Saturday 28 February 2015

صدقه جاریه کا روشن نمونه

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہء سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے ۔ آج بھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد نبوی صلی الله علیه و سلم کے پاس ایک عالی شان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر جس کا نام عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوٹل ہے ؟؟ تفصیل جاننا چاہیں گے ؟؟ یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق نیت کا نتیجہ ہے۔جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وھاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی۔ ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوںکو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔ اسکنویں کا نام "بئر رومہ" یعنی رومہ کنواں تھا۔۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے ۔ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء کرے گا " حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں مجھے فروخت کر دو، آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ھو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔۔ یہودی لالچ میں آ گیا ۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فرخت کریں گے ،اس طرح زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا ۔۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔۔ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لیے بھی ذخیرہ کر لیتے۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہیں جاتا۔۔ یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی گزارش کی۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی ھو گئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔۔ اس دوران ایک آدمی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے ۔اس نے کہا میں تین گنا دوں گا۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کئی گنا کی پیش کش ہے۔ اس نے کہا میں چار گنا دوں گا۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سےکہیں زیادہ کی پیش کش ہے۔ اس طرح وہ آدمی رقم بڑھاتا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی جواب دیتے رہے۔ یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ حضرت آخر کون ہے جو آپ کودس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے ۔۔ وقت گزرتا گیا اور یہ کنواںمسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا۔ عثمانی سلطنت کے دور میں اس باغ کی دیکھ بال ہوئی۔ بعد از سعودی کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد پندرہ سو پچاس ہو گئی ۔۔ یہ باغ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رجسٹرڈ ہیں۔۔ وزارتِ زراعت یہاں کے کھجور، بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا ۔۔ اس ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے۔جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم ہو گا باقی آدھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہو گا۔اندازہ کیجیئے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انفاق کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطاء کی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بن گیا ۔۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی ۔جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ،اچھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا ۔

खतरनाक....


दुनियाभर के कई देशों में अजीबोगरीब खाने के शौकीन लोगों की कोई कमी नहीं है। ऐसा ही एक देश कंबोडिया है। यहां के लोग सांप से लेकर मकड़ी और बंदरों के मीट से बने डिश बड़े चाव से खाते हैं। 

خلافت عثمانیہ اسلام کی زریں سلطنت

وہ سرزمین جو تقریباً چھ سو سال تک اسلامی سلطنت کا مرکز رہی ہے ہم آج اسے ’ترکی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ترکی عثمانیوں کے دور خلافت میں دولت ِعثمانیہ کہلاتی تھی۔ ترکی کے دو حصے ہیں: ایک اناطولیہ جو کہ ایشیائی حصہ ہے؛ جبکہ دوسرا دومیلی جو کہ یوروپی حصہ ہے۔ اس طرح یہ ملک ایشیااور یوروپ دونوں میں واقع ہے۔ ایک زمانہ تھاکہ یہ سلطنت چالیس ہزار مربع میل کے رقبے پرمشتمل تھی، مگر خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اناطولیہ اور دومیلی کا علاقہ ہی اب ترکوں کا ترکہ رہ گیا ہے۔
عثمانی خلافت تاریخ اسلامی میں وسعت کے لحاظ سے وسیع ترین خلافت تھی۔ اس اسلامی سلطنت نے یوروپ کی ناک کے نیچے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یوروپ کے بہت سے خطوں کو (بشمول بازنطینی ریاست کے پایہ تخت کے) اپنے اندر سمو لیا تھا ۔کم و بیش چھ صدیوں تک عثمانی سلطنت کی وجہ سے بین الاقوامی توازن برقرار رہا تھا، سیاسی و اقتصادی لحاظ سے بھی اورتمدن وثقافت کے اعتبار سے بھی۔
شاعر علامہ اقبال نے اپنی مشہورنظم جواب شکوہ میں اسی قوم وقبیلہ کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
یہاں ’شانِ کئی‘ سے اقبال کی مرادسلجوقی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ تھی اور شعر میں اس نئی دنیا کا حوالہ ہے جہاں سلطنت عثمانیہ کی توسیع کے نتیجہ میں اسلام پہنچا تھا۔ سلجوقی سلطنت کے بہت سے بادشاہوں کے نام کا جزئِ لقب ’کے‘ ہو تا تھا جیسے کے خسرو، کے قباد، کے کاس۔ یہ لقب قبیلہ کئی سے ان کے انتساب اورشجاعت وجواںمردی کی دلیل ہوتا تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عثمانی خلافت بہت وسیع الظرف تھی، صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ظلم کے مارے یہودی یا عیسائی اگر کہیں نقل مکانی کر کے سکون پا سکتے تھے تو وہ سلطنت عثمانیہ ہی کی سر زمین تھی۔ سلطنت کی پوری تاریخ میں کوئی ایک حاکم بھی ایسا نہیں گزرا جس نے قبیلے یا خاندانی مفاد کو شریعت پر ترجیح دی ہو۔ تمام سلاطین نسلی اور قومی تعصب سے دور اپنے آپ کو دین اور شریعت کا محافظ سمجھتے تھے۔چھ سو سالہ طویل ترین تاریخ کی مالک سلطنتِ عثمانیہ میں ہر مذہب، نسل، زبان اور ثقافت رکھنے والے گروہ موجود تھے۔ اگرچہ عثمانی ترک نژاد تھے، مگر ان کی سلطنت کے سائے میں عربی، کردی، یونانی، بلغاری، بوسنائی اور سربی نسلی گروپوں کے ساتھ ساتھ مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان بھی زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ چھ سو سال تک قائم سلطنتِ عثمانیہ میں کبھی بھی کلاسیکی طرز کی خانہ جنگی نہیں ہوئی تھی اور یوروپی سلطنتو ں کی طرح کبھی بھی دینی اور مذہبی جھڑپیں منظرِ عام نہیں آئی تھیں۔
عثمانیوں نے دیگر مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ ہمیشہ رواداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں انہوں نے اہلِ کتاب یعنی عیسائیوں اور یہودیوں کو خود مختاری دیتے ہوئے انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ1492میں اسپین سے ملک بدر کیے جانے والے یہودیوں نے سلطنتِ عثمانیہ میں پناہ لیتے ہوئے پوری زندگی امن و امان کے ساتھ گزاری تھی۔ یہودیوں، عیسائیوں اور آرمینیوں کو سلطنتِ عثمانیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا تھااور اس طرح وہ اپنی خدمت کے ساتھ ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کے فروغ میں بھی مدد گار ثابت ہوئے تھے۔دراصل اِس وقت میں تاریخ سلطنت عثمانیہ بیان کرنے کے موڈ میں نہیں اور نہ ہی سردست یہ میرا موضوع ہے، بلکہ میں اس وقت عہد عثمانیہ کے دو چند خدا آگاہ  سلاطین کی زندگی کے کچھ واقعات پیش کرنے کی سوچ رہاہوں۔ ہوا یہ کہ چند دنوں قبل شہرترکی کی مشہور دینی شخصیت شیخ عثمان نوری طوباش کی ایک انگریزی کتاب (Civilization of Virtues)میرے پاس ترجمے کے لیے آئی تھی؛ کتاب کیا ہے بس پڑھیے اور سر دھنیے۔ اسلوب تحریر نہایت اچھوتا، من موہنا اور دل افروز ہے۔ یہ سچ ہے کہ نئی زبانوں اور دیگر ممالک کے مصنّفین کی تحریریں پڑھنے سے بہت سے اَسرار سربستہ بے نقاب ہوتے ہیں اور ترکی تو ویسے بھی صدیوں تک اسلام ومسلمین کا اہم مرکز رہا ہے۔ یوں تو پوری کتاب ہی علم وحکمت کے جواہرسے جڑی ہوئی ہے، تاہم سلاطین ترک سے متعلق چند واقعات نے مجھے بری طرح متاثر کیا اوربھیگی پلکوں کے ساتھ ہی ان کا ترجمہ مجھ سے ممکن ہوسکا۔ تواس ’’نگارستان سعادت‘‘ سے چند کلیاں لے کرچوتھی دنیاکے قارئین کی مشام جاں معطرکرنے کے لیے حاضر ہوں،پڑھیں اور حظ اُٹھائیں۔
کہاجاتاہے کہ تقویٰ کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان مشکوک بلکہ مباح چیزوں سے بھی دست کش ہوجائے صرف اس خوف سے کہ کہیں وہ اس کے باعث کسی ناروا کام میں نہ مبتلا ہوجائے۔ترمذی وابن ماجہ کی حدیث پاک میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندے کااس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہوتا جب تک وہ بے ضرر چیز کو بھی اس خوف سے نہیں چھوڑ دیتا کہ شاید اس میں ضرر ہو۔تو اس حدیث کی روشنی میں یکے از سلطاطین ترک کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں: سلطان عبد العزیز خان نے اپنی دینی بصیرت اور سیاسی حکمت عملی سے اپنی فوج اور اس کے ارباب حل وعقد کے داخلی نزاعات کو ختم کرکے انھیں ایک حیرت انگیز موڑ تک پہنچا دیاتھا ، جس کے باعث اس کی سلطنت کا پایہ کافی مضبوط اور مستحکم ہوگیاتھا اور پوری دنیا اسے للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنے لگی تھی۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ سلطان کو حکومت فرانس اور لندن سے خصوصی دعوت نامے ملے۔
عبدالعزیز خان-جو تاریخ سلاطین میں حزم و احتیاط اورزہد وتقوی کے اعتبار سے بلند پایہ مقام رکھتا تھا- ’بولو‘سے اپنا باورچی بھی ساتھ لیتا گیا، صرف یہ سوچ کر کہ ازروئے شرع یوروپین کھانے مشکوک ہوں گے۔
٭ایک دوسری تاریخی شخصیت جو تقویٰ و احتیاط کے بلند مقام پر فائز نظر آتی ہے وہ سلطان عبد الحمید ثانی کی ہے۔ ان کا حکم تھاکہ اگر کوئی اہم مسئلہ رونما ہوجائے تو رات کے کسی بھی لمحے میرا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتاہے، کیوں کہ وہ کبھی بھی آج کا کام کل پر نہیں ٹالتے تھے۔ سلطان عبد الحمید ثانی کے منشی جناب اسعد بے ان کی سوانح حیات میں بیان کرتے ہیں:ایک شب ایسا ہوا کہ ایک اہم دستاویز پر دستخط کرانے کے لیے میں نے کسی رات کو سلطان کے دروازے پر دستک دی، مگر انھوں نے دروازہ نہ کھولا۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد میں نے دوبارہ کھٹکھٹایااور اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔مجھے تشویش لاحق ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ یا اللہ!کہیں پیغام اَجل تو نہیں آگیا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے پھر دستک دی، اتنے میں سلطان اپنے ہاتھوں میں ایک تولیہ لیے ہوئے دروازے پر نمودار ہوئے۔وہ اپنا چہرہ خشک کررہے تھے اور مسکراتے ہوے فرمارہے تھے:میرے بیٹے!میں نے محسوس کر لیا تھا کہ رات کے ان لمحات میں کسی اہم کام ہی کے لیے تم یہاں آئے ہوگے۔ تمہاری پہلی دستک پر ہی میں بیدارہوگیا تھا، مگر دروازہ کھولنے میں تاخیرکا باعث یہ ہوا کہ میں وضو کرنے چلا گیا تھا، کیوں کہ میں نے کبھی بھی اپنی قوم سے متعلق کسی دستاویز پر وضو کے بغیر دستخط کیا ہی نہیں۔پھر انھوں نے بسم اللہ پڑھ کر دستاویز پر اپنی دستخط ثبت کردی۔
یوں ہی سلطان با یزید دوئم اور ان کے برادر جیم سلطان کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ایمان وایقان کی کس منزل پرپہنچے ہوئے تھے اور اسلام کے عطا کردہ فضل و کمال اور حسن و خوبی کے وہ قدرداں بھی تھے اور اس پر نازاں بھی۔سلطان با یزید دوئم(جنھیں ان کے زہدوتقویٰ کے باعث بایزید ولی کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے)1481 میں سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ابتدائی چودہ سال محض حکومت کے ان نشیب وفراز اور مسائل واختلافات کو حل کرنے میں صرف ہوگئے جو ان کے بھائی جیم سلطان نے سلطنتِ عثمانیہ کے سلسلے میں کھڑے کر رکھے تھے اوریہ صورتحال با یزید دوئم کے لیے دنیائے عیسائیت کے اندرکوئی اہم رول ادا کرنے میں رکاوٹ بنی رہی۔
جیم سلطان نے با یزید کے سامنے یہ تجویز رکھی:بہتر ہوگا کہ ہم اپنے ملک کے دوحصے کردیں۔ آدھے پر آپ کی حکومت چلے اور آدھے پر میرا راج ہو۔
با یزید نے اس تجویز کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا:میرے بھائی!یہ ملک میرا نہیں، عوام کی امانت ہے۔ اگر ہم اس کی تقسیم کردیں تو حکومت کا سارا زورختم ہوجائے گا اور ہمارا شمار دنیا کی کمزور ترین ریاستوں میں ہونے لگے گا اور اس کے نتائج کتنے بھیانک ہوں گے تم اندازہ کرسکتے ہو، اس لیے میں اپنے جسم کے دو ٹکڑے کرنے کے لیے تو تیار ہوں مگر عوام الناس کی اِس امانت(ملک)کی تقسیم میرے بس سے باہر ہے۔کچھ ہی دنوں بعد جیم سلطان (کے اس رویے کودیکھ کر) جزیرہ روڈ کے فوجداروں کی طرف سے اسے خصوصی بلاوا آیا۔ وہ ان کے دلکش و سحرطراز اسلوب بیان سے بڑا متأثر ہوا اور بادلِ نخواستہ اُن کی دعوت قبول کرلی۔ پھر کیا ہوا کہ فوجدار اپنے وعدوں سے پھر گئے اور اس کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرتے ہوئے اسے کلیسا کے مقتدرانِ اعلیٰ کے حوالے کردیا۔ ادھر یہ سربراہانِ کلیسا سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف آئندہ صلیبی جنگ کے لیے سلطان کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ جب وہ ان کے اس ناپاک مقصد کے لیے تیار نہ ہوا تو ان کے پادری نے جیم سلطان کو دین عیسائیت قبول کرلینے کا مشورہ دیا۔ اس پیشکش نے جیم سلطان کے دل کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دیا۔ بکھری ہوئی توانائیوں کو اِکٹھا کرکے جیم سلطان نے پادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:یہ سلطنتِ عثمانیہ چہ معنی دارد!اگر تم ساری دنیا کو لاکر میرے قدموں میں ڈال دو تب بھی میں اپنے مذہب سے سرمو ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ محسوس کرلینے کے بعدکہ یہ اہل صلیب مجھے اسلام کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں جیم سلطان نے خدا کی بارگاہ میں جو دعا کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں دین ومذہب کا دردکس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا:اے میرے پروردگار!اگر صورتحال یہی ہے کہ یہ کفار مجھے مسلم دنیا کو زیر و زبرکرنے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں توپھر اپنے اس بندے کو اس دنیا میں تا دیر زندہ نہ رکھ، جتنا جلدی ہوسکے میری روح کو اپنی بارگاہ میں واپس بلالے۔
اِدھراس کی زبان سے یہ دعا نکلی اور اُدھر اِجابت نے اسے گلے لگالیا اورمقام بیپلس کے اندر عین عالم شباب میں کوئی چھتیس سال کی عمر میں اس نے اس دنیا کو خیرآباد کہہ دیا۔ دمِ نزع اس نے اپنے اِردگرد موجود لوگوں سے جو وصیت نامہ مرتب کروایا وہ کچھ یوں تھا:میرے انتقال کی خبر ہر سو عام کردینا تاکہ غیرمسلم مجھے آلہ کاربناکر مسلمانوں کے خلاف جو کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں وہ قبل از وقت ہی ناکام ہوجائے۔ بعدازاں میرے بھائی سلطان با یزید کے پاس جانا اور اس سے درخواست کرنا کہ ہر قیمت پر میری نعش اپنے ملک میں لاکر دفن کرے۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ غیرمسلموں کی زمین میں میری تدفین عمل میں آئے۔ اب تک جو ہوا سو ہوا۔ دیکھنا کہیں وہ میرے اس عریضے کو مسترد نہ کردے۔ اس سے یہ بھی کہنا کہ میرے سارے قرض ادا کردے۔ میں قرضوں کا بوجھ لے کربارگاہ قدس میں حاضر نہیں ہونا چاہتا۔ اس سے کہنا کہ میرے اہل خانہ اورمیری اولاد و خدام کی غلطیوں کو درگزر کردے اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کا خیال کرتا رہے۔سلطان با یزید دوئم نے اپنے بھائی کی اس وصیت کی پوری پوری تکمیل کی۔  دراصل یہی وہ اوصاف اور خوبیاں ہیں جن سے اسلام بنی نوعِ انسان کو آراستہ پیراستہ دیکھنا چاہتاہے۔ان دوبھائیوں کے باہمی تعلقات جہاں ان کی مذہب دوستی اور دین سے کامل وابستگی کا پتا دیتے ہیں وہیں ان سے ملک و قوم کے لیے ان کے سچے درد کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اہل اسلام نے اپنی عبادتوں میں کیا خوب اہتمامات کیے ہیں حتی کہ حالتِ جنگ میں بھی ان کا شوق عبادت عروج پر نظر آتاہے،یہی وجہ تھی کہ اللہ کی رحمتیں بھی ان پر ٹوٹ کر برستی تھیں۔ونائس کے ترابیجانی نے یلدیریم بایزید کی فوج کی شجاعت وفتح یابی کا نقشہ یوں کھینچا ہے: سلطنت عثمانیہ کی فوج عہد رواں کی فوجوں کے برعکس شراب وکباب، گیمبلنگ اور دوشیزاؤں کے وجود سے ہمیشہ پاک رہی۔ مزید برآں عسکری تربیت کے دوران بھی مجاہدوں کو کبھی یاد حق سے غافل نہیں پایاگیا۔ وہ ہمہ وقت وقف عبادت و ریاضت رہاکرتے تھے اورسچ پوچھیں تویہی کلیدی رازتھا ان کی فتح وظفرکا۔
ترکی کی مسجد بایزید کی حسن تعمیر اور اس کی جلوہ سامانی جگ جگ ظاہر ہے۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد سرکاری طورپر ایک عظیم شان عظمت وطمطراق کے ساتھ اس کا افتتاح بروزجمعہ عمل میں آیا۔ ایسی عظیم جامع مسجد کاافتتاح سلطان محمد بن فاتح کسی عظیم وجلیل امام وخطیب سے کرانے کا متمنی تھا، چنانچہ عوام وخواص کے ایک ٹھاٹھے مارتے ہوئے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا:میری دیرینہ آرزو ہے کہ اس عظیم الشان مسجد کا افتتاح کسی ایسی ہستی کے ہاتھوں عمل میں آئے جس کی پوری زندگی میں کبھی عصروعشا کی سنت قبلیہ بھی نہ ترک ہوئی ہو۔
یہ شرط سن کر مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیااور ہرطرف سناٹا چھاگیا۔ ایک طویل خاموشی کے بعد سلطان ازراہ تحدیث نعمت یہ کہتاہوا مصلّے کی طرف بڑھتادکھائی دیا کہ قوم وملت کے اس خادم کی سفروحضر اور جنگ وامن کسی بھی حالت میں عصروعشا کی سنن قبلیہ(غیرمؤکدہ) بھی الحمدللہ کبھی فوت نہیں ہوئی ہیں۔
سبحان اللہ! کچھ ایسے تھے ہمارے سلاطین اسلام اور’یہی تھا رازتب وتاب ملت عربی‘۔ہم تو فرائض کی ادائیگی میں بھی چوبند نظر نہیں آتے،سنت موکدہ اور پھر غیرموکدہ تو بڑی دور کی بات ہے!۔
دنیا کا جاہ و منصب اورسلطنت وحکومت کی جملہ اہم ذمہ داریوں کے باوجود نہ ان کی عبادت وریاضت کے خشوع وخضوع میں کچھ فرق پڑا اور نہ نمازوروزہ کے ذریعہ اپنی اخروی زندگی کو آبادکرنے کی جدوجہدمیں انھوں نے کوئی کسر روا رکھی۔
٭یاوز سلطان سلیم خان کے خادمِ خاص حسن جان بیان کرتے ہیں:ایک مرتبہ سلطان یاوز کے پیٹھ پر ایک پھوڑا نکل آیا۔مختصر سے وقت میں وہ اتنا بڑھا کہ اس میں گہرا سا غار بن گیا حتیٰ کہ اس سے جھانک کر دیکھنے سے یاوز کی کلیجی تک نظر آنے لگی تھی۔ اندازہ لگائیں کہ ان دنوں سلطان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ اس وقت وہ ایک زخمی شیرمعلوم ہو رہے تھے، تاہم انھوں نے ایسے عالم میں بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنی بے بسی کو خاطر میں لائے بغیرمجاہدوں کو ہدایت وحکم نامہ جاری کرتے رہتے تھے۔میں ان کے قریب گیا، انھوں نے اپنی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:حسن جان!(میری)یہ کیا حالت ہے؟۔
مجھے لگاکہ ان کا آخری بلاوا آگیا ہے اور وہ بس حیات اخروی کے لیے شد رحال کرنے ہی والے ہیں تو اسی پس منظر کو اپنے ذہن میں رکھ کر، داغِ مفارقت سے جلتے ہوئے دل کے ساتھ میں نے افسوسناک لہجے میں عرض کیا:سلطان ذی جاہ! میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ(اوراس کی بارگاہ میں حاضر) ہونے کا وقت قریب آ گیاہے۔
یہ سن کرسلطان عظیم میری طرف متوجہ ہوئے اور حیرت واستعجاب سے فرمایا: حسن،حسن! تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔کیاتم سمجھتے ہو کہ میں اب تک کسی اور کے ساتھ تھا! کیا تم نے اللہ سے میرے تعلق کے درمیان کوئی کمی یاکوتاہی محسوس کی ہے؟
ان کے اس جملے نے مجھے سراپاندامت بنادیا اور میں نے عرض کیا: نظربد دور میرے سلطان! میری یہ مراد ہرگز نہیں تھی۔ میرے وہم میں بس کچھ یوں آیاکہ آپ خود کو اس وقت جس حالت میں پاتے ہیں وہ دیگر حالتوں سے کچھ مختلف ہے۔
سلطان عظیم نے ایک دوسری دنیا میں داخل ہوتے ہوئے مجھے آخری بار مخاطب کرتے ہوے فرمایا:حسن! سورۂ یس پڑھو۔
میں نے چشم گریاں اور دلِ بریاں کے ساتھ سورۂ یس پڑھنا شروع کیا۔جب میں آیت کریمہ کے لفظ’’سلامٌ‘‘ پرپہنچا۔توٹھیک اسی وقت سلطان نے اپنی جاں جان آفریں کے حوالے کردی۔
آپ دیکھیں کہ جو لوگ اپنی پوری زندگی میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ نہیں ہوتے انھیں کبھی بھی دم واپسیں اس قسم کی فضیلت و سعادت نصیب نہیں ہوتی۔اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ایک بامقصد اور اللہ ورسول کے احکامات پر عمل پیرا زندگی گزاریں تاکہ اچھی موت ہمارابھی نصیب جاں بن سکے۔
٭عہد عثمانیہ کے سب سے پہلے مؤرخ عاشق شہزادے نے ایک مرتبہ کہاتھاکہ یہ آل عثمانی کوئی عام خانوادہ نہیں بلکہ بڑے معتبر اور مقدس پشتوں سے ان کا تعلق رہاہے۔ان سے کبھی بھی کسی ناجائزکام کا صدور آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ جوچیزیں از روئے شرع گناہ کے زمرے میں آتی تھیں ان سے بچنے کی انھوں نے حتی المقدور بھرپورکوشش کی۔
یہ ان کے انھیں مذکورہ وصف کی کرشمہ گری تھی کہ شیخ الاسلام ملا فیناری نے ڈنکے کی چوٹ پر بھری عدالت میں سلطان یلڈرم بایزید کی گواہی یہ کہتے ہوئے ٹھکرادی کہ انھوں نے جماعت سے نماز نہیں ادا کی۔جب سلطان نے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے اس کا جواب دیتے ہوے کھلے بندوں فرمایا:سلطان محترم! میں آپ کو جماعت میں نہیں دیکھتا؛ حالاں کہ اس قوم کے رہنما ہونے کے باعث آپ کو صف اوّل میں نظر آنا چاہیے۔بالفاظ دیگراگر آپ کارہائے خیر سرانجام نہ دیں گے تواور کون دے گا!یوں ہی اگر آپ ہی جماعت سے پہلوتہی کریں گے تو ذرا سوچیں کہ لوگوں کے لیے آپ کتنا برا نمونہ پیش کررہے ہیں۔بس یہی سبب ہے جو آپ کی گواہی کے قابل قبول ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اس واقعے کے بعد سلطان ہمیشہ پنج وقتہ نماز باجماعت مسجد میں ادا کرتا ہوا پایاگیا۔چھ صدیوں سے زائد عرصہ تک جو ملک اسلام کا محافظ رہا اور جس کے سلاطین و رعایاایسے اوصاف کے حامل رہے، اسے صرف آٹھ سال کے اندر اسلام سے بیگانہ کردیاگیااور اسلامی احکام بری طرح پامال کیے گئے، پھر نتیجے میں 29؍اکتوبر1923 کو باقاعدہ جمہوریت کا اعلان کردیاگیا اور مصطفی کمال اتاترک نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جس کے بعد اسلامی قوانین تبدیل کردیے گئے، مگر الحمدللہ! آج پھر ترکی کے لوگ اسلامی نظام زندگی کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ اب وہاں اسلام پسندوں کی حکومت ہے اور سیکولر جماعتیں انتخابات میں بری طرح شکست کھاچکی ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ انشاء اللہ !ترکی دوبارہ احیائے دین اور اسلام کی سربلندی میں اپنا کردارضرور ادا کرے گا۔
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کیلئے

محمد افروز قادری چریاکوٹی

C.L.T
نفیس اختر

جھوٹے دعوی کا پھوٹا بھانڈا

 بالآخر ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کے جھوٹے دعوی کی قلعی کھل ہی گئی جبکہ تازہ ترین سرکاری اعدادوشمارشاہد ہیں کہ 2001 سے 2011 کے درمیان دس برس میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار میں5فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
 2001 میں مسلمانوں کی آبادی میں 29 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا تھا اور 2011 تک یہ شرح کم ہو کر 24 فیصد پر آ گئی۔وزارت داخلہ نے 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار ابھی تک باضابطہ طور پر جاری نہیں کیے ہیں لیکن جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق ملک کی اوسط شرح پیدائش 1.8 فیصد ہے۔
اداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر تقریباً 18 کروڑ ہو گئی ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 14.2 فیصد ہے۔ملک میں ہندوو ں کی آبادی اس مدت میں معمولی سی کمی کیساتھ 80 فیصد سے نیچے آ گئی ہے۔خیال رہے کہ 1991 سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔ 1991 میں جو شرح 32.2 فیصد تھی وہ 2001 میں 29 فیصد پر آئی اور 2011 میں یہ مزید کم ہو کر 24 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہا تو 2021 کی مردم شماری تک مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار موجودہ قومی رفتار یعنی 18 فیصد سے نیچے جا سکتی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ذرائع ابلاغ اور ماہرین مسلمان کی گھٹتی ہوئی رفتار کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے مسلمانوں کی آبادی میں ’دھماکہ خیز اضافہ‘ ہو رہا ہے۔بعض مغربی ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں مسلمانوں کی اونچی شرح پیدائش کو ایک ایک مسلم مملکت میں بدلنے کی مسلمانوں کی ایک سازش قرار دیتی رہی ہیں۔حالانکہ آبادی کے ماہرین زیادہ بچوں کی پیدائش کو تعلیم کی کمی اور غربت سے منسوب کرتے ہیں اور وہ ثبوت کے طور پر ہندوو ¿ں کے اس گروپ کا حوالہ دیتے ہیں جو تعلیمی اور اقتصادی طور پر مسلمانوں کے ہی زمرہ میں آتے ہیں اور ان کی شرح پیدائش بھی مسلمانوں کی طرح اونچی ہے۔لیکن آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کی بعض دیگر محاذی تنظیمیں ملک میں مسلمانوں کی’ آبادی کے دھماکے‘ کے پرچار میں لگی ہوئی ہیں۔یہ پروپیگنڈا بھی عام ہے کہ مسلمان مذہبی وجہ سے مانع حمل طریقوں کا استعمال نہیں کرتے۔دنیا میں تقریبا 50 ایسے ممالک ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
 ان میں سے 46 ممالک ایسے ہیں جہاں تعلیم کے فروغ اور بیداری کیساتھ شرح پیدائش میں تیزی سے کمی کا رجحان ہے۔ایران میں گذشتہ 20 برس میں شرح پیدائش اس حد تک نیچے آ گئی ہے کہ جلد ہی وہاں کی آبادی گھٹنا شروع ہو جائے گی۔بنگلہ دیش کی شرح پیدائش ہندوستان کے ہندوو ں کی شرح پیدائش سے کم ہے اور جلد ہی اس سطح پر پہنچ جائے گی جہاں آبادی مستحکم ہو جاتی ہے۔یہی حال پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، قطر اور دوسرے ملکوں کا ہے۔صحت اور تعلیم دو ایسے پہلو ہیں جن میں پوری دنیا میں مسلمان پیچھے رہے ہیں۔چھوٹا خاندان صحت، تعلیم اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ آئندہ دو دہائیوں میں ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں شرح پیدائش آئیڈیل شرح حاصل کر لیں گی۔


In 1909, a Hindu communalist by the name of Colonel U.N. Mukherji wrote a pamphlet Hindus: A Dying Race. His projections, based on the study of census data between 1881 and 1901, suggested that Hindu demographic share was declining with every passing decade. Col. Mukherji met Swami Shraddhanand of Arya Samaj at Calcutta in 1911. His novice study prompted Swami Shraddhanand to formulate Shuddhi and Sangathan. It was a project to bring back converted Hindus into their native Hindu fold. The rest is history!

In recent years, in analyzing India's religious demography, the authors [all non-demographers] of the book - "Religious Demography of India", Joshi et al., have explicitly stated that there is much Indian Religionists - a term used as an euphemism for Hindus, Sikhs, Buddhists and Jains - need to fear. They claimed, "The proportion of Indian Religionists in the population of India has declined by 11 percentage points during the period of 110 years ... Indian Religionists formed 79.32 per cent of the population in 1881 and 68.03 per cent in 1991 ... If the trend ... continues, then the proportion of Indian Religionists in India is likely to fall below 50 per cent early in the latter half of the 21st century." As can be seen the authors purposively included Pakistan and Bangladesh in their rhetoric. The sly authors don't tell their readers that for the present Indian Union, the "decline" has been trivial in the last 100 years (e.g., from 86.64 % in 1901 to 85.09 % in 1991). But who wants to do the math when the politically motivated, chauvinist, non-demographers are doing all the hard work for their mesmerized audience!

Since the publication of this Hindu Mein Kamf of sort, touted as a 'landmark' work by former Deputy Prime Minister L.K. Advani, many Hindu communalists and fanatics of the Hindutva have played the religious card too well to drum up support within the broader Hindu community. They claim, like those authors, that "pocket of high Muslim influence seems to be now developing in the northern border belt covering Uttar Pradesh, Bihar, West Bengal and Assam. And a border pocket of even more intense Christian influence has developed in the north-eastern states". Now the issue has become a national one catapulting many obscure, chauvinist political figures to national roles. It won't be any surprise when the Hindu fundamentalist BJP (a member of the Sangh Parivar) wins the next national election in India and her one-time tea hawker Narendra Modi (now the chief minister of Gujarat) becomes the Prime Minister.

As I have noted before, these narrow-minded Hindu fanatics are simply oblivious of the various factors that contribute to demographic changes in a landscape - e.g., the fertility and mortality rates, socio-economic conditions, female literacy, urbanization, family planning and migration. In a 2005 paper, "District Level Fertility Estimates for Hindus and Muslims," Professor S Irudaya Rajan of Center for Development Studies, Thiruvananthapuram, Kerala, India, provided estimates of crude birth rates (CBR) and total fertility rates (TFR) for Hindus and Muslims for 594 districts of India, and assessed the state and district level differentials across the country. It reconfirms that there is a regional variation in fertility in India, with higher fertility in the north than in the southern and western parts, irrespective of religious affiliation.


Professor Rajan's analysis showed that while the difference is narrow or negligible in south and west India, a significantly higher rate of Muslim fertility is observed in eastern and north-eastern India. The difference in Hindu-Muslim fertility is far higher in states like West Bengal, Assam, the north-eastern states and a few northern states (thus contributing to higher annual growth rate). But in other parts of the country, Muslim fertility is falling in line with Hindu fertility as the difference is narrow both at higher and lower levels of fertility. This sharp differential in fertility among Hindus and Muslims in northern and eastern parts of India can be explained by the female literacy differentials by religion in these states rather than any other social-economic variable. As demographers have found out female education always emerges as a major predictor for fertility differentials. All those states recording much higher Muslim fertility than that for Hindus have very low female literacy levels among Muslims. The largest differential between Hindu-Muslim female literacy is in Haryana, where female literacy among Muslims is as low as 21.5 % compared to 57.1 % among Hindus.


I have analyzed the data statistically and found that there is a strong correlation between the differentials in TFR and FLR:

TFR-delta = 0.823 - 0.0484 FLR-delta

with a R-sq(adj) of 73.1%. However, if the data for Jammu and Kashmir, Daman & Diu, Dadra & Nagar Haveli, Andaman & Nicobar, and Punjab (with high residual errors) are discarded from the analysis, the correlation is much improved with a R-sq(adj) of 88.1%. The corresponding regression equation then becomes:

TFR-delta = 0.908 - 0.0532 FLR-delta.

The data strongly corroborate the well-known fact that those two parameters have inverse relationship, i.e., when female literacy rate goes up, the total fertility rate goes down.

Prof. Rajan's study also reconfirms regional variation in fertility in India: higher fertility in the north compared to the southern and western parts of India, which is true irrespective of religious affiliation. For instance, the illiterate women in Kerala have fewer children compared to illiterate women in Madhya Pradesh or anywhere else in India.

When it comes to fertility rate, socio-economic condition does matter. This well-known fact is reflected in the Indian census data. Even in the demographically developed state of Kerala (which has the highest literacy rate - 94% in India), the population growth rates of Hindu brahmins are much lower than that of Hindu nairs, followed by Hindu ezhavas. Similarly among Christians, Syrian Christians' growth rates are lower than that of Latin Christians. In the post-partition early decades Kerala's population growth rate was not only high (above 2% per annum) by its own standards, but also higher than India's growth rates several decades after independence. During the 1991-2001 decade Kerala's growth rate was just 0.9 % per annum as against India's 1.9. Similarly, between 1981-91 and 1991-2001, the Muslim growth rate in India has shown a decrease from 3.2 % per annum to 2.9 % per annum.

In the pre- and early British era of colonization of India, Muslims, in general, who were economically more prosperous than other religious groups, had a lower growth rate. As their socio-economic condition deteriorated during the British colonial era and after Indian independence, the growth rate increased. Professor Rajan's demographic study also shows that at the beginning of the 20th century, Muslim growth rates were slightly lower than that for Hindus. Since then, Muslims in India registered higher growth rates in comparison to Hindus as well as the total population right through the last 100 years. Even during the influenza decade of 1911-21, India's growth rate was zero and the Hindus registered a negative growth rate. Muslims registered a minimal growth of just 0.1 % per annum. The defining moment of both the Hindu and Muslim population growth rate was after independence. Muslims registered a negative growth rate of 1.8 % per annum in 1941-1951 resulting from the large-scale movement of people from India to Pakistan. On the other hand, Hindus registered the highest growth rate of close to 2.4 %. The growth rates of Hindus and Muslims in the post-independence decades, Hindu population growth hovered between 2.0-2.2 % per annum whereas Muslims growth was between 2.7-2.8 %. In other words, both groups grew by more than 2 % per annum during 1961-1991.

In the post partition era, Muslims as a whole appear to have 0.75 % higher annual growth rate than majority Hindus (e.g., 2.57% compared to 1.82% in 1991-2001). And unless their socio-economic conditions improve significantly with jobs and education, esp. amongst the Muslim females, this trend may continue for a foreseeable future.

In the 2001 Indian census, only the five bigger states (Uttar Pradesh - 18.5 %, Bihar - 16.5 %, Assam - 30.9 %, Kerala - 24.7 % and West Bengal - 25.2 %), two smaller states (Jammu and Kashmir - 67 % and Jharkland - 13.8 %) and one union territory (Lakshadweep - 95.5 %) had a proportion of Muslims above the national average of 13.3 %. Professor Rajan's study showed that among the above eight states/union territories, five of them reported their Muslim growth rates as below the national growth rate of 2.57 %; in fact, two states reported below the national average of 2.03 %.

- See more at: http://www.iviews.com/articles/Articles.asp?ref=IV1404-5711#sthash.DeX4GLwP.dpuf

Friday 27 February 2015

حضرت عبدالله بن سلام رضی الله عنه

حضرت عبدﷲ بن سلام رضی ﷲ عنہ یہود کے جلیل القدر عالم اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے تھے. ان کا اصل نام حصین تھا اور وہ یہود بنی قینقاع سے تعلق رکھتے تھے. ایک دن انہوں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے یہ کلمات سنے: افشو السلام واطعموا الطعام وصلوالارحام وصلو بالیل والناس نیام
اپنے بیگانے سب کوسلام کیا کرو، بھوکوں ، محتاجوں کو، کھانا کھلایا کرو اور خونی رشتوں کو جوڑے رکھو، قطع رحمی نہ کرو، اور رات کو نماز پڑھو جب لو گ سو رہے ہو”.یہ ہدایت آموز کلمات سن کر حضرت عبد ﷲ بن سلام کا دل نورایمان سے جگمگا اٹھا. انہیں یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان صلی ﷲ علیہ وسلم ہیں جن کی بعثت کی پیشین گوئی صحائف قدیمہ میں درج ہیں. دوسرے دن رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے چند پیچیدہ مسائل دریافت کیے. حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کا اطمینان بخش جواب دیا، تو عرض کی: یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم ﷲ کے سچے رسول ہیں.
حضور صلی ﷲ علیہ وسم نے ان کے قبول اسلام پر مسرت کا اظہار فرمایا اور ان کا اسلامی نام عبدﷲ رکھا.
حضرت عبد ﷲ نے عرض کی: یا رسول ﷲ میری قوم بڑی بدطینت ہے . انھوں نے یہ سن لیا کہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیاہوں تو مجھ پر طرح طرح کے بہتان باندھیں گے. اس لیے میرے اسلام کی خبر کے اظہار سے پہلے ان سے دریافت کرلیں کہ ان کی میرے متعلق کیا رائے ہے.
حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہود کے اکابر کو بلابھیجا. جب وہ آئے تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم توریت میں نبی آخر الزمان صلی ﷲ علیہ وسلم کی نشانیاں پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں. میں تمہارے سامنے دین حق پیش کرتا ہوں. اسے قبول کرکے فلاح دارین حاصل کرو. یہودیوں نے جواب دیا ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.
سرور عالم نے فرمایا : حصین بن سلام تمہاری قوم میں کیسے ہیں ؟
سب یہودیوں نے بیک آواز جواب دیا : وہ ہمارے سردار اور سردار کے بیٹے ہیں. وہ ہمارے عالم کے بیٹے ہیں وہ ہم میں سب سے اچھے اور سب سے اچھے کے فرند ہیں.
حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو کیا تم بھی مسلمان ہوجاؤ گے. یہودی ناک بھوں چڑھا کر بولے ﷲ انہیں آپ کی حلقہ بگوشی سے محفوظ رکھے. ایسا ہونا ناممکن ہے. اب حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبدﷲ بن سلام کو سامنے آنے کا حکم دیا. وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے باہر نکلے اور یہودیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:اے اعیان قوم ! ﷲ واحد سے ڈرو اور محمد صلی ﷲ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ ، بلاشبہ وہ ﷲ کے سچے رسول ہیں.
حضرت عبد ﷲ کا قبول اسلام یہود پر برق خاطف بن کر گرا اور غم وغصہ سے دیوانے ہوگئے. اور چیخ چیخ کر کہنے لگے. یہ شخص (عبدﷲ بن سلام)ہم میں سب سے برا اور سب سے برے کا بیٹا ہے. ذلیل بن ذلیل اور جاہل بن جاہل ہے.
حضرت عبدﷲ نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم آپ نے یہود کی اخلاقی پستی دیکھ لی مجھے ان سے اسی افتراء پردازی کا اندیشہ تھا.
(سیرت ابن ہشام ، جلد 2)
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا الفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ مَقْدَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ الوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَبَّرَنِي بِهِنَّ آنِفًا جِبْرِيلُ» قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ ذَاكَ عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ، وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الوَلَدِ: فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ المَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ، وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا " قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اليَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، إِنْ عَلِمُوا بِإِسْلاَمِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ بَهَتُونِي عِنْدَكَ، فَجَاءَتِ اليَهُودُ وَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ البَيْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ» قَالُوا أَعْلَمُنَا، وَابْنُ أَعْلَمِنَا، وَأَخْيَرُنَا، وَابْنُ أَخْيَرِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ» قَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: شَرُّنَا، وَابْنُ شَرِّنَا، وَوَقَعُوا فِيهِ 
صحيح البخاري: 4/ 132رقم 3329 

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مروان فزاری نے خبر دی۔ انہیں حمید نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے وہ ہو گا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے (یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ پھر عرض کیا، یا رسول اللہ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟ انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے

میان اور بیوی

روح اقبال سے معذرت کےساتھ 

شوہر کا شکوہ:

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں

طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں

جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھ کو

شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھ کو

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا

سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا

کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا

تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا

تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں

ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں

گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں

پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں

”پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں

میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

ھےبجا حلقہ ازواج میں مشہور ھوں میں 

تیرا بیرا، تیرا دھوبی ، تیرا مزدور ھوں میں

زن مریدی کا شرف پاکے بھی رنجور ھوں میں

قصہ درد سناتا ھوں کہ مجبور ھوں میں

میری مخدومہ میرے غم کی حکایت سن لے

ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے

زچہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تو نے

ھر نۓ سال نیا گل ھے کھلایا تو نے

رشتہ داروں نے تیرے ، جان میری کھائ ھے

فوج کی فوج میرے گھرمیں جو در آئی ھے

کوئ ماموں ، کوئ خالو ، کوئ بھائی ھے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ھرجائی ھے

کیسے غربت میں ، میں پالوں تیرے غمخواروں کو

ان ممولوں کو سمبھالوں یا چڑی ماروں کو

میں وہ شوھر ھوں کہ خود آگ جلائی جس نے

لا کے بستر پہ تجھے چاۓ پلائ کس نے

تو ھی کہہ دے تیرا حسن نکھارا کس نے

اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے

کون تیرے لیۓ درزی سے غرارا لایا

واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا

پھر بھی مجھ سے گِلا کہ کماتا کم ھوں

لے کے شاپنگ کے لیۓ تجھ کو، میں جاتا کم ھوں

نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ھوں

اور پلازا میں تجھے فلم دکھاتا کم ھوں

کاش نوٹوُں سے حکومت میری جیبیں بھر دے

مشکلیں شوھرِ مظلوم کی آسان کر دے

محفلِ شعرو سخن میں تو چمک جاتا ھوں میں 

تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ھوں میں 

تو جو بلغم بھی کھنگارے تو ٹھٹک جاتا ھوں میں

گھور کر دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ھوں میں 

پھر بھی مجھ سے یہ گلا ھےکہ وفادار نہیں 

توھے بیکار تیرے پاس کوئ کار نہیں 

• — — — — — — — — — — — — •

بیوی کا جوابِ شکوہ:

تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے

چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے

اُس کی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے

”پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے“

شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا

دل ‘ جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا

آئی آواز ٹھہر تیرا پتا کرتی ہوں

تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں

میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں

ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں

اور تُو ہے کہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا

اپنے یارو میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا

میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا

نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا

تو بھی گنجا ہے ارے باپ بھی گنجا تیرا

بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے

یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے

اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟

نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے؟

آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟

منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟

کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے

مولوی سے میرا حق ِمہر چھڑانے والے

صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟

رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟

کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟

چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا

ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں

آج جوتے سے مزا تجھ کو چکھاتی میں ہوں

اپنی تنخواں فقط ماں کو تھمائی تُو نے

آج تک مجھ کو کبھی سیر کرائی تُو نے؟

کوئی ساڑھی‘ کوئی پشواز دلائی تُو نے؟

ایک بھی رسم ِ وفا مجھ سے نبھائی تُو نے؟

لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں

کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں

بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی

ماں ابھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی

میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی

میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملیی

میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے

رنگ ترے چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے

سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے

کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“

تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟

میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں !

ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی

ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی

سَرّیا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی

سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں گی

یاد رکھنا ! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں
آخری بار خبردار تجھے میں کرتی ہوں
• — — — — — — — — — — — — •

GENERATION GAP N IT'S solutions نسلوں کے درمیان بڑھتے فاصلے

دور حاضر کا ایک بڑا چیلنج جنریشن گیپ یعنی بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں، گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان، اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان، معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان، اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان۔ ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنا ضروری ہے، ورنہ ہمارے خواب چکنا چور ہوجائیں گے، اور رفتار کا فرق سمتوں اور منزلوں کا فرق بن جائے گا، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کی ذمہ داری سب پر عائد ہوگی۔
قرآن مجید میں بڑوں کی چھوٹوں سے دوستی اور قربت کے بڑے زبردست مناظر ہیں۔ اور ہر منظر میں ان بڑوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اپنے چھوٹوں سے دور ہوگئے، اتنا دور کہ ان کو اس کی خبر نہیں ہے کہ ان کے چھوٹے کس سمت میں سفر کررہے ہیں، کن مشاغل میں بسر کررہے ہیں اور کیا خواب دیکھتے ہیں۔
ایک منظر خانہ کعبہ کی تعمیر کا ہے جس میں ایک بوڑھا باپ ابراہیم اور ایک جوان بیٹا اسماعیل مل کر دیواریں اٹھارہے ہیں۔ دونوں میں فکری اور قلبی ہم آہنگی اتنی ہے کہ ایک ہی تمنا ایک ہی خواب اور لفظ بہ لفظ ایک ہی دعائیں
دوسرے منظر میں انصاف کی عدالت قائم ہے اور عدل وانصاف قائم کرنے کا سچا جذبہ لے کر ایک ادھیڑ عمر باپ داوود اور ایک جوان بیٹا سلیمان سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ صحیح رائے تک بیٹا پہونچ جاتا ہے، اور باپ اس کی بات کو خوش دلی سے قبول کرلیتا ہے، کیونکہ دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں تھا، بلکہ دونوں مل کر حق تک رسائی کے لئے کوشش کررہے تھے، اپنی ذہانت ثابت نہیں کرنا تھی بلکہ منصفانہ فیصلے تک پہونچنا تھا، ہدف اکیلے جیتنا نہیں تھا، بلکہ مل کر جیتنا تھا۔
ایک تیسرے منظر میں بیٹا یوسف خواب دیکھتا ہے اور سب سے پہلے اپنے ابا حضور کے ساتھ شیئر کرتا ہے، ابا حضور خواب کو غور سے سنتے ہیں، اور خواب کی عملی تعبیر کے سلسلے میں فکر مند ہوجاتے ہیں۔
ایک چوتھے منظر میں باپ ابراہیم خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہا ہے، باپ اپنا خواب بلا جھجک اپنے بیٹے کو سناتا ہے اور بیٹا اس خواب کی تعبیر کی خاطر اپنی گردن پیش کردیتا ہے۔
ایک پانچوے منظر میں ماں اپنے بیٹے موسی کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیتی ہے، اور پھر پورا مشن اپنی بیٹی کے حوالے کردیتی ہے، جو بہترین طریقے سے اس مشن کو انجام دیتی ہے۔ ماں بیٹی پر اعتماد کرتی ہے، اور بیٹی اس اعتماد کی لاج رکھ لیتی ہے، اور ماں کی توقعات پر پوری اترتی ہے۔
لازم ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اتنا گہرا رشتہ ہو کہ بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر جیسے بڑے بڑے کام انجام دیں، بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر گمبیر ترین مسائل کے حل تلاش کریں، بڑے اپنے خوابوں میں چھوٹوں کو شریک کریں، اور چھوٹے اپنے خواب بڑوں کو بنا جھجک بتا سکیں۔ نصیحت کا موقعہ آئے تو بڑے چھوٹوں کو نصیحت بھی کریں، لیکن اس طرح جیسے لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے سمجھداری، حکمت، محبت اور پیار بھری نصیحتیں۔ کہ کوئی نصیحت بار خاطر نہ ہو۔ چھوٹے بھی موقعہ آنے پر بڑوں کو ضرور نصیحت کریں لیکن احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس طرح بیٹے ابراہیم نے اپنے باپ کو نصیحت کی تھی احترام اور خیرخواہی کا پیکر بن کر۔
میرے پاس کتنے ہی کروڑ پتی لوگ اپنے جوان بچوں کے بگڑے ہوئے کیس لے کر آئے، مجھے ان کی اس زندگی پر رونا آیا جو انہوں نے بچوں سے دور دولت کمانے کی دھن میں گزار دی، وہ بچوں کے لئے دولت کماتے رہے، مگر خود بچوں کو کھوتے رہے، دولت بچوں کے ہاتھ لگی اور بچے شیطان کے ہاتھ لگے، ان بیچاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے خالی لرزتے ہاتھ اور حسرت زدہ ٹوٹے دل کے۔ ان سب کے برے حال کی ایک بڑی وجہ تھی بچوں سے دوری، میری مراد جگہ کی دوری نہیں ہے، کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو گھر میں رہ کر دور ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ہزاروں میل دور رہ کر بھی قریب ہوتے ہیں۔
اکثر بڑوں کو گلہ کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ چھوٹے ان کی پسند کا خیال نہیں کرتے، وہ رشتہ بھی اپنی پسند کا، پیشہ بھی اپنی پسند کا اور لائف اسٹائل بھی اپنی پسند کا چاہتے ہیں۔ میں چھوٹوں سے تو یہی کہوں گا کہ بڑوں کی پسند کا احترام تم کو ممکنہ حد تک کرنا چاہئے، ساتھ ہی بڑوں سے بھی ادب سے کہوں گا، کہ وقت آنے پر اپنی پسند کو ان پر زبردستی تھوپنے کی اور نہیں ماننے پر ناراض ہوجانے کی بجائے، آپ بچپن سے ہی پسند کے وہ اعلی معیارات ان کی شخصیت میں بسا دیجئے، کہ تا حیات وہ ان اعلی معیارات کو رہنما بنائیں اور آپ کو کسی کشمکش کی ضرورت ہی نہیں پڑے۔ اور یہ تبھی ہوسکے گا جب آپ چھوٹوں کے ہم درد، ہم راز اور زندگی کے ہم سفر بلکہ خوابوں کے ہم نظر بن جائیں گے۔
میں نے تربیت کے سلسلے میں کڑی آمریت سے زیادہ نقصان دہ، نری ناصحیت سے زیادہ بے اثر اور با مقصد دوستی سے زیادہ مفید طریقہ کوئی نہیں پایا۔
ڈاکٹر محی الدین غازی

Thursday 26 February 2015

اخلاص کی اهمیت

ایک مرتبہ شفیا اصبحی مدینہ آئے، دیکھا کہ ایک شخص کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے،پوچھا کون ہیں، لوگوں نے کہا ابو ہریرہؓ، یہ سن کر شفیا اصبحی ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے، اس وقت ابو ہریرہؓ لوگوں سے حدیث بیان کررہے تھے،جب حدیث سنا چکے اور مجمع چھٹ گیا تو شفیا نے ان سے کہا رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنائیے جس کو آپ نے ان سے سنا ہو سمجھا ہو، جانا ہو، ابو ہریرہؓ نے کہا ایسی ہی حدیث سناؤں گا،یہ کہا اور چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے ،تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو کہا میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا جو آپ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اوراس وقت میرے اورآپ ﷺ کے سوا کوئی تیسرا شخص نہ تھااتنا کہہ کر زور سے چلائے اورپھر بیہوش ہوگئے، افاقہ ہوا تو منہ پر ہاتھ پھیرکر کہا،میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اور وہاں میرے اورآپ کے سوا کوئی شخص نہ تھا یہ کہا اور پھر چیخ مار کر غش کھا کر منہ کے بل گرپڑے،شفیا اصبحی نے تھام لیا اور دیر تک سنبھالے رہے،ہوش آیا تو کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب خدا بند ہ کے فیصلہ کے لئے اترے گا تو سب سے پہلے تین آدمی طلب کئے جائیں گے عالم قرآن ،راہ خدا میں شہید ہونے والا اور دولتمند ، پھر خدا عالم سے پوچھے گا کیا میں نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی، وہ کہے گا ہاں، خدا فرمائے گا تونے اس پر عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں رات دن اُ س کی تلاوت کرتا تھا ،خدا فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھ کو قاری کا خطاب دیں؛چنانچہ خطاب دیاگیا، پھردولت مند سےپوچھے گا ،کیا میں نے تجھ کو صاحب مقدرت کرکے لوگوں کی احتیاج سے بے نیاز نہیں کردیا! وہ کہے گا ہاں خدایا،فرمائے گا تونے کیا کیا، وہ کہے گا میں صلہ رحمی کرتا تھا،صدقہ دیتا تھا، خدافرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے ؛بلکہ اس سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تو فیاض اورسخی کہلائے اورکہلایا ،پھر وہ جسے راہ خدا میں جان دینے کا دعویٰ تھا پیش ہوگا ،اس سے سوال ہوگا تو کیوں مار ڈالا گیا،وہ کہے گا تونے اپنی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا تھا میں تیری راہ میں لڑ ااور مارا گیا، خدا فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے تو چاہتا تھا کہ دنیا میں جری اوربہادر کہلائے تویہ کہا جاچکا ،یہ حدیث بیان کرکے رسول اللہ نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا، ابو ہریرہؓ پہلے ان ہی تینوں سے جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی، امیر معاویہؓ نے یہ حدیث سنی تو کہا جب ان لوگوں کے ساتھ ایسا کیا گیا تو اورلوگوں کا کیا حال ہوگا، یہ کہہ کر ایسا زار وقطار روئے کہ معلوم ہوتا تھا کر مرجائیں گے جب ذراسنبھلے تو منہ پر ہاتھ پھیرکر فرمایا خدا اوراس کے رسولﷺ نے سچ فرمایا ہےکہ۔[size=x-large]
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ، أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(ھود:۱۵)[/size]
جو شخص دنیا اوراس کے سازوسامان کو چاہتا ہے ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دیدیتے ہیں اوراس میں اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا؛ لیکن آخرت میں ان کا حصہ آگ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا اورانہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ برباد ہوجاتا ہے اورجو کام کئے تھے وہ بے کار جاتےہیں۔

سیرت صحابہ رضی اللہ عنہ
صحیح اسلامی واقعات صفحہ نمبر 118 تا 120

Wuzu & Swine Flu

NDTV न्यूज़ चैनल पर DR. M.WALI ने बताया। अगर कोई अपनी नाक और अपने हाथ कोहनियों तक दिन में 3 या 4 बार धोए तो वो SWINE FLU के RISK को 50% तक कम कर सकता है।

अगर रोज़ दिन में 5 वक़्त सिर्फ वज़ू करने से इस बीमारी को 50% तक कम कर सकते हैं तो ये बात सोचने वाली है की जो वज़ू के साथ पूरी नमाज़ भी अदा कर ले तो वो कितने जाहिरी और गैर ज़ाहिरी अज़ाब से बच सकता है।

https://www.youtube.com/watch?v=FMg0dO38zlE&feature=youtube_gdata_player

( जिस किसी को ये बात फ़र्ज़ी लगे। वो कृपा कर के ऊपर दिए गई Link  यू टयूब पर देख कर अपनी तसल्ली कर सकता है।)