Friday 31 May 2019

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت
سوال: جزی اللہ عنا محمدا ما ھو اھلہ اس حدیث کی نسبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ماہرین حدیث نے اس کو منکر اور ناقابل اعتبار کہا ہے! البتہ حضور اکرم  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تعریف میں بنیت دعاء ان الفاظ کو کہ سکتے ہیں / دیکھیں السلسلة الضعیفة اس حدیث کے متعلق اس قول کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
اس حدیث کو حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے فضائلِ درود میں نقل کیا ہے اور تحریر کیا کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اس کی تخریج میں بڑی تفصیل کی ہے، علامہ سخاوی رحمہ اللہ کی کتاب کا ذکر نہیں کیا جس میں انہوں نے اس حدیث کی تخریج فرمائی، ان کی معروف کتاب ”المقاصد الحسنہ“ میں یہ حدیث نہیں ملی؛ اس لیے علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے کیا تحقیق فرمائی وہ نہیں دیکھی جاسکی؛ باقی اتنی بات تو متعدد محدثین نے ذکر کی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا؛ وفیہ ہانیٴ بن المتوکل وہو ضعیف (مجمع الزوائد: ۱۰/ ۱۶۳، ط: قاہرہ) محدث البانی نے اسی راوی: ہانیٴ بن المتوکل کو بنیاد بناکر اس روایت کو بعض جگہ ”ضعیف جدّاً“ اور بعض جگہ ”منکر“ لکھا ہے؛ لیکن ان کے علاوہ کسی او رمحدث کی طرف سے اس حدیث پر ”منکر“ ہونے کا حکم لگایا گیا ہو تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا؛ اس لیے مزید تحقیق کے بغیر ان کی بات پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا، ہجومِ کار کی وجہ سے اس وقت مزید تحقیق مشکل ہے، آئندہ ان شاء اللہ اس کی مزید تحقیق کی جائے گی۔
----------------------
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ جَزَى اللهُ مُحَمَّدًا عَنَّا مَا هُوَ أَهْلُهُ أَتْعَبَ سَبْعِينَ كَاتِبًا أَلْفَ صَبَاحٍ»
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے یہ کہا: {جَزَی اﷲُ  مُحَمَّدًا عَنَّا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ}‘‘ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ جزائے خیر عطا فرمائے، جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ہیں۔‘‘ تو گویا اس نے ہزار صبحوں تک ستر (ثواب لکھنے والے) فرشتوں کو تھکا دیا‘‘.
اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے (از مولوی اسماعیل نوساری صاحب)۔
الجواب:
یہ حدیث تین اسانید سے وارد ہے:
۱۔  هَانِئ بْن الْمُتَوَكِّلِ قَالَ : حدثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به .
 تخریج :
رواه الطبراني في "المعجم الأوسط" (235) ، وفي "المعجم الكبير" (11509) ، وأبو نُعيم في "الحِلية" (3/206) ، وإسماعيل الأصبهاني في "الترغيب والترهيب" (2/331) ، والخِلَعي في "الفوائد المنتقاة" (2/153) ، والخطيب في "تاريخه" (9/295) .
سند کا درجہ:
اس کی سند میں ہانئ بن متوکل پر امام بن حبان نے جر ح کرتے ہوئے کہا کہ :یہ کثرت سے منکر روایات بیان کرتا ہے، اس لئے قابل ترک ہے ۔[ المجروحین 2/446 رقم1171] ابو حاتم رازی سے ہانئ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو کہا : میں نے اس کو پایا ہے، لیکن اس سے کوئی روایت نہیں لکھی۔ [الجرح والتعدیل 9/ 102] لیکن دوسرے مقام پر ابو حاتم نے اس کی روایت بالواسطہ سننے کا تذکرہ کیا ہے، اورمحمد بن عبد اللہ بن الحکم کی تضعیف کورد کرتے ہوئے اس کو معتبر مانا ہے۔ [سؤالات البرذعی 2/729 – 730] حافظ ذہبی نے [میزان الاعتدال 4/291] میں ہانئ کےترجمہ میں اس کی  منکر روایات میں زیر بحث روایت کو شمار کیا ہے ۔البانی نے [ السلسلۃ الضعيفۃ 3/ 192] میں: ضعيف جدا کہا.
تو یہ سند ہانئ بن متوکل کی وجہ سے ضعیف ہوگی۔
۲۔   رِشْدِين بن سَعْد، عَن مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به .
تخریج: أخرجه محمد بن خلف وكيع في "أخبار القضاة" (3/273)، وقوام السنة في "الترغيب والترهيب" (2/331) .
سند کا درجہ: رشدین بن سعد  بہت سارے ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے، ابن معین ،ابو زرعہ، ابو حاتم، نسائی، جوزجانی، ابن عدی وغیرہم کی جروحات ہیں، لیکن امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ: فضائل کی روایات میں رشدین بن سعد  کا اعتبار کرنا چاہئے۔ [تهذيب الكمال فی أسماء الرجال 9/191]۔
رشدین کی وجہ سے یہ سند سخت ضعیف ٹھیرے گی ۔
۳۔  أحمد بن حَمَّاد، عَن مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به.
یہ سند امام سخاوی نے (القول البدیع ص 116) میں بحوالہ ابو الیمن بن عساکر کے ذکر کی ہے ، مگر مجھے مکمل سند نہیں ملی ، اور احمد بن حماد کے حالات  بھی نہیں معلوم ، مگر بہر حال وہ معاویہ بن صالح سے روایت کرنے میں ہانئ بن متوکل اور رشدین بن سعد کی متابعت کرتے ہیں کما قال السخاوی۔
شواہد اخری: 
۱۔ فَائِدَةٌ : قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ: " «مَنْ أَصْبَحَ وَأَمْسَى قَالَ: اللَّهُمَّ يَا رَبَّ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَاجْزِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هُوَ أَهْلُهُ ، أَتْعَبَ سَبْعِينَ كَاتِبًا أَلْفَ صَبَاحٍ ، وَلَمْ يَبْقَ لِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ إلا أَدَّاهُ ،وَغُفِرَ لِوَالِدَيْهِ وَحُشِرَ مَعَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ» ". [الحاوي للفتاوي 2/ 50].
۲۔ وروت فاطمة رضي الله عنها أنها قالت : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : من صلى ليلة الأربعاء ست ركعات قرأ في ركعة بعد الفاتحة (قل اللهم مالك الملك) إلى آخر الآية، فإذا فرغ من صلاته يقول : جزى الله محمداً عنا ما هو أهله ، غفر له ذنوب سبعين سنة، وكتب له براءة من النار ۔[ إحياء علوم الدين 1/ 200] قال العراقي في تخريجه: حديث فاطمة (من صلى ست ركعات أي ليلة الأربعاء) ... الحديث ، أخرجه أبو موسى المَديني بسند ضعيف جدا .
۳۔ وروى ابن أبي عاصم في بعض تصانيفه بسند لم أقف عليه عن..... مرفوعاً من قال : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، صلاةً تكونُ لك رضاءً ولحقّه أداء ، وأعطه الوسيلة والمقام المحمود الذي وعدتَه، واجزه عنا ما هو أهله ، وأجزه عنا من أفضل ما جزيت نبياً عن أمته ، وصل على حميع أخوانه من النبيين والصالحين يا أرحم الراحمين . من قالها في سبع جُمَع في كل جمعة سبع مرات وجبت له شفاعتي.[ القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص: 126]
یہ تینوں شواہد باعتبار اسناد کے کافی ضعیف ہیں۔
۴۔ وذكر الامام الذهبي في [تاريخ الإسلام 10/335] في ترجمة محمد بن عثمان ، أبي الفضل القُومساني الهَمَذانيّ، ويُعرف بابن زِيرَك ، مَناماً حسنا فيه استحسانٌ من النبي صلى الله عليه وسلم لهذا الذكر . وأورده السخاوي في ( القول البديع 326 ) وهو هذا:
قَالَ شِيرَوَيْهِ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَكِّيٍّ يقول: سَمِعْتُ أَبَا الْفَضْلِ الْقُومَسَانِيَّ يَقُولُ : أتاني رجلٌ من خُراسان فَقَالَ: إنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أتاني في منامي وأنا في مسجد المدينة، فقال لي: إذا أتيتَ هَمَذانَ فاقرأ على أبي الفضل بن زِيرَك منّي السَّلام. قلت: يا رسول الله، لماذا؟ قال: لأنه يُصلّى عليَّ في كلّ يومٍ مئةَ مرّة.
فقال [الخراساني]: أسألك أن تعلّمنيها. فقلتُ: إنّي أقولُ كل يوم مئة مرّة أو أكثر: اللهمَّ صلَّ على محمد النّبيّ الأُمّيّ وعلى آل محمد، جزى الله محمدًا صلَّى الله عليه وسلّم عنّا ما هو أهله.
فأخذها عنّي، وحلف لي: إنّي ما كنتُ عرفتُك ولا اسمَك حتّى عَرَّفك لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فعرضتُ عليه بِرًّا لأنّي ظنَنْتُه مُتزيِّداً في قوله، فما قبِل منّي وقال: ما كنتُ لأبيع رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعَرَضٍ من الدّنيا. ومضَى فما رأيتُه بعد ذلك.
التأصيل الشرعي
وسئل الشيخ محمد خير الشعَّال : يوجد دعاء متداول وهو (جزى الله عنا سيدنا محمدا ما هو أهله) ما هو الأصل الشرعي لهذا الدعاء وهل هو مستحب أم ماذا؟
الجواب:
بسم الله والحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد:
ثبت عن أسامة بن زيد رضي الله عنه أنه قال: قال رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم: «مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ، فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ» [رواه الترمذي].
ومعروفُ النَّبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم أعظمُ معروفٍ قُدِّم إلينا، وأقلُّ ما يُمكننا به ردُّ هذا المعروف هو الدُّعاء ، فقد روى أحمد وأبو داود والنَّسائي وابن حبَّان والحاكم عن ابن عمر رضي الله عنهما أنَّ النَّبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّم قال : « مَنْ اسْتَعَاذَ بِاللهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُوهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَعْلَمُوا أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ ». انتهى
الخلاصہ: اس درود کا پڑھنا درست ہے مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر:
۱۔  زیر بحث روایت متعدد ضعیف اسانید سے وارد ہے، بمجموع اسانید اس کے ضعف میں تخفیف ہوسکتی ہے۔
۲۔ اسانید میں کوئی راوی متہم نہیں ہے، اور ضعیف رواۃ آپس میں ایک دوسرے کی متابعت کررہے ہیں، اس لئے روایت کو بے اصل قرار دینا مشکل ہے۔
۳۔ یہ حدیث فضائل اعمال میں ہے، جس میں ضعیف ہونے کے باوجود اعتبار کیا جاتا ہے۔
۴۔ حدیث کے الفاظ میں کوئی بات خلاف شرع یا عقل نہیں، ثواب میں جو بہت زیادہ مبالغہ نظر آتا ہے، وہ درود شریف کے بے شمار فضائل کو مد نظر رکھتے ہوئے بعید نہیں ہے، تو بامیدِ ثوابِ محتمل پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔
۵۔ روایت کے دیگر شواھد سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے۔
۶۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جزائے خیر کی دعا کی جائے، اور حضور کی یہ تعلیم  بھی ہے، اور درود شریف کے ذخیرہ میں شاید اس طرح کے الفاظ صرف اسی روایت میں ہیں، تو یہ غنیمت ہے۔
۷۔ اس طرح کا درود مشایخ کے اوراد، وظائف میں بھی موجود ہے۔ واللہ اعلم



جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اَسّی 80 مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اَسّی سال کے گناہ معاف

جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد  اَسّی 80 مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اَسّی سال کے گناہ معاف

