Thursday 31 August 2017

ذبح حیوان؛ حقائق اور غلط فہمیاں

ادھر چند سال سے جیسے ہی بقر عید آتی ہے، فرقہ پرست تنظیمیں حرکت میں آجاتی ہیں اور "گاؤکشی" اور "جیوہتیا" کے خلاف بیانات شروع ہوجاتے ہیں؛ بلکہ قربانی کے خلاف ایک مہم سی چلائی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسانی غذا کے لیے جانوروں کو ذبح کرنا نہ مذہب کے خلاف اور نہ بے رحمی ہے؛ بلکہ ایک فطری ضرورت ہے اور اس سے بہت سے غریبوں کے معاشی مفادات متعلق ہیں، جس کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں، ضرورت ہے کہ غیر مسلم برادران وطن غیر جذباتی ہوکر ٹھنڈے دل سے اس مسئلہ پر غور کریں اور مسلمانوں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ جوابی اشتعال کی بجائے دلیل کی زبانی میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو سمجھائیں اور ان کو قائل کریں.

چند باتیں ہیں جن کا سہارا لے کر فرقہ پرست تنظیمیں اور ناواقف برادران وطن ذبح حیوان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اس کے خلاف مہم چلاتے ہیں.

(1) اسلام نے گوشت خوری کی اجازت دے کر بے رحمی کا ثبوت دیا ہے.
(2) ذبح حیوان ایک زندہ وجود کو قتل کرنا ہے. یعنی یہ "جیوہتیا" کا باعث ہے.
(3) گوشت خوری سے انسان میں تشدد اور ہنسا (violence) کا مزاج بنتا ہے اور یہ انسان پر منفی اثر ڈالتا ہے.
(4) معاشی ضرورت کے پیش نظر ذبح حیوان کی اجازت نہیں ہونی چاہئے.

(1) بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام نے گوشت خوری کی اجازت دے کر بے رحمی کا ثبوت دیا ہے، بلکہ ہمارے بعض ناواقف ہندو بھائیوں کے یہاں تو اسلام نام ہی گوشت خوری کا ہے، اس سلسلہ میں اول تو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے اور گوشت کو ایک اہم انسانی غذا تسلیم کیا گیا ہے، ہندوستانی مذاہب میں بھی "جین مذہب" کے علاوہ تمام مذاہب میں گوشت خوری کا جواز موجود ہے، آج کل ہندو بھائیوں کے یہاں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ ان کے یہاں گوشت خوری سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن یہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت ہے، خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے، پکانے اور قربانی کا تذکرہ موجود ہے، "رگ وید" میں ہے:
" اے اندر!  تمھارے لیے پسان اور وشنو ایک سو بھینس پکائیں."
(رگ وید:17:11:7)

یجروید میں گھوڑے، سانڈ، بیل، بانجھ گایوں اور بھینسوں کو دیوتا کی نذر کرنے کا ملتا ہے.
    
(یجروید، ادھیائے:87:20)

منوسمرتی میں کہا گیا ہے :
     
"مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک، بھیڑیے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند کے جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پتر آسودہ رہتے ہیں."

(منوسمرتی، ادھیائے :268:3)

خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندو سماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کا عمل عام تھا اور ڈاکٹر تارا چند کے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے.

حقیقت یہ ہے کہ گوشت خوری کے انسانی غذا ہونے اور اس مقصد کے لیے ذبح حیوان کے جائز ہونے پر نہ صرف یہ ہے کہ مذاہب عالم متفق ہیں؛ بلکہ تقاضائے فطرت کے تحت اور عقلی طور پر بھی اس کا حلال ہونا ضروری ہے.

(2) بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ذبح حیوان یہ ایک "جیوہتیا" اور ایک زندہ وجود کو قتل کرنا ہے لیکن غور کیا جائے تو اس بات کا سمجھنا دشوار نہیں کہ کائنات کا فطری نظام یہی ہے کہ خالق کائنات نے کم تر مخلوق کو اپنے سے اعلی مخلوق کے لیے غذا اور وسیلہ حیات بنایا ہے، غور کرو کہ کیا اس جیوہتیا سے بچنا ممکن بھی ہے؟ آپ جب پانی یا دودھ کا ایک گلاس اپنے حلق سے اتارتے ہیں، تو سینکڑوں جراثیم ہیں جن کے لئے آپ اپنے زبان سے پروانہ موت لکھتے ہیں، پھر آپ جن دواؤں کا استعمال کرتے ہیں، وہ آپ کے جسم میں پہنچ کر کیا کام کرتی ہیں؟ یہی کہ جو مضر صحت جراثیم آپ کے جسم میں پیدا ہوگئے ہوں اور پنپ رہے ہوں، ان کا خاتمہ کردیں، پس "جیوہتیا" کے وسیع تصور کے ساتھ تو آپ پانی کا ایک گلاس بھی نہیں پی سکتے اور نہ ہی دواؤں کا استعمال آپ کے لیے روا ہوسکتا ہے.

نیز اگر جیوہتیا سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا، کیونکہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے، اسی طرح پودوں میں بھی زندگی کارفرما ہے اور نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں، خود ہندو فلسفہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے، سوامی دیانند جی نے "آواگمن" میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قرار دیئے ہیں؛

1. انسان، 

2. حیوان اور 

3. نباتات،

یہ نباتات میں زندگی کا کھلا اقرار ہے، تو اگر جیوہتیا سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا، گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں جو مکمل طور پر جیوہتیا سے بچکر جینا چاہتے ہوں.

(3) بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ گوشت خوری سے انسان میں تشدد اور ہنسا (VIOLENCE)  کا مزاج بنتا ہے اور یہ انسان پر منفی اثر ڈالتا ہے؛ لیکن دنیا کی تاریخ اور خود ہمارے ملک کا موجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے، آج ہندوستان میں جہاں کہیں بھی ہندو مسلم فسادات ہورہے ہیں اور ظلم و ستم کا ننگا ناچ کررہے ہیں، یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہا ہے جو سبزی خور ( Vege Tarian) ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں، رہنمایان عالم میں شری گوتم بدھ اور حضرت مسیح علیہ السلام کو عدم تشدد اور رحم دلی کا سب سے بڑا داعی اور نقیب تصور کیا جاتا ہے؛ لیکن کیا یہ برگزیدہ شخصیتیں گوشت نہیں کھاتی تھیں، یہ سبھی گوشت خور تھے، گوتم بدھ نہ صرف گوشت خور تھے؛ بلکہ دم آخر میں بھی گوشت کھاکر ہی ان کی موت ہوئی تھی اور ہٹلر سے بھی بڑھ کر کوئی تشدد، جور و ستم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا؟ لیکن ہٹلر گوشت خور نہیں تھا، صرف سبزی کو اپنی غذا بناتا تھا، اس لیے یہ سمجھنا کہ ہنسا اور اہنسا  کا تعلق محض غذاؤں سے ہے، بے وقوفی اور ناسمجھی ہی کہی جا سکتی ہے، جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو، انسان انسانیت سے محبت کرنا نہ سیکھے، خدا کا خوف نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کا احساس نہ ہو تو محض غذائیں انسان کے مزاج و مذاق کو تبدیل نہیں کرسکتیں.

(4) بعض حضرات کہتے ہیں کہ گاؤکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کرتے، بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے، جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو لوگوں کو دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے اور عام لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا؛ لیکن یہ محض ایک واہمہ کا درجہ رکھتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں ہندوستان سے  زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی قسم کی پابندی نہیں، وہاں بہ مقابلہ ہمارے ملک کے گھی اور دودھ سستے بھی ہیں اور ان کی فراوانی بھی ہے، اس کی مثال امریکہ اور یوروپ ہیں، ہمارے ملک میں باوجودیکہ بہت سے بلکہ اکثر علاقوں میں ذبح گاؤ پر پابندی ہے اور عام جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی خاصی تحدیدات ہیں، لیکن اس کے باوجود یہاں دودھ، گھی زیادہ مہنگے ہیں.

اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ جانور ایک عمر کو پہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں، نہ ان سے دودھ حاصل ہوتا ہے اور نہ کسی اور کام آسکتے ہیں، ایسی صورت میں اگر ان کو غذا بنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی کی پرورش کرنے والوں کے لیے بہت بوجھ بن جائیں گے اور غریب کسان جو خود اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرسکیں گے؟


ملخص از اسلام اور جدید فکری مسائل

محمد اسحاق گودھرا گجرات 9904592234

کفار ومشرکین کو سلام

کفار ومشرکین کو سلام
ائمہ اربعہ کے نقطہائے نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلام اسلامی تحیہ اور دعا یے 

مسلمان سے ملاقات اور جدائی کے وقت "السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ" کے ساتھ سلام کرنا اور اسی لفظ کے ساتھ جواب دینا مسنون ہے۔
سلام کرنا سنت ہے اور اتنی آواز میں جواب دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا جواب سن لے۔

عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: السلام علیکم، فرد علیہ، ثم جلس، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عشرٌ، ثم جاء آخر، فقال: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ، فرد علیہ فجلس، فقال: عشرون، ثم جاء آخر، فقال: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، فرد علیہ فجلس، فقال: ثلاثون۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب / باب کیف السلام ۲؍۷۰۶ رقم: ۵۱۹۵ دار الفکر بیروت، سنن الترمذي ۲؍۹۸ رقم: ۲۶۸۹)
والأفضل للمسلم أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، والمجیب کذٰلک یرد، ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات شيء۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۸؍۷۷ زکریا)
ثم إن أکثر ما ینتہي إلیہ السلام إلی البرکۃ، فتقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، وہو الذي علیہ العمل۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۲۵؍۱۵۸ کویت)

سلام کا جواب اتنی آواز میں دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا جواب سن لے۔
إن السلام سنۃ واستماعہ مستحب، وجوابہ أي ردّہ فرض کفایۃ وإسماع ردہ واجب۔ (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۴۱۳ کراچی)
قال النووي: نقل ابن عبد البر إجماع المسلمین علی أن ابتداء السلام سنۃ وأن ردہ فرض (أي واجب)۔ (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۵ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
إن السلام سنۃ واستماعہ مستحب، وجوابہ أي ردہ فرض کفایۃ، وإسماع ردہ واجب۔ (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۴۱۳ کراچی، ۹؍۵۹۳ زکریا)

جمہور فقہاء،  شراح حدیث اور ائمہ حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ کسی بھی غیر مسلم بشمول ذمی کو "السلام علیکم " کے ذریعہ ابتداء سلام کرنا جائز نہیں ہے۔اگر کوئی تعظیما کرتا ہے تو یہ صریح کفر ہے۔
ہاں اگر وہ سلام کرلیں تو اس کے جواب میں صرف " وعلیکم " یا وعلیک یا علیکم بغیر واو کے کہا جائے۔
جواب میں وعلیکم السلام ورحمة اللہ " کہنا جائز نہیں ہے ۔

حنفیہ کے علاوہ  مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ کفار ومشرکین کو ابتدا بالسلام ناجائز ہے ۔
ہاں اگر کسی ضرورت سے سلام کرنا پڑے تو جائز تو ہے لیکن اسے "السلام علی من اتبع الھدی " کہے ۔

وجہ یہ ہے کہ سلام کی اصلیت دعا کی ہے اور کافر دعا کا مستحق نہیں ہے۔ان حضرات کے پیش نظر وہ حدیث ہے جس میں ارشاد نبوی ہے
لا تبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم ۲؍۲۱۴ رقم: ۲۱۶۷، سنن أبي داؤد رقم: ۵۲۰۵، سنن الترمذي / باب ما جاء في کراہیۃ التسلیم علی الذمي ۲؍۹۹ رقم: ۲۷۰۰)
نیز دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا: وعلیکم۔ (صحیح البخاري / کیف الرد علی أہل الذمۃ السلام ۲؍۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸، صحیح مسلم ۲؍۲۱۳ رقم: ۲۱۶۳ بیت الأفکار الدولیۃ، سنن أبي داؤد ۲؍۷۰۷ رقم: ۵۲۰۷ دار الفکر بیروت)

اِس نظریہ  کے برخلاف علماء کی ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ضرورت سے کسی کافر کو ابتداء اً سلام کرلیا جائے، یا اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ رائے حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہے، یہ حضرات اُس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں یہ مضمون ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم اور غیر مسلم کے مخلوط مجمع پر سلام سے ابتداء فرمانے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری ۲؍۹۲۴)
نیز سلام کو مطلقاً عام کرنے کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں۔۔۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :

( ابن عابدين 5 / 264 - 265 ط. المصرية، الاختيار 4 / 165 ط. المعرفة روح المعاني 5 / 100 ط. المنيرية.
الفواكه الدواني 2 / 425 - 426 ط. الثالثة، حاشية العدوي على الخرشي 3 / 110 ط بولاق، القرطبي 5 / 303 ط الأولى.
نهاية المحتاج 8 / 49 ط. المكتبة الإسلامية، تحفة المحتاج 9 / 226 ط. دار صادر، روضة الطالبين 10 / 230 - 231 ط. المكتب الإسلامي.

ہاں شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک کفار کے سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔جبکہ احناف وموالک کے نزدیک یہ صرف جائز ہے

( وَأَمَّا رَدُّ السَّلاَمِ عَلَى أَهْل الذِّمَّةِ فَلاَ بَأْسَ بِهِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ، وَهُوَ جَائِزٌ أَيْضًا عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ، وَلاَ يَجِبُ إِلاَّ إِذَا تَحَقَّقَ الْمُسْلِمُ مِنْ لَفْظِ السَّلاَمِ مِنَ الذِّمِّيِّ، وَهُوَ وَاجِبٌ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةُ.
وَيَقْتَصِرُ فِي الرَّدِّ عَلَى قَوْلِهِ: وَعَلَيْكُمْ، بِالْوَاوِ وَالْجَمْعِ، أَوْ: وَعَلَيْكَ، بِالْوَاوِ دُونَ الْجَمْعِ عِنْدَ
الحنفية والشافعية والحنابلة لكثرة الأخبار في ذالك.
ابن عابدين 5 / 264 - 265 ط المصرية، الفواكه الدواني 2 / 425 - 426 ط الثالثة - نهاية المحتاج 8 / 49 ط. المكتبة الإسلامية، تحفة المحتاج 9 / 226 ط. دار صادر، الأذكار / 405 - 406 ط. الأولى، روضة الطالبين 10 / 231 ط. المغني 8 / 536 ط. الرياض.)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
بہار

کیا جھینگا حلال ہے؟

سوال: مچھلیوں کی قسموں میں ایک معروف مچھلی جھینگا ہوتی ہے اسے بعض حرام اور بعض مکروہ تحریمی اور بعض علماء مکروہ تنزیہی فرماتے ہیں بعض بلاکراہت جائز فرماتے ہیں۔ اصل حکم کیا ہے۔ بحوالۂ کتب حنفیہ تحریر فرمائیں۔ 

الجواب حامداًومصلیاً!
حنفیہ کے نزدیک دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی جائز ہے اور کوئی جانور جائز نہیں جھینگا مچھلی اگر مچھلی ہی کی کوئی قسم ہے تو وہ جائز ہے جیسا کہ علامہ دمیری شافعی نے حیات الحیوان۱؂ ص۳۷۱ میں لکھا ہے اور اسی سے تتمہ ثالثہ امداد الفتاویٰ ۲؂ص۵۰ میں نقل کیا ہے اگر یہ مچھلی کی قسم نہیں بلکہ کوئی اور جانور ہے اور محض نام جھینگا مچھلی مشہور ہوگیا ہے تو یہ جائز نہیں جیسا کہ فتاویٰ رشیدیہ۳؂ ج۲ص۱۲۲ میں ہے۔ مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحئیؒ ج۲ص۴۱۱۰؂ میں دونوں قول نقل کئے ہیں حمادیہ کی عبارت نقل کی ہے الدودالذی یقال لہ جھینگا حرام عند بعض العلماء لانہ لا یشبہ السمک فانما یباح عندنا من صیدالبحر انواع السمک وہٰذا لایکون کذٰلک وقال بعضہم حلال لانہ یسمی باسم السمک اھ ۱؂ ج۳ ص۱۰۴ اور ۱۰۷ میں بھی دونوں قول نقل کئے ہیں تذکرۃ الخلیل ۲؂ ص۲۰۰ میں عدم جواز کا فتویٰ ہے۔ یہی راجح ہے نیز جب کہ اس میں حرمت کا قول بھی ہے تو اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ لقولہ علیہ السلام دع ما یریبک الی مالایریبک، الحدیث ۳؂۔
فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہٗ العبد محمود غفرلہٗ
.........
کیا جھینگا حلال ہے؟
(سوال)
(۱) جھینگا مچھلی تازی یا سوکھی یا اور کوئی مچھلی سوکھی ہوئی جس میں کچھ بدبو ہو کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟
(۲) کھاری مچھلی یعنی مچھلی پکڑ کر اور شکم چاک کرکے آلائش نکال کر نمک بھر کر اور نمک میں مل کر سکھاتے ہیں جس میں حد سے زیادہ بدبو ہوتی ہے وہ مچھلی مدراس سے آتی ہے کھاسکتے ہیں یا نہیں ؟ المستفتی نمبر ۴۰۵ حافظ احمد جگدل پور ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۵۳؁ھ م یکم اکتوبر ۱۹۳۴؁ء
(جواب ۱۱۲) جھینگا مچھلی مختلف فیہ ہے 
(۲) جو علماء اسے مچھلی کی قسم سمجھتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں سوکھی مچھلی کھانی جائز ہے (۲) کھاسکتے ہیں جو کھاسکے اور بدبو سے سے متاثر نہ ہو اس کے لئے حلال ہے (۳) محمد کفایت اللہ
کفایت المفتی
.............
دریائی جھینگا حلال ہے؟
سوال(۲۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایضاح المسائل کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ دریائی جھینگا حلال ہے، اَب اِس کی دو قسمیں ہیں: ایک کالا، دوسرا سفید۔ کیا دونوں حلال ہیں یا کچھ فرق ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اکثر علماء کے نزدیک دریائی جھینگے کی سبھی اقسام حلال ہیں۔ (امداد الفتاویٰ / کھانے پینے کی حلال وحرام ومکروہ ومباح چیزوں کا بیان ۴؍۱۰۳-۱۰۴ زکریا)
تاہم اختلاف علماء کی وجہ سے کوئی شخص اُسے کھانے سے پرہیز کرے تو بات الگ ہے۔
الروبیان: ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ (حیاۃ الحیوان ۱؍۴۷۳)
الدود الذي یقال لہ ’’جھینگا‘‘ حرام عند بعض العلماء؛ لأنہ لا یشبہ السمک، فإنما یباح عندنا من صید البحر أنواع السمک، وہٰذا لا یکون کذٰلک، وقال بعضہم: حلال؛ لأنہ یسمی باسم السمک۔ (مجموعۃ الفتاویٰ / کتاب الأکل والشرب ۲؍۲۹۷ کراچی)
وأما الروبیان أو الإربیان الذي یسمی في اللغۃ المصریۃ: ’’جمبري‘‘ وفي اللغۃ الأردیۃ: ’’جھینگا‘‘ وفي الإنکلیزیۃ: ''SHRIMP" أو "PRAWN" فلا شک في حلتہ عند الأئمۃ الثلاثۃ؛ لأن جمیع حیوانات البحر حلال عندہم۔ وأما عند الحنفیۃ، فیتوقف جوازہ علی أنہ سمک أولا، فذکر غیر واحد من أہل اللغۃ أنہ نوع من السمک، قال ابن درید في جمہرۃ اللغۃ: ۳؍۴۱۴: وإربیان ضربٌ من السمک، وأقرہ في القاموس وتاج العروس: ۱؍۱۴۶۔ وکذٰلک قال الدمیري في حیاۃ الحیوان: ۱؍۴۷۳: الروبیان ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ وأفتی غیر واحد من الحنفیۃ بجوازہ بنائً علی ذٰلک، مثل صاحب الحمادیۃ۔
وقال شیخ مشایخنا التہانويؒ في إمداد الفتاویٰ: ۴؍۱۰۳: لم یثبت بدلیل أن للسمک خواصٌ لازمۃٌ تنتفی السمکیۃُ بانتفائہا، فالمدار علی قول العدول المبصرین … وإن حیوۃ الحیوان‘‘ للدمیري الذي یبحث عن ماہیات الحیوان یصرّ بأن الروبیان ہو سمک صغیر … فإني مطمئن  إلی الآن بأنہ سمک - ولعل اللّٰہ یحدث بعد ذٰلک أمرًا …۔
ولکن خبراء علم الحیوان الیوم لا یعتبرونہ سمکًا، ویذکرونہ کنوع مستقل، ویقولون: إنہ من أسرۃ السرطان دون السمک۔ وتعریف السمک عند علماء الحیوان - علی ما ذکر في دائرۃ المعارف البریطانیۃ: ۹؍۳۰۵، طبع ۱۹۵۰م - ہو حیوان ذو عمود فقری، یعیش في الماء ویسبح بعوّاماتہ، ویتنفس بغلصمتہ، وإن الإربیان لیس لہ عمود فقری، ولا یتنفس بغلصمتہ۔ وإن علم الحیوان الیوم یقسم الحیوانات إلی نوعین کبیرین: الأول: الحیوانات الفقریۃ (VERTEBRATE)، وہي التي لہا عمود فقري في الظہر، ولہا نظام عصبي یعمل بواسطتہ۔ والثاني: الحیوانات غیر الفقریۃ (INVERTEBRATE) التي لیس لہا عمود فقري، وإن السمک یقع في النوع الأول، والإربیان في النوع الثاني۔
الذي ذکر في دائرۃ المعارف ۶؍۳۶۳، طبع ۱۹۸۸: أن التسعین في المائۃ من الحیوانات الحیۃ تتعلق بہٰذا النوع، وأنہ یحتوي علی الحیوانات القشریۃ والحشرات، وکذٰلک عرّف البستاني السمک في دائرۃ المعارف ۱۰؍۶۰، بقولہ: ’’حیوان من خلق الماء، واٰخر رتبۃ الحیوانات الفقریۃ، دمہ أحمر، یتنفس في الماء بواسطۃ خیاشیم، ولہ کسائر الحیوانات الفقریۃ ہیکل عظمی‘‘۔ وکذٰلک محمد فرید وجدي عرّفہ بقولہ: ’’السمک من الحیوانات البحریۃ، وہو یکوّن الرتبۃ الخامسۃ من الحیوانات الفقریۃ، دمہا بارد أحمر، تتنفس من الہواء الذائب في الماء بواسطۃ خیاشیمہا، وہي محلاۃ بأعضاء تمکنہا من المعیشۃ دائمًا، وتعوم فیہ بواسطۃ عوّامات، ولبعضہا عوامۃ واحدۃ … الخ‘‘۔
وإن ہٰذہ التعریفات لا تصدق علی الإربیان، وإنہ ینفصل عن السمک بأنہ لیس من الحیوانات الفقریۃ، فلو أخذنا بقول خبراء علم الحیوان، فإنہ لیس سمکًا، فلا یجوز علی أصل الحنفیۃ۔ ولکن السوال ہنا: ہل معتبر في ہٰذا الباب التدقیق العلمي في کونہ سمکًا، أو یعتبر العرف المتفاہم بین الناس؟ ولا شک أن عند اختلاف العرف یعتبر عرف أہل العرب؛ لأن استثناء السمک من میتات البحر، إنما وقع باللغۃ العربیۃ، وقد أسلفنا أن أہل اللغۃ أمثال ابن درید، والفیروز آبادي، والزبیدي، والدمیري کلہم ذکروا أنہ سمک۔ فمن أخذ بحقیقۃ الإربیان حسب علم الحیوان، قال: بمنع أکلہ عند الحنفیۃ، ومن أخذ بعرف أہل العرب، قال: بجوازہ۔
وربما یرجع ہٰذا القول بأن المعہود من الشریعۃ في أمثال ہٰذہ المسائل الرجوع إلی العرف المتفاہم بین الناس، دون التدقیق في الأبحاث النظریۃ، فلا ینبغي التشدید في مسئلۃ الإربیان عند الإفتاء، ولا سیما في حالۃ کون المسئلۃ مجتہدًا فیہا من أصلہا، ولا شک أنہ حلال عند الأئمۃ الثلاثۃ، وأن اختلاف الفقہاء یورث التخفیف کما تقرر في محلہ، غیر أن الاجتناب عن أکلہ أحوط وأولیٰ وأحریٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملۃ فتح الملہم، کتاب الصید والذبائح / باب إباحۃ میتات البحر ۳؍۵۱۴۰۵۱۳ مکتبۃ دار العلوم کراچی)
 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۷؍۹؍۱۴۱۳ھ




















































..........
جھینگا حنفیہ کے نزدیک مکروہِ تحریمی ہے
س… جنگ میں آپ کے مسائل کے عنوان کے تحت ایک مسئلہ دریافت کیا گیا اور اس کا جواب بھی جنگ میں شائع ہوا، وہ مسئلہ نیچے لکھا جاتا ہے، سوال اور جواب دونوں حاضرِ خدمت ہیں، آپ مسئلے کی صحیح نوعیت سے راقم الحروف کو مطلع فرمائیں تاکہ تشویش ختم ہو، یہاں جو لوگ اُلجھن میں ہیں ان کی تشفی کی جاسکے۔
”س… کیا جھینگا کھانا جائز ہے؟
ج… مچھلی کے علاوہ کسی اور دریائی یا سمندری جانور کا کھانا جائز نہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جھینگا مچھلی کی قسم نہیں ہے، اگر یہ صحیح ہے تو کھانا جائز نہیں۔“
عوام الناس ”اگر“ اور ”مگر“ میں نہیں جاتے، کیا ابھی تک علماء کو تحقیق نہیں ہوئی کہ جھینگے کی نوعیت کیا ہے؟ یا تو صاف کہہ دیا جائے کہ یہ مچھلی کی قسم نہیں ہے، اس لئے کھانا جائز نہیں، یا اس کے برعکس۔ عوام الناس، علماء کے اس قسم کے بیان سے اسلام اور مسئلے مسائل سے متنفر ہونے لگتے ہیں اور علماء کا یہ رویہ مسئلے مسائل کے سلسلے میں گول مول بہتر نہیں ہے۔ میں نے لغت میں دیکھا تو جھینگے کی تعریف مچھلی کی ایک قسم ہی لکھی گئی ہے۔ آخر علماء کیا آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ یہ مچھلی کی قسم ہے کہ نہیں؟ مفتی محمد شفیع صاحب، مولانا یوسف بنوری، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دُوسرے علمائے حق رحمہم اللہ کا کیا رویہ رہا؟ کیا انھوں نے جھینگا کھایا یا نہیں؟ اور اس کے متعلق کیا فرمایا؟ اُمید ہے آپ ذرا تفصیل سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے۔
ج… صورتِ مسئولہ میں مچھلی کے سوا دریا کا اور کوئی جانور حنفیہ کے نزدیک حلال نہیں۔ جھینگے کی حلت و حرمت اس پر موقوف ہے کہ یہ مچھلی کی جنس میں سے ہے یا نہیں؟ ماہرینِ حیوانات نے مچھلی کی تعریف میں چار چیزیں ذکر کی ہیں۔
۱:-ریڑھ کی ہڈی،
۲:-سانس لینے کے گلپھڑے،
۳:-تیرنے کے پنکھ،
۴:-ٹھنڈا خون۔ چوتھی علامت عام فہم نہیں ہے، مگر پہلی تین علامات کا جھینگے میں نہ ہونا ہر شخص جانتا ہے۔ اس لئے ماہرینِ حیوانات سب اس اَمر پر متفق ہیں کہ جھینگے کا مچھلی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ مچھلی سے بالکل الگ جنس ہے۔ جبکہ جواہر اخلاطی میں تصریح ہے کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں سب مکروہِ تحریمی ہیں، یہی صحیح تر ہے۔
”حیث قال السمک الصغار کلھا مکروھة التحریم ھو الأصح ․․․․ الخ۔“ (جواہر اخلاطی)
اس لئے جھینگا حنفیہ کے نزدیک مکروہِ تحریمی ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل
............
سوال # 54462
جھینگا حلال ہے یا حرام؟ فی زماننا علمائے کرام کیا فرماتے ہیں؟
جواب # 54462
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1297-875/L=10/1435-U
جھینگا مچھلی کی جنس سے ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض حضرات اس کو مچھلی کی جنس سے مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے اسی اختلاف کی بنا پر اس کے حکم میں بھی اختلاف ہے، جھینگا کو مچھلی ماننے والے اس کو حلال کہتے ہیں اور مچھلی نہ ماننے والے اس کو ناجائز کہتے ہیں، اختلاف کی وجہ سے جھینگا کھانے کی گنجائش ہوگی، احتیاط کرنا اولیٰ ہوگا۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/54462
............
سوال # 1705
کیا کیکڑا ور جھینگا کھانا حلال ہے؟ براہ کرم ، قرآن کے حوالے سے جواب دیں۔

Published on: Nov 3, 2007 جواب # 1705
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 619/ م= 614/ م
(۱) دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، در مختار میں ہے: فلا یجوز اتفاقًا کحیات وضبّ و ما في بحرٍ کسرطان إلا السمک۔ جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات موٴلفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/1705

.........
میرا سوال یہ تھا کہ جھینگے کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ ذرا وضاحت سے بتائیں کہ یہ کس درجے میں آتا ہے؟
صورت مسئولہ میں جھینگےکی حلت اورحرمت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ یہ مچھلی ہے یا نہیں جولوگ اس کو مچھلی قراردیتے ہیں وہ اس کی حلت کے قائل ہیں اور جو لوگ اس کو مچھلی قرار نہیں دیتے وہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ ماہرینِ علم لغت اور علمِ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں اور اکثر علماء کی رائے بھی یہی ہے، ہمارا بھی یہی موقف ہے، لہٰذا کھانا حلال ہے۔
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/jhenga-khanay-ka-hukum/-0001-11-30

..........
سوال: کیا جھینگا مکروہ ہے؟
الجواب حامداومصلیاً
ائمہ ثلاثہ  یعنی حضرت امام مالک، امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک جھینگا حلال ہے کیونکہ  ان حضرات  کے نزدیک چند آبی جانوروں کے سوا تمام آبی جانور حلال ہیں لیکن احناف ؒ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام  آبی جانور حرام ہیں اس لئے علما احناف نے اس کو مچھلی کی ایک قسم قرار دے کر حلال  کہا ہے جبکہ دوسرے بعض علماء (جن میں موجودہ دور  کے بعض  ماہرین  حیوانات بھی شامل ہیں) کی تحقیق یہ ہے کہ جھینگا  مچھلی کی قسم نہیں کیونکہ اس میں مچھلی کی علامات نہیں پائی جاتیں لہذا یہ حرام  ہے اس لئے احتیاط  اسی میں ہے کہ جھینگا کھانے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق حلت و حرمت سے ہے اور حلت وحرمت  کے باب میں حرمت  کو  ترجیح  ہوتی ہے البتہ چونکہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور علماء ثلٰثہ اور بعض حنفیہ اس کی حلت کے قائل ہیں اس لئے ان  علماء کی تحقیق  پر عمل کرتے ہوئے  جو لوگ اس کو کھاتے ہیں ان پر نکیر اور لعن  وطعن نہ کیاجائے۔ اور جو جھینگا نہ کھاتا ہو اس پر لعن طعن نہ کی جائے۔
تکملۃ فتح الملھم :3/424۔427 (الناشر: داراحیاء التراث العربی)
وما الرویان او الاربیان الذی یسمی فی اللغلۃ المصریۃ (جمیری) وفی اللغۃا لاردیۃ  (جھینگا) وفی الانکیلیزیۃ shrimp اور prawn فلا شک  فی حلتۃ عند الائمۃ الثلاثۃ، لان جمیع حیوانات البحر حلال عندھم  واما عند الحنفیۃ، فیتوقف جوازہ علی انہ سمک اولا، فذکر غیر واحد من اھل اللغۃ انہ نوع من السمک: قال ابن  درید فی جمھرۃ  اللغۃ (414:3) ازبیان  ضرب  من السمک  واقرہ فی القاموس وتاج العروس (145:1) وکذلک  وال الدمیری فی حیاۃ الحیوان (1:473 ): ”الروبیان  ھو سمک  صغیر جدا احمر” وافتی غیر واحد من الخیفۃ بجوازہ بناء علی ذلک، مثل صاحب الفتاویٰ  الحمادیہ وقال  شیخ  مشایخنا التھانوی  رحمۃ اللہ فی امداد  الفتاویٰ (103:4) لم یثبت  بدلیل ان للسمک خواص لازمۃ تنتفی  السمکیۃ بانتفائھا، فالمدار علی قول العدول المبصرین۔۔۔۔ وان حیاۃ الحیوان للدمیری  الذی  یبحث عن ماھیات الحیوان یصرح بان الروبیان ھو سمک صغیر ۔۔۔فانی مطمئن الی الآن بانہ سمک، ولعل اللہ یحدث بعد ذلک  امراً ولکن خیرا علم الحیوان الیوم لایعتبرون  سمکا ویذکرون کنوع مستقل  ویقولون: انہ  من اسرۃ السرطان دون السمک وتعریف السمک عندا لعلماء ۔۔۔
http://www.suffahpk.com/tag/%D8%AC%DA%BE%DB%8C%D9%86%DA%AF%D8%A7/
...........
سوال: کیا کیکڑا ور جھینگا کھانا حلال ہے؟ براہ کرم، قرآن کے حوالے سے جواب دیں۔ 
Published on: Nov 3, 2007 
جواب # 1705
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 619/ م= 614/ م
دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، در مختار میں ہے: 
فلا یجوز اتفاقًا کحیات وضبّ و ما في بحرٍ کسرطان إلا السمک۔ 
جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات موٴلفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.da
rulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/1705

جھینگا ائمہ ثلاثہ کے یہاں حلال ہے۔ عرب شیوخ مزہ لے لے کے کھاتے بھی ہیں۔
حنفیہ کے یہاں اس کی حلت وحرمت کا فیصلہ اس پر موقوف ہے کہ یہ مچھلیوں کی قسم میں سے ہے یا نہیں؟؟ جو حضرات اس کو ازقسم مچھلی شمار کرتے ہیں ان کے یہاں جھینگا حلال ہے کیونکہ حنفیہ کے مذہب میں دریائی جانوروں میں مچھلی اپنی تمام اقسام کے ساتھ حلال ہے۔ اور جن حضرات علماء کی تحقیق یہ ہے کہ یہ مچھلی کے اقسام میں نہیں بلکہ  دریائی کیڑہ ہے تو وہ جھینگا کو مکروہ یعنی حرام کہتے ہیں۔
علماء ہند میں یہ مسئلہ شروع سے مختلف فیہ رہا ہے۔ اس میں اتفاقی طور پر کوئی مفتی بہ قول نہیں ہے۔ جسے دو ٹوک انداز میں آپ کو بتایا جائے۔ ہر دو فریق کے پاس دلائل ہیں۔ دلائل عرض کروں تو شاید بات کافی طویل ہوجائے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ حلت وجواز کا فتوی دیتے تھے۔ جبکہ حضرت گنگوہی کراہت تحریمی کا۔
عاجز کا ذاتی رجحان حلت کی  طرف ہے۔لیکن ترک کو احوط اور اورع سمجھتا ہے۔ پر ترک ہو نہیں پاتا ہے۔
اختلاف اقوال علماء کے پیش نظر احتیاط اولی ہے۔ جب ائمہ ثلاثہ حلت کے قائل ہیں تو ایسی صورت میں حرمت کے فتوی میں ایسا شدت برتنا کہ چھینگا کھانے والے پر حرام خور جیسے فتوی ٹھونکنا قطعا  مناسب نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

قربانی کا گوشت کیوں کھاتے ہیں ؟

کیا صدقہ واجبہ غنی اور مالدار  کھاسکتا ہے یا نہیں؟
جناب یہ اور بتادیں کہ قربانی بھی تو صدقہ واجبہ ہے اسکو کھانے کو کیوں حکم دیا گیا ؟
ایس اے ساگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
ثواب کی نیت سے کوئی چیز راہ خدا میں دینے کو صدقہ کہتے ہیں۔
پہر بعض صدقہ واجب ہوتا ہے جیسے صدقہ فطر، نذر ومنت کفارہ صوم وصلات وغیرہ وغیرہ۔ اس واجب صدقہ کا مصرف غرباء ومساکین ہیں خود صدقہ کرنے والا یا مالدار کے لئے اس کا استعمال درست نہیں۔
دوسری قسم صدقہ نافلہ کی ہے،
اسے ہر کوئی استعمال کرسکتا ہے۔ صدقہ کرنے والا، اس کے اہل وعیال اور مالدار بھی ۔

في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وقول النبي ﷺ ’’ لا تحل الصدقۃ لغني ‘‘ ولأن الصدقۃ مال تمکن فیہ الخبث لکونہ غسالۃ الناس لحصول الطہارۃ لہم بہ من الذنوب ، ولا یجوز الانتفاع بالخبث إلا عند الحاجۃ ، والحاجۃ للفقیر لا لغني ، وأما صدقۃ التطوع فتجوز صرفہا إلی الغني ، لأنہا تجري مجری الہبۃ ۔ (۲/۴۷۶ ، کتاب الزکاۃ ، مصارف الزکاۃ)

قربانی مستقل عبادت ہے، صدقہ نہیں۔ قربانی کی حقیقت اراقة الدم یعنی خون بہانا ہے ۔۔۔ خون بہاتے ہی عبادت ادا ہوگئی ۔
دوسری قربات میں غرباء ومساکین کو کھلانے سے ثواب ملتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالی بطور فضل وانعام کے اسی جانور کے گوشت سے مضحی کی ضیافت فرماتا ہے۔۔
اور دس ذی الحجہ کو روزہ بھی حرام فرمادیا۔ لیکن ایک دن میں عموما گوشت ختم نہیں ہوتا ہے، اس لئے تین دن مزید روزے حرام کردیئے گئے۔ قربانی کے دن قربانی کرنے والے کا گوشت سے کھانے کی ابتدا کرنا افضل قراردیا گیا ۔۔۔ ایام قربانی میں گوشت خوری اللہ احکم الحاکمین کی دعوت وضیافت کو قبول کرنا ہے۔ اگر کوئی گوشت نہ کھائے اور پورا صدقہ کردے تو گویا اس نے احکم الحاکمین کی ضیافت ٹھکرادی !!!
ہم دنیا کے معمولی جاہ وحشم والے شخص کی ضیافت مسترد کردینے کی جرات نہیں رکھتے تو مالک الملک کی ضیافت کو ٹھکراکے گوشت نہ کھانا کتنی بڑی جسارت اور بدنصیبی ہوگی ؟؟؟

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
022:037

ترجمہ:
خدا تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمھاری پرہیزگاری پہنچتی ہے. اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کردیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے، اسے بزرگی سے یاد کرو اور (اے پیغمبر) نیکو کاروں کو خوشخبری سنا دو۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

تکبیرات تشریق کی حقیقت

سوال:-گذشتہ کچھ روز سے ایک ویڈیو مسلسل گردش کررہی ہے جس میں ایک مولانا صاحب نے تکبیرات تشریق کے متعلق کچھ اس طرح بتایا کہ تکبیر تشریق عشق اور محبت کا ترانہ ہے، یہ عشق اور محبت کی ایک داستان ہے جسکو اللہ رب العزت نے تین جملوں میں سمیٹ کر بیان کردیا. جس وقت ذی الحج کی ١٠ تاریخ، ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند کو ذبح کرنا چاہتے ہیں،آسمان اور زمین کے تمام فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے،
اللہ اکبر اللہ اکبراللہ
(تو سب سے بڑا تو سب سے بڑا یا اللہ! )
یہ کیا کہ باپ بیٹے کو ذبح کررہا ہے، فرشتوں کی پکار سن کر ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ توحید اور جوش میں آیا اور یہ پکار اٹھے لا اله الا اللہ واللہ اکبر
(تیرے سوا کوئی معبود نہیں، مولا تو سب سے بڑا ہے.)
یہ تو ایک اسماعیل ہے جسکو تجھ سے مانگا تھا، ایسےسینکڑوں بھی ہوتے تو تیرے نام پر قربان کردیتا.
اور یہ ننھے میاں (حضرت اسماعیل علیہ السلام) اپنے نازک ہونٹوں کےساتھ پیشانی جھکاکر زمین پر لیٹے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ چھوٹا ہوں پتہ نہیں قبول کرینگے یا نہیں، اب جو سنی فرشتوں کی آواز اور جو سنی اپنے ابا کی پکار، وہیں لیٹے لیٹے یہ کہہ اٹھے
اللہ اکبر وللہ الحمد (اللہ جی تیرا شکر ہے مجھ ننھے کی قربانی تو نے قبول فرمالی)
یہ فرشتوں کی ندا، یہ ابراہیم علیہ السلام (خلیل اللہ) کی ندا اور یہ اسماعیل علیہ السلام کا محبت سےبھرپور کلام، ان تینوں کو جمع کرکے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عطا فرمادیا کہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک اس ترانے کو سب کے سب ادا کرتے چلے جاؤ. ان پانچ ایام میں ہر مرد اور عورت پر ہر فرض نماز کے بعد ان تکبیرات کا پڑھنا واجب ہے.

الجواب باسمه تعالی
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
¤ یہ روایت جہاں جہاں بھی منقول ہے اس حکم کے بیان کے ساتھ ہی نقل کی گئی ہے کہ یہ روایت ثابت نہیں ہے،

□قال ابن نجيم في البحروقد ذكر الفقهاء أنه مأثورعن الخليل عليه السلام، وأصله أن جبريل لما خاف العجلة على إبراهيم عليه السلام فقال: الله أكبر الله أكبر؛ فلما رأه إبراهيم عليه السلام قال: لا إله إلا الله؛ فلما علم إسماعيل الفداء قال إسماعيل: الله أكبر ولله الحمد.(كذا في غاية البيان وكثير من الكتب، ولم يثبت عند المحدثين).(وكذا في الشامي).
[تفسير كشاف میں یہ واقعہ "قیل" کے ساتھ زیادہ مفصل طور پر مذکور ہے].

■تکبیرات تشریق کی حکمت:-
حافظ ابن حجر رحمه اللہ تکبیرات تشریق کی حکمت یوں بیان فرمارہے ہیں کہ ہر مشکل اور ہر خوشی کے موقعے پر تکبیر کا پڑھنا سنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے اور اس میں اللہ تعالی کی ذات کے ہر عیب سے منزہ (پاک) ہونے کا اقرار کرنا مقصود ہے،خصوصا وہ نامناسب باتیں جن کی نسبت بدبخت یہودیوں نے اللہ تعالی کی ذات کی طرف کی ہے.
▪قال الحافظ: وأما التكبير فلأنه ذكر مأثور عند كل أمر مهول وعند كل حادث سرور شكرا لله تعالى وتبرئة له من كل ما نسب إليه أعداؤه ولاسيما اليهود قبحهم الله تعالى.(فتح الباري لابن حجر: 2/4)

🕒تکبیرات تشریق کا وقت:-
اس کا وقت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کے نزدیک عرفہ (9 ذی الحج) کی صبح سے ایام منی کے آخری دن (13 ذی الحج) تک ہے. لہذا ان پانچ ایام میں ہر مسلمان عاقل بالغ مرد اور عورت پر ہر فرض نماز کے بعد ان تکبیرات کا پڑھنا واجب ہے.
▪ قال الحافظ : وأصح ما ورد فيه عن الصحابة قول على وابن مسعود إنه من صبح يوم عرفة إلى آخر أيام منى.
- أخرجه ابن المنذر وغيره..والله أعلم.
(فتح الباري لابن حجر: 2/462)
▪ وقال النووي: واختارت طائفة محققي الأصحاب المتقدمين والمتأخرين أنه يبدأ من صبح يوم عرفة ويختم بعصر آخر التشريق...واختاره ابن المنذر والبيهقي وغيرهما من أئمة أصحابنا الجامعين بين الفقه والحديث وهو الذي اختاره.[المجموع (5/34 و 35)]
وقال: وقول أنه من صبح يوم عرفة إلى عصر آخر أيام التشريق وهو الراجح عند جماعة من أصحابنا وعليه العمل.
- شرح النووي على مسلم (6/180).
- الأوسط لابن المنذر (4/303 9).
- وسنن البيهقي: (5/101)
▪وقال شيخ الإسلام: أصح الأقوال في التكبير الذي عليه جمهور السلف والفقهاء من الصحابة والأئمة أن يكبر من فجر يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق عقب كل صلاة ويشرع لكل أحد أن يجهر بالتكبير عند الخروج إلى العيد وهذا باتفاق الأئمة الأربعة.(مجموع الفتاوى: 24/220)
▪خلاصہ کلام
تکبیرات تشریق نہ صرف یہ کہ صحیح روایات سے ثابت ہیں بلکہ جمھور امت کا تعامل بھی اسی پر رہا ہے، لیکن اس کیلئے ایسی کمزور روایات سے استدلال کرنا اور غیر مستند اقوال کو عام کرنا عالمانہ اور عاقلانہ عمل ہرگز نہیں.

    《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: مفتی عبدالباقی اخونزادہ》
0333-8129000
٨ ذوالحجه ١٤٣٨ عرفات
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📚الترغیب والترهيب📚
📄الأجوبة المستحسنة في تحقيق الأحاديث المشتهرة على الألسنه📃
[اهل السنت والجماعت ديوبندی]
........
36950: أيام التشريق
ما هي أيام التشريق ؟ وما هي المزايا التي تتميز بها عن غيرها من سائر الأيام ؟.
تم النشر بتاريخ: 2003-02-11
الحمد لله

أيام التشريق هي اليوم الحادي عشر والثاني عشر والثالث عشر من شهر ذي الحجة ، وقد ورد في فضلها آيات وأحاديث منها :

1- قول الله عز وجل: ( واذكروا الله في أيام معدودات ) ، الأيام المعدودات : هي أيام التشريق ، قاله ابن عمر رضي الله عنه واختاره أكثر العلماء .

2- قول النبي صلى الله عليه وسلم عن أيام التشريق : " إنها أيام أكلٍ وشرب وذكرٍ لله عز وجل " ، وذكر الله عز وجل المأمور به في أيام التشريق أنواع متعددة :

منها : ذكر الله عزَّ وجل عقب الصلوات المكتوبات بالتكبير في أدبارها ، وهو مشروعٌ إلى آخر أيام التشريق عند جمهور العلماء .

Wednesday 30 August 2017

پلاٹینم کے احکام

مردوں کے لئے وائٹ گولڈ کے زیورات کا استعمال
سوال:
Platinum
یعنی وائٹ گولڈ
کا پہننا کیسا ہے مردوں کے  لئے ؟؟
براۓ مہربانی جواب عنایت فرمائیں

