Saturday 31 October 2015

حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی صاحب دامت برکاتہم(مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء) خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات

حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی صاحب دامت برکاتہم(مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء) خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب دامت برکاتہم(صدر مہتمم دار العلوم دیوبند وقف) سے ملاقات فرماتے ہوۓ۔

حرمت تصویر کی نوعیت

از:           

مولانامحمد شعیب اللہ خاں،
جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم،
بنگلور

 

تصویر کی حرمت پر بہت سے علماء نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے اور ہند و بیرونِ ہند کے دارالافتاوٴں سے بھی اس کے بارے میں حرمت کے فتاوی باربار جاری ہوتے رہے ہیں۔ اور تقریباً اس کا حرام و ناجائز ہونا عوام و خواص کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے ؛مگر اس کے باوجو د اس میں عوام تو عوام خواصِ امت کا بھی ابتلاء عام ہے ، اور اسی صورتِ حال کو دیکھ کر بعض ناواقف لوگوں کو اس کے جائز ہونے کا شبہ ہوجاتا ہے ،بالخصوص جب علماء و مدارس اسلامیہ کے ذمہ دار حضرات کی جانب سے تصاویر کے سلسلہ میں نرم رویہ برتا جاتا ہے اور ان کی تصاویر اخبارات و رسائل وجرائد میں بلا کسی روک ٹوک کے شائع ہوتی ہیں، تو ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ حلال ہونے کی وجہ سے لی جا رہی ہے یا یہ کہ ان کے تساہل کا نتیجہ ہے؟ پھر جب وہ علماء کی جانب رجوع کرتا ہے اور اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو حرام ہے ۔اس سے اس کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ علماء کے بارے میں کسی منفی رائے کے قائم کرنے میں حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔ علماء کی تصاویر کے سلسلہ نے جہاں عوام الناس کو بے چینی و پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، وہیں اس سے ایک حرام کے حلال سمجھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے ، جو اور بھی زیادہ خطرناک و انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے ؛ کیونکہ حرام کو حرام اورحلال کو حلال سمجھنا ایمان کا لازمہ ہے ،اگر کوئی حرام کو حلال سمجھنے لگے تو اس سے ایمان بھی متأثر ہو تا ہے ۔

 کسی عربی شاعر نے اسی صورت پر دلگیر ہو کر یہ مرثیہ لکھا ہے :

کَفٰی حُزْنًا لِلدِّینِ أَنّ حَمَاتَہُ

اِذَا خَذَلُوْہُ قُلْ لَنَا کَیْفَ یُْنصَر

مَتٰی یَسْلَمُ الْاِسْلَامُ مِمَّا أَصَابَہ

اِذَا کَانَ مَنْ یُرْجٰی یُخَافُ وَ یُحْذَر

(دین پر غم کے لیے یہ کافی ہے کہ دین کے محافظ ہی جب اس کو ذلیل کریں تو مجھے بتاوٴ دین کی کیسے نصرت ہو گی ؟ اسلام کب ان باتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو اس کو پیش آرہی ہیں جبکہ جن لوگوں سے اسلام کی حفاظت کے لیے امید لگی ہوئی تھی انھیں سے اس کو خوف وخطرہ لاحق ہو گیا ہے)

آج کئی مدارس اور علماء اور دینی و ملی تحریکات کے ذمہ داران کی تصاویر آئے دن اخبارات میں بلا تامل شائع ہو تی ہیں ، یہاں تک کہ بعض علماء کی جانب سے شائع ہو نے والے ماہناموں میں بھی تصاویر کی بھرمار ہو تی ہے اور ان میں عورتوں اور لڑ کیوں کی تصاویر بھی ہو تی ہیں ۔کیا یہ صورتِ حال انتہائی تعجب خیزاور افسوس ناک نہیں ؟ علماء جو رہبرانِ قوم تھے ان کا خود یہ حال ہو تو عوام الناس کہاں جائیں ؟ کسی شاعر نے کہا:

بِالْمِلْحِ نُصْلِحُ مَا نَخْشٰی تَغَیُّرَہ               
فَکَیْفَ بِالْمِلْحِ اِنْ حَلَّتْ بِہِ الْغِیَر

(ہم نمک کے ذریعہ اس کھانے کی اصلاح کرتے ہیں جس کے خراب ہوجانے کا خدشہ ہو ، اگر نمک ہی میں خرابی پیدا ہو جائے تو کیا حال ہو گا)

 ہمارے اکابر و علماء و مشائخ تو حلال امور میں بھی احتیاط برتتے اور لوگوں کے لیے تقوے کا ایک اعلی نمونہ ہوا کرتے تھے ،اور یہاں یہ ہو رہا ہے کہ حرام کا ارتکاب بے محابا اور کھلے طور پر کیا جا رہا ہے ۔اگر اس میں اختلاف بھی مان لیا جائے تو رہبرانِ قوم کا کیا فرض بنتا ہے ؟ اس پر غور کیجیے ۔

 حرمتِ تصویراور جمہورِ امت کا مسلک

عکسی تصویراور ٹی وی اور ویڈیو کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علماء ہند و پاک ہی ان کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور عالم اسلام کے دوسرے علماء جیسے علماء عرب و مصر وغیرہ سب کے سب ان کو جائز کہتے ہیں ،یہ غلط فہمی خود بندے کو بھی رہی ،لیکن ایک مطالعہ کے دوران علماء عرب و مصر کے متعدد فتاوی وتحریرات نظر سے گزریں تو اندازہ ہوا کہ ان حضرات میں سے بھی جمہورعلماء کا ” عکسی تصویر“ اور” ٹی وی“ اور” ویڈیو “کے بارے میں وہی نقطہ ٴ نظر ہے جو ہندوستانی و پاکستانی علماء کا شروع سے رہا ہے ۔

 ہاں اس میں شک نہیں کہ وہاں کے بعض گنے چنے علماء نے عکسی تصویر کو جائز کہا ہے اور ٹی وی اور ویڈیو کی تصاویر کو بھی عکس مان کر ان کو بھی جائز کہا ہے،لیکن یہ وہاں کے جمہور کا فتوی نہیں ہے، جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ یہ تصاویر کے حکم میں ہیں اور اس لیے حرام و ناجائز ہیں ۔ اور خود وہاں کے علماء نے مجوزین کا خوب رد و انکار بھی کردیا ہے ۔جیسے شیخ حمود بن عبد اللہ التویجری نے ” تحریم التصویر “ اور” الاعلان بالنکیر علی المفتونین بالتصویر “نامی رسائل اسی سلسلہ میں لکھے ہیں ، نیز جامعہ قصیم کے استاذ شیخ عبد اللہ بن محمد الطیار نے ” صناعة الصورة بالید مع بیان احکام التصویر الفوتوغرافي “ کے نام سے رسالہ لکھا ہے ،اور مصر کے عالم شیخ ابو ذر القلمونی نے ”فتنة تصویر العلماء “ کے نام سے ان کا رد لکھا ہے ، نیز علماء نے اپنے اپنے فتاوی میں بھی اس پر کلام کیا ہے ۔اسی طرح ڈش آنٹینا جس کا فساد اب حد سے تجاوز کرگیا ہے اور اس نے انسانوں کی تباہی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے، اس کے بارے میں بھی علماء عرب کے فتاوی میں حرمت کا حکم اور اس سے بچنے کی تلقین موجود ہے ۔

حرمتِ تصویر اور علماء ہند،پاک

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیاکہ کیمرے کی عکسی تصویر کی حرمت میں اگر چہ معاصر علماء کے درمیان میں اختلاف ہوا ہے ،اور ایک چھوٹی سی جماعت اس کے جواز کی جانب مائل ہو ئی ہے ،لیکن اس میں کیا شک ہے کہ تصویر کی حرمت جمہور امت کا متفقہ فتوی و فیصلہ ہے ، عرب سے لے کر عجم تک جمہور امت نے اسی کو قبول کیا ہے ۔

 جہاں تک علماء ہند،پاک کا تعلق ہے ،بات بالکل واضح و مسلم ہے ۔ فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ علیہ نے تو اپنے رسالہ ”التصویر لأحکام التصویر“میں یہ تصریح کی ہے کہ ان کے زمانے تک کم از کم ہندوستان (جو اس وقت تک غیر منقسم تھا)میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے علاوہ کسی نے جواز پر قلم نہیں اٹھایااور پھر انھوں نے بھی اس سے رجوع کر لیا۔ (جواہر الفقہ: ۳/۱۷۱)

یہاں یہ عرض کردینا مناسب ہوگا کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی  نے ماہنامہ ” معارف“ کی متعدد قسطوں میں ایک مضمون عکسی تصویر کے جائز ہونے پر لکھا تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس کے رد میں ”التصویر لأحکام التصویر“ لکھی ، اس کو دیکھ کر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے جواز کے قول سے رجوع کر لیا تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ رجوع و اعتراف کا مضمون علامہ سید صاحب کے کمال علم اور کمال تقوی کا بہت بڑا شاہکار ہے ، اس پر خود حضرت مرشد تھانوی سیدی حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے غیر معمولی مسرت کا اظہار نظم میں فرمایا ۔

تین قسم کے لوگ...تین قسم کا معاملہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم !

قیامت کے روز
تین طرح کے لوگ
اللٰہ کی ان تین نعمتوں سے محروم رہیں گے...

اللٰہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کریگا.
اللٰہ تعالیٰ انکی جانب نظر رحمت نہیں کریگا.
اللٰہ تعالیٰ انھیں پاک نہیں کریگا.

کون ہیں وہ تین؟
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا.
جھوٹی قسم سے اپنا سودا بیچنے والا.
دے کر احسان جتلانے والا.

اللٰہ کے غصّہ سے بچنے کے لئیے ہمیں تین کام کرنے ہیں.
گزشتہ کیے پر معافی طلب کریں.
حال میں عمل.
آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ!!!



الحمد للهما قاله لك صاحبك حقّ ، وقد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم أحاديث كثيرة في منع الإسبال فمن ذلك :ما رواه البخاري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :) ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار ( البخاري رقم 5787وقال صلى الله عليه وسلم ) ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ:الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ«

رواه مسلم رقم 106

Friday 30 October 2015

एक मच्छर का एक्सक्लूजिव इंटरव्यु...ا ایک مچھر کا تازہ ترین انٹرویو

ایک مچھرسے انٹرویوکے دوران رپورٹر نے پوچھا کہ آپ کی جارحیت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے؟ کیوں؟
مچھر: صحیح لفظ استعمال کیجئے، اسے جارحیت نہیںبلکہ پھلنا پھولناکہتے ہیں۔لیکن تم بنی نوع انسان تو دوسروں کو پھلتے پھولتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتے نا؟ عادت سے مجبور جو ٹھہرے۔
رپورٹر: ہمیں آپ کے پھلنے پھولنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن آپ کے کاٹنے سے لوگ جان گنوا رہے ہیں، عوام میںدن بدن خوف وہراس پھیل رہا ہے؟
مچھر: ہم صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔ شری کرشن نے گیتا میں کہا ہے کہ’کرم ہی پوجا ہے‘اعمال ہی عبادت ہے۔ اب ودھاتا نے تو ہمیں کاٹنے کیلئے ہی پیدا کیا ہے،ہل میں جوتنے کیلئے نہیں! جہاں تک لوگوں کے جان گنوانے کا سوال ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ نفع و نقصان، زندگی و موت، عزت و ذلت کس کے ہاتھ میں ہے۔۔۔!
رپورٹر: لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ ہمیںفلاسفی کاسبق پڑھا رہے ہیں؟
مچھر: آپ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ رہے ہیں۔ ہماری وجہ سے بہت سے لوگوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے، یہ شاید آپ کو معلوم نہیں! جائیں ان دنوں کسی ڈاکٹر، کیمسٹ یا پیتھالوجی لیب والے کے پاس، آپ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوگی اسے۔ ارے بھیا، ان کے بیوی بچے ہمارا’سیزن‘ آنے کی راہ دیکھتے ہیں، تاکہ ان کی سال بھر سے پینڈنگ پڑے ہوئے مطالبات پورے ہو سکیں۔ کیا سمجھے آپ؟ یہ مت بھولئے گاکہ ہم ملک کی اقتصادیات کے فروغ میں اہم کردار ادا نہیںکر رہے ہیں!
رپورٹر: لیکن مر تو غریب رہا ہے نا، جو علاج کروانے کے قابل ہی نہیں ہے؟
مچھر: جی ہاں تو غریب جی کرکرے گا بھی کیا ؟جس غریب کو اپنا گھر تو چھوڑو، کالونی تک میں گھسنے نہیں دینا چاہتے، اس کیساتھ کسی طرح کا رابطہ نہیں رکھنا چاہتے، اس کے مرنے پر تکلیف ہونے کا ڈھونگ کرنا بند کیجئے آپ لوگ۔
رپورٹر: آپ نے دہلی میں کچھ زیادہ ہی قہر برپاکر رکھا ہے؟
مچھر: دیکھئے ہم سیاسی قائد نہیں ہیں جو امتیازی سلوک کریں ۔۔۔ ہم سب جگہ اپنا کام پوری محنت اور لگن سے کرتے ہیں۔ دہلی میں ہماری اچھی کارکردگی کی وجہ محض اتنی ہے کہ یہاں ہمارے کام کرنے کیلئے سازگار ماحول ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومت کی باہمی جنگ کا بھی ہمیں معقول فائدہ میسر ہے۔
رپورٹر: ٹھیک ہے، اب آخر میں آپ یہ بتائیے کہ آپ کے ان مظالم سے بچنے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں؟
مچھر: اقدامات تو ہیں اگر کوئی کر سکے تو ۔۔۔ مسلسل سات ہفتہ تک سیاہ سفید دھبوں والے کتے کی دم کے بال لے کر ببول کے درخت کی جڑ میں بکری کے دودھ کیساتھ چڑھانے سے ہم خوش ہو جائیں گے اور اس شخص کو نہیں کاٹیں گے!
رپورٹر: آپ مسئلہ کا حل بتا رہے ہیں یاتواہم پرستی پھیلا رہے ہیں؟
مچھر: دراصل عام ہندوستانی لوگ ایسے ہی اقدامات کیساتھ سکون محسوس کرتے ہیں! انہیںسائنس سے زیادہ ٹونے ٹوٹکے میںیقین ہوتا ہے .... ویسے صحیح اقدامات تو صاف صفائی رکھنا ہے، جو روز ہی ٹی وی چینل اور اخبارات کے ذریعے بتائے جاتے ہیں، لیکن اسے مانتا کون ہے؟اگر اسے مان لیا ہوتا تو آج آپ کو میرا انٹرویولینے نہیں آنا پڑتا .... !اب دیکھئے میری نسل کے ذریعہ پھیلنے والی تباہی کی ایک جھلک....
کہاں سے ہوئی شروعات؟
1775کی دہائی میں جب ایشیا،افریقہ اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتاجبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی بھی شکایت ہو گئی۔یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار مر گئے۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی۔جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔
کیا ہے اس کی شناخت؟
1979کی دہائی میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخارکا نام دیا گیاجبکہ پڑوس کے ملک میں ڈینگی کہا جاتا ہے۔دراصل ڈینگو dengue ہسپانوی یااسپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp یا seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔1950میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاکے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو گئے۔1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو گئی۔2002کے دوران برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست ریوڈی جینی رو Rio de Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات دیکھنے میںآئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو تے ہیں جبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔ جوشخص ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے ، وہ اگلی مرتبہ بھی اس بیماری کا جلد شکار ہو تا ہے۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے۔ اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تاہم2003سےPediatric Dengue Vaccine Initiative (PDVI) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔2002 میں سوئس فارما کمپنی اورسنگا پور اکنامک ڈیولپمنٹ بورڈنے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں ، گلی کوچوں میں جراثیم کش ادویات کا مسلسل سپرے کیا جائے تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہو جائے۔جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور گھروں میں مچھر کش ادویات سپرے کی جائے۔
وبا کی صورت:
حال ہی میں یہ بیماری ایک مرتبہ پھر وبا کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے۔میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اگست سے اکتوبر 2006میں Dominican Republic میں ڈینگو بخار پھیلا جس سے44سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ستمبر سے اکتوبر 2006میں کیوبا میں اس بیماری سے اموات ہوئیں۔جبکہ جنوب مغربی ایشیامیں بھی یہ وائرس پھیل رہا ہے۔فلپائن میں جنوری سے اگست2006کے دوران اس مرض کے13468مریض پائے گئے جن میں 167افراد ہلاک ہو گئے۔مئی2005میں تھائی لینڈ میں اس وائرس سے 7200افراد بیمار ہو گئے جن میں 21سے زائد ہلاک ہو گئے۔2004میں انڈونیشیا میں 80000افراد ڈینگو کا شکار ہو ئے جن میں800سے زائد ہلاک ہو گئے۔جنوری2005میں ملیشیا میں33203افراد اس بیماری کا شکار ہوئے۔سنگا پور میں 2003میں4788افراد اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ2004میں9400افراد اور2005اس مرض سے 13افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئیں۔15مارچ2006کو آسٹریلیا میں اس مرض کے پھیلنے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی۔ستمبر2006میں چین میں اس مرض میں70افراد مبتلا ہوئے۔ستمبر2005میں کمبوڈیا میںڈینگو سے38افراد ہلاک ہوئے۔ 2005میںکوسٹا ریکا میں19000افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک فرد کی موت ریکارڈ ہوئی۔2005کے دوران ہندوستان کے بنگال میں900افراد بیمار ہوئے جبکہ15افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں انڈونیشیا میں80837افراد اس بخار میں مبتلا ہوئے جبکہ1099افراد کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔2005میں ملائشیا میں32950افراد اس بیماری کا شکار ہوئے اور83افرادہلاک ہو گئے۔2005میں Martinique میں6000افراد ڈینگو کا شکار ہوئے جبکہ2ستمبر کو