Sunday 31 January 2016

शेर ने युवक को बनाया निवाला

मालकापुर के जंगल मे शेर ने युवक को अपना निवाला (भोजन)बनाया

Saturday 30 January 2016

کیسے کریں سلام و مصافحہ ؟

ایس اے ساگر
سلام کہنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، جو پہلے سلام کرے اس کو بیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔ غیرمسلم کو ابتدا میں سلام نہ کہا جائے اور اگر وہ سلام کہے تو جواب میں صرف وعلیکم کہہ دیا جائے۔ کسی بھی مسلمان کو سلام کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام مکمل الفاظ سے کیا جائے الفاظ یہ ہیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اور جواب ان الفظ سے ہو،
وعلیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اگر السلام علیکم اور جواب میں وعلیکم السلام ، پر اکتفاء کیا جائے، تویہ بھی جائز ہے، اس کے علاوہ السلام وعلیکم مسنون طریقہ نہیں ،
سلام وعلیکم،
السام وعلیکم
وغیرہ کے الفاظ بددعآء کے ہیں، سلام میں اس کے کہنے سے اجتناب کیا جائے ۔
السائیکم
اور
سلالیکم،
سلام کے الفاظ نہیں اورمعنوی لحاظ سے بھی صحیح نہیں اس لئے ان الفاظ کے کہنے سے احتراز کیا جائے۔
مختصراً الفاظ سے سلام مثلاً AOA اورمختصر الفاظ سے جواب WAS نہ سلام ہے اور نہ ہی سلام کا جواب ہے ،اس طرح سلام وجواب صحیح نہیں۔
دشمنی سے حفاظت :
جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بھی بہتر (الفاظ) میں سلام کا جواب دو ۔ (کم از کم) انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہو سکتی برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر تمہارا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے گہرا دوست ۔ یعنی کہ اللہ رب العزت کی طرف سے یہ ایک اہم حکم ہے جس سے دشمنی ، دوستی میں بدل جاتی ہے۔ ضرورت صرف احسان ، عفو اور صبر کی ہے اس کی ابتدا اپنے دشمن اور مخا لفین بدل کو مسکرا کر سلام و مصافحہ سے کیجئے۔ چند بار ایسا کرنے سے ان شآ اللہ آپ اس کے بہترین نتائج خود دیکھیں گے ۔
کیا ملے گا؟
جیسا کہ آپ صلی الله علیه وسلم نے ارشاد فرمایا :
جب دو مسلمان ملیں تو ان میں سے ایک السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہے اور دوسرا جواب میں و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہے تو ہر ایک کو تیس تیس (٣٠) نیکیاں ملتی ہیں اور مصافحہ کرنے سے دونوں کے صغیرہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ( ابن ماجہ)
فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے اور اسے سلام نہیں کرتا (بخاری و مسلم) ۔
سلام کرنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ (مسلم)
جو شخص سلام سے پہلے کلام شروع کر دے تو اس کو جواب نہ دو جب تک کہ وہ سلام سے ابتدا نہ کرے (طبرانی)
سلام نہ کرنا بخل کی علامت ہے۔ (احمد)
سلام کی تکمیل :
 دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔ صحیح بخاری جلد :2 صفحہ :926 میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
علمنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ۔
مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔
یہ حددیث اِمام بخاری رحمہ اللہ نے باب المصافحة کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل باب الاخذ بالیدین کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی روح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے:
اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی الفت و محبت کا اظہار ہے۔
حجة اللہ البالغہ صفحہ :198
اور فطرتِ سلیمہ سے ر ±جوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، ا ±لفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔اس سلسلہ میں شہید الاسلام مولانا یوسف لدھیانوی رحمة اللہ علیہ نے مکمل رہنمائی فرمائی ہے:
پیشانی پر ہاتھ رکھنا اور بوسہ دینا:
س… اسلام میں ملاقات کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ پیشانی تک ہاتھ اٹھاکر سر کو ذرا جھکاکر سلام کرنا کیسا ہے؟ نیز بعض ملاقاتوں میں دیکھا گیا ہے کہ گلے ملتے وقت پیشانی یا کنپٹی کو بوسہ دیتے ہیں، یہ جائز ہے یا نہیں؟
ج… سلام کے وقت پیشانی پر ہاتھ رکھنا یا جھکنا صحیح نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ مصافحہ کی اجازت ہے، اور تعظیم یا شفقت کے طور پر چومنے کی بھی اجازت ہے۔
نمازِ فجر اور عصر کے بعد مصافحہ :
س… نمازِ فجر اور عصر میں موجود نمازی آپس میں اور اِمام صاحب سے مصافحہ کرتے ہیں، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بہ نیت ثواب۔ یہ بھی علمائ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معانقہ، مصافحہ برابر کیا کرتے تھے؟
ج… سلام اور مصافحہ ان لوگوں کیلئے مسنون ہے جو باہر سے مجلس میں آئیں۔ فجر و عصر کے بعد سلام اور مصافحہ کا جو رواج ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے یہاں اس کا معمول نہیں تھا، لہٰذا یہ رواج بدعت ہے۔
 غیرمحرَم عورت کو سلام:
س… کسی غیرمحرَم مرد کا کسی غیرمحرَم عورت کو سلام دینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ یا سلام کا جواب دینا ضروری ہے؟
ج… اگر دِل میں غلط وسوسہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں، ورنہ درست ہے۔ چونکہ جوان مرد وعورت کے باہم سلام کرنے سے غلط خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے یہ ممنوع ہے، البتہ سن رسیدہ بڑھیا خاتون کو سلام کرسکتے ہیں۔
نامحرَم عورت کے سلام کا جواب:
س… عورتوں کو نامحرَم مرد سلام نہیں کرسکتا، اگر عورت سلام میں پہل کردے تو جواب دیا جائے یا نہیں؟ میرے کام کاج میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ مختلف گھروں میں جانا پڑتا ہے، بعض خواتین کو میں، اور وہ مجھے جانتی ہیں، گو کہ ہم سلام نہ کریں مگر اوّل تو وہ خواتین پردہ نہیں کرتیں، دوئم یہ کہ جس کام کے متعلق میں ان کے گھر گیا ہوں اس پر بات چیت ہوتی ہے، لہٰذا پوچھنا یہ ہے کہ ایسی عورتوں کو سلام کیا جائے یا نہیں؟ یا سلام کا جواب دیا جائے یا نہیں؟
ج… جوان عورتوں کو سلام کہنا جائز نہیں، اگر وہ سلام کریں تو دِل میں جواب دے دیا جائے۔ نامحرَم مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے سامنے بے محابا آنا جائز نہیں، اگر کوئی شخص فسادِ معاشرت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہو تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِستغفار کرتا رہے۔
مسلم و غیرمسلم مرد و عورت کا باہم مصافحہ:
س… عورت مسلمان ہو اور مرد غیرمسلم، یا مرد مسلمان ہو اور عورت غیرمسلم تو ایسی صورت میں باہم مصافحہ کیلئے اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟
ج… نہیں!
والدین یا کسی بزرگ کو جھک کر ملنا
س… والدین یا کسی بزرگ کو جھک کر ملنا جائز ہے؟
ج… جھکنے کا حکم نہیں۔
تعظیم کیلئے کھڑے ہونا:
س… آج کل کافی افراد اساتذہ یا بزرگوں یا پھر بڑے عہدوں پر فائز حکمراں افراد کے احترام میں کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں، کیا کسی بھی شخص ،چاہے وہ والدین ہوں یا ملک کا صدر ہی کیوں نہ ہو،کھڑا ہونا جائز نہیں؟
ج… یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک یہ کہ کسی کا یہ خواہش رکھنا کہ لوگ اس کے آنے پر کھڑے ہوا کریں، یہ متکبرین کا شیوہ ہے، اور حدیث میں اس کی شدید مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے کہ جس شخص کو اس بات سے مسرّت ہو کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوا کریں، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔(مشکوٰة صفحہ:3,4 بروایت ترمذی و ابوداود)
بعض متکبر افسران اپنے ماتحتوں کیلئے قانون بنادیتے ہیں کہ وہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوا کریں، اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی شکایت ہوتی ہے، اس پر عتاب ہوتا ہے اور اس کی ترقی روک لی جاتی ہے، ایسے افسران بلاشبہ اس ارشادِ نبوی کا مصداق ہیں کہ’انہیں چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائیں۔‘اور ایک یہ کہ کسی دوست، محبوب، بزرگ اور اپنے سے بڑے کے اکرام و محبت کیلئے لوگوں کا ازخود کھڑا ہونا، یہ جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمد پر کھڑے ہوجاتے تھے، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھاتے تھے، اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کھڑی ہوجاتیں، آپ کا دست مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (مشکوٰة صفحہ402یہ قیام، قیامِ محبت تھا۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
قوموا الٰی سیّدکم! متفق علیہ۔(مشکوٰة ص:3,4)
یعنی ،اپنے سردار کی طرف کھڑے ہوجاو۔ یہ قیام اِکرام کیلئے تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہم سے گفتگو فرماتے تھے، پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے دولت کدے میں داخل نہ ہوجاتے۔ (مشکوٰة صفحہ:403)
یہ قیام تعظیم و اِجلال کیلئے تھا، اس لئے مریدین کا مشائخ کیلئے، تلامذہ کا اساتذہ کیلئے اور ماتحتوں کا حکامِ بالا کیلئے کھڑا ہونا، اگر اس سے مقصود تعظیم و اِجلال یا محبت و اِکرام ہو تو مستحب ہے، مگر جس کیلئے لوگ کھڑے ہوتے ہوں اس کے دِل میں یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ کھڑے ہوں۔
 جھک کر مصافحہ کرنا:
س… خصوصاً نمازِ جمعہ کے بعد اور عموماً جب نماز ختم ہوجاتی ہے تو بہت سے نمازی حضرات اِمام صاحب سے بڑھ چڑھ کر مصافحہ کرنے لگتے ہیں، اور اس دوران اچھا خاصا جھک جاتے ہیں گویا کہ رکوع کے مشابہ ہوجاتا ہے، اور اِمام صاحب اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، کیا یہ سنت ہے کہ اِمام صاحب سے جھک کر مصافحہ کیا جائے؟
ج… مصافحہ کرتے وقت جھکنا نہیں چاہئے۔
جوڈو کراٹے میں جھکنے کا قانون :
س… جوڈو کراٹے ٹریننگ کا یہ اصول ہے کہ جب بھی طلباسینٹر میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں اپنے اساتذہ وغیرہ کے سامنے ہاتھ کھلے چھوڑتے ہوئے اس قدر جھکنا پڑتا ہے جیسے نماز میں رکوع کی حالت ہوتی ہے۔کیا اسلام مذکورہ بالا صورت میں کسی کے سامنے جھکنے کی اجازت دیتا ہے؟
ج… ٹریننگ کا یہ اصول کہ سینٹر میں داخل ہوتے وقت یا باہر سے آنے والے اساتذہ وغیرہ کے سامنے رکوع کی طرح جھکنا پڑتا ہے، شرعی نقطئہ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرتے وقت جھکنے کی ممانعت فرمائی ہے، چہ جائیکہ مستقل طور پر اساتذہ کی تعظیم کیلئے ان کے سامنے جھکنا اور رکوع کرنا جائز ہو۔ حدیث شریف میں ہے، جس کا مفہوم ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو اس کے سامنے جھکنا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں!‘     (مشکوٰة صفحہ:401، بروایت ترمذی)
مجوسیوں کے یہاں یہی طریقہ تھا کہ وہ بادشاہوں، امیروں اور افسروں کے سامنے جھکتے تھے، اسلام میں اس فعل کو ناجائز قرار دیا گیا۔ ٹریننگ کا مذکورہ ا ±صول اسلامی اَحکام کے منافی ہے، لہٰذا ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ فوراً اس قانون کو ختم کریں۔ اگر وہ اسے ختم نہیں کرتے تو طلباکیلئے لازمی ہے کہ وہ اس سے انکار کریں، اس لئے کہ خدا کی ناراضی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
مسجد میں بلند آواز سے سلام کرنا:
س… مسجد میں بلند آواز سے ’السلام علیکم‘ کہنا چاہئے یا نہیں؟ جبکہ السلام علیکم کہنے سے نمازیوں کی توجہ سلام کی طرف ہوجائے اور سنتوں یا نفلوں میں خلل پڑے، اور مسجد میں سلام کا جواب بلند آواز سے دینا چاہئے یا نہیں؟
ج… اس طرح بلند آواز سے سلام نہ کیا جائے جس سے نمازیوں کو تشویش ہو، البتہ کوئی فارغ بیٹھا ہو تو قریب آکر آہستہ سے سلام کہہ دیا جائے۔
السلام علیکم کے جواب میں السلام علیکم کہنا:
س… دورِ حاضر میں جہاں نت نئے فیشن وجود میں آئے ہیں وہاں ایک جدید فیشن یہ بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ جب دو آدمی آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو دونوں ’السلام علیکم‘ کہتے ہیں، جواباً ’وعلیکم السلام‘ کوئی نہیں کہتا۔
ج… وعلیکم السلام کہنے میں عار نہیں بلکہ جو شخص السلام علیکم کہنے میں پہل کرے، اس کے جواب میں ’وعلیکم السلام‘ کہنا واجب ہے۔ غلط رواج کی اصلاح یوں ہوسکتی ہے کہ اگر دونوں ایک ساتھ سلام کہہ دیں تو دونوں ایک دوسرے کے جواب میں’وعلیکم السلام‘ کہا کریں، اور اگر ایک پہلے’السلام علیکم‘ کہہ دے تو دوسرا صرف ’وعلیکم السلام‘ کہے۔
ٹی وی اور ریڈیو کی نیوز پر عورت کے سلام کا جواب دینا
س… ٹی وی اور ریڈیو پر خبروں سے پہلے نیوز ریڈر (خواتین) سلام کرتی ہیں، جیسا کہ تاکید ہے کہ سلام کا جواب دینا چاہئے، کیا یہ خواتین جو سلام کرتی ہیں، اس کا جواب دینا چاہئے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو اس کی کوئی دلیل؟ 
ج… میرے نزدیک تو عورتوں کا ٹی وی اور ریڈیو پر آنا ہی شرعاً گناہ ہے، کیونکہ یہ بے پردگی اور بے حیائی ہے۔ ان کے سلام کا جواب بھی نامحرَموں کیلئے ناروا ہے۔
تلاوتِ کلامِ پاک کرنے والے کو سلام کہنا:
س… جب کوئی آدمی کلام پاک کی تلاوت کر رہا ہو، ایسی حالت میں اسے سلام دیا جاسکتا ہے کہ نہیں؟ اگر سلام دے دیا جائے تو کیا اس پر جواب دینا واجب ہوجاتا ہے؟
ج… اس کو سلام نہ کہا جائے اور اس کے ذمے سلام کا جواب ضروری نہیں۔
عید کے روز معانقہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟
س… عید کے روز لوگ اظہارِ خوشی کیلئے گلے ملتے ہیں، شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سنت ہے، مستحب ہے یا بدعت ہے؟
ج… عیدین کا معانقہ کوئی دِینی، شرعی چیز تو ہے نہیں، محض اظہارِ خوشی کی ایک رسم ہے، اس کو سنت سمجھنا صحیح نہیں، اگر کوئی شخص اس کو کارِ ثواب سمجھے تو بلاشبہ بدعت ہے، لیکن اگر کارِ ثواب یا ضروری نہ سمجھا جائے محض ایک مسلمان کی دِلجوئی کیلئے یہ رسم ادا کی جائے تو امید ہے گناہ نہ ہوگا۔
عید کے بعد مصافحہ اور معانقہ:
س… مصافحہ اور معانقہ کی فضیلت سے انکار نہیں، مگر اس کی عید کے دن سے کیا خصوصیت ہے؟ ایک ہی گھر میں رہنے والے عید پڑھنے کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں، کیا ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید پڑھنے کے بعد ایسا ہی کیا کرتے تھے؟
ج… عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا محض ایک رواجی چیز ہے، شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، اس لئے اس کو دِین کی بات سمجھنا بدعت ہے، لوگ اس دن گلے ملنے کو ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اس رواج پر عمل نہ کرے تو اس کو برا سمجھتے ہیں، اس لئے یہ رسم لائق ترک ہے۔


Friday 29 January 2016

عشرہ مبشرہ

1حضرت ابوبکرصدیق
2حضرت عمرفاروق
3حضرت عثمانی النورین
4علی مرتضی
5سعدبن ابی وقاص
6سعیدبن زید
7ابوعبیده بن جراح
8طلحه بن عبیدالله
9زبیربن عوام
10عبدالرحمن بن عوف
این کسانی هستندکه به این هاوعده بهشت داده شده است


1.درموردخلیفه اول مسلمین
نام ..............عبدالله
لقب ............صدیق وعتیق
کنیت ..................ابوبکر
نام پدر.......عثمان (ابوقحافه)
نام مادر.......سلمی(ام الخیر)
سال تولد......دوسال وچندماه بعدازتولدپیامبر(ص)
سال وفات.........22جمادی الثانی سال 13هجری
مدت خلافت ........2سال و3ماه
مرقدشریف .......روضه مطهرنبوی درمدینه
سن ..............63سال
فضلیت:ازهمه امت من نسبت به امتم مهربان ترابوبکراست.

2. خلیفه دوم
نام ......................عمر
لقب ....................فاروق
کنیت.................ابوحفص
نام پدر.................خطاب
نام مادر............حنتمه
سال تولد........583میلادی درمکه
سال وفات ......اول محرم سال 23هجری
مدت خلافت ........10سال و6ماه ازسال 13هجری
مرقدشریف ........روضه مطهرنبوی درمدینه
سن .......63 سال
شهرت:اولین شهیدمحراب
فظیلت :خداوندحق رابرزبان وقلب عمرقرارداده است

3. خلیفه سوم
نام ....................عثمان
لقب ................ذی النورین
کنیت ............ابوعبدلله
نام پدر............عفان
نام مادر.............اروی
تاریخ تولد:576میلادی
تاریخ وفات:روزجمعه 18ذی الحجه سال 35 هجری
مدت خلافت :12سال
مرقدشریف :قبرستان بقیع(مدینه منوره)
سن ...............82سال
فضیلت....................
آیاازشخصی که فرشتگان ازاوحیامی کنند؛حیانکنم

4. خلیفه چهارم
نام .......................علی
لقب.............مرتضی؛اسدلله
کنیت ......ابوالحسن ؛ابوتراب
نام پدر..........عبدمناف(ابوطالب)
نام مادر.............فاطمه
تاریخ تولد...سال32میلادرسول الله (ص)...(10سال قبل ازبعثت)
تاریخ وفات ...... 21رمضان سال40هجری
مدت خلافت...4سال و9ماه
مرقد..........نجف اشرف درعراق
فضیلت ...من شهرعلمم وعلی آن شهردروازه می باشد

سعدبن ابی وقاص
نام ...........سعد
لقب.................فارس اسلام(سوارکاراسلام)
کنیت ...........ابواسحاق
نام پدر............مالک معروف به ابی وقاص
نام مادر............حمنه
تاریخ تولد.............23سال قبل ازهجرت
تاریخ وفات ........55هجری
مرقدشریف .........قبرستان بقیع
سن ........87
فضیلت:خدایا تیرش رااستوارودعایش رااجابت فرما
اولین کسی که درراه خداتیراندازی نمود

سعیدبن زید
نام ..................سعید
کنیت ..............ابوالاعوار
نام پدر...................زید
نام مادر...............فاطمه
تاریخ تولد........27سال قبل ازهجرت
تاریخ وفات ..........51هجری
مرقدشریف ......میدینه منوره
سن .........78سال
فضلیت:خداوندزیدبن عمرو(پدرسعید)رابیامرزدورحمت کنداورا،براستی که وی بردین محمددرگذشته است

ابوعبیده بن جراح
نام ...................عامر
لقب ...... امین امت،امیرالامرا
کنیت ...............ابوعبیده
نام پدر..........عبدالله بن جراح
تاریخ تولد.....40سال قبل ازهجرت
تاریخ وفات ....سال 18هجری مرقدشریف:بیسان اردن
سن .........85سال
فضیلت براستی برای هرامتی امینی است وامین این امت ابوعبیده بن جراح است

طلحه بن عبیدالله
نام ..............طلحه
لقب ............طلحه الخیر،طلحه الفیاض،طلحه الجود
کنیت ..................ابومحمد
نام پدر............عبیدالله
نام مادر..............صعبه
تاریخ تولد.........596میلادی برابر28سال قبل ازهجرت
تاریخ وفات ...........5جمادی الثانی سال36هجری درجنگ جمل(سال656م)
مرقدشریف......اطراف بصره
سن ............63سال
فضیلت:هرکس می خواهدبه شهید زنده درروی زمین نگاه کندبه طلحه بنگرد

زبیربن عوام
نام .............زبیر
لقب .............ابوعبدالله
کنیت ................حواری رسول الله (صلی الله علیه وسلم )
نام پدر............عوام
نام مادر................صفیه
تاریخ تولد...........28سال قبل ازهجرت
تاریخ وفات 5جمادی الثانی 36هجری
مرقدشریف اطراف بصره
سن ............64سال
فضلیت:برای هرپیامبری یاران مخصوصی است ویارمخصوص من زبیراست.
اولین کسی که درراه خداشمشیرکشید

عبدالرحمن بن عوف
نام ................عبدالرحمن
کنیت ............ابومحمد
نام پدر..............عوف
نام مادر..............شفاء
تاریخ تولد.......44سال قبل ازهجرت
تاریخ وفات .....32هجری قمری
مرقدشریف:... قبرستان بقیع
سن.......75سال
فضیلت:عبدالرحمن بن عوف وکیل الله درزمین است.کسی که دوباردرراه خدابه حبشه هجرت کرد

क्या सरकार का काम दमन करना है ?

यह सवाल कई बार अपना जवाब मांगता है जब दमनकारी कानून सामने आते हैं या पुलिस और जांच एजेंसीज का ज़ुल्म होता है।
कल रात राष्ट्रपति प्रणव मुखर्जी ने गुजरात विधान सभा से पारित विधेयक को मंज़ूरी देने से इनकार कर दिया। 30मार्च 15 को गुजरात विधानसभा के सत्र में इसे पारित किया गया था। दरअसल ये बिल 2004 मे मोदी सरकार के लाये बिल का नया संस्करण था । उस वक़्त Gujarat control of organised crime bill(GUJEAS) को राष्ट्रपति कलाम साहब ने मंज़ूरी नहीं दी थी।
आनंदी बेन सरकार के इस क़ानून का विपक्ष और लोकतान्त्रिक ,मानवाधिकार संगठनो ने प्रबल विरोध किया। उनका कहना था कि इस कानून से सरकार और पुलिस जांच एजेंसी को ऐसे  अधिकार  मिल जाएंगे कि जिनका नाजाइज़ इस्तेमाल होगा। निष्पक्ष विवेचना नहीं होगी और झुठे सबूत बना लिए जाएंगे। बिल की धारा 4 के अनुसार किसी भी आरोपी को जिसे इस कानून के तहत गिरफ्तार किया जायेगा वह  ज़मानत या निजी  मुचलके पर रिहा नहीं हो सकेगा। 180 दिन की मुद्दत तक बिना चार्ज शीट या बिना चार्ज के उसको निरुद्ध किय जा सकता है। इतना ही नहीं SP रैंक का अफसर आरोपी का इकबालिया बयान लिख सकता है जो एविडेंस एक्ट के तहत मुक़दमे के दौरान आरोपी के खिलाफ पढ़ा जा सकेगा। इस तरह आरोपी के सामने बचाव के रास्ते नहीं रह गए थे अगर उस को दवाब में या मार का डर दिखा कर इकबालिया बयान लिया गया हो।
ये इस लिए भी गलत है क्यों की भारत का संविधान कानून के समक्ष समानता को मूल अधिकार घोषित करता है। Cr.PC के तहत इस तरह से इकबालिया बयान नहीं लिखा जा सकता ।केवल कोर्ट में ही सेक्शन 164 के तहत बयान कराया जा सकता है।
ऐसा कानून क्यों?
7 जनवरी 2014 को सुप्रीम कोर्ट ने क्रिमिनल अपील 1485/2008  गुजरात राज्य बनाम किशन भाई के केस में अपना फैसला सुनाया । कोर्ट ने कहा की सबूत की कमी से मुल्ज़िम बरी हो जाता है  । इस की वहज ये है कि जस्टिस डेलीवरी सिस्टम में कमियां है । कोर्ट ने कहा कि
1.  बेगुनाह के खिलाफ केस नहीं होना चाहिए
2. बरी होने के मामलों की समीक्षा होनी चाहिए।
3. यदि विवेचना से जुडे किसी अधिकारी ने लापरवाही या गलती की है तो उसके खिलाफ एक्शन होना चाहिए।
अभी बहुत से लोगों को गिरफ्तार किया जा रहा है जिनका फैसला कोर्ट से कब आएगा कोई नहीं जानता। जो 10 या 20 साल बाद बरी हो गए उनको कब झूठा मुक़दमा झेलने का मुआवज़ा   मिलेगा और इन्साफ  ,कोई नहीं जानता।
"पकड़ कर फिर किसी मासूम को तुम जेल कर देना
तुम्हारा काम है इन्साफ को भी खेल कर् देना
बहुत आसान है बम फोड़कर खुद को बचा लेना
कि मुस्लिम नाम रख कर फ़र्ज़ी मेल कर देना."
काश कि दमनकारी कानून बनाने की जगह फेयर इन्वेस्टीगेशन कराने की सोच हो। जल्दी इन्साफ मिलता दिखाई दे ।
ऐसा नहीं होगा क्यों कि जो लोग सत्ता पाते हैं साम्प्रदायिकता और हिंसा  उन की सियासत का ज़रूरी हिस्सा है। नकारात्मकता ,झूठ और मक्कारी कूट कूट कर भरी है।इसी के बल पर वो राजनीति में टिके है। कल्याणकारी सोच और  सकारात्मकता नहीं है।
यही दमनकारी कानून बनाने की वजह है।
उन सब को मुबारकबाद जिन्होंने दमनकारी इस कानून का विरोध किया। संघर्ष जारी रहेगा आगे हर ऐसे अवसर पर।
असद हयात  अधिवक्ता/मानवाधिकार कार्यकर्ता
.

مستشرقین کا چیلنج

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر مستشرقین کا چیلنج اور علمائے کرام کی ذمہ داری کے حوالے سے ایک پوسٹ گردش کررہی ہے. لفظ مستشرق کی جمع مستشرقین ہے، مستشرق کے لغوی معنی ہیں وہ فرنگی جو مشرقی زبانوں اور علوم کاماہر ہو، مستشرقین کے وضاحتی معنی یہ ہیں کہ مغرب (مراد یورپی ممالک) کے جو لوگ علوم اسلامیہ کو مسخ کرنے، اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے، اسلام کی تشکیل جدید اور قرآن و حدیث و فقہ کی نئی ترتیب و تہذیب کے نعرے لگانے اور امت مسلمہ میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کی غرض سے اسلامی علوم و فنون اور تاریخ اسلام کی تعلیم و مطالعہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں۔ ان لوگوں میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں، ان کو مستشرقین کہا جاتا ہے استشراق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا صلیبی جنگوں میں ناکام ہوئی تو تحریک استشراق شروع کی گئی جس کے بیک وقت دو نشانہ تھے۔ اس کا اولین مقصد یہ تھا کہ اسلام کی غلط تصویر پیش کرنا اور مذہب عیسوی کی برتری ظاہر کرنا اور دوسرا مقصد اہل مغرب کو مشرق میں اقتدار کی راہ پیدا کرنا تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عیسائی پادری اور یہودی علماء اسلامیات کے مطالعہ کے لئے وقف کئے گئے۔ خفیہ مقامات پر تعلیم گاہوں کانظم کیاگیا جہاں قرآن، حدیث، فقہ، کلام، تاریخ اور دیگر متعلقات علوم کا درس دیا جانے لگا لیکن تشریح و تفہیم اس طرح ہوتی کہ مسیحی مغرب کے افکار و اقدار کی عظمت سامنے آتی اور اسلام کے دینی افکار اور اقدار کی کوئی وقعت اور قیمت نہ ہوتی اور یہ ذہن نشین کرایاجاتا کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس قسم کی تعلیم گاہوں کے فارغین کے ذریعہ ملک مصر میں ”فرعونی“ اور ملک عراق میں ”آشوری“ شمالی افریقہ میں ”بربری“ فلسطین ولبنان کے ساحل پر ”ہٹی“ تہذیب و زبان کی احیاء کی تحریکیں شروع ہوئیں، انکے مستقل داعی پیدا کئے گئے، انھوں نے اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو نقصان پہنچانے کے لئے شدومد کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی فصیح عربی زبان موجودہ زمانہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی اس کے بجائے عوامی اور مقامی زبانوں کو رواج دیا جائے اور ان ہی کو اخبارات اور کتابوں کی زبان بنادیا جائے۔ مستشرقین کے چیلے مشرقی ممالک میں آئے تو اپنے آپ کو روشن خیال، تجدد پسند، مصلح دین، محقق، مفکر ظاہر کیااور اپنے باطل طریقہ کار کو سائنٹفک اور سسٹمیٹک بتایا اس کے بالمقابل علماء حقانی، سلف صالحین اور مصلحین و مجددین کے طریقے کو دقیانوسی اور نامعقول بتایا، اس سے بھی آگے بڑھ کر مستشرقین نے یورپ و امریکہ اور کناڈا میں قائم کردہ اسلام کی تحقیق کے نام نہاد تعلیمی اداروں کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دئیے۔ اور بڑے بڑے وظیفے دے کر مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ ان میں سے بعض مستشرقین کا آلہ کار بنے۔ یہ ادارے گاہ بگاہ سیمناریں اور مجالس مذاکرات منعقد کرتے رہتے ہیں ان میں اسلامی عقائد اوراسلامی تہذیب پر تحقیر آمیز تنقید کرتے ہیں اور علماء کرام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کا ایک جدید نعرہ ”اجتہاد“ ہے اور اجتہاد کا حق ہر اس مسلمان کو حاصل ہے جو بقول ان کے قرآن کریم کے ترجمے کو کسی بھی زبان میں پڑھ سکتا ہو، مستشرقین کا کہنا ہے کہ مجتہدکو عربی زبان، صرف و نحو، لغت، قرآن و علم تفسیر، حدیث، آثار صحابہ، علم فقہ، علم عقائد،اصول فقہ، ناسخ و منسوخ وغیرہ علوم کی جاننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کے اندر ان علوم کے جاننے کے باوجود نئے مسائل کے استنباط کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص عربی زبان اور دیگر علوم دینیہ حاصل کئے بغیر صرف ترجمہ قرآن کی مدد سے آیات قرآنیہ میں اپنی رائے زنی کرسکتا ہے تو وہ مجتہد ہوسکتا ہے اور فقہ اسلامی میں ٹانگ اڑاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں مستشرقین نے قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، تاریخ اسلام پر پرفریب تنقید کی تھی اس وقت کے علماء کرام نے ان کے مدلل جوابات دئیے تھے اور ان کی غلطیوں سے عوام کو روشناس کرایا تھا اس اہم فریضہ کو انجام دینے میں بالخصوص سیرت النبی … کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی لکھنوٴ کانام نمایاں ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں نے بدنام زمانہ ولیم میور کے سیرت نبوی پر کئے ہوئے اعتراضات کا اپنے طور پر جواب دیا اور اس سلسلہ میں انھوں نے انگلستان کا دورہ کیا۔ سیرت پر ان کا یہ کام انگریزی اور اُردو زبانوں میں شائع ہوچکا ہے اور پھر جب انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات قائم کیا تو اس میں ان علماء ہی کو رکھا جن کے علم و عزم پر اعتماد تھا۔ سرسید احمد خاں نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند سے علی گڑھ میں دینیات کے لئے معلم مانگا تو آپ نے وہاں اپنے داماد کو بھیج دیا جو علی گڑھ میں دینیات کے پہلے ناظم مقرر ہوئے تھے۔
مختصر یہ کہ آج جبکہ مستشرقین علم و تحقیق کے نام پر ایسے نظریات اور اصطلاحات پیش کرتے ہیں جن سے اسلامی تعلیمات کے خلاف ارتداد اور انحراف کی فضا پیدا ہوجائے اور نئی نسل کا تعلیم یافتہ طبقہ عیسائیت کے حلقہ بگوش ہوجائے تو موجود دور کے فکر اور فلسفے کو غلط ثابت کرنے کی سعی ضروری ہے۔ اس وقت علمائے ہند کے کاندھوں پر کتنی ذمہ داری ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی کا ارشاد ہے کہ اسلام وہ مذہب ہے کہ جس دن وہ دین بنا اسی دن وہ سیاست بھی تھا۔ اس کا منبر،اس کا تخت، اس کی مسجد، اس کی عدالت،اس کی توحید نمرودوں اور فرعونوں، قیصروں اور کسراؤں کی شہنشاہی کے مٹانے کا پیغام تھی۔ صحابہ اور خلفاء کی پوری زندگیاں ان مرقعوں سے بھری پڑی ہیں اور وہی اسلام کی سچی تصویریں ہیں اور جب تک علماء علماء رہے وہی ان کا اسوہ تھا ۔ آج ضرورت ہے کہ اسی نقش قدم پر چلیں جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ آج علماء کا کام صرف پڑھانا، مسئلے بتانا اور فتوے دینا سمجھا جاتا ہے، لیکن اب وقت ہے کہ اپنے اسلاف کے وقت کو پھر دہرائیں اور دیکھیں کہ ان کا کام صرف علم و نظر تک محدود نہیں بلکہ سعی و عمل اور عملی خدمت بھی ان کے منصب کا اہم فرض ہے۔
آج کئی گوشوں سے یہ صدا گونجنے لگی ہے کہ دور حاضر میں علماء کو چھوڑئیے ان سے رابطہ نہ رکھئے ان کے بغیر راست ترجمہ قرآن کی مدد سے اسلامی تعلیمات کو سمجھئے، آج نئے شارحین کی ضرورت ہے، یہ آواز مستشرقین کی اور ان کے تربیت افراد کی آواز ہے، نئے ترجمہ، نئے شارحین مغرب سے نکل رہے ہیں بقول مولانا تقی عثمانی آج امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھی اسلامی تعلیم ہورہی ہے۔ اسلام پڑھایا جارہا ہے وہاں پر بھی حدیث فقہ اور تفسیر کی تعلیم کا انتظام ہے ان کے مقالات اگر آپ پڑھیں تو ایسی ایسی کتابوں کے نام نظر آئیں گے جن کا ہمارے سیدھے سادھے مولویوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔ بظاہر بڑی تحقیق کے ساتھ کام ہورہا ہے لیکن وہ دین کی کیا تعلیم ہوئی جو انسان کو ایمان کی دولت بھی عطا نہ کرسکے۔ صبح سے شام تک اسلامی علوم کے سمندر میں غوطے لگانے کے باوجود ناکام ہی لوٹتے ہیں اوراس کے قطرہ سے حلق بھی تر نہیں کرتے۔ مغرب کی ان تعلیم گاہوں میں کلیة شرعیہ بھی ہے، کلیة اصول الدین بھی ہے لیکن اس کا کوئی اثر زندگی میں نظر نہیں آتا۔ ان علوم کی روح فناکردی گئی ہے۔ مستشرقین کے چیلنج کے مدنظر علامہ سید سلیمان ندوی کے اس ارشاد گرامی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر آبادی جہاں علماء رہیں وہ ان کی سعی اور خدمت سے آباد رہے۔ وہاں جاہلوں کو پڑھانا۔ نادانوں کو سمجھانا، غریبوں کی مدد کرنا مسلمانوں کو ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرنا ایک عالم دین کا فرض ہے۔ ہمارا تاثر اور تجزیہ ہے کہ مغرب نے ذہنی علمی جنگ کا چیلنج پیش کیا ہے اس کے لئے ہم کو اس شعور اور آگاہی سے کام لینا پڑے گا جس کے لئے تاریخ کے صفحات پر ہماری شناخت بنی تھی۔ آج ذہنی علمی جنگ بغیر مکمل تیاری کے نہیں لڑی جاسکتی۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آج کے اس میڈیا دور میں مسلم ممالک کا اپنا علیحدہ میڈیا ہونا چاہئے جس کے ذریعہ ہم دشمنان اسلام کے سامنے دین کی صحیح شکل پیش کرسکیں، ہندوستان کے اہل ثروت بھی اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں۔ جو قومیں اپنے زور بازو کے بجائے غیروں کی طاقت پر انحصار کرتی ہیں انھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔
ماخوذ:
المستشرقون والاسلام و
اصلاحی خطبات)

تصوف کیا بلا ہے؟

شیخ الحدیث حضرت مولا نا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمہ اللہ المتوفٰی 1402ھ لکھتے ہیں کہ
ایک مرتبہ 10 بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جا کر کہا کہ رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ جن سے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی بے تکلفی تھی، آئے ہیں، رائے پور جا رہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے،
میں نے کہا۔ جلدی سے بلا دے۔
مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا کر کہا، رائے پور جا رہا ہوں اور ایک سوال آپ سے کر کے جا رہا ہوں، اور پر سوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لوں گا، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟
میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف تصحیح نیت، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتداء انما الاعمال بالنّیّات سے ہوتی ہے اور انتہا ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ ہے،
میرے اس جواب پر سکتہ میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں،
میں نے کہا جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہو رہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہیو۔ اس بات کا خیال رہے کہ دن میں مجھے لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کر لوں گا، لمبی بات چاہو گے تو مغرب کے بعد ہو سکے گی۔
مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ کل رات کو تو ٹھیرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹھیرنا ضروری ہو گیا اس لئے ایک دن پہلے ہی چلا آیا اور یہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت،
میں نے کہا علیٰ ہٰذا القیاس۔
مرحوم نے کہا، مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا...
میں نے کہا، انشاء اللہ مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔ انما الاعمال بالنّیات سارے تصوف کی ابتداء ہے اور ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں، اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔ ؎
حضوری گر ہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ
متی ما تلق من تہوی دع الدنیا وامہلہا
میں نے کہا، مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی لئے پیلے جاتے ہیں، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و کرم سے کسی بھی طرح سے یہ دولت عطا کر دے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہو جاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی، اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کیلئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کیلئے ہرزمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضو ں کو جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے، پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔“
(یاد ایام ،
حصہ اول آپ بیتی،
2صفحہ 49،50 ،
طبع ساہیوال)

کون ہیں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر ؟

آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام بت پرستی کے خلاف وعظ فرمایا کرتے تھے لیکن آپ کی قوم ان کے خلاف ہر کوچہ و بازار میں چرچا کرتی پھرتی تھی اور حضرت نوح علیہ السلام کو طرح طرح کی ایذائیں دیا کرتی تھی۔ چنانچہ قرآن مجید کا بیان ہے کہ:
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسْرًا ﴿ۚ23﴾وَ قَدْ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا ۬ۚ
ترجمہ :۔اور بولے ہرگز نہ چھوڑنا اپنے خداؤں کو اور ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو اور بے شک انہوں نے بہتوں کو بہکایا۔(پ29،نوح:23،24)
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بت پرست ہو گئی تھی۔ اور ان لوگوں کے پانچ بت بہت مشہور تھے جن کی پوجا کرنے پر پوری قوم نہایت ہی اصرار کے ساتھ کمربستہ تھی اور ان پانچوں بتوں کے نام یہ تھے۔
(۱) ودّ
(۲) سُواع
(۳) یغُوث
(۴) یَعُوق
(۵) نسر
جن کا تذکرہ اوپر آیت میں بھی موجود ہے۔ یہ پانچوں بت کون تھے؟ ان کے بارے میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے یہ پانچوں فرزند تھے جو نہایت ہی دین دار و عبادت گزار تھے اور لوگ ان پانچوں کے بہت ہی محب و معتقد تھے۔ جب ان پانچوں کی وفات ہو گئی تو لوگوں کو بڑا رنج و صدمہ ہوا تو شیطان نے ان لوگوں کی تعزیت کرتے ہوئے یوں تسلی دی کہ تم لوگ ان پانچوں صالحین کا مجسمہ بنا کر رکھ لو اور ان کو دیکھ دیکھ کر اپنے دلوں کو تسکین دیتے رہو۔ چنانچہ پیتل اور سیسے کے مجسمے بنا بنا کر ان لوگوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں رکھ لئے۔ کچھ دنوں تک تو لوگ ان مجسموں کی زیارت کرتے رہے پھر لوگ ان بتوں کی عبادت کرنے لگے اور خدا پرستی چھوڑ کر بت پرستی کرنے لگے۔
(تفسیر صاوی، جلد۶، صفحہ۲۲۴۵،پارہ۲۹، نوح:۲۳)
حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک ان لوگوں کو وعظ سنا سنا کر اس بت پرستی سے منع فرماتے رہے۔ بالآخر طوفان میں غرق ہو کر سب ہلاک ہو گئے۔ مگر شیطان اپنی اس چال سے باز نہیں آیا اور ہر دور میں اپنے وسوسوں کے جادو سے لوگوں کو اس طور پر بت پرستی سکھاتا رہا کہ لوگ اپنے صالحین کی تصویروں اور مجسمے بنا کر پہلے تو کچھ دنوں تک ان کی زیارت کرتے رہے اور ان کے دیدار سے اپنا دل بہلاتے رہے۔ پھر رفتہ رفتہ ان تصویروں اور مجسموں کی عبادت کرنے لگے۔ اس طرح شرک و بت پرستی کی لعنت میں د نیا گرفتار ہو گئی اور خدا پرستی اور توحید خالص کا چراغ بجھنے لگا جس کو روشن کرنے کے لئے انبیاء سابقین یکے بعد دیگرے برابر مبعوث ہوتے رہے۔ اسی لئے ہماری شریعت میں نبی اکرم ﷺ نے جاندار کی تصاویر بنانے سے ہی منع فرما دیا۔ اور حدیث کے مطابق جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنب ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
بہت سے علماء نے وڈیو اور کمپیوٹر یاموبائل کی تصاویر کے جواز کا فتویٰ دیا ہے کہ یہ مثل آئینہ ہے کہ موبائل یا ٹی وی بند کیا تو تصویر غائب ہوجاتی ہے۔ جیسے آئینے یا پانی کے سامنے کھڑے ہوں تو آپ کو اپنا عکس نظر آتا ہے اور جب ہٹ جائیں تو عکس یا تصویر غائب ہوجاتی ہے۔اس کے جواز میں علماء نے پورے رسائل لکھے ہوئے ہیں۔اور کچھ علماء کرام نے اس کو بھی حرام ہی لکھا ہے۔ہاں کاغذ کپڑے وغیرہ کے اوپر کسی بھی جاندار کی تصویر سب کے نزدیک ہی ناجائز ہے۔اور بنانے والا گناہ گار ہوگا۔ بہرحال کمپیوٹر موبائل کی تصویر میں علماء کا تھوڑا اختلاف ہے۔ اور حدیث کے مطابق علماء میں اختلاف عامۃ المسلمین یعنی عوام کے لئے باعث رحمت ہی ہوتا ہے۔ 
حضرت نوح علیہ السلام کی دعا اور اس کا جواب
سورة هود آیات۳۶ـ۴۹

قرآن پاک اردو ترجمہ و تفسیر مولانا محمود الحسن
انگلش ترجمہ جسٹس مفتی تقی عثمانی

وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤۡمِنَ مِنۡ قَوۡمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدۡ اٰمَنَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿ۚۖ۳۶﴾

اور حکم ہوا طرف نوح کی کہ اب ایمان نہ لائے گا تیری قوم میں مگر جو ایمان لاچکا سو غمگین نہ رہ ان کاموں پر جو کر رہے ہیں [۵۰]

And it was revealed to NūH: None of your people would come to believe any more, except those who have already believed. So, be not distressed by what they have been doing.

وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ ﴿۳۷﴾ 

اور بنا کشتی روبرو ہمارے اور ہمارے حکم سے اور نہ بات کر مجھ سے ظالموں کے حق میں یہ بیشک غرق ہوں گے [۵۱]

And make an ark under Our eyes and according to Our revelation; and do not speak to Me about those who have crossed the limits, as they are destined to be drowned.”

وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ﴿ؕ۳۸﴾ 

اور وہ کشتی بناتا تھا [۵۲] اور جب گذرتے اس پر سردار اس کی قوم کے ہنسی کرتے اس سے [۵۳] بولا اگر تم ہنستے ہو ہم سے تو ہم ہنستے ہیں تم سے جیسے تم ہنستے ہو [۵۴]

He started making the Ark. Whenever the leaders of his people passed by him, they mocked at him. He said, “If you mock at us, we mock at you like you mock at us:


فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخۡزِیۡہِ وَ یَحِلُّ عَلَیۡہِ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ ﴿۳۹﴾ 

اب جلد جان لو گے کہ کس پر آتا ہے عذاب کہ رسوا کرے اسکو اور اترتا ہے اس پر عذاب دائمی [۵۵]

So, you shall soon know who will be visited by a scourge that will humiliate him, and upon whom a lasting punishment will settle forever.”


حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ قُلۡنَا احۡمِلۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ وَ مَنۡ اٰمَنَ ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۴۰﴾ 

یہاں تک کہ جب پہنچا حکم ہمارا اور جوش مارا تنور نے [۵۶] کہا ہم نے چڑھا لے کشتی میں ہر قسم سے جوڑا دو عدد [۵۷] اور اپنے گھر کے لوگ مگر جس پر پہلے ہو چکا ہے حکم [۵۸] اور سب ایمان والوں کو اور ایمان نہ لائے تھے اس کے ساتھ مگر تھوڑے [۵۹]

At last, when Our command came and the oven overflowed, We said, “Take into the Ark a pair of two from every species, along with your family,-except those against whom the Word has already been pronounced-and (also take into it) those who have believed.” And there were only a few who had believed with him.


وَ قَالَ ارۡکَبُوۡا فِیۡہَا بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۴۱﴾

اور بولا سوار ہو جاؤ اس میں اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا تحقیق میرا رب ہے بخشنے والا مہربان [۶۰]

He (NūH) said, “Embark it. With the name of Allah it sails and anchors. Surely, my Lord is Most-Forgiving, Very-Merciful.

وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۴۲﴾ 

اور وہ لئے جارہی تھی انکو لہروں میں جیسے پہاڑ اور پکارا نوح نے اپنے بیٹے کو اور وہ ہو رہا تھا کنارے اے بیٹے سوار ہو جا ساتھ ہمارے اور مت رہ ساتھ کافروں کے [۶۱]

And it was sailing with them amidst the waves like mountains. And NūH called out to his son, who was at an isolated place, “O my child, come on board with us, and do not be in the company of the disbelievers.”

قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعۡصِمُنِیۡ مِنَ الۡمَآءِ ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الۡیَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ ۚ وَ حَالَ بَیۡنَہُمَا الۡمَوۡجُ فَکَانَ مِنَ الۡمُغۡرَقِیۡنَ ﴿۴۳﴾

بولا جا لگوں گا کسی پہاڑ کو جو بچا لے گا مجھ کو پانی سے [۶۲] کہا کوئی بچانے والا نہیں آ ج اللہ کے حکم سے مگر جس پر وہی رحم کرے اور حائل ہو گئ دونوں میں موج پھر ہو گیا ڈوبنے والوں میں [۶۳]

He said, “I shall take shelter on a mountain which will save me from the water.” He said, “There is no saver today from the command of Allah, except the one to whom He shows mercy.” And the waves rose high between the two, and he was among those who were drowned.


وَ قِیۡلَ یٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقۡلِعِیۡ وَ غِیۡضَ الۡمَآءُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ وَ اسۡتَوَتۡ عَلَی الۡجُوۡدِیِّ وَ قِیۡلَ بُعۡدًا لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۴﴾ 

اور حکم آیا اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان تھم جا اور سکھا دیا گیا پانی اور ہو چکا کام اور کشتی ٹھہری جودی پہاڑ پر اور حکم ہوا کہ دور ہو قوم ظالم [۶۴]

It was said (by Allah), “O earth, suck in your water, and O heaven, stop.” And water subsided, and the matter was over. It (the Ark) came to rest on the Jūdī, and it was said, “Away with the wrongdoers.”

وَ نَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۴۵﴾ 

اور پکارا نوح نے اپنے رب کو کہا اے رب میرا بیٹا ہے میرے گھر والوں میں اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے

NūH called unto his Lord and said, “My Lord, my son is a part of my family, and surely Your promise is true, and You are the greatest of all judges.”

قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۴۶﴾ 

فرمایا اے نوح وہ نہیں تیرے گھر والوں میں اس کے کام ہیں خراب سو مت پوچھ مجھ سے جو تجھ کو معلوم نہیں میں نصیحت کرتا ہو ں تجھ کو کہ نہ ہو جائے تو جاہلوں میں [۶۵]

He said, “O NūH, in fact, he is not a part of your family. Indeed, he is (a man of) bad deeds. So do not ask Me something of which you have no knowledge. I exhort you not to be among the ignorant.”


قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۴۷﴾

بولا اے رب میں پناہ لیتا ہوں تیری اس سے کہ پوچھوں تجھ سےجو معلوم نہ ہو مجھ کو [۶۶[ اور اگر تو نہ بخشے مجھ کو اور رحم نہ کرے تو میں ہوں نقصان والوں میں [۶۷]

He said, “My Lord, I seek refuge with You that I should ask You something of which I have no knowledge. If You do not forgive me and do not show mercy to me, I shall be among the losers.”

قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴۸﴾ 

حکم ہوا اے نوح اتر سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتوں کےساتھ تجھ پر اور ان فرقوں پر جو تیرے ساتھ ہیں اور دوسرے فرقے ہیں کہ ہم فائدہ دیں گے انکو پھر پہنچے گا ان کو ہماری طرف سے عذاب دردناک [۶۸]

It was said, “O NūH, disembark in peace from Us and with blessings upon you and upon the peoples (springing) from those with you. And there are peoples whom We shall give some enjoyment, then a painful punishment from Us will visit them.”

تِلۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ ۚ مَا کُنۡتَ تَعۡلَمُہَاۤ اَنۡتَ وَ لَا قَوۡمُکَ مِنۡ قَبۡلِ ہٰذَا ؕۛ فَاصۡبِرۡ ؕۛ اِنَّ الۡعَاقِبَۃَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾

یہ باتیں منجملہ غیب کی خبروں کی ہیں کہ ہم بھیجتے ہیں تیری طرف نہ تجھ کو ان کی خبر تھی اور نہ تیری قوم کو اس سے پہلے [۶۹] سو تو صبر کر البتہ انجام بھلا ہے ڈرنے والوں کا [۷۰]

These are some reports from the unseen (events), which We reveal to you. You did not know them before this, neither you nor your people. So, be patient. Surely, the end is in favor of the God-fearing.



