Sunday 23 February 2020

کیا یہ مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے بنا ہوا چرچ ہے؟

کیا یہ مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے بنا ہوا چرچ ہے؟

سوشل میڈیا کے صارفین اکثر پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر تحقیق کے بغیر جو سامنے آئے، آگے پھیلا دیتے ہیں۔ چاہے اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہ کام وہ بزعم خود اسلام کی خدمت سمجھ کررہے ہوتے ہیں۔ رواں ہفتے بعض احباب پرتگال میں انسانی کھوپڑیوں سے بنے چرچ کی تصاویر شیئر کررہے ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ اسے اسپین کے مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے بنایا گیا ہے۔ حالانکہ ’’کنیسۃ العظام‘‘ یا  Chapel of Bones نامی اس چرچ میں ایک ہڈی بھی مسلمان کی استعمال نہیں ہوئی۔ پرتگال کے سیاحتی علاقے ایفورا میں یہ چھوٹا سا چرچ معروف کلیسا القدیس فرنسیس کے قریب واقع ہے۔ جس کے اندرونی حصے مکمل طور پر انسانی ہڈیوں سے ’’مزین‘‘ کیا گیا ہے۔
یہ چرچ ’’کلیسا کی اصلاح‘‘ کے حوالے سے سولہویں صدی میں اٹھنے والی تحریک Counter- Reformation کے دور میں بنایا گیا۔ اس تحریک کے وابستگان روحانی اصلاح پر بہت زور دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی یاد دلانے کیلئے انسانی ہڈیوں سے یہ عمارت تعمیر کی گئی۔ اس کلیسا کے داخلی دروازے پر بھی واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ:
: Nós ossos que aqui estamos pelos vossos esperamos . 
’’ہم ہڈیوں کی صورت میں یہاں تمہارے منتظر ہیں۔ وغیرہ‘‘
اٹھارہ میٹر لمبے اور گیارہ میٹر چوڑے اس چرچ کو پانچ ہزار کھوپڑیوں سے مزین کیا گیا ہے، یہ ساری کھوپڑیاں بھی عیسائی راہبوں کی ہیں۔ مختلف چرچوں میں مدفون راہبوں کی قبروں کو اکھاڑ کر انہیں جمع کیا گیا ہے۔ چرچ کی چھت پر انجیل کی یہ عبارت درج ہے:
Melior est die mortis die nativitatis 
یعنی مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے بہتر ہے۔
بہرحال ان ہڈیوں کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا جھوٹ پھیلانے سے پرہیز کیا جائے۔
اس طرح کا ایک اور چرچ پولینڈ میں بھی ہے۔ کازاسک نامی یہ چرچ پولینڈ کے قصبے سزرناما (Czermna) میں واقع ہے۔ پولینڈ کے اس تاریخی گرجا گھر کی تعمیر کا آغاز 1776ء میں شروع ہو کر 1804ء تک جاری رہا۔ اس دوران سیلزین جنگوں (Silesian Wars) میں مارے جانے والے فوجیوں اور شہریوں کی ہڈیوں کو گرجا گھر کی تعمیر کے کام میں لایا گیا۔ 3000 افراد کی مکمل باقیات کے علاوہ 21 ہزار چھوٹی بڑی انسانی ہڈیوں سے یہ گرجا گھر تیار ہوا ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق، پولینڈ کا ”کاپیلسا کازاسک“ (Kaplica Czaszek) نامی گرجا گھر ہزاروں انسانی ہڈیوں سے تیار کیا گیا ہے۔ پولینڈ کے سزرناما نامی قصبے میں واقع اس رومن کیتھولک عبادت گاہ کی دیواریں اور چھتیں ہڈیوں سے تیار کی گئی ہیں تاکہ انسان موت کو ہمیشہ ذہن میں رکھے۔ اٹھارہویں صدی میں اس انوکھے چیپل یا گرجا گھر کی تعمیر کا خیال مقامی پادریوں کو اس وقت آیا، جب پولینڈ میں جنگوں کا سلسلہ زوروں پر تھا۔ سیلزین (Silesian Wars) نامی ان خونریر جنگوں میں ہر طرف کھوپڑیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے تو مقامی پادریوں نے ان کا بہترین مصرف یہی تجویز کیا کہ ان سے ایک چھوٹا سا گرجا گھر تعمیر کیا جائے۔ جسے چیپل (Chapel) کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ چیپل مکمل طور پر انسانی ہڈیوں سے بنا ہے، اس لیے اسے خوفناک چیپل (Horror Chapel) بھی کہا جاتا ہے۔ چیپل کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر جنگوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں اور شہریوں کی ہڈیوں کو جمع کیا گیا، تاہم اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر ہڈیوں کی ضرورت تھی، اس لیے اس کی تعمیر کا کام تقریباً 28 سال تک جاری رہا۔ اس دوران 3 ہزار لاشوں کی مکمل باقیات کو چیپل کی دیواروں اور چھتوں کی تعمیر کے لیے جمع کیا گیا، ان ہڈیوں کے کم پڑجانے کی صورت میں بڑے پیمانے پر پرانی قبروں کو کھود کر مزید ہڈیاں نکالی گئیں۔ 
انسانی ہڈیوں سے ”مزین“ ایک چرچ جمہوریہ چک میں بھی ہے۔ لیکن اس کی تعمیر عام میٹریل سے کی گئی ہے، جبکہ اسے ہزاروں انسانی کھوپڑیوں اور چھوٹی بڑی ہڈیوں سے ’’مزین‘‘ کیا گیا ہے۔ لیکن پولینڈ کا ”کاپیلسا کازاسک“ دنیا کی وہ واحد عمارت ہے، جسے مکمل طور پر انسانی ہڈیوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس چیپل کی دیواروں کی تعمیر میں پسلی اور ران کی موٹی ہڈیوں کے ساتھ کھوپڑیوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ ہڈیوں کے ذریعے سے دیواروں کی تعمیر اس انداز سے ہوئی ہے کہ اسے فن تعمیر کا ایک شاہکار قرار دیا جاتا ہے، جبکہ چیپل کی چھت بھی مکمل طور پر انسانی ہڈیوں سے بنائی گئی ہے۔ چھت میں ٹانگوں کی ہڈیوں کے ساتھ کھرپڑیوں کو انتہائی خوبصورت انداز میں جوڑا گیا ہے۔ جبکہ 3 پسلی کی ہڈیوں کے ساتھ ایک کھوپڑی کو نیچے لٹکایا گیا ہے۔ چیپل میں رکھی صلیب اور تمام متعلقہ اشیا بھی انسانی ہڈیوں سے بنائی گئی ہیں۔ چھت پر لگے فانوس بھی انسانی کھوپڑیوں میں نصب کئے گئے ہیں۔ اب پولینڈ کی حکومت نے اس تاریخی اور انوکھے گرجا گھر کو موسمی اثرات سے بچانے کے لیے اس کے اوپر چھت بھی تعمیر کی گئی ہے، جبکہ ہڈیوں کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے وقتاً فوقتاً ان پر اسپرے کا بھی کیا جاتا ہے۔یہ کھوپڑیاں اور ٹانگوں کی ہڈیاں 3 ہزار متاثرین کی ہیں، جن سے چھتوں اور دیواروں کو تیار کیا گیا ہے جبکہ 21 ہزار ہڈیاں ایک ٹریپ ڈور میں چھپی ہوئی ہیں۔
(ضیاء چترالی)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_23.html

