ایس اے ساگر
تقسیم ہند کے ضمن میں فرنگی حکمرانوں کے منظور نظر آغا خان کا تذکرہ آتاہے. لوگ بھلے ہی ادھر ادھر تیر چلاتے ہوں لیکن آغا خان وہ شخص ہے جس نے ملک کی تقسیم میں اہم رول ادا کیا. اس سلسلہ میں ایک اہم مضمون کے ذریعہ فرقہ اسماعیلیہ کاتعارف،اجمالی عقائداوران کاحکم قابل غور ہے. کہا جاتا ہے کہ آغا خان شاہ کریم الحسینی کی پیدائش ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ عیسوی میں بعض کے نزدیک بمبئی میں اور بعض کے نزدیک پیریس میں ہوئی. ۱۹۵۷ء میں جب آغا خان سوم امام سلطان محمد شاہ کا انتقال ہوا تو اختلاف ہوا کہ ان کا جانشین کون ہو؟ لوگوں میں دو فرقہ بن گئے، حقیقی ان کا بیٹا علی سلطان خان جس کو شہزادہ علی خان بھی کہتے ہیں، ان کو ۴۹واں امام مانتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ ان کیلئے شاہ کریم الحسینی کو ۴۹واں امام مانتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ آغا خان سوم نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ میرا جانشین شاہ کریم الحسینی ہوگا، اسی میں شیعہ مسلم اسماعیلی کمیونٹی کا مفاد ہے۔
آغا خان کہنے کی وجہ:
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے جب ان کا ۴۵واں امام خلیل اللہ (متوفی:۱۲۳۳) ایک سازش کے تحت قتل کردئے گئے جس پر اسماعیلیوں کو خوش کرنے کیلئے خلیل اللہ کے دو سالہ لڑکے جس کا نام حسن علی تھا اس کو آغا خان کا لقب دیا، جس پر انہیں آقا خان محلاتی پکارا جانے لگا اور ایرانی بادشاہ نے اپنی لڑکی سے اس کی شادی بھی کردی، مگر بادشاہ فتح علی کی وفات کے بعد حسن علی شاہ آغا خان محلاتی کو ایران میں بڑی مشکلات پیش آئیں، اس لئے انہوں نے ایران کو چھوڑ کر ہندوستان میں بمبئی آکر سکونت اختیار کرلی، پھر یہاں آکر آقا خان سے آغا خان استعمال ہونے لگا۔ بحوالہ آغاخانیت علمائے امت کی نظر میں:۱۰.
تعلیم:
دورانِ تعلیم ہی جانشینی وجود میں آگئی اور امامت کی اہم ذمہ داری طالب علم کے زمانہ میں ہی مل گئی، اس لئے اس سے تعلیم پر بہت اثر پڑا اور تعلیم موقوف ہوگئی، لیکن ۱۹۵۸ء میں انہوں نے دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع اور بی، اے، آنرز کے دوران پرنس کریم آغا خان نے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔
شادی: انہوں نے اکتوبر ۱۹۶۹ء میں سلیمہ نامی لڑکی (جس کا پہلے نام ماڈل سیلی تھا جو پہلے مذہباً عیسائی تھی) سے شادی کی، جس سے تین بچے پیدا ہوائے:
(۱)پرنسس زہرہ۔
(۲)پرنس رحیم۔
(۳)پرنس حسین۔
اور پھر ۲۵سال کے بعد اس کو طلاق دیدی، پھر پرنس آغا خان نے سلیمہ کو ۵۰ملین پونڈکی رقم دی، جس میں سے ۲۰ملین پونڈ نقد اور ۳۰ ملین پونڈ کے زیورات شامل ہیں، اخبارات کے بقول یوروپ میں کسی بھی طلاق کی صورت میں اتنی بری رقم آج تک کسی بھی عورت کو نہیں دی گئی۔
(روزنامہ جنگ کراچی:۹/اپریل ۱۹۹۵)
دنیا کے امیر ترین آدمی:
آغا خان اس وقت دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، آغا خان کریم پرنس انگریزی، فرانسیسی، اطالوی زبانیں روانی سے بولتے ہیں، مگر عربی اور اردو میں اٹک اٹک کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
مشاغل:
ان کے مشاغل میں سے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹبال، ٹینس اور کشتی رانی شامل ہیں، اسکیٹنگ میں وہ ایران کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اولمپک چمپین بنے۔
القابات:
انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے اس کو ’ہز ہائنس‘ کا لقب دیا اور سابق شاہ ایران رضا پہلوی نے ’ہز رائل ہائنس‘ کا لقب دیا تھا۔
آغا خانی فرقہ(اسماعیلی) کے نظریات و عقائد کی کہان انہی کی زبانی
’’مولانا شاہ کریم الحسینی الامام الحاضر الموجود ارحمنا و اغفر لنا‘‘۔
(ڈی، ایچ، آر پرنس آغا خان فیڈرل کونسل برائے پاکستان)
ریلیجئس (مذہبی کمیٹی) نیو جماعت خانہ، بریٹیو روڈ، کراچی۔۳
آغا خانی مذہبی عبادت کا پیغام
حقیقی مومنوں کو یا علی مدد!
بیان یہ ہے کہ ہم لوگ آغا خانی ہیں،ہمارا تعلق اسماعیلی تنظیم سے ہے، جس کی ذمہ داری لوگوں کو مذہبی معلومات فراہم کرنا ہے، ہمیں جماعت خانوں میں مکھی صاحب کی زیر سرپرستی جو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، اس کی روشنی میں ہم آغاخانی، بندگی، عبادت، جو جماعت خانوں میں کرتے ہیں اس کی مکمل وضاحتی تفصیل ہم تحریر کر رہے ہیں:
۱۔ سلام ہمارا ہے: یا علی مدد اور ہمارے سلام کا جواب: ہے: مولا علی مدد۔
(سبق نمبر۲،ص:۷۔ شکھشن مالا درسی کتاب برائے مذہبی نائٹ اسکولز)
۲۔ کلمہ ہمارا ہے:
اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ و اشھد ان علی اللہ۔
(شکھشن مالا، مطبوعہ اسماعیلیہ اسوایشن برائے ہند بمبائی)
۳۔ وضو کی ہمیں ضرورت نہیں، ا س لئے کہ ہمارے دل کا وضو ہوتا ہے۔
۴۔ نماز جگہ ہر آغا خانی پر فرض ہے تین وقت کی دعاء جو جماعت خانے میں آکے پڑھے پانچ وقت فرض نماز کے بدلے، ہماری دعاء میں قیام و رکوع کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں قبلہ رخ کی ضرورت نہیں ہے، ہم ہر سمت رخ کرکے پڑھ سکتے ہیں، جس کیلئے دعاء میں حاضر امام کا تصور ہونا بہت ضروری ہے(ہم دعاء کی کتاب اس پیغام کیساتھ بھیج رہے ہیں، آپ خود بھی پڑھیں اور دوسرے روحانی بھائیوں کو بھی دیں)۔
۵۔ روزہ تو اصل میں آنکھ، کان اور زبان کا ہوتا ہے، کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، ہمارا روزہ سوا پہر کا ہوتا ہے، جو صبح دس بجے کھول لیا جاتا ہے، وہ بھی اگر مومن رکھنا چاہے، ورنہ روزہ فرض نہیں، البتہ سال بھر میں جس مہینے کا چاند جب بھی جمعہ کے روز کا ہوگا اس دن ہم روزہ رکھتے ہیں۔
۶۔ زکوٰۃ کی بجائے ہم آمدنی میں روپیہ پر دو آنہ (دسوند) فرض سمجھ کر جماعت خانہ میں دیتے ہیں۔
۷۔ حج ہمارا حاضر امام کا دیدار ہے (وہ اس لئے کہ زمین پر خاد کا روپ صرف حاضر امام ہے)۔
۸۔ ہمارے پاس تو بولتا قرآن یعنی حاضر امام موجود ہے، مسلمانوں کے پاس تو خالی کتاب ہے۔
(فرسان نمبر۵۳، کلام امام حسینؓ:۲/۳۹۳)
۹۔ ہمارے صبح و شام تک کے گناہ مکھی صاحب چھینٹا ڈال کر معاف کرتے ہیں، ہم میں سے اگر کوئی آدمی روز جماعت خانہ نہ جاسکے تو جمعہ کے روز مہینہ بھر کے گناہ چاند رات کو پیسے دے کر چھینٹا ڈلوا کر اور آبِ شفاء (یعنی گھٹ پاٹ) پی کر معاف کرواسکتا ہے۔
(شکھشن مالا درجہ سوم، سبق نمبر۶،ص:۲۱۔مطبوعہ اسماعیلیہ اسوایشن برائے ہند بمبائی)
۱۰۔ ہماری بندگی/عبادت کا طریقہ یہ ہے کہ:
حاضر امام ہمیں ایک بول/اسم اعظم دیتے ہیں جس کے عوض ہم ۷۵ روپئے ادا کرتے ہیں جس کی بندگی/ عبادت ہم رات کے آخری حصہ میں ادا کرتے ہیں، ۵سال کی بندگی/عبادت معاف کروانے کے ہم ۵۰۰ روپئے اور ۱۲/سال کی بندگی/عبادت معاف کروانے کیلئے ۱۲۰۰/روپئے اور لائف ممبر (پوری زندگی، عمر) کی بندگی معاف کروانے کیلئے ۵۰۰۰/روپئے ہم جماعت خانوں میں دے دیتے ہیں۔
نورانی:
حاضر امام کے نور کو حاصل کرنے کے لئے ۷۰۰۰/روپئے ہم جماعت خانوں میں دیتے ہیں، جس سے ہمیں حاضر امام کا نور حاصل ہوتا ہے۔
فدائین:
قیامت کے روز حاضر امام سے ہم اپنے آپ کو بخشوانے (حاضر امام کے نور کے ساتھ اپنے نور کو ملائے جانے کا خرچہ ۲۵۰۰۰/روپئے ہم جماعت خانوں میں دیتے ہیں۔
ناندی: خیرات کو کہتے ہیں، ہمارے گھروں میں بہترین قام کے پکنے والے کھانے، عمدہ قسم کے کپڑے و زیورات ہم جماعت خانوں میں خیرات (ناندی۸) دیتے ہیں۔
جماعت خانے والے اس ناندی کو نیلام کرکے اس کی رقم جماعت خانے میں جمع کردیتے ہیں۔
۱۱۔ امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے۔
۱۲۔ ان کا امام خدا میں حلول کرگیا ہے، اس لئے امام ہی حقیقت میں خدا ہے (معاذ اللہ) اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔
(سبق نمبر۱،ص:۴، شکھشن مالا نمبر۱، منظور شدہ درسی کتاب برائی ریلیجئس نائٹ اسکولز)
آغا خانی (اسماعیلیہ) فرقہ کے بارے میں
اہل فتاویٰ کی رائے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
الاستفتاء:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ چترال کے علاوہ، گلگت، کراچی اور دیگر علاقوں میں اسماعیلی (آغا خانی) فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کافی تعداد آباد ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں، مگر ان کے عقائد و نظریات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ان کا کلمہ: اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ و اشھد ان امیر المؤمنین علی اللہ ہے۔
۲۔ یہ لوگ آغا خان کو اپنا امام مانتے ہیں اور اسی کو جملہ اشیاء اور ہر نیک و بد کا مالک جانتے ہیں اور اس کے اقوال و احکامات کو فرمان کا نام دیتے ہیں اور اس کے فرمان ماننے کو سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں۔
۳۔ شریعت: ظاہری شرع کی پابندی نہیں کرتے بلکہ آغا خان کو قرآن ناطق، کعبہ بیت المعمور اور سب کچھ جانتے ہیں، ان کی کتابوں میں ہے کہ اس ظاہری قرآن میں جہاں کہیں اللہ کا لفظ آیا ہے ان سے مراد امام زماں (آغا خان) ہے۔
۴۔ نمازِ پنجگانہ کے منکر ہیں: ان کی بجائے تین وقت کی دعاؤں کے قائل ہیں۔
۵۔ مسجد کی بجائے جماعت خانہ کے نام سے اپنے لئے مخصوص عبادت خانہ بناتے ہیں۔
۶۔ زکوٰۃ: شرعی زکوٰۃ کو نہیں مانتے، اس کی بجائے اپنے ہر قسم کے مال کا دسواں حصہ مال واجبات اور ’دشوند‘ کے نام سے آغا خان کے نام پر دیتے ہیں۔
۷۔ روزہ: رمضان المبارک کے روزوں کے منکر ہیں۔
۸۔ حج بیت کے منکر ہیں، اس کی بجائے آغا خان کے دیدار کو حج کہتے ہیں۔
۹۔ سلام: السلام علیکم کی بجائے ان مخصوص سلام ’یا علی مدد‘ ہے۔
۱۰۔ جواب: سلام: وعلیکم السلام کے بجائے ’یا علی مدد‘ کے جواب: میں ’مولی علی مدد‘ کہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ
(۱)ان عقائد و نظریات کے باوجود کیا یہ فرقہ مسلمان کہلانے کا مستحق یا کافر ہے؟
(۲)کیا ان کی نمازِ جنازہ جائز ہے؟
(۳)کیا ان مسلمانوں کے مقبرہ میں دفنانا جائز ہے؟ (۴)کیا ان کے ساتھ مناکحت جائز ہے؟
(۵)کیا ان ذبیحہ حلال ہے؟
(۶)کیا ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جاسکتا ہے؟
للہ جواب: صادر فرماکر مسلمانوں کی الجھنوں کو دور فرمائیں۔ و اجرکم علی اللہ
الجواب:
الحمد للہ و سلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ:
(۱)جس شخص کو اسلامی تعلیمات اور آغا خانی عقائد و نظریات سے ذرا بھی شدبد ہو اسے اس امر میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ آغا خانی جماعت بھی قادیانی جماعت کی طرح زندیق و مرتد ہے، چنانچہ قرن اولیٰ سے لےکر آج تک کے تمام اہل علم ان کے کفر و ارتداد اور زندقہ و الحاد پر متفق ہیں، جو لوگ جہالت اور ناواقفیت کی وجہ سے آغا خانیوں کو بھی مسلمان ہی کا ایک فرقے سمجھتے ہیں، ان کی بے خبری و لا علمی حد درجہ لائق افسوس اور لائق صد ماتم ہے۔
(۲) آغا خانیوں کی دعوت ہمیشہ خفیہ، پراسرار اور ایک خاصل حلقہ تک محدود رہی، انہیں کھلے بندوں اپنے عقائد باطلہ کی نشر و اشاعت کی کبھی جرأت نہیں ہوئی، لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کی کمزور و پسماندگی اور عوام و حکام کی غفلت شعاری نے ان باطنی قزاقوں کے حوصلہ بلند کردئے ہیں اور انہوں نے ایسے منصوبے بنانے شروع کردئے ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کے بچے کچھے سرمایۂ ایمان کو بھی لوٹ لیا جائے۔
(۳) ان سازشی منصوبوں میں رفاہی اداروں کا جال سب سے زیادہ کامیاب شیطانی حربہ ہے، کیونکہ حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کی گردنیں ’’بت زر‘‘ کے آگے جھک جاتے ہیں، دین و ایمان کے ڈاکوؤں کو مسلمانوں کی خدمت و پاسبانی کی سرکاری و عوامی سند مل جاتی ہے اور انہیں مسلمانوں میں اپنے زندیقانہ نظریات و کافرانہ عقائد پھیلانے کا موقع بغیر کسی روک ٹوک کے میسر ہوتا ہے۔
(۴) ان حالات میں ’’آغا خان فاؤنڈیشن‘‘ کا قیام مسلمانوں کے وجودِ ملی کے لئے سمِّ قاتل ہے، اس کی رکنیت قبول کرنا، اس سے تعاون کرنا اور اس سے کسی قسم کی مدد لینا ایمانی غیرت کا جنازہ نکال دینے کے مترادف ہے اور یہ ایک ایسا اجتماعی جرم ہے جس کی سزا خدا تعالیٰ کے قہر اور عذاب کی شکل میں نازل ہوگی۔
(۵) مسلمانوں کو اس جال سے بچانے کیلئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس ادارہ کے قیام کی اجازت منسوخ کرے اور عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس سازشی فاؤنڈیشن کا یکسر بائیکاٹ کریں اور اس علاقہ کے علماء و صلحاء کافرض ہے کہ وہ کھل کر اس سازش کو بے نقاب کریں اور حکومت سے اس کے خلاف پڑ زور احتجاج کریں، جو شخص اس فاؤنڈیشن کی مدح و ستائش کرے گا یا اس سے کسی قسم کا تعاون کرے گا یا تعاون لے گا وہ کل بروز قیامت خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کی صف میں اٹھایا جائے گا۔
من کثّر سوا قوم فھو منھم ......لعمری لقد نبّھتُ من کان نائماً ..... و اسمعتُ من کانت بہ اُذنان
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ:
آغا خانی مرتد اور زندیق ہیں، آغا خانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ لوگ بلاشبہ کافر اور مرتد ہیں اور واجب القتل ہیں، لہٰذا ایسے لوگوں کا اس خطرناک منصوبہ میں کسی قسم کا تعاون کرنا درحقیقت چند ٹکوں کی خاطر ایمان کو فروخت کرنا ہے، حکومتِ اسلامیہ پر فرض ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو مرتدین کے پنجۂ کفر سے نجات دلوائے اور اسلام کے ان دشمنوں کو عبرت ناک سزاد دے، وہاں کے علماء اور صلحاء اور بااثر لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جلد از جلد اس بارے میں موثر اقدامات کریں، عوام پر ان لوگوں کا کفر و زندقہ واضح کیا جائے تاکہ اس خطرناک حربہ سے دنیا و آخرت تباہ نہ کریں، وہاں کے مسلمانوں کو پھر باور کروایا جائے کہ آغا خانی ادارہ میں شرکت خواہ کسی درجہ میں،کسی قسم کا تعاون، عام ممبروغیرہ بننا ناجائز اور حرام ہے۔فقط واللہ اعلم