[۵۰]حضرت نوح علیہ السلام کی دعا اور اس کا جواب:

جب قوم کی ایذائیں حد سے گذر گئیں۔ تو نوح علیہ السلام  نے سینکڑوں برس ظالموں کی زہرہ گداز جفائیں جھیلنے کے بعد خدا کے آگے شکوہ کیا اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِر (القمر۔۵۴) کہ میں مغلوب و ضعیف ہوں۔ آپ ان سے بدلہ لیجئے۔ ارشاد ہوا کہ جن گنے چنے افراد کی قسمت میں ایمان لانا تھا، لاچکے ۔ آئندہ ان میں کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے لہذا اب آپ ان کی عداوت و تکذیب اور ایذا رسانی سے زیادہ غمگین نہ رہیں۔ عنقریب خدا کی شمشیر انتقام بے نیام ہونے والی ہے جو سب شرارتوں اور شریروں کا خاتمہ کر ڈالے گی
۔
[۵۱]کشتی بنانے کا حکم:

حق تعالیٰ نے نوح علیہ السلام  سے فرمایا کہ ایک کشتی ہمارے روبرو (یعنی ہماری حفاظت و نگرانی میں) ہمارے حکم اور تعلیم و الہام کے موافق تیار کرو۔ کیونکہ عنقریب پانی کا سخت خوفناک طوفان آنے والا ہے جس میں یہ سب ظالمین و مکذبین یقینًا غرق کئےجائیں گے ان کے حق میں اب یہ فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا۔ آپ کسی ظالم کی سفارش وغیرہ کے لئے ہم سے کوئی بات نہ کریں۔ آنے والا عذاب بالکل اٹل ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے جب قوم لوط علیہ السلام  کے حق میں جھگڑنا شروع کیا تھا۔ ان کو بھی اسی طرح کا ارشاد ہوا تھا۔ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمۡ اٰتِیۡہِمۡ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرۡدُوۡدٍ (ہود۔۷۶)

[۵۲]حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی:

کہتے ہیں کشتی سالہاسال میں تیار کی۔ کشتی کیا تھی بڑا جہاز تھا۔ جس میں الگ الگ درجے تھے ۔ مفسرین نے اس کی تفاصیل میں بہت سی مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب روایات بیان کی ہیں جن میں اکثر اسرائیلیات ہیں
۔
[۵۳]قوم کا استہزاء:

کہ دیکھو ! پیغمبر سے بڑھئی بن گئے کبھی ایک عجیب سی چیز دیکھ کر نوح علیہ السلام  سے پوچھتے کہ یہ کیا بنا رہے ہو ؟ آپ فرما دیتے کہ ایک گھر بناتا ہوں جو پانی پر چلے گا اور ڈوبنے سے بچائے گا۔ وہ سن کر ہنسی اڑاتے کہ خشک زمین پر ڈوبنے کا بچاؤ کر رہے ہیں
۔
[۵۴]حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "وہ ہنستے تھے کہ خشک زمین پر غرق کا بچاؤ کرتا ہے۔ یہ ہنستے تھے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں" اسی تفسیر کے موافق مترجم محققؒ نے فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ الخ کا ترجمہ بصیغہ حال کیا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ نَسْخَرُ مِنْکُمْ میں استقبال کے معنی مراد لیتے ہیں۔ یعنی آج تم ہمیں احمق بناتے اور ہنستے ہو ۔ لیکن وہ زمانہ قریب ہے کہ اس کے جواب میں تمہاری حماقت و سفاہت پر ہم کو ہنسنے کا موقع ملے گا ، جب تم اپنے جرائم کی پاداش میں سزایاب ہو گے۔

[۵۵]یعنی اب زیادہ تاخیر نہیں۔ جلد آشکارا ہو جائے گا کہ دنیا کا رسوا کن اور آخرت کا دائمی عذاب کس پر نازل ہوتا ہے ؟

:[۵۶]تنور سے پانی کا ابلنا

یعنی نوح  علیہ السلام کشتی تیار کرتے رہے یہاں تک کہ وعدہ کے موافق خدا کا حکم پہنچ گیا۔ "بادلوں" کو کہ برس پڑیں اور زمین کو کہ ابل پڑے ، اور فرشتوں کو کہ تعذیب وغیرہ کے متعلق اپنے فرائض منصبی کا سر انجام کریں۔ آخر اوپر سے بارش آئی اور نیچے زمین کی سطح سے چشموں کی طرح جوش مار کر پانی ابلنے لگا۔ حتٰی کہ روٹی پکانے کے تنوروں میں جہاں آگ بھری ہوتی ہے، پانی ابل پڑا (تنبیہ) "تنور" کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض مطلق روٹی پکانے کا تنور مراد لیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تنور حضرت حوا سے منتقل ہوتے ہوتے حضرت نوح  علیہ السلام کے پاس پہنچا تھا وہ ان کے گھر میں طوفان کا نشان ٹھہرایا گیا تھا۔ کہ جب اس سے پانی ابلے کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ بعض کے نزدیک تنور کوئی خاص چشمہ "کوفہ" یا "جزیرہ" میں تھا ۔ بعض نے دعویٰ کیا ہے تنور صبح کے اجالے اور روشنی کو کہا ہے ۔ یعنی صبح کی روشنی خوب چمکنے لگے۔ ابو حیان کہتے ہیں کہ "فارالتنور" ممکن ہے ۔ "ظہور عذاب" اور "شدت ہول" سے کنایہ ہو جیسے "حمی الوطیس" شدت حرب سے کنایہ ہے۔ ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ تنور کے معنی وجہ ارض (سطح زمین) کے ہیں۔ ہم نے اوپر جو تفسیر کی مقدم اسی معنیٰ کو رکھا ہے اشارہ بعض دوسرے معانی کی طرف بھی کر دیا۔ حافظ ابن کثیر یہ ہی تفسیر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں ۔ وہذا قول جمہور السلف و علماء الخلف واللہ اعلم۔

[۵۷]کشتی کے سوار:

یعنی جن جانوروں کی ضرورت ہے اور نسل باقی رہنی مقدر ہے ، ان میں سے ایک ایک جوڑا (نر اور مادہ دونوں) لے کر کشتی پر سوار کر لو
۔
[۵۸]یعنی مقدر ہو چکا ہے کہ وہ ظالموں کے زمرہ میں داخل ہونے کی وجہ سے غرق کئے جائیں گے وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ (المومنون۔۲۷) اس سے مراد ہے نوحؑ کا بیٹا "یام" جس کا لقب کنعان تھا اور کنعان کی والدہ "واعلہ" گھر والوں میں سے یہ دونوں علیحدہ رہے اور غرق ہوئے
۔
[۵۹]یعنی اسّی مرد یا کم و بیش
۔
[۶۰]سوار ہونے کی دعا:

نوح علیہ السلام  نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ بنام خدا کشتی پر سوار ہو جاؤ ، کچھ فکر مت کرو اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب خدا کے اذن و حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے۔ غرقابی کو کوئ اندیشہ نہیں۔ میرا پروردگار مومنین کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا اور ان پر بے حد مہربان ہے۔ وہ اپنے فضل سے ہم کو صحیح سلامت اتارے گا۔ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کشتی وغیرہ پر سوار ہوتے وقت "بسم اللہ" کہنا چاہئے
۔
[۶۱]حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو سمجھانا:

یعنی کشتی پہاڑ جیسی موجوں کو چیرتی پھاڑتی بے خوف و خطر چلی جارہی تھی۔ سوار ہونے کے بعد نوح  علیہ السلام نے اپنے بیٹے یام (کنعان) کو جو اپنے باپ بھائی وغیرہ سارے کنبہ سے کنارے ہو کر کافروں کی صحبت میں تھا آواز دی کہ ان بدبخت کافروں کی معیت چھوڑ کر ہمارے ساتھ سوار ہو جا ! تا اس مصیبت عظمیٰ سے نجات پاسکے۔ (تنبیہ) یا تو نوح علیہ السلام  اسے مومن خیال کرتے تھے، اس لئے آواز دی خواہ واقع میں مومن نہ ہو۔ یا کافر جانتے ہوں مگر یہ توقع ہو گی کہ ان ہولناک نشانات کو دیکھ کر مسلمان ہو جائے گا۔ یا وَاَھْلَکَ کے عموم میں داخل سمجھ کر شفقت پدری کے جوش سے ایسا کیا ہو اور اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ کو مجمل ہونے کی وجہ سے اس پر منطبق نہ سمجھتے ہوں۔ واللہ اعلم
۔
[۶۲]وہ اپنے جہل و غبادت سے ابھی یہ خیال کر رہا تھا کہ جس طرح معمولی سیلابوں میں بعض اوقات کسی بلندی پر چڑھ کر آدمی جان بچا لیتا ہے میں بھی کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لوں گا
۔
[۶۳]یعنی کس خبط میں پڑا ہے۔ یہ معمولی سیلاب نہیں۔ عذاب الہٰی کا طوفان ہے۔ پہاڑ کی کیا حقیقت کوئی چیز آج عذاب سے نہیں بچا سکتی ہاں خدا ہی کسی پر رحم کرتے تو بچ سکتا ہے مگر اس ہنگامہ داروگیر اور مقام انتقام میں کٹر مجرموں پر رحم کیسا ہے ؟ باپ بیٹے کی یہ گفتگو پوری نہ ہوئی تھی کہ پانی کی ایک موج نے درمیان میں حائل ہو کر ہمیشہ کے لئےدونوں کو جدا کر دیا
۔
[۶۴]طوفان اور اس کا خاتمہ:

ایک مدت تک اس قدر پانی برسا گویا آسمان کے دھانے کھل گئے۔ اور زمین کے پردے پھٹ پڑے۔ درخت اور پہاڑیاں تک پانی میں چھپ گئیں۔ اصحاب سفینہ کے سوا تمام لوگ جن کے حق میں نوح  علیہ السلام نے دعا کی تھی رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا (نوح۔۲۶) غرق ہوئے۔ اس وقت خداوند قدوس نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی نگل جا ! اور بادل کو فرمایا کہ تھم جا ! پھر کیا مجال تھی کہ دونوں اس کے امتثال حکم میں ایک لمحہ کی تاخیر کرتے۔ چنانچہ پانی خشک ہونا شروع ہو گیا۔ کشتی "جودی"پہاڑ پر جا لگی جو بعض کے نزدیک موصل میں تھا۔ اور جو کام خدا نے چاہا (یعنی مجرمین کو سزا دینا) وہ پورا ہو چکا ظالموں کے حق میں کہہ دیا گیا کہ خدا کی رحمت سے دور ہو کر ہمیشہ کے لئے مصیبت و ہلاکت کے غار میں پڑے رہو۔ (تنبیہ) اس میں اختلاف ہے کہ طوفان نوح تمام دنیا میں آیا یا خاص ملکوں میں۔ اس کے فیصلہ کا یہاں موقع نہیں۔ مگر یاد رہے کہ "دائرۃ المعارف" میں بعض محققین یورپ کے ایسے اقوال و دلائل نقل کئے ہیں جو عموم طوفان کی تائید کرتے ہیں۔ جو لوگ عام طوفان کے قائل ہیں ان میں سے اکثر کے نزدیک موجودہ دنیا کے کل انسان نوح علیہ السلام  کے تین بیٹوں سام ، حام ، یافث کی اولاد ہیں۔ وَ جَعَلۡنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الۡبٰقِیۡنَ (الصافات۔۷۷) طوفان سے جو بچے اور حیوانات ہلاک ہوئے ، ان کا اہلاک بطور تعذیب نہ تھا بلکہ جیسے خدا دوسرے اسباب طبیعیہ کے ذریعہ سے ان پر موت وارد کرتا ہے اور وہ ظلم نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہاں ان کی موت اس ذریعہ سے اس واقع ہوئی آخر اب بھی جو سیلاب اور طوفان آتے ہیں ان میں کتنے جانور اور بچے ہلاک ہو جاتے ہیں
۔
[۶۵]اپنے بیٹے کے بارے میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے اسباب:

نوح  علیہ السلام نے یہ کس وقت عرض کیا کنعان کے غرق ہونے سے پہلے یا غرق ہونے کے بعد دونوں احتمال ہیں۔ نیز کنعان کو اس کی منافقانہ اوجاع و اطوار دیکھ کر غلط فہمی سے مومن سمجھ رہے تھے یا کافر سمجھتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں یہ گذارش کی۔ دونوں باتوں کا امکان ہے۔ اگر مومن سمجھ کر غرقابی سے پہلے عرض کیا تھا تو مقصود اپنی اضطرابی کیفیت کا اظہار اور خدا سے کہہ کر اس کے بچاؤ کا انتظام کرنا تھا۔ اور اگر غرقابی کے بعد یہ گفتگو ہوئی تو محض معاملہ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کی غرض سے اپنا خلجان یا اشکال پیش کیا ۔ یعنی خداوندا ! تو نے میرے گھر والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور کنعان مومن ہونے کی وجہ سے اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ کے استثناء میں بظاہر داخل نہیں۔ پھر اس کی غرقابی کا راز کیا ہے ؟ بلاشبہ آپ کا وعدہ سچا ہے۔ کسی کو یہ خیال نہیں گذر سکتا کہ معاذ اللہ وعدہ خلافی کی ہو۔ آپ احکم الحاکمین اور شہنشاہ مطلق ہیں۔ سمجھ میں آئے یہ نہ آئے ، کسی کو حق نہیں کہ آپ کے فیصلہ کے سامنے دم مار سکے ، یا آپ کو وعدہ خلافی پر مجبور کر دے نہ کسی کا یہ منصب ہے کہ آپ کے حکم ناطق کے متعلق کسی قسم کی نکتہ چینی کر سکے فقط قلبی اطمینان کے لئے بطریق استعلام و استفسار اس واقعہ کا راز معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا یہ ان گھر والوں میں سے نہیں جن کے بچانے کا وعدہ تھا بلکہ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے عمل خراب ہیں۔ تم کو اس کے کفر و شرک کی خبر نہیں۔ مقام عجب ہے کہ پیغمبرانہ فراست کی روشنی میں صریح آثار کفر کے باوجود ایک کافر کا حال مشتبہ رہے۔ جس شخص کا واقع حال تمہیں معلوم نہیں اس کے بارہ میں ہم سے ایسی نامناسب رعایت یا اس طرح کی کیفیت مت طلب کرو۔
 مقربین کو لائق نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے ادب ناشناس جاہلوں کی سی باتیں کرنے لگیں۔ آیت کی یہ تقریر اس صورت میں ہے کہ نوح علیہ السلام  کنعان کو مومن سمجھتے ہوں اور اگر کافر سمجھتے تھے تو شائد اس درخواست یا سوال کا منشاء یہ ہو کہ انجاء کے ذکر میں اہل کو چونکہ عام مومنین سے الگ کر کے بیان فرمایا تھا ، اس سے نوح علیہ السلام  نے یہ خیال کیا کہ میرے اہل کو اس دنیوی عذاب سے محفوظ رکھنے کے لئے ایمان شرط نہیں اور اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مجمل تھا۔ اس لئے اس کے مصداق کی تعین نہیں کر سکے۔ بناءً علیہ شفقت پدری کے جوش میں عرض کیا کہ اِلٰہ العالمین ! میرا بیٹا یقینًا میرے اہل میں داخل ہے جس کے بچانے کا آپ وعدہ فرما چکے ہیں۔ پھر یہ کیوں غرق کیا جارہا ہے یا غرق کر دیا گیا۔ جواب ملا کہ تمہارا پہلا ہی مقدمہ (ان ابنی من اہلی) غلط ہے۔ جس اہل کے بچانے کا وعدہ تھا اس میں یہ داخل نہیں کیونکہ اس کے کرتوت بہت خراب ہیں۔ نیز اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ کے مصداق کا تم کو کچھ علم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں پھر جس چیز کا علم تم نہیں رکھتے اس کی نسبت ایسے محاجّہ کے رنگ میں سوال یا درخواست کرنا تمہارے لئے زیبا نہیں
۔
[۶۶]حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ " آدمی وہ ہی پوچھتا ہے جو معلوم نہ ہو۔ لیکن مرضی معلوم ہونی چاہئے یہ کام جاہل کا ہے کہ بڑے کی مرضی پوچھنے کی نہ دیکھے ۔ پھر پوچھے"۔ مرضی کیوں نہ تھی ؟ اسے ہم فائدہ گذشتہ میں بیان کر چکے ہیں
۔
[۶۷]حضرت نوح علیہ السلام کی توبہ:

حضرت نوح علیہ السلام  کانپ اٹھے اور توبہ کی ، لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندہ کو کیا مقدور ہے۔ چاہئے اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو اور دل میں عزم نہ کرنے کا رکھے۔ حضرت آدم علیہ السلام  اور یونس علیہ السلام وغیرہ کی توبہ کے جو الفاظ قرآن میں نقل ہوئے ہیں ان میں یہ ہی ادب ملحوظ رہا ہے
۔
[۶۸]سلامتی اور برکت کا وعدہ:

یعنی کشتی سے جودی پر۔ پھر جودی سے زمین پر اترے۔ برکتیں اور سلامتی آئندہ تم پر اور ان اقوام پر رہے گی۔ جو تمہارے ساتھیوں سے پیدا ہونے والی ہیں۔ فی الحال جو زمین طوفان سے باکل اجڑ گئ ہے خدا دوبارہ آباد کر دے گا اور اس کی رونق و برکت پھر عود کر آئے گی۔ "سلامت" کے لفظ سے گویا حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ پھر ساری نوع انسانی پر قیامت سے پہلے ایسی عام ہلاکت نہ آئے گی۔ مگر بعضے فرقے ہلاک ہوں گے
۔
[۶۹]یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں
۔
[۷۰]جیسے نوح علیہ السلام  اور ان کے رفقاء کے انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوح علیہ السلام  نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