الجواب وباللہ التوفیق:
سونا مارکیٹ اور بازاروں کا ذریعہ تبادلہ اور کرنسی ہے۔
معاشی تقاضا ہے کہ اسے گردش میں رکھاجائے۔ اسکے  زیورات بناکے استعمال کرنے سے  ذریعہ تبادلہ منجمد یا محدود ہوجائے گا۔ جو معاشی ضروریات کو بری طرح متاثر کردےگا۔ عورتوں کے فطری  ذوق جمال و آرائش کی رعایت میں انہیں بطور خاص استعمال سونا کے زیورات کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مخصوص مقدار کو پہنچ جانے سے سال میں زکات فرض کرکے غریبوں کا حق  بھی اس سے وابستہ کردیا گیا تاکہ اس جزوی انجماد کی ممکنہ تلافی ہوسکے ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم مردوں کو سونا پہننے سے مطلقا منع فرمایا ہے۔ وائٹ یا پیلے سونا کی تقیید وتخصیص کے بغیر۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ دنیا میں سونے کا زیور استعمال کرنے والا شخص اس سے جنت میں محروم رہے گا۔۔۔
اس فرمان نبوی اور مذکورہ علل وحکم کی وجہ سے مردوں کے لئے سونا کا استعمال زیورات کی شکل میں حرام ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من مات من أمتي وہو یشرب الخمر حرم اللّٰہ علیہ شربہا في الجنۃ، ومن مات من أمتي وہو یتحلی الذہب حرم اللّٰہ علیہ لباسہ في الجنۃ۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۲؍۲۰۹)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
.......
پلاٹینمplatinum اور سفید سونے پر زکوۃ کا حکم
جواب: پلاٹینم(platinum) ایک دھات ہے ،اگریہ تجارت کے لیے ہویااس سے مصنوعات بناکرفروخت کی جاتی ہوں تویہ سامان تجارت میں شامل ہے اس پرزکوۃ لاگوہوگی،اگرتجارت کے لیے نہیں ہے توزکوۃ لازم نہیں۔
سفید سونے کو عام طور پر پلاٹینیم دھات کے ملانے سے بنایا جاتا ہے، اس کاحکم یہ ہے کہ اگر سونا غالب ہو تو یہ سونے کے حکم میں ہوگا اور زکوۃ فرض ہوگی اور اگر دھات غالب ہو تو زکوۃ نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم
http://dev.banuria.ml/darulifta/detail/%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%B9%DB%8C%D9%86%D9%85platinum-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%81%DB%8C%D8%AF-%D8%B3%D9%88%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1-%D8%B2%DA%A9%D9%88%DB%83-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%85
.......
سوال # 10771
سفید سونا یا پلاٹینم (نقرشہ) کی انگوٹھی مرد کے لیے جائز ہے یا حرام؟

Published on: Feb 18, 2009

جواب # 10771
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 183=157/ ل
مرد کے لیے چاندی کے علاوہ کی انگوٹھی کا استعمال جائز نہیں، اس لیے سفید سونا پلاٹینم یا کسی اوردھات کی انگوٹھی استعمال کرنا مرد کے لیے جائز نہیں۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم دیوبند

http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Clothing--Lifestyle/10771
.......

پِلاٹِینَم {پِلا + ٹی + نَم} (انگریزی)
Platinum، پِلاٹِینَم
اصلاً ہسپانوی زبان کا لفظ ہے اور انگریزی میں بطور اسم مستعمل ہے۔ انگریزی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے 1856ء کو فوائد الصبیان" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم مادہ (مؤنث - واحد)
معانی
1. چاندی جیسی سفید لیکن بھورے رنگ کی آمیزش لیے ایک بیش قیمت دھات (دیکھنے میں ہلکی لیکن اصلیت میں وزنی آکسیجن، تیزاب اور گرمی کے اثر سے محفوظ، بجلی کے آلات، زیورات، تیل سے گھی بنانے فاؤنٹین پن کی نب، گھڑیوں کے آلات، فوٹو گرافی کا سامان، مصنوعی دانت بنانے اور مختلف پیمانے تیار کرنے کے کام آتی ہے۔
دھاتیں مثلاً پلاٹینم جو بہت مشکل سے پگھلتی ہیں، بالکل آسانی سے شعلہ بن سکتی ہیں۔"،
[ترمیم]انگریزی ترجمہ

platinum
مرکبات
پِلاٹِینَم مَزاحِمَتی تھَرْمامِیٹَر، پِلاٹِینَم جُوبْلی

http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%B9%DB%8C%D9%86%D9%85

قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق

قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق

بعض لوگ سمجھتے ھیں کہ قربانی اس پر واجب ھے جس پر زکوۃ فرض ھے، یہ غلط ھے قربانی اور زکوۃ کا حساب الگ الگ ھے
قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق ھے
قربانی کے نصاب میں پانچ چیزیں ھیں
1
سونا
2
چاندی
3
نقدرقم
4
مال تجارت
5
ضرورت سے زائد سامان

اگر ان سب کی قیمت ملا کر 52.5 تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے توتین حکم لگیں گے
حکم 1
قربانی واجب ھوگی
حکم 2
فطرانہ دینا واجب ھوگا
حکم 3
ایسا شخص زکوۃ نہیں لے سکتا۔
ملحوظہ
ریڈیو ٹیپ ریکارڈر ٹی وی  کپڑوں کے تین سے زائد جوڑے وغیرہ ضرورت میں داخل نھیں انکی بھی قیمت لگائی جائے گی۔
یعنی جس شخص کے پاس سونا، چاندی، مال تجارت، نقد رقم اور ضرورت سے زائد سامان، انکی قیمت ملاکرساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ھوجائے تو اس پر قربانی واجب ھے۔  ریڈیو ٹیپ ریکارڈر ٹی وی  کپڑوں کے تین سے زائد جوڑے وغیرہ ضرورت میں داخل نھیں انکی بھی قیمت لگائی جائے گی. (
اگر کسی کے پاس 12 جوڑے ہوں، لیکن وہ سب اس کے استعمال میں آتے ہیں تو یہ ضروریات میں داخل ہیں، لیکن جو کپڑے بالکل استعمال میں نہ آتے ہیں وہ ضرورت سے زائد سامان میں شمار ہوں گے)- زکوۃ کے نصاب میں چار چیزیں ھیں

1
سونا
2
چاندی
3
نقدرقم
4
مال تجارت

جس کے پاس ان میں سے ایک چیز ھو تو اسکا نصاب الگ ھے اور اگر ان میں سے دو یا تین یا چاروں چیزیں ھوں اور انکی قیمت ملا کر 52.5تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر زکوۃدینا فرض ھے
الحاصل
قربانی کے نصاب میں پانچ چیزیں ھیں اور زکوۃ کے نصاب میں چار چیزیں ھیں-

http://googleweblight.com/i?u=http://zarbemomin.com.pk/index.php/shari-masail/qurbani-k-masail/247-chand-sangeen-ghaltiyoun-ki-islah&grqid=qqLKOJbS&hl=en-IN

قربانی کس پر واجب ہے؟ ضرورت سے زائد سامان سے کیا مراد ہے؟
سوال
کہا جاتا ہے کہ ضرورت سے زائد چیزوں  کہ  مالیت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچ جائے تو قربانی  واجب ہوجاتی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ کون سی اشیاء ہیں کہ جن کی مالیت شمار کی جائے؟ یہ بھی  بتائیں  کہ کسی کے پاس 12جوڑے ہو تو وہ بھی ضرورت سےزائد میں داخل ہیں  یا نہیں؟
جواب
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔
ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔
اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور  ہر  انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص  تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو  ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔
لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔
مذکورہ تفصیل سے آپ کے سوال کا جواب واضح ہوگیا ہے کہ اگر کسی کے پاس 12 جوڑے ہوں، لیکن وہ سب اس کے استعمال میں آتے ہیں تو یہ ضروریات میں داخل ہیں، لیکن جو کپڑے بالکل استعمال میں نہ آتے ہیں وہ ضرورت سے زائد سامان میں شمار ہوں گے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)
'' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم''۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201988
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
S_A_Sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2017/08/blog-post_25.html?m=1