کیا نصف آبادی عضو غیر معطل ہے؟
عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کیلئے آج کل ایک چلتا ہوا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم نصف آبادی کو عضو غیر معطل بنا کر قومی تعمیر و ترقی کے کام میں نہیں ڈال سکے۔یہ بات اس شان سے کہی جاتی ہے کہ گویا ملک کے تمام مردوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا کر مردوں کی حد تک 'مکمل روزگار' کی منزل حاصل کر لی گئی ہے۔اب نہ صرف یہ کہ مرد بے روزگار نہیں رہا بلکہ ہزار ہا کام 'مین پاور' کے انتظار میں ہیں۔
حالانکہ یہ بات ایک ایسے ملک میں کہی جا رہی ہے جہاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مرد سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں، جہاں کوئی چپڑاسی یا ڈرائیور کی آسامی نکلتی ہے تو اس کیلئے دسیوں گریجویٹ اپنی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں اور کوئی کلرک کی جگہ نکلتی ہے تو اس کیلئے دسیوں ماسٹر اور ڈاکٹر تک کی ڈگریاں رکھنے والے اپنی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں۔پہلے مردوں کی 'نصف آبادی' ہی کو ملکی تعمیر وترقی کے کام میں پورے طور پر لگا لیجئے ۔اس کے بعد باقی نصف آبادی کے بارے میں سوچئے کہ وہ عضو معطل ہے یا نہیں؟
از افادات شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
اصلاحی خطبات:
جلد 01،صفحہ 147
No comments:
Post a Comment