Sunday, 15 November 2015

صفر پر ایک نظر

صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اسلام کے آنے سے پہلے بھی اس مہینے کا نام صفر ہی تھا۔ اسلام نے اس کے نام کو برقرار رکھا۔ (اسلامی مہینوں کے احکام)
صفر کی وجہ تسمیہ:
لغت میں اس نام کی مختلف وجوہات ملتی ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) صفر یرقان کی بیماری کو کہتے ہیں۔
(۲) صفر کسی چیز کے ’’خالی‘‘ ہونے کو کہتے ہیں۔
(۳) صفر ایک سے دوسرے کو لگنے والی (متعدی) بیماری کو بھی کہتے ہیں۔(تکملہ فتح الملم، مرقات شرح مشکوٰۃ)
زمانہ جاہلیت اور صفر کا مہینہ:
اسلام سے پہلے اس مہینے کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں، مثلاً
(۱) لوگوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس مہینے میں سفر وغیرہ نہیں کرتے تھے۔ (مومن کے ماہ وسال)
(۲) وہ اس مہینے کو جنگ وجدال کا مہینہ شمار کرتے تھے۔ اور جوں ہی محرم کا مہینہ ختم ہوجاتا تھا، آپس میں جنگ شروع کردیتے تھے۔ 
(تفسیر ابن کثیر )
(۳) جب انہیں محرم کے مہینے میں، جس میں جنگ حرام تھی، جنگ کرنا ہوتی تو وہ اس مہینے کا نام بدل کر صفر رکھ لیتے تھے اور ایک مہینے کی جگہ دوسرا مہینہ قرار دینے کا اختیار انہوں نے اپنے سرداروں کے سپرد کررکھا تھا،جو اعلان کردیتے تھے کہ اس مرتبہ محرم کا مہینہ بعد میں آئے گا،اس کی جگہ صفر کا مہینہ پہلے آگیا ہے (وغیرہ) اس طرح کے تصورات کو ’’نسیئی‘‘ کہتے ہیں، قرآن نے اس کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: انماالنسیئی زیادۃ فی الکفر الخ (سورۃ التوبہ آیت ۳۷)
ترجمہ: بلاشبہ حرمت والے مہینوں کو بدل دنیا تو کفر میں اضافہ کرلینا ہے۔
مفسرین کرام نے اس آیت کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے مہینوں کی جو ترتیب مقرر فرمائی ان میں اور بالخصوص جن مہینوں کو احترام بخشا،ان کی ترتیب کو تبدیل کرنا یا ان میں معصیت و نافرمانی والے امور کا مرتکب ہونا، یہ اپنی جانوں پر ظلم کرکے نقصان اٹھانے کے مترادف ہے‘‘ (تفسیر روح القرآن جلد ۴)
’’عرب میں زمانہ قدیم سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے اَشْہُرِ حُرُمْ (خاص ادب و احترام کے مہینے) ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ،محرم اور رجب۔ ان میں خوں ریزی، جدال و قتال قطعاً بند کردیا جاتا تھا،حج وغیرہ اور تجارت و کاروبار کے لیے امن وامان کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل سے بھی چھیڑ چھاڑ نہ کرتا تھا، بلکہ بعض علمانے لکھا ہے کہ اصل ملتِ ابراہمی میں یہ چار ماہ اَشْہُرِ حُرُمْ قرار دیے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی جہالت حد سے بڑھ گئی اور باہمی جدال وقتال میں بعض قبائل کی بدمعاشی اور درندگی و انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا تو ’’نسیئی‘‘ کی رسم نکالی یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کردیا کہ امسال ہم نے محرم کو اَشْہُرِ حُرُمْ سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام قرار دے دیا، پھر اگلے سال کہہ دیا اس مرتبہ حسب دستورِ قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا‘‘(تفسیر عثمانی)
اس کے علاوہ بھی صفر کے بارے میں وہ کئی توہمات کا شکار تھے۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’مومن کے ماہ وسال‘‘)

صفر میں ہونے والے تاریخی واقعات
اس مہینے میں کئی اہم واقعات پیش آئے، جن کی وجہ سے اس مہینے کو تاریخ اسلام میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں سے چند واقعات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اسلام کا پہلا جہاد، جس میں حضور ﷺ نے بنفس نفیس شرکت کی، صفر کے مہینے میں پیش آیا۔
(۲) حضور اکرم ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی قیادت میں لشکر 27 صفر المظفر کو ترتیب دیا، یہ آپﷺ کا ترتیب دیا ہوا آخری لشکر تھا۔
(۳) حضورﷺکے مرض الوفات کا آغاز صفر کے آخری ہفتے میں ہوا۔
(۴) سب سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد کا حکم صفر المظفر کے مہینے میں نازل ہوا۔
(۵) حضورﷺ نے حضرت صفیہ نبت حییّ رضی اللہ عنہا سے اسی ماہ میں نکاح فرمایا۔
(۶) حضرت عمرو بن العاص، حضرت خالدبن مغیرہ، حضرت جمرہ بن نعمان اور حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اسی مہینے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