جمعہ کے روز ایک خاص درود شریف کی فضیلت وارد ہوئی ہے. بعض حلقوں میں بھلے اس پر اشکال ہوں تاہم طبرانی میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے اَسّی مرتبہ یہ درود شریف پڑھے، اس کے اَسّی سال کے گناہ معاف ہوں گے اور اَسّی سال کی عبادت کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا۔ 
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی (سَیّدِنَا) مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمَا

جمعہ کے دن عصر بعد درود شریف کا حوالہ:
سؤال عن ما صحة القول الذى يقول أن من صلى العصر يوم الجمعة وقال في مكان صلاته اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وصحبه وسلم تسليما 80 مرة غفر الله ذنوبه ثمانين سنة وإن مات قبل الثمانين أو صلى أكثر فإن ما بقي عنه يذهب إلى والديه أو أولاده وإذا كان هذا غير صحيح فهل فاعله يثاب على ما كان يفعله طلبا لجزاء الله أفيدونا ؟
جزاكم الله خيرا .
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فالحديث الذى سألت عنه أورده الغزالي فى إحياء علوم الدين حيث قال : يستحب أن يكثر الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا اليوم فقد قال صلى الله عليه وسلم : من صلى علي في يوم الجمعة ثمانين مرة غفر الله له ذنوب ثمانين سنة، قيل: يا رسول الله كيف الصلاة عليك قال: تقول: اللهم صل على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي وتعقد واحدة . انتهى . لكن بدون زيادة : وإن مات قبل الثمانين .. إلى آخره  ، وقد علق الحافظ العراقي في تخريجه لأحاديث كتاب الإحياء قائلا :
حديث من صلى علي في يوم الجمعة ثمانين مرة الحديث أخرجه الدار قطني من رواية ابن المسيب قال أظنه عن أبي هريرة وقال حديث غريب وقال ابن النعمان حديث حسن . انتهى ، وقال المناوي في فيض القدير  : وضعفه ابن حجر .
وعليه فالحديث  قد اختلف في تحسينه  وتضعيفه , وإذا افترضنا كونه ضعيفا فإن الحديث الضعيف يعمل به في فضائل الأعمال بشروط تقدم بيانها في الفتوى رقم: 19826 ، هذا بالإضافة إلى أن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم مستحبة يوم الجمعة كما أشار الغزالي فيما نقلناه عنه عاليه وفي الحديث : إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه ..الحديث رواه أبوداود وغيره وصححه الألياني كما أن في يوم الجمعة ساعة إجابة وقد ورد أنها بعد العصر مطلقا ، والجمهور على أنها آخر ساعة قبل غروب شمس يوم الجمعة وذلك إنما يكون بعد العصر ، وراجع الفتوى رقم : 4205 ، وبالتالى فيرجى إن شاء الله تعالى لمن عمل بما في الحديث المذكور الحصول على الثواب المشتمل عليه .
والله أعلم .
مولاناعبداللہ گل کی تحقیق:
من صلی صلاۃ العصر من یوم الجمعۃ فقال قبل ان یقوم من مکانہ :اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما ثمانین مرۃ ،غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما، وکتبت لہ عبادۃ ثمانین سنۃ.
جو شخص جمعہ کے دن عصر کے بعد اپنی جگہ سے کھڑا ہونے سے پہلے یہ درود شریف اسی (۸۰) مرتبہ پڑھے: ’’اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما‘‘ اس کے اسی (۸۰) سال کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں اور اسی (۸۰) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صلاۃ وسلام پیش کرنا افضل ترین عبادت اور دربار خداوندی میں قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔صلاۃ وسلام کے مختلف طریقے و صیغے ہیں جو حدیثِ مبارک میں وارد ہوئے ہیں۔اس پر محدثین نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔ مذکورہ درود شریف عوام اور علماء کرام کے معمول میں ہے،جسے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ نے فضائل درود شریف میں نقل کیا ہے اور اکثر اسی کتاب کے حوالے سے اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔
ذیل میں اس حدیث کی فنی تحقیق پیش کی جاتی ہے۔
امرِ اول: جمعہ کے دن مطلقا اسی (۸۰) مرتبہ درود شریف پڑھنا بھی حدیث شریف سے ثابت ہے جس پر ۸۰ سال کے گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے۔ملاحظہ ہو:
وعن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: الصلاۃ علیّ نور علی الصراط،و من صلی علی یوم الجمعۃ ثمانین مرۃ غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے: مجھ پر درود پاک پڑھنا پل صراط پر نور کا باعث ہوگا۔جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر ۸۰ مرتبہ درود بھیجے گا اس کے ۸۰ سال کے گناہ معاف ہوجائینگے۔
حدیث مبارک کو مندرجہ ذیل محدثین نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے:
۱۔ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بغدادی المعروف بابن شاہین (۲۹۷۔۳۸۵ھ) اپنی کتاب ’’الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب ذلک ‘‘میں یہ حدیث نقل کی ہے۔ (۱)
واضح رہے کہ ابنِ شاہین اپنے وقت کے حافظ عالم اورملک عراق کے بڑے شیخ تھے۔موصوف کے بارے میں حافظ ذہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) سیر اعلام النبلاء میں رقم طراز ہیں:
الشیخ الصدوق ،الحافظ العالم،شیخ العراق و صاحب التفسیر الکبیر،ابو حفص عمر بن احمد بن عظمان بن احمد بن محمد بن ایوب بن ازداذ البغدادی الواع٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال ابو الفتح بن ابی الفوارس:ثقۃ مامون صنف ما لم یصنفہ احد۔
وقال ابو بکر الخطیب:کان ثقۃ امینا،یسکن بالجانب الشرقی.
قال حمزۃ السھمی: سمعت الدارقطنی یقول: ابن شاہین یلح علی الخطاء، وہو ثقۃ۔
آخر میں امام ذہبی نتیجہ نکالتے ہوئے اپنی تحقیق یوں پیش کرتے ہیں:
ماکان الرجل بالبارع فی غوامض الصنعۃ ولکنہ راویۃ الاسلام ۔رحمہ اللہ. (۲)
یعنی اگر چہ فن حدیث کی باریکیوں سے بے خبر تھے لیکن ’’راویۃ الاسلام‘‘کا لقب ان کا حق ہے۔
۲۔ ابو القاسم خلف بن عبدالملک ابن بشکوال (المتوفی ۵۷۸ھ) نے اپنی پوری سند کے ساتھ اس حدیث کو اپنی کتاب ’’القربۃ الی اللہ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ (۳)
محدّثِ اندلس ابن بشکوال کے بارے میں حافظ ذہبی یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں،ملاحظہ ہو:
الامام العالم الحافظ، الناقد المجود، محدث الاندلس، ابو القاسم خلف بن عبد الملک۔۔۔۔ (۴)
۳۔ابو شجاع شیرَوَیہ بن شَھرَدار الدیلمی (۴۴۵۔۵۰۹ھ) نے اپنی کتاب ’’مسند الفردوس بماثور الخطاب‘‘میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ (۵)
۴۔ ابو سعد عبد الملک بن محمد الخرَکوشی النیَسابوری (المتوفی۴۰۷ھ) ۔ جن کا تذکرہ حافظ ذہبی ان الفاظ: الامام القدوۃشیخ الاسلام (۶) سے کرتے ہیں۔ نے اپنی کتاب ’شرف المصطفی‘ میں اس حدیث کو حضرت انسؓ کی روایت سے پیش کیا ہے، ملاحظہ ہو:
و عن رسول اللہ ﷺ انہ قال: من صلی علی یوم الجمعۃ ماءۃ صلاۃ غفرت لہ خطیءۃ ثمانین سنۃ (۷)
۵۔محقق العصر علامہ محمد بن عبد الرحمن سخاوی(المتوفی ۹۰۲ھ)نے اپنی کتاب ’’القول البدیع‘‘میں اس درود پاک کو ذکر کر کے اس کی نہایت عمدہ تحقیق پیش کی ہے اور ضعف کا حکم لگا کر اس حدیث کے طرق پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
القول البدیع:ص:۳۹۹۔ (۸)
اب تک کی بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جمعہ کے دن ۸۰ مرتبہ درود شریف پڑھنے پر۸۰ سال کے گناہ معاف ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
امر دوم:ہماری زیر بحث حدیث میں جمعہ کے دن عصر کے بعد خاص درود شریف پڑھنے پر ۸۰ سا ل کے گناہ کی معافی اور ۸۰ سال کی عبارت کی بشارت ہے۔
ذخیرۂ احادیث میں اس قسم کی دو روایات ملتی ہیں۔ پہلی روایت حضرت ابو ہریرۃؓ کی جو مضمون کے شروع میں ذکر کی گئی۔دوسری روایت حضرت سہل بن عبداللہؓ کی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں:
وعن سہل بن عبداللہؓ قال:من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر:اللھم صل علی محمد النبی الامی و علی الہ وسلم ثمانین مرۃ،غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما۔
ان دو روایات میں تین فرق ہیں۔
۱۔ پہلی روایت میں’’ قبل ان یقوم من مکانہ‘‘ کے الفاظ ہیں، جب کہ دوسری اس سے خالی ہے۔
۲۔ اسی طرح پہلی میں ’وسلم تسلیما‘ ہے جب کہ دوسری روایت میں تسلیما کا لفظ نہیں ہے۔
۳۔ پہلی میں ’’کتبت لہ عبادۃ ثمانین سنۃ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں جبکہ دوسری میں صرف ’غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما‘ کے الفاظ آتے ہیں۔
بہرحال ہر دو حدیث کا مضمون دوسرے کا مؤید بنتا ہے۔ذیل میں ان کی تخریج پیش کی جاتی ہے۔
۱۔حضرت سہل بن عبداللہؓ والی روایت کو محدثِ اندلس حافظ ابن بشکوال (المتوفی۵۷۸ھ)نے اپنی کتاب’’القربۃ الی رب العالمین بالصلاۃ علی محمد سید المرسلین‘‘میں ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
’’قال شیخنا ابو القاسم: وروینا عن سہل بن عبداللہ قال: من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر: اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم ثمانین مرۃ: غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما۔
ابن بشکوال نے اس حدیث کی سند میں ’شیخنا ابو القاسم‘ کہنے پر اکتفاء کیا ہے۔ اس سے ان کی مراد کون ہے؟چنانچہ ابن بشکوال خود ہی اپنی تاریخ کی کتاب ’الصلۃ‘ میں ان کا تذکرہ خیر فرماتے ہیں:
احمد بن محمد بن احمد بن مخلد بن عبد الرحمان بن احمد بن بقی بن مخلد بن یزید من اہل قرطبۃ۔یکنی: ابا القاسم۔۔۔۔۔وکان من بیءۃ علم و نباھۃ وفضل و صیانۃ، وکان ذاکرا للمسائل والنوازل، دربا بالفتوی، بصیرا بعقد الشروط و عللھا، مقدما فی معرفتہا.اخذ الناس عنہ واختلفت الیہ واخذت عنہ بعض ما عندہ، واجاز لی بخطہ غیر مرۃ۔
موصوف کا تعلق انتہائی شریف ،علمی اور پاکیزہ خاندان سے تھا۔ نِت نئے مسائل کا خوب استحضار اور فتوی نویسی میں خوب مہارت رکھتے تھے ۔شرائط اورعللِ حدیث میں بصیر ت انتہاء کو تھی۔لوگوں نے ان سے خوب علم حاصل کیا۔میں نے بھی ان سے استفادہ کیا اور انہوں نے کئی مرتبہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر مجھے اجازت دی۔
موصوف کی ولادت ۴۴۶ھ کی اور وفات ۵۳۲ھ کی ہے۔ (۹)
شیخ ابو القاسم اپنے استاد،بقیۃ الشیوخ،محدث اندلس،فقیہ وقت:ابو عبداللہ محمد بن الفرج قرطبی مالکی طلاعی (۴۰۴۔۴۹۷ھ) کے شاگردوں میں سے تھے۔
حافظ ذہبی ان کے بارے میں رقم طراز ہیں: و کان شدیدا علی اھل البدع،مجانبا لمن یخوض فی غیر الحدیث۔ (۱۰)
ابو بکر محمد بن خیر اموی اشبیلی (۵۰۲۔۵۷۵ھ) اپنی کتاب ۔جو ’فہرست ابن خیر‘ کے نام سے مشہور ہے۔ میں موصوف کی کتاب الاحکام کی سند ذکر کرتے ہیں،جو اس بات کی شاہد ہے کہ شیخ ابو القاسم اپنے استاد ا بو عبداللہ الفرج کے علوم کے حامل تھے۔ملاحظہ ہو:
کتاب احکام رسول االہ ﷺ، تالیف الفقیہ ابو عبداللہ محمد بن فرج ۔رحمہ اللہ۔،وکتاب الوثائق المختصرۃ من تالیفہ ایضا،حدثنی بھما الشیخ الفقیہ ابو القاسم احمد بن محمد من بقی رحمہ اللہ قراء ۃ منی علیہ فی منزلہ۔ (۱۱)
اس کے بعد سند کا یہ سلسلہ کدہر جاتا ہے؟ چنانچہ فہرست بن خیر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فقیہ ابو الفرج روایت کرتے ہیں: ابو الولیدیوسف بن عبداللہ بن المغیث (۳۳۸۔۴۲۹ھ) سے۔ جن کا تذکرہ حافظ ذہبی نے ان الفاظ: الامام الفقیہ، المحدث شیخ الاندلس، قاضی القضاۃ، بقیۃ الاعیان سے کیا ہے۔ (۱۲) اوریہ روایت کرتے ہیں مسند الاندَلُس : ابو عیسی یحیی بن عبداللہ اللیثی (المتوفی۳۶۷ھ) سے اور یہ اپنے والد کے چچا ابو مروان عبیداللہ بن یحیی لیثی (المتوفی۲۹۸ھ) سے جن کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بقول حافظ ذہبی کے: اندلس میں ان کے جنازے سے بڑا کوئی جناز نہیں ہوا حتی کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی ان کے جنازے میں شرکت کی۔(۱۳) اور یہ اپنے والد، راوی موطا، فقیہ کبیر: یحیی بن یحیی بن کثیرالمصمودی الاندلسی القرطبی (المتوفی۲۹۸ھ) رحمھم اللہ تعالی اجمعین سے کرتے ہیں۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس سے آگے امام مالک سے سند واضح ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ ابن بشکوال نے اس درود کو اگر چہ تعلیقا ذکر کیا ہے لیکن سند کا سلسلہ جو ذکر کیا گیا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان تک جو حدیث پہنچتی رہیں وہ اسی سلسلے کی مرہونِ منت ہے۔جس میں وقت کے بڑے بڑے علماء و محدثین شامل ہیں۔شیخ ابو القاسم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات اور آشکارا ہوجاتی ہے۔
لہذا اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر یہ روایت موضوع و من گھڑت ہوتی تو اس قسم کا سلسلہ اس کو کیسے روایت کرتا۔
۲۔محقق العصر،حافظ عبد الرحمن سخاوی(المتوفی۹۰۲ھ)نے دونوں روایات کو ’’القول البدیع ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو:
وفی لفظ عند ابن بشکوال من حدیث ابی ہریرۃ ایضا: من صلی صلاۃ العصر من یوم الجمعۃ فقال قبل ان یقوم من مکانہ :اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی الہ وسلم تسلیما ثمانین مرۃ غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما و کتبت لہ عبادۃ ثمانین سنۃ.
وعن سہل بن عبداللہ قال: من قال فی یوم الجمعۃ بعد العصر: اللھم صل علی محمد النبیی الامی وعلی الہ وسلم ثمانین مرۃ :غفرت لہ ذنوب ثمانین عاما.اخرجہ ابن بشکوال۔ انتھی کلام السخاوی۔ (۱۴)
موصوف اپنے وقت کے محدث، محقق اور حافظ حدیث تھے۔حافظ ابن حجر عسقلانی(المتوفی۸۵۲ھ)کے شاگردوں میں ان کا کوئی سہیم وشریک نہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ھو امثل جماعتی۔ یعنی وہ میرے شاگردوں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔
سخاوی عللِ حدیث کے ماہر تھے۔علمِ جرح وتعدیل کی ان پر انتہاء ہوگئی۔یہاں تک کہا گیا ہے کہ ذہبی کے بعد کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو ان کی راہ پر چلا ہو۔تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو: محقق العصر استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی صاحب کی کتاب: فوائد جامعہ، ص:۵۰۸ اور عربی زبان میں: الحافظ السخاوی و جہودہ فی علوم الحدیث : د.بدر بن محمد بن محسن العماش۔ مجلدین۔ مکتبۃ الرشد۔ریاض۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ سخاوی جیسے بلند پایہ عالم جنہوں نے معتبر و غیر معتبر روایات میں فرق اور فتاوی حدیثیہ کے بارے میں دو کتابیں لکھیں: المقاصد الحسنۃ اور الاجوبۃ المرضیۃ۔ وہ کس طرح اپنی کتاب میں ایسی حدیث ذکر کرسکتے ہیں جو موضوع ہو اور اسے ذکر کرنا تحقیق کے خلاف ہو۔ اس قسم کے محقق سے یہ با ت بعید ہے۔
موصوف کی کتاب ’’القول البدیع‘‘کو اللہ تعا لی نے بڑی قبولیت اور جامعیت سے نوازا ہے۔
چنانچہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی(۹۰۹۔۹۷۴ھ) اپنی کتاب الدر المنضود کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
فلا تری منھم من احاط ببعض کتب ھذا المقصد الاسنی الا الشاذ النادر،الذی خلصہ اللہ من الحظوظ و العنا؛ لاشتمالھا علی بعض البسط و زیادۃ التاصیل و التفریع، ککتاب الحافظ السخاوی المسمی ب’’القول البدیع‘‘،ھذا مع انہ احسنھا جمعا ،واحکمھا وضعا،و احقھا بالتقدیم،واولاھا بالاحاطۃ،لما فیہ من التحقیق والتقسیم۔ (۱۵)
حافظ مرتضی زبیدی حنفی (المتوفی۱۲۰۵ھ) ’شرح احیاء‘ میں لکھتے ہیں:
ہو احسن کتاب صنف فی الصلاۃ علیہ، صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۱۶)
.....................................................................................
شیخ الشیوخ علامہ نبھانی نے اپنی کتاب ’سعادۃ الدارین‘ میں حافظ سخاوی کی کتاب کا یوں تعارف کروایا ہے:
واجمل ھذہ الکتب و اجمعھا،و افضلھا فی علم ھذا الفن و انفعھا:القول البدیع۔ (۱۷)
موصوف کے علمی کمالات و کارناموں پر ایک علمی مقالہ لکھا گیا جس پر مصنف کو جامعہ اسلامیۃ مدینہ منورۃسے۱۴۱۹ھ  میں دکتوراہ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اسی طرح موصوف کی تصنیفات و تالیفات پر ایک کتاب بہ نام ’مؤلفات السخاوی‘ لکھی گئی جو دار ابن حزم سے ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث کو موضوع کس نے قرار دیا؟اب تک ایسی کتاب یا کسی محدث کی عبارت نظروں سے نہیں گزری جس نے اسے موضوع قرار دیا ہو؟۔
بالفرض اگر کسی کے ذہن میں اس کے موضوع ہونے کا خیا ل آتا ہے تو شاید اس کے ذہن میں ہو کہ اتنے چھوٹے سے عمل پر اتنا بڑا ثواب کیسے مل سکتا ہے؟جیسا کہ محدثین نے موضوع حدیث کے پہچاننے کے لئے اسے علامت کے طور پر لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو:
تدریب الراوی: ص:۲۴۰،ظ: دار الحدیث۔
چنانچہ شیخ محمد عوامہ۔حفظہ اللہ۔نے القول البدیع کے مقدمہ میں عارف باللہ ابن عطاء اللہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
’’من فاتہ کثرۃ الصیام والقیام فعلیہ ان یشتغل نفسہ بالصلاۃ علی رسول اللہ ﷺ ۔فانک لو فعلت فی جمیع عمرک کل طاعۃ ثم صلی اللہ علیک صلاۃ واحدۃ،رجحت تلک الصلاۃ الواحدۃ علی کل ما عملتہ فی عمرک کلہ من جمیع الطاعات،لانک تصلی علی قدر وسعک وہو یصلی حسب ربوبیتۃ۔
خلاصہ تحقیق:
۱۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھے جانے والا خاص درود شریف کا ثبوت احادیث کی کتابوں سے ملتا ہے۔
۲۔ ثواب کی نیت سے اس کو پڑھ سکتے ہیں۔
۳۔ اس کو بیان بھی کرسکتے ہیں۔ اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
......................................................................
المراجع و المصادر
۱۔ الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب ذلک ،ص:۱۴،ط:دار الکتب العلمیۃ۔۱۴۲۴ھ.
۲ ۔ سیر اعلام النبلاء :۱۶/۴۳۱،ط:مؤسسۃ الرسالۃ۔بیروت.
۳۔ملاحظہ ہو:باب فضل الصلاۃ علی البی ﷺ عشیۃ الخمیس ویوم الجمعۃ،ص:۱۱۱،تحقیق:سید محمد سید،خلاف محمود عبد السمیع،ط:دار الکتب العلمیۃ۔الطبعۃ الاولی۱۴۲۰.
۴۔ سیر:۲۱/۱۳۹.
۵۔ ملاحظہ ہو: مسند الفردوس:۲/۴۰۸،رقم الحدیث:۳۸۱۴،تحقیق: سعید بن بسیونی زغلول،ط:دار الکتب العلمیۃ.
۶: سیر:۱۷/۲۵۶.
۷: شرف المصطفی:۵/۱۰۲،ط:دار البشائر۔۱۴۲۴ھ.
۸۔ تحقیق:محمد عوامہ،ط:دار الیسر.
۹۔ کتاب الصلۃ:۱/۱۳۴،ط:دار الکتاب المصری.
۱۰۔سیر اعلام النبلاء:۱۹/۱۹۹،الصلۃ:۳/۸۲۳.
۱۱۔ فہرست بن خیر:۲۴۶،ط:موسسۃ الخانجی۔القاہرۃ.
۱۲۔ سیر:۱۷/۵۶۹.
۱۳۔ تاریخ الاسلام:۶/۹۷۹.
۱۴۔ القول البدیع:ص:۳۹۹،ط:دار الیسر.
۱۵۔ الدر المنضود،ص:۳۴،الناشر:دار المنہاج،جدۃ ،الاولی۔۱۴۲۶ھ.
۱۶۔ شرح احیاء:۳ /۲۹۰،ط:مؤسسۃ التاریخ العربی،بیروت لبنان۔۱۴۱۴ھ.
۱۷۔ القول البدیع، ص:
----------------

It’s been taken from the Hadith that Abu Hurara Razi Allah Tala Anhu (رضی اللہ reports : 
A person who reads this Darood-e-Pak prior to leaving his place after Asr (The afternoon prayer), his sins of  80 yrs will be forgiven and 80 yrs ebadat will be written in his account
----------------------
------------------



Thursday 30 May 2019

الوداعی جمعہ اور الوداعی خطبہ کی شرعی حیثیت

الوداعی جمعہ اور الوداعی خطبہ کی شرعی حیثیت
سوال و جواب
(مسئلہ نمبر 115)
سوال: ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے؛ اس لئے بعض لوگ نیا کپڑا سلواتے ہیں اور اس کا خطبہ بھی الگ طرح سے پڑھتے ہیں، شرعا اس کی کیا حیثیت ہے؟ (ایک دینی بھائی، بہرائچ، یوپی)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و بااللہ التوفيق والصواب 
یہ نہایت افسوس کی بات ہے؛ کہ قرآن و سنت کی باتیں عام ہوجانے کے بعد بھی ہمارے ملک ہندوستان میں آج بھی بعض ایسی باتیں عوام ہی نہیں علماء کے درمیان بھی باقی ہیں جن کا شریعت اسلامی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی قرآن و سنت اور معتبر علماء و فقہاء کی کتابوں میں ان کا ذکر ہے؛ بلکہ ان کی تردید میں علماء کرام نے صفحات کے صفحات سیاہ کردیئے ہیں، انہیں غیر ثابت اور خلاف دین و شریعت کاموں میں سے الوداعی جمعہ اور الوداعی خطبہ بھی ہے۔

یہ عجیب بات ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود بھی الوداعی جمعہ کی کوئی الگ سے فضیلت پورے ذخیرۂ حدیث میں نہیں مل سکی اور نہ ہی اس خطبہ کی کوئی اصل مل سکی جسے اکثر ہمارے یہاں ائمہ خطبے میں پڑھتے ہیں؛ بلکہ متعدد اہل علم و فضل نے اسے بدعت اور واجب الترک قرار دیاہے چنانچہ فتاوی محمودیہ میں ہے:
رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں خطبہ الوداع پڑھنا قرونِ مشہودلہا بالخیر سے ثابت نہیں، فقہاء نے اس کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا، مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بدعتِ ممنوع ہونے کی تفصیل سے مدلل بیان فرمایا ہے(1)
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداع والفراق والسلام یا شھر رمضان وغیرہ کے الفاظ سے خطبتہ الوداع پڑھنا آپ علیہ السلام , خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہل فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے، ابو الحسنات حضرت مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی نے مجموعة الفتاوی اور خلاصتہ الفتاوی کے حاشیہ میں اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے فتاوی رشیدیہ میں اور حضرت تھانوی نے امدادالفتاوی میں اورمفتی عزیز الرحمٰن نے فتاوی دارالعلوم میں اور مفتی محمود الحسن صاحب نے فتاوی محمودیہ میں اور مفتی شفیع صاحب نے امدادالمفتیین میں بدعت اور مکروہ لکھا ہے (2).
اس لئے اس جمعہ کی الگ سے کوئی فضیلت سمجھنا غلط ہے اور اس قسم کے خطبہ کو چھوڑنا ضروری ہے فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
مصادر ومراجع:
(1) فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۹۵، مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۵۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۴۱۲، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(2) خلاصة الفتاوی 329/4 فتاوی رشیدیہ ص 123 امداد الفتاوی 685/1 فتاوی دارالعلوم دیوبند 96/5 فتاوی محمودیہ 416/12 امداد المفتین ص 404 
حرره العبد محمد زبیر الندوی 
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا۔ 
رابطہ 9029189288
مؤرخہ 23/6/2017
نوٹ: دینی مسائل عام کرنا اور دوسروں تک پہنچانا ثواب جاریہ ہے
-------------------
سوال: شریعت میں ''الوداعی جمعہ'' کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اس کی تیاری کرتے تھے؟  نیز جمعۃ الوداع میں جو مخصوص خطبہ پڑھا جاتا ہے صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!
جواب: رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور بطور '' جمعۃ الوداع'' منانا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ  کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔

نیز  ’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔  ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی رحمہ اللہ  نے ''مجموعۃ الفتاوی'' اور ''خلاصۃ الفتاوی'' (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ''فتاوی رشیدیہ'' (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ''امداد الفتاوی'' (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ''فتاوی دارالعلوم دیوبند'' (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ''فتاوی محمودیہ''  مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12)  میں، اور مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے ''امداد المفتیین'' (ص: 404) میں بد عت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ) فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
------------------
سوال: الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہواتھا ، سب سے پہلے کس نے پڑھا تھا؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ کیا الوداع جمعہ کے حقوق اور خطبہ الگ ہونے چاہئے؟ یا پھر کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتا ہے؟
الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہوا، سب سے پہلے اس خطبہ کو کس نے پڑھا اس کی صراحت مجھے نہیں مل سکی، البتہ خطبہ کا وجود قرون مشہود لہا بالخیر میں نہیں تھا، فقہاء نے اس خطبہ کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ اس خطبہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں بلکہ علماء نے اس کو مکروہ وبدعت تک لکھا ہے، اس لیے رمضان کے آخری جمعہ میں بھی عام خطبہ ہی پڑھا جائے۔


Friday 24 May 2019

فقہیاتِ رمضان (40) ماہ رمضان؛ فضائل و مسائل خواتین کے اعتکاف کے مسائل

فقہیاتِ رمضان (40) ماہ رمضان؛ فضائل و مسائل خواتین کے اعتکاف کے مسائل
● حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو اٹھالیا پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں۔ (بخاری)
● ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ایک بیوی نے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف کیا اور وہ سرخی اور زردی دیکھتی تھیں، اکثر ہم لوگ ان کے نیچے ایک طشت رکھ دیتے تھے اور وہ نماز پڑھتی تھیں۔ (بخاری)
● مسلم کی روایت میں فرماتی ہیں کہ حضور اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم  جب آخری عشرہ میں داخل ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور عبادت میں خوب کوشش کرتے اور تہبند مضبوط باندھ لیتے۔
فائدہ: آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں، اسی لئے فقہا نے لکھا ہے کہ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسجد البیت یعنی گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں، اگر مسجد البیت نہ ہو تو مکان کے کسی حصہ کو مسجد قرار دے کر اس میں اعتکاف کریں، بلا ضرورت اس حصہ سے باہر نہ نکلیں، مکان کا وہ حصہ ہی ان کے حق میں مسجد کے حکم میں ہو جائے گا چنانچہ عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔ (مستفاد از مظاہر حق)
فتاوی یوسفی میں ہے کہ:
عورت بھی اِعتکاف کرسکتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر میں جس جگہ نماز پڑھتی ہے اس جگہ کو یا کوئی اور جگہ مناسب ہو تو اس کو مخصوص کرکے وہیں دس دن سنت اِعتکاف کی نیت کرکے عبادت میں مصروف ہوجائے، سوائے حاجاتِ شرعیہ کے اس جگہ سے نہ اُٹھے، اگر اِعتکاف کے دوران عورت کے خاص ایام شروع ہوجائیں تو اِعتکاف ختم ہوجائے گا، کیونکہ اِعتکاف میں روزہ شرط ہے۔
فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ:
عورتوں کو مسجد کے احاطہ میں اعتکاف کرنا درست نہیں، {للأدلة الدالة علی منع الخروج من بیتھا} عورتوں کے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز کے لئے مقرر کر رکھی ہو اور اگر اس کے گھر میں کوئی جگہ نماز کے لئے مقرر نہیں ہے تو کسی جگہ کو نماز کے لئے مقرر کرکے وہاں پر اعتکاف کریں، عالمگیری (۱/ ۲۱۱) میں ہے :
{والمرأة تعتکلف فی مسجد بیتها إذا اعتکفت فی مسجد بیتها فتلک البقعة في حقها کمسجد الجماعة فی حق الرجل}
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے تو آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں، لیکن ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں۔ (مرقاة ۴/ ۳۲۶ امدادیه)
● اگر عورت حالت استحاضہ میں ہو تو اعتکاف کرسکتی ہے، البتہ حالتِ حیض ونفاس میں اعتکاف درست نہیں، کیونکہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے، اور اگر دورانِ اعتکاف حیض یا نفاس شروع ہوگیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
{قال فی البدائع (۲؍۲۷۴) والطهارۃ عن الجنابة والحیض والنفاس، وأنها شرط للجواز في نوعَی الإعتکاف الواجب والتطوع جمیعا}
قال فی الشامی ( ۳ ؍۴۳۰ زکریا ) والحائض والنفساء لیسا بأهل للصلاۃ أي فلا یصح اعتکافهما
ایام روکنے کے لئے دوا کا استعمال کرنا:
● عورت کے لئے اپنے اعتکاف کے دنوں میں دوا استعمال کرنا جائز تو ہے مگر دوا استعمال نہ کرنا بہتر ہے، کیونکہ دوا سے صحت پر بھی برا اثر پڑے گا، جس روز ماہواری آئے، اعتکاف ختم کردے کیونکہ ماہواری کی حالت میں اعتکاف نہیں ہوتا، پھر بعد میں ایک روزہ کے ساتھ اعتکاف کی قضا کرلے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
اعتکاف میں کھانا پکانا:
● اگر اس کا کوئی کھانا پکانے والا نہ ہو تو مسجد البیت میں کھانا پکاسکتی ہے، مسجد البیت پر تمام احکام مسجد کے جاری نہیں ہوتے۔ (فتاوی محمودیہ جلد پندرہ)
دایہ کا خدمت انجام دینا:
● عورت کا معتکف مسجد کے حکم میں نہیں ہے، لہٰذا اس معتکف میں اگر وہ کسی عورت کو بچہ جنوائے، تو اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم بہتر یہی ہے کہ بحالتِ اعتکاف ایسا عمل نہ کرے۔ (فتاوی محمودیہ)
{قال فی البدائع (۲؍۲۸۲-۲۸۱) ومسجد بیتها لیس بمسجد حقیقة، بل ھو اسم للمکان المعد للصلوۃ في حقها، حتی لایثبت له شيء من أحکام المسجد الخ} (مستفاد از کتاب النوازل جلد ششم)
خواتین کا مسجد میں اعتکاف کرنا جائز نہیں:
عورتوں کے مسجد میں آنے کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ کرنا شروع کردیا، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی زندگی میں دیکھ لیتے تو خود ہی ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا۔(بخاری ۱/ ۱۲۰) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس دور کی بات کررہی ہیں، جو خیر القرون کا زمانہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کافی تعداد موجودتھی، معاشرہ برائیوں سے پاک تھا، اس وقت کے حالات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظر میں اس قابل تھے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا جائے، موجودہ دور تو اس دور سے بہت مختلف ہے، اب تو ہر طرف بدامنی، فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلی ہوئی ہے تو آج کل تو بدرجہ اولیٰ ان کو مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے، نیز اگرچہ کتابوں میں عورتوں کے مسجد میں اعتکاف کے بارے میں کراہت تنزیہی کا قول منقول ہے لیکن علامہ طحطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف کے مسئلہ کو بھی نماز کے مسئلہ پر قیاس کیا جائے یعنی جس طرح عورتوں کا نماز کیلئے مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح اعتکاف کیلئے بھی مسجد میں آنا مکروہ تحریمی ہے تاکہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کے مسئلے میں کوئی تردد باقی نہ رہے، نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے، اس لئے علماء کرام نے عورتوں کے مسجد میں آنے کے بارے میں (خواہ نماز پڑھنے کیلئے ہو یا اعتکاف وغیرہ کیلئے ہو) ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
{لمافی المسلم (۱۸۳/۱) عن عمرۃ بنت عبدالرحمن انھا سمعت عائشۃ زوج النبی ﷺ تقول: لو ان رسول ﷲ ﷺ رای ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قال: فقلت لعمرۃ النساء بنی اسرائیل منعن المسجد قالت نعم}
عورت کا اعتکاف کیلئے پورا کمرہ مختص کرنا:
گھر میں جو جگہ نماز کیلئے مختص ہو، عورت اسی جگہ میں اعتکاف کیلئے بیٹھ سکتی ہے، اگر کوئی جگہ نماز کیلئے مختص نہ ہو تو پہلے ایک جگہ کو مختص کرنا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر اعتکاف میں عورت کیلئے بیٹھنا جائز نہیں ہے چنانچہ اگر پورا کمرہ نماز کیلئے مختص ہے تو اس میں اعتکاف درست ہے اور اگر کمرہ نماز کیلئے مختص نہیں ہے تو پہلے پورے کمرے کو نماز کیلئے مختص کریں، پھر اس میں اعتکاف درست ہوگا۔
دورانِ اعتکاف کھانا پکانا:
دورانِ اعتکاف کھانا پکانے کا حکم یہ ہے کہ اگر گھر میں اور کوئی نہ ہو جو کھانا پکاسکے تو ضرورت کی وجہ سے اپنے اعتکاف کی جگہ میں ہی کھانا پکاسکتی ہیں۔
{لمافی الھندیۃ (۲۱۱/۱) والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ فی حقھا کمسجد الجماعۃ فی حق الرجل لاتخرج منہ الالحاجۃ الانسان کذا فی شرح المبسوط للامام السرخسی}
معتکف سے بلاضرورت نکلنا جائز نہیں:
عورت کو اپنے گھرمیں اس جگہ سے جہاں نماز پڑھتی ہو یا اس جگہ سے جس کو اعتکاف کیلئے مخصوص کرلیا ہو، سوائے ضروری حاجات (پیشاب، پاخانہ، غسل جنابت) کے باہر نکلنا جائز نہیں، جب حاجت کیلئے نکلے تو حاجت پوری کرنیکے بعد فورا اپنی جگہ واپس آجائے۔
گھر والوں سے بات چیت کرنا:
دوران اعتکاف قرآن مجید کی تلاوت، ذکر و تسبیحات و نوافل وغیرہ جیسے مشاغل میں مصروف رہے، بلا ضرورت بات چیت سے احتراز کرے، کھانا، پینا، سونا اعتکاف کی جگہ ہی میں کرے، عورت اپنے گھر والوں کیلئے اپنے اعتکاف کی جگہ سے نکل کر سحری وغیرہ نہیں پکا سکتی اور نہ ہی باہر نکل کر گھر والوں کے ساتھ سحری و افطاری کرسکتی ہے، البتہ اپنے اعتکاف کی جگہ رہتے ہوئے اہم بات چیت ہر وقت کرسکتی ہے، بلا ضرورت اور تفصیلی بات چیت سے احترازکرے۔ (مستفاد از نجم الفتاوی جلد سوم)
خواتین کے لئے اعتکاف میں معمولات:
اعتکاف میں کوئی خاص ذکر منقول نہیں ہے، اتنی عبادت کریں کہ آئندہ دنوں کے لئے بشاشت رہے، ابتداء میں جوش ہو اور بعد میں طبیعت میں سستی آجائے تو یہ مناسب نہیں، خواتین کو چاہیئے کہ وہ کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں اور ساتھ ساتھ یہ اذکار کریں:
1- استغفار: استغفر اللہ الذی لا اله الا ھو الحی القیوم وأتوب إلیه
2- کلمہ طیبہ: لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ
3-  تیسرا کلمہ: سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰه الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم
4- درود شریف: اللہم صل علی محمد النبی الأمی وعلی آله وصحبه وسلم
یہ اذکار کم از کم صبح وشام سو سو مرتبہ پڑھیں اور کثرت سے شب قدر میں یہ دعا پڑھیں:
اللہم إنک عفو تحب العفو فاعف عنا۔
اس کے ساتھ ساتھ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین پڑھنے کا اہتمام کریں۔ (مستفاد از فتاوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)

https://saagartimes.blogspot.com/2019/05/40.html

   

اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب

اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب

حدیث: اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھنے کا ثواب۔۔۔ کی شرح.......
صحیحین کی روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا (صحيح البخاري:2840 و صحيح مسلم: 1153)
ترجمہ: جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کردیتا ہے۔
اس حدیث میں چند مسائل ہیں۔
(1) صوم سے مراد: اس صوم سے مراد نفلی روزہ ہے۔
(2) فی سبیل اللہ سے مراد: 
سبیل اللہ سے کیا مراد ہے؟ اس سے متعلق علماء میں دو رائیں ہیں ۔ پہلی رائے جہاد ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن عثیمینؒ بھی ہیں۔ دوسری رائے اللہ کی خوشنودی ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن بازؒ ہیں۔ 
ویسے سبیل اللہ کا عام طور سے اطلاق جہاد پر ہی ہوتا ہے ساتھ ہی بسااوقات طاعت کے کاموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اس وجہ سے یہاں عام معنی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طور پر مراد لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا معنی ہوگا۔
(3) لفظ بعد بخاری کا لفظ ہے، مسلم میں باعد کا لفظ ہے۔ اس کا معنی ہے دور کرنے کے یعنی جہنم سے دور کرنا۔
(4) سبعین خریف: خریف سے مراد سال ہے، اس طرح اس کا معنی ہوگا ستر سال ۔
(5) الفاظ کا اختلاف: اس روایت میں سبعین خریف کا لفط ہے جبکہ اس کے برخلاف دوسری صحیح روایات میں سوسال اور اس سے زیادہ بھی آیا ہے ۔
سوسال والی روایت:
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ باعدَ اللَّهُ منهُ جَهَنَّمَ مَسيرةَ مائةِ عامٍ(صحيح النسائي:2253)
ترجمہ : جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے جہنم سے سوسال کی مسافت کے قریب دور کردیتا ہے۔ 
٭شیخ البانی نے اسے صحیح النسائی میں حسن قرار دیا ہے 
پانچ سو سال والی روایت:
من صامَ يومًا في سبيلِ اللَّهِ جعلَ اللَّهُ بينَهُ وبينَ النَّارِ خَندقًا كما بينَ السَّماءِ والأرضِ (صحيح الترمذي:1624)
ترجمہ: جو آدمی اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ سے رہے، اس کے لیے اللہ رب العزت اس کے اور جہنم کے درمیان خندق یعنی گڑھا کھود دیتا ہے، جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہوتی ہے۔
٭ شیخ البانی نے اسے صحیح الترمذی میں حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
٭ یہاں پانچ سو سال کا معنی اس طرح بنتا ہے کہ زمیں سے لیکر آسمان تک کی دوری پانچ سو سال ہے۔ 
ان مختلف مسافت کا علماء نے کئی ایک جواب دیا ہے۔ 
پہلا جواب: سبعین سے مراد کثرت ہے یعنی اللہ تعالی بندے کو جہنم سے بہت دور کردے گا۔ یہ واضح رہے کہ عرب میں سبعین کا استعمال مبالغہ کے لئے ہوتا ہے۔ 
دوسرا جواب: روزے کی مشقت وشدت کے اعتبار سے درجے کا فرق ہے ۔ 
تیسرا جواب: ستر کا سو یا پانچ سو سےکوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ آسمان کی اکثر مسافت پانچ سو ہے جبکہ اقل سترسال ۔اس طرح ستر اور سو پانچ سو میں داخل ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب.

-----------
سوال: میرے دوسوالا ت ہیں:
(۱) ہمارے تبلیغی جماعت والے بھی اکثر دو احادیث کو ملا کر یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے راستے میں نکلا کر و۔ اس سے نماز کے ثواب 490000000 ( انچاس کروڑ ) ہوجاتے ہیں ۔ اس بار ے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟
(۲) کیا تبلیغی جماعت میں جانا اللہ کے راستے میں داخل ہے؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) یہ محض تبلیغی جماعت والوں کا ہی بیان نہیں، بلکہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں شراحِ حدیث نے یہ مطلب بیان کیا ہے بذل المجھود في حل أبي داوٴد وغیرہ میں بھی ہے۔
(۲) بلاشبہ داخل ہے، اس سلسلہ میں بہت عمدہ مدلل و مفصل کلام الاعتدال في مراتب الرجال المعروف بـ اسلامی سیاست اردو میں ہے، یہ کتاب دیوبند، دہلی وغیرہ کے کتب خانوں میں عامةً قیمتاً دستیاب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
-----------------------------------


نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی تین پسندیدہ چیزیں

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی تین پسندیدہ چیزیں 
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((حبّب إليّ من دنیا کم ثلاث: الطیب و النساء و جعلت قرۃ عیني فی الصلوٰۃ))
’’پسندیدہ بنائی گئیں میرے لیے 
۱- خوشبو اور 
۲- عورتیں اور بنائی گئی 
۳- میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں۔‘‘
(رواہ أحمد والنسائی، مشکوۃ المصابیح /ص :۴۴۹، باب فضل الفقراء، الفصل الثالث)
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ’’المنبہات‘‘ میں بیان فرمایا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسندیدہ اشیاء کا ذکر فرمایا، تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے اجازت لے کرعرض کیا: حضور! مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند ہیں:
۱- آپ کے چہرۂ انور کی طرف دیکھنا دنیا وما فیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
۲- آپ کے منشا و حکم پر اپنا مال خرچ کرنا مجھے بڑا پسند ہے۔
۳- آپ کے نکاح میں اپنی بیٹی دینا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: حضور! مجھے بھی تین چیزیں بہت پسند ہیں:
۱- امر بالمعروف کرنا، حسنات و معروفات کی اشاعت کرنا مجھے بہت پسند ہے۔
۲- نہی عن المنکر کرنا، برائیوں کا خاتمہ کرنا مجھے بہت پسند ہے۔
۳- پرانے (مگر پاک صاف) کپڑے پہننا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
پھر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی تین پسندیدہ چیزیں پیش کیں: 
۱- بھوکوں کو کھانا کھلانا پسند ہے۔
۲- نادار اور ننگوں کو کپڑا پہنانا پسند ہے۔
۳- قرآن کریم کی تلاوت کرنا بھی بہت پسند ہے۔
اخیر میں سیدنا علی کرم اﷲ وجہہٗ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنی تین پسندیدہ چیزیں عرض کیں:
۱- مہمانوں کی خدمت کرنا بہت پسند ہے۔
۲- جہاد بالسیف، یعنی راہِ حق میں تلوار سے جہاد کرنا بہت پسند ہے۔
۳- شدید گرمیوں میں روزے رکھنا بھی بہت پسند ہے۔
ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان جلیل القدر صحابہؓ کی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ سیدالملائکہ حضرت روح الامین تشریف لائے اور عرض کیا: ’’رب العالمین نے آپ تمام کی گفتگو سن کر مجھے بھیجا، تاکہ میں اپنی اور رب العالمین کی پسند بتلائوں، میری پسند تو یہ ہے:
۱- (دنیوی اور دینی اعتبار سے) بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست بتلانا مجھے بہت پسند ہے۔
۲- عیال دار، تنگ دست کی نصرت کرنا، جس کی جیب تو خالی ہو، مگر ضمیر محفوظ ہو، مجھے بہت پسندہے۔
۳- عبادت گزار غریبوں سے محبت کرنا، یعنی باضمیر غریبوں سے دوستی کرنابھی مجھے بہت پسند ہے۔
پھر فرمایا: اﷲ پاک کو اپنے بندوں سے تین چیزیں بڑی پسند ہیں:
۱- بندہ کا اپنی طاقت و استطاعت کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسندہے۔
۲- فاقہ کے وقت شکوہ کے بجائے صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
۳- گناہوں پر ندامت کے ساتھ رونا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسندہے۔
’’نزھۃ المجالس‘‘ میں علامہ عبدالرحمن صفویؒ نے فرمایا: ’’جب یہ حدیث ائمہ اربعہ کو پہنچی تو ہر ایک نے اپنی اپنی پسند بیان فرمائی، سب سے پہلے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ النعمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱- طویل رات میں جاگ کر علم حاصل کرنا مجھے بہت پسندہے۔
۲- تکبر ترک کرنا اور تواضع اختیار کرنا مجھے بہت پسندہے۔
۳- وہ دل جو دنیا کی محبت سے خالی ہو اور اللہ کی محبت سے لبریز ہومجھے بہت پسندہے۔
پھر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تین پسندیدہ اشیاء بیان فرمائیں:
۱- روضۂ اقدس کا قرب مجھے بہت پسند ہے۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک (مدینہ) سے چمٹے رہنا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
۳- اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
اس کے بعد حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱- مخلوق کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا مجھے بہت پسند ہے۔
۲- ترکِ تکلفات اور سادگی سے زندگی گذارنا مجھے بہت پسندہے۔
۳- راہِ تصوف اختیار کرنا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
اخیر میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تین پسندیدہ چیزیں بیان فرمائیں:
۱- اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری پہلی پسند ہے۔
۲- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوارات و ارشادات سے برکت حاصل کرنا بھی مجھے بہت پسند ہے۔
۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا مجھے بہت پسند ہے۔ 
(نزہۃ المجالس/ ص: ۹۹/ ج :۱)

https://saagartimes.blogspot.com/2019/05/blog-post_24.html

Thursday 23 May 2019

ﻇﺎﻟﻢ ﺣﺎﮐﻢ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ احادیث کی کتابوں میں وارد ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ

ﻇﺎﻟﻢ ﺣﺎﮐﻢ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ احادیث کی کتابوں میں وارد ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ 

▪ﺩﻋﺎﺀ ﺍﻧﺲ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ:

ﺩﻋﺎﺀ ﮐﮯ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺑﯿﺸﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﯿﮟ:

ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻛْﺒَﺮ، ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻛْﺒَﺮُ، ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻛْﺒَﺮُ،
ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠَﻰ ﻧَﻔْﺴِﻲ ﻭَﺩِيني ، ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠَﻰ ﺃَﻫْﻠِﻲ ﻭَﻣَﺎﻟِﻲ، ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠَﻰ ﻛُﻞِّ ﺷَﻲْﺀٍ ﺃَﻋْﻄَﺎﻧِﻲ ﺭَﺑِّﻲ،
ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺧَﻴْﺮِ ﺍﻟْﺄَﺳْﻤَﺎﺀِ، ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻟَﺎ ﻳَﻀُﺮُّ ﻣَﻊَ ﺍﺳْﻤِﻪِ ﺩَﺍﺀٌ،
ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺍﻓْﺘَﺘَﺤْﺖُ، ﻭَﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺗَﻮَﻛَّﻠْﺖُ،
ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺭَﺑِّﻲ، ﻟَﺎ ﺃُﺷْﺮِﻙُ ﺑِﻪِ ﺃَﺣَﺪًﺍ،
ﺃَﺳْﺄَﻟُﻚَ ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺑِﺨَﻴْﺮِﻙَ ﻣِﻦْ ﺧَﻴْﺮِﻙَ، ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻟَﺎ ﻳُﻌْﻄِﻴﻪُ ﺃَﺣَﺪٌ ﻏَﻴْﺮُﻙَ، ﻋَﺰَّ ﺟَﺎﺭُﻙَ، ﻭَﺟَﻞَّ ﺛَﻨَﺎﺅُﻙَ، ﻭَﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﻏَﻴْﺮُﻙَ،
ﺍﺟْﻌَﻠْﻨِﻲ ﻓِﻲ ﻋِﻴَﺎﺫِﻙَ ﻣِﻦْ ﺷَﺮِّ ﻛُﻞِّ ﺳُﻠْﻄَﺎﻥٍ، ﻭَﻣِﻦْ ﻛُﻞِّ ﺟَﺒَّﺎﺭٍ ﻋَﻨِﻴﺪٍ ، ﻭَﻣِﻦَ ﺍﻟﺸَّﻴْﻄَﺎﻥِ ﺍﻟﺮَّﺟِﻴﻢِ۔
ﺇِﻥَّ ﻭَﻟِﻴَّﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻧَﺰَّﻝَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ، ﻭَﻫُﻮَ ﻳَﺘَﻮَﻟَّﻰ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﻴﻦَ، ﻓَﺈِﻥْ ﺗَﻮَﻟَّﻮْﺍ ﻓَﻘُﻞْ : ﺣَﺴْﺒِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻻ ﺇِﻟﻪَ ﺇِﻟَّﺎ ﻫُﻮَ، ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺗَﻮَﻛَّﻠْﺖُ ﻭَﻫُﻮَ ﺭَﺏُّ ﺍﻟْﻌَﺮْﺵِ ﺍﻟْﻌَﻈِﻴﻢِ۔
ﺍﻟﻠّٰﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺃﺳﺘَﺠﻴﺮُﻙ ﻣِﻦْ ﺷَﺮِّ ﺟَﻤِﻴﻊِ ﻛُﻞِّ ﺫِﻱ ﺷَﺮٍّ ﺧَﻠَﻘْﺘَﻪُ، ﻭَﺃَﺣْﺘَﺮِﺯُ ﺑِﻚَ ﻣِﻨْﻬُﻢْ ، ﻭَﺃُﻗَﺪِّﻡُ ﺑَﻴْﻦَ ﻳَﺪَﻱَّ : ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﻴﻢِ} ﻗُﻞْ ﻫُﻮَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﺣَﺪٌ، ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺍﻟﺼَّﻤَﺪُ، ﻟَﻢْ ﻳَﻠِﺪْ ﻭَﻟَﻢْ ﻳُﻮﻟَﺪْ، ﻭَﻟَﻢْ ﻳَﻜُﻦْ ﻟَﻪُ ﻛُﻔُﻮًﺍ ﺃَﺣَﺪٌ {، ﻭَﻣِﻦْ ﺧَﻠْﻔِﻲ ﻣِﺜْﻞَ ﺫَﻟِﻚَ، ﻭَﻋَﻦْ ﻳَﻤِﻴﻨِﻲ ﻣِﺜْﻞَ ﺫَﻟِﻚَ، ﻭَﻋَﻦْ ﻳَﺴَﺎﺭِﻱ ﻣِﺜْﻞَ ﺫَﻟِﻚَ، ﻭَﻣِﻦْ ﻓَﻮْﻗِﻲ ﻣِﺜْﻞَ ﺫَﻟِﻚَ ، ﻭَﻣِﻦْ ﺗَﺤْﺘِﻲ ﻣِﺜْﻞَ ﺫَﻟِﻚَ، ﻭَﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻰ ﻣُﺤَﻤَّﺪٍ.

💡ﺗﺨﺮیجہ:
ﻋﻤﻞ ﺍﻟﻴﻮﻡ ﻭﺍﻟﻠﻴﻠﺔ ﻻﺑﻦ ﺍﻟﺴﻨﻲ ‏(ﺹ: 307‏)، ﺍﻟﺪﻋﺎﺀ ﻟﻠﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ‏(ﺹ: 323)، ﺍﻟﻔﻮﺍﺋﺪ ﺍﻟﻤﻨﺘﻘﺎﺓ ﻻﺑﻦ ﺍﻟﺴﻤﺎﻙ ‏(ﺹ: 27 )، ﺍﻟﻤﻨﺘﻈﻢ ﻓﻲ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺍﻟﻤﻠﻮﻙ ﻭﺍﻷﻣﻢ ‏(/6 339 ‏) ، ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺩﻣﺸﻖ ﻻﺑﻦ ﻋﺴﺎﻛﺮ ‏(/52 259 ‏)، ﻣﺠﻤﻮﻉ ﺭﺳﺎﺋﻞ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﺍﻟﻌﻼﺋﻲ ‏(ﺹ: 358 ‏) ﺍﻟﺨﺼﺎﺋﺺ ﺍﻟﻜﺒﺮﻯ ‏(/2 298 ‏)، ﺳﺒﻞ ﺍﻟﻬﺪﻯ ﻭﺍﻟﺮﺷﺎﺩ ﻓﻲ ﺳﻴﺮﺓ ﺧﻴﺮ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩ ‏(/10 228‏) ولہ شواھد تقوی اسانیدہ۔

▪ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ رضی اللہ عنہ: ‏

«ﺇِﺫَﺍ ﺗَﺨَﻮَّﻑَ ﺃَﺣَﺪُﻛُﻢُ ﺍﻟﺴُّﻠْﻄَﺎﻥَ ﻓَﻠْﻴَﻘُﻞ: ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺭَﺏَّ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﻭَﺍﺕِ ﺍﻟﺴَّﺒْﻊِ، ﻭَﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺮْﺵِ ﺍﻟْﻌَﻈِﻴﻢِ، ﻛُﻦْ ﻟِﻲ ﺟَﺎﺭًﺍ ﻣِﻦْ ﺷَﺮِّ (ﻓُﻠَﺎﻥِ ﺑْﻦِ ﻓُﻠَﺎﻥٍ)- ﻳَﻌْﻨِﻲ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻳُﺮِﻳﺪُ - " ﻭَﺷَﺮِّ ﺍﻟْﺠِﻦِّ ﻭَﺍﻟْﺈِﻧْﺲِ، ﻭَﺃَﺗْﺒَﺎﻋِﻬِﻢْ ﺃَﻥْ ﻳَﻔْﺮُﻁَ ﻋَﻠَﻲَّ ﺃَﺣَﺪٌ ﻣِﻨْﻬُﻢْ، ﻋَﺰَّ ﺟَﺎﺭُﻙَ، ﻭَﺟَﻞَّ ﺛَﻨَﺎﺅُﻙَ، ﻭَﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﻏَﻴْﺮُﻙَ ‏»

💡تخریجہ:
ﺭﻭﺍﻩ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ، ﻭﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻋﺎﺀ 1056، ﻭﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ ﺍﻷﺩﺏ . 707 ﺭﻭﻱ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ ﻭﻣﻮﻗﻮﻓﺎ واسنادہ لا بأس بہ.

▪ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما: 

ﺇِﺫَﺍ ﺧِﻔْﺖَ ﺳُﻠْﻄَﺎﻧًﺎ ﺃَﻭْ ﻏَﻴْﺮَﻩُ، ﻓَﻘُﻞْ : ﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﺇِﻟَّﺎ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺍﻟْﺤَﻠِﻴﻢُ ﺍﻟْﻜَﺮِﻳﻢُ، ﺳُﺒْﺤَﺎﻥَ ﺭَﺏِّ ﺍﻟﺴَّﻤَﻮَﺍﺕِ ﺍﻟﺴَّﺒْﻊِ ﻭَﺭَﺏِّ ﺍﻟْﻌَﺮْﺵِ ﺍﻟْﻌَﻈِﻴﻢِ، ﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﺇِﻟَّﺎ ﺃَﻧْﺖَ، ﻋَﺰَّ ﺟَﺎﺭُﻙَ، ﻭَﺟَﻞَّ ﺛَﻨَﺎﺅُﻙَ، ﻭَﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﻏَﻴْﺮُﻙَ ۔

💡تخریجہ:
ﺭﻭﺍﻩ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺴﻨﻲ ﻓﻲ ﻋﻤﻞ ﺍﻟﻴﻮﻡ ﻭﺍﻟﻠﻴﻠﺔ ‏(345‏) ﻭاسنادہ ﺿﻌﻴﻒ.

▪ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ رضی اللہ عنہ: 

ﺇِﺫَﺍ ﺃَﺗَﻴْﺖَ ﺳُﻠْﻄَﺎﻧًﺎ ﻣَﻬِﻴﺒًﺎ ﺗَﺨَﺎﻑُ ﺃَﻥْ ﻳَﺴْﻄُﻮَ ﺑِﻚَ ﻓَﻘُﻞ : ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻛْﺒَﺮُ، ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻛْﺒَﺮُ ﻣِﻦْ ﺧَﻠْﻘِﻪِ ﺟَﻤِﻴﻌًﺎ، ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻋَﺰُّ ﻣِﻤَّﺎ ﺃَﺧَﺎﻑُ ﻭَﺃَﺣْﺬَﺭُ، ﻭَﺃَﻋُﻮﺫُ ﺑِﺎﻟﻠَّﻪِ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﺇِﻟَّﺎ ﻫُﻮَ ﺍﻟْﻤُﻤْﺴِﻚِ ﺍﻟﺴَّﻤَﺎﻭَﺍﺕِ ﺍﻟﺴَّﺒْﻊِ ﺃَﻥْ ﻳَﻘَﻌْﻦَ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﺇِﻟَّﺎ ﺑِﺈِﺫْﻧِﻪِ، ﻣِﻦْ ﺷَﺮِّ ﻋَﺒْﺪِﻙَ (ﻓُﻠَﺎﻥٍ) ﻭَﺟُﻨُﻮﺩِﻩِ، ﻭَﺃَﺗْﺒَﺎﻋِﻪِ، ﻭَﺃَﺷْﻴَﺎﻋِﻪِ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﺠِﻦِّ ﻭَﺍﻟْﺈِﻧْﺲِ، ﺇِﻟَﻬِﻲ ﻛُﻦْ ﻟِﻲ ﺟَﺎﺭًﺍ ﻣِﻦْ ﺷَﺮِّﻫِﻢْ، ﺟَﻞَّ ﺛَﻨَﺎﺅُﻙَ، ﻭَﻋَﺰَّ ﺟَﺎﺭُﻙَ، ﻭَﺗَﺒَﺎﺭَﻙَ ﺍﺳْﻤُﻚَ، ﻭَﻟَﺎ ﺇِﻟَﻪَ ﻏَﻴْﺮُﻙَ ‏(ﺛَﻠَﺎﺙَ ﻣَﺮَّﺍﺕٍ‏).

💡تخریجہ: ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ ﺍﻷﺩﺏ ﺍﻟﻤﻔﺮﺩ 708 ﻭﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ 29177 ﻭﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻋﺎﺀ .1060 ﻭﻫﻮ ﺷﺎﻫﺪ ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ، ﺭﺟﺎﻟﻪ ﺭﺟﺎﻝ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ۔

🔹 تنبیہ: فلان بن فلان کی جگہ ظالم کا نام ذکر کریں جو بھی ہو۔

👆 ﮬﺬﺍ ﻣﺎ ﺗﯿﺴﺮ ﺟﻤﻌﮧ ﻭﺗﺮﺗﯿﺒﮧ ، ﻭالحمد للہ
رتبہ العاجز: محمد طلحہ بلال احمد منیار
https://saagartimes.blogspot.com/2019/05/blog-post_23.html


Wednesday 22 May 2019

اہل بدر کے اسماء کے خواص وبرکات کیا ہیں؟

اہل بدر کے اسماء کے خواص وبرکات کیا ہیں؟

اہل بدر کے اسماء کے خواص وبرکات کیا ہیں؟
الجواب وبالله التوفيق: 
اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں جلد پنجم مشکوۃ شریف 

اہل بدر کے اسماء کے خواص وبرکات

راوی: اللہ تعالیٰ نے اصحاب بدر کے اسماء اور ان کے ذکر میں عجیب خواص اور برکتیں رکھیں ہیں ان اسماء کے ذکر کے ساتھ مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ برہان حلبی نے سیرت کی اپنی کتاب میں لکھا ہے اور دوانی نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے مشائخ حدیث سے سنا: اہل بدر کے اسماء کے ذکر کے ساتھ جو دعا مانگی جاتی ہے، مقبول ہوتی ہے اور یہ تجربہ سے ثابت ہے۔ شیخ عبدالطلیف نے اپنا رسالہ میں لکھا ہے۔ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ کتنے ہی اولیاء اللہ کو اہل بدر کے اسماء کی برکت سے والایت کا مرتبہ ملا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جن مریضوں نے اہل بدر کے وسیلہ سے اپنے شفا کی دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا عطا فرمائی، ایک عارف باللہ کا بیان ہے کہ میں نے جب بھی کسی بیمار کے سر ہاتھ رکھ کر اخلاص کے ساتھ اہل بدر کے نام پڑھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا عطا فرما دی، بلکہ اگر موت کا وقت آگیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس میں بھی نرمی اور رعایت کا معاملہ فرماتا۔ ایک اور عارف کا بیان ہے، میں نے امور مہم میں اہل بدر کے اسماء کے ذکر کا تجر بہ زبان سے پڑھ کر اور لکھ کر کیا ، تو حقیقت یہ ہے کہ میں نے کوئی دعا اس سے جلد قبول ہونے والی نہیں پائی ۔ حضرت جعفر بن عبداللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا ، میرے والد نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت رکھوں اور یہ کہ اپنی تمام مہمات میں اہل بدر کے وسلیہ سے دعا مانگوں ، چنانچہ والد ماجد نے فرمایا تھا کہ بیٹے ! اہل بدر کے اسماء مبارک کے ذکر کے ساتھ جو دعا مانگی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب کوئی بندہ اہل بدر کے اسماء کا ذکر کرتا ہے ، یا یہ فرمایا تھا کہ جب کوئی بندہ اہل بدر کے اسماء کے ساتھ دعا مانگتا ہے تو اس وقت مغفرت ، رحمت ، برکت رضا اور رضوان اس بندہ کو گھیر لیتی ہیں، علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص روزانہ ان اسماء کا ذکر کرے اور ان اسماء کے وسیلہ سے اپنی حاجت براری کی دعا کے وقت ان اسماء کا وسیلہ پکڑنے والے کے لئے بہتر ہے کہ ہر نام کے بعد" رضی اللہ عنہ " ضرور کہے مثلا ً یوں کہے : محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، اس طرح آخر تک ہر نام کے بعد رضی اللہ عنہ کہے۔ مؤلف کتاب رحمتہ اللہ نے اس موقع پر تمام اہل بدر کے اسماء مبارک کتاب استیعاب سے نقل کرکے لکھے ہیں اور ان کے امور کا ذکر دن الفاظ ، جس ترتیب اور دعاء توسل کے جن الفاظ کے ساتھ صاحب استیعاب نے کیا ہے اسی کو مؤلف نے اختیار کیا ہے۔ البتہ صاحب استیعاب نے ان اسماء کے بعد جو دعا لکھی تھی وہ چونکہ طویل اور مشکل المعانی تھی اس لئے مؤلف نے اس دعا کے بجائے ایک ایسی مختصر جامع دعا لکھی ہے جو احادیث میں آتی ہے، دعا، توسل کے الفاظ کے ساتھ اصحاب بدر کے نام یوں ہیں،
بسم اللہ الرحمن الرحیم الہم اسالک بسیدنا محمدن المہاجری صلی اللہ علیہ وسلم وبسیدنا عبداللہ ابن عثمان ابی بکر ن الصدیق القریشی وبسیدنا عمر بن الخطاب العدوی وبسیدنا عثمان ابن عفان القریشی خلفہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی ابنتہ وضرب لہ بسہمہ وبسیدنا علی ابن ابی طالب ن الہاشمی وبسیدنا ایاس بن البکیر بسیدنا بلال بن رباح مولیٰ ابی بکرء الصدیق القرشی وبسیدنا حمزۃ بن عبد المطلب الہاشمی وبسیدنا حاطب بن ابی بلتعہ حلیف لقریش وبسیدنا ابی حذیفۃ بن عتبۃ بن ربیعۃ القرشی وبسیدنا خبیب بن عدی الانصاری وبسیدنا خنیس بن حذافۃ السہمی وبسیدنا رفاعۃ بن رافع ن الانصاری وبسیدنا رفاعۃبن عبد المنذر ابی لبابۃ الانصاری وبسیدنا الزبیر بن العوام القرشی وبسیدنا زید بن سہل ابی طلحۃ الانصاری وبسیدنا ابی زید الانصاری وبسیدنا سعد بن مالک ن الزہری وبسیدنا سعد ابن خولۃ القرشی وبسیدنا ظہیربن رافع ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن مسعود ن الہذلی وبسیدنا عتبۃ بن مسعود ن الہذلی وبسیدنا عبدالرحمن بن عوف ن الزہری وبسیدنا عبیدۃ بن الحارث القرشی وبسیدنا عبادۃ بن الصامت الانصاری وبسیدنا عمروبن عوف حلیف بنی عامر بن لؤی وبسیدنا عقبہ بن عمرون الانصاری وبسیدنا عامر بن ربیعۃ العنزی وبسیدنا عاصم بن ثابت نالانصاری وبسیدنا عویم بن ساعدۃ ن الانصاری وبسیدنا عتبان بن مالک ن الانصاری وبسیدنا وبسیدنا قدامۃ بن مظعون وبسیدنا قتادۃ بن النعمان الانصاری وبسیدنا معاذ بن عمروبن الجموع وبسیدنا معوذ بن عفراء واخیہ مالک بن ربیعۃ وبسیدنا ابی اسید ن الانصاری وبسیدنا مسطح بن اثاثہ بن عباد بن المطلب بن عبد مناف وبسیدنا مرارۃ بن الربیع الانصاری وبسیدنا معن بن عدی ن الانصاری وبسیدنا مقداد بن عمرون الکندی حلیف بنی زہرۃ وبسیدنا ہلال بن امیہ الانصاری وبسیدنا ابی عمر و بن سعد بن معاذ ن الاشہلی الانصاری وبسیدنا اسید بن حضیر ن الانصاری الاشہلی وبسیدنا اسید بن ثعلبۃ الانصاری وبسیدنا انیس بن قتادۃ الانصاری وبسیدنا انس بن معاذ ن النجاری وبسیدنا انس بن اوس ن الانصاری الاشہلی وبسیدنا اوس بن ثابت ن النجاری الانصاری وبسیدنا اوس بن خولی ن الانصاری وبسیدنا اوس بن الصامت الخزرجی الانصاری وبسیدنا اسعد ابن زرارہ النجاری الانصاری الخزرجی وبسیدنا الاسود بن زید بن عنم ن الانصاری۔
وبسیدنا ایاس بن ودفۃ الانصاری من بنی سالم بن عوف ن الخزرجی وبسیدنا الارقم بن ابی الارقم الہاشمی وبسیدنا براء بن عازب ن الخزرجی الانصاری وبسیدنا بشربن البرآء بن معرورن الانصاری الخزرجی وبسیدنا بشیر بن سعد ن الخزرجی الانصاری وبسیدنا بشیربن ابی زید ن الانصاری و بسیدنابحیر ابن ابی بحیر الجہنی النجاری وبسیدنا بشعس ابن عمرو ن الخزرجی الانصاری و بسید نابجاس بن ثعلبۃ الانصاری الخزرجی وبسیدنا تمیم بن یعار الانصاری الخزرجی وبسیدنا تمیم ن الانصاری مولیٰ بنی غنم وبیسدنا تمیم مولیٰ خراش بن الصمۃ وبسیدنا ثابت بن الجذع الانصاری الاشہلی وبسیدنا ثابت بن خالد بن عمرو بن النعمان النجاری الانصاری وبسیدنا ثابت بن الخشآء النجاری الانصاری وبسیدنا ثابت بن اقرم الانصاری حلیف بنی عمرو بن عوف وبسیدنا ثابت بن زید ن الاشہلی الانصاری وبسیدنا ثابت بن ربیعۃ الانصاری وبسیدنا ثعلبۃ بن غنمۃ الانثاری وبسیدنا ثلعبۃ بن ساعدۃ الساعدی الانصاری وبسیدنا ثعلبۃ بن عمرون النجاری وبسیدنا ثعلبۃ بن حاطب الانصاری وبسیدنا ثقف بن عمرو ن الاسلمی وبسیدنا جابر بن خالد بن مسعود ن الانصاری النجاری الاشہلی وبسیدنا جابر ابن عبداللہ الحرامی الانصاری وبسیدنا جبار بن صخرن الانصاری وبسیدنا جبیر بن ایاس الانصاری الزرقی وبسیدنا حارثہ بن النعمان النجاری الانصاری وبسیدنا حارثہ بن مالک ن الانصاری الزرقی وبسیدنا حارث بن حمیر ن الاشجعی الانصاری وبسیدنا وبسیدنا حارثہ بن حمیر ن الانصاری وبسیدنا حارث بن ہشام المخزومی القرشی وبسیدنا الحارث بن عتیک ن النجاری وبسیدنا الحارث بن قیس ن الانصاری وبسیدنا الحارث بن اوس ن الانصاری وبسیدنا الحارث بن انس ن الاشہلی الانصاری وبسیدنا الحارث بن النعمان القیسی وبسیدنا الحارث بن النعمان ابن خرمۃ الخزرجی الانصاری وبسیدنا حریث بن زید ن الخزرجی الانصاری وبسیدنا الحکم بن عمرو ن الثمالی وبسیدنا حبیب مولیٰ الانصار وبسیدنا الحصین ابن الحارث المطلبی وبسیدنا حاطب بن عمرو الاوسی وبسیدنا حرام بن ملحان النجاری وبسیدنا الخباب بن المنذر الانصاری السلمی وبسیدنا خالد بن البکیر وبسیدنا خالد بن العاصی قتل یوم بدر وبسیدنا خالد بن قیس ن الا زدی العجلانی وبسیدنا خلاد بن رافع ن العجلانی الانصاری وبسیدنا خلاد بن سوید ن الانصاری الخزرجی وبسیدنا خلاد بن عمرو ن الانصاری السملی وبسیدنا خزیمۃ بن ثابت ن الانصاری وبسیدنا خارجۃ بن زید الانصاری الخزرجی وبسیدنا خارجۃ بن حمیر الاشجعی وبسیدنا خباب بن الارت الخزاعی وبسیدنا خباب بن مولیٰ عقبہ بن عزوان وبسیدنا خزیم بن فاتک الاسدی وبسیدنا خراش بن الصمۃ الانصاری السلمی وبسیدنا خولی بن خولی العجلی الجعفی وبسدنا خبیب بن اساف الانصاری وبسیدنا خوات بن جبیر الانصاری وبسیدنا خثیمۃ بن الحارث الانصاری وبسیدنا خلیفۃ بن عدی الانصاری وبسیدنا خلیدۃ بن قیس الانصاری وبسیدنا ذکوان بن عبد قیس الانصاری وبسیدنا ذی مخبر ن الجثمی وبسیدنا ذی الشمالین الخزامی وبسیدنا رافع بن مالک ن الانصاری الخزرجی وبسیدنا رافع بن الحارث الانصاری وبسیدنا رافع بن المعلی بن زیدن الانصاری وبسیدنا رفاعۃ بن عمر و الجہنی وبسیدنا ربیعۃ بن اکثم الانصاری وبسیدنا ربیع بن ایاس ن الانصاری واخیہ وبسیدنا رجیلۃ بن ثعلبۃ الانصاری البیامی وبسیدنا زیدابن الخطاب العدوی وبسیدنا زید بن حارثہ الکلبی وبسیدنا زید بن اسلم العجلانی الانصاری وبسیدنا زید بن الدثنہ الانصاری البیاضی وبسیدنا زید بن عاصم المازنی الانصاری وبسیدنا زید بن لبید ن الانصاری البیاضی وبسیدنا زیاد بن عمرو ن الانصاری وبسیدنا زیاد بن کعب الانصاری وبسیدنا زاہر بن حرام ن الاشجعی وبسیدنا طلیب بن عمر والقرشی وبسیدنا الطفیل بن الحارث المطلبی واخیہ قتل یوم بدر وبسیدنا الطفیل بن مالک ن الانصاری وبسیدنا کعب ابن عمرو ن الانصاری السلمی وبسیدنا کعب بن زید ن النجاری الانصاری وبسیدنا کعب بن حمار ن الانصاری وبسیدنا کفاز بن حصن الانصاری وبسیدنا محمد بن مسلمۃ الانصاری وبسیدنا معاذ بن عفراء الانصاری وبسیدنا عوف بن العفراء وقتل یوم بدر وبسیدنا معوذ وبسیدنا معاذ بن ماعض الانصاری وبسیدنا وبسیدنا مالک بن عمیلۃ العبدری وبسیدنا مالک بن قدامۃ الانصاری وبسیدنا مالک بن رافع العجلانی وبسیدنا مالک بن عمرو ن السلمی وبسیدنا مالک بن امیۃ بن عمر و ن السلمی وبسیدنا مالک ابن ابی خولی العجلانی وبسیدنا مالک بن نمیلۃ الانصاری وبسیدنا معمر بن الحارث الجمہی وبسیدنا محرزبن الضلۃ الاسدی وبسیدنا محرزبن عامر ن الانصاری وبسیدنا وبسیدنا معن بن یزید السلمی وبسیدنا معبد ابن قیس ن الانصاری وبسیدنا وبسیدنا المنذربن عمر و ن الانصاری الخزرجی وبسیدنا المنذر بن الاوسی الانصاری وبسیدنا المنذر بن قدامۃ الانصاری وبسیدنا معتب بن حمراء الانصاری وبسیدنا معتب بن بشیر ن الانصاری وبسیدنا مصعب ابن عمیر ن القرشی وبسیدنا مبشر بن المنذر الاوسی وبسیدنا ملیل بن وبدۃ الانصاری وبسیدنا مہجع بن صالح عمر بن الخطاب وبسیدنا مدراج بن عمرو ن السلمی وبسیدنا نوفل بن ثعلبہ الانصاری وبسیدنا النعمان بن عبد ن النجاری وبسیدنا النعمان بن ابی خزمۃ الانصاری وبسیدنا النعمان بن عمر و ن الانصاری وبسیدنا النعمان ابن ابی خزمۃ الانصاری وبسیدنا النعمان بن سنان ن الانصاری وبسیدنا نضربن الحارث الانصاری الظفری وبسیدنا نحات بن ثعلبۃ الانصاری وبسیدنا نعیمان بن عمرو النجاری وبسیدنا صہیب بن سنان الرومی وبسیدنا صفوان ابن امیۃ بن عمرو و السلمی واخیہ مالک بن امیہ وبسیدنا الضحاک بن حارثۃ الانصاری وبسیدنا الضحاک بن عبد الانصاری النجاری وبسیدنا عبداللہ بن ثعلبۃ الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن جبیر ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن الحمیر الاسبعی وبسیدنا عبداللہ بن رواحۃ الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن رافع ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن ربیع ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن طارق بن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن کعب ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن مظعون الجمحی وبسیدنا عبداللہ بن النعمان الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن عبداللہ بن سلول الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن عمر و بن حرام ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ ابن عامر ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن عمیر ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن عبیس الخزرجی وبسیدنا عبداللہ بن سعد ، ن الانصاری وبسیدنا عبداللہ بن سلمہ لعجلانی وبسیدنا عبدالرحمن بن کعب ن المازنی وبسیدنا عبدالرحمن بن جبیر ن الانصاری وبسیدنا عبدالرحمن بن عبد ن الانصاری وبسیدنا عبدالرحمن بن سہل ن الانصاری وبسیدنا عبیدین اوس وبسیدنا عبیدین زید ن الانصاری وبسیدنا عبد ربہ ابن حق ن الانصاری وبسیدنا عباد بن عبید ن التہیان اوس وبسیدنا عبدیا لیل بن ناشب ن اللیثی وبسیدنا عباد بن قیس ن الانصاری وبسیدنا حمیر بن حرام ن الانصاری وبسیدنا عمر و ابن قیس ن الانصاری وبسیدنا عمرو بن ثعلبۃ الانصاری وبسیدنا سفیان بن بشر ن الانصاری وبسیدنا سالم بن عتیک ن الانصاری وبسیدنا سہیل ابن رافع ن الانصاری وبسیدنا السائب بن مظعون الجمعی وبسیدنا ابی بن کعب ن الانصاری النجاری وبسیدنا ابی معاذ النجاری وبسیدنا اسیرۃ بن عمر ن الانصاری النجاری وبسیدنا عبداللہ بن عامر ن الانصاری وبسیدنا عکاشۃ بن محصن ن الاسدی وبسیدنا عتیک بن التہیان الانصاری وبسیدنا عشرۃ السلمی وبسیدنا عاقل بن البکیر وبسیدنا فروۃ بن عمرو ن الانصاری وبسیدنا عنام بن اوس ن الانصاری وبسیدنا الفاکہ بن بشر ن الانصاری وبسیدنا قیس بن مخلد ن الانصاری وبسیدنا قیس بن محصن الانصاری وبسیدنا قیس بن ابی ضعصۃ الانصاری وبسیدنا وبسیدنا قطبۃ بن عامر ن الانصاری وبسیدنا سعد بن خیثمۃ الانصاری وبسیدنا سعد بن عثمان الانصاری الزرقی وبسیدنا سعد بن زید ن الانصاری الاشہلی وبسیدنا سفیان بن بشر ن الانصاری وبسیدنا سالم بن عمیر ن العوفی وبسیدنا سلیم بن عمر ن الانصاری وبسیدنا سلیم بن الحارث الانصاری وبسیدنا سلیم ابن قیس بن فہد ن الانصاری وبسیدنا سلیم بن ملحان الانصاری وبسیدنا سلمہ ابن سلامۃ الانصاری الاشہلی وبسیدنا سہیل بن عمر و ن الانصاری وبسیدنا سلمہ بن ثابت ن الانصاری الاشہلی وبسیدنا سہیل بن بیضآء القرشی الفہری وبسیدنا سوید بن مخشی الطآئی وبسیدنا سلیط بن عمر و ن العامر القرشی وبسیدنا سلیط بن قیس ن الانصاری النجاری وبسیدنا سراقۃ بن کعب الانصاری النجاری وبسیدنا سراقۃ بن عمر و ن الانصاری النجاری وبسیدنا سواد بن غزبۃ الانصاری السلمی وبسیدنا سعید بن سہیل ن الانصاری الاشہلی وبسیدنا شماس بن عثمان المخزومی وبسیدنا شجاع بن ابی وہب ن الاسدی حلیف عبد شمس وبسیدنا ہانیء بن نیار ن الاسدی وبسیدنا ہلال بن المحلی الانصاری وبسیدنا ہلال بن خولی الانصاری وبسیدنا ہمام بن الحارث وبسیدنا وہب ابن شرح ن الفہرن القرشی وبسیدنا ودیعۃبن عمرو ن الانصاری وبسیدنا یزید بن الحارث الانصاری وبسیدنا یزید بن ثابت ن الانصاری وبسیدنا ابی ایوب الانصاری وبسیدنا ابی الحمرآء مولیٰ ال عفراء وبسیدنا ابی الخالد الحارث بن قیس ن الانصاری وبسیدنا ابی خذیمۃ بن اوس ن الانصاری وبسیدنا سلیم ابی کبثۃ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسی وبسیدنا ابی ملیل ن الضبعی وبسیدنا ابی المنذر ابن یزید بن عامر ن الانصاری وبسیدنا ابی نملۃ الانصاری وبسیدنا ابی عبیدۃ بن الجراح الفہری القرشی وبسیدنا ابی عبدالرحمن بن یزید بن ثعلبۃ الانصاری وبسیدناابی عیش ن الحارثی الانصاری وبسیدنا وبسیدنا یزید بن الخنس السلمی وبسیدنا ابی اسید ن الساعدی وبسیدنا ابی اسرائیل الانصاری وبسیدنا ابی الاعور بن الحارث الانصاری النجاری وبسیدنا سعد بن سہیل ن الانصاری وبسیدنا سعد بن خولۃ من المہاجرین الاولین وبسیدنا سعد بن خولی مولیٰ حاطب بن ابی بلتعۃ وبسیدنا سالم مولیٰ ابی حذیفۃ وبسیدنا سلمہ بن حاطب ن الانصاری وبسیدنا ابی مرثد ن الغنوی وبسیدنا ابی مسعود ن الانصاری وبسیدنا ابی فضالۃ الانصاری وبسیدنا عمار بن یاسر ن المہاجری بسیدنا طلحۃ بن عبیداللہ القرشی وبسیدنا سماک بن سعد ن الخزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ اللہم لاتدع لنا ذنبا الا غفرتہ ولا ہما الا فرجتہ ولا دینا الا قضیتہ ولا حاجۃ من حوائج الدنیا والا خرۃ الا قضیتہا یا ارحم الراحیم۔