Tuesday 9 April 2024

اگر آپ تحقیق و تصنیف کا شوق رکھتے ہی آپ کے کمپیوٹر میں کیا کچھ انسٹال ہونا چاہئے

اگر آپ تحقیق و تصنیف کا شوق رکھتے ہیں تو آپ کے  کمپیوٹر میں کیا کیا انسٹال ہونا چاہئے۔

(1). سب سے پہلے کوشش کریں کہ ونڈو 10 انسٹال کریں۔

(2). ونڈو انسٹالیشن کے بعد تمام Drivers انسٹال کریں۔

(3). اس کے بعد سب سے پہلے Winrar انسٹال کریں 

 کیونکہ بہت سے سافٹ ویئرز کا  Setup وغیرہ Rar یا zip فولڈر کی شکل میں ہوتا ہے، اسی طرح کئی طرح کی فائلز اور کتب بھی۔۔۔

اس کے بعد درج ذیل میں سے تمام سافٹ ویئرز باری باری انسٹال کرلیں۔

(4). مائیکروسافٹ ورڈ Microsoft Word

(5). (بہتر ہے کہ اردو فارمیٹ پر ایک بنیادی ٹیمپلیٹ بنا کر ورڈ کے ٹیمپلیٹ فولڈر میں رکھ دیں تاکہ ہر نئی فائل آپ کے فارمیٹ کے مطابق ہی ہو)

(6). ان پیج اولڈ Inpage

کئی دفعہ کہیں سے کوئی ان پیج کی فائل آجاتی ہے

(7). ان پیج نیو Inpage New 3

کبھی اولڈ ان پیج سے ڈاٹا کاپی کرکے ورڈ میں ڈالنا پڑجائے تو بہت کام دیتا ہے

(8). یو سی کنورٹر Uc-Converter

کبھی ورڈ کا ڈاٹا اولڈ ان پیج میں یا ان پیج کا ڈاٹا ورڈ میں ڈالنا ہو تو کنورٹر بہت مفید ثابت ہوتا ہے 

(9). فوکسٹ پی ڈی ایف کری ایٹر Foxit Pdf *Creator

تاکہ پی ڈی ایف اچھے انداز میں بن سکے جو لوگ ورڈ سے سیو ایز کے ذریعے پی ڈی ایف بناتے ہیں اکثر پریشان ہی رہتے ہیں

(10). عربی اور اردو کا فونیٹک کی بورڈ Arabic and Urdu Phonetic Keyboard

اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عربی اور اردو ایک ہی طرح کے بٹنوں سے لکھی جاسکے گی

(11). گوگل کروم براؤزر Google Chrome Browser

انٹرنیٹ سے کچھ بھی تلاش کرنے کے لئے بہت آسان استعمال ہے

(12). ایک سے زائد واٹس اپ چلانے ہوں تو Mozila اور Microsoft Edge بھی انسٹال  کرلیں۔

(13). المدینہ لائبریری Al-Madina Library

کثیر اردو اسلامک ڈاٹا کے لئے مفید سرچنگ سافٹ وئیر۔

فتاویٰ رضویہ، مراۃ المناجیح، احیاء العلوم اردو، حلیۃ الاولیاء اردو اور دیگر سینکڑوں کتب و رسائل سے ہر طرح کی سرچنگ کرنے کے لئے مفید ترین سافٹ وئیر

مکتبہ شاملہ انسٹال کرنے سے پہلے  Control Pannel میں سے  Change System Localty میں جاکر زبان Arabic Saudia لازمی کرلیں

(14). المکتبۃ الشاملہ Al-Maktabat-ul-Shamela نیو اپ ڈیٹ

ہزاروں کتب میں سے مطلوبہ مواد بہ آسانی سرچ کرکے جمع کرنے کے لئے دنیا کی سب سے مفید اور آسان ڈیجیٹل لائبریری ہے کتب حدیث، فقہ، سیرت، تفسیر، ادب، لغت، تصوف، اخلاق وغیرہ میں سے سب کچھ سرچ کرنے کے لئے مفید ۔۔۔۔ راویوں کے حالات تلاش کرنے کے لئے سہولت

(15). المکتبۃ الشاملہ Al-Maktabat-ul-Shamela ۔۔۔ گولڈن ورژن

یہ اب تک کا شاملہ کا سب سے بڑا ورژن ہے، دیگر ورژنز کی نسبت اس میں بہت زیادہ کتابیں ہیں۔ دیگر میں زیادہ سے زیادہ 9 ہزار کتابیں ہیں جبکہ اس میں 30 ہزار کتابیں ہیں۔

(16). ایوری تھنگ سرچر Every Thing Searcher

کمپیوٹر کے کسی بھی کونے خانچے میں رکھی ہوئی یا گم شدہ فائل ایک سیکنڈ میں آپ کے سامنے لے آئے گا

(17). کومک ڈکشنری Comic Dictionary

عربی سے اردو تین اور اردو سے عربی ایک لغت پر مشتمل سافٹ وئیر ہے جس میں آپ عربی حروف اصلیہ کے ذریعے کوئی بھی لفظ تلاش کرکے معنی تلاش کرسکتے ہیں۔

(18). عربی و اردو کے اہم فونٹس Fonts

کم از کم اتنے فونٹس تو ہوں کہ عربی و اردو کی کسی بھی طرح کی فائل آپ کے پاس آئے تو اس کا فونٹ آپ کے سسٹم میں موجود ہو۔

(19). فوکسٹ پی ڈی ایف ریڈر  Foxit Pdf Reader

تاکہ ہر طرح کی پی ڈی ایف کتاب آسانی سے پڑھ سکیں

(20). فوکسٹ پی ڈی ایف ایڈیٹر Foxit Pdf Editor

کسی بھی پی ڈی ایف کتاب میں صفحات کا اضافہ، کٹوتی و دیگر ایڈیٹنگ کے لئے کافی اچھا ہے۔

(21). ایزی قرآن و حدیث Easy Quran o Hadees

19 انیس کتب حدیث کا انگلش و اردو ترجمہ، پچاس سے زائد تراجم قرآن اور تیس سے زائد اردو تفاسیر کا سافٹ وئیر، ۸۶۰۰ حدیثی عنوانات، ۲۷۰۰ قرآنی عنوانات۔۔ سب کچھ سرچ، کاپی، پیسٹ، اس کے کیا کیا فائدے ہوسکتے ہیں یہ تو محققین و مصنفین بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

(22). شیعہ شاملہ Shia Shamela

کبھی شیعہ کی عبارتیں تلاشن کرنی پڑجائیں تو بہت مفید

(23). لائٹ شاٹ LightShot

کسی بھی چیز ، عبارت، فائل وغیرہ کے کسی بھی حصے کا اسکرین شاٹ لینے کے لئے بہت مفید سافٹ وئیر

(24). اہم  اہم پی ڈی ایف کتب Pdf Books

کم از کم حدیث، فقہ، فتاوی، تفسیر، سیرت، تاریخ، تصوف، اخلاقیات اور درس نظامی کی اتنی کتب کے جن سے طلبہ و علما کو واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے.

 (بشکریہ: مفتی سید عدنان کاکا خیل صاحب)


ارواح اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے گھروں کے دروازوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں کی تحقیق و تخریج

تحقیقات سلسلہ نمبر 65

سوال: درج ذیل روایت ہے، اس کی تحقیق و تخریج مطلوب ہے۔ کیا یہ حدیث قابل عمل ہے؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: 

جب عید کا دن ہوتا ہے نیز دسویں کا دن، ماہ رجب المرجب کا پہلا جمعہ، شعبان کی پندرہویں رات اور جمعہ کی رات ہوتی ہے تو ارواح اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اپنے گھروں کے دروازوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں، اور کہنے لگتی ہیں: اس رات میں ہم پر رحم فرمائیں صدقے سے، اگرچہ روٹی کے ایک ٹکڑے سے، اس لئے کہ ہم ابھی اس کے محتاج ہیں، پس اگر وہ کسی چیز کو نہیں پاتیں تو حسرت کے ساتھ لوٹ جاتی ہیں۔

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب:- 

یہ روایت تلاش بسیار کے بعد بھی معتمد کتب احادیث مبارکہ میں نہیں ملی، نہ صحاح میں اور نہ ضعفاء میں، حتیٰ کہ موضوعات میں بھی نہیں ملی، لہذا جب تک یہ صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ نہیں مل جاتی تب تک اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا یا اس کو قابل عمل سمجھنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ 

ہاں البتہ یہ روایت بغیر سند کے دقائق الأخبار فی وصف الجنۃ والنار للإمام عبدالرحیم بن احمد القاضي میں ہے، لکین وہ کتاب معتبر نہیں ہے، چونکہ اس میں سب روایات قابل غور اور بے سند نقل کردی گئی ہیں، الحمدللہ کتاب کو دیکھنے کا موقع میسر ہوا اس میں سب روایات بے سند اور قابل غور ہیں، موضوع اور من گھڑت روایات ہیں، لہٰذا سوال میں مذکور روایت کو نشر کرنے اور قابل للاعتبار سمجھنے سے اجتناب کرنا چاہئے. نیز اس میں کچھ الفاظ بھی اس طرح سے ہیں جن سے ان کا حدیث میں ہونا محال اور مشکل معلوم ہوتا ہے، جیسے کہ اس میں جو اوقات ذکر کئے گئے ہیں وہ یوم اور لیل (رات اور دن) دونوں ہیں. پھر جب ارواح کا قول منقول ہے وہاں لکھا ہے:  ویقولون ترحموا علينا في الليلة تو اس میں صرف رات کا ذکر ہے، نیز اور بھی کچھ چیزیں قابل ذکر ہیں، لہذا ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ثابت نہیں ہوسکتیں، لہذا ان کی نسبت نہ کرنا اور اجتناب کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ 

اس کے عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں 👇

عن ابن عباس إذا کان یوم العید ویوم العشر ویوم جمعۃ الأولی من شھر رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ یخرج الأموات من قبورھم ويقفون على أبواب بيوتهم ویقولون ترحموا علينا في الليلة بصدقة ولوبلقمة من خبز فإنا محتاجون إليها فإن لم يجدوا شيئا يرجعون بالحسرۃ.

 دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار پر تبصرہ:

اسلام ویب، فتوی نمبر: 45458 پر "دقائق الأخبار" سے متعلق سوال کے جواب میں لکھا گیا کہ:

"دقائق الأخبار في وصف الجنة والنار" میں قصص اور آخرت سے متعلق خبریں یعنی: بعثت، حساب اور جنت کی صفات اور نعمتیں اور جہنم کے اوصاف اور عذاب کا تذکرہ ہے اور بلاشک و شبہ اس کتاب میں ذکر کردہ بہت سی حکایات اور قصص کسی معتبر شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ یہ باتیں ان امورغیبیہ میں سے ہیں، جن میں رائے کو کوئی دخل نہیں ہے، لہٰذا جو بات صحیح یا حسن ہوگی، وہی قابل قبول ہوگی۔

ایک اور سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی نسبت بہت سے مؤلفین کی طرف کی گئی ہے، بعض نے اس کو امام سیوطی کی طرف منسوب کیا اور بعض نے اس کو امام غزالی کی طرف اور بعض نے امام عبدالرحیم بن احمد قاضی کی طرف نسبت کی ہے، اور اکثریت نے اس کی نسبت آخرالذکر کی طرف کی ہے۔

کتب فتاوی میں اس کے بارے میں درج ذیل تفصیل ملتی ہے:

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

کیا روحوں کا دنیا میں آنا ثابت ہے؟

س… کیا روحیں دنیا میں آتی ہیں یا عالمِ برزخ میں ہی قیام کرتی ہیں؟ اکثر ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں اپنے اعزہ کے پاس آتی ہیں، شبِ برأت میں بھی روحوں کی آمد کے بارے میں سنا ہے۔ آپ اس مسئلے کی ضرور وضاحت کیجئے، مرنے کے بعد سوم، دسواں اور چہلم کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی بذریعہ اخبار کردیجئے؛ تاکہ عوام الناس کا بھلا ہو۔

ج… دنیا میں روحوں کے آنے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث ہی وارد ہے۔ سوئم، دسواں اور چہلم خودساختہ رسمیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل آپ کو میری کتاب “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں ملے گی۔

امدادالفتاویٰ جدید میں ہے:

’’روحوں کا شب جمعہ میں گھر آنے کی بات کہاں تک صحیح ہے؟

سوال (۷۵۳): قدیم ۱/۷۶۸- فتاویٰ رشیدیہ حصہ دویم ص: ۹۸ پر ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مردوں کی روحیں شب جمعہ میں گھر نہیں آتیں یہ روایت غلط ہے اور اس کے خلاف نورالصدور ص ۱۶۸ پر بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بایں فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ شبِ جمعہ کو مؤمنوں کی روحیں اپنے اپنے مکانوں کے مقابل کھڑی ہوکر پکارتی ہیں کہ ہم کو کچھ دو اور ہر روح ہزار مردوں اور عورتوں کو پکارتی ہے، روایت

کیا اس حدیث کو شیخ ابن الحسن بن علی نے اپنی کتاب میں۔ اب عرض یہ ہے کہ صحیح معاملہ شرعاً کیا ہے؟

الجواب: اول تو اس کی سند قابلِ تحقیق ہے۔ دوسرے برتقدیرِ ثبوت مقید ہے اذن کے ساتھ اور حکم نفی دعویٰ عموم کے تقدیر پر ہے پس دونوں میں تعارض نہیں.‘‘ (۱)

۲۶/ جمادی الاولیٰ۱۳۵۳؁ھ (النور ص: ۹ ماہ جمادی الثانی۱۳۵۴؁ھ)

امدادالفتاویٰ جدید کے حاشیہ میں ہے:

’’ یہ مسئلہ بہت زیادہ قابل توجہ ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے امدادالمفتیین ترتیب جدید مکتبہ دارالاشاعت کراچی ص: ۱۲۱تا۱۲۴؍ میں عمر وبکر کے معارضاتی سوال کے جواب میں کافی لمبا جواب تحریر فرمایا ہے، وہ تمام روایات بھی اس میں ہیں جن میں اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ مردوں کی روحیں شبِ جمعہ، یومِ عاشوراء، یومِ عید وغیرہ میں اپنے گھر آکر سوالات کرتی ہیں۔

اور فتاوی دارالعلوم جدید ۵؍۴۵۹؍ میں اس کی تردید ہے اور حضرت مولانا عبد الحیؒ کی بات کی تائید ہے، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱؍۶۰۶، میرٹھ ۳؍۳۵۶؍ میں سائل نے سوال کیا کہ امدادالمفتیین میں بکر نے جو حدیثیں اس کے ثبوت میں پیش کی ہیں وہ صحیح ہیں یانہیں؟ تو حضرت الاستاد مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے جواب دیا: وہ روایات اس پایہ کی نہیں کہ اس سے کسی ضروری مسئلہ کا اثبات کیاجاسکے، آگے حضرت اپنی طرف سے جواب میں یہ الفاظ لکھتے ہیں: میت کے انتقال کے بعد اپنے گھروالوں اور متعلقین سے کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ متعلقین سے امیدوار رہتی ہیں،  ہوتا یہ ہے کہ وہ امید اور تعلق ہی لوگوں کو تمثل ہوکر ظاہر ہوجاتے ہیں، مثلاً یہ کہ روح دروازہ پر کھڑی ہے کھانا مانگتی ہے اور ضروریات طلب کرتی ہے، یہ حقیقت نہیں ہوتی؛ بلکہ تمثل ہوتا ہے؛ کیوں کہ ارواح کو اس عالم میں دنیاوی ضرورت کی نہ تو حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ان کے لئے وہاں مفید ہوسکتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے طور پر جو چیزیں میت کی روح کو بخشی جاتی ہیں وہ بھی اس کو اصلی صورت میں نہیں؛ بلکہ اخروی نعمتوں کی صورت میں متشکل ہوکر پیش ہوتی ہے.‘‘ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱؍۶۰۷، میرٹھ ۳؍۳۵۷)

حضرت  تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اشرف الجواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لیتے پھرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑسکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو لپٹا پھرے، اشرف الجواب مکتبۃ دارالکتاب دیوبند ۲؍۱۵۶، ‘‘.

’’جواب: ۳۰؍ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس کی تردید فرماتے ہیں، فتاوی رشیدیہ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے تین جواب لکھے ہیں، تینوں میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مردوں کی روحوں کے گھر پر آنے کی روایتیں واہیہ ہیں، اس پر عقیدہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔  قدیم زکریا بکڈپو ۲۴۸؍‘‘.

اس جواب پر حضرت مولانا سید احمد دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی اور مولانا احمد ہزاروی، مفتی عزیز الرحمن دیوبندی، مولانا عبدﷲ انصاری، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا ابوالکلام، محمد اسحاق فرخ آبادی وغیرہم رحمہم اللہ کے دستخط  ثبت ہیں۔

دوسرے جواب میں لکھتے ہیں کہ: ’’شبِ جمعہ اپنے گٰھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے.‘‘ فتاوی رشیدیہ دارالکتاب دیوبند ص: ۲۴۹۔ 

شبیر احمد قاسمی عفا ﷲ عنہ‘‘.

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

’’مؤمنین کی روحوں کا شبِ جمعہ اپنے گھر آنا:

سوال:ارواح مؤمنین ہر جمعہ کی شب کو اپنے اہل و عیال میں آتی ہیں یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب: ارواحِ مؤمنین کا شبِ جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں ثابت نہیں ہوا، یہ روایات واہیہ ہیں۔ اس پر عقیدہ کرنا ہرگز نہیں چاہئے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ الراجی رحمۃ ربہ رشید احمد گنگوہی.‘‘

الاجوبۃ صحیحۃ ابوالخیرات سید احمد عفی عنہ، مدرسن دوم مدرسہ عالیہ دیوبند

الاجوبۃ صحیحۃ محمد یعقوب النا نوتوی عفی عنہ،مدرسہ اول مدرسہ عالیہ دیو بند

الاجوبۃ صحیحۃ،احمد ہزاروی عفی عنہ

الاجوبۃ کلہا صحیحۃ، عزیزالرحمن الدیوبندی کان اللہ لہ (وتوکل علی العزیز الرحمن)

الاجوبۃ صحیحۃ۔ الاجوبۃ صحیحۃ محمد محمود عفی عنہ ۔ الٰہی عاقبت محمود گردان۔ الاجوبۃ کلہا صحیحۃ ابوالمکارم

عبداللہ انصاری عفی عنہ۔ مدرس مدر عالیہ دیو بند۔ محمد اسحاق فرخ آبادی عفی عنہ۔

وفیہ ایضا:

’’مردہ کی روح کا شبِ جمعہ گھر آنا:

سوال: بعض علماء کہتے ہیں کہ مردہ کی روح اپنے مکان پر شبِ جمعہ کو آتی ہے اور طالبِ خیرات و ثواب ہوتی ہے اور نگاہوں سے پوشیدہ ہوتی ہے یہ امر صحیح ہے یا غلط؟

جواب: یہ روایات صحیح نہیں. فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘۔

’’شبِ جمعہ مردوں کی روحوں کا اپنے مکانوں میں آنا

سوال: شبِ جمعہ مردوں کی روحیں اپنے گھر آتی ہیں یا نہیں، جیسا کہ بعض کتب میں لکھا ہے؟

جواب: مردوں کی روحیں شبِ جمعہ میں اپنے اپنے گھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے.‘‘

 نظام الفتاویٰ میں ہے:

’’سوال: قرآن مجید کی متعدد آیات ومن ورائہم برزخ الیٰ یوم یبعثون اور انہم الیہا لایرجعون وغیرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی فردِ بشر کی روح بھی عالمِ وجود سے انتقال کرلینے کے بعد لوٹ کر واپس نہیں آسکتی ہے، فتاویٰ بزازیہ کی عبارت (من قال ارواح المشائخ حاضرۃ، یکفر) سے یہی واضح ہوتا ہے کہ روحیں ہرگز ہرگز نہیں آتی ہیں، اندریں صورت معراج کی شب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا بیت المقدس میں (مسجدِ اقصیٰ) عام پیغمبروں کی ارواح کی کرنے کی کیا کیفیت ہے جب کہ کوئی روح بمطابق عقیدہ اہل سنت والجماعت دنیا میں واپس نہیں آسکتی ہے. ان روحوں کے آنے کا کیا مطلب ہے؟ جواب دیں۔

الجواب وباللہ التوفیق:

جواب: شب معراج میں عالمِ مثال میں بھی امامتِ انبیاء کے مسئلہ کا محتمل ہے اور روح مع الجسد بھی باذنہ تعالیٰ محتمل ہے، علماء کے اقوال دونوں ہیں، روح المعانی وروح البیان۔ نیز ارواح کا لوٹ کر دنیا کی طرف آنا باختیارہ ممنوع ہے نہ کہ بحکمِ تعالیٰ۔ تیسرے روح جب اس عالمِ ناسوت سے منتقل ہوگئی اور جسدِ عنصری سے آزاد ہوگئی تو اب یہ عناصر باذنہ اس کے تصرف میں حاصل نہیں اور نہ ان کو ان عالمِ عنصری اوراس کے احکام پرقیاس من کل الوجوہ کرنا صحیح ہوگا، بلکہ اس کا ضابطہ اور قاعدہ یہ ہوگا کہ وہ حکمتِ علمِ خداوندی پر محمول ہوگا. جن جن صورتوں میں ثبوت ہوگا ان ان صورتوں میں تسلیم ہوگا. جن جن صورتوں میں انکار ہوگا ممنوع کہیں گے، اور جن جن مواقع میں سکوت ہوگا. ہم بھی سکوت کریں گے، اس تقریر سے تمام جزئیاتِ نصوصیہ منطبق ہوجائیں گے۔ بزازیہ کے جملے کا محمل اسی عالمِ عنصری کے بارے میں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: الاحقر محمد نظام الدین غفرلہٗ‘‘

الجواب صحیح: سید احمد علی سعید مفتی

نائب مفتی ۲۴؍۲؍۱۳۸۷ھ۔

رقمه ورتبه: ابو احمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری

سابرکانٹھا شمالی گجرات الھند

استاذ حدیث: جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات

ٹیلیگرام چینل ↙️



Friday 22 March 2024

رکوع وسجود سے عاجز شخص پر قیام کی فرضیت وسقوط کی اختلافی بحث

رکوع وسجود سے عاجز شخص پر قیام کی فرضیت وسقوط کی اختلافی بحث
-------------------------------
--------------------------------
مصلی اگر زمین پر حقیقی سجدے کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس پر قیام کی فرضیت باقی نہیں رہتی ہے...یہ تو مشہور مسئلہ ہے؛ لیکن کوئی قول فرضیت قیام کے باقی رہنے کا بھی ہے؟
مفتی صاحب توجہ فرمائیں
الجواب و باللہ التوفیق:
رکوع وسجود سے عجز ہو لیکن قیام کی طاقت ہو تو اس حالت میں ہمارے یہاں قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور بیٹھ کر قیام ورکوع کے اشارے کے ساتھ پڑھنا افضل ومستحب ہے، تاہم کھڑے ہوکر پڑھنا بھی جائز ہے، یعنی فرضیت قیام تو نہیں؛ البتہ جواز قیام باقی رہتا ہے، جبکہ امام شافعی اور حنفیہ میں امام زفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں صورت مذکورہ میں کھڑے ہوکر پڑھنا لازم ہے  واگرنہ نماز صحیح نہ ہوگی:
بدائع میں ہے:
وَإِنْ كَانَ قَادِرًا عَلَى الْقِيَامِ دُونَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ يُصَلِّي قَاعِدًا بِالْإِيمَاءِ، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا بِالْإِيمَاءِ أَجْزَأَهُ وَلَا يُسْتَحَبُّ لَهُ ذَلِكَ وَقَالَ زُفَرُ وَالشَّافِعِيُّ: لَا يُجْزِئهُ إلَّا أَنْ يُصَلِّيَ قَائِمًا، (وَاحْتَجَّا) بِمَا رَوَيْنَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ لِعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ : «فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا» ، عَلَّقَ الْجَوَازَ قَاعِدًا بِشَرْطِ الْعَجْزِ عَنْ الْقِيَامِ، وَلَا عَجْزَ؛ وَلِأَنَّ الْقِيَامَ رُكْنٌ فَلَا يَجُوزُ تَرْكُهُ مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِ كَمَا لَوْ كَانَ قَادِرًا عَلَى الْقِيَامِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَالْإِيمَاءُ حَالَةَ الْقِيَامِ مَشْرُوعٌ فِي الْجُمْلَةِ بِأَنْ كَانَ الرَّجُلُ فِي طِينٍ وَرَدْغَةٍ رَاجِلًا، أَوْ فِي حَالَةِ الْخَوْفِ مِنْ الْعَدُوِّ وَهُوَ رَاجِلٌ، فَإِنَّهُ يُصَلِّي قَائِمًا بِالْإِيمَاءِ، كَذَا هَهُنَا.
(وَلَنَا) أَنَّ الْغَالِبَ أَنَّ مَنْ عَجَزَ عَنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ كَانَ عَنْ الْقِيَامِ أَعْجَزَ؛ لِأَنَّ الِانْتِقَالَ مِنْ الْقُعُودِ إلَى الْقِيَامِ أَشَقُّ مِنْ الِانْتِقَالِ مِنْ الْقِيَامِ إلَى الرُّكُوعِ، وَالْغَالِبُ مُلْحَقٌ بِالْمُتَيَقَّنِ فِي الْأَحْكَامِ، فَصَارَ كَأَنَّهُ عَجَزَ عَنْ الْأَمْرَيْنِ، إلَّا أَنَّهُ مَتَى صَلَّى قَائِمًا جَازَ؛ لِأَنَّهُ تَكَلَّفَ فِعْلًا لَيْسَ عَلَيْهِ، فَصَارَ كَمَا لَوْ تَكَلَّفَ الرُّكُوعَ جَازَ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ كَذَا هَهُنَا؛ وَلِأَنَّ السُّجُودَ أَصْلٌ وَسَائِرَ الْأَرْكَانِ كَالتَّابِعِ لَهُ، وَلِهَذَا كَانَ السُّجُودُ مُعْتَبَرًا بِدُونِ الْقِيَامِ كَمَا فِي سَجْدَةِ التِّلَاوَةِ، وَلَيْسَ الْقِيَامُ مُعْتَبَرًا بِدُونِ السُّجُودِ بَلْ لَمْ يُشْرَعْ بِدُونِهِ، فَإِذَا سَقَطَ الْأَصْلُ سَقَطَ التَّابِعُ ضَرُورَةً، وَلِهَذَا سَقَطَ الرُّكُوعُ عَمَّنْ سَقَطَ عَنْهُ السُّجُودُ، وَإِنْ كَانَ قَادِرًا عَلَى الرُّكُوعِ، وَكَانَ الرُّكُوعُ بِمَنْزِلَةِ التَّابِعِ لَهُ، فَكَذَا الْقِيَامُ بَلْ أَوْلَى؛ لِأَنَّ الرُّكُوعَ أَشَدُّ تَعْظِيمًا وَإِظْهَارًا لِذُلِّ الْعُبُودِيَّةِ مِنْ الْقِيَامِ، ثُمَّ لَمَّا جُعِلَ تَابِعًا لَهُ وَسَقَطَ بِسُقُوطِهِ فَالْقِيَامُ أَوْلَى، إلَّا أَنَّهُ لَوْ تَكَلَّفَ وَصَلَّى قَائِمًا يَجُوزُ لِمَا ذَكَرْنَا، وَلَكِنْ لَا يُسْتَحَبُّ؛ لِأَنَّ الْقِيَامَ بِدُونِ السُّجُودِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ، بِخِلَافِ مَا إذَا كَانَ قَادِرًا عَلَى الْقِيَامِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْقُطْ عَنْهُ الْأَصْلُ فَكَذَا التَّابِعُ.( بدائع الصنائع ١٠٧/١)
قَالَ: (فَإِنْ عَجَزَ عَنِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَقَدَرَ عَلَى الْقِيَامِ أَوْمَأَ قَاعِدًا) لِأَنَّ فَرْضِيَّةَ الْقِيَامِ لِأَجْلِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ; لِأَنَّ نِهَايَةَ الْخُشُوعِ وَالْخُضُوعِ فِيهِمَا، وَلِهَذَا شُرِعَ السُّجُودُ بِدُونِ الْقِيَامِ كَسَجْدَةِ التِّلَاوَةِ وَالسَّهْوِ وَلَمْ يُشْرَعِ الْقِيَامُ وَحْدَهُ، وَإِذَا سَقَطَ مَا هُوَ الْأَصْلُ فِي شَرْعِيَّةِ الْقِيَامِ سَقَطَ الْقِيَامُ; وَلَوْ صَلَّى قَائِمًا مُومِيًا جَازَ، وَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ لِأَنَّهُ أَشْبَهُ بِالسُّجُودِ. (الاختیار لتعلیل المختار ۷۷/۱)

وَكَذَا لَوْ عَجَزَ عَنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَقَدَرَ عَلَى الْقِيَامِ فَالْمُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَاعِدًا بِإِيمَاءٍ وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا بِإِيمَاءٍ جَازَ عِنْدَنَا، هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. (الهندية ١٣٦/١)
وإن قدر على القيام وعجز عن الركوع والسجود صلى قاعدا بالإيماء" وهو أفضل من إيمائه قائما (مراقي الفلاح ١٦٨)

وإن تعذَّرَ الرُّكوعُ والسُّجُودُ لا القيام قَعَد وأومأ، وهو أفضلُ من الإيماءِ قائماً)؛ لأنَّ القعودَ أقربُ من السُّجُود، وهو المقصود؛ لأنه غايةُ التَّعظيم.(شرح الوقایہ ١٦٩/٢)
امام قدوری کی التجرید میں ہے:
٢٦٨٨ - قال أبو حنيفة: إذا عجز عن الركوع والسجود جاز له أن يصلي قاعدا وإن قدر على القيام.
٢٦٨٩ - وقال الشافعي: لا يجوز.
٢٦٩٠ - لنا: قوله: (صلاة القاعد على النصف من صلاة القائم إلا المتربع). ولأن من سقط عنه الركوع عاجز عن القيام، وما سوى ذلك نادر، فصار الغالب من العذر كالموجود، فوجب أن يسقط أحدهما بسقوط الآخر.
٢٦٩١ - ولأن القيام لو وجب عليه من غير ركوع وسجود خرجت الصلاة عنموضوعها إلى موضوع صلاة الجنازة؛ لأنها قيام واحد، وهذا لا يصح.
٢٦٩٢ - احتجوا بقوله تعالى: {وقوموا لله قانتين}.
٢٦٩٣ - والجواب: أن هذا يتناول القادر على كل الأركان؛ لأنه قال: {حافظوا على الصلوات}، وهذا ينصرف إلى الصلاة المعهودة بصفاتها، ثم قال: {وقوموا لله قانتين}، والخلاف بيننا في حال العجز.
٢٦٩٤ - قالوا: روى عمران بن الحصين أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: (صل قائما، فإن لم تستطع فعلى جنب).
٢٦٩٥ - والجواب: أن الخبر يتضمن القادر على الركوع والسجود؛ بدلالة أنه قال: (فإن لم تستطع فعلى جنبك تومئ إيماء)، فهذا يدل على أن الإيماء يختص بهذه الحالة؛ لأنه مذكور فيها دون ما تقدم.
٢٦٩٦ - قالوا: ركن من أركان الصلاة، فلا يجوز الإخلال به للعجز عن غيره، [كالقراءة].
٢٦٩٧ - قلنا: لا يسقط القيام عنه لعجزه عن الركوع، لكن العاجز عن أحدهما يعجز عن الآخر في الغالب، فلا يمكنه فعله إلا بمشقة؛ ألا ترى: أن النهوض من القعود إلى القيام يجري مجرى الركوع وزيادة. ولأن العجز عن القراءة ليس له تعلق بالقيام؛ لأن العجز عن أحدهما لا يؤثر في الآخر، والعجز عن الركوع مؤثر في القيام؛ بدلالة الراكب ومن عجز عن الأمرين.
٢٦٩٨ - قالوا: متمكن من القيام في صلاة الفرض، فلا يجوز له الإخلال،كما لو قدر عليهما.
٢٦٩٩ - قلنا: القادر عليهما لو ترك لترك الأركان من غير عذر، والعاجز عن الركوع إنما ترك القيام لعذر. ولأن العذر في الركوع عذر في القيام غالبا، والمعتبر في الأعذار الغالب؛ بدلالة المسافر: لما كانت المشقة تلحقه غالبا جاز الترخص وإن لم يشق عليه.(التجريد للقدوري ٦٣١/٢)
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمی 
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/03/blog-post.html

Thursday 29 February 2024

پیٹ کے فلو کی وبا اور اس سے حفاظت

"پیٹ کے فلو کی وبا اور اس سے حفاظت"
دہلی میں ان دنوں پیٹ کا فلو پھیلا ہوا. اس حفاظت کے لئے ذیل میں حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظ کے علاوہ ماہرین طب کے ذریعے جاری احتیاطی تدابیر بھی پیش کی جارہی ہیں:
مبعد (1) عن الحق ہے اللھم احفظنا منھ پس جو مصیبت آوے اس کو کسی گناہ کا ثمرہ سمجھا کرو ۔ اور جب کسی کو گناہ میں دیکھو تو اس سے عبرت حاصل کرو۔ مرنے والوں اور مصیبت زدوں سے عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ جب کوئی مرے تو چونکہ ہمارے لئے بھی یہ دن آنے والا ہے تو اس سے عبرت حاصل کرو. مگر آج کل کچھ ایسی غفلت بڑھی ہے کہ مردے کو دیکھ کر بھی ہماری حالت میں ذرا تغیر نہیں ہوتا. بلکہ یہ حالت ہے کہ قبر پر بیٹھے ہیں اور امور دنیاوی کی باتوں میں مشغول ہیں. اسی طرح اگر کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھتے ہیں تو اس کو اسی تک محدود سمجھتے ہیں. حالانکہ سمجھنا یہ چاہئے کہ اس پر یہ مصیبت کیوں مسلط ہوئی۔ ظاہر ہے کہ گناہوں کی وجہ سے تو ہم کو بھی گناہوں سے بچنا چاہئے. اسی لئے حدیث (2) میں ہے کہ جب کسی کو مبتلائے مصیبت دیکھو تو کہو: الحمد للہ الذی عافانی مما ابتلاک بھ و فضلنی علی کثیر ممن خلق تفصیلا (شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس تکلیف سے عافیت دی ہے جس میں تم کو مبتلا کیا۔ اور اپنی مخلوق میں سے مجھ کو بہت پر بہت کچھ فضیلت دی ہے) اس میں بھی تذکیر (3) ہے احتمال ابتلاء کی اور اس میں تنبیہ (4) اجمالی ہے اسباب ابتلا کی. کہ معصیت ہے اسی پر یہ شکر سکھایا کہ احتمال تھا کہ اسی معصیت کے سبب شاید ہم بھی مبتلا نہ ہوجائیں لیکن یہ دعا آہستہ پڑھے کہ مصیبت زدہ کی دل شکنی نہ ہو. جیسا کہ دوسری جگہ فرماتے ہیں.
لا تظھر الشماتۃ (5) لاخیک بعض تو وہ ہیں جو کہ دوسرے کے مصائب پر ہنستے ہیں. اور بعض وہ ہیں کہ افسوس تو کرتے ہیں مگر طعن کے طور پر اس کی بابت اسی حدیث میں ہے. فیرحمھ (1) اللہ و یبتلیک یعنی ہنسو مت شاید بجائے اس کے تم مبتلا ہوجاؤ. 
(ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28) 
https://www.healthshots.com/health-news/stomach-flu-in-delhi/
( #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2024/02/blog-post_92.html?m=1