(۷) آذر بائیجان صفر۲۲ھ میں اسلام کے زیرنگیں آیا۔
(۸) قرارداد پاکستان صفر۱۳۵۰ھ میں منظور کی گئی۔
(۹) امام احمد بن حنبل کو کوڑے صفر۲۲۰ھ میں لگائے گئے۔
(۱۰) حضرت عبدالرحمن بن عوف (م32ھ)، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ (م 30ھ)، حضرت امام نسائیؒ (م 303ھ)، علامہ نوویؒ (م 276ھ)، حضرت مجد دالف ثانیؒ (م 1034ھ) شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ (م 1339ھ) اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (م1369ھ) کی وفات اسی مہینے میں ہوئی۔
(۱) ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن:
صفر المظفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو انتہائی منحوس تصور کیا جاتا ہے اور ان دنوں میں نہ صرف یہ کہ شادی، بیاہ اور سفر وغیرہ سے گریز کیا جاتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر اور بعض جگہوں پر چوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے۔ اب تو رفتہ رفتہ پورے صفر کے مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا گیا ہے اور پورے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس میں کسی بھی نئے کام کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان تیرہ دنوں میں حضور اکرم ﷺ کے مرض الوفات میں شدت آگئی تھی، لہٰذا صفر کے ابتدائی تیرہ دن اور ان کی وجہ سے پورا مہینہ منحوس اور ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہے۔ حالانکہ اس بات کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ آپ ا کے مرض میں شدت صفر کے آخری ایام میں پیدا ہوئی تھی، جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
(۲) ماہ صفر میں آسمانی بلاؤں کا اترنا:
عوام میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس مہینے میں لولے، لنگڑے اور اندھے جنات بڑی کثرت سے آسمان سے اترتے ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اسی وجہ سے بعض لوگ اس مہینے میں صندوقوں، اور درودیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح ہم ان ضرر رساں جنات کو بھگارہے ہیں اسی بناء پر بالخصوص خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے معاملے میں بہت محتاط اور خوف زدہ رہتی ہیں کہ کہیں یہ جنات انہیں نقصان نہ پہنچادیں۔
بعض علاقوں میں صفر کے مہینے کے اختتام پر خواتین مکڑی کے جالے صاف کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’اے صفر!دور ہوجا‘‘۔
ان تمام باتوں کی بنیاد اس مہینے میں بکثرت جنات کے زمین پر اترنے اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کے نظریے پر ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔
(۳) ماہ صفر کا آخری بدھ:
عوام میں مشہور ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم ﷺ کی بیماری میں افاقہ ہوگیا تھا اور آپ ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا، پھر تفریح کے لیے گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، اسی بناء پر لوگوں میں مختلف رسمیں مشہور ہیں:
بعض خواتین گھی، چینی یا گڑ کی روٹیاں پکا کر تقسیم کرتی ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کیا تھا۔
بعض لوگ اس بدھ کو اہتمام سے سیرو تفریح کے لیے باغات اور پارکوں میں جاتے ہیں اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اس روز اپنی صحت یابی کی خوشی میں حضور ﷺ نے تفریح فرمائی تھی۔
بعض لوگ پکے ہوئے چھولے اور عمدہ قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم حضور رسالت پناہ ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کرتے ہیں۔
بعض تعلیمی اداروں میں اس روز چھٹی کی جاتی ہے۔
بعض علاقوں میں باقاعدہ تہوار منایا جاتا ہے۔
مزدور اور کاریگر اپنے مالکان سے اس دن کھانے اور مٹھائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان تمام رسومات کی بنیاد یہ غلط اعتقاد ہے کہ حضور اکرم ﷺ صفر کے آخری بدھ کو صحت یاب ہوئے تھے، جیسا کہ ایک شعر بھی معروف ہے
آخری چہار شنبہ آیا ہے غسلِ صحت نبی ﷺ نے فرمایا ہے
حالانکہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم ﷺ کی بیماری میں افاقہ نہیں، بلکہ اس کا آغاز ہوا تھا اور اسی بیماری میں آپ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا تھا، ذیل میں اس سلسلے میں چند نا قابلِ تردید حوالہ جات نقل کیے جاتے ہیں: مورح اسلام محمد بن سعدؒ لکھتے ہیں:
’’28 صفر بروز بدھ کو رسول ا کے مرض کا آغاز ہوا‘‘۔
(طبقات ابن سعدؒ صفحہ 206)
فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں:
’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن میں رسول اللہ ﷺ کو شدّتِ مرض واقع ہوئی تھی، تو یہودیوں نے خوشی کی تھی، وہ اب جاہل ہندؤں (اور اب مسلمانوں میں بھی۔ ازناقل) رائج ہوگئی‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کا اس دن خوشی منانا اور اس دن مٹھائی تقسیم کرنا اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے شدتِ مرض کی خوشی میں یا یہود کی موافقت کرنے کی نیت سے نہ ہو، لیکن بہر حال یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے‘‘۔ (فتاویٰ محمودیہ جلد 15 صفحہ 412)
(۴) ماہ صفر اور شادی بیاہ:
عوام کی ایک بڑی تعداد اس مہینے میں شادی بیاہ کو ممنوع سمجھتی ہے اور مشہور ہے کہ: ’’جو شادی صفر میں ہوگی وہ صِفر ثابت ہوگی‘‘، لہٰذا لوگ اس مہینے میں شادی سے انتہائی گریز کرتے ہیں اور پہلے سے طے شدہ تاریخوں تک کو محض صفر کی وجہ سے تبدیل کردیتے ہیں اسی طرح خوشی کی دوسری کوئی تقریب بھی منعقد کرنے سے قصداً گریز کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ صفر کا مہینہ (نعوذباللہ) نامبارک اور منحوس ہے، لہٰذا اس میں کیا جانے والا کام بھی نامبارک و منحوس ثابت ہوگا۔ یہ اعتقاد سراسر غلط اور خلافِ شریعت و سنت ہے۔
سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی مہینہ بھی منحوس نہیں ہے۔ متعدد احادیث میں سرور کونین ﷺ نے اس بات کی نفی واضح طور پر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی چیز میں فی نفسہٖ کوئی نحوست نہیں ہوتی۔
حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ا نے فرمایا کہ کسی بھی چیزمیں کوئی نحوست نہیں۔ گھر، عورت، سواری (جس کو لوگ منحوس سمجھتے ہیں) ان سے بھی برکت ہوتی ہے۔(ترمذی)
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی شخص نے کہا کہ مجھے اپنی باندی منحوس لگتی ہے اور کئی لوگوں سے میں نے سنا کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے یہ بات سنی کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہے تو وہ گھر، عورت اور سواری میں ہے۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نہایت شدت سے فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ نے کبھی بھی نحوست کا وجود گھر، عورت اور سواری میں نہیں بتایا۔ (ابن جریر بحوالہ ماثبت بالسنۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان تین چیزوں (گھر، عورت اور سواری) کو منحوس سمجھتے تھے (مستدرک حاکم، مومن کے ماہ وسال)
عارف کبیر علامہ عبدالحق محدث دہلویؒ اس موضوع پر متعدد احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’خلاصہ یہ کہ نحوست کوئی چیز نہیں ہے‘‘ (ایضاً)
مزید فرماتے ہیں:’’اس سے مزید ثابت ہوا کہ نحوست اور بُرے شگون کا رسالت مآب ا نے انکار فرمایا ہے‘‘ (ایضاً صفحہ66)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ کسی چیز میں اس کی ذات کے اعتبار سے کوئی نحوست نہیں ہے۔
اب آئیے چند ان احادیث پر نظر ڈالیں، جن سے بالخصوص صفر کے مہینے کے منحوس ہونے کی نفی معلوم ہوتی ہے:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔ (مسلم شریف)
امام بخاریؒ نقل کرتے ہیں: ماہ صفر میں بیماری، بدشگونی و نحوست، شیطان جنات کی گرفت کے اثرات کی کوئی حقیقت نہیں۔ (بخاری ذیل حدیث لاعدویٰ ولاطیر)
معروف محدث علامہ طیبیؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’صفر وہی مشہور مہینہ ہے، جس کے بارے میں اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ اس میں مصیبتوں اور فتنوں کا کثرت سے نزول ہوتا ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے لَاعَدْویٰ ولَاصَفَر وَلَاغَوْل (الحدیث)فرما کر اس کی نفی فرمادی‘‘۔ 
(شرح الطیبیؒ جلد 8 صفحہ 316) نوٹ: مذکورہ بالا حدیث کا ترجمہ یہ ہے:
اللہ کے حکم کے بغیر ایک کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا اور صفر میں کوئی نحوست نہیں اور بھوت پریت (غول بیابانی) میں اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
حاصل یہ کہ صفر کے مہینے میں بھی سال کے باقی گیارہ مہینوں کی طرح کوئی نحوست نہیں ہے اور جس طرح سال کے کسی بھی مہینے میں نکاح کرنے کی کوئی ممانعت نہیں، اسی طرح اس مہینے میں بھی نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ وہ محرم کے مہینے میں اس لیے نکاح وغیرہ نہیں کرتے کہ اس میں واقعہ کربلا ہوا تھا اور ماہ صفر میں اس لیے نکاح نہیں کرتے کہ اس مہینے میں ہونے والے نکاح نامبارک و منحوس ثابت ہوتے ہیں۔ شریعت ان دونوں مہینوں میں نکاح پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔ کسی کی وفات پر شریعت صرف تین دن سوگ منانے کی اجازت دیتی ہے، البتہ بیوی اپنے شوہر کی وفات پر 4 ماہ 10 دن سوگ منائے گی۔
یہ بھی کتنا بڑا ستم ہے کہ محرم الحرام میں تو نواسئہ رسول حضرت سیدنا حسینؓ اور دوسرے شہدائے کربلا کے غم کی وجہ سے شادی بیاہ ممنوع قرار پائے، مگر ربیع الاول، جو حضرت سرکار دو عالم ا کی رحلت کا مہینہ بھی ہے، اس میں دھڑادھڑ شادیاں کی جائیں۔ جانے کیوں اس موقع پر نبی ا کی رحلت کا غم یاد نہیں آتا۔
خلاصہ یہ کہ شریعت نے سال بھر کے ہر دن اور ہر مہینے میں نکاح اور شادی بیاہ کو جائز رکھا ہے، اور کسی مہینے یا دن میں ان امور کی ممانعت نہیں فرمائی۔ حضرت رسالت مآب ا نے اسی مہینے میں حضرت سیدہ صفیہ بنی حییّؓ سے عقدِ نکاح فرما کر اپنے عمل سے بھی ثابت فرما دیا ہے کہ صفر کے مہینے میں شادی و نکاح کرنا جائز ہے۔
اگر محرم اور صفر کے مہینے میں اس نیت سے نکاح کیا جائے کہ لوگوں میں رائج غلط فہمی کی تردید ہو، تو مستحسن اور انشاء اللہ زیادہ اجرو ثواب کا حامل ہوگا (اسلامی مہینوں کے احکام)۔

فقہی مسائل
مسئلہ: کسی دن، شخص یا چیز کو منحوس سمجھنا خلافِ شریعت اور بے اصل ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول صفحہ 358-359)
مسئلہ: صفر المظفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس سمجھنے اور تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر یا چوری بنا کر تقسیم کرنے کی کوئی اصل نہیں۔
مسئلہ: صفر المظفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ شریعت نے اس مہینے کو صفر المظفر (کامیابیوںوالا مہینہ) اور صفر الخیر (بھلائی والا مہینہ) قرار دیا ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول صفحہ 360)
مسئلہ: اس بات کی کوئی اصل نہیں کہ صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں میں حضور اقدس ا کے مرض میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔
مسئلہ: اس مہینے میں آسمانی بلاؤں اور ضرر رساں جنات کے بکثرت زمین پر اترنے کا نظریہ خلافِ شریعت ہے۔
مسئلہ: صفر کے اختتام پر جنات کو بھگانے کے لیے درو دیوار اور صندوقوں وغیرہ کو ڈنڈے مارنے، مکڑی کے جالے صاف کرنے اور گھروں کو لیپنے کی کوئی اصل نہیں۔
مسئلہ: ماہ صفر کے آخری بدھ کو حضور ا کے مرض کی ابتدا ہوئی تھی۔
(طبقات ابن سعد صفحہ 206)
مسئلہ: اس دن کو تہوار کے طور پر منانا یہود و ہنود سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔ 
(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 15، فتاویٰ رضویہ، احکام شریعت جلد 3 صفحہ 183، بہار شریعت جلد 6 صفحہ 242)
مسئلہ: اس دن گھی، چینی یا گڑ وغیرہ کی روٹیاں بنا کر تقسیم کرنا اور اس کی نسبت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف کرنا بے اصل اور خلاف شریعت ہے۔
مسئلہ: اس دن اہتمام سے سیر و تفریح کے لیے جانا اور اس کی نسبت حضور اکرم ا کی طرف کرنا بے اصل اور خلاف شریعت ہے۔
مسئلہ: اس دن تعلیمی اداروں میں اس بناء پر چھٹی کرنا کہ یہ تہوار کا دن ہے، ناجائز ہے۔
مسئلہ: اس دن خوشی منانا اور مٹھائی تقسیم کرنا خلاف شریعت ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ صفحہ412جلد 15)
مسئلہ: صفر کے مہینے میں شادی بیاہ وغیرہ کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔ یہ سمجھنا کہ اس مہینے میں شروع کیا جانے والا کام بے برکت ہوتا ہے خلافِ شریعت ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول صفحہ 360)
مسئلہ: سوئم، چہلم اور برسی وغیرہ منانا بدعت ہے۔ 
(فتاویٰ بزاریہ، شامی جلد 2 صحفہ 240، فتاویٰ محمودیہ)
اللہم ارنا الحق حقاوارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، اٰمین یارب العٰلمین وماتوفیقی الاباللّٰہ۔

1 comment: