / 399 - 407 ) ديكھيں.
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment