Monday, 9 November 2015

کیسے رہیں مشترکہ خاندانی نظام میں؟

سوال: میں مشترکہ خاندان میں رہتا ہوں اور شادی کو دو سال ہوچکے ہیں۔ میری بیوی اور گھر کی دیگر خواتین کے درمیان کسی نہ کسی بات پر اَن بن ہوتی رہتی ہے، جس پر میری بیوی مجھ سے الگ رہایش کا مطالبہ کرتی ہے۔ میں یہ انتظام کرنے کی معاشی حیثیت نہیں رکھتا۔البتہ کرایے کے مکان میں رہ سکتا ہوں، مگر میری والدہ اس کے لیے راضی نہیں ہیں۔ راہ نمائی فرمائیں، میں کیا کروں؟

جواب: ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جو صورت رائج ہے، اس میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن سے خادماؤں جیسا برتاؤ کیاجاتا ہے۔ سُسر، ساس، نند، دیور اور خاندان کے دیگر افراد کی خدمت کرنا اور ان کی چھوٹی بڑی ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے اور اس معاملے میں اگر اس سے کچھ تھوڑی سی بھی کوتاہی سرزد ہوجائے تو اس کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ اِزدواجی زندگی کی خلوت (privacy)بھی متاثر ہوتی ہے۔
بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے، البتہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ وہ اچھا برتاؤ کرے گی، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے گی اور ان سے خوش گوار تعلقات رکھے گی، تو ان کی جانب سے بھی اسے محبت ملے گی اور خاندان کے تمام افراد باہم شیروشکر ہوکر رہیں گے۔اِسی طرح اگر بیوی کا معاملہ دیگر افرادِ خاندان سے درست نہ ہوگا، یا وہ لوگ اس کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تو پھر ان کے درمیان اَن بن رہے گی اور گھر میں کشیدگی کی فضا قائم رہے گی۔
اگر مشترکہ خاندان میں کئی جوڑے رہتے ہوں تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر جوڑے کی پرائیویسی قائم رہے۔ وہ روزمرہ کے کاموں کو آپس میں اس طرح تقسیم کرلیں کہ کسی کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے، باہمی معاملات میں محبت اور ایثار کی روش کو اپنائیں، چھوٹی موٹی شکایتوں کو نظرانداز کریں۔ لیکن اگر ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں اَن بَن رہتی ہو، ایک دوسرے سے شکایت میں اضافہ ہورہا ہو، یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہو تو بیوی کو الگ رہایش فراہم کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ الگ سے مکان خرید کر بیوی کو دے، بلکہ معاشی تنگی کی صورت میں وہ اسے کرایے کا مکان فراہم کرسکتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے اہلِ خانہ باہم لڑتے جھگڑتے رہیں اور تناؤ اور کشیدگی کے ساتھ زندگی گزاریں، اس سے بہتر ہے کہ وہ الگ الگ رہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوش گوار رہیں۔۔۔
مولانا محمد رضی الاسلام ندوی

No comments:

Post a Comment