Friday, 27 November 2015

'ماں' کیساتھ 'بیٹوں' کا سلوک

زندہ گائے کے پیٹ میں اوزار مارکر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکال کر اسے کھولتے پانی میں ابال کر اس کا چمڑا نکالا جاتا ہے جسے کف لیدر کہا جاتا ہے جو بھاری قیمت میں امریکہ بھیجا جاتا ہے اس کاروبار میں پورے ہندوستان میں ایک بھی مسلمان شریک نہیں ہے لیکن اس چمڑے سے وابستہ تقریبا 20لاکھ لوگ ہیں جن کی روزی روٹی کا واحد زریعہ یہ پیشہ ہے اور اسی کاروبار سے ان ہندوؤں کو 20 لاکھ بلین ڈالر کی سالانہ انکم حاصل ہوتی ہے ۔۔۔
گندہ ہے پر دھندا ہے یہ ۔
گائے ماتا کے پجاری کیا ایسا نہیں کرسکتے ۔۔؟؟
ارے بھائی کیوں نہیں لکشمی (دولت ) کی پوجا بھی تو کوئی پوجا ہے جس سے پیٹ پوجا ہوتی ہے اور جہاں پیٹ پوجا کا سوال ہو وہاں بہت ساری پوجائیں پتلی گلی سے نکل لیتی ہیں ۔۔
اتنا ہی نہیں گائے ماتا کے پجاری حضرات کی ناک کے نیچے سے گائے کی چربی سے لذت دار اور سواد بھرے وناسپتی گھی بنائے جاتے ہیں ۔۔۔

گائے کی کھلے عام ہتیا کرکے صابن ور گھی بنانے کے کارخانے کسی مسلمانوں نے نہیں بنائے بلکہ ہندوؤں کے سب سے اعلی طبقہ برہمن کے قائم کئے ہوئے ہیں ۔۔

اس لئے عید قربان کی آمد کے پیش نظر گائے کی ہتیا اور قتل خانے( مذبح یا سلاٹر ہاؤس ) کی مخالفت میں جو احتجاج پورے ہندوستان کے کونے کونے میں ہندو مذہبی تنظیموں کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ صرف سیاسی ڈرامے بازیاں ہیں اس سے زیادہ ان کے اندر کوئی مذہبی جذبہ یا عقیدے کے تقدس کا عنصر شامل نہیں ۔۔۔

اصل میں گائے کو ماتا کہنا ہی اصل پاکھنڈ (گناہ ) ہے برہمن طبقہ شروع سے ہی بھکشک رہا ہے برہمن گائے ہی نہیں انسان سے لے کر سبھی جانوروں کی بلی چڑھا کر ان کا ماس کھاتے رہے ہیں اس لئے نیپال کے برہمن آج بھی بڑی شان کیساتھ گائے کی بلی چڑھاتے ہیں ۔۔

کٹھمانڈو (نیپال کی راجدھانی) میں واقع کالی ماتا مندر میں پہلے تو گائے کی پوجا ہوتی ہے پھر اسکے بعد گائے کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں اور جیسے ہی گائے سر ہلاتی ہے تیز دھار والی چھری سے گائے کی گردن پر اٴمندر کا پروہت اس طرھ وار کرتا ہے کہ خون کا فوارہ کالی ماتا کے چرنوں میں جا گرتا ہے ۔۔

تڑپتی گائے کا خون کئی ایک مورتیوں کو چڑھایا جاتا ہے گائے کی گردن کوپجاری خود لے کر جاتا ہے اور چمڑا اتارکر گائے کا گوشت دیوی کے بھگتوں کو پرساد کے طور پر دیا جاتا ہے جسے وہ اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں اور ملنے جلنے والوں کو عقیدت کے ساتھ تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔۔۔

برہمن ہی نہیں غیر برہمن غیر مسلم بھی گائے کا گوشت بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں ۔۔
اس لئے جو بات اب تک ہمیں سمجھ لگی ہے کہ ہندو قوم کو اب گائے کو اپنی ماتا کہنا چھوڑدینا چاہئے آخر میں ہم جاتے جاتے گائے کو اپنی ماں کہنے والوں کی خدمت میں دس سوال رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔

1- گائے کو ماتا آپ کیسے کہ سکتے ہیں جس کا جنم آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے کیا ماں کا جنم بیٹے کے سامنے ہوتا ہے ۔۔

2- اگر گائے اپ کی ماتا جیسی ہے تو اس ماں کی ناک میں نکیل کیوں ڈالتے ہو۔۔

3- اسے کھونٹے میں کیوں باندھتے ہو ۔

4- گائے کو ڈنڈے کیوں مارتے ہو۔۔

5- کچھ لوگوں کو چھوڑدیا جائے تو مسلمان گائے نہیں پالتا ہندو لوگ ہی گائے کو قصائی خانوں تک پہنچانے کا جوکھم بھرا کام سر انجام دیتے ہیں بیرون ممالک گائے کے گوشت ایکسپورٹ کرتے ہیں کیا کوئی اپنی ماں کے گوشت کو بیچ سکتا ہے۔۔

6- گائے اگر آپ کی مان ہے تو آپ کی اصلی ماں اس کی بہن لگے گی اور اس لحاظ سے اصولا گائے کا بیٹا اپ کا بھائی بننا چاہئے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جاتی ہے سب گائے کو ماں کہتے ہیں اور آگے پیچھے کی رشتہ داریوں کو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح ہوا میں اڑادیتے ہیں ۔۔۔

7- بھینس اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کو مان کا مقدس خظاب کیوں نہیں دیا جاتا صرف گائے کو ہی یہ شرف کیوں حاصل ہے جب انسانوں میں کوئی بھید بھاؤ نہیں جانورون میں یہ امتیازی سلوک اور تفریق کیوں ۔۔؟

8- سائنس کے مطابق گائے کا گوشت پوتر اور واٹامن و لحمیات سے بھر پور ہے تو کیا وہ ہندو جو سائنس اور گیان یعنی سرسوتی پوجا کے قائل ہیں سرسوتی پوجا کے لئے گائے کا گوشت کیوں نہیں کھاتے ۔۔۔

9- رگ وید نامی ہندو کتاب کے اندر بھی گائے کی بلی چڑھانے کا ذکر و حکم موجود ہے اسے ہندو پنڈت کیوں عام لوگوں سے چھپاتے ہیں کیا گائے کو ماتا قرار دینے میں پنڈتون کا کوئی ذاتی مفاد چھپا ہے۔۔

10- پھر ہندو انسان ہی گائے ماتا کو حامل کروانے کے لئے سانڈ کے پاس لے جاتا ہے اور دونوں کے کاما سوتر(ملن ) کو اپنی گنہ گار آنکھوں سے دیکھتا ہے کیا کوئی اپنی ماں کو اس طرح غیر در پر لے جاتا ہے اور کیا سانڈ گائے کا پتی اس کا باپ کہلانے کا حق دار ہے ۔۔۔؟؟

زرا سوچئے کیاوجہ ہے کہ ہدنوستان اور پاکستان اور نیپال اور سری لنکا میں بسی ہندو برادری ان حقائق سے غافل ہے کیا وجہ ہے کہ ہندو دھرم کے اندر گائے کے گوشت کھانے حوالہ جات کو فیس بوکی دہرئے سامنے نہیں لاتے پس "روشنی" اور" خرد نامہ" اور "زالان "اور "سائیں"اس جیسے لبرل پیجیس پڑھنے کے بعد کل رات پہلی فرصت میں بھی مجھ پر سوچوں کی برسات ہوئی اور ویلا بیٹھ کر مکھی مارنے کی بجائے یہ مضمون ہی لکھ مارا تاکہ سوریہ ونشی اور میراثی ٹولے کو اس طرف بھی توجہ دلائی جاسکے شکریہ ۔۔

ازقلم۔۔ اے آر سالم فریادی

بشکریہ: دور فتن اور قرب قیامت.... لمحہ فکریہ

No comments:

Post a Comment