Thursday 31 October 2019

بے مثال خصائل کا حامل عظیم پرندہ

بے مثال خصائل کا حامل عظیم پرندہ

کیا آپ نے کسی ایسی ماں کو دیکھا ہے جو اپنے بچے کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے پھینک دے؟
تربیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
یہ کیسی تربیتی نشست ہے جس میں بچے کی جان جانے کا خدشہ ہے؟
اگر بچہ ڈر جائے تو؟
مرجائے تو؟
جس نے پھینکا ہے وہ نہ صرف اپنے بچے کی صلاحیتوں کو جانتی ہے بلکہ اسے اپنی قابلیت پر بھی مکمل اعتماد ہے۔
مادہ عقاب کے بچوں کا جب پرواز سیکھنے کا وقت آتا ہے تو ان کی ماں انہیں اٹھا کر دس ہزار فٹ کی بلندی پر لے کر جاتی ہے اور پھر وہاں سے نیچے پھینک دیتی ہے۔
بچہ نیچے گرنا شروع ہوتا ہے۔ اپنے ننھے پر پھڑپھڑا کر اپنے آپ کو بچانے اور اڑانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مگر دس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنا بچوں کا کھیل نہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی پرندہ ہے جو اس بلندی پر اڑتا ہے اور وہ ہے عقاب ۔ کسی اور پرندے کی مجال نہیں جو اس کی بلندی کو چھوسکے۔
وہ بچہ تیزی سے قریب آتی زمین کو دیکھ کر سہم جاتا ہے۔ اپنے پروں کو اور تیزی سے حرکت دیتا ہے۔ اپنی آخری کوشش کرتا ہے پھر فضا میں اپنی نظریں گھماکر ماں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مگر ماں کہیں نظر نہیں آتی۔ جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے ۔
اڑنا ہے تو بچنا ہے ورنہ مرنا ہے۔
بچہ اپنی انتہائی کوشش جاری رکھتا ہے۔ مگر کامیابی نہیں ملتی۔
زمین انتہائی قریب پہنچ جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے زمین سے ٹکرانے اور پاش پاش ہو جانے میں بس کچھ ہی وقت باقی ہے ۔ وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔
ایسے میں اسے اپنے بالکل پاس دو بڑے بڑے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اسے اپنے محفوظ پنجوں میں دبوچ لیا ہے ۔ اب وہ گر نہیں رہا۔ اس کی ماں اسے گرنے سے عین پہلے دوبارہ دبوچ لیتی ہے اور واپس گھونسلے میں پہنچادیتی ہے۔
یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ بے خوفی سے اڑنا سیکھ نہیں لیتا۔
مادہ عقاب صرف اپنے بچوں کو اس آزمائش سے نہیں گزارتی بلکہ وہ جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اپنے ساتھی کے ساتھ ملن سے پہلے اس کی صلاحیتوں کو پرکھتی ہے۔
کسی نر عقاب سے ملن سے پہلے مادہ عقاب ایک پتھر کو انتہائی بلندی سے زمین پر پھینکتی ہے ۔ یہ نر عقاب کے لیئے ایک چیلینج ہوتا ہے کہ پکڑ کر دکھائے ۔
زمین پر گرتی ہر چیز کی رفتار گریویٹی کی وجہ سے بڑھتی جاتی ہے ۔ حد رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے ۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ عقاب کی عمودی پرواز کی رفتار اس سے کہیں زیادہ یعنی 300 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے ۔
نر عقاب اس پتھر کے تعاقب میں زمین کی طرف انتہائی تیز رفتار عمودی پرواز کرتا ہے اور وہ پتھر دبوچ کر لے آتا ہے ۔ مادہ یہ عمل صرف ایک بار نہیں دہراتی بلکہ اس وقت تک دہراتی ہے جب تک اس کو اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ نر اسے کما کر کھلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عقاب ایک انتہائی نڈر اور بہادر پرندہ ہے ۔ ڈر کیا ہوتا ہے خوف کس چڑیا کا نام ہے یہ پرندہ جانتا ہی نہیں ۔ شکار کرتے وقت اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کا شکار کون ہے کتنا وزنی ہے یا کس کس قسم کی دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہے ۔ یہ مردار ہرگز نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کر کے کھاتا ہے ۔ اس کی نگاہیں انسان کی نگاہوں سے پانچ گنا زیادہ تیز ہوتی ہیں۔
اس کا شکار جب ایک بار اس کی نظروں میں آجاتا ہے تو اس کا بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر تو وہ زیر زمین چھپنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے بچنے کے امکانات ہیں۔ بھاگنا مسئلے کا حل نہیں۔ کیوں کہ شکار کرتے وقت عقاب کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔
بڑے جانوروں کے شکار کے لیئے یہ عموماً بلندی سے گرانے کا طریقہ استعمال کرتا ہے ۔ اس کی اس اسٹریٹجی سے عموماً مضبوط خول رکھنے والے کچھوے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ یہ انہیں بلندی پر لے جا کر چٹانوں پر پٹخ دیتا ہے جس سے ان کا خول پاش پاش ہوجاتا ہے۔
عموماً جب طوفان کی آمد ہو تو تمام پرندے محفوظ مقام تلاش کرتے ہیں۔
مگر یہ طوفانوں سے محبت کرنے والا پرندہ ہے۔ طوفانوں کی تند وتیز ہوائیں اسے مزید بلندی پر بغیر محنت کے اڑنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
مگر یہ پرندہ بجائے گھبرانے کے طوفانوں سے محبت کرتا ہے۔
عقاب کی صلاحیتوں اور خصلتوں کی مثالیں انسانوں میں عام ہیں۔ یہ پرندہ قدرت کی صناعی کی ایک بہترین مثال ہے جس سے واقعی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
جبھی علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ
عقابی روح جب بیدار ھوتی ھے جوانوں میں
نظر آتی ھے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_53.html

حضور کے بعد سب سے پہلے حافظ قرآن؟

حضور کے بعد سب سے پہلے حافظ قرآن؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم میں سب سے پہلے حافظ قرآن کون صحابی تھے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اوّلیت کی یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اگرچہ مشہور ہے ؛
لیکن کہیں اس کی تشفی بخش بنیاد و ماخذ موجود نہیں ہے!
صحیح یہ ہے کہ حضرت سعد بن عبيد،  أبيّ بن كعب، معاذ بن جبل، زيد بن ثابت، أبو الدرداء، أبو زيد رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے متعدد صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کے مکمل حافظ تھے.
متعینہ طور پر اولیت کسی ایک صحابی رسول کے حق میں دلیل سے ثابت نہیں ہے. 
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی 
http://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_38.html?m=1


علماء کا مذاق کیوں اڑاتے ہو؟

علماء کا مذاق کیوں اڑاتے ہو؟
جو لوگ دینی باتوں یا علماء کرام کے بارے میں مذاق کرتے ہیں وہ لوگ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں اور سچی توبہ کرلیں یہ تحریر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے۔
ترجمہ حدیث: حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر کسی مجلس میں ایک شخص نے (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حفاظ صحابہ رضوان الله علیہم سے متعلق) کہا:
ہم نے اپنے ان قاریوں اور حافظوں سے بڑا پیٹو ان سے بڑا جھوٹا اور ان سے زیادہ بزدل کسی اور کو نہیں پایا،
اس مجلس میں موجود ایک صحابی نے کہا:
تو جھوٹ بول رہا ہے بلکہ تو منافق ہے میں اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ضرور پہنچاوں گا.
چنانچہ یہ خبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی جس پر قرآن نازل ہوا:
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّانَخُوضُ وَنَلْعَبُ.
ترجمه: اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ صاف کہیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔
حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنه کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص (جس نے یہ بات کہی تھی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی پکڑ دوڑ رہا تھا پتھر اس کے پاوں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ معذرت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:
اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم تو صرف مذاق کی باتیں کررہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں صرف یہ فرماتے تھے:
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) 
لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُم ْ(66)
ترجمه: کیا الله اس کی آیتیں اور اس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں اب بہانے نہ بناؤ تم لوگ ایمان لانے کے بعد اب کافر ہوگئے ہو۔
{تفسیر الطبری: 6/409}
ذرا غور کریں کہ جن لوگوں سے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا کہ: 
اب بہانے نہ بناو یقیناً تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے وہ لوگ یک گونہ مومن تھے اور یہ ساری باتیں انہوں نے بطور مذاق ہنسی اور صرف دلچسپی کے لئے کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کا عذر قبول نہ ہوا بلکہ ان کے اس موقف پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی دیکھئے کہ یہ بات کہنے والا شخص معذرت بھی کررہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کےکجاوہ کا پٹہ پکڑے ہوئے دوڑ رہا ہے ننگے پیر ہونے کی وجہ سےاس کے پیر پتھروں سے زخمی ہورہے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا مقصد صرف اور صرف ہنسی مذاق تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی اس حد تک ہے کہ آپ صرف یہ جواب دے رہے ہیں:
کیا الله اور اس کے احکام اور اس کا رسول ہی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟
امام ابن تیمیہ رحمہ الله لکھتے ہیں:
یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ الله تعالیٰ اور اس کی آیتوں اور حکموں اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 15/48)
امام فخر الرازی لکھتے ہیں:
دین کا مذاق خواہ جس نیت سے ہو الله تعالیٰ کے ساتھ کفر ہے۔
(التفسیر الکبیر: 6/126)
علامہ کوسی لکھتے ہیں:
اس بارے میں اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (روح المعانی)
حاصل کلام: 
۱- الله و رسول اور دینی احکام کا مذاق اڑانا کفر اور دین سے ارتداد ہے۔
۲- اہل دین کا ان کی دینداری کی وجہ سے مذاق اڑانا حقیقۃً دین کا مذاق اڑانا ہے کیونکہ زیرِ بحث واقعہ میں الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قاریوں اور حافظوں کے مذاق اڑانے کو الله تعالیٰ نے الله اور اپنی آیات کا مذاق اڑانا قرار دیا۔
۳- منکر اور گناہ کی بات کہنے والا اسے برضا ورغبت سننے والا اور پر موافقت کا اظہار کرنے والا سب کے سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_88.html

مسجد میں قبر ہے یا قبرستان ہے پھر مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

مسجد میں قبر ہے یا قبرستان ہے پھر مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟ 

حضرت مسجد میں قبر ہے یا قبرستان ہے پھر مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں
محمد انس 

الجواب وباللہ التوفیق:
اگر جانب قبلہ واقع قبر پرانی اور بوسیدہ ہو 
اور وارثین میت کی اجازت سے (اور اگر قبر موقوفہ زمین میں ہو تو اب اجازت کی ضرورت نہیں ) اسے ہموار کرکے مسجد کی زمین کے برابر کردیا گیا ہو 
یا پلر اور مکمل دیوار وغیرہ ڈال کر قبر کو زیر زمین محفوظ کردیا گیا ہو تو اب اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے 
لیکن اگر قبر اصلی شکل میں موجود ہو اور مسجد کے قبلہ کی جانب ہو ،نمازیوں کا رخ ادھر ہوتا ہو تو اب ایسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے 
و صرح فی الخلاصۃ من کتاب الصلوۃ بجواز الصلوۃ الیہا اذاکان ہناک حائل مثل الجدار و غیرہ ۔ (امداد المفتین ج۲؍۲۹۸)
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی 
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_97.html

امیر تبلیغ مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی کے ملفوظات Quotes By Hadhratji ML Saad DB- Ameer of Da'wah and Tableegh

امیر تبلیغ حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی کے ملفوظات
Quotes By Hadhratji ML Saad DB- Ameer of Da'wah and Tableegh
--------------------------------------------------------
عالمی امیر حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب مولانا الیاس صاحب کے کام کی تکمیل کررہے ہیں. کسی کے اچھے دن آوے نہ آوے ابھی مولانا سعد صاحب کی اطاعت کرنے والوں کے اچھے دن آنے والے ہیں کیونکہ وہ امیر ہے ان شاءاللہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو چپ رہو غیبت سے اور حقارت سے اپنے آپ کو بچالو. کسی بھی مسلمان کی غیبت کرنا (حرام حرام حرام) ہے اور کبیرہ گناہ ہیں اور خاص کرکے عالمی امیر حضرت جی مولانا سعد صاحب کی غیبت کرنا تو ایمان اور نسلوں کو بھی برباد کرنے والا عمل ہے. مولانا سعد صاحب مجدد ہے. حضرت جی مولانا سعد صاحب پورے عالم کے امیر ہیں اور بنگلے والی مسجد حضرت نظام الدین پورے عالم کا مرکز ہے. حضرت جی مولانا سعد صاحب کے دل میں براہ راست اللہ کی طرف سے علم لدنی القا کیا جاتا ہے.
---------------------------------------------------------
گزشتہ سال نومبر 2014 کے رائے ونڈ میں ہونے والے دوسرے حصہ کے عالمی تبلیغی اجتماع میں بندہ کی حاضری ہوئی، دوسرے دن بروز جمعہ عالمی شوریٰ کے امیر حضرت مولانا محمد سعد کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں اپنی کتاب ”حیاتِ شیخ زبیر“ لے کر حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تو بندہ مولانا کی پرکشش شخصیت سے مسحور ہوکر رہ گیا، پھر اگلے دن بعد مغرب مولانا نے جب ساڑھے تین گھنٹہ سے زائد ”الہامی“ بیان فرمایا اور اس میں دعوت کی محنت سے متعلق ہرہر چیز کو قرآن وسنت سے ثابت کیا تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ الفاظ ان کے سامنے پر باندھے کھڑے ہیں اور اپنے ہر ہر دعویٰ کے لیے دلائل ان کی زبان پر کھیل رہے ہیں اور یوں لگا کہ مولانا محمد یوسف صاحب(بقول مولانا نور عالم خلیل امینی کے کہ ان جیسا جادو طراز مبلغ پوری جماعت تبلیغ میں نہیں گزرا) پھر سے زندہ ہوگئے ہیں۔
مولانا محمد سعد صاحب نے دعوت و تبلیغ کے بنیادی تقاضوں اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی، ان کے بیان میں بعض باتیں ایسی بھی تھیں جن کے بارے میں محسوس ہوا کہ وہ یہ باتیں عام معمول سے ہٹ کر بطورِ خاص ارشاد فرمارہے ہیں، مثلاً انہوں نے زور دیا کہ ایمان کی محنت کے ساتھ ساتھ، اعمالِ صالحہ، عبادات، معاملات، حلال و حرام، اخلاقیات اور باہمی حقوق کے بارے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حرز جان بنایا جائے۔
بیان کے بعد بعض پرانے ضعیف العمر احباب کہنے لگے کہ حضرت جی مولانا محمد الیاس اور حضرت جی مولانا محمد یوسف کی نسبت اب ان میں منتقل ہوتی نظر آرہی ہے اور ان حضرات کے بارے میں جو سنتے تھے کہ چار چار گھنٹے کے بیانات میں ایسے ایسے مضامین ”قبیل از واردات غیبیہ“ بیان ہوتے تھے کہ لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے، یقین کیجیے کہ مولانا سعد صاحب کے بیان میں یہی صورت حال تھی، کیا عالم اور کیا جاہل، کیا نیا اور کیا پرانا، کیا چھوٹا اور کیا بڑا؟ ہر ایک پر عجیب ہی کیفیت تھی، پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مقرر وقت پورا کرنے کے لیے اپنے بیان کو لمبا کرتا ہے، لیکن سامعین کو اندازہ ہوجاتا ہے، جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا ہر ایک زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ”وہ کہیں اور سنا کرے کوئی“۔
پھر اس کے علاوہ بعض دفعہ ایسا شخص مقرر طے ہوجاتا ہے، جس کے پاس کم علمی کی بنا پر بولنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کر کے بیان کو لمبا کرتا ہے، لیکن یہاں تو بیان میں علمی موتی جھڑرہے تھے، مولانا کا علم بلند طائر اونچے سے اونچے آشیانہ پر جاکر بادل کی طرح برس رہا تھا اور زبان حال وقال سے کہہ رہا تھا کہ جتنا کچھ سمیٹنا اور محفوظ کرنا چاہو کرلو، ”پھر موقع ملے نہ ملے“۔ اس سے زیادہ اور کیا عرض کروں؟
پھر چوں کہ شوریٰ کے سابقہ امیر حضرت مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی کی وفات ہوچکی ہے تو اب ان کے اندر ایک ذمہ دارانہ شان بھی نظر آرہی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کے بیان میں امت کا ایک درد وغم تھا، اللہ سے ملانے کا ایک سوز وعشق تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر لانے کا جوش وجذبہ تھا ان کے بیان میں وہ سب کچھ تھا جس کی آج امت کو ضرورت ہے، میری رائے میں تو دعوت کی محنت کے معترضین اگر مولانا کا اس دفعہ کا دوسرے حصہ کا بیان خالی الذہن ہوکر غور وفکر سے سن لیں تو ان کے سارے اشکالات کافور ہوجائیں۔
ان کی خدمت میں حاضری کی جو کیفیت تھی وہ بڑی عجیب تھی، فی الحال تو اتنا کہوں گا کہ ان کی نورانی اور پرکشش شخصیت کے سحر سے تین دن تک میں باہر نہیں آسکا تھا، حالاں کہ دوسرے اکابر (حاجی عبد الوہاب صاحب، مولانا زبیر الحسن اور مولانا شاہد سہارن پوری وغیرہ) سے بھی ملاقات ہوئی تھی، لیکن کسی کے بارے میں تین دن تک کوئی خیال نہ رہا! اللہ جل شانہ مولانا کو لمبی عمر عطا فرمائے اور صحت و عافیت بھی۔
مولانا محمد سعد کاندھلوی 8 محرم الحرام 1385ھ مطابق 10 مئی 1965ء کو دہلی مرکز نظام الدین میں مولانا محمد ہارون صاحب کاندھلوی کے گھر میں پیدا ہوئے، آپ کی بسم اللہ 1392ء میں والد مرحوم مولانا محمد ہارون نے اپنے آخری حج کے دوران حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی (رحمہ اللہ) سے ریاض الجنة میں کروائی، آپ کی پیدائش سے ایک ماہ قبل آپ کے دادا حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات ہوچکی تھی اور پیدائش کے آٹھ سال بعد آپ کے والد ِمحترم مولانا محمد ہارون بھی اِنتقال فرماگئے، چناں چہ آپ کی پرورش و تربیت آپ کی والدہ اور نگرانی و سرپرستی آپ کے نانا حضرت مولانا محمد اظہارالحسن کاندھلوی، خاندانِ کاندھلہ کے سرپرست شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور دعوت و تبلیغ کے اُس وقت کے امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی نے فرمائی، 1985ء میں مدرسہ کاشف العلوم دہلی سے پڑھ کر فاضل ہوئے اور وہیں پر تاحال علمی ودِینی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں، ماشاء اللہ آپ کا علم شستہ اور عمل پختہ ہے، جب اجتماعات میں خطاب فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد یوسف پھر زندہ ہوگئے ہیں، علم وعمل، اِخلاص و للہیت، تقویٰ وانابت، ذمہ دارانہ حیثیت اور جود و سخا میں اپنے آباوٴ واجداد کے ثانی و پرتو ہیں، اس وقت دعوت وتبلیغ کے صف ِاوّل کے اکابر میں سے ہیں، بلکہ حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کی وفات کے بعد اب ان کی جگہ عالمی امیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجد کے متولی و ناظم اور مدرسہ کاشف العلوم کے بھی متولی و ناظم اور استاذ الحدیث ہیں، حضرت مولانا سید محمد سلمان سہارنپوری صاحب (داماد حضرت شیخ و موجودہ ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارن پور) کی بڑی صاحب زادی بریرہ خاتون آپ کے نکاح میں ہیں۔ جن سے حق تعالیٰ نے آپ کو تین فرزند محمد یوسف، محمد سعید اور محمد سعود عطا فرمائے ہیں۔
چونکہ آپ کے باپ، دادا اور پردادا سبھی اِس کام کے روحِ رواں رہے ہیں، اِس لئے اِس کام کی عظمت واہمیت اُن کے دِل ودماغ میں اس طرح جاگزیں ہے کہ جاگتے سوتے وہ اُسی کے داعی و مبلغ ہیں، حضرت مولانا محمد سعد صاحب نے موروثی طور پر اور اسی ماحول میں پروان چڑھنے اور اس کی قائد شخصیات کی صحبت اِختیار کرنے کی بنا پر دعوت کے مزاج ومذاق کو نہ صرف سمجھ لیا ہے، بلکہ اپنے اندر سمولیا اور اپنے اُوپر طاری کرلیا ہے۔
آپ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی، حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی، حضرت مولانا محمد اظہارالحسن کاندھلوی اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے ہیں اور اس وقت حضرت مولانا مفتی محمد افتخارالحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم (موجودہ سرپرست خاندان کاندھلہ ومرکز نظام الدین اور خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری) سے اِصلاحی تعلق ہے، جب کہ اجازت وخلافت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی اور حضرت مولانا مفتی محمد افتخارالحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم سے رائے پوری سلسلہ میں حاصل ہے۔
اب مولانا کے بیان سے کچھ منتخب ملفوظات پیش خدمت ہیں:
٭… امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ اُمت اس وقت تک سدھر نہیں سکتی جب تک اِس اُمت کے پچھلے وہ کام نہ کریں جو اِس کے پہلوں نے کیا، لہٰذا یقین سے کہاجاسکتاہے کہ اِس اُمت کی کام یابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے۔ یہ اُمت اتنی ہی کامیاب ہوگی جتنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریق پر رہے گی۔ ہدایت اور کامیابی اسی طریقہٴ محنت میں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کے صحابہ کا تھا۔ صرف ایمان کی ابحاث سے ایمان میں ترقی ممکن نہیں، جب تک وہ محنت نصیب نہ ہوجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگیوں میں تھی۔ یقین کے سیکھنے کا وہ طریقہ جو صحابہ کرام کا تھا وہی مطلوب ہے۔ تبلیغی نصاب میں حیاة الصحابہ کی شمولیت پر غور کریں! یہ اِس لئے ہے کہ تبلیغ کی محنت جب صحابہ کرام کی سیرت کے موافق ہوگی تب کامیابی ہوگی۔
----------------------------------------------------------------------------
صحابہ کرام امت کے لئے نمونہ بنے، اُمت کے سامنے خودکو پیش کیا۔ لہٰذا دعوت کے کام میں کام یابی تب ہوگی جب دعوت مزاجِ صحابہ کے موافق ہوگی او رہم خود اُمت کے سامنے پیش ہوں گے۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام کو سمجھنا ضروری ہے، صحابہ کو سمجھے بغیر قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔ صحابہ کرام قرآن کی تفسیرو تفصیل ہیں۔ لہٰذا اُن کو سمجھنا ضروری ہے، صحابہ کرام قیامت تک کے لیے راہ نما ہیں۔
٭… حدیث شریف میں ارشاد ہے: جس شخص کو مسجد میں آتاجاتا دیکھو، اُس کے ایمان کی گواہی دو! چناں چہ فرمایا: انما یعمر مسجداللہ من أمن باللہ۔ بے شک مساجد کی تعمیر وہ کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملہ میں صحابہ کا رخ مسجد کی طرف موڑا، صلوة الحاجة، صلوٰة الخوف، صلوٰ ة الکسوف، صلوٰ ة الخسوف وغیرہ پر غورکریں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر تین کام نہ ہوتے تو دنیا چھوڑکراللہ سے جاملتا۔ اللہ کے راستے میں پھرنا۔ علم کی مجالس میں بیٹھنا۔ علم کی باتیں ایسے حاصل کرنا جیسے کھجوروں میں سے عمدہ کھجوریں چن چن کر تلاش کی جاتی ہیں۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ایمان کی تقویت کی جگہ مسجد کا ماحول ہے، خلوت کدوں، بازاروں اور دوسری جگہوں سے نکل کر مسجد میں آنا ضروری ہے۔ ہمار ا اَصل مقصد اُمت کو مسجد تک کھینچ لانا ہے۔
ہماری سب سے زیادہ محنت اس بات پر ہونی چاہئے کہ مسلمانوں کو مسجد کے ماحول میں لایا جائے، کیوں کہ ایمان واعمال کی تعلیم وتربیت ایمان کے ماحول میں ہوسکتی ہے اور اس کی جگہ مسجد ہے۔ مسجد سے باہر کئے جانے والے اعمال میں وہ برکت نہیں ہوتی جو مسجد میں ہوتی ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو مسجد کے ماحول کا عادی بنائیں۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق اللہ کے گھر میں آنے سے ہی قائم ہوگا اور یہی دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا مقصد ہے کہ ہر ایک کا اللہ سے تعلق قائم ہوجائے۔
٭…نماز کی خاصیت ظاہر ہوکر رہتی ہے، تاہم ضروری ہے کہ نماز میں منکر نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس کی نماز اُسے گناہوں سے نہ روکے، اُس کی نماز اُسے اللہ سے دُور لے جائے گی۔ ﴿ان الحسنات یذھبن السیئات﴾۔ بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں۔
نما ز کا ایسا اہتمام کریں کہ اُس کا حق اداکردیں۔ نماز بلکہ تمام عبادات کو ہلکا مت سمجھیں، دعوت کے کام میں لگ کر عبادات سے غفلت استدراج ہے، دھوکاہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی قافلہ روانہ فرماتے تو نصیحت فرماتے: ”دیکھو! دن کے کاموں میں کام یابی تب نصیب ہوگی جب تمہیں رات کا قیام اور تلاوتِ قرآن نصیب ہوگی۔“
٭… اتباعِ سنت وہ کشتیٴ نوح ہے کہ جو اِس میں سوار ہوگیا وہ کام یاب ہوگیا اورجو باہر رہ گیا ناکام ہوگیا۔ فرائض، اِسلام میں آنے کے لئے شرائط ہیں، جب کہ اتباعِ سنت سے مسلم اور کافر میں امتیاز ہوتا ہے، سنت کو ہلکا مت سمجھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت پر عمل کرتے تھے، اُس کے سنت ہونے کی وجہ سے۔ جب کہ ہم سنت کو اُس کے سنت ہونے کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں۔
٭… کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکام بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ یاد رکھیں! حالات کا تعلق اَحکام کے ساتھ ہے، حکام کے ساتھ نہیں، حالات تب بدلیں گے جب ہم اَپنے اَعمال بدلیں گے، کیوں کہ حالات کا تعلق بدن سے نکلنے والے اَعمال کے ساتھ ہے۔ جب تک ہم کافروں کے اَسباب واَعمال کو نہیں چھوڑیں گے، تب تک اُن کے حق میں ہماری ہدایت کی دعا قبول ہوگی اور نہ تباہی کی بددعا۔ اگر اُن کی ہدایت یا تباہی مطلوب ہے تو پہلے اُن کے طور طریقے چھوڑدو!
٭… حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنت دعوتِ ایمان ہے۔ اصل محنت انفرادی دعوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشادہوا: ﴿بلغ ماأنزل الیک من ربک﴾․ پہنچادیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اُتارا گیا۔
داعی طالب ہے اور امت مطلوب، ایک ایک فرد کے پاس جاکر اللہ کی طرف بلانا اَصل ہے، اِس کا متبادل کوئی دوسرا طریق نہیں۔ بیٹھے بٹھائے علم یا روحانیت سے ہدایت نہ پھیلے گی۔ کیا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو علم یا روحانیت حاصل تھی؟ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اذیتیں اٹھا اٹھاکر ایک ایک فرد کو دعوت دی اور اللہ کی طرف بلایا، لہٰذا وہ محنت مطلوب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔
٭… دین کے کسی کام کو ہلکا مت سمجھیں، امامت، خطابت، فتویٰ، درس وتدریس دین کے اہم شعبے ہیں۔ اِن کو ہلکا سمجھ کر نکلنے کے لیے اِصرارکرنا محض جہالت ہے۔ دعوت کاکام اِس لئے ہے کہ اُمت علم پر آجائے، یعنی دعوت کے کام کی آمدنی علم و عمل ہے، کون مزدور ایسا ہوگا کہ اپنی آمدنی پر اشکالات کرے اور اس کو رد کردے، لہٰذا علم اور علماء پر اعتراضات واشکالات بے وقوفی ہے، علم کو محفوظ رکھنے اور اس کو پھیلانے کا فریضہ مدارس انجام دے رہے ہیں۔
اپنی مساجد کے ساتھ جہاں جہاں مکتب نہیں ہے وہاں بچوں کا مکتب کھولو، تاکہ اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو۔
٭… باہمی حقوق کی ادائیگی کا ماحول پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس لئے کہ حقوق العباد کبھی معاف نہیں ہوں گے جب تک کہ حقوق والے خود معاف نہ کردیں۔
٭… سود اور دیگر حرام ذرائع آمدنی کے استعمال کے ساتھ اپنی دعاوٴں اور عبادتوں کی قبولیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ سودخوری تو اللہ تعالیٰ اور رسولِ خدا کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہورہی ہے اور دوسری طرف ان سے دعائیں بھی مانگی جارہی ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات اور دعاوٴں کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حالت جنگ سے نکلنا ہوگا۔
٭… حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس بات سے دل میں اثر نہ ہو وہ کانوں کی عیاشی ہے، آج کل بڑوں کے ملفوظات پڑھنے کا شوق نہیں، قصے کہانیوں کو سننے اور پڑھنے کا شوق ہے، یہ کانوں کی عیاشی ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭…حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ آج کل لوگ قدرت سے فائدہ اُٹھانا جانتے نہیں اور نظامِ کائنات سے فائدہ ملنے کو قدرت کی طرف سے فائدہ جانتے ہیں، حالاں کہ اسباب سے فائدہ اٹھانا الگ ہے اور قدرت سے فائدہ اٹھانا الگ ہے۔ نظر اور خبر کا مقابلہ ہے، نظر پر یقین نہ ہو بلکہ خبر پر یقین ہو، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… ایک ذہن یہ بن گیا ہے کہ اسباب اختیار کریں گے، اگر کام نہ بنا تو نماز پڑھیں گے۔ حالاں کہ نظامِ کائنات اللہ کا ضابطہ نہیں ہے کیوں کہ ضابطہ میں تبدیلی نہیں اور نظامِ کائنات میں تبدیلی ہے (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا) اللہ کی طرف سے سبب پر کوئی امید نہیں اور سبب پر اس سے مدد نہیں مانگی جاسکتی، انبیائے کرام علیہم السلام نے فرشتوں کی مدد نہیں مانگی، اللہ نے مدد کی صورت میں ان کو بھیجا، سبب کو اللہ متوجہ کرتے ہیں۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭…حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اسباب کا ترک کرنا مجاہدہ نہیں اور بیوی بچوں کو چھوڑدینا مجاہدہ نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کے اشتغال کو کم کرکے دین کے لیے وقت نکالنا اور اس کو بڑھاتے چلے جانا یہ اصل ہے اور یہ اصل مجاہدہ ہے، دونوں میں فرق سمجھیں، خلیفہ اول خلافت کے بعد تجارت کے لیے چل دیے کیا یہ توکل کے خلاف ہے، بعض لوگ اسباب کے اختیار کرنے کو جرم سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ مشرکوں کا قول تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ ﴿مالہٰذا الرسول یاکل الطعام﴾ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… جن کے دل غیروں سے متأثر ہوتے ہیں ان کو غیروں کے لباس اچھے لگتے ہیں، حالاں کہ اصل تو سنت ہے اسلام تو سنت طریقہ پر آتا ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… مسلمان کی شان اتباع سنت ہے، صرف فرائض کو انجام دینا کافی نہیں، اتباع سنت کی مثال کشتی نوح ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ آج کل مصالح (مصلحت) کی وجہ سے اسلام کو پیسا جاتا ہے، حالاں کہ اسلام پیسنے کی چیز نہیں، بلکہ مصالحے (نمک مرچ وغیرہ) پیسنے کی چیز ہیں اور مصالحے کو جتنا پیسا جائے گا اتنا لذیذ ہوگا۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… نماز پڑھوانا دعوت ہے، نماز کا کہہ دینا دعوت نہیں، امت کے لوگوں کو یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ نماز کے کہہ دینے کو دعوت سمجھ بیٹھے، حالاں کہ عملی طور پر نماز پر لانا دعوت ہے، بات کا پہچانا تبلیغ نہیں بلکہ دل میں اتارنا تبلیغ ہے، یہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ کا ملفوظ ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… صلوة الحاجة حاجت کی نماز نہیں، بلکہ اللہ سے قرب کے لیے ہے کہ اگر جب کبھی کوئی پریشانی آئے اللہ سے مانگو تو مسئلہ حل ہوجائے گا، حاجت کے پیش آنے کے لیے نماز نہیں، بلکہ عمل حاجت پر مقدم ہے کہ عمل سے حاجت پوری ہوتی ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)
٭… قرآن میں صبر کو نماز پر مقدم کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ پہلے حرام سے بچو، پھر نماز کی طرف آوٴ، پہلے معاملات کو درست کرو، ظاہری پاکی (ہاتھوں اور پاوٴں کو دھونا) اور باطنی پاکی (سود اور حرام غذا سے بچنا) حاصل کرو، پھر نماز قبول ہوگی، نماز کی قبولیت کے لئے حرام غذا سے پاکی پہلے ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… جو حالات معاملات کی خرابی سے آئیں گے وہ عبادات سے درست نہیں ہوں گے، آج عبادات خوب ہیں، مگر معاملات درست نہیں (لوگوں کا حق دبانا وغیرہ) تو مدد کہاں سے آئے گی؟ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)
٭… اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کو برداشت کرنا ہی ”اخلاق“ ہے..
٭… ایک انسان کی ہلاکت کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر سمجھے۔
٭… عصری فنون یہ علوم نہیں ہیں، ضروریاتِ زندگی کے حصول کے ظاہری ذرائع ہیں، ان کا حاصل کرنا منع نہیں ہے، لیکن ان پر فخر کرنا کفر کا مزاج ہے۔ علوم صرف اور صرف قرآن وحدیث ہے۔
تحریر: مولانا سید محمد زین العابدین
---------------------------------------------------
حضرت جی نے رائیونڈ 2012 کے اجتماع پر بیان کے آخر میں فرمایا: اللہ آپ حضرات کو جزائے خیر دے ایسا جم کر بیٹھ کر سننے والا مجمع میں نے کہیں نہیں دیکھا. یہ آپ کی طلب اور شوق کی بات ہے ۔۔۔ ہمارے مشورے کی بنیاد امور کا طے کرلینا نہیں ہے ہمارے مشورے کی بنیاد ہر ایمان والے کے دل میں اللہ کے دین کے مٹنے کا غم پیدا کرنا ہے۔ مشورہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر آپ کسی دشمن سے بھی جاکر مشورہ لو تو دوست ہوجائے گا۔ مشورے سے بڑا امت کو جوڑنے والا کوئی عمل نہیں ہے ۔۔۔ ہمارے کام میں کسی کو نکالنا نہیں ہے کہ فلاں فلاں کو نکال دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اجتماعیت کو باقی رکھنے کے لئے منافقین کو اس طرع نبھارہے کہ نہیں ان کو نکالنا مت ورنہ غیر یہ کہیں گے کہ ان کی آپس میں اجتماعیت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ان کو ہمارا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تبوک ایسا موقع لائے کہ منافقین خود ہی چھٹ گئے. یہ اس کام کی خاصیت ہے کہ ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ نعوذباللہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ چھٹ جائیں گے۔
---------------------------------------------------------------
مسلمان کا عیب ظاہر کرنا مسلمان کو رسوا کرنا ہے اور مسلمان کو رسوا کرنے والا اللہ کی نظر میں رسوا ہوچکا ہے. جب امت میں سے مسجد کا دین نکل جائے گا تو مسجد کے باہر کا دین بھی نکل جائے گا. اس لئے کہ مسجد سے باہر کے تمام شعبوں کا دین وہ مسجد کے دین پر مؤقف ہے. غیرشرعی کام چاہے کتنے ہی اخلاص سے کیا جائے اس کو قبول نہیں کرتے بلکہ رد کرتے ہیں عالمی  شوری غیرشرعی ہے اس لیے اصولا اور نصوصا اس کو رد کیا جائے گا. ایمان کی تصدیق کے لئے مسجد  میں ایمان کے حلقے قائم کرنا یہ صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا معمول تھا۔ یہ معمول امت میں سے ختم ہوگیا اب ملاقات برائے ملاقات رہ گئی. سب سے زیادہ ترقی اس راستے میں وہ صبر اور برداشت کرنا ہے. جو شخص اللہ رب العزت سے اپنے لئے اور ساری امت کے لئے ہدایت کا طالب ہوگا وہ ہر ناگواری کو برداشت کرلے گا. اگر دس بار سورہ اخلاص کوئی فجر کی نماز کے بعد پڑھ لے تو رات تک شیطان  اپنی پوری کوشش کے باوجود اس سے گناہ نہیں کرواسکتا. اس سے معلوم یہ ہوا کہ شیطان کا جال بہت کمزور ہے. اللہ کے عذاب کو ہٹانے کا سب سے یقینی سبب وہ یہ ہے کہ تم ایک ایک کو دعوت دے کر اعمال مسجد کی طرف جوڑدو اس لئے کہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی وجہ سے عذاب ہٹا دیا جاتا ہے. مسجد کے ماحول کا کوئی متبادل نہیں ہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں ہر وقت مسجد میں آنے والوں کو مسجد میں تربیت اور علم وایمان کا حلقہ ملے. جس طرح دین بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام اور نماز بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام اسی طرح مسجد بھی بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام ہے. مسجد صرف نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ دینی اور دنیاوی تمام مسائل کا تعلق مسجد سے ہے. اللہ نے ہدایت کا وعدہ اپنے راستے کے جہد پر کیا ہے صحیح حدیث میں ہیں کہ مسجد کی طرف چل کر آنا جہاد میں سے ہے. صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا کوئی عمل اپنے زمانے کے لیے نہیں قیامت تک آنے والی امت کے لئے ہے کیوں کہ زمانے کے بدلنے سے چیزیں بدلے گی اسباب بدلیں گے لیکن ہدایت کے ضابطے نہیں بدلیں گے ہدایت اور تربیت کے وہی ضابطے ہیں جو ضابطے دور نبوت میں تھے. اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک آدمی اگر مسجد کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو وہ اللہ کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور اللہ تعالی خود فرماتے ہیں جو بندہ میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں. صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین مسجد سے کائنات کے نظام کو ایسے کنٹرول کرتے تھے جیسے کسی بجلی گھر یعنی (پاورہاوس) سے پورے شہر کے بجلی کے نظام کو کنٹرول کیا جاتا ہے. مسجد کے اندر اعمال کا اجتماعی ماحول قائم ہو اور پھر اس اجتماعی ماحول میں لوگوں کو لاکر جوڑا جائے مسجد کے باہر دعوت دینا اجتماعی ماحول میں لانے کے لئے ہے. اللہ کے غیر کا تاثر نکلے گا نہیں جب تک اللہ کے گھر میں آکر اللہ کو نہیں سنوگے. اللہ کے غیر سے نہ ہونے اور محض اللہ سے ہونے کا یقین پیدا کرنے کے لئے امت کو اللہ کے گھر میں لاکر اللہ کا تعارف کروانا ہوگا. زندگیوں کے بدلنے کا تعلق اصل میں مسجد کے ماحول سے ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر جو لوگ اللہ کے تذکرے کرتے ہیں فرشتے اپنے پروں سے آسمان تک ان کو گھیرلیتے ہیں/ اللہ ان سے بہتر مخلوق میں ان کا ذکر فرما تے ہیں. عبادت کا نور مسجد میں ملے گا علم کا نور مدرسے میں ملے گا ذکر کا نور خانقاہ میں ملے گا ایمان کا نور اللہ کے راستے میں نکلنے سے ملے گا. اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کو برداشت کرنا ہی اخلاق ہے. غلط کو غلط نہ سمجھ پانا جہالت کی نشانی ہے اور غلط کو غلط نہ کہنا غلامی کی نشانی ہے. 
--------------------------------------------------
رزق کے 16 دروازے
1 - نماز کا اہتمام کرنا
2  - استغفار کی کثرت
3 -  اللہ کے راستے میں خرچ کرنا
4 -  تقویٰ اختیار کرنا
5 -  کثرت سے عبادت
6 -  حج اور عمرہ کی کثرت
7 - کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا                             
8 - شکر ادا کرنا
9 - توکل کرنا
10 - انسان گھر جائے تو اہل خانہ کو مسکراکر سلام کرے
11 - والدین کی فرمابرداری کرنا
12 -  صلا رحمی کرنا
13- دوا م طہارت یعنی ہر وقت باوضو رہنا
14 - چاشت کی نماز پڑھنا
15 - سورہ واقعہ کا روزانہ پڑھنا
16 - اللہ پاک سے دعا کی کثرت
(27 شب کا بیان)
------------------------------------------------------------------
ہر عمر کے مسلمانوں کو مسجد میں تعلیم اور قرآن کے حلقوں سے جوڑنا چاہیے ہیں اور اب تو یہ چاہت اس بات کی ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور فرائض اور عبادات سے متعلق موٹے موٹے مسائل علماء مسجد کی سطح سے سکھلایا کریں ...
جب تک تعلیم کا نظام مسجد کی سطح پر نہیں آئے گا تو عوام جہالت سے نکلیں گے نہیں؛ یہ پکی بات ہے، اصل میں تعلیم کا تعلق مسجد اور علماء کی صحبت سے ہے .. کتابوں کا جو علم ہے وہ علم کی حفاظت کے لیے ہے؛ کتابوں کا علم تعلیم کے لئے نہیں؛ تعلیم کے لئے تو علماء کی صحبت ہے .. ایک صحابی (رضی اللہ عنہ) نے لکھا حضرت عمر (رضی اللہ عنہکو خط کہ مجھے علم لکھ کر بھیج دیجیے مدینہ منورہ سے، دیکھو ظاہری بات ہے کہ سارا علم مدینہ میں؛ حضرت عمر (رضی اللہ عنہنے جواب دیا اُس خط کا ...... مدارس تو اس لئے مطلوب ہیں، تاکہ یہاں عملہ تیار ہو، آپ دیکھتے ہیں کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں، محلہ کے کلینک میں استعمال ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ تمہیں علم لکھ کر بھیج دیا جاوے، کتنے نشرواشاعت کے اسباب اور ذرائع ہیں اور کتنی کتنی سہولتیں ہیں اور پھر اندازہ کرو کتنی جہالت ہے؛ اس لئے عرض کررہا ہوں کہ مسجد وہ اصل آنے والوں کو تعلیم دینے کی جگہ ہے ... حضرت عمر (رضی اللہ عنہنے جواب دیا اُس خط کا کہ: "علم لکھ کر بھیجنے کی چیز نہیں ہے. تم مدینہ میں آو، یہاں علماء کی صحبت اور اُن کی مجلس میں رہو، تو علم حاصل کروگے ........"
اُس محلے کے سارے عوام کے علاج اور ان کی ضروریات کے لیے وہ جاکر کلینک کھولتے ہیں. ہم سوچتے ہیں علم حاصل کیا؛ فارغ ہوگئے، اپنے لئے عمل کریں گے؛ حالانکہ کسی کے سوال کرنے پر علم کو چھپانا ہی حرام نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے سوال نہ کرنے پر اُمت کو علم نہ سکھلانا یہ خود گناہ ہے .... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن علماء کو سخت دھمکی دی ہے، جن کو اللَّهَ نے علم دیا ہے مگر وہ عوام کو علم سکھاتے نہیں، اُن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "تعدّ دِعقوبت" کی دھمکی دی ہے ... آخرت میں جو حساب ہوگا وہ تو ہوگا، میں دنیا میں سزادوں گا اُن علماء کو جو جاہلوں کو دین نہیں سکھاتے، یہ صحیح روایت ہے.... علماء نے کہا کہ جی! یہ جاہل ہم سے سیکھتے نہیں، ہم تو ہر وقت تیار ہیں سکھانے کے لئے، وہ سیکھتے نہیں تو ہماری کیا خطاء ہے، وہ آئیں ہمارے پاس .... ہم تو بیٹھے سکھلانے کے لئے؛ سیکھنے کے لئے آتے ہی نہیں تو ہم کیا کریں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ یا تو تم جاہلوں کو دین سکھلاو، ورنہ میں تمہیں سخت سزا دوں گا. روایت میں تین مرتبہ ہے .. بار بار علماء نے اس بات کو دُہرایاکہ ابتغی غیرنا وہ سیکھتے نہیں تو ہم کیا کریں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ بات دہرائی؛ کہ تم سکھلاؤ ورنہ دُنیا میں تمہیں سزا دوں گا ..... تیسری مرتبہ میں جاکر سمجھے، کہا کہ ہاں! ہمیں ایک سال کی مہلت دے دیجئے؛ ہم جاکر اُن تک علم کو پہنچائیں گے؛ جہاں جہاں اسلام پہنچ گیا علم نہیں پہنچا؛ ہم جاکر علم پہنچائیں گے ....
------------------------------------------------------------------
گشت کوئی تبلیغی تحریک کا عمل نہیں ہے؛ بلکہ گشت وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادا کرنے کی عملی شکل ہے. امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرنے کی عملی شکل ہے، جو اس زمانے میں محض تحریک پر آکر رہ گی.... جس عمل کے پیچھے مجاہدہ نہ ہو اُس عمل کے ساتھ ہدایت نہیں؛ اور رہی یہ رواجی شکلیں! لوگ چاہتے ہیں کہ اخبار میں ایک کالم امر المعروف کا ہونا چاہئے ایک چینل اسلام کا بھی ہونا چاہئے تاکہ اسلام پھیل جائے .. ایسے بھی احمق ہیں! مولانا الیاس صاحب اور مولانا یوسف صاحب رحمۂ اللہ علیہ بہت قوت سے فرماتے تھے کہ جب حق کو چلانے کے لئے باطل کا سہارا لیا جائے گا، باطل چلے گا حق نہیں چلے گا؛سہارا سہولت کے عنوان سے لیا جاتا ہے .. یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی بادشاہتیں اللَّهَ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں ختم اس لئے کروادیں؛ خود جاکر دعوت دی ... ساری سہولت کی چیزیں باطل میں ملیں گی اور ساری مجاہدہ کی شکلیں سنت میں ملیں گی. دعوت میں بھی سنت ہے؛ وہ یہ ہے؛ خود جاکر دعوت دو ... کسریٰ کی بادشاہت کے ٹکڑے اس پر ہوئے کہ جماعت نے جاکر دعوت دی. جس طرح تمام ضروریات میں اتباعِ سنت ہے اسی طرح دعوت میں بھی اتباع سنت ہے. ہر گشت کر نے والا اس ارادے سے گشت کرے کہ وہ اللَّهَ کے بندوں کو اللَّهَ کے گھر میں لانے کے لئے جارہا ہے؛ مسجد کے ماحول میں لانے کے لئے جارہا ہے ... کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گشت مسجد میں ایمان کے حلقوں پر جمع کرنے اور علم کے سیکھنے کے لئے ہوتا تھا.
اس لئے کہ تربیت اور ایمان کی تقویت کی اصل جگہ مسجد ہے، اس کا تو کوئی متبادل نہیں ہے، یہ تو پکی بات ہے؛ اس سے کسی شعبے کی تردید مراد نہیں ہے....
بلکہ حضور صلی اللہُ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  کے زمانے میں علم اور ایمان کے سیکھنے کی اصل جگہ مسجد تھی؛ ایمان مسجد سے کیسے سکھایا جاتا تھا اس سنت کے احیاء کے لئے اُمت کو متوجہ کرنا ہے؛ یہ ملےگا کہ آو ہمارے ساتھ! اپنے رب پر ایمان لاویں اور علم کے حلقوں پر جمع کرنا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول تھا...
------------------------------------------------------------------
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر دیکھو کہ کسی سے سب خوش ہیں تو وہ مداہین (سب کی ہاں میں ہاں ملانے والا) ہے. آدمی حق پر ہو اور سب اُس سے خوش ہو اس کی مشال کسی بھی دور میں نہیں ملتی. حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے عمر! خلافت سنبھالو اور یاد رکھو تم سے سب خوش نہیں رہیں گے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کبھی میں مکھن سے زیادہ نرم ہوجاتا ہوں. اور کبھی پتھر سے زیادہ سخت، جب اللہ کا معاملہ آجائے. تعلیم شفقت سے دینی ہے نہ کہ مشقت سے. جن سے غلطی ہوجائے اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ؛ کیوں کہ غلطی کرنے والے کو سمجھنا ہے. تعلیم رینی ہے تعلیم میں شفقت ہوتی ہے. مسجد میں پیشاپ کرنے والے کو اس طرح سمجھایا کہ وہ آپ کا گرویدہ ہوگیا. زنا کی اجازت مانگے والے کو اس طرح سمجھایا اور دعا دی کہ ہمیشہ کے لئے اُس کے دل سے زنا کی خواہش ختم ہوگئی. جب یہود نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے گوشت میں زہر ملاکر پیش کیا تھا اس کو بھی معاف کیا. معاف کرنے کے ان واقعات کو سننے سے دل میں سب کے لئے وسعت پیدا ہوتی ہے. دعوت کے کام میں عفوودرگزر بہت ضروری ہے جن سے غلطی ہوجائے اور جو ظلم کرے اس کو معاف کرنا چاہئے. دعوت کے کام کو محتاج بن کر کرنا ہے. احتجاج تو سیاست میں ہوتا ہے.
------------------------------------------------------------------
بہت سی بے اُصولیاں اور غلطیاں نفس کے تقاضہ سے ہوتی ہیں، اور رات کے قیام سے بڑھ کر نفس کو کچلنے والا اور کوئی سبب نہیں ہے .. ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ اپنی جماعتوں کو تاکید فرماتے تھے اِس کی، کہ دو کام زیادہ کروگے تو اللَّهَ کی مدد ساتھ ہوگی؛ ایک رات کا قیام، دوسرے قرآن کی تلاوت .... اس لئے اللَّهَ کے راستے میں نکل کر تلاوت کرنے والے کے لئے ایسا اجر ہے، حدیث میں ہے، کہ جو اللَّهَ کے راستہ میں نکل کر ہزار آیتیں تلاوت کرلے، اللَّهَ اُس کو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی فہرست میں لکھ دیتے ہیں.... تین قسمیں ہیں محنت کرنے والوں کی؛ اگر حرمین میں بیٹھ کر بھی تلاوت کروگے تو ایک قسم کی لائن کا اجر ملے گا؛ جو صالحین ہیں.. لیکن اللَّهَ کے راستے میں نکل کر تلاوت کرنے پر تو انبیاء، صدیقین، شہداء، ان تینوں قسم کے لوگوں میں نام لکھا جائے گا ...... اگر انفرادی اعمال کررہا ہے تو صالحین کی لائن کا عادی ہے، اور نقل وحرکت کے ساتھ عمل کررہا ہے تو انبیاء، صدیقین، شہداء کی لائن کا فرد ہے .... اس لئے حضرت رحمہ اللہ فرماتے تھے؛ جس شہر میں بھی انبیاء، صدیقین، شہداء، والی محنت ہوگی، وہ شہر صالحین والا شہر بنے گا ... کیونکہ صالحین کی لائن کی محنت سے انبیاء، صدیقین، شہداء، نہ بنیں گے؛ لیکن انبیاء، صدیقین ،شہداء والی محنت سے صالحین بنیں گے. اس لئے اعمال کا تعدیہ نقل وحرکت میں ہے ... اس لئے خروج کے زمانہ کے اعمال مقام پر رہ کر کرنے سے زیادہ افضل ہیں، "وفضّل الله المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (نساء / ۹۵)".... نقل وحرکت کے ساتھ عمل کرنے والوں کا درجہ بیٹھ کر کرنے والوں سے بہت اُونچا ہے، خروج کے اعمال متعدّی ہونے کی وجہ سے افضل ہیں ... جو آدمی اپنی ذات سے کوئی ایک نیکی کرے گا اُس کو شخصی اجر ملے گا، جو دعوت ساتھ عمل کرے 
------------------------------------------------------------------
پوری زندگی کام کیا آخر میں دوسرے کے حوالے کیا کام کو تاکہ اخلاص کی جانچ ہو٬ حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کا آخر وقت جنگ معزولی کی کہ امیر بن کر زندگی گزارا اب معمور بن کر کیا کرتا ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ تقرری میں ترقی ہے. صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے دور میں صحابہ معزولی میں ترقی سمجھتے تھے٬ معزولی میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے امتحان میں کامیاب ہوگئے٬ اگر معزولی کے بعد وہی محنت رہی جیسے امیر بن کر کام کرتے تھے٬ اگر معزولی ہوکر کام چھوڑ دے تو مخلص نہیں ہیں٬ یعنی عہدوں کی وجہ سے کام کررہے تھے امتحان میں فیل ہوجائے تو جہاں تھا وہاں بھی نہیں رہتا-
------------------------------------------------------------------
لوگ کہتے ہیں کہ اللہ توفیق دے گا تو نکل جائیں گے، توفیق کسے کہتے ہیں اسباب خیر کا مہیا ہونا، ایک آدمی اندها ہے اس کو قرآن دیکھ کر پڑهنے کی توفیق نہیں ہے کیوں کہ وہ آنکھوں سے نابینا ہے، ایک آدمی کی ٹانگیں کٹی ہوئی ہے اس کو قیام کی نماز میں توفیق نہیں ہے کیوں کہ اس کے پاس ٹانگیں نہیں ہیں، ایک آدمی گونگا ہے اس کو بولنے کی توفیق نہیں ہے کیوں کہ اللہ نے اس کو زبان نہیں دی ہے، اللہ نے ہاتھ پیر دئے ہوئے ہیں سارے اعضاء سلامت ہیں پهر یہ کہنا کہ اللہ نے توفیق نہیں دی یہ سب سے بڑا جهوٹا ہے، جو اعضاء سلامت ہوتے ہوئے یہ کہرہا ہے کہ توفیق نہیں ہوسکی، توفیق اس کو نہیں کہتے عمل کی صلاحیت ہے پهر عمل نہیں کرتا نہیں توفیق اس کو ملی ہوئی ہے، توفیق اس کو نہیں ملی ہوئی ہے قیام کی جس کے پاس ٹانگیں نہیں ہے، توفیق اس کو نہیں ملی ہوئی ہے قرآن کو دیکھ کر پڑهنے کی جس کی آنکھیں نہیں ہیں، توفیق اس کو نہیں ملی ہے بولنے کی جس کے پاس زبان نہیں ہے، پهر کیا کہتے ہیں لوگ جب اللہ توفیق دے گا تو نکل جائیں گے، اللہ نے توفیق دی ہوئی ہے توفیق اس کو کہتے ہیں کہ اس کے اعضاء سلامات ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کو وسعت اور فرصت دی ہوئی ہے یہی توفیق ہے، اللہ کی طرف سے وسعت اور فرصت اور اعضاء کی سلامتی کا ملنا یہی توفیق ہے اس لئے اللہ کے سامنے اپنا عذر پیش نہیں کرسکتا کیوں کہ اللہ اس کو توفیق دی ہوئی ہے ہاں جو معذور ہے اس کو توفیق نہیں ہے. اس کا عذر اللہ کے یہاں قبول ہے.
------------------------------------------------------------------
معلومات میں اضافے کا نام علم نہیں. علم تو نام ہے یقین، عمل اور اخلاص کا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپس میں مقابلہ معلومات میں نہیں بلکہ یقین، عمل اور اخلاص پر تھا.
------------------------------------------------------------------
اس راستے کے اندر صبر ایسا ہے جیسا گاڑی کے اندر تیل٬ جب گاڑی کے اندر  تیل ختم ہوجائے گا تو گاڑی آگے نہیں چلے گی. اسی طرح کام میں جب صبر ختم ہوجائے گا تو کام کا سفر بھی ختم ہوجائے گا. 10 سال ۔۔۔ 20 سال ۔۔۔ 50 سال ۔۔۔۔ 50 سال کام میں چلنے کے بعد بھی اگر صبر ختم ہوا تو اس راستے کا سفر بھی ختم ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ حضرت مولانا الیاس رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس کام میں استقامت کا تعلق مدت سے نہیں ہے کہ بہت زمانے سے اس کام میں لگا ہوا ہو٬ اس کام میں استقامت کا تعلق تو موت سے ہے کہ اسی صبر کے ساتھ اجتماعیت کے ساتھ کام کرتے کرتے موت ہوجائے.
------------------------------------------------------------------
جنگل میں بکریاں چرارہا چرواہا؛ بھیڑیے نے بکریوں پر حملہ کیا، چرواہے نے بکری کو چھوڑادیا، بھیڑے نے کہا: ﷲ نے جو رزق دیا تھا آپ نے چھین لیا، تعجب کی بات ہے.....
تعجب کی بات ہے! ایک بھیڑیا انسانی زبان میں بات کررہا ہے؛ بھیڑیے نے کہا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے! مجھے تعجب اس پر ہے کہ مسجد نبوی میں حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم انبیاء کے واقعات سنارہے ہیں، تم یہاں جنگل میں پھررہے ہو .......
وہاں سے چرواہا ساری بکریوں کو لے کر مدینہ پہنچا، آپ صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم اتنے میں حاضر ہوئے، سارا واقعہ سنایا؛ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کیا؛ سب جمع ہوگئے.
سب جمع ہوگئے. دیہاتی چرواہے سے کہا کہ تم اس واقعہ کو سناؤ کہ تمہیں بھیڑئیے نے کس طرح یہاں بھیجا ہے....
اصل بات یہ تھی کہ دعوت دے کر عمل کے ماحول میں لایا جائے؛ اس لئے کہ تربیت عمل کے ماحول میں ہوگی...
کام میں بجائے اپنی رائے اور تجربات کو داخل کرنے کے ہر کام کرنے والے کہ ذمہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے کام کو دیکھے.
جو کچھ کہا جائے اُس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت میں تلاش کرو، اس لئے علم کے ساتھ ساتھ ذکر کا بھی خوب اہتمام کیا جائے.....
------------------------------------------------------------------
اگر یقین ڈول اور رسسی پر ہے تو اللہ تعالیٰ ڈول اور رسسی کا محتاج بنائیں گے. اور یقین اللہ کی قدرت پر ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے پلائیں گے.
-----------------
مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ذکر کے بغیر علم ظلمت ہی ظلمت ہے اور علم کے بغیر ذکر؛ کہ شیطان جاہل صوفیا کو استعمال کرتا ہے اُمت کو گمراہ کرنے کے لئے،
اس لئے علم اور ذکر کا خلاصہ یہ ہے کہ اللَّهَ کی اطاعت اللَّهَ کے دھیان کے ساتھ، اس لئے ذکر کا خوب اہتمام کیا جائے ...... یہ بات تو دنیاوی کام میں مشغول رہنے والے کے لئے بھی ممکن نہیں کہ وہ یہ کہہ کہ مجھے ذکر کا وقت نہیں ملتا تو پھر مجھ پر اللَّهَ نے جو ذمہ داری رکھی ہے اور دعوت کا بوجھ رکھا ہے وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ذکر کا وقت نہیں ملتا .... حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم رات کو تاخیر سے عشاء کی نماز کے بعد انصار کے محلے میں جاتے تھے اور یہ آپ کا روزانہ کا معمول تھا؛ ایک دن تاخیر ہوئی جانے میں .... انصار نے عرض کیا: آج آنے میں دیر کردی! کیا وجہ ہوئی؟ آپ صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا جیتنا روزانہ کا پڑھنے کا معمول ہے وہ ذکر کا تلاوت کا معمول باقی رہے گیا تھا .. میرا دل نہ چاہا کہ میں اپنا معمول چھوڑکر آؤں.... ایک صحابی (رضی اللہُ عنہ) نے آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کے سفر میں آپ کے خیمے میں آنے کی اجازت چاہی، اجازت نہ ملی، پھر بلایا، بلاکر فرمایا کہ میں اپنا معمول پورا کرنے میں مشغول تھا، اس لئے میں نے تمہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی .... معمولات کا اہتمام کروگے، تو کام اللَّهَ کے تعلق سے کروگے اور اگر یہ معمولات کا اہتمام نہیں ہے تو اللَّهَ کا کام کررہے ہوگے اور اللَّهَ سے غیر متعلق ہوکر.. اس لئے ذکر کا بہت اہتمام کیا کرو، ذکر میں اللَّهَ کا دھیان جمانے کی کوشش کیا کرو؛ مولانا الیاس صاحب رحمۂ اللہ علیہ فرماتے تھے اللَّهَ کے دھیان کے بغیر ذکر کرنے سے سستی غفلت پیدا ہوتی ہے ... حالانکہ دنیا کا معمولی کام بھی ایسا نہیں جسے کوئی کرتا ہو، اُس کام میں اپنے مالک سے غیر متعلق ہوکر؛کسی بھی لائن کا مزدور بڑا یا چھوٹا، تمام کے تمام اپنے مالک سے متعلق ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللَّهَ کا کام کریں اللَّهَ کے تعلق کے بغیر .... کسی بھی چیز کو ذکر پر ترجیح نہ دو؛ بلکہ ذکرکا اہتمام کرو کیونکہ داعی جو ہوتا ہے وہ اللَّهَ کے بندوں کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے .... جتنا تعلق کام کرنے والوں کا اللَّهَ کی ذات کے ساتھ ہوگا، اتنا ہی اللَّهَ کے بندوں کو اللَّهَ سے متعلق کرسکیں گے...
---------------------------------------------------------
ایک ہے دین کا معلومات میں ہونا اور ایک ہے دین کا یقین میں ہونا. آج دین امت کے معلومات میں ہے لیکن یقین میں نہیں ہے. اسباب کے یقین نے دین کے یقین کو دل میں داخل ہونے نہیں دیا. اس لیے دین کی معلومات ہونے کے باوجود بھی امت دین پر عمل نہیں کرتی. عمل کی بنیاد معلومات نہیں بلکہ یقین ہے. جس چیز کا یقین ہوگا اس لائن کی قربانی دینا آسان ہوگا. اسباب کے یقین کی وجہ سے لوگ اسباب حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتے ہے. مثلاً: تاجر دکان میں بیٹھ کر کھانا، پینا بھی بھول جاتا ہے. حدیث کا مفہوم ہے: "دین آسان ہے."
لکین دین ان کے لیے آسان ہے جن کا یقین ہوگا کی دین اللہ سے دنیا اور آخرت میں میں اپنی ضرورت پوری کروانے کا ذریعہ ہے اسباب نہیں ہے. اور جن کا یقین یہ ہوگا کے اسباب اللہ سے اپنی ضرورت پوری کروانے کا ذریعہ ہے ان کے لیے اسباب کے مقابلے دین پر عمل کرنا بہت بڑا بوجھ ہے. مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: "امت کو دین کی محنت یعنی ایمان کی محنت پر ڈالے بغیر امت کو صرف دین سکھانا خود کو ظالم اور امت کو مظلوم بنانا ہے. کیونکہ بغیر یقین کے دین پر اللہ کے وعدے پورے نہیں ھوں گے پھر امت دین کو بوج سمجھ کر چھوڑ دے گی. دین کا یقین جب دل سے نکل جاے گا تو لوگ دین کو ایک رسم اور اسباب کو اللہ سے نفع اٹھانے کے لیے سمجھنے لگیں گے.
جب دین کا یقین دل میں آے گا تو پھر اعمال میں لطف آے گا جس طرح تاجر کو اپنی دکان کے تقاضے پرے کرنے میں لطف آتا ہے.
---------------------------------
اکرام تو اصل اجنبیوں کے ساتھ نکلنے میں ہے؛ اگر پُرانے نئے لوگوں کو لے کر نکلیں تو پُرانوں کی ترقی ہوگی؛ اور نئے لوگوں کی تربیت ہوگی؛ اور یہی تشکیل کا مسنون طریقہ ہے.... وائل ابن حجر کو حوالہ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے؛ جبکہ وائل ابن حجر شہزادے تھے، اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) انتہائی سعلوک اور فقیر آدمی تھے؛ پہنے کے لئے جوتے بھی نہیں تھے اُن کے پاس اتنے فقیر! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشکیل کی ان دونوں کی...... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشکیل کی حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ؛ کہا کھلانا پلانا اور دین سیکھانا تمہارے ذمہ ہے، یہ لے کر چلے تو اُنہوں نے اپنے نخرے دکھلائے، وہ شہزادے، ........ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا؛ بھئی! میرے پیر جل رہے ہیں دھوپ سے، اپنے ساتھ سوار کرلو، کہا بھئی! نہیں یہ تو مناسب نہیں ہے، کہ ایک فقیر، بادشاہ کے ساتھ بیٹھے، اچھا تو اپنے جوتے دے دو، کہا کہ بھئی یہ بھی مناسب نہیں ہے، لوگ کہیں گے کہ ہے تو فقیر اور پہن رکھے ہیں جوتے بادشاہ کہ، مناسب نہیں......  جب بہت پیر جلے، حضرت معاویہؓ نے صبر کیا کہ بےچارہ نیا آدمی ہے؛ ہمیں ذمہ دار بنادیا جائے تو ہم چاہیں گے کہ جماعت ہمارا اکرم کرے، وہاں حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو امیر بنایا گیا ان کو پہننے کے لئے جوتے بھی نہیں دیے.... اللَّهَ کی شان؛ زمانہ بدلا؛ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) ہوگئے امیرالمومنین؛ جن کے پاس جوتے نہیں تھے اُنہیں تخت مل گیا امارت کا، اب یہ آے، آکے اجازت چاہی؛ امیرالمومنین! کیا میں اندر آسکتا ہوں ..... امیرالمومنین کیا میں اندر آسکتا ہوں؛ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا؛اے وائل پہلے یہ بتاؤ، میرا تخت بہتر ہے یا تمہارا گھوڑا بہتر تھا؛ تو حضرت وائل ابن حجر (رضی اللہ عنہ) معذرت کرنے لگے کہ امیرالمومنین؛ معاف کردیجے، ہم شاہی ماحول سے آئے تھے؛ ہم نے آپ کے مقام کو نہیں پہچانا ....... حضرت فرماتے تھے؛ اس اختلاط سے حضرت معاویہؓ کوتو ترقی ہوگی، حضرت وائل ابن حجر کی تربیت ہوگی. کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ نکلیں، یہ اختلاط بہت ضروری ہے، اسی میں اکرام کا مجاہدہ ہے،چونکہ مزاج کی مخالفت سے اکرام کا مجاہدہ بڑھتا ہے. مزاح کی مخالفت؛ مختلف مزاج کے لوگ ہیں....
--------------
سارے کام اللہ کی رضا کے لئے ہوں؛ ادنیٰ ریاء بھی شرک ہے؛ اور مخلصین کو ہی استقامت ہوگی..
ایک شخص نے حضرت سے پوچھا حضرت استقامت کیا ہے؛ حضرت نے فرمایا:بس استقامت یہ ہے کہ تم کام کرتے کرتے کام میں مرجاؤ...
جس طرح اطاعت کی بنیاد پر مرنا اسلام ہے؛ ولا تموتن الاوانتم مسلمون؛ بالکل اسی طرح کام کرتے ہوئے دنیا سے جانا یہ استقامت ہے..
ایک تو ہے اخلاص؛ کہ اللہ کے لئے کریں! اس لئے مخلصین کو ملامت کی پروا نہیں ہوتی؛ کیونکہ مخلصین وہ ہوتے ہیں کہ جو تعریف سے خوش نہیں ہوتے اور تنقید سے ناراض نہیں ہوتے.....
جو تعریف سے خوش ہوجائیں اور تنقید سے ناراض ہوجائیں وہ مخلص نہیں ہوتے...
اس لئے یہ بات ذہن رہے کہ؛ بعض مرتبہ دُشمن تنقید کردیتا ہے اور دوست تعریف کردیتا ہے؛ حالانکہ اُصولی بات یہ ہے کہ دشمن کی تنقید کا اور دوست کی تعریف کا کوئی اعتبار نہیں ہے ...
اس لئے دُشمن کی تنقید سے کبھی پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ فلاں نے مجھے یوں کہہ دیا؛ دُشمن تنقید کرے تو متاثر نہیں ہونا چاہئے اور دوست تعریف کرے تو بھی متاثر نہیں ہونا چاہئے....
ہاں اگر دوست تنقید کرے اور دُشمن تعریف کرے تو واقعی دونوں سچے ہیں، کیونکہ دوست ہوکر تنقید کررہا ہے اور دُشمن ہوکر تعریف کررہا ہے ...
از: حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم
(تدوین: ایس اے ساگر)


Wednesday 30 October 2019

بوسیدہ قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا؟

بوسیدہ قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا؟

سوال ]۷۷۶۸[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ بہت پرانا قبرستان جس کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی جگہ ایسی نہ ہوگی جس میں کوئی قبر نہ ہو اس کے ایک حصہ میں مسجد تعمیر کرلی گئی ہے، کیا اس مسجد میں نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
المستفتی: ماسٹر فرقان علی برامپور سیوہارہ بجنور
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
اگر قبریں پرانی ہو چکی ہیں اور میت کے اجزاء کے مٹی بن جانے کا غلبۂ ظن ہو تو اس کو برابر کرکے مسجد بنا کر نماز ادا کی جائے تو بلاکراہت نماز درست ہوجائے گی، چنانچہ مسجد نبوی بھی مشرکین کی بوسیدہ قبروں پر واقع ہے۔
قال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین وفیہ خرب وفیہ نخل فأمر النبی ﷺ بقبور المشرکین فنبشت ثم بالخرب فسویت وبالنخل فقطع فصفو النخل قبلۃ المسجد۔ (بخاری شریف، الصلاۃ باب ہل تنبش قبور مشرکی الجاہلیۃ ویتخذ مکانہا مساجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/۶۱، رقم: ۴۲۴، ف: ۴۲۸)
لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أر بذٰلک بأسا (إلی قولہ) فإذا درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المسجد۔ (عمدۃ القاری، الصلاۃ، باب ہل تنبش قبور مشرکی الجاہلیۃ و تیخذ مکانہا مساجد، دار إحیاء التراث العربی ۴/۱۷۹، زکریا ۳/۴۳۵، رقم: ۴۲۸)
فقط واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۴؍ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۲۶/۲۱۴۹)
--------
پرانے قبرستان پر مسجد بنانا:
اگر وقف قبرستان میں لوگوں نے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیا ہو اور سابقہ قبروں کے نشانات مٹ گئے ہوں تو وہاں مسجد بنانا جائز ہے، اسی طرح اگر قبرستان کسی کی ملکیت ہو اور اس میں قبریں مٹ چکی ہوں تو مالک کی اجازت سے وہاں مسجد بنانا جائز ہے۔ (۲)
------------------------------
۲- إمداد المفتین: ۷۸۲ ، أحسن الفتاویٰ : ۶/۴۰۹
-------
سوال یہ ہے کہ کیا قبر کے اوپر مسجد بنانا جائز ہے؟ 
(۲) ایک عالم نے جمعہ کے دن بیان میں کہا تھا کہ زکاة کے پیسے مدرسہ میں نہیں چلیں گے۔ کیا اس کا کہنا صحیح ہے؟ 
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
اگر قبر پرانی ہو کہ میت کی ہڈی وغیرہ بوسیدہ ہوکر خاک میں مل گئی ہو تو اس پر مسجد بنانا جائز ہے کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ مالک زمین کی اجازت ہو یا وقف قبرستان ہو اور تدفین وہاں بند ہوگئی ہو، تدفین کے لیے ضرورت باقی نہ ہو۔ عینی شرح بخاری میں ہے: قال ابن القاسم لو أن مقبرةً من مقابر المسلمین عفت فبنی فیہا مسجدًا لم أر بذلک بأسا، امداد الفتاوی: ۲/۶۰۰۔ میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے۔
(۲) نہیں چلیں گے سے کیا مراد ہے؟ مدرسہ میں غریب طلبہ جن کے کھانے رہنے کا انتظام منجانب مدرسہ ہوتا ہو رہتے ہیں یا نہیں؟ وضاحت لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_30.html



ای کوڈ کی شرعی حیثیت Ruling on using foods which contain pork-derived substances and how to deal with them

ای کوڈ کی شرعی حیثیت
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ای کوڈ کے متعینہ نمبرات مثلاً E 471 وغیرہ کے پروڈکٹ میں سور کی چربی ملے ہونے کی باتیں کہی جارہی ہیں، ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں اسی کوڈ کے متعلق مذکورہ باتیں انٹرنیٹ کے حوالے سے بیان کی گئیں ہیں، ویڈیو بھی ارسال کی جارہی ہے، آپ سے درخواست ہے کہ شریعت مطھرہ کی روشنی میں اس کا حکم بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی ، ریحان احمد، مالیگاؤں)
الجواب وباللہ التوفيق : 
ارسال کردہ ویڈیو میں اور بعض افراد کی طرف سے ای کوڈ والے پروڈکٹس میں سور کی چربی شامل ہونے کی باتیں کہی جارہی ہیں، جبکہ یہ پروڈکٹس آج کل کثرت سے لوگوں کے استعمال میں ہیں اور بلا شبہ کروڑوں مسلمان بھی روز مرہ کی زندگی میں ان چیزوں کے عادی ہوچکے ہیں، اس لئے ان چیزوں کی حرمت کے بارے میں فتوی دیتے وقت نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، کسی انجان اور غیرعالم شخص کی ویڈیو سے یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی کہ جو تحقیق اس ویڈیو میں بیان کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے،  بلکہ ایسی چیزیں خود ہی قابلِ تحقیق ہیں اور اگر بالفرض اس ویڈیو میں بیان کی گئی تحقیق کو درست مان بھی لیا جائے، تو یہ امر قابلِ تحقیق رہ جاتا ہے کہ آیا وہ ناپاک اجزاء ان اشیاء میں مل کر اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں یا کیمیکلوں کے ذریعہ ان کی ماہیت تبدیل کر دی گئی ہے، اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان کی ماہیت بدل چکی ہے، تو ایسی اشیاء کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہ ہوگا جیسا کہ شراب کا شیرہ اگر سرکہ میں تبدیل ہوجائے، تو سرکہ کا استعمال درست ہوتا ہے، اسی طرح فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر ناپاک تیل سے صابون بنایا جائے، تو اس صابون کا استعمال درست ہے، کیونکہ ماہیت بدل جاتی ہے، اس لئے جب تک مذکورہ اشیاء میں ماہیت کی تبدیلی یا عدم تبدیلی کے متعلق مکمل تحقیق سامنے نہ آجائے، اس وقت تک مذکورہ اشیاء کو حلال ہی کہا جائے گا، ان کی حرمت کا فتوی نہیں دیاجاسکتا ۔ (مستفاد : کفایت المفتی ۲؍۲۷۷ تا ۲۸۴، ایضاح المسالک ۱۴۲، فتاوی قاسمیہ ٢٤/١٠١)
الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي ۵۹)
من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فہو طاہر مالم یستیقن، وکذا الآبار، والحیاض، والحباب الموضوعۃ في الطرقات، ویستقي منہا الصغار، والکبار، والمسلمون، والکفار، وکذا ما یتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱)
إن النجاسۃ لما استحالت وتبدلت أوصافہا، ومعانیہا خرجت عن کونہا نجاسۃ؛ لأنہا اسم لذات موصوفۃ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر إذا تخللت۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، الدباغۃ، زکریا ۱/۲۴۳، کراچي۱/۸۵)
ثم اعلم أن العلۃ عند محمدؒ ہي التغیر وانقلاب الحقیقۃ، وإنہ یفتیٰ بہ للبلویٰ کما علم مما مرَّ، ومقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون فیدخل فیہ کل ما کان فیہ تغیر وانقلاب حقیقۃ، وکان فیہ بلویٰ عامۃ۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، زکریا۱/۵۱۹، کراچي۱/۳۱۶)
----------------------------------------------------------------------------
ای کوڈ (E Code) کی شرعی حیثیت
ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا شرعی حکم
آج کل بازار میں بکثرت ایسی چیزیں فروخت ہورہی ہیں، جن کے بارے میں مشہور کردیاگیا ہے کہ ان میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ ہے، جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں کہ آیا ایسی چیزوں کا استعمال شرعاً جائز ہے یا نہیں، اگر ناجائز ہے تو پھراس سے بچنے کی کیا شکل اور کیا تدبیر ہے، خاص کر ایسے وقت میں جب کہ ایسی چیزیں دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہیں اور ہر جگہ دستیاب ہیں اور لوگ ان کے استعمال کے عادی ہوگئے ہیں، تو پھر ان سے کیونکر بچا جاسکتا ہے۔
یہ وہ سوال ہے جس کو اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خوب مشہور کیاگیا، لیکن طرفہ تماشہ اور عجوبہ ہے کہ اخبارات و رسائل اور پمفلٹ وغیرہ کے ذریعہ اسے خوب اچھالا اور پھیلایا جارہا ہے، لیکن کوئی بندئہ خدا یہ زحمت گوارا کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے کہ علماء کی طرف رجوع کرتا اور صورت حال کی وضاحت کرکے اس مسئلہ کی شرعی تحقیق معلوم کرکے پہلے اپنا اطمینان کرلیتا، پھر علماء کے مشورہ سے اسے شائع کرتا اور پھیلاتا۔
نئے درپیش مسائل اور شریعت کی تعلیم:
شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ معاشرے میں جب اس قسم کی کوئی نئی صورت پیش آئے تو آدمی پر تین باتیں فرض ہیں:
پہلا فرض: یہ کہ جو افواہ یا اڑتی ہوئی خبر پہنچی ہے، اس کی تحقیق کرکے ٹھوس ثبوت فراہم کرے، محض سنی سنائی یا کہیں سے بے تحقیق پھیلائی گئی بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینا شریعت کے بھی خلاف ہے اور عقلمندی اور شائستگی کا بھی شیوہ نہیں ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے: ﴿یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبا فَتَبَیَّنُوْا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَة فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی غیرمعتبر شخص کوئی خبر لیکر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو ایسا نہ ہوکہ تم نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو ضرر پہنچادو پھر اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے) یہاں صورت حال یہ ہے کہ یہ معاملہ اب تک پایہٴ ثبوت تک نہیں پہنچا، خود اخبارات و رسائل میں شائع کرنے والوں کو اس کا پتہ نہیں، کہ یہ ملاوٹ کہاں اور کن کمپنیوں میں ہورہی ہے، اور کس نے اس کی تحقیق کی ہے، حتی کہ اخبارات میں اس قسم کے مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ماحول میں بے چینی پیدا ہوئی تو شہر کے بعض ذمہ دار علماء نے ماہرین سے رجوع کرکے اس سلسلہ میں تحقیق کی تو انھوں نے دوباتوں کی وضاحت کی، ایک یہ کہ ملک میں کسی کمپنی میں یہ ملاوٹ ہرگز نہیں ہورہی ہے، دوسرے یہ کہ بیرونی ملکوں میں بھی یا بیرونی کمپنیوں کی طرف بھی یہ انتساب بلاسند و ثبوت ہے، جس کی ہمیں تحقیق نہیں۔
دوسرا فرض: شریعت کی دوسری تعلیم یہ ہے کہ ایسے درپیش مسائل میں علماء سے استصواب کئے بغیر اپنی طرف سے مسئلہ بتانا اور پھر اسے لوگوں میں پھیلاکر خواہ مخواہ ماحول میں تشویش اور بے چینی پھیلانا ناجائز ہے، قرآن مجید کا حکم ہے ﴿فَاسْئَلُوْا أَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (ترجمہ: تم اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے) (سورة النحل:۴۳)
دوسری آیت ﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلی الرَّسُوْلِ وَاِلی أُولِي الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہُمْ﴾ (ترجمہ: اوراگر اسی خبر کو پہنچادیتے رسول اللہ … کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو ان میں سے فہم رکھنے والے ہیں، تو ان میں جو ایسے حضرات ہیں جو اس سے استخراج کرلیتے ہیں، وہ اس کو جان لیتے ہیں) (سورة النساء:۸۳)
          تیسرا فرض: اسلام کی تیسری تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کے سامنے جب شرعی حکم واضح ہوجائے تو اپنی رائے اور عندیہ کو کالعدم سمجھتے ہوئے شرعی حکم کو برضا ورغبت اور بے چوں و چرا تسلیم کرلے ﴿ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (ترجمہ: پھر اپنے دلوں میں کسی بھی طرح کی تنگی محسوس نہ کریں اور پورا پورا تسلیم کرلیں) (سورة النساء: ۶۵) بہرحال مذکورہ صورت حال کو جب خوب مشتہرکیا گیا تو اس کی وجہ سے فضا میں بے چینی اور خلجان پیدا ہونا اور ماحول میں تشویش پھیلنا ایک فطری بات ہے، لہٰذا اس تشویش کو ختم کرنے اور صورت حال کو سمجھنے کی اور اس کے شرعی حکم کی تحقیق کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی تھی، اسی احساس کا نتیجہ یہ ایک بے ربط اور مختصر سا مضمون ہے۔
مذکورہ اشیاء کی چار صورتیں ہیں:
ملاوٹ کی پہلی صورت:
(۱) یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہو کہ اس میں خنزیر کی چربی ملی ہوئی ہے اور پھر اسے پاک کرنے کے باوجود چربی کے آثار یا اوصاف یا شکل و صورت اور مزے کا شائبہ باقی ہو۔
اس صورت کا حکم بالکل واضح ہے کہ خنزیر بہ جمیع اجزاء ناپاک اور حرام ہے، اس لئے اسے پاک کرنے کی خواہ جتنی شکلوں کو استعمال کیا جائے یا جتنے مراحل سے اسے گذارا جائے، اگر چربی اپنی شکل اور اوصاف کے ساتھ رہ جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے حرام اور ناپاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس لئے کہ کسی چیز کو پاک کرنے اور دھونے یا اس طرح فلٹر کرنے سے کہ اس کے اوصاف اور حقیقت باقی رہ جائے، ماہیت میں کوئی تبدیلی نہ آئے، حکم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی وہ ناپاک چربی ہی ہے اور حرام ہے، مثال کے طورپر منتخبات نظام الفتاویٰ میں درج ہے۔
مفتی نظام الدین صاحب کا فتویٰ
(سوال) بعض مقامات پر پیشاب کو پکاکر اس کی شوریت کو نکال کر نمک بنادیا جاتا ہے، شرعی نقطئہ نظر سے اس کا استعمال درست ہے یا نہیں:
(جواب) پیشاب شوریت وغیرشوریت بہ جمیع اجزاء نجس لعینہ اور غیرمباح الشرب والاکل ہے، اس لئے شوریت نکال دینے کے بعد بھی بقیہ اجزاء ناپاک و نجس ہی باقی رہیں گے اور ان کا استعمال ناجائز ہی رہے گا۔
مولانا خالد سیف اللہ صاحب کا فتویٰ:
جدید فقہی مسائل میں (ص:۳۹) مولانا خالد سیف اللہ رقم فرماتے ہیں: پیشاب فلٹر کرنے کی وجہ سے غالباً اپنی حقیقت نہیں کھوتا، بلکہ محض اس کے بدبودار اجزاء نکال لئے جاتے ہیں، اس لئے وہ ناپاک ہی رہیں گے، ان کا پینا وضو غسل وغیرہ کیلئے استعمال کرنا جائز نہ ہوگا اور وہ جسم کے جس حصہ پر لگایا جائے، اسے ناپاک ہی سمجھا جائے گا، مذکورہ عبارتوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکل آتا ہے کہ مذکورہ اشیاء میں اگر خنزیر یا دیگر حرام گوشت کی چربی کی آمیزش واضح ہوتو پھر اسے جتنا بھی فلٹر اور صاف کیا جائے نجس اورحرام ہی رہے گا۔
ملاوٹ کی دوسری شکل:
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ خنزیر یا کسی حرام چربی کی آمیزش اور ملاوٹ تو ثابت ہو، لیکن اسے اس طرح مختلف مراحل سے گذارا جائے کہ اب یہ نہ چربی معلوم ہوتی ہے، نہ اس کا مزہ، نہ اس کی شکل وصورت، بلکہ اس کی حقیقت، رنگ و روپ، سب بدل جائے اور وہ کچھ اور ہی نظر آئے تو اس کے بارے میں تقریباً تمام فقہاء کا یہی مذہب ہے کہ اس پر حکم لگاتے ہوئے موجودہ صورت کو دیکھا جائیگا، سابقہ صورت پر ہرگز حکم نہیں لگایا جائیگا۔ اسے فقہاء کی اصطلاح میں انقلاب ماہیت اور انقلاب عین اور استحالہ کہتے ہیں، کہ ایک چیز اپنی حقیقت کھودے اور دوسری حقیقت اپنالے۔ بظاہر یہ تعجب خیز بات ہے کہ ایک چیز کے بارے میں اس کی سابقہ حقیقت کے معلوم ہوتے ہوئے کہ وہ ناپاک اورنجس تھی اوراسے صرف نظر کرتے ہوئے موجودہ صورت کو دیکھتے ہوئے اس پر طاہر اور پاک ہونے کا حکم لگایا جائے، بظاہر نفاست مزاج اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہاء کی یہ تحقیق کائنات کے فطری اصول اور غامض حکمتوں اور مصلحتوں پر اور انسانوں کی سہولت اور خیرخواہی پر مبنی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا دارالانقلاب ہے، یہاں کی کوئی چیز ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہتی مشہور اور مسلم جزئیہ ہے کہ ”العالم متغیر“ دنیا کی ہر چیز تغیرپذیر ہے، ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف بدلتی رہتی ہے، شاعر مشرق فرماتے ہیں: 
”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں“              
اس لیے پاک چیز جب ناپاک ہوجاتی ہے“
مثلاً پاک صاف اور شفاف پانی اور شربت پیشاب بن جاتا ہے اور بہترین خوشبودار اور لذیذ اور مزیدار کھانا فضلہ اور نجاست بن جاتا ہے، تو کون عقلمندگوارا کرے گا کہ پیشاب پاخانہ کو محض اس لئے پاک صاف کہہ دے کہ یہ بہترین شربت اور مزیدار کھانا تھا، اسی طرح بسا اوقات ناپاک چیز بدلتے بدلتے پاک صاف حالت اختیار کرلیتی ہے۔
ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی وضاحت:
علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس پر بڑی تفصیل سے بحث فرمائی ہے کہ زمین پر پیشاب، پاخانہ، لید وغیرہ نجاستیں پڑتی رہتی ہیں اور زمین ناپاک ہوجاتی ہے، لیکن دھوپ اورہوا اور دوسری چیزیں ان نجاستوں کو مٹاکر پھر خالص مٹی بنادیتی ہیں تو اس پر نماز پڑھنا سب جائز ہوجاتا ہے، کیونکہ نجاست کی حقیقت اب مٹ گئی اور اب وہاں صرف مٹی رہ گئی ہے (وأما طین الشوارع فمبني علی أصل وہو أن الارض اذا أصابتہا نجاسة ثم ذہبت بالریح أو الشمس أو نحو ذلک ہل تطہر الأرض علی قولین أحدہما أنہا تطہر وہو مذہب أبي حنفیة وغیرہ وأما استحالة النجاسة کرماد السرجین النجس والزبل النجس یستحیل تراباً ففي ہذہ المسئلة قولان أحدہما أن ذلک طاہر وہو قول أبي حنفیة وأہل الظاہر وہو الصحیح الراجح)
اسی طرح ندیوں اور سمندروں میں ہزاروں آدمیوں اور جانوروں کی غلاظتیں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں، لیکن پانی میں مل کر اپنی حقیقت کھودیتی ہیں اور خالص پانی بن جاتی ہیں، رنگ بو مزہ کچھ بھی نہیں رہتا تو ہر آدمی بے جھجک ایسے پانی کا استعمال کرتا اور کسی طرح کی قباحت یا کراہت محسوس نہیں کرتا، اسی طرح فرماتے ہیں:
”وتنازعوا فیما اذا صارت النجاسة ملحا في الملاحة أو صارت رماداً أوصارت المیتة والدم والصدید تراباً کتراب المقبرة فہذا فیہ قولان في مذہب مالک وأحمد․ أحدہما أن ذلک طاہر کمذہب أبي حنیفة وأہل الظاہر․ والثانی أنہ نجس کمذہب الشافعی․
والصواب أن ذلک کلہ طاہر اذا لم یبق شیء من أثر النجاسة لا طعمہا ولا ریحہا ولا لونہا لأن اللّٰہ أباح الطیبات وحرم الخبائث وذلک یتبع صفات الأعیان وحقائقہا فاذا کانت العین ملحاً أو خلا دخلت في الطیبات التی أباحہا اللّٰہ تعالیٰ ولم تدخل في الخبائث التی حرمہا اللّٰہ وکذلک التراب والرماد وغیر ذلک لایدخل فی نصوص التحریم واذا لم یتناولہا أدلة التحریم لا لفظا ولا معنی لم یجز القول بتنجسہ وتحریمہ فیکون طاہرًا“ (ص:۴۸۱-۴۸۲)
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ جب نجاست نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا جل کر راکھ ہوجائے یا یہ کہ مردہ اور خون پیپ وغیرہ مٹی میں مل کر مٹی بن جائے، جیسے کہ قبر کی مٹی میں ہوتا ہے تو اس صورت میں دو قول ہیں، امام مالک اور امام احمد کے قول میں ایک یہ کہ یہ سب کی سب چیزیں پاک ہوجائیں گی، یہی امام ابوحنیفہ اور اہل ظاہر کا مذہب ہے۔
دوسرا قول یہ کہ یہ سب چیزیں ناپاک ہیں، جیسے کہ امام شافعی کا ارشاد ہے، لیکن صحیح اور درست بات یہی ہے کہ یہ سب چیزیں پاک شمار ہوں گی، جب کہ ان میں سابقہ نجاست کاکوئی نشان اور اثر باقی نہ رہ جائے نہ رنگ ہو نہ بو نہ مزہ۔
جواز کی وجہ اور دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا اور پاک ہونا نہ ہونا چیز کی حقیقت اور اس کی ذات کے تابع ہوتا ہے اور یہ چیز (جو پہلے نجاست تھی) اب نمک کی حقیقت اور نمک کی ذات بن گئی، پہلے شراب تھی تو اب اس نے سرکہ کی صفت اور حقیقت کو اپنا لیا تو پاکیزہ چیزوں میں داخل ہوگئی، جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے، ان ناپاک اور گندی چیزوں میں شامل نہیں رہی، جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اسی طرح مٹی اور راکھ وغیرہ اشیاء تحریم کی نصوص میں داخل نہیں ہوتی، نہ حرام چیزوں کالفظ ان پر بولاجاتاہے نہ ان کی حقیقت ان پر صادق آتی ہے تو پھر ان کو ناپاک اور حرام قرار دینے کاکوئی معنی اورمطلب نہیں ہوتا، اس لئے لامحالہ یہ پاک اور حلال ہوں گی۔
ایک جگہ فرماتے ہیں: وذلک أن اللّٰہ حرم الخبائث التي ہي الدم والمیتة ولحم الخنزیر ونحو ذلک فاذا وقعت ہذہ في الماء أو غیرہ واستہلکت لم یبق ہناک دم ولا میتة ولا لحم خنزیر أصلاً کما أن الخمر اذا استہلکت في المائع لم یکن الشارب لہا شاربًا للخمر والخمرة اذا استحالت بنفسہا وصارت خلاً کانت طاہرة باتفاق العلماء وہذا علی قول من یقول ان النجاسة اذا استحالت طہرت أقوی کما ہو مذہب أبي حنفیة وأل الظاہر وأحد القولین في مذہب مالک وأحمد فان انقلاب النجاسة ملحا ورمادا ونحو ذلک ہو کانقلابہا ماء فلافرق بین أن تستحیل رماداً أو ملحاً أو تراباً أو ماءً أو ہواء ونحو ذلک واللّٰہ تعالیٰ قد أباح لنا الطیبات، وہذہ الأدہان والألبان والأشربة الحلوة والحامضہ وغیرہا من الطیبات والخبیثة قد استہلکت واستحالت فیہا فکیف یحرم الطیب الذی أباحہ اللّٰہ تعالیٰ، ومن الذي قال انہ اذا خالطہ الخبیث واستہلک فیہ واستحال قد حرم؟ ولیس علی ذلک دلیل لا من کتاب ولا من سنة ولا اجماع ولا قیاس․
پھر آگے فرماتے ہیں: فالحکم اذا ثبت بعلة زال بزوالہا کالخمر لما کان الموجب لتحریمہا ونجاستہا ہي شدة المطربة فاذا زالت بفعل اللّٰہ تعالیٰ طہرت․ (ص:۵۰۱-۵۰۲)
ترجمہ: (نجس چیزیں اپنی حقیقت بدلنے کے بعد پاک ہوجانے کا حکم لگانا) یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گندی چیزوں کو حرام قرار دیا، جیسے خون، مردار، سور کا گوشت وغیرہ۔ جب یہ چیزیں پانی میں یا دوسری پاک چیزوں میں مل کر اپنی شناخت ختم کردیں اور جس چیز میں ملی ہیں، اس کی حقیقت میں مل جائیں، تو اب نہ خون ہے، نہ مردار، نہ خنزیر کا گوشت، کچھ بھی نہ رہا صرف پانی یا وہ پاک چیز رہ گئی جس میں یہ ضم ہوگئی ہیں، جیسے کہ شراب جب سرکہ وغیرہ میں گرنے کے بعد سرکہ یا شربت وغیرہ بن گئی تواس کے پینے والے کو شراب پینے والا نہیں کہا جائے گا؛ بلکہ سرکہ یا شربت پینے والا ہی کہا جائے گا، یہ سب ان حضرات کے قول کے اعتبار سے ہے جو کہتے ہیں کہ نجاست جب اپنی شکل و صورت بدل دے تو پاک ہوجاتی ہے، جیسے کہ امام ابوحنیفہ اہل ظاہر اورامام مالک اور امام احمد کی ایک روایت ہے، اس لئے کہ نجاست کا نمک بن جانا یا جل کر راکھ ہوجانا، ایسے ہی ہے، جیسے یہی نجاستیں پانی میں مل کر پانی بن جائیں، پس راکھ ہونے نمک ہونے میں اور پانی یا ہوا بن جانے میں کوئی فرق نہیں۔ (سب میں استہلاک اور استحالہ ہی پایاجارہاہے)
اور یہ تیل دودھ میٹھے یا کھٹے مشروبات (جن میں مل کر نجاستیں اپنی حقیقتیں ختم کرلیتی ہیں اور تیل اور دودھ شربت وغیرہ پاک چیزوں کی شکل اپنالیتی ہیں) بلاشبہ یہ پاک چیزیں ہیں، ان کے اندر جو ناپاک چیزیں ملی تھیں وہ ختم ہوگئیں، اب صرف دودھ ہی رہ گیا تو کوئی شخص کیسے دودھ نمک اور مشروبات کو حرام کہنے کی جسارت کرسکتا ہے، جن کو اللہ نے پاک اور حلال قرار دیا ہے۔
رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ پاک چیز میں جب ناپاک کی ملاوٹ ہوجائے تو اگرچہ کہ وہ ناپاک چیز آگے اپنی شکل بدل دے اور اسی پاک چیز میں مدغم ہوجائے، تب بھی اس ناپاک کی ملاوٹ کی وجہ سے پاک چیز بھی ناجائز ہوجائے گی، یہ ایسی بودی اورناقابل التفات بات ہے، جو نہ قرآن سے، نہ حدیث سے، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس سے یا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے، اس کی کسی طرح کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں، اس لئے یہ بے بنیاد بات ہے، پھر آگے فرماتے ہیں کہ جب کوئی حکم کسی علت اور بنیاد پر مبنی اور موقوف ہوتا ہے تو جب تک وہ بنیاد ہے، اس پر حکم باقی رہے گا، جب وہ بنیاد ختم ہوجائے تو وہ حکم بھی ختم ہوجائے گا، جیساکہ شراب جب سرکہ بن جائے تو حرمت کی بنیاد شراب ہونے پر تھی جب شراب ہی نہ رہی صرف سرکہ رہ گیا تو وہ حرمت کا حکم بھی ختم ہوگیا اور وہ پاک چیز شمار ہوگئی۔
غنیة المستملی کی توضیح:
فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں میں اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے، علامہ ابن امیر الحاج غنیة المستملی شرح منیة المصلی (ص:۱۶۵) باب الآثار میں فرماتے ہیں: ولو أحرقت العذرة أو الروث فصار کل منہما رمادا أو مات الحمار فی الملحة وکذا ان وقع فیہا بعد موتہ وکذا الکلب أو الخنزیر لو وقع فیہا فصار ملحاً أو وقع الروث ونحوہ فی البئر فصار حمأة زالت النجاسة وطہر عند محمدؒ خلافا لأبی یوسفؒ فان عندہ الحرق لا یطہر العین النجسة بل یبقی الرماد نجساً لأنہ أجزاء تلک النجاسة فتبقی النجاسة من وجہ فلحقت بالنجس من کل وجہ احتیاطاً واختار صاحب الہدایة فی التجنیس قول أبي یوسفؒ وأکثر المشائخ اختاروا قول محمد وعلیہ الفتویٰ لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وقد زالت بالکلیة فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صارت الحقیقة ملحا ترتب علیہ حکم الملح وکذا الرماد حتی لو أکل الملح أو صلی علی ذلک الرماد - جاز نظیرہ : النطفة نجسة فتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر وکذا الخمر تصیر خلاً فعلم أن استحالة العین تتبع زوال الوصف المرتب علیہا وعلی قول محمد فرّعوا طہارةَ صابون صُنع من دہن نجس وعلیہ یتفرَّع ما لو وقع انسان أو کلب فی قدر الصابون فصار صابونا یکون طاہرًا لتبدل الحقیقة)
(ترجمہ: اگر نجاست کو یا گوبر کو جلایا جائے پس وہ دونوں راکھ بن جائیں یا گدھا نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا مرکر اس میں پڑجائے، اسی طرح کتا اور سور اس میں گرجائیں اور نمک بن جائیں یا گوبر یا اسی طرح کی کوئی نجس چیز کنویں میں پڑجائے اور کیچڑ بن جائے تو نجاست کا حکم ختم ہوجائے گا اور وہ پاک ہوجائے گی امام محمد کے نزدیک، برخلاف امام ابویوسف کے، کیونکہ ان کے نزدیک جلاناناپاک چیز کو پاک نہیں بناتا، بلکہ وہ راکھ ناپاک ہی رہے گی، اس لئے کہ یہ اسی نجاست کے اجزاء ہیں، تو نجاست ایک طرح سے باقی رہ جائے گی تو احتیاطا اس کے نجس ہونے کا حکم لگایا جائے گا، صاحب ہدایہ نے تجنیس میں امام ابویوسف ہی کے قول کو اپنایا ہے اوراکثر مشائخ نے امام محمد کے قول کو اختیار کیا ہے اوراسی پر فتویٰ بھی ہے، اس لئے کہ شریعت نے نجاست کے وصف پر ناپاک ہونے کا حکم لگایا تھا اور وہ وصف بالکلیہ زائل ہوچکا ہے، اور دوسری حقیقت اور دوسرا روپ اپنا چکا ہے، اس لئے کہ نمک ہڈی یا گوشت نہیں ہوتا، پس جب اس چیز کی حقیقت ہی نمک یا راکھ ہوگئی تو اس پر نمک اور راکھ کا ہی حکم لگے گا، حتی کہ اگر کوئی یہ نمک کھالے، یا اس راکھ پر نماز پڑھے تو جائز ہوجائیگا، اس کی مثال نطفہ کی سی ہے کہ نطفہ نجس ہے اور پھر وہ خون کا ڈلا بن جاتا ہے تو وہ بھی نجس ہوتا ہے اورپھر گوشت بن جاتا ہے تو پاک ہوجاتا ہے، اسی طرح شراب سرکہ بن جاتی ہے، پس معلوم ہوا کہ ایک چیز کا بدل جانا اس وصف کے چلے جانے یا ختم ہوجانے کے تابع ہوتا ہے، جس وصف پر نجاست کا حکم تھا اور امام محمد ہی کے قول پر فقہاء نے اس صابون کے پاک ہونے کا مسئلہ نکالا، جو ناپاک تیل سے بنایاگیا ہے اوراسی پر یہ صورت بھی متفرع ہوتی ہے کہ اگر انسان یا کتا صابون کی دیگ میں گرجائے، پھر صابون بن جائے تو پاک ہوجائے گا حقیقت کے بدل جانے کی وجہ سے (کہ وہاں اب کوئی آدمی یا کتا نہیں رہا صرف صابون رہ گیا ہے)
علامہ شامی نے اسی عبارت کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش فرماکر ناپاک تیل سے بنے صابون کی طہارت پر استدلال کیاہے اور یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے: فعرفنا أن استحالة العین تتبع زوال الوصف المرتب علیہا․
چیز کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے، جس صفت پر نجاست کاحکم مرتب ہوتا ہو، اس صفت کے ختم ہوجانے سے گویا اصل چیز بدل گئی اور موجودہ صورت حال کا حکم لگے گا، (فتاویٰ عالمگیری:۱/۴۴) پر مرقوم ہے: تخلل الخمر في خابیة جدیدة طہرت بالاتفاق․ آگے (۴۵) پر مرقوم ہے: الحمار أو الخنزیر اذا وقع في الملحة فصار ملحاً أو بیر بالوعة اذا صار طینا یطہر عندہما خلافا لأبی یوسف، نیز آگے ہے:
جعل الدہن النجس فی الصابون یفتی بطہارتہ لأنہ تغیر (ترجمہ: شراب نئے مٹکے میں آکر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق پاک ہے، گدھا یا سور نمک کی کان میں گرکر نمک بن جائے یا کیچڑ کے کنویں میں پڑکر کیچڑ بن جائے تو امام اعظم اورامام محمد رحمة اللہ علیہ کے نزدیک پاک ہوجائیں گے، برخلاف امام ابویوسف رحمة اللہ علیہ کے، آگے فرماتے ہیں ناپاک تیل صابون میں مل کر صابون بن جائے تو اس کے پاک ہونے کا فتویٰ دیا جائے گا، اس لئے کہ اس میں انقلاب اور تبدیلی ظاہر ہوگئی۔
اس مسئلہ کے سمجھنے کے لئے ماضی میں پیش آمدہ ایک مسئلہ سے مدد ملے گی وہ یہ کہ اسی طرح مغربی ممالک سے صابون کے بارے میں یہی افواہ مشہور ہوئی (اور اب بھی مشہور ہے) کہ وہاں صابون میں خنزیر کی چربی ملائی جاتی ہے۔
مولانا لدھیانوی کی رائے
(سوال) مردار اور حرام جانوروں کی چربی کے صابون سے طہارت ہوتی ہے اور نمازیں درست ہوتی ہیں یا نہیں؟
(جواب) ناپاک چربی کا استعمال جائز نہیں تاہم ایسے صابون کا استعمال کرنا جس میں یہ چربی ڈالی گئی ہو جائز ہے، کیونکہ صابون بن جانے کے بعد اس کی ماہیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ (ملاحظہ ہو آپ کے مسائل اوران کا حل: ۲/۷۱)
عزیز الفتاویٰ کا فتویٰ:
(سوال) صابون شحم نجس (ناپاک چربی) سے بنایاہوا پاک ہے ازروئے کتاب وجہ اس کی تبدیل ماہیت بیان کی جاتی ہے؟
(جواب) یہ تو کتب فقہ میں مصرح ہے کہ علت طہارت صابون میں تغیر انقلاب عین ہے، جس جگہ یہ علت پائی جائے گی حکم طہارت دیا جائے گا۔ (دارالعلوم دیوبند کے مفتی اوّل کے فتاویٰ، عزیز الفتاویٰ مرتبہ مفتی محمد شفیع ملاحظہ ہو: ۱/۱۹۰)
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ:
(سوال) صابون شحم نجس سے بنایا ہوا پاک ہے ازروئے کتاب وجہ اس کی تبدیل ماہیت بیان کی جاتی ہے؟
(جواب) یہ تو کتب فقہ میں تصریح ہے کہ علت طہارت صابون میں تغیر انقلاب عین ہے، جس جگہ یہ علت پائی جائے گی حکم طہارت دیا جائے گا، یوں تو ہر ایک مرکب میں خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے،اس کو انقلاب عین نہ کہا جائے گا۔ (فتاویٰ دارالعلوم:۱/۳۰۲)
پھر آگے (۱/۳۰۵) پر فرماتے ہیں:
(سوال) بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ناپاک تیل کا اگر صابون بنایا جائے تو پاک ہے؟
(جواب) یہ مسئلہ درمختار میں جس میں بایں عبارت مذکور ہے: ویطہر زیت تنجس صابونًا اور وجہ اسکی انقلاب عین (ماہیت) ہے شامی میں اس قول کے تحت مذکور ہے: وعلیہ یتفرع ما لو وقع انسان أو کلب في قدر الصابون فصار صابونا یکون طاہرا لتبدل الحقیقة․
یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ خنزیر کی حرمت دوسری حرام چیزوں کے بالمقابل اشد ہے، اس کے جواب میں فتاویٰ محمودیہ میں مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خنزیر اورمردار دونوں کے گوشت کی حرمت برابر ہے (قل لا أجد فیما أوحی الی) سے دونوں کی حرمت نص قطعی سے بلکہ ایک ہی آیت سے ثابت ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۶/۳۷۱)
حضرت مفتی نظام الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ:
(سوال) مغربی ممالک سے جو صابون آتے ہیں ان کے متعلق سننے میں آتا ہے کہ ان میں ناپاک اجزاء اور خنزیر کی چربی کا استعمال ہوتا ہے اس طرح کے صابون سے کپڑے صاف کرنا کیسا ہے اور کپڑے پاک رہیں گے یا ناپاک؟
(جواب) مغربی ممالک سے آئے ہوئے صابون میں جب تک حرام چربی یا سور کی چربی کا ملا ہوا ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت اور یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک ان کے استعمال کو ناجائز نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اصل اشیاء میں حلت اوراباحت ہے، البتہ اس کے استعمال سے ان حالات میں اجتناب کرنا تقویٰ اوراحتیاط کہا جاسکتا ہے۔ جعل الدہن النجس فی صابون یفتی بطہارتہ لانہ تغیر والتغیر یطہر عند محمد ویفتی بہ لعموم البلوی․ (نظام الفتاویٰ: ۱/۲۴)
حضرت مولانا خالد سیف اللہ کی تحقیق:
مولانا نے اس پر واضح روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک چیز ہے کسی شئے کی ماہیت اور حقیقت کو تبدیل کردینا اور دوسری اس کا تجزیہ کرنا اگر کسی چیز کی حقیقت ہی یکسربدل دی جائے تواس کے احکام بھی بدل جائیں گے اور اگر محض اس کے بعض اجزاء اسی طرح الگ کرلئے جائیں تو اس کی وجہ سے اس کے احکام نہیں بدلیں گے، مثلاً پاخانہ جلاکر راکھ کردیا جائے تو اب وہ راکھ ناپاک شمار نہ ہوگی، شراب میں نمک ڈال کر سرکہ بنادیا جائے تو اس کی حرمت اور ناپاکی ختم ہوجائے گی۔
مغربی ممالک سے جو صابون آتے ہیں ان کے بارے میں کبھی کبھی اس قسم کی اطلاعات بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ان میں ناپاک اجزاء سور کی چربی وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے، اول تو یہ یقینی اور معتبر اطلاع نہیں ہوتی محض ظن وگمان کے درجہ کی چیز ہوتی ہے اور شریعت اس قسم کے اندیشہ ہائے دراز کو پسند نہیں کرتی۔
دوسرے فقہاء نے اسکو دو وجوہ سے پاک قرار دیا ہے ایک یہ کہ ایسے ناپاک اجزاء صابون میں مل کر اپنی حقیقت کھودیتے ہیں اور کوئی ناپاک شئے جب اس حدتک بدل جائے کہ اپنی اصل حقیقت ہی کھودے تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں، مثلاً منی ناپاک ہے وہ خون بن جائے تو بھی ناپاک ہے، اس کے بعد جب گوشت بن جائے تو اب پاک ہے کہ حقیقت بدل چکی ہے، مشک ناپاک خون ہے، لیکن جب مشک بن گیا تو پاک ہے، غیرماکول اللحم جانوروں کی ہڈیاں بھی حرام ہیں، مگر جب ان کا نمک بنادیا گیا تو اب حلال ہیں۔
دوسرے اس کے استعمال کی اس قدر کثرت ہے کہ اس سے احتراز دشوار ہے، ایسی چیز کو فقہاء کی اصطلاح میں عموم بلوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے حکم میں ایک گنا نرمی پیدا ہوجاتی ہے، اس کا تقاضا بھی ہے کہ ایسے صابونوں کا استعمال جائز اور درست ہو، علامہ شامی کا بیان ہے الخ (جدید فقہی مسائل: ۱/۱۰۸-۱۱۵)                                          
-------------------------------------------------------------------------------
دوسری قسط
ای کوڈ (E. Code) کی شرعی حیثیت
ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا شرعی حکم

فقیہ العصر مولانا تقی عثمانی کی توضیح:
            الکوہل سے بنی ہوئی دواؤں کے بارے میں فرماتے ہیں: وحیث عمت البلوی فی ہذہ الأدویة فینبغي أن یوخذ فی ہذا الباب کمذہب الحنفیة أو الشافعی واللّٰہ اعلم․ ثم ہناک جہة أخری ینبغی أن یسأل عنہا خبراء الکیمیائی وہو أن ہذہ الکحول بعد ترکیبہا بأدویة أخری ہل تبقی علی حقیقتہا؟ أو تستحیل حقیقتہا وماہیتہا بعملیات کیمیاویة فان کانت ماہیتہا تستحیل بہذہ العملیات بحیث لا تبقی الکحل وانما تصیر شیئاً آخر فیظہر أن عند ذلک یجوز تناولہ باتفاق الأئمة لأن الخمر اذا صارت خلاً جاز تناولہا فی قولہم جمیعاً لاستحالة الحقیقة․
            (جب الکحل سے بنی ہوئی دواؤں کا استعمال عام ہوگیا اوراس قسم کی دوائیں تمام لوگوں کی ضرورت میں داخل ہوگئیں تو عموم بلوی والی فقہاء کی اصطلاح کے اعتبار سے بھی جائز ہوگا، پھر ایک اور رخ سے بھی مسئلہ پر بحث ہوسکتی ہے، جس سے کیمیاء کیمسٹری کے ماہروں سے دریافت کیا جاسکتا ہے ، وہ یہ کہ الکحل کو دوسری دواؤں سے ملانے کے بعد کیا وہ الکحل اپنی اصل شکل میں رہ جاتا ہے یا اس کی شکل اور حقیقت مختلف کیمیائی مراحل اور ادوار سے گذارنے کے بعد وہ شکل و حقیقت اس طرح بدل جاتی ہے کہ الکحل کچھ بھی نہ رہے، پس صرف دوسری چیز وہ دوائیاں (الکحل جس سے بدل گئی ہیں) رہ گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ الکحل جب اپنی حقیقت کھودیااور صرف دوائیاں رہ گئیں تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ شراب جب سرکہ بن جائے تو تبدیلیٴ ماہیت کی وجہ سے بالاتفاق جائز ہے، پھر آگے خنزیر کے اجزاء سے بنے جلاٹین سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان کان العنصر المستخلص من الخنزیر تستحیل ماہیتہ بعملیة کیمیاویة بحیث تنقلب حقیقتہ تماماً․ زالت حرمتہ ونجاستہ وان لم تنقلب حقیقتہ بقی علی حرمتہ ونجاستہ لأن انقلاب الحقیقة موثر فی زوال الطہارة والحرمة عند الحنفیة ․
            اگر خنزیر کے اجزاء سے بنا ہوا عنصر کیمیاوی تجزیہ سے اپنی پوری حقیقت بدل دے اور دوسری شکل اختیار کرلے تواس کی حرمت اور نجاست کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور اس کی اصلی شکل اور حقیقت باقی رہ جائے تو نجاست و حرمت کا حکم بھی باقی رہ جائیگا، اسلئے کہ طہارت و حرمت کے حکم کے بدل جانے میں حقیقت کا بدل جانا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة:۳۴۱)
الموسوعة الفقہیة کی صراحت:
            عصر حاضر کی مشہور اور معتبر فقہی انسائیکلوپیڈیا الموسوعة الفقہیة میں استحالہ کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے:
            الاستحالة - تغیر الشیء عن طبعہ ووصفہ (استحالة ایک چیز کے اپنی طبیعت اور صفت بدل دینے کا نام ہے) اس کے بعد استحالہ کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے: فالاستحالة قد تکون بمعنی التحول کاستحالة الأعیان النجسة من العذرة والخمر والخنزیر وتحولہا عن أعیانہا وتغیر أوصافہا وذلک با الاحتراق أو بالتخلیل أو بالوقوع فی شیء․
            ترجمہ: (استحالہ کبھی کسی چیز کے اپنی حالت بدل دینے سے ہوتا ہے، جیسے گوبر شراب اور سور جیسی ناپاک چیزوں کا اپنی ذات سے پھرجانا اوران کی صفات کا بدل جانا، اور یہ تبدیلی کبھی چیز کے جلادینے سے یا شراب کو سرکہ بنانے سے یا کسی چیز میں ڈال دینے سے ہوتی ہے، پھر استحالہ کاحکم اس طرح بیان کیاگیا ہے: تحول العین وأثرہ فی الطہارة والحل (ایک چیز کے بدل جانے کا اثر اور حکم پاک اور حلال ہونے میں) ذہب الحنفیة والمالکیة وہو روایة عن أحمد الی أن نجس العین یطہر بالاستحالة فرماد النجس لایکون نجساً - ولا یعتبر نجسا ملح کان حماراً أو خنزیرا أو غیرہما ․․․․ ولأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة فینتفی بانتفائہا فاذا صار العظم واللحم ملحاً أخذ حکم الملح لأن الملح غیر العظم واللحم ونظائر ذلک فی الشرع کثیرة․ (الموسوعة الفقہیة:۱۰/۲۷۸)
            ترجمہ: (حنفیہ مالکیہ اور (باعتبار ایک روایت کے) امام احمد اس طرف گئے ہیں کہ کوئی بھی نجس العین چیز اپنی حالت بدل دے تو پاک ہوجاتی ہے، ناپاک چیز کی راکھ ناپاک نہیں ہوتی اور وہ گدھا یا خنزیر یا کوئی بھی ناپاک جانورنمک بن جائے تو پھر ناپاک شمار نہیں ہوتا، کیونکہ شریعت نے ناپاکی کاحکم اس گندگی کی حقیقت پرلگایا تھا، جب وہ گندگی باقی نہیں رہی پوری طرح مٹ گئی تو گندگی کا حکم بھی ختم ہوجائے گا، پس جب وہ ناپاک گوشت اور پوست نمک بن جائے تواس پر نمک ہی کاحکم لگے گا، اس لئے کہ اب یہ صرف نمک رہ گیا ہے، گوشت پوست وغیرہ کچھ نہیں رہا کہ اس کا حکم لگے اس طرح کی مثالیں شریعت میں بہت سی ہیں۔
            حضرات فقہاء و مفتیان کی ان روایات اور فتاویٰ سے صورت مسئولہ بالکل نکھر جاتی اور صاف ہوجاتی ہے کہ اگر صابون یا پیسٹ یا کیک اور بسکٹ یااسی طرح دیگر ماکولات و مشروبات میں اگر ناپاک چربی یا اسی قسم کی ناپاک اشیاء کی ملاوٹ ہوتی بھی ہے تو تین وجوہات کی وجہ سے اس کے جائز اور حلال ہونے میں کوئی شبہ یا خلجان نہیں رہ جاتا۔
            پہلی بات یہ کہ دلائل شرعیہ کے ثبوت کے بغیر ملاوٹ مسلم نہیں، یعنی تسلیم نہیں کی جائے گی، جس کو حضرت مفتی نظام الدین صاحب نے بیان فرمایا کہ جب تک دلائل شرعیہ سے ملاوٹ ثابت نہ ہو اور یقینی نہ ہوجائے اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے اس کی طرف یوں اشارہ فرماکہ جب تک معتبراوریقینی اطلاع نہیں ملتی، بات محض ظن و گمان کے درجہ کی چیز ہوتی ہے اور شریعت اس قسم کے محض احتمالی اور شکی باتوں پر احکام کا دارومدار نہیں رکھتی، اس لئے بھی کہ اصل اشیاء میں اباحت ہی ہے، تو تحریم کے لئے معقول اور قوی وجہ پایا جانا ضروری ہے، نیز الیقین لایزول بالشک ․
            دوسری وجہ اگر ملاوٹ ہوئی بھی ہو اور ثابت بھی ہوجائے تو شرعی اصول استہلاک اور استحالہ، یعنی ایک چیز کا اپنی حالت بدل دینا نیز انقلاب العین اور تغیر ماہیت و حقیقت کا اصول نافذ ہوگا، جس کی تفصیلات دلائل و شواہد سمیت گذرچکی ہیں۔
            اس بحث کے اختتام سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مفتی کفایت اللہ صاحب کے فتویٰ سے چند اقتباسات پیش کردئیے جائیں جو بڑا مبسوط تشفی بخش اور بحث کے تمام گوشوں کو محیط ہے، نیز مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ جیسی عبقری شخصیتوں کے تائیدی دستخط سے بھی مزین ہے۔
مفتی کفایت اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ:
            (سوال) آج کل ولایتی صابون عموما استعمال کیاجاتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اس وجہ سے اس کے استعمال میں تردد پیداہوگیا ہے، شرعی حکم سے مطلع فرماکر ممنون فرمایا جائے۔ وأجرکم علی اللّٰہ ․
            (۳۵۲) جواب: اوّل تو یہ امر محقق نہیں کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اگرچہ نصاریٰ کے نزدیک خنزیر کا استعمال جائز ہے، اور انہیں اس سے کوئی پرہیز واجتناب نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ صابون میں اس کی چربی ضرور ڈالی جاتی ہو، ظاہر ہے کہ یورپین کارخانے تجارت کی غرض سے صابون بناتے ہیں، اورایسے ذرائع مہیا کرتے ہیں جن سے ان کی مصنوعہ اشیاء کی تجارت میں ترقی ہو۔
            آپ نے اکثر یورپین چیزوں کے اشتہاروں میں یہ الفاظ ملاحظہ فرمائے ہوں گے کہ ”اس چیز میں بنانے کے وقت ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے، اس چیز میں کسی مذہب کے خلاف کوئی چیز نہیں ڈالی گئی ہے، اس چیز کو ہر مذہب کے لوگ استعمال کرسکتے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔
            ان باتوں سے ان کا مقصود کیاہوتا ہے؟ صرف یہی کہ اہل عالم کی رغبتیں اس چیز کی طرف مائل ہوں اوران کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات ان اشیاء کے استعمال میں مزاحم نہ ہوں، اور ان کی تجارت ہرقوم میں عام ہوجائے، اور یہی ہر تجارت کرنے والے کے لئے پہلا مہتم بالشان اصول ہے کہ وہ اپنی تجارت کو پھیلانے کے لئے ان لوگوں کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات کا لحاظ کرے، جن میں اس کی تجارت فروغ پذیر ہوسکتی ہے، اوراس کے مال کی کھپت ہے، اہل یوروپ جو ہندوستان اوراکثر اطراف عالم میں اپنا مال پھیلانا چاہتے ہیں، اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان ہر حصہ عالم میں بکثرت موجود ہیں، اور یہ کہ مسلمان خنزیر اور اس کے اجزاء کے استعمال کو حرام مطلق سمجھتے ہیں، پس موافق اصول تجارت ان کا اولین فرض یہ ہے کہ اشیاء تجارتی میں جن کی اشاعت و ترویج ان کا مطمح نظر ہے، ایسی چیزیں نہ ڈالیں جن کی خبر ہوجانے پر مسلمان ان چیزوں کے استعمال کو حرام سمجھیں اور ان کی تجارت کو ایک بڑا صدمہ پہنچے۔
            میرا یہ مطلب نہیں کہ یورپین اشیاء میں ایسی چیزوں کا استعمال جو مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں غیرممکن ہے، بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ یقینی طور پر معلوم نہ ہونے کی صورت میں گمان غالب یہ ہے کہ اصول تجارت کے موافق وہ ایسی چیزیں نہ ڈالتے ہوں گے، پس صرف اس بنا پر کہ یہ چیزیں یوروپ سے آتی ہیں اور اہل یوروپ کے نزدیک خنزیر حلال ہے، یہ خیال قائم کرلینا کہ ان میں ضروری طورپر خنزیر کی چربی پڑتی ہوگی یا پڑنے کا غالب گمان ہے صحیح نہیں، ہندو جن کے ہاتھ میں ہندوستان کی اکثر تجارت کی باگ ہے، بہت سی ناپاک چیزوں کو پاک اور پوتر سمجھتے ہیں، گائے کا گوبر اور پیشاب ان کے نزدیک نہ صرف پاک بلکہ متبرک بھی ہے، باوجود اس کے ان کے ہاتھ کی بنی مٹھائیاں اور بہت سی خوردنی چیزیں عام طورپر مسلمان استعمال کرتے ہیں اوراستعمال کرنا شرعا جائز بھی ہے، یہ کیوں! صرف اس لئے کہ چونکہ ہندو دکاندار جانتے ہیں کہ ہمارے خریدار ہندومسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں، اور ہندوؤں کے علاوہ دوسرے لوگ گائے کے گوبر اور پیشاب کو ناپاک سمجھتے ہیں، اس لئے وہ تجارتی اشیاء کو ایسی چیزوں سے علیحدہ اور صاف رکھتے ہیں، تاکہ خریداروں کو ان سے خریدنے میں تامل نہ ہو، اور خریداروں کے مذہبی جذبات ان کی تجارتی اغراض کی مزاحمت نہ کریں۔
            یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے،جس پر بہت سے جزئیات کا حکم متفرع ہوتاہے، اور نہ صرف صابون بلکہ یوروپ کی تمام مصنوعات کی طہارت و نجاست اسی قاعدہ کے نیچے داخل ہے، ولایتی کپڑے اور بالخصوص رنگین کپڑے جو مسلمان عموماً استعمال کرتے ہیں، کسے خبر ہے کہ ان رنگوں میں کیا کیا چیزیں ملائی جاتی ہیں، اور کن پاک یا ناپاک اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے، لیکن قاعدئہ مذکورہ کی بنا پر ان چیزوں کا حکم بھی یہی ہے کہ جب تک یقینی طورپر یا بہ گمان غالب یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی ناپاک چیز ملائی جاتی ہے، ناپاکی کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
            اولاً: طہارت ونجاست کے باب میں کتب فقہیہ میں بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں، جن میں محض گمان اور شک کاکوئی اعتبار نہیں کیاگیا، ماہرین کتبِ فقہ پر یہ امر واضح ہے۔
            ثانیاً: اگر اس امر کا ثبوت اورکوئی دلیل بھی موجود ہو کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، تاہم صابون کا استعمال جائز ہے، کیونکہ صابون میں جو ناپاک تیل یا چربی پڑتی ہے، وہ صابون بن جانے کے بعد پاک ہوجاتی ہے۔
            اس کے بعد فقہ کی کتابوں سے بہت سی روایات کی تخریج کے بعد (جن میں سے کچھ روایات پہلے گذرچکی ہیں) فرماتے ہیں:
            ان روایات منقولہ سے امور ذیل بصراحت ثابت ہوگئے۔
            (۱) انقلاب حقیقت سے طہارت و نجاست کا حکم بدل جاتا ہے۔
            (۲) یہ حکم طہارت بانقلاب حقیقت امام محمد کا قول ہے، اوراسی پر فتویٰ ہے، اوراکثر مشائخ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
            (۳) صابون میں روغن نجس یا چربی کی حقیقت بدل جاتی ہے، اورانقلاب عین حاصل ہوجاتا ہے (درمختار اور مجتبیٰ کی عبارتیں دیکھو)۔
            پس اب سوال کاجواب واضح ہوگیا کہ صابون خواہ کسی چیز کی چربی یا روغن نجس سے بنایا جائے صابون بن جانے کے بعد وہ پاک ہوجاتا ہے، اور اس کااستعمال جائز ہے، کیونکہ انقلاب حقیقت کی وجہ سے وہ چربی چربی اور روغن روغن نہ رہا، بلکہ صابون ہوکر پاک ہوگیا، جیسے مشک ہے کہ اصل میں خون ناپاک ہوتا ہے، لیکن مشک بن جانے کے بعد وہ پاک اور جائز الاستعمال ہوجاتا ہے، پس ولایتی صابون کے استعمال کے لئے اس تحقیقات کی کچھ ضرورت نہیں کہ اس کے اجزاء کیا ہیں؟ وہ پاک ہیں یا ناپاک؟ کیونکہ حقیقت صابونیہ اس کی طہارت کی کفیل ہے، جیسے کہ حقیقت مسکیہ اس کی طہارت کی ضامن ہے۔
            اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ روایات مذکورہ سابقہ سے روغن نجس کے صابون کا پاک ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ یہ حکم روغن کے ساتھ خاص ہو کیونکہ اصل اس کی پاک ہے، ناپاکی باہر سے اسے عارض ہوئی ہے، پس اس سے خنزیر کی چربی کے صابون کا حکم نکالنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ خنزیر اوراس کے اجزاء نجس العین ہیں، تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ انقلاب عین سے پاک ہوجانا نجس العین اور غیر نجس العین دونوں میں یکساں طور پر جاری ہوتے ہیں، خون بھی نجس العین ہے، مشک بن جانے سے پاک ہوجاتا ہے، خود خنزیر کا انقلاب حقیقت کے بعد پاک ہوجانا بھی روایات ذیل سے ثابت ہے: ولا ملح کان حمارا أو خنزیرا ولا قذر وقع في بئر فصار حمأة لانقلاب العین بہ یفتی (درمختار) یعنی وہ نمک ناپاک نہیں جو دراصل گدھا یا خنزیر تھا۔ اور وہ پلیدی بھی جو کنویں میں گرکر کیچڑ بن جائے ناپاک نہیں، کیونکہ انقلاب حقیقت ہوگیا اسی پر فتویٰ ہے۔
            قولہ لانقلاب العین علة للکل وہذا قول محمد وذکر معہ فی الذخیرة والمحیط أبا حنیفة (حلیة) (یعنی مصنف کا قول کہ انقلاب عین موجب طہارت ہے یہ گدھے اور خنزیر کے نمک اور پلیدی کے کیچڑ بن جانے کے بعد پاک ہوجانے کی دلیل ہے اور یہ امام محمد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے، اور ذخیرہ اور محیط میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو بھی امام محمد رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
            قال فی الفتح: وکثیر من المشائخ اختاروہ وہو المختار لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومہا فکیف بالکل فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح ونظیرہ في الشرع: النطفة نجسة وتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر والعصیر طاہر فیصیر خمرا فینجس ویصیرخلاً یطہر فعرفنا أن استحالة العین تستتبع زوال الوصف․
            ان نصوص فقہیہ سے امور ذیل ثابت ہوتے ہیں:
            (۱) گدھا، خنزیر، کتا، انسان انقلاب حقیقت کے حکم میں سب برابر ہیں کچھ تفاوت نہیں۔
            (۲) یہ نمک کی کان میں گرکر مریں یا مرے ہوئے گریں، دونوں حالتوں میں یکساں حکم ہے، یعنی میتہ جو بہ نص قرآنی حرام اورنجس ہے وہ بھی اسی حکم میں شامل ہے۔
            (۳) انسان جس کے اجزاء سے بوجہ کرامت انتفاع حرام ہے اور خنزیر وہ میتہ جن سے بوجہ نجاست انتفاع حرام ہے، انقلاب حقیقت کے بعد ان پر انسان اور خنزیر و میتہ کا حکم باقی نہیں رہتا، بلکہ بعد انقلاب حقیقت پاک اور جائز الانتفاع ہوجاتے ہیں، جبکہ انقلاب حقیقت طاہرہ کی طرف ہو۔
            (۴) نمک کی کان میں گرنے اور صابون کے دیگ میں گرنے کاحکم یکساں ہے، کیونکہ یہ دونوں صورتیں موجب انقلاب حقیقت ہیں، جیسا کہ کبیری شرح منیة کی عبارت میں صراحتاً مذکور ہے، ان امور کے ثبوت کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ خنزیر یا میتہ یاکتے کی چربی سے بنے ہوئے صابون کے جواز استعمال میں تردد کیا جائے، اور یہ شبہ کچھ وقعت نہیں رکھتا کہ خنزیر بہ نص قرآنی حرام اور نجس ہے، پس صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ ہے، جواب اسکا یہ ہے کہ یہ معارضہ نہیں، نص قرآنی نے خنزیر یا میتہ کو نجس بتایا ہے، لیکن نمک یا صابون بن جانے کے بعد وہ خنزیر یا میتہ ہی کہاں رہے، دیکھو شراب بہ نص قرآنی حرام و نجس ہے،اور سرکہ بن جانے کے بعد بالاتفاق وہ پاک و حلال ہوجاتی ہے، پس جس طرح کہ شراب منصوص النجاسة پر سرکہ بن جانے کے بعد طہارت و حلت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اسی طرح خنزیر کے صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اصل یہ ہے کہ شریعت نے جس حقیقت پر نجاست کا حکم لگایا تھا وہ حقیقت ہی نہیں رہی اور بعد انقلاب جو حقیقت متحقق ہوئی وہ شریعت کے نزدیک پاک ہے، پس یہ حکم طہارت بھی حکم شرعی ہے نہ غیر۔
            تنبیہ اول: یہ بات ضروری طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگرچہ خنزیر و میتہ وغیرہ کی چربی سے بنے ہوئے صابون کا استعمال جائز ہے، لیکن کسی مسلمان کو یہ حلال نہیں ہے، کہ وہ خنزیر وغیرہ کی چربی سے صابون بنائے، کیونکہ قصدا ان چیزوں کو صابون بنانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں اور یہ جدا بات ہے کہ غیرمسلموں کے بنانے اور صابون بن جانے کے بعد استعمال جائز ہوجائے ․․․․․ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم ․
کتبہ الراجی رحمة ربہ محمد کفایت اللہ غفرلہ مدرس المدرسة الامینیہ
 ہذا التحقیق صحیح، عزیز الرحمن عفے عنہ مفتی مدرسہ دیوبند
 الجواب صحیح ، محمد انور عفا اللہ عنہ، دارالعلوم دیوبند
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا مذہب:
            امام بخاری نے ما یقع من النجاسات باب باندھا ہے اور مختلف صورتوں سے بحث کرتے ہوئے اس صورت سے بھی بحث کی ہے، ایک ناپاک چیز جب اپنی ہیئت بدل کر پاک چیز بن جائے تو وہ پاک اورجائز ہوجاتی ہے اور مشک والی روایت سے استدلال کیا ہے کہ شہید کے خون کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں شہید اس طرح آئے گا کہ اس کے بدن سے بظاہر خون بہتاہوگا، لیکن اس سے مشک کی خوشبو پھوٹتی ہوگی:
            وقال بعضہم مقصود البخاری أن یبین طہارة المسک ردا علی من یقول بنجاستہ لکونہ دما انعقد فلما تغیر عن الحالة المکروہة من الدم وہي الزہم وقبح الرائحة الی الحالة الممدوحة وہي طیب الرائحة المسک دخل علیہ الحل وانتقل من الحالة النجاسة الی حال الطہارة کالخمرة اذا تخللت (فتح الباری: ۱/۲۳۶)
            ترجمہ: امام بخاری کا مقصد ان لوگوں پر رد ہے جو مشک کو اس لئے ناجائز کہتے ہیں کہ وہ بندھا ہوا خون ہے، ان کاجواب مقصود ہے کہ یہ ناپاک جما ہوا خون تھا، لیکن ناپاک حالت اور بدبو سے نکل گیا اور پاک اور خوشبو والی حالت میں بدل گیا، تو اب یہ بلاشبہ پاک اورجائزہے، جیسے کہ جب شراب سرکہ بن جائے۔
            مذکورہ اشیاء میں ظاہر ہے کہ بسکٹ چاکلیٹ اور بیکری کی مصنوعات میں چربی کی صورت شکل مزہ کچھ نظر نہیں آتا، اس لئے یہ مسئلہ بالکل واضح ہے ان کے استعمال کو بلاتحقیق حرام قرار دینا اور اس پر زبردستی اوراصرار کرنا خواہ مخواہ کی زیادتی ہے اوراحکام شرعیہ کے ساتھ مخول اور ٹھٹھا ہے، البتہ شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے احتیاط اور تقویٰ کو اپنانا اولیٰ اور بہتر رہے گا۔
            تیسری چیز جس کی طرف اخیر فتویٰ میں اشارہ کیاگیاکہ ان اشیاء کے استعمال کی اس قدر کثرت ہے کہ اس سے احتراز کرنا تقریباً ناممکن یا دشوار ضرور ہے، اس عموم البلوی میں داخل ہوگا یا (الحرج مدفوع المشقة تجلب التیسیر) کے ضمن میں داخل ہوگا۔
ملاوٹ کی تیسری صورت:
            تیسری صورت یہ کہ محض احتمال اور شبہ ہو ملاوٹ کاکوئی شرعی ثبوت نہ ہو، اس کا حکم دوسری صورت کے ضمن میں تفصیل سے گذرچکا ہے کہ ملاوٹ جب تک یقینی ثابت نہ ہوجائے محض گمان پر کوئی حکم شریعت نہیں لگاتی۔
ملاوٹ کی چوتھی صورت:
            چوتھی صورت یہ کہ کمپنیوں کی طرف سے مختلف چربیوں (حلال وحرام) ملانے کا احتمال ہو اس کی وضاحت نہ ہو کہ کس چیز میں کونسی چربی ملائی جارہی ہے۔
            مذکورہ بالا صورت بظاہر مخدوش اور مشتبہ ہے، اس لئے احتیاطاً یہاں بھی یہی کہاجائے گا کہ انفرادی طورپر آدمی حتی المقدور پرہیز اوراحتیاط کو اپنائے، یہی بہتر اورمناسب ہے لیکن شرعی قانون کی بات وہی ہے جو اوپر مذکور ہوچکی ہے کہ محض شبہات کی بنیاد پر ساری چیزوں پر بے تحقیق حکم لگاکر امت کو مشقت میں ڈالنا عقل کے بھی خلاف ہے اور شریعت تو ویسے بھی بے بنیاد حکم لگانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی، اوریہ مسئلہ بہت پرانے زمانہ سے چلا آرہا ہے۔
فرنگی پنیر کے بارے میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی تحقیق:
            علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے بھی اس پر بحث فرمائی ہے کہ افرنچ (یعنی فرنگی اور یوروپی ممالک) سے آئے ہوئے پنیر کے بارے میں اسی وقت سے دو باتیں مشہور تھیں، ایک یہ کہ اس میں خنزیر کے دودھ کا استعمال یا غیر مذبوحہ جانور کے پیٹ سے جما ہوا دودھ جودہی کی شکل کا ہوتا ہے، اس سے پنیر (Cheese) بنایا جاتا ہے تو اس کے بارے میں علامہ نے یہ فرمایا کہ امت میں اس کا استعمال بلانکیر چلا آرہا ہے، حتی کہ صحابہ کے زمانہ میں مجوسیوں کا بنایا ہوا پنیر استعمال کیاجانا بھی عام ہوگیا تھا، جب کہ ان کے بارے میں یقینی معلوم تھا کہ وہ جانور ذبح نہیں کرتے اور باقی افرنگی اہل کتاب کا معاملہ مشکوک تھا کہ وہ کبھی ذبح کرتے ہیں کبھی ذبح نہیں کرتے اور پھر خنزیر کے پیٹ کا مادہ بھی اس میں استعمال کئے جانے کی خبر تھی، اس کے باوجود علماء اور فقہاء اور بزرگان دین نے اس کے جواز پر کبھی نکیر نہیں فرمائی۔
            الثانی أنہم لایذکون ما تضع منہ الأنفخة بل یضربون رأس البقر ولا یذکونہ وأما الوجہ الثانی فقد علم أنہ لیس کل یعقرونہ من الأنعام یترکون ذکوٰتہ بل قد قیل انہم انما یفعلون ہذا بالبقر وقیل انہم یفعلون ذلک حتی یسقط ثم یذکونہ ومثل ہذا لایوجب تحریم ذبائحہم بل اذا اختلط الحلال بالحرام فی عدد لا ینحصر کاختلاط أختہ بأہل البلد واختلاط المیتة والمغضوب بأہل بلدة لم یوجب ذلک تحریم ما فی البلد کما اذا اختلط الاخت بالأجنبیة والمذکی بالمیتة فہذا القدر المذکور لا یوجب تحریم ذبائحہم المجہولة الحال وبتقدیر أن یکون الجبن مصنوعا من أنفخة میتة فہذہ المسئلة فیہا قولان أحدہما أن ذلک مباح طاہر کما ہو قول أبی حنیفة و أحمد احدی الروایتین، والثانی أنہ حرام نجس کقول مالک والشافعی الخ والمطہرون احتجوا بأن الصحابة أکلواجبن المجوس مع کون ذبائحہم میتة ․ (فتاویٰ ابن تیمیہ ۱۲/۵۳۳)
            ترجمہ: دوسری صورت یہ ہے کہ افرنگی انفخہ بچھڑے کے پیٹ سے نکالے جانے والے رینٹ اور پنیر کے بارے میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ وہ لوگ جانورکو ذبح نہیں کرتے، بلکہ اس کا سرزمین سے یا دیوار سے زور سے مارتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مردار ہوجاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام جانوروں کو اس طرح نہیں مارڈالتے، بلکہ صرف گائے کے ساتھ کرتے ہیں، باقی جانور (بکری وغیرہ) ذبح کرتے ہیں اور یوں بھی کہاجاتا ہے کہ سرٹکرانا صرف گرانے کیلئے ہوتا ہے، پھرجب وہ سست ہوتا ہے تو پھر ذبح کرتے ہیں،اس طرح کے مخلوط اور مشتبہ چیزوں کو حرام نہیں کہا جائے گا، بلکہ جب حلال و حرام مخلوط ہوجائے اور امتیاز مشکل ہوجائے تو یہ بالکل اسی طرح ہے، جیسے کسی شہر میں مردار اور چوری اور غصب کے کچھ جانور عام جانوروں میں رل مل جائیں تو ظاہر ہے کہ ان چند غلط جانوروں کے مل جانے کی وجہ سے پورے جانوروں کو حرام نہیں کہا جائے گا، پھر اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ پنیر مردار جانوروں سے بنا ہے، تب بھی اس مسئلہ میں دو قول ہیں، ایک امام ابوحنیفہ اورامام احمد کی ایک روایت کہ یہ جائز اور پاک ہے، دوسرا قول امام شافعی ومالک کا کہ ناپاک اور ناجائز ہے، جائز قرار دینے والے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ مجوس کے بنے ہوئے پنیر کو استعمال کرتے تھے، جبکہ وہ ذبح کرنے کے عادی نہیں تھے۔
ولایتی پنیر کے بارے میں مفتی نظام الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ
            افریقہ سے آئے ہوئے اسی قسم کی صورت حال کے بارے میں استفسار کے جواب میں حضرت فرماتے ہیں:
            (سوال) جس طرح ملک میں اکثر کھانے پینے کی چیزیں غیرمسلم عیسائیوں یہودیوں کی فیکٹریوں میں بنتی ہے اور مسلمان ان کو خریدکر کھاتے ہیں، اسی طرح پنیر اپنے تمام اقسام کے ساتھ انہیں غیرمسلموں کے فیکٹریوں میں بنتا ہے اور مسلمان انہیں خریدکر کھاتے ہیں، الی أن․․․․․
            اب سوال یہ ہے کہ غیرمسلم کے ذبیحہ سے کشیدہ انفخہ سے بنایا ہوا پنیر مسلمان کے لئے حلال ہے یا نہیں؟
            (جواب) البیضة اذا وقعت من الدجاجة فی الماء والمرقة لا تفسدہ وکذا سبخلة وکذا الأنفخة وہی ماتکون فی معدة الرضیع من أجزاء اللبن طاہرة عند أبی حنیفة لاتفسد الماء ولاغیرہ واذا خرجت من شاة میتة سواء کانت جامدة أو مائعة وعندہما المائعة نجسة والجامدة متنجسة طہر بالغسل فیفسدان فی الماء وغیرہ الا اذ اغتسلت الجامدة أما لو خرجت من مذکاة فلا خلاف فی طہارتہا․ الخ
            اس عبارت سے معلوم ہوا ہے کہ انفخہ جو گائے کے بچہ کے شکم سے یا بکری وغیرہ کسی بھی ایسے جانور سے جس کا گوشت حلال ہے وہ انفخہ اس جانور کے شکم سے شرعی طریقہ سے ذبح کرکے نکالا جائے تو وہ بالاتفاق حلال وپاک ہوتا ہے اس کا کھانا اور استعمال کرنا درست ہوتا ہے اورجو انفخہ ماکول اللحم ہی سے نکالا جائے، مگر بغیر شرعی ذبیحہ کے (مردار) جانور سے نکال دیا جائے تو صاحبین کے نزدیک حلال ہوتا ہے، امام صاحب رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہرحال میں اس کا استعمال درست ہوتا ہے۔
            آگے فرماتے ہیں:
            (سوال) یہ کہ محکمہ زراعت و اقتصادیات کے ذمہ دار شخص نے بتلایا کہ پنیر بناتے وقت دودھ کو منجمد کرنے کے لئے خنزیر کے پیٹ سے کوئی سیال مادہ بھی استعمال ہوتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ اس ملک میں بھی استعمال ہوتا ہے یا نہیں؟ اور بعض ذمہ دار شخص نے بتایا کہ اب حیوانی رینٹ کے بجائے نباتاتی رینٹ استعمال ہوتاہے، تو کیا ایسی صورت حال میں پنیر کو مشکوک ٹھہراکر حرام سمجھا جائے یا دوسرے ذمہ دار کے انکار کی بنا پر اسے حلال ٹھہرایا جائے؟
            (جواب) خنزیر مثل غلاظت کے ناپاک یعنی نجس العین اورحرام ہے، ذبح کے بعد بھی یہ پاک نہیں ہوتا، اس کے پیٹ سے کشید کیا ہوا کوئی مادہ سیال ہو یا منجمد پاک و حلال نہ ہوگا، ناپاک و حرام ہی رہے گا اوراس کا استعمال جس کھانے وغیرہ میں ہوجائے گا، وہ بھی ناپاک و حرام ہوجائے گا اوراس کا کھانا اوراس کا استعمال کرنا بھی درست اورجائز نہ رہے گا، البتہ جب تک حرام و ناپاک کی آمیزش کا ثبوت یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک قطعی حرمت کا حکم نہیں دیا جائے گا لیکن احتیاط اولیٰ اور بہتر رہے گی مکروہ یا حرام نہ کہہ سکیں گے۔
            اس طرح کے مخلوط حرام اور حلال دونوں قسم کے دودھ سے بنایا ہوا مشکوک اورمشتبہ پنیر کا استعمال جائز ہے یا نہیں اس کے بارے میں آگے فرماتے ہیں۔ (حرمت کیلئے قطعی ثبوت ضروری ہے محض اندازہ سے حکم لگانے سے تمام علماء نے پرہیز کیا ہے)
            غرض جب پنیر بنانے میں دونوں قسم کے (حرام و ناپاک اورحلال) رینٹ استعمال کرتے ہیں اور دراصل اشیاء میں حلت اوراباحت ہی ہے تو جب تک کسی پنیر کے بارے میں دلیل سے متحقق نہ ہوجائے کہ اس میں حرام و ناپاک رینٹ استعمال ہوا ہے، اس وقت تک اس پر حرام و ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگائیں گے۔ ہاں جب دلیل سے یقین ہوجائے اور ثبوت مل جائے کہ اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہے جیسے یہ کہ پیکٹ وڈبہ پر ہی لکھا ہو یہ پنیر کسی حرام یا ناپاک چیز سے تیار شدہ ہے تواس کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے یا مثلاً معتبر شہادت مل جائے کہ اس میں حرام وناپاک چیز ملی ہوئی ہے۔
            نیز اس سلسلہ میں تجارتی اصول کے ماتحت ذمہ دار اشخاص کے بیان پر اعتماد کیا جائے گا، کیونکہ دنیوی اصول کے مطابق بھی تجارت کو سچائی اور دیانت ہی سے فروغ ہوتا ہے اس لئے بغیر وجہ شرعی کے کسی کو جھوٹا و دغاباز سمجھنا یا کہنا صحیح نہیں ہوگا (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۴۲)
            پنیر کا مسئلہ اگرچہ کہ گوشت اور چربی کے مسئلہ سے جدا ہے، لیکن حلال وحرام کی آمیزش کی وجہ سے صورت حال چونکہ مشترک ہے، اس لئے مشتبہ ہونے کی صورت میں کس بات کااعتبار کیا جائے اورکونسی بات غیر معتبر ہوگی، اس کے اصول کو اس میں واضح کردیاگیا ہے۔
            خلاصہ یہ کہ ناپاک چربی کی آمیزش والی چیزیں اگر اپنی حقیقت بدل دیں اور کسی پاک چیز کی شکل اپنالیں تو یہ دوسری صورت میں شامل ہوگا، جس کی تفصیل گذرچکی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بسکٹ کیک اور پیسٹ کی شکل میں بدل چکی ہے اور ناپاک چربی کی حقیقت بالکل ختم ہوچکی ہے، تو اب نہ اس کا رنگ روپ باقی ہے، نہ ہی ذائقہ اور شائبہ تو اس کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس پنیر والی صورت سے ملتی جلتی شکل ہے کہ جن چیزوں کا استعمال کیاجارہا ہے، ان میں ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا ثابت ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہی نہیں ہے، جب کہ کمپنیوں سے ہر طرح کی سینکڑوں قسم کی چیزیں (پاک اور ناپاک ملاوٹ والی) تیار ہوکر نکلتی رہتی ہیں تو کسی کے بارے میں جب تک کمپنی کی طرف سے یا عینی شاہدین کی طرف سے متعین طور پر نہ کہہ دیا جائے کہ اس میں ملاوٹ ہے، اس وقت تک ملاوٹ کا دعویٰ محض بلادلیل ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے اور متعین طور پر ثابت ہونے کی صورت میں تبدیلی ماہیت کے ہونے کی وجہ سے جائز ہے، (بہت سے لوگ خود پنیر کا استعمال کرتے ہیں، اس مسئلہ میں ان کے لئے بھی مستقل رہنمائی ہے)
            خلاصہ کلام یہ ہے حضرات علماء کرام مفتیان عظام کے سامنے کئی اصول و ضوابط ہیں، ان سب کا لحاظ کرنا ان کیلئے ضروری ہوتا ہے، ورنہ ایک ضابطہ کو لے کر باقی اصول سے صرف نظر کرنے کی صورت میں امت کیلئے دشواریاں اور مشکلات کھڑی ہوجانے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف شریعت کے بہت سے مصالح اور فوائد سے محرومی کا خطرہ ہے، اس لئے مسئلہ کے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی تفکر و تدبر کے ساتھ ساری صورتوں کو انھوں نے واضح کردیا ہے۔
            یہ بات ملحوظ رہے کہ ملاوٹ ثابت ہوجائے، تب بھی اصول وضوابط کی رو سے مسئلہ شرعیہ وہی ہے جو مذکور ہوا، اس لئے کہ فتویٰ میں سہولت و آسانی اور یسر مطلوب ہوتاہے، لوگوں کو مشقت تنگی و دشواری اورحرج میں ڈالنا ہرگز پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَج﴾ (یسروا ولاتعسروا) لیکن عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ناعاقبت اندیشی اور جلد بازی کا شکارہوکر یا جذبات سے مغلوبیت کے نتیجہ میں لوگ بائیکاٹ کی اور حرام ہونے کی باتیں کرتے رہتے ہیں، لیکن عملی میدان میں جب بازار کی صورت حالی یہ سامنے آتی ہے کہ مارکیٹ پر انہیں یہودی، عیسائیوں کاقبضہ ہے اور یہی مخدوش و مشتبہ کمپنیاں ہرطرف چھائی ہوئی ہیں، ان کی مصنوعات سے ان شبہات والی مشتبہ چیزوں سے بچنا اپنے قبضہ سے باہر معلوم ہوتا ہے تو بے بسی کا شکار ہوجاتے ہیں، انجام کار شرعی مسئلہ ایک تماشہ اور اضحوکہ یا عجوبہ بن جاتا ہے، اس کا علاج اور تیربہدف نسخہ یہی ہے، جس کو قرآن وحدیث نے بتایا ہے کہ مسلمان خصوصاً یہود و نصاریٰ سے دوستی، ان پر بھروسہ، ان سے لین دین اور معاملات سے حتی الامکان بالکلیہ پرہیز کریں اوراپنے طور پر یا حکومتوں کے تعاون سے میدان عمل میںآ گے بڑھ کر ذرائع اور وسائل کو اپنے ہاتھ میں لیں، مارکیٹ پر اپنا قبضہ کریں اور جہاں تک ہوسکے خودکفیل ہونے کی کوشش کریں اورحکومتوں کو بھی بیدار کریں، بیداری کی تحریک چلائیں، عوام اور حکومتوں کو تفصیل سے بتائیں کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مارکیٹ پر قبضہ ملک و قوم کے لئے اور ملک کی اقتصادی حالت کیلئے انتہائی تباہ کن اور غربت اور بے روزگاری کو بڑھاوادینے والا ہے،تو دوسری طرف نت نئی بیماریوں کا جنم دینے والا ہے۔
            خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو ملّی، دینی غیرت وحمیت کا اور ملکی و قومی مصالح کا مقتضا یہی ہے کہ ملک و قوم اورملت ان دشمنوں کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرے اوراپنی مصنوعات کو فروغ دے اور بیرونی مصنوعات یعنی یہود ونصاریٰ جو شروع سے سازشی طور پر دنیا کے مارکیٹ پر قبضہ کئے ہوئے اور ساری دنیا سے دولت سمیٹ کر ان کے کھاتوں میں منجمد ہورہی ہے، تو عوام کی اسی دولت سے وہ دنیا میں بدامنی انتشار اور خوں ریزی پھیلارہے ہیں۔
            ان سب کا علاج یہی ہے کہ ان کے مقابلہ میں اپنی مصنوعات کو ہرطرف پھیلایا جائے تاکہ ماحول میں شفافیت برقرار رہے اور معاشرے کو سکون ملے۔ وما علینا الا البلاغ۔
          اللہم ارنا الاشیاء کما ہی اللہم فقہنا فی الدین وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین․

Ruling on using foods which contain pork-derived substances and how to deal with them

Question
I would like to ask you bout the products that we buy not knowing what it contains, which may contain something haram. I have read on the Internet that the products that contain one of the following substances are haram:
  E100 , E110 , E120 , E140 , E141 , E153 , E210 , E213 , E214 , E216 , E234 , E252 , E270 , E280 , E325 , E326 , E327 , E334 , E335 , E336 , E337 , E422 , E430 , E431 , E432 , E433 , E434 , E435 , E436 , E440 , E470 , E471 , E472 , E473 , E474 , E475 , E476 , E477 , E478 , E481 , E482 , E483 , E492 , E493 , E494 , E495 , E542 , E570 , E570 , E572 , E631 , E635 , E904 (risque de le contenir E104-E122-E141-E150-E153-E171-E173-E180-E240-E214-E477-E151 .
The fatwa is on the websites 
“The mentioned above numbers according to Muslim scientists are substances that have been transformed into totally different substances. They cannot have their original attributes and thus they cannot be named according to the original substance they are made of.
This chemical or natural transformation made the substance into another one. It is permissible then to eat products containing those substances after it loses its original attributes. The Muslim scholars know that transformation cancels prohibition. An example of this was given by the known scholar imam ibn taymiyah :” if a pig or a dog falls into a saltcellar and transformed under the effect of salt until it loses its original attributes, it is permissible to use this salt” this is a known rule to the early Muslim scholars. They used transformation as a way to make some impermissible things permissible. What is haram is to use products that contain pork fat or meat, as fat does not normally change by heating or boiling. So if it is written on the cover of the product that it contains pork fat or animals fat, this makes the particular product impermissible to eat, and it is haram to eat it for the mentioned reason” 
Do I have to search on the covers of all products I buy? And how can we know the haram substances? If these numbers are not prohibited, then what is their purpose? A common person does not understand some of these numbers, and some products may contain these substances but they will not be written on the cover. 
Is it correct that if the mentioned substances exist in a product but in small proportion, it becomes halal? And what if we do not know the exact proportion? 
What is your opinion regarding who says that some firms feed turkeys with pork products? 
Will I be sinful if I eat a product that I found it contains one of a substance that maybe extracted from pork? Will I be sinful if I eat a product and after eating it discover that it contains one of the mentioned numbers referring that it maybe extracted from pork?  
I apologise for this long question. May Allah reward you greatly!.
Answer
Praise be to Allaah.
Firstly: 
One of the things that distinguishes the Muslim from others is that he pays attention to the shar’i rulings that have to do with his life. That includes his earnings, his food, his drink. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) stated the importance of halaal food to the Muslim in this world and the Hereafter. He stated that eating haraam food is a cause of du’aa’s not being answered and with regard to the Hereafter, there is a stern warning to the one who nourishes his body with haraam things. 
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Every body that is nourished with haraam things, the Fire is more befitting for it.” Narrated by al-Tabaraani; classed as saheeh by Shaykh al-Albaani in Saheeh al-Jaami’ (4519).  
The Muslim should beware of eating that which is it not permissible for him to eat, and he should seek out halaal food, even if it is more expensive than other food, and even if obtaining it involves more effort. 
Secondly: 
The pig is haraam and najis (impure); it is haraam to eat its meat or fat, and it is not permissible to eat a little of it or part of it. If some parts of its meat or fat is found in bread, food or medicine, it is haraam to consume it at all. 
The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas said:  
If the Muslim is certain or thinks it most like that any pork, lard (pig fat), or ground up pig bones has gotten into his food, medicine, toothpaste and so on, then it is not permissible for him to eat it or drink it, or apply it to his skin. Whatever he is uncertain about, he should abstain from it, because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Leave that which makes you doubt for that which does not make you doubt.” End quote. 
Shaykh ‘Abd al-‘Azeez ibn Baaz, Shaykh ‘Abd al-Razzaaq ‘Afeefi, Shaykh ‘Abd-Allaah ibn Ghadyaan, Shaykh ‘Abd0Allaah ibn Qa’ood. 
Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (22/281). 
Thirdly: 
Does the Muslim have to ask and find out before eating any ingredients if he is uncertain about whether there is anything haraam in them? 
The scholars of the Standing Committee said: If he is uncertain about something, he should leave it. Elsewhere (22/285) they said: He should ask for details because it is obligatory to beware of eating haraam things. 
This is what must be done if the country where those foods and drinks were manufactured is one where factories are not banned from using pork derivatives. Those people use a lot of pork by-products such as lard (pig fat) which they use in many kinds of food, drink, medicines, pastes and so on. 
If the country of manufacture is a Muslim country which bans the use of pork and its by-products, then the Muslim does not have to research and enquire and ask about product that is permissible in and of itself, as it is unlikely that there will be any of these haraam things in it. 
Depending on the country where the food is produced or manufactured, the scholars will say whether one should enquire or not. Part of enquiring is asking scientists and experts about the chemical composition and organic materials. It also includes reading the lists of ingredients on foods. This is sufficient to make sure, even if it comes from a kaafir country, because such lists are paid proper attention to for fear of the laws and penalties. They are slaves to money and do not indulge in lying – in most cases. What is written on them of symbols and names of ingredients that are not understood should also be asked about by the one who is able to do that. Knowledge is available nowadays via many means. The one who trusts them regarding this matter and trusts what they write can read the list of ingredients, otherwise he has to enquire further, or avoid it altogether, which is safer for him. 
The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas were asked: 
Is it essential to read the list of ingredients written on food, to make sure that there are no pork or alcohol related products? 
They relied: 
Yes, that is essential. End quote. 
Shaykh ‘Abd al-‘Azeez ibn Baaz, Shaykh ‘Abd al-Razzaaq ‘Afeefi. 
Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (22/285) 
Fourthly: 
Everything mentioned above applies whether there is a little pork or lard or there is a lot in food, drink or medicine. If that meat or fat is manufactured in a manner that changes its form, is the prohibition lifted or does it remain haraam and must be avoided? 
The scholars differed concerning that. The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas are of the view that the prohibition is not lifted, and the ruling does not change at all. Others – such as the Islamic Organization for Medical Sciences – disagreed and said that najis, haraam substances become permissible if they are turned into something else, and the quality of impurity and the name no longer apply to them. This is in accordance with what Ibn al-Qayyim (may Allaah have mercy on him) thought most likely to be correct and what we think is most likely to be correct. We have quoted both opinions in the answer to question no. 97541. 
We should add here that this is also the view regarded as more correct by the Council of Senior Scholars in the Kingdom of Saudi Arabia. In their book al-Buhooth al-‘Ilmiyyah (3/467), they said: 
Similar to that is the purity of that which has been fertilized of trees and crops with impure things; their fruits are permissible because of the transformation of the impure substance. Another similar case is the purity of alcohol which turns into vinegar; it is permissible to consume it, sell it, drink it and use it in other ways, after it had been alcohol which it is haraam to drink, sell or buy, and that is because of this transformation. End quote. 
Fifthly: 
If a person eats some haraam food and does not know anything about it, he should avoid the rest (as soon as he finds out that it is haraam); he does not have to do anything about what happened in the past, but he should be careful in the future. 
The scholars of the Standing Committee for Issuing Fatwas were asked: 
A man ate pork without realizing, then another man came to him after he had finished eating and told him that it was pork, and as we know, pork is haraam for Muslims. What should he do? 
They replied: 
He does not have to do anything about that, and there is no sin on him, because he did not know that it was pork. But he has to be careful and be cautious in the future. End quote. 
Shaykh ‘Abd al-‘Azeez ibn Baaz, Shaykh ‘Abd al-Razzaaq ‘Afeefi, Shaykh ‘Abd-Allaah ibn Qa’ood. 
Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah (22/282, 283)