Friday 13 November 2015

نس بندی کی مصیبت

ایس اے ساگر
اہل علم کی ہزار مخالفت کے باوجود دنیا بھر میں ہزاروں مردوں کی آج بھی نس بندی کا مذموم عمل جاری ہے .کھلم کھلا دعوی کیا جارہا ہے کہ پچیس ممالک میں تین ہزار سے زائد مردوں کی نس بندی کی جائے گی۔ منتظمیں نے کمال ڈھٹائی کیساتھ اس ایونٹ کو ’عالمی یوم نس بندی‘ قرار دیا ہے، جس کا مقصد منصوبہ بندی کے حوالے سے مردوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اس دجالی مشن میں عالمی سطح پر پچیس ممالک کے سات سو پچاس ڈاکٹر خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرنے والے تین ہزار سے زائد مردوں کی نس بندی کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مردوں کے آپریشن مفت کیے جائیں گے جبکہ دیگر کا آپریشن نہایت ہی رعایتی نرخوں پر کیا جائے گا۔ اس ایونٹ کے شریک بانی جوناتھن اسٹیک کا کہنا تھا کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی کے معاملے میں ہم مردوں کو ذمہ داری اٹھانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں، مرد اپنی شریک حیات کے ہیرو بن سکتے ہیں، اپنے خاندانوں کے ہیرو بن سکتے ہیں اور ہمارے مستقبل کے بھی۔‘‘
رواں برس نس بندی کا ہیڈ کوارٹر انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر واقع ایک ٹیمپل کو قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر وہاں نس بندی کیلئے موجود پہلے چھ مردوں کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور بعدازاں ان کے موبائل ہیلتھ کلینکس میں آپریشن کرکے خسی بنادیا گیا ۔ اسی طرح کے کئی ڈرامے  ہندوستان کے علاوه امریکہ اور اسپین میں بھی کئے گئے۔
اس شرمناک مہم  کے منتظمیں کا دعوی تھا کہ دنیا بھر میں ہر دس میں سے چار خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد زیادہ تر بوجھ صرف اکیلی خاتون کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔یہاں لفظ اکیلی سے  صاف ظاہر ہے کہ خواتین کے کس طبقہ کی جانب اشارہ ہے. مردوں کی نس بندی کے حوالے سے مہم چلانے والی اس تنظیم کا دعوی ہے کہ نس بندی کا طریقہ انتہائی محفوظ ہے اور اس سے مردوں کی جنسی صلاحیت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا...سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دنیا بھر کے ممالک میں پھر مردوں کی نس بندی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم کیوں ہے ؟ سیدھی سی بات ہے کہ دنیا بھر میں اسلام مخالف پروپیگنڈے کے باوجود نام نہاد جدید تہذیب ، بدچلنی اور بے راہ رروی سے عاجز معاشرہ حق کی طرف آرہا ہے .ہندستان میں کانگریس کے زوال کا سبب بھی اسی عمل پر اصرار تھا .دہلی کی تاریخی شاہجہانی جامع مسجد کے امام صاحب نے اس کیخلاف آواز بلند کی تھی جبکہ چند برس قبل انڈونیشیا کا معتبر اسلامی ادارہ چند برس نس بندی کے عمل کو اسلامی قوانین کے خلاف اور حرام قرار دے چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نس بندی کروانے کے عمل میں واضح کمی ہوئی ہے۔ آج نس بندی کا تیسرا ’عالمی دن‘ منایا جا رہا ہے جبکہ اس کا آغاز آسٹریلیا میں 2013 کے دوران کیا گیا تھا۔
فاسد اغراض کے لیے سرجری
مثلاً غلاموں یا ملازموں کو خصی Castrate کرنا تا کہ وہ گھر کی عورتوں میں بلا کسی خطرے کے آجا سکیں، یا اس اندیشے سے کہ لڑکی ہو گئی تو بدنامی ہو گی یا اس فکر سے کہ اگر دنیا کی آبادی بڑھ گئی تو ان کو خوراک مہیا نہ ہو سکے گی، منصوبہ بندی کے تحت مردوں کو خصی کرنا یا مردوں اور عورتوں کی نس بندی کرنا۔ اول تو ابھی تک یہی طے نہیں کیا جا سکا کہ کسی علاقے کی آبادی کتنی ہو کہ اس سے تجاوز نقصان دہ ہو گا، یعنی اس بارے میں کوئی Optimal Level تجویز نہیں کیا جا سکتا، علاوہ ازیں اس کو اجتماعی فکر بنانا اور اس کو قوم کی ترقی و فلاح کا ذریعہ قرار دینا قرآن و سنت کی تعلیمات کا مقابلہ کرنا ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا
(سورئہ ھود:6)
’’زمین پر چلنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر نہ ہو، وہ ان سب کے ٹھٹے ٹھکانے کو جانتا ہے‘‘۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس عالم میں جتنی جانیں پیدا فرماتے ہیں ان کے رزق کی فراہمی کی کفالت خود فرماتے ہیں، البتہ انسانوں کی ذمہ داری اتنی ہے کہ وہ اختیاری اسباب کی حد تک زمین کی پیداوار کو بڑھانے کی کوشش کریں، اناج و سامان کو بچانے کی فکر کریں، اور حاصل شدہ سامان کی تقسیم عدل و انصاف کے ساتھ کریں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے، جوانی کے تقاضے سے جنسی خواہش ہمیں پریشان کرتی تھی، اس لیے ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ ہم Castration کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا اور( اس فعل کے حرام ہونے سے متعلق) قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن۔( سورئہ المائدہ:87)
اے ایمان والو! تم اللہ کی ان پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ بنائو جو اس نے تمہارے لیے حلال کی ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
یہاں یہ غرض تھی کہ جنسی خواہش کے غلبہ سے آزاد ہو کر پوری دل جمعی کے ساتھ جہاد میں شریک رہیں،لیکن اس غرض کے تحت بھی اجازت نہیں ملی تو جوا غراض شریعت کی نظر میں فاسد ہیں، ان کے تحت اجازت تو بطریق اولیٰ نہ ہو گی۔ وہ دور نہیں جب باطل اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس کے رہے گا ...
نس بندی اورامامت:
پ:۱-اگر کسی شخص نے واقعی مجبوری اور اطباء کے حکم سے زوجہ کی جان بچانے کی بناء پر نس بندی کرائی ہو تو چونکہ ایسی صورت میں شریعت خاتون کی جان بچانے کی غرض سے نس بندی کی اجازت دیتی ہے اس لئے یہ شخص مستقل امام بن سکتاہے اور اس کی امامت درست ہے لیکن اگر کسی شخص نے بغیر کسی مجبوری کے صرف بچے کم کرنے اور اس دور کے چلے ہوئے نعرے کہ کم بچے اور معیاری زندگی سے متاثر ہوکر نس بندی کی ہو تو اس شخص کا نس بندی کرانا حرام ہے ۔ایسے شخص کو مستقل امام ہرگز نہیں بنایا جاسکتا۔ شریعت کا ایک اصول یہ ہے کہ جو شخص کسی گناہ ِ کبیرہ کامرتکب ہواُس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے ۔ ہاں مقرر امام اگر موجودنہ ہوتو وقتی طور پر اُس کے پیچھے نمازپڑھی جاسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں حدیث کی متعدد کتابوں میں یہ ارشادِ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے ۔ترجمہ : تم ہر نیک اور برے کے پیچھے نماز ادا کرلینا ۔ اس ارشاد مبارک کا تعلق اسی قسم کی صورتحال سے ہے ۔
پ:۲-نس بندی چاہے مجبوری میں کرائی گئی ہو یا بلامجبوری کے دونوں صورتوں میں ایسا شخص صف اول میں یقینا بیٹھ سکتاہے ۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
پ:۳-ایسا شخص اگر جانور ذبح کرے تو اس کاذبح کرنا بھی درست ہے ۔ اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔
پ:۴-اللہ کے علاوہ کسی اور پکارنا شرک ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔ترجمہ : اس شخص سے زیادہ گمراہ اور کون ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کوپکارے ۔
انسان کی ضروریات پورا کرنا ،مشکلات دورکرنا،مسائل کا حل صرف اللہ کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔اس لئے غلط اورفاسد عقائد کی اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ اگر امام اصلاح کرے تو بہتر ورنہ شخص امامت کا اہل نہیں ۔


No comments:

Post a Comment