Friday 21 February 2020

حضرت جی مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب نصیحتیں

حضرت جی مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب نصیحتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(1) فرمایا:
حضرت شاہ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے کہ راتوں کو قرآن کے اندر ہڈیوں کو پگھلانے والے غوروفکر اور دنوں کو اس کے حلال وحرام کے پھیلانے میں جان توڑ کوشش نے ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑھایا ہے۔ 
(2) فرمایا:
کہ جب تک تمہاری راتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی راتوں کے مشابہ ہوکر اس کے ساتھ ضم نہ ہوں تمہارا دنوں کا پھرنا رنگ نہیں لائے گا۔
فرمایا کہ مذہب پر چلنا اسباب کی خاصیتوں کو بدل دیتا ہے۔
(3) فرمایا:
کہ لا الہ الا اللہ کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ اغراض کے ماتحت کس چیز میں نہیں لگیں گے اور امر کے تحت جان اور عزت کی پروا نہ کریں گے۔
(4) فرمایا:
کہ اغراض پروری رزق تک پہنچاتی ہے دین پروری رزاق تک پہنچاتی ہے یہ کہنا ضعیف الایمانی کی بات ہے کہ یہ کام تو ٹھیک ہے مگر ہمیں یہ کام ہے وہ کام ہے۔
(5) فرمایا:
امارت کی برکتیں احاطہ سے باہر ہیں ہمیں حکم ہے کہ اگر دو بھی باہر نکلیں تو ایک کو امیر بنالو۔
(6) فرمایا:
چوبیس گھنٹے میں ذکر اور علم کے لئے وقت متعین کرو اس کو خاص مناسبت ہے اس کام سے۔
(7) فرمایا:
جان قربان ہوجائے دین زندہ ہوجائے یہ جہاد ہے۔
(8) فرمایا:
اس گاڑی کے دو پہئے ہیں اپنی برائی اور دوسروں کی خوبی تلاش کرو شکایت کادروازہ بند کردو نہ افراد کی نہ امت کی۔
(9) فرمایا:
تنہائیوں میں اپنے گھٹ میں بٹھانے کی نیت سے ذکر اور مجمع میں اس کی پکائی کے واسطے تقریر کرو۔
(10) فرمایا:
اخلاق سے اور عبودیت سے تبلیغ کرو حکومت کے طور سے مت کہو بلکہ مشورہ کے طور سے کہا کرو۔
(11) فرمایا:
تعلیم کے لئے صبح کا آدھ گھنٹہ گھر گھر میں ہوجاوے گویا ہر ایک گھر ایک حجرہ ہے اورتمام گاؤں ایک مدرسہ ہے۔ 
(12) فرمایا:
خدا اور خدا کے حکموں کو اونچاکرو جسکا ذکر ہوگا اس کا اثر ہوگا ہر وقت تبلیغ کا ذکر اور مشورے کرو۔
(13) فرمایا بغیر ذکر کے عبادت دشوار ہیں اور بے لذت اس واسطے سب سے اول ذکر کی مقدار زیادہ کرنی چاہیے کیونکہ جب محبوب کا ذکر کیا جاوے گاتب ہی اس کو مانا جاوے گا اس واسطے اللہ تعالٰی کا ذکر معہ فکر کے کثرت سے کرنا چاہئے۔
(14) فرمایا:
مہا عمل تو تبلیغ ہے اس سے بچے ہوئے وقتوں میں علم وذکر میں مشغول رہو کام کرنے کے بعد اسی پر نظر رکھو اسی سے مانگو نہ ملنے پر روؤ۔
(15) فرمایا:
مسلمانوں میں اول تو کسل ہے اور پھر اٹھنے کے بعد خودرائی ہے اپنے بڑوں کے فرمودہ کے مطابق چلنا چاہیے خود رائی سے چلنے میں محنت زیادہ منافع تھوڑا ماتحتی میں چلنے میں محنت کم منافع بے شمار۔
(16) فرمایا:
جو شخص اپنے دین کے بڑوں کے پیچھے نہیں چلتا وہ کفار کے بڑوں کے پاؤں کے تلے اور پنجے میں دے دیا جاتا ہے۔
(17) فرمایا:
زبان کو میٹھا کرنے کی کوشش کیجیو یہ بڑی سے بڑی عبادت سے بہتر ہے یہ وہ زندگی ہے جو اسوہ حسنہ ہے یہ وہ زندگی ہے جو بلاؤں کا علاج ہے یہ وہ زندگی ہے جو اللہ کے خوش کرنے کاسب سے بڑا ذریعہ ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی روح پاک کو خوش کرنا ہے۔
(18) فرمایا:
خدا کے ساتھ تقوے کا برتاوا رکھے مخلوق کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاوا رکھے
اور اپنے نفس کے ساتھ
تہمت کا برتاوا رکھے۔
(19) فرمایا:
اس کام کا مزاج اپنوں اور غیروں کی جھیلنا ہے۔ 
(20) فرمایا:
کہ ہم غلطی کے نہ ہوتے ہوئے بھی اعتراف کرلیں یہ کام اس مزاج کو چاہتا ہے۔
(21) فرمایا:
چھوٹوں سے بڑوں کی عزت ہے اور بڑوں سے چھوٹوں کی ترقی وتربیت چھوٹے جتنے بڑوں کے محتاج ہیں اس سے زیادہ بڑے چھوٹوں کے محتاج ہیں۔
(22) فرمایا:
جماعت ہمیشہ ایک جگہ ٹھیرے امیر بنالو جو وہ کہے اس پر عمل کرو امیر کو بدلتے رہو آج یہ ہے کل وہ ہو امیر مامور ہونے کے احکامات کو خوب حفظ اپنے دل میں رکھیں اپنے منصب کو ملحوظ رکھیں مامور ہونے کے وقت اطاعت کو معہ حقوق مشورے کے امیر اپنی جماعت کے طبائع سے واقف رہے اگر واقف نہ ہو تو مشورے کے بعد ہر تجویز کو تجویز کرے جن لوگوں کے خلاف طبع ہو اول ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرے ورنہ مراعات دلداری سے انہیں بدل کرتا رہے بوقت امیر ہو نے کے جس سے مشورہ مناسب سمجھے مشورہ لیوے اور بوقت مامور ہونے کے جب امیر مشورہ لیوے تو کھل کر مشورہ دیوے۔
(23) فرمایا:
مشورہ سے الفتیں محبتیں پیدا ہوتی ہیں مشورہ کو رواج دینا ہے مشورہ ایک مستقل چیز ہے۔
(24) فرمایا:
تبلیغ میں مومن کی زیارت آنکھ کا ذکر ہے چلنا پیر کاذکر۔
(25) فرمایا:
جب مسلمانوں کی طرف نگاہ کیا کروتو اس کی طرف وقار کے ساتھ نظر کیا کرو کہ یہ خدا پر ایمان لایا ہوا ہے میرا خدا اس کو پیار کرتا ہے پھر میں کیوں اس کو غیر نظر سے دیکھوں۔
(26) فرمایا:
نفس کو مومن کے سامنے ذلیل یعنی اس کی بات نیچی کرنےکی گھات میں لگا رہے۔
(27) فرمایا:
جب تک انسان اپنے کو مخلوق کا خادم اور چھوٹا سمجھتا رہے گا اس وقت تک اللہ تعالٰی کے یہاں مقرب اور محبوب رہے گا.
(28) فرمایا:
ہدیہ کا ثواب صدقہ سے بہت اونچا ہے ۔
(29) فرمایا:
غیبت کرنے والوں کا اللہ ارادہ کرلیتے ہیں کہ ان کو بغیر ذلیل کئے ہوئے نہیں رکھوں گا۔
(30) فرمایا:
بر اور تقوی کا معاون ہونا فرض ہے تمام روئے زمین کے مسلمانوں پر۔
(31) فرمایا:
چلوں کے لئے نکلو سالوں کا ارادہ رکھو عمریں صرف کرنے کے لئے دعائیں مانگو۔
(32) فرمایا؛
کام کرنے کے بعد شکر کرے ندامت سے سر جھکائے اس سے نفس مرجائےگا۔
(33) فرمایا:
تبلیغ کا کام کرتے ہوئے تمہاری دنیا بھی دین ہوجاوے گی برخلاف اس کے اگر اس کو نہ کیا تو تمہارا دین بھی دنیا ہوکر برباد ہوتا چلا جاوے گا۔
(34) فرمایا:
اللہ کا حکم سمجھ کر، بے چینی کے ساتھ کرنا یہ ہے تبلیغ کا خلاصہ۔
(35) فرمایا:
جہل اور معصیت اللہ کی اذیت کی چیزیں ہیں اس لئے اپنی اذیت کے مقابلے میں اللہ کی اذیت دور کرنا سب پر فرض ہے۔
(36) فرمایا:
میرے رب کا حکم ہے اس نیت سے مشقیں کرو جس وقت جی نہ چاہتا ہو اس وقت زیادہ کرو۔
(37) فرمایا:
دین کا کام جی لگنے کیوجہ سے کرنا دنیا ہے۔
(38) فرمایا :
دین کا کام چھوڑنا خیانت ہے۔
(39) فرمایا:
دین کے پھیلانے کے لئے ترک وطن سنت طریقہ ہے۔
(40) فرمایا:
مذہب کی رونق سے تمہاری رونق ہوگی۔
(41) فرمایا:
ایمان روح ہے اور اسلام اس کا وجود۔
(42) فرمایا:
جو اعلی مرتبہ چاہتا ہے رات کی بیداری اختیار کرے۔
(43) فرمایا:
قرآن پڑھنے میں خدا کی آواز سنائی دینے لگے ایسا پڑھو۔
44) فرمایا:
کلمہ کے نور سے دل کو تنہائیوں میں روشن کرو تو نفس کے عیب معلوم ہوتے رہیں گے اور دین میں ترقی کرتے رہوگے۔
(45) فرمایا:
جب تک چوبیس گھنٹے میں کوئی وقت ذکر کا مقرر نہیں کروگے یہ تبلیغ جڑ نہیں پکڑسکتی۔
(46) فرمایا:
زندگی اللہ کی یاد سے ہے
اللہ اللہ کرنے میں چین آنے لگے اس کا نام حیات طیبہ ہے۔
(47) فرمایا:
عمل اور علم کی پونجی کو چور چرا کر لے جاوے گا جب تک ذکر کے چراغ سے اس کو محفوظ نہ رکھاجاوے ورنہ شیطان چور لایعنی کی آندھی سے اس کو بجھاکر 
(48) فرمایا:
ذکر کو لے کر جاؤگے تو ہر فاسق وفاجر سے نفع اٹھاؤگے اور اگر اغراض لے کر جاؤگے تو کفر لے کر آؤ گے۔
(49) فرمایا:
اغراض کو قربان نہیں کیا تو علماء کا علم بھی جہنم میں لے جائے گا۔
(50) فرمایا:
علم ہو اور نفس قابو میں ہو یہ باعث رحمت ہے ورنہ وہ علم شیطان ہے۔
(51) فرمایا:
دن میں ظاہر کی تبلیغ ہے اور راتوں میں باطن کی تبلیغ ہے دونوں قسموں کے ماہرین کا ادب کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا۔
(52) فرمایا:
عمل بلا صحبت اور صحبت بلاعمل خطرے سے خالی نہیں۔
(53) فرمایا:
علم ماتحت ہو فکر کے۔
(54) فرمایا:
علم بذریعہ دل کے عمل بذریعہ جوارح کے دھیان بذریعہ دماغ کے جہد مشترک سب کے ذریعہ سے۔
(55 ) فرمایا:
مراقبہ اور قوت فکریہ سے کام میں مضبوطی ہوتی ہے۔
(56) فرمایا جیسے دنیاوی مشاغل بھلارہے ہیں دین کو اسی طرح دینی مشاغل کی طاقت ایسی ہوجاوے کہ دنیاوی مشاغل کو بھلانے لگیں۔
(57) فرمایا:
اکرام مسلم کے لئے تین باتوں کی ضرورت ہے توقیر کے ذریعہ یا تعظیم کے یا ترحم کے ان تینوں میں سے ہر موقہ کے مناسب مسلم کا اکرام کرنا۔
(58) فرمایا:
ان باتوں سے دین آوےگا قرآن نماز تبلیغ قرآن میں اللہ تعالٰی نے اپنی صفات جمالیہ وجلالیہ کا نور بھر دیا ہے
اورنماز کے زریعہ سے انسان میں چونکہ نور لینے کا مادہ رکھ دیا ہے اور کسی مخلوق میں یہ بات نہیں رکھی نماز کے ذریعہ نور آوے گا ہر ہر عضو میں اور تبلیغ سے اس کی صیقل ہوگی۔
(59) فرمایا:
سب سے بڑا ذکر اللہ کی باتوں کا تذکرہ مجمعوں میں کرنا ہے گھروں سے نکل نکل کر۔
(60) فرمایا:
تبلیغ کرنے میں تھوڑی نفع میں بڑی مگر یہ تبھی معلوم ہوسکتا ہے کہ یا تو گرہ کی عقل رکھتا ہو یا دوسروں پر اعتماد کرے یہ میرا دعوٰی ہے کہ اس کے کرنے میں 99 حصہ نفع ہے۔
(61) فرمایا:
یہ تحریک ہے قدم اٹھانے کی جس قدر اس میں قدم اٹھے اسی قدر اس میں رحمت برکت اور نفع ہے۔
(62) فرمایا:
تبلیغ کی منفعت یہ ہے کہ ہر کام اتنے حصے بڑھ جاوے گا کہ جتنا صاحب تبلیغ دوسروں کو اس کام پر لگاوے گا۔
(63) فرمایا:
تبلیغ کی جڑ اللہ کے خوف اور جنت کی طمع میں ذکر کی کثرت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے شوق میں اور پھیلانے کا چاؤ ہے اس چاؤ سے جب تبلیغ کی جاوے تو بڑی برکت ہوگی۔
(64) فرمایا:
مسلمانوں کی عادت ہوجاوے کہ پیٹھ پیچھے مسلمانوں کی تعریف کریں بس یہ ہزاروں عبادتوں سے اللہ کے نزدیک بہتر ہے اور وہ شخص اللہ کا محبوب ہے فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔
(65) فرمایا:
حکم کے پہنچانے میں یہ دیکھے کہ کس کا حکم ہے
اور میں کس ادب سے اس کو پہنچاؤں۔
(66) فرمایا:
کوئی جماعت یا کوئی شخص زوروں کی کوشش کے علاوہ ذرا بھی وقت نہ گزارے اس کوشش میں بڑی سے بڑی مشقّت بھی اٹھانی پڑے تو اس مشقّت سے نہ گھبراویں۔
(67) فرمایا:
اسلام کی ایک ایک چیز میں اللہ تعالٰی نے اپنی رضا بھردی ہے اب جس جس قدر کی جو چیز ہے اتنی ہی قدر کی اس میں رضا ہے خیال کرنے کی بات ہے کہ یہ تبلیغ کتنے بڑے درجہ کی چیز ہے۔
(68) فرمایا:
ہمارے بزرگ تو یہ فرمایا کرتےتھے کہ جب نیک کام کرنے سے خوشی اور گناہ کرنے سے ندامت ہوجاوے امتی کی یہی ولایت ہے۔
(69) فرمایا:
ملنے کے وقت نری خوبیوں کو دیکھو ورنہ اس کے بر عکس خدا تعالٰی ہمارے عیوب دیکھیں گے۔
(70) فرمایا:
اصل یہ ہے کہ بصیرت ایسی ہوجاوے کہ دوسروں کے عیوب نظر سے غائب ہوجاویں اور دوسروں کی صفات اور خوبیاں نظر آنے لگیں اور ان کی خدمت کے لئے دل خوشی خوشی اللہ کی رضا کے لئے جس میں اغراض شامل نہ ہوں آمادہ ہو
یہ خدمت خلق انبیاء علیہم السلام کا پیشہ ہے۔
(71)فرمایا:
ذکر نفلى کی یہ خوبی ہے اللہ کہتا ہے میں اس بندے کا کان ہوجاتا ہوں ہاتھ ہوجاتا ہوں اور جب فرض ذکر کیا جاوے گا تو اللہ کی دین کا کیا کچھ ٹھکانہ فرق مراتب نہ کنی زندیق شوی
لازم سے متعدی کی قیمت زیادہ ہے پھر متعدی میں فرق اعلی وادنی کا اعمال کو ماننےکے بعد ترتیب ضروری ہے۔
(72) فرمایا:
ہمارے کلام سے جی نہ لگاؤ جی توخدا کے کلام سے لگاؤ اس میں لگنے کی وجہ سے اس کو معاونت کے درجہ میں سمجھو۔
(73) فرمایا:
اللہ تعالٰی کے امر کو زندہ کرنے میں جان دے دو ورنہ اغراض کی وجہ سے روٹیوں کی خاطر مخلوق جان دے رہی ہے۔
(74) فرمایا:
جہلا کو علماء سے ملاؤ جہلاء ان کی تعظیم کریں
اور علماء انپر پیار کریں یہ گر کی بات ہے۔ بجائے خود کرنے کے علماء کو لگادو علماء میں جہلاء اپنی جہالت کے حالات سنادیں ان کو ان پر رحم آوےگا یہ ان کی خوشامد کریں گے تاکہ علوم سے آشنا کریں دراصل کام بنے گا علماء ہی سے۔
(75) فرمایا:
حق تعالٰی سے لگاؤ کا رواج مٹ گیا علم کا ڈھنگ غلط تقوی کا ڈھنگ غلط یہ طلب علم نہیں علم کی لذت سے ناواقف ہوچکے ہیں اصل اللہ کے امروں کی قدردانی ہے۔
(76) فرمایا:
کلمہ کی دعوت کے ذریعے سے اپنے کلمے کو نورانی کرو پھر نماز میں نور آوےگا اورپھر نماز دیگر اعمال میں نور لاوے گی۔
(77) فرمایا:
اللہ کے امر کی بنا پر چلنا یہ ایمان کی خوبی ہے اسباب اسباب کے درجے میں ہیں جو مخلوق ہیں مخلوق سے جی نہیں لگایا کرتے۔
(78) فرمایا:
مجھے دو خطرے ہیں ایک یہ اسباب ہوتے ہوئے اسباب پر نظر نہ ہو یہ مشکل ہے مجھے اپنے اوپر بھی خطرہ ہے اسباب پر نظر ہوجانے سے اللہ کی نصرت ختم ہوجاتی ہے استدلال میں لقدنصرکم اللہ فی مواطن کثیرة. کو پیش کیا. اسباب نعم ہیں اسباب کا تلبس استعمال نعمت کے درجے میں ہو نہ کہ ان پر نظر جم کر خالق کی بجائے ان سے جی لگ جائے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ہم کام نہ کررہے ہوں اور سمجھیں کہ کررہے ہیں کام کے اثرات کو کام سمجھیں کام تو چھ نمبروں کی پابندی ہے۔
(79) فرمایا:
اسباب ختم ہونے کے بعد یاس نہ آنے پائے اللہ سے مایوس نہ ہونا چاہئے بس اس وقت اللہ تعالٰی سے مانگو اضطراری حالت کی دعاء مقبول ہے۔ 
(80) فرمایا:
اسباب کی کمی پر نظر ڈال کر مایوس ہوجانا اس بات کی نشانی ہے کہ تم اسباب پرست ہو اور اللہ کے وعدوں اور اس کی غیبی طاقتوں پر تمہارا یقین بہت کم ہے اللہ پر اعتماد کرکے اور ہمت کرکے اٹھو تو اللہ ہی اسباب مہیا کردیتا ہے ورنہ آدمی خود کیا کرسکتا ہے مگر ہمت اور
استطاعت بھر جہد شرط ہے۔
(81) فرمایا:
دہریت کیا ہے مال روپے پیسے پر بھروسہ کرنا اس واسطے قوت یقین کو اللہ نے جو اپنے اوامر کے ذریعہ بتلایا ہے اس کو مضبوط کرنا اسباب کو اوامر کے ماتحت برتو نہ کہ اسباب کو یقین کا درجہ دےدو۔
(82) فرمایا:
آج کل مخلوق اسباب پر نظر جماکر سارے کاموں کی ترقی کا باعث سمجھ رہی ہے حالانکہ اسباب اوامر کے بعد مرتب ہوتے ہیں اللہ تعالٰی نے کن کہا تب زمین وآسمان بنے یہ فرق اسباب و اوامر کا ہے۔
(83) فرمایا:
مخلوق سے امید باندھنا 
اللہ کو جتنا غضب میں لاتا ہے اسی طرح اللہ سے امید نہ باندھنا غضب میں لاتا ہے۔
(84) فرمایا:
یقین اور وہم کا فرق یہ ہے یقین تویہ ہے کہ یہ ہوگا اور پھر ہوگا اور وہم یہ ہے کہ شاید ہوجاوے گا اور نہ ہونے پر ڈگ جانا۔
(85) فرمایا:
اصل یقین یہ ہے کہ ایسا یقین ہو کہ اسباب کے خراب ہوتے ہوئے یقین کو ترقی دینا اور اللہ کے فرمودہ کی قدر اور وقعت کرنا اور اس پر جمے رہنا۔
(86) فرمایا:
اعمال کو اللہ کی رضا کے لئے کرنا یہ درجہ اول ہے
اور طمع وخوف کے ذریعہ کرنا یہ درجہ دوم ہے۔
(87) فرمایا:
یہ تحریک دیگر اعمال کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کودیگرمخلوق پر فضیلت ہے. حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سایہ تلے ہر شخص محفوظ رہ سکتا ہے اسی طرح یہ عمل دیگر اعمال کے مقابلے میں ایساہی ہے اس کے سایہ بغیر کسی عمل میں پرورش اوربقانہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اور موسی علیہ السلام آویں تو ان کو بھی میری اتباع بغیر چارہ نہیں
اسی طرح دیگراعمال بغیر اس عمل کے بے رونق ہیں۔
(88) فرمایا:
اللہ تعالٰی نے اس زمانے میں یہ نعمت عجیبہ عنایت فرمائی ہے اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر نعمت شکریہ پر ہے اس نعمت کا شکریہ مسلمانوں مؤمنوں کے سامنے تواضع ہے۔
(89) فرمایا:
صفت عبدیت بڑھائے یہاں تک کہ اپنے آپ کو راستہ کی خاک سے بھی کم سمجھے جیساکہ وہ پیروں میں روندی جاتی ہے اسی طرح دین کے کاموں کے کارن مخلوق کے پیروں میں رندنے کو فخر سمجھنا۔
(90) فرمایا:
دین کے کارن جوانسان کو تکالیف آتی ہیں وہ اللہ کو بہت پسند ہیں۔
(91) فرمایا:
تبلیغ ایک فن ہے جس کو تھوڑا سا کرنے سے انسان بہت کچھ کماسکتا ہے۔
(92) فرمایا:
راتوں کو ذکر سے اور دن میں تبلیغ سے اور باقی وقت ضروریات سے فارغ ہوتے ہوئے علوم کے سیکھنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھے. کچھ وقت ان علوم میں صرف کرے جس سے جذبات پیدا ہوں اور باقی کو مسائل وغیرہ کے سیکھنے میں خرچ کرے۔
(93) فرمایا:
صحبت بڑی چیز ہے جو علوم صحبت کے ذریعہ سے آویں گے وہ ہرگز کتابوں کے ذریعہ نہیں آویں گے۔
(94) فرمایا:
جب تک علاقہ نائبان رسول سے نہ ہوگا گویا اس نے رسالت کا اقرار نہیں کیا اور وہ شیطان کے پنجے میں آجاوے گا۔
(95) فرمایا:
زمانہ تبلیغ میں خدمت گزاری اور حفظان صحت کے بعد تبلیغ تعلیم اور تذکیر ہے۔ 
(96) فرمایا:
طبعیت مایوسی کی طرف زیادہ چلتی ہے کیونکہ مایوس ہوجانے کے بعد آدمی اپنے کو ذمہ دار نہیں سمجھتا اور پھر اسے کچھ کرنا نہیں پڑتا خوب سمجھ لو یہ نفس اور شیطان کا بڑا کید ہے۔
(97) فرمایا :
حضرت گنگوہی رحمۃاللہ علیہ اس دور کے قطب ارشاد اور مجدد تھے لیکن مجدد کے لئے ضروری نہیں ہے کہ سارا تجدیدی کام اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو بلکہ اس کے آدمیوں کے ذریعہ جو کام ہو وہ سب بھی بالواسطہ اسی کا ہے جس طرح خلفائے راشدین بالخصوص حضرات شیخین کا کام فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام ہے۔ 
(98) فرمایا:
حضرت گنگوہی کے گھروالوں کو
کہ مجھے دین کی نعمت آپ کے گھرانے سے ملی ہے میں آپ کے گھر کا غلام ہوں غلام کے پاس اگر کوئی چیز اچھی آجائے تو اسے چاہیے کہ تحفہ میں اپنے آقا کے سامنے پیش کردے مجھ غلام کے پاس آپ ہی کے گھر سے حاصل کیا ہوا وراثت نبوت کا تحفہ ہے اس کے سوا اور اس سے بہتر میرے پاس کوئی سوغات نہیں ہے جسے میں پیش کرسکوں۔
(99) فرمایا:
اس طریقہ سے چند روز میں وہ بات حاصل ہوسکتی ہے جو دوسرے طریقوں سے پچیس سال میں بھی حاصل نہیں ہوتی۔
(100) فرمایا:
میں مستورات سے کہتا ہوں کہ دینی کام میں تم اپنے گھر والوں کی مددگار بن جاؤ انہیں اطمینان کے ساتھ دین کے کاموں میں لگنے کا موقع دے دو اور گھریلو کاموں میں ان کا بوجھ ہلکا کردو تاکہ وہ بےفکر ہوکر دین کا کام کریں اگر مستورات ایسا نہ کریں گی تو حبالةالشیطان ہوجائیں گی یعنی شیطان کاپھندہ۔
(101) فرمایا:
میں اب تک اس کو پسند نہیں کرتا تھا کہ اس تبلیغی کام کے سلسلہ میں کچھ زیادہ لکھا پڑھا جائے اور تحریر کے ذریعہ اس کی دعوت دی جائے بلکہ میں اس کو منع کرتا رہا لیکن اب میں کہتاہوں کہ لکھا جائے اور تم بھی لکھو...اب ان حالات ميں بھی 
کس مپرسی والے ابتدائی زمانہ ہی کے طریقہ کار کے ہرہرجز جزپر جمے رہنا ٹھیک نہیں ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ تحریر کے ذریعہ بھی دعوت دینی چاہئے۔
(102) فرمایا:
اب یہ کہنا چھوڑدو کہ تین دن دو یا پانچ دن دو یا سات دن دو بس یہ کہو کہ راستہ یہ ہے جو جتنا کرےگا اتنا پاوے گا اس کی کوئی حد اور کوئی سرا نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کام سب نبیوں سے آگے ہے اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی ایک رات اور ایک دن کے کام کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں پاسکے پھر اس کی غایت ہی کیاہے یہ تو سونے چاندی کی کان ہے جتنا کھودوگے اتنا نکالوگے۔
(103) فرمایا:
دین کی نعمت جن وسائط سے ہم تک پہنچی ہے ان کا شکر و اعتراف اور ان کی محبت نہ کرنا محرومی ہے 
من لم یشکرالناس لم یشکراللہ
اور اسی طرح ان ہی کو اصل کی جگہ سمجھ لینا بھی شرک اور مردودیت کا سبب ہے وہ تفریط ہے اور یہ افراط ہے اور صراط مستقیم ان دونوں کے درمیان ہے۔
(104) فرمایا:
یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے جن بڑوں سے ہم دینی فیوض اخذ کریں ان سے اپنا تعلق صرف اللہ کی جانب کا رکھیں اور صرف اسی لائن کے ان اقوال وافعال اور احوال سے سروکار رکھیں باقی دوسری لائنوں کی ان کی ذاتی اور خانگی باتوں سے بے تعلق بلکہ بے خبر رہنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ ان کا اپنا بشری حصہ ہے لامحالہ اس میں کچھ کدورتیں ہوں گی اور جب آدمی اپنی توجہ ان کی طرف چلاوےگاتو وہ اس کے اندر بھی آئیں گی نیز بسا اوقات اعتراض پیدا ہوگا جو بعد اور محرومی کا باعث ہوجائے گا اسی لئے مشائخ کی کتابوں میں سالک کو شیخ کے خانگی احوال پر نظر نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ 
(105) فرمایا:
مسجدیں مسجد نبوی کی بیٹیاں ہیں اس لئے ان میں وہ سب کام ہونے چاہئیں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں ہوتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز کے علاوہ تعلیم و تربیت کا کام بھی ہوتا تھا اور دین کی دعوت کے سلسلہ کے سب کام بھی مسجد ہی سے ہوتے تھے دین کی تبلیغ یا تعلیم کے لئے وفود کی روانگی بھی مسجد ہی سے ہوتی تھی یہاں تک کہ عساکر کا نظم بھی مسجد ہی سے ہوتا تھا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مسجدوں میں بھی اس طریقہ پر یہ سب کام ہونے لگیں۔
اس کام پر جب بھی کوئی خطرہ یا رکاوٹ آئے گی وہ کام کرنے والوں کی غلطی سے آئے گی۔ اس میں جماعتی عصبیت، غرور اور افتراق زہر کے مانند ہے۔
تمام طبقات کا جوڑ خصوصا علماء کرام اور دینی طبقات سے اس کام کی روح ہے۔
تمت بحمدالله ومنه
اللھم الف بين قلوبنا وأصلح ذات بيننا واهدناسبل السلام ونجنامن الظلمات إلى النور وجنبناالفواحش ما ظهر منها ومابطن 
وبارك لنا فى اسماعنا وابصارنا وازواجنا وذرياتنا وتب علينا انك انت التواب الرحيم واجعلناشاكرين لنعمتك مثنين بها قابليها واتمها علينا. 
امين يارب العلمين
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_21.html?m=1

Wednesday 12 February 2020

مذاہب اربعہ کا خلاصہ

مذاہب اربعہ کا خلاصہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے استاذ محترم محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ سے جامعة العلوم الإسلامية علامہ بنوری ٹاون جامعہ میں ایک مجلس میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے مذاہب اربعہ میں سے ہر ایک فقہی مذہب کا دو لفظی خلاصہ نکالا ہے جسے آپ ائمہ اربعہ کا فقہی ذوق بھی کہہ سکتے ہیں۔
 فرمایا کہ:
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کا خلاصہ (فقہ السنہ) ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کا خلاصہ (تعظیم السنہ) ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کا خلاصہ (الذب عن السنہ) ہے ۔
(الذب) کا معنی ہے دفاع کرنا
اور
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کا خلاصہ ( اتباع السنہ) ہے۔
پھر حضرت رحمہ اللہ نے ہر امام کے  فقہی ذوق کی مفصل تشریح فرمائی ۔
غالبا (میری یاد داشت کے مطابق) اسی مجلس میں مفتی اعظم  مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ اور مفتی تقی عثمانی صاحب حفظه الله بھی تشریف فرما تھے۔ چناچہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے مفتی مولانا تقی عثمانی حفظه الله کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ باتیں آپ لکھ لیں یہ آپکو کتابوں میں نہیں ملیں گی۔
خلاصة المذاهب الأربعة في نظر فضيلة الشيخ محمد يوسف البنوري رحمه الله ( كما سمعت ذلك منه)
الإمام أبو حنيفة = فقه السنة
الإمام مالك = تعظيم السنة
الإمام الشافعي = الذب عن السنة
الإمام أحمد بن حنبل = اتباع السنة
رحمهم الله جميعا.
 مولانا محمد شفاعت رباني
مقیم مدینہ منورہ
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_12.html?m=1

Monday 10 February 2020

عورتوں کا احتجاجی دھرنے پہ بیٹھ جانا؟

عورتوں کا احتجاجی دھرنے پہ بیٹھ جانا؟

دین اسلام کی بنیاد ہی "دفع ضرر،  رفع حرج  اور جلب منفعت" یہ قائم ہے۔ 
دین ومذہب، جان (عزت و آبرو)، عقل، نسل اور مال کی حفاظت اور ان مصلحتوں سے متعلق نقصانات وفسادات کا دفعیہ وازالہ نزول شریعت اسلامی  کا  اہم  مقصد ہے ۔ 
حلال وحرام اور رخصت وگنجائش کا سارا قانون الہی انہی مقاصد ومفاسد کے دائرے میں گھومتا ہے۔ 
اسلام نے مکلفین کے ضروری اور بنیادی حقوق کی خود بھی حفاظت کی ہے اور مکلفین کو بھی اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے وسعت بھر کوششیں کرنے کا ذمہ دار بنایا ہے۔
جمہوری ریاست اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کریں، اس کے حقوق کی پاسداری نہ کریں یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوئی کوشش کریں تو اب اس طبقہ کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑا ہو ، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جد وجہد کے ساتھ پرامن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے اور ظلم وظالم کا ساتھ دینےکے مرادف ہے۔ مذہب اسلام میں ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں کی ممانعت ہے۔ جب ظلم وستم حد سے بڑھ جائے، ریاستی جبر واستبداد انتہاء کو پہنچ جائے۔ روح انسانیت بری طرح گھائل ہونے لگے، عددی طاقت کے بل بوتے  کمزور وبے بس عوام اور اقلیتی طبقوں کی مذہبی آزادی اور آئینی  عدل ومساوات پہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ڈاکہ ڈالا جانے لگے، مذہبی عبادت گاہوں کو عدالتی ہتھوڑوں کی آڑ میں چھینا جانے لگے تو اب مجبور ومقہور طبقہ کے ہر فرد وہر صنف کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے صدائے احتجاج بلند کرے ۔ انفرادی آواز سیاسی بازیگروں کو متاثر نہیں کر پاتی،  اجتماعی آواز ہی حکومتی اور ریاستی اداروں میں قابل التفات وسماع ہوتی ہے ۔ اور میڈیا میں بھی جگہ پاتی ہے۔
مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اپنے حقوق کے مطالبے کے لئے شرعی حدود میں رہتے ہوئے آواز بلند کرنا ضروری ہے ۔
حقوق کی بازیابی اور عدل و انصاف ومساوات  کے قیام کے لئے حکمرانوں سے مطالبہ کرنے کو حدیث رسول میں "افضل الجھاد" کہا گیا  ہے۔ (أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ۔۔سنن النساي 4209) 
دین کی سربلندی اور حفاظت کے لئے کی جانے والی ہر کوشش "جہاد" شمار ہوتی ہے۔
إِنَّ الْجِهَادَ بَذْلُ الْجُهْدِ فِی دَفْعِ مَا لَا يُرْضَی.
(آلوسی، روح المعانی ، 10: 137)
(’’کسی ناپسندیدہ (ضرر رساں) شے کو دور کرنے کے لئے کوشش کرنے کا نام جہاد ہے۔‘‘)
اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ. (راغب الصفهانی، المفردات: 101)
(دشمن کے مقابلہ ومدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت وطاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔)
جب دین کی حفاظت مشکل ہوجائے ، مذہب کی شان و شوکت خطرے میں پڑجائے، مسلمانوں کی توہین وتذلیل کی فضا عام ہوجائے ، کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے لگیں تو اعزاز اسلام ،  اعلاء كلمة الله اور  دین کی سربلندی اور حفاظت کے لئے دشمنوں کے ساتھ محاذ آرائی، قتال اور مسلح جدوجہد بھی فرض ہوجاتی ہے، لیکن یہ عام نہیں ہے، اس کے لئے چند شرطوں کا تحقق لازمی ہے ۔
 اس دوسری شکل کو زیادہ تر "قتال" کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، لیکن لفظ جہاد کا استعمال دونوں مفہوموں پہ ہوتا ہے۔
مسلح جدوجہد اور محاذ آرائی کی فرضیت کی من جملہ شرائط میں "ذکورت" یعنی مرد ہونا بھی ہے۔  عمومی احوال اور نارمل حالات میں دشمنوں سے مسلح جد وجہد "صنف نازک " پہ فرض نہیں ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض غزوات میں مرہم پٹی، مجاہدوں کا کھانا پکانے، اسلحہ اور رسد رسانی، پیغام رسانی وغیرہ کی خدمات انجام دینے کے لئے سن رسیدہ عورتوں کا  ساتھ نکلنا ثابت ہے ، بعض صحابیات کا نیزہ اور تلواریں چلانا اور قتال میں شریک ہونا بھی ثابت ہے ؛ لیکن یہ ان کا اختیاری اور صوابدیدی عمل تھا، نہ کہ تشریعی اور واجبی! 
بعض صحابیات کی غزوات میں صوابدیدی شرکت بھی غزوہ بدر، احد اور احزاب میں ہوئی ہے ، احزاب کے بعد جب حجاب و ستر اور پردہ کے احکام نازل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی غزوات میں شرکت کی تحسین نہیں؛ بلکہ حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔
غزوہ خیبر (جو سنہ 7 ہجری میں پیش آیا) کے موقع سے آپ نے عورتوں کی شرکت پہ سخت برہمی کا اظہار فرمایا:
عَنْ حَشْرَجَ بْنِ زِیَادٍ عَنْ جَدَّتِہٖ اُمِّ اَبِیْہِ اَنَّھَا خَرَجَتْ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ فِیْ غَزْوَۃِ خَیْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَۃٍ، فَبَلَغَ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ فَبَعَثَ اِلَیْنَا فَجِئْنَا فَرَاَیْنَا فِیْہِ الْغَضَبَ، فَقَالَ: مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِاِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللہِ خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعْرَ وَنُعِیْنُ بِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحٰی وَنُـنَاوِلُ السِّھَامَ وَنَسْقِی السَّوِیْقَ، قَالَ: قُمْنَ فَانْصَرِفْنَ حَتّٰی اِذَا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ خَیْبَرَ اَسْھَمَ لَنَا کَمَا اَسْھَمَ لِلرِّجَالِ، فَقُلْتُ لَھَا: یَا جَدَّۃُ وَمَا کَانَ ذٰلِکَ؟ قَالَتْ تَمْرًا (سنن ابی داود 2729)، بیہقی سنن الکبری 6/333. معالم السنن 266/2)..
’’حشرج بن زیاد اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ غزوۂ خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہُ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں. پانچ عورتوں کے ساتھ چھٹی وہ تھیں. کہتی ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم کو ہمارے نکلنے کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے ہمیں بلوایا. ہم حاضر ہوئیں تو ہم نے آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کو غضب ناک پایا. آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تم کس کے ساتھ نکلیں اور کس کی اجازت سے نکلیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ہم چلی آئی ہیں‘ ہم اون کاتیں گی اور اس کے ذریعے اللہ کی راہ میں مدد کریں گی. ہماے ساتھ کچھ مرہم پٹی کا سامان بھی ہے‘ ہم تیر پکڑا دیں گی‘ ستو گھول کر پلادیں گی. آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چلو‘ واپس جاؤ‘‘. پھر جب اللہ نے خیبر کو فتح کرا دیا تو حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے ہم کو مردوں کی طرح حصہ دیا. میں نے پوچھا: دادی کیا چیز ملی تھی؟ دادی نے کہا: کھجوریں!‘‘ 
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا اَنَّھَا قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللہِ نَرَی الْجِھَادَ اَفْضَلَ الْعَمَلِ، اَفَـلَا نُجَاھِدُ؟ قَالَ : لَا، لٰکِنَّ اَفْضَلَ الْجِھَادِ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ (صحیح بخاری 2784)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہُ صلی اللہُ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یارسول اللہ! ہم جہاد کو سب سے افضل نیکی سمجھتی ہیں‘ تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تمہارے لئے سب سے افضل نیکی حج مبرور ہے.‘‘
صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں: جِھَادُکُنَّ الْحَجُّ ’’تمہارا جہاد حج ہے.‘‘)
جہاد بمعنی قتال متعدد شرطوں کے ساتھ عمومی احوال میں فرض کفایہ ہے، اور اس کا مقصد وغایت  یہ ہے کہ مسلمان اپنی دینی اور دنیوی مصلحتوں کو بآسانی سرانجام دے سکیں:
امام سرخسی فرماتے ہیں: والمقصود ان یامن المسلمون و یتمکنوا من القیام بمصالح دینھم و دنیاھم۔ [المبسوط، کتاب السیر، ج10، ص4] ترجمہ:[مقصود یہ ہے کہ مومن امن سے رہیں اور ان کے لیے اپنے دین اور دنیا کے مصالح کا حصول ممکن ہوسکے۔]
عورتوں پہ نارمل حالات میں قتل وقتال میں شرکت واجب نہیں، لیکن مسلمانوں کی تعداد بالکل قلیل ہو اور دشمن یک جٹ ہوکے مسلمانوں پہ ٹوٹ پڑیں اور گھمسان کی رن پڑنے لگے تو عورت مرد غلام وآزاد سب پہ یکساں مسلح جد وجہد کرنا ضروری اور فرض ہوجاتا ہے۔
لا يعجبنا أن يقاتل النساء مع الرجال في الحرب ; لأنه ليس للمرأة بنية صالحة للقتال , كما أشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله: "هاه , ما كانت هذه تقاتل". وربما يكون في قتالها كشف عورة المسلمين , فيفرح به المشركون وربما يكون ذلك سببا لجرأة المشركين على المسلمين, ويستدلون به على ضعف المسلمين فيقولون : احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء على قتالنا , فليتحرز عن هذا , ولهذا المعنى لا يستحب لهم مباشرة القتال, إلا أن يضطر المسلمون إلى ذلك , فإنّ دفع فتنة المشركين عند تحقق الضرورة بما يقدر عليه المسلمون جائز بل واجب ۔۔ ۔(السرخسي /  شرح السير الكبير (1/184) باب قتال النساء مع الرجال وشهودهن الحرب)
 ويشترط لوجوب الجهاد سبعة شروط ; الإسلام , والبلوغ , والعقل, والحرية , والذكورية , والسلامة من الضرر , ووجود النفقة . فأما الإسلام والبلوغ والعقل , فهي شروط لوجوب سائر الفروع , ولأن الكافر غير مأمون في الجهاد , والمجنون لا يتأتى منه الجهاد والصبي ضعيف البنية , وقد روى ابن عمر , قال : عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد وأنا ابن أربع عشرة , فلم يجزني في المقاتلة . متفق عليه . ...... وأما الذكورية فتشترط ; لما روت عائشة , قالت: يا رسول الله , هل على النساء جهاد؟ فقال: جهاد لا قتال فيه; الحج , والعمرة . ولأنها ليست من أهل القتال ; لضعفها .. المغني/ابن قدامہ  9/163)
فأما إذا عم النفير بأن هجم العدو على بلد , فهو فرض عين يفترض على كل واحد من آحاد المسلمين ممن هو قادر عليه ; لقوله سبحانه وتعالى (انفروا خفافا وثقالا) قيل : نزلت في النفير . وقوله سبحانه وتعالى (ما كان لأهل المدينة ومن حولهم من الأعراب أن يتخلفوا عن رسول الله ولا يرغبوا بأنفسهم عن نفسه۔۔۔۔۔ بدائع الصنائع للکاسانی  7/98.)
أن الجهاد إذا تعيّن بأن هجم العدو على بلاد المسلمين فإنه يجب على كلّ قادر عليه من الرجال والنساء .(الشرح الصغير  ..2/274) 
 جہاد بمعنی قتال کی فرضیت کے تو متعدد شرائط ہیں، جن میں مرد ہونا بھی ایک شرط ہے؛ لیکن جہاد بمعنی حقوق کی بازیابی کیلئے بساط بھر کوشش کرنا کے لئے مرد ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے۔
ہر شہری خواہ مرد ہو یا عورت، اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے جد وجہد کرنے اور اس کے لئے زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ مفید، موثر اور نتیجہ خیز احتجاجی کوششیں کرنے میں شرعا وقانونا مکمل آزاد ہے ۔
مظلوم اور معاشرہ میں دبے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ جو "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا۔
یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قد آور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا ۔سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل " نامی تین اشخاص ("الفضل بن مشاعة" "الفضل بن مضاعة" اور "الفضل بن قضاعة") تھے۔
جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام (تینوں فضل) کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا۔
یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز، (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور مظلوم ومقہور کے حقوق کی بازیابی اور داد رسی  کے عملی جد وجہد کی ایک  شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت» (میں دار ابن جدعان میں حلف الفضول کے موقع پر شریک ہوا تھا۔ مجھے اگر اس کے احیاء کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا کیونکہ مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔“)
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .فقه السيرة - الرقم: 72 ۔۔۔۔”
میں دار ابن جدعان میں حلف الفضول کے موقع پر اپنے چچائوں کے ساتھ شریک ہوا تھا۔ مجھے اگر اسکے ا حیاءکی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا کیونکہ مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔“)
جب ایک کافر شخص سے ظلم وتعدی اور جبر وقہر کے دفعیہ اور ازالہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز اٹھانے کو اتنی پسندیدگی کی نظر  سے دیکھا تو غور کیا جاسکتا ہے کہ کسی ملک میں اگر  پوری مسلم قوم ریاستی جبر واستبداد کا شکار ہوجائے،  ان کا دین، ان کی جان اور عزت و آبرو سخت خطرات کی زد میں ہو، حراستی مراکز میں ٹھونس کر سب کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کئے جانے کی ساری تیاریاں مکمل کرلی گئی ہوں ۔ تبدیلی مذہب کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہوں تو ایسے وقت میں پوری مسلم قوم کے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے  احتجاج کرنا اور منظم پر امن جد وجہد کرنا کتنا ضروری اور موکد ہوجاتا ہے؟ 
عورتوں کے لئے عزیمت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں، گھر کے کونہ کو ان کے لئے بہترین جگہ قرار دیا گیا ہے، گھروں سے نکلنے میں ان کے لئے مخلتف خطرات ومفاسد کا خدشہ ہوتا ہے ۔
لیکن مصالح وضروریات (وعظ ونصیحت سننے کے لئے، والدین سے ملاقات کے لئے، مسجد میں نماز کے لئے، علاج ومعالجہ کے لئے، مقدمات میں شہادت  وغیرہ وغیرہ) کے لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب  اور  پردہ شرعی کی مکمل رعایت کے ساتھ  عورتوں کا گھروں سے نکلنا "رخصت" وجائز ہے ۔
 {وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب:33]. میں گھر میں رہنے کا حکم اور باہر نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔ بلکہ بغیر ضرورت نکلنے کے لئے یہ حکم ہے۔ پردے کے اہتمام اور عزت وآبرو کے تحفظ کی یقینی صورت حال کی موجودگی میں  پردے کی حدود وقیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت  ہے۔ اسی لئے اس کےمعا بعد یہ فرمادیا گیا:
{وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ} یعنی آرائش وزیبائش کے ساتھ مائلات وممیلات بن کر نہ نکلو  ۔
شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کے دین و مذہب پہ راست حملہ ہے اور  شہریت دینے کی آڑ میں مسلمانوں سے شہریت چھین کر انہیں مرتد کردینے کے لئے سازشی جال ہے۔ یہ دستور ہند کے متصادم ظالمانہ وجابرانہ قانون ہے، اگر اس سیاہ ترین قانون پہ عمل در آمد ہوگیا تو ہندوستان میں مسلمانوں کا دین ومذہب بچے گا اور نہ مسلمانوں کی جان مال عزت وآبرو محفوظ رہ سکے گی۔
دین اور جان مال وعزت وآبرو کا تحفظ اسلام کا اصول اور دستور ہے، اس سے بڑی اور حساس  ضرورت بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟
ویسے بھی ملکی آئین کے لحاظ سے عورتوں کی آواز احتجاج مردوں کی بہ نسبت جلد قابل سماع ہوتی ہے۔ اس لئے "تحفظ دین وجان" کی مصلحت ضروریہ کی رعایت میں خواتین پر امن طریقے سے سڑکوں پہ آتی ہیں تو اس کی شرعا گنجائش ہے ۔
لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں لاوارث اور بے یار ومددگار سڑکوں پر نہ چھوڑدیا جائے، مرد حضرات اپنی نگرانی میں ان کی عزت وآبرو کے تحفظ کو ہر طرح یقینی بنائیں ، کفار ومشرکین کہیں بھی کسی بھی طور ان پہ نظر بد ڈالنے یا ان کی آبرو ریزی یا توہین واستخفاف میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
اگر کہیں ان کی عفت وعصمت خطرات کی زد میں آنے کا مظنہ ہو تو پھر "درء المفاسد اولی من جلبالمنافع "  کے اصول کے تحت ان کا دھرنا غیرشرعی قرار پائے گا۔
عورتوں کے ساتھ اگر مرد موجود نہ ہوں تو ظالموں کی زبان دراز ہوگی اور وہ یوں کہیں گے کہ مسلمان گھروں میں سوئے ہوئے ہیں اور ہم سے مقابلہ کے لئے انھوں نے اپنی عورتوں کو ڈھال بنالیا! 
علامہ سرخسی نے تقریبا یہی بات آج سے سینکڑوں سال قبل لکھی ہے:
"فيفرح به المشركون وربما يكون ذلك سببا لجرأة المشركين على المسلمين , ويستدلون به على ضعف المسلمين فيقولون: احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء على قتالنا" (السرخسي/  شرح السير الكبير (1/184)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں  مرہم پٹی یا رسد رسانی وغیرہ کے لئے جو خواتین شریک ہوتی تھیں وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفوں کے بعد ہوتی تھیں ، مرد کی صفوں کو پھلاندکر مشرکین کا عورتوں کے جمگھٹے میں پہنچ جانا ممکن نہیں تھا، وہ پوری طرح مردوں کے تحفظاتی حصار میں محصور ہوتی تھیں۔
 سڑکوں پہ دھرنا پہ بیٹھی خواتین اگر اس طرح مردوں اور حفاظتی دستوں کے حصار میں محفوظ اور  شرعی پردے میں ملبوس  رہیں تو ان کے دھرنے میں کوئی شرعی مضائقہ نہیں، لیکن بے پردگی یا عفت وعصمت اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوئی یقینی شکل نہ ہو تو شرعا گنجائش نہیں ۔
بعض لوگ مردوں کے ساتھ معمولی اختلاط کو وجہ بنا کر خواتین کے دھرنے کو متنازع بناتے ہیں، اور اسے ناجائز کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ  درست استدلال نہیں ہے۔ 
یقینا خواتین کے  دھرنے کا جواز  مردوں کے ساتھ عدم اختلاط کی شرط کے ساتھ ہی مشروط ہے؛ لیکن اس اہتمام واشتراط کے باوجود کثرت ازدہام کے باعث بعض حفاظتی دستوں کا غیر ارادی طور پر  تبعاً اختلاط ہوجائے تو قابل معافی ہے۔ خواتین با پردہ ہوں اور  کثرت ازدہام  کے باعث معمولی اختلاط ہوجائے تو معفو عنہ ہے، ایام حج میں باپردہ خواتین کا دوران طواف غیرارادی طور پر تبعا مردوں کے ساتھ جسمانی اختلاط ہو ہی جاتا ہے جو ہر ایک کے ہاں قابل عفو ہے۔ ایسا ہی اگر دھرنوں کے دوران تبعا کہیں اختلاط ہوجائے تو قابل اغماض ہے۔
لیکن ہاں!  لڑکیوں کے ساتھ قصدا چپک کے بیٹھنا، سیلفیاں لینا، احتجاجی دھرنوں کے مقصد سے دور دراز شہروں اور مقامات  کا بغیر محرم سفر کرنا  انتہائی بے غیرتی اور بے شرمی کی بات ہے، جس پہ روک لگانے کی  سخت ضرورت ہے ۔
واللہ اعلم

http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_10.html?m=1

Friday 7 February 2020

قلوب کے دروازے کھلنے کا ضابطہ

قلوب کے دروازے کھلنے کا ضابطہ
_دعوت و تبلیغ سے منسلک ساتھیوں کے لئے ایک اہم نصیحت_
(حکایت وواقعہ)
ایک مرتبہ حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمة الله علیہ سے کسی میواتی نے کہا کہ حضرت! ایک پرانا ساتھی کام سے دور ھوگیا! ہم نے بہت کوشش کی اور بہت سمجھایا لیکن وہ مان کر نہیں دیتا بلکہ ہم پر غصہ بھی کرتا ہے!
حضرت جی نے فرمایا: 
ارے بھائی ایسے کام تھوڑے ہی چلے! قلوب تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اس ذات اقدس کے سامنے گڑگڑایا ہوتا! اور شکوہ گلہ کیا ھوتا کہ اے اللہ! وہ ہمارا بھائی ہم سے بہتر ہے اس سے تُو دعوت کا کام لے لے، جس طرح ہم نکموں کو قبول کیا، اسے بھی قبول فرما!
رات کو اللہ کو مناتے اور پھر دن میں اپنے بھائی کے پاس کچھ ہدیہ لے کر جاتے اور اسے دعوت دینے کی بجائے اپنی کارگذاری سناتے اور بغیر تشکیل کئے، اٹھتے ہوئے دعاؤں کی درخواست کرتے، ادھر تم مسجد پہنچتے اور ادھر وہ تمہارے پیچھے ہو لیتا!
تم نے تو اس بیچارے پر برسنا شروع کردیا، جب کہ اس کا قلب بھی اس کے ہاتھ میں نہیں!
بڑے حضرت جی کے وقت میں، جب ہمیں گشتوں میں بھیجا جاتا تو اور نصیحتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاجاتا کہ دیکھو! تم مسلمانوں سے ملنے جارہے ہو! تو نیت کرلو کہ ہم مسلمان کے گھر نیکی اور خوبی حاصل کرنے جارہے ہیں! اس لئے کہ ہر مسلمان خوبیوں کی (کان) ہے!
اب تم نے اس نیت سے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکایا تو دراصل تم (فقیر و بھکاری) ٹھہرے۔ اس نے کہا جاؤ مجھے کچھ نہیں سننا ہے چونکہ تم خیر کی تلاش میں اس کے گھر بھکاری بن کر گئے ہو، تو گھر والے کو اختیار ہے کہ تمہیں کچھ خیرات دے، یا دھتکار دے!
تمہاری اس نیت کی وجہ سے وہ عذاب الہی سے محفوظ رہا!
خدانخواستہ اگر تم داعی بن کرجاتے ھو اور وہ شخص داعی کے ساتھ بد سلوکی کرتا، تو ہلاک ہوجاتا! اور اس کی ہلاکت کا سبب تم ہوئے! اس لئے کہ وہ غریب اپنے بال بچوں میں عافیت کے ساتھ بیٹھا تھا! تم داعیوں کی دعوت کے انکار کی وجہ سے وہ مفت میں مارا گیا!
اس لئے داعی بن کر نہ جاؤ! بھکاری بن کر جاؤ!
_زور و طاقت سے گھروں کے دروازے کھلتے ہیں!_
_آہ و زاری سے قلوب کے دروازے اللہ کھولتے ہیں!_
داعی کے بیان کی پہچان ہی یہی ہے کہ دوران بیان اس کی نگاہ اللہ کی ذات پر ہوتی ہے! کہ اے اللہ میں بھی ہدایت کا محتاج اور یہ سامنے والے بھی!
واعظ کے بیان کی پہچان یہ ہے کہ دوران بیان اس کی نگاہ الفاظ ومعانی اور اسناد و دلائل پر لگی رہتی ہے! 
واعظ کے مخاطب سامنے والے ہوتے ہیں جبکہ داعی کا مخاطب خود اس کی اپنی ذات ہوتی ہے!
جو داعی تہجد کی دعا میں، اللہ کے سامنے اپنے ذلیل ہونے اور چھوٹا ہونے کا اقرار کرتا ہے اور دن میں اپنے ساتھیوں میں، اپنی کمتری اور اپنے بڑا نہ ہو نے کا اقرار کرے، تو اس کی دعوت انسانوں کے قلوب کو چیرتی ہوئی اندر اتر جاتی ہے!
رات میں اللہ کے سامنے تو اپنی پستی کا اقرار کیا اور دن میں اپنے بڑے ہونے کا ڈنکا پیٹے، ایسے شخص کو دعوت کی ہوا بھی نہیں لگی! 
یہ ہماری گذارشات ہمارے محسنوں تک پہچ جائیں تو بھلا ہو!
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_7.html?m=1

Monday 3 February 2020

خواتین کا پرامن احتجاجی جلوس؟

خواتین کا پرامن احتجاجی جلوس؟
 (سلسلہ نمبر 1754 )
کسی بھی جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان، مال، عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کریں، اس کے حقوق کی پاسداری نہ کریں یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوئی کوشش کی جائے تو اب اس طبقہ کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں ، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جدوجہد کے ساتھ پرامن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے اور ظلم کا ساتھ دینےکے مرادف ہے۔
ایسے موقع سے کی جانے والی کوشش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "افضل الجھاد" کہہ کر تحسین فرمائی ہے۔
أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ 
سنن النساي 4209
مظلوم اور معاشرہ میں دبے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد  خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی ۔ جو "حلف الفضول " کے نام سے مشہور ہوا۔
یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قدآور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا ۔ سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل " نامی تین اشخاص ("الفضل بن مشاعة"  "الفضل بن مضاعة" اور"الفضل بن قضاعة") تھے۔
جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام (تینوں فضل) کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا
یہ معاہدہ در اصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز، (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ایک عملی شکل تھی۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت»
   (لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِ اللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .
الراوي: عبدالرحمن بن عوف المحدث: الألباني - المصدر: فقه السيرة - الصفحة أو الرقم: 72 
خلاصة حكم المحدث: سند صحيح لولا أنه مرسل. ولكن له شواهد تقويه وأخرجه الإمام أحمد مرفوعاً دون قوله, لو دعيت به في الإسلام لأحببت وسنده صحيح)
اسلام  سراپا امن وانصاف کا نقیب وترجمان ہے۔ جہاں اس کی کسی بھی تعلیم میں  ظلم کا ادنی شائبہ بھی نہیں ۔وہیں   اس نے ظلم نہ سہنے کی بھی  تعلیم دی ہے۔ جس پیغمبر نے عطاء نبوت سے  قبل ہی  مظلوم کی دادرسی کے لئے اتنی کوشش کی ہو تو پھر اندازہ لگائیں کہ اس کی شریعت میں مظلوم کی حمایت کے لئے کتنی ترغیب دی گئی ہوگی!
اسی لئے قرآن کریم نے بلاتفریق مرد وعورت سب کی یہ خوبی بیان کی ہے:
((وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)) .
التوبة :71 
اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے (دینی) دوست ہیں نیک کاموں کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں اللہ ان پر ضرور رحم فرمائیں گے۔ بیشک اللہ غالب حکمت والے ہیں)
قرآن کریم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے عام مسلم خواتین کو یہ حکم دیا ہے کہ بلاضرورت شدیدہ وہ اپنے گھروں سے نہ نکلیں ۔
عورتوں کے لئے عزیمت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں ، گھر کے  کونہ کو ان کے لئے بہترین جگہ قرار دی گئی ہے ، گھروں سے نکلنے میں ان کے لئے مخلتف خطرات ومفاسد کا امکان ہوتا ہے ۔
لیکن مصالح وضروریات (وعظ ونصیحت سننے کے لئے ، والدین سے ملاقات کے لئے ، مسجد میں نماز کے لئے ، علاج ومعالجہ کے لئے ، مقدمات میں شہادت  وغیرہ وغیرہ )کے لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب  اور  پردہ شرعی کی مکمل رعایت کے ساتھ  عورتوں کا گھروں سے نکلنا "رخصت" وجائز ہے ۔
 {وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب:33]. میں گھر میں رہنے کا حکم اور باہر نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔بلکہ بغیر ضرورت نکلنے کے لئے یہ حکم ہے۔پردے کے اہتمام اور عزت وآبرو کے تحفظ کی یقینی صورت حال کی موجودگی میں  پردے کی حدود وقیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت  ہے ۔ اسی لئے اس کے معا بعد یہ فرمادیا گیا:
{وَلَا تَبَرَّ‌جْنَ تَبَرُّ‌جَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ} یعنی آرائش وزیبائش کیساتھ مائلات وممیلات بن کر نہ نکلو ۔
غزوات وسرایا بھی نہی عن المنکر ہی کی ایک قسم ہے 
اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے جہاد کو معتدل احوال میں صرف مردوں پہ فرض کیا ہے اور عورتوں کو یہ شرف بخشا کہ وہ غزوات میں قتال وشمشیر زنی کی مکلف نہ کی گئیں۔
مجاہدین اسلام کے ہمراہ زخمیوں کی مرہم پٹی وغیرہ کی ضرورت کے لئے عموما خواتین اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گھر سے نکلتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر جنگ کے ایسے عارضی حالات کے موقع سے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے تھے۔جن کا نام نکلتا تھا انہیں اپنے ہمراہ سفر غزوہ میں شریک رکھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی متعدد صحابیات اور خود بعض ام المومنین نے اسلامی جنگوں میں شرکت بھی کی ہیں اور سخت ضرورت کے موقع سے بعض صحابیات نے قتال بھی کی ہیں ۔
سنہ 6 ہجری میں غزوہ بنی المصطلق میں آپ کے ہمراہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبکہ صلح حدیبیہ کے سفر میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کے ہمرکاب تھیں۔
غزوہ حنین میں حضرت ام سلیم بنت ملحان انصاریہ زوجہ حضرت ابو طلحہ حاملہ ہونے کی حالت میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ شریک غزوہ تھیں۔
حضرت ام عمارہ نسیبہ انصاریہ  بنت کعب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں نہ صرف شریک رہیں بلکہ جب مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ ہزیمت کے شکار ہو گئے ۔افرا تفری اور حواس باختگی کے عالم میں جب صحابہ ادھر ادھر منتشر ہوگئے تب اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں ایسی زبردست بہادری دکھائی کہ دشمنوں پہ درجن بھر نیزے کا وار کی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیزہ زنی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
سمعتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يقولُ يومَ أُحُدٍ ما التفتُّ يمينًا ولا شمالا إلا وأنا أراها تقاتلُ دوني يعني أمَّ عمارةَ .
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 481 
خلاصة حكم المحدث: إسناده فيه الواقدي
اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمہ کذاب سے لڑائی میں بھی انہوں نے نیزہ زنی کے جوہر دکھائے تھے۔حتی کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا تھا۔
بصرہ میں سنہ 36 ہجری میں غزوہ جمل کے موقع سے ام المومنین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا خود اونٹ پہ سوار ہوکے بنفس نفیس غزوہ کی قیادت فرمارہی تھیں۔
جنگ کی یہ آگ  بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہی دو فرقوں کے مابین بھڑک اٹھی تھی۔
الغرض عمومی احوال میں عورتوں کو جہاد وغزوات میں گھسنے سے اسلام نے  محفوظ رکھا ہے۔ لیکن سخت گھمسان کے وقت خواتین اسلام کا قتال کرنا بھی اوپر کی سطروں میں ثابت ہوگیا ۔
غزوہ بنی المصطلق کی حدیث کے ذیل میں موطا مالک کے عظیم شارح اور محدث علامہ ابن عبد البر مالکی لکھتے ہیں کہ اگر عورتوں کی جماعت کے ساتھ مسلمان مرد بھی شامل حال ہوں ، اور خواتین کی عزت وناموس پہ حملہ کے خطرات نہ ہوں تو غزوات سمیت ہر قسم کی ضروریات کے لئے خواتین گھروں سے نکل سکتی ہیں ۔
 قال ابن عبد البر في التمهيد: خروجهن مع الرجال في الغزوات، وغير الغزوات مباح إذا كان العسكر كبيرًا يؤمن عليه الغلبة. اهـ. (التمهيد. باب التيمم .حديث خامس ) 
امام سرخسی بھی اسی طرح کی بات لکھتے ہیں:
ولا ينبغي لها أن تلي القتال إذا كان هناك من الرجال من يكفيها؛ لأنها عورة، ولا يأمن أن ينكشف شيء منها في حال تشاغلها بالقتال، ولأن في قتالها نوع شبهة للمسلمين، فإن المشركين يقولون: انتهى ضعف حالهم إلى أن احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء في القتال. اهـ.
(السرخسي في شرح السير)
ان تمام نصوص، نظائر وتاریخی واقعات کو مد نظر رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورتوں کا گھر سے نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے ۔ مصالح وضروریات کے لئے ان کا نکلنا رخصت ہے۔
رخصت بقدر ضرورت مقدر مانی جاتی ہے۔ اس لئے ہر زمانے کے بالغ نظر اور ارباب بصیرت علماء نے اپنے زمانے کے تقاضوں اور چیلینجس کے مد نظر عورتوں کے مصالح وضروریات  کی تحدید وتعیین فرماتے ہوئے پردہ کی مکمل رعایت کے ساتھ غیر مخلوط خروج کی اجازت دی ہے۔
آج کل بھگوائی اور فسطائی حکمرانوں اور ارباب اقتدار کی طرف سے طلاق ثلاثہ بل کی صورت میں خواتین اسلام کے شرعی اور بنیادی حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
معاملہ صرف خواتین کا ہے۔ ایک زرخرید خاتون کی مدعیت میں ہی میں یہ معاملہ عدالت پہنچا اور وہیں سے اس بل کی منظوری کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔
اس مبینہ بل کے پس پردہ یہ باور کروائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ جبکہ حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں ۔
ایسے  میں پردے کی مکمل رعایت کے ساتھ اجانب کے ساتھ غیرمخلوط ہوکر خواتین اپنے شرعی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبہ کے لئے  پرامن طریقے سے اگر سڑکوں پہ اکر مظاہرے کرتی ہیں تو یہ خروج اگر چہ خلاف عزیمت ہے!
لیکن عہد رسول اور صحابہ وصحابیات کے واقعات سے ایسی ناگزیر حالات میں اس کی گنجائش نکلتی ہے۔
عورت کا گھر سے نکلنے کا ممنوع ہونا ممکنہ مفاسد کے پیش نظر سد ذریعہ کے طور پر تھا۔ ممانعت مطلق نہیں تھی۔ اور نہ ہی مطلق خروج کی حرمت پہ کوئی دلیل ہے۔
ہندوستان کے موجودہ تشویشناک صورت حال کے پیش نظر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اکابر علماء کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی مکمل رعایت کے ساتھ اس پرامن خاموش  وغیرمخلوط احتجاجی ریلی کی رخصت ہے۔ یہ خروج اہم ترین شرعی ضرورت ومصلحت اور دنیاوی دفع مضرت کے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے جوازکی نظائر موجود ہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی 
13 رجب 1439 ہجری
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_70.html?m=1

کیا بیری کا درخت کاٹنا ممنوع ہے؟

کیا بیری کا درخت کاٹنا ممنوع ہے؟
کیا بیری کا درخت کاٹنے کی ممانعت ہے؟ مفتی زرولی خان صاحب کے بیان میں سنا ہے
محمود دریابادی 
الجواب وباللہ التوفیق:
جی ہاں. ممانعت کی متعدد روایتیں آئی ہیں جن میں سے بعض صحیح بھی ہیں:
عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الذين يقطعون السدر يصبون في النار على رءوسهم صبّاً " .
رواه البيهقي ( 6 / 140 ) .
وعن معاوية بن حيدة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " قاطع السدر يصوب الله رأسه في النار " . رواه البيهقي (6 / 141) .
بیرسٹر احناف امام طحاوی کا خیال ہے کہ اس نوع کی ساری احادیث منسوخ ہیں 
کیونکہ ممانعت کی روایت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے 
اور انہوں نے خود اپنے بوئے ہوئے بیری کے درخت کاٹے ہیں 
اور راوی جب خود اپنی مرویہ کے خلاف عمل کرے تو اس کا عمل روایت کے غیرمعمول بہ ہونے کی دلیل ہوتا ہے 
کچھ دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ روایات تو منسوخ نہیں ہیں؛ البتہ ممانعت صرف سایہ کے مقصد سے لگائے گئے درخت کے کاٹنے پہ محمول ہے یا حدود حرم میں لگے درخت کے کاٹنے پر ۔ 
اگر آدمی کی زمین میں بیری کا پیر اگ آیا ہو یا کوئی خود سے اپنی زمین پہ لگائے 
پھر کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت اسے کاٹنا چاہے تو کاٹ سکتا ہے، ممانعت عام نہیں ہے ۔
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی 
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_35.html

غور کئے بغیر صرف کان میں آواز پہنچنے سے سامع پر سجدہ تلاوت کا وجوب؟

غور کئے بغیر صرف کان میں آواز پہنچنے سے سامع پر سجدہ تلاوت کا وجوب؟

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسٸلہ یہ ہے کہ زید ایک مدرس ہے ایک بچہ سامنے قرآن پڑھ رہا ہے اور زید نے دیکھا کہ آیت سجدہ آرہی ہے لیکن جب بچے نے آیت سجدہ پڑھی زید کا ذہن منتشر ہوگیا بعد میں دیکھا اس بچے نے آیت سجدہ پڑھی ہے لیکن اس وقت وہ آگے پہنچ چکا تھا اسے معلوم نہیں ہوا کہ کب پڑھی ہے حالانکہ وہ برابر سن رہا ہے لیکن ذہن منتشر تھا 
٢ آیت کے بعد میں دیکھا کہ اس بچے کے سبق میں آیت سجدہ بھی تھی لیکن معلوم نہیں ہوا کب پڑھی ہے حالانکہ آواز پڑھنے کی برابر آرہی ہے تو کیا ان حالات میں زید پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اگر کان میں آواز آگئی ہو (جسے سماع کہتے ہیں) تو اگر پڑھنے والا صبی ممیز یا بالغ ہو تو سننے والے بالغ مکلف پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ پڑھنے والا صبی غیرممیز ہو تو نہ اس پر سجدہ ہے نہ سامع مکلف پر۔
حنفیہ کے یہاں سماع کا تحقق ہوجائے تو سجدہ واجب ہوجاتا ہے اگرچہ سامع نے بغور وارادہ نہ سنا ہو۔
جبکہ حنابلہ وغیرہ کے یہاں محض کان میں آواز پہنچنے سے سجدہ تلاوت مستحب نہیں ہوتا جبکہ کہ سامع غور سے نہ سنا ہو.
صورت مسئولہ میں اگر استاذ کے کان میں آواز پہنچ گئی ہو چاہے اس نے غور نہ کیا ہو تو سجدہ ان پہ واجب ہے.
اگر آواز ہی نہ پہنچی ہو تو پھر سجدہ واجب نہیں کہ بغیر آواز پہنچے سماع کا تحقق نہیں ہوسکتا.
وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.
(قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اهـ واستحسنه في الحلية"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (2/ 107)
يجب على من تلا آية من أربع عشر آية .... وعلى من سمع ولو غير قاصد إلخ ( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ج1 ص ٢٣١)
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/02/blog-post_3.html?m=1


Saturday 1 February 2020

جنت البقیع میں سب سے پہلے کس کی تدفین ہوئی؟

جنت البقیع میں سب سے پہلے کس کی تدفین ہوئی؟

الجواب وباللہ التوفیق:
 اس بارے میں محدثین اور مورخین کی آراء مختلف ہے 
1۔۔ ابن سعد رحمہ اللہ  نے طبقات اور امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں اس کو ترجیح دی ہے کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سب سے پہلے "بقیع " میں دفن ہوئے
2۔۔ ابن حبان نے کتاب الثقات اور حاکم نے مستدرک میں "أول من دفن في البقيع " أسعد بن زرارة الأنصاري رضى الله عنه کو قرار دیا ہے ۔۔ 
3۔۔ بعض نے دونوں قولوں میں تطبیق دی ہے کہ مہاجرین میں سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور بقیع میں مدفون ہوئے اور انصار میں سب سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ بقیع میں مدفون ہوئے۔۔
بعض نے ایک تطبیق یہ دی ہےکہ 
بقیع کے باقاعدہ قبرستان بننے سے پہلے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے اور باقاعدہ قبرستان بننے کے بعد سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ مدفون ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کا انتقال حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے پہلے ہوا تھا اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات واقعہ بدر کے بعد غزوہ احد سے پہلے ہوئی اس لئے 
 راجح یہی بات لگ رہی ہے کہ " أول من دفن في البقيع أسعد بن زرارة الأنصاري رضى الله عنه " ہیں ۔
عثمان بن مظعون
عثمان بن مظعون ابن حبيب بن وهب بن حذافة بن جمح بن عمرو بن هصيص بن كعب الجمحي أبو السائب
من سادة المهاجرين ومن أولياء الله المتقين الذين فازوا بوفاتهم في حياة نبيهم فصلى عليهم. وكان أبو السائب رضي الله عنه أول من دفن بالبقيع.
روى كثير بن زيد المدني عن المطلب بن عبد الله قال لما دفن النبي ﷺ عثمان بن مظعون قال لرجل هلم تلك الصخرة فاجعلها عند قبر أخي أعرفه بها أدفن إليه من دفنت من أهلي فقام الرجل فلم يطقها فقال يعني الذي حدثه فلكأني أنظر إلى بياض ساعدي رسول الله ﷺ حين احتملها حتى وضعها عند قبره. هذا مرسل

قال سعيد بن المسيب سمعت سعدا يقول رد رسول الله ﷺ على عثمان ابن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا
قال أبو عمر النمري أسلم أبو السائب بعد ثلاثة عشر رجلا وهاجر الهجرتين وتوفي بعد بدر وكان عابدا مجتهدا وكان هو وعلي وأبو ذر هموا أن يختصوا. وروى من مراسيل عبيد الله بن أبي رافع قال 👈👈👈أول من دفن ببقيع الغرقد عثمان بن مظعون فوضع رسول الله ﷺ عند رأسه حجرا وقال هذا قبر فرطنا. وكان ممن حرم الخمر في الجاهلية۔
سیر اعلام النبلاء