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی کا فتویٰ:
الجواب: و منہ الصدق و الصواب
فرقہ آغا خانیہ باجماع المسلمین کافر ہے اور زندیق کے احکام ان پر جاری ہوں گے، اس لئے کہ ہر وقت وہ اس کوش میں رہتے ہیں کسی طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچے، وہ کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہ اس سے پہلے رہے ہیں اور نہ اب وہ مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں بلکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور دھوکہ دینا ان کے نزدیک عین عبادت اور کارِ ثواب ہے، چنانچہ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے ’الہدایہ و النہایہ‘ میں لکھا ہے کہ تاتاریوں نے جب دمشق پر حملہ کیا تھا تو ان اسماعیلیوں نے ان کا ساتھ دے کر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، چنانچہ یہ فرقہ کبھی مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے، تو اب ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کیلئے کس طرح ان سے دوستی یا ان کے فاؤنڈیشن یا ان کی کسی انجمن میں شرک جائز ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے بنص قطعی یہ حرام کیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ ۔
(مجادلہ:۲۲)
ترجمہ: تو نہیں پائے گا کسی قوم کو جو ایمان لائے اللہ اور آخرت پر، پھر وہ محبت کرے ان سے جن سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم دشمنی کرتے ہیں، اگرچہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی، قبیلہ والے ہوں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ o أَعَدَّ اللہ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَo
(مجادلہ:۳۱۔۴۱)
ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے دوستی کی ایسی قوم سے کہ ان پر اللہ ناراض ہوا، نہ وہ تم میں سے ہے اور نہ ان میں سے، جانتے ہوئے جھوٹی قسم کھاتے ہیں اور اللہ نے ان کے لئے عذابِ شدید تیار کیا ہے، برابر ہے جو وہ کرتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ۔
(ممتحنہ:۱)
ترجمہ: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ کہ تم دوستی کا پیغام ان کو دو حالانکہ انہوں نے حق سے کفر کیا ہے۔
ان آیتوں سے صراحتاً معلوم ہوا کہ مشرکین اور دین دشمن طبقہ سے دوستی رکھنا جائز نہیں اور نہ ان سے مالی امداد ہدیہ سمجھ کر قبول کرنا جائز ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ انہوں نے مشرکین کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا۔
فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللہ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَo
(نمل:۳۶)
ترجمہ: جب آیا سلیمان کے پاس فرمایا کہ تم مال کا مجھے لالچ دیتے ہو، جو اللہ نے مجھے دیا ہے، وہ تمہارے دینے سے بہتر ہے بلکہ تم ہی اپنے مال پر خوش رہو۔
بعض مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیفِ قلوب اور مصلحت کیلئے مشرکین کو ہدایا دئے بھی اور ان سے قبول بھی کئے، لیکن بقول علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تحقیق یہی ہے کہ اگر دینی مصالح اور امورہ دینیہ میں خلل پڑتا ہو تو ان کے ہدیہ کو قبول کرنا جائز نہیں،(روح المعانی) عمدۃ القاری میں علامہ عینیؒ نے (عمدۃ القاری:۱۳/۲۶۷) اور سنن ابی داؤد میں امام ابو داؤدؒ نے کعب بن مالکؒ اور عیاض بن حمادؒ وغیرہ کی روایت کی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انی لا اقبل ھدیۃ مشرک۔
یعنی میں مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا) اور انی غیبت عن زبد المشرکین۔ (اور مشرکین کی دوستی سے دور رہتا ہوں)۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دوستی بھی جائز نہیں ہے اور ان کی امداد قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ نہ درحقیقت ہدیہ ہے اور نہ امداد بلکہ مسلمانوں کو گمراہ اور بے دین بنانے کی ایک سازش ہے جو عیسائی مشنریوں کی طرز پر چلائی جارہی ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ابوبکر رازی رحمۃ اللہ علیہ کے احکام القرآن کے حوالہ لکھا ہے کہ:
و قولھم فی ترک قبول توبۃ الزندیق یوجب ان لا یستتاب الاسماعیلی و سائر الملحدین، الذین قد علم منھم اعتقاد الکفر کسائر الزنادقۃ و ان یقتلوا مع اظھارھم التوبۃ۔
(احکام القرآن:۱/۵۴، بحوالہ کفار الملحدین:۳۷)
ترجمہ: ان کا قول زندیق کی توبہ قبول نہ کرنے میں واجب کرتا ہے کہ اسماعیلی کی توبہ نہ ہو، تمام ملحدین کی طرح جن کا کفر پر اعتقاد معلوم ہے، تمام زنادقہ کی طرح اظہار توبہ کے باوجود قتل کیا جائے۔
جب اسلام کی نظر میں ان کی توبہ اور اسلام بھی قبول نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ ان سے مالی فوائد بصورتِ امداد و ہدیہ لینا جائز ہے اور نہ ان کی فاؤنڈیشن اور انجمن میں شرکت جائز ہے، دیگر کفار کی امداد پر بھی اس کو قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ امداد حکومتی سطح پر ملتی ہے، اس سے عام مسلمانوں کی زندگی اور دین کے متاثر ہونے کا خطرہ نہیں ہے، جبکہ مذکورہ امداد سے عام مسلمانوں کو کی انفرادی زندگی کے متاثر ہونے شدید خطرہ ہے اور مسلمانوں کے مرتد اور زندیق بننے کا قوی احتمال ہے، لہٰذا ان کے ساتھ شرکت اور ان کی امداد کا قبول کرنا حرام ہے، من کثّر سواد قوم فھو منھم۔ (جس نے کسی قوم کی تعداد کو زیادہ کیا تو وہ ان میں سے ہے)
علماء اور عام دیندار مسلمانوں پر اس کا تدارک فرض ہے، ورنہ وہ خدا کے ہاں جواب:دہ ہوں گے۔
فقط:و اللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل۔
نظام الدین شامزئی
(دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی۔۲۵)
دار العلوم کراچی نمبر۱۴ کا فتویٰ:
آغا خانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں، کافر ہیں، زندیق ہیں اور قرآنی نصوص کے مطابق کفار مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں اور نیز کافروں کے ساتھ محبت کرنا اور دوستانہ تعلقات استوار کرنا ناجائز اور حرام ہے اور ہر وہ چیز جو سبب بنے حرام کام کا وہ چیز بھی حرام ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ کافروں نے مختلف سازشوں سے مال و زر اور متاعِ دنیا کا لالچ دے کر مسلمانوں کے ایمان کو لوٹنے کی ناپاک کوشش کی ہے، اس لئے آغا خانیوں کا ترقیاتی کاموں کے نام پر مسلمانوں پو جھانسا دے کر ان کو آہستہ آہستہ اپنے مسلک سے قریب تر کرنے کی ایک گہری سازش ہے، مزید برآں اگر ان کے ستاھ قرض وغیرہ کے معاملات جائز رکھے جائیں تو سادہ لوح مسلمان کو ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگیں گے، چنانچہ بہت سارے مسلمانوں کو اب بھی ان کے کافر ہونے کوئی علم نہیں اور اس کا ایمان و اسلام کے خلاف ہونا ظاہر ہے، لہٰذا آغا خان فاؤنڈیشن کا ممبر بننا قطعاً ناجائز اور حرام ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ کفر زندقہ کے لئے کوئی نرم گوشہ اختیار نہ کریں اور علاقہ کے علماء و صلحاء اور ذی اثر لوگوں پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت اور اپنی وجاہت کے ذریعہ سے اس کا ممبر بننے سے منع کریں اور حکومت سے پر زور مطالبہ کریں کہ وہ آغاخانیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے اور جو لوگ فاؤنڈیشن کے ممبر بننے کی لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں انہیں پہلے سمجھایا جائے، اگر وہ ترغیب دینے سے ہی باز آجائیں تو بہتر ورنہ ان کے ساتھ مقاطعہ کیا جائے۔
دلائل ملاحظ ہو!
إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا۔
(نساء:۱۰۱)
ترجمہ: بے شک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ۔
(المائدۃ:۵۷)
ترجمہ: اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی مذاق بنایا ہے ان کو دوست مت بناؤ، اپنے سے پہلے اہل کتاب سے۔
و للعلامۃ المحقق عبد الرحمن العمادی فیھم فتویٰ مطولۃ و ذکر فیھا انھم ینتحلون عقائد النصیرحۃ و الاسماعیلیۃ الذی یلقبون بالقرامطۃ و الباطنیۃ الذین ذکرھم صاحب الموافق و نقل عن علماء المذھب الاربعۃ انھم لا یحل اقرارھم فی دیار الاسلام بجزیۃ ولا غیرھا ولا تحل مناکحتھم ولا ذبائحھم ..... الخ۔
(الشامیۃ:۳/۳۹۸، مطبوعہ یوپی)
ترجمہ: علامہ عبد الرحمن عماری کے طویل فتاویٰ میں سے جو عقائد نصرانیہ اور اسماعیلیہ کے اعتبار سے ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چاروں مذاہب میں ان کا ذبیحہ اور ان سے نکاح جائز نہیں ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
محمد خالد (دار الافتاء کراچی:۱۴۔۱۶/۵/۱۴۰۴ھ)
دار الافتاء دار العلوم نعیمیہ کا فتویٰ:
آغا خانی (اسماعیلیوں) کے عقائد کے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے اگر درست ہے تو ہر ایسے معاملہ میں جس سے اسلامی عقائد و اعمال متاثر ہوتے ہوں ان سے تعاون اور فائدہ حاصل کرنا قطعاً درست نہیں بلکہ گناہ ہے، ارشاد ربانی ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ ’’نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو، گناہ اور دشمنی پر تعاون نہ کرو‘‘۔
جو مسلمان ان سے اس طرح تعاون کریں گے جو آغا خانیت کے فروغ کا سبب ہوگا وہ گناہگار ہوں گے اور آخرت میں ان سے مواخذہ بھی ہوگا۔ واللہ اعلم۔
محمد اسلم:۱۵/۲/۱۹۸۴ء
دار الافتاء دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا فتویٰ:
الجواب: فرقۂ آغا خانیہ ضروریاتِ دین سے انکار کی وجہ سے بلا شک و بشہ کافر اور خارج از اسلام ہے، اس سے موالات(دوستانہ تعلقات) حرامِ منصوصی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللہ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ۔
(اٰل عمران:۲۸)
ترجمہ: مومن مومن کو چھوڑ کر کافر سے دوستی نہ کرے اور جو کرے گا تو اللہ پر کوئی ذمہ نہیں مگر یہ کہ تم بچو۔
یہ فرقے اقلیت ہونے کی وجہ سے اور مذہبی دلائل سے محروم ہونے کی وجہ سے نہ سیاسی تحریک کی ہمت رکھتے تھے اور اپنی کفریات کی دعوت دینے ارادے رکھتے تھے، موجود دور میں یہ فرقے اپنی کثرتِ زر کو دیکھ کر تنظیموں کے داموں میں بے علم اور کم علم لوگوں کو پھنسانا چاہتے ہیں اور اسی مکر و فریب سے سیاسی عروف اور دعوت میں کامیابی کا ارادہ رکھتے ہیں، پس اس بناء پر ان کی تنظیموں میں کوئی حصہ لینا اسلام دشمنی اور مداہنت ہے۔ و ھو الموفق محمد فرید.
(دار الافتاء دار العلوم حقانیہ)
مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور یوپی،ہند کا فتویٰ:
الجواب:
حامداً و مصلیاً! عرصہ دراز سے فرقہ اسماعیلیہ پر کفر کا فتویٰ ہے، جو ایسے گھرانے میں پیدا ہو وہ کافر ہے اور جس نے از خود اسلامی عقائد ترک کرکے فرقہ اسماعیلیہ کے عقائد اختیار کیا وہ مرتد ہے، مرتد کے احکام بہت سخت ہیں، اس سے سلام و کلام، اس کے ساتھ نشست و برخاست اور خرید و فروحت کا معاملہ کرناجائز نہیں، اسلامی حکومت میں ایسے شخص کو (اگر وہ تین دن کے اندر اسلام کی طرف دوبارہ نہ لوٹے) قتل کردیا جاتا ہے۔ مفتی محمد یحیٰ
(مظاہر علوم سہارنپور:۶/۸/۱۴۰۲)
دار العلوم دیوبند کا فتویٰ:
الجواب:
سوال میں اس فرقہ کے جو عقائد لکھے گئے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو ان کے کافر ہونے میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے اور ان کے مرنے والے کے ساتھ وہ تمام مذہبی معاملے جائز نہیں جو مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں، پس نہ نماز جنازہ درست ہوگی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا اور اسی طرح ان کے ساتھ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا اور نہ ان کا ذبیحہ جائز ہوگا اور نہ مسلمانوں کا جیسا برتاؤ کرنا۔
بھذا ظھن ان الرافضی ان کان ممن یعتقد الالوھیۃ فی عل و ان جبرئیل غلط فی الوحی الخ فھو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومات من الدین بالضرورۃ۔
(رد المختار)
ترجمہ:
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رافضی جو حضرت علی کے خدا ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں، جبرئیل کی وحی میں غلطی مانتے ہیں، تو ضروریاتِ کے قطعی معلومات کی مخالفت کی وجہ سے وہ کافر ہیں۔
ضروریاتِ دین:
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے ارکان کا مکر ہوتو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے۔
(آغاخانی مسلمان کیسے؟۱۳۱ تا ۱۴۷)
وھو اعلم۔ محمد ظفیر الدی غفر لہ (دار الافتاء دار العلوم دیوبند۔ ۱۹/ربیع الاول ۱۴۰۳ھ)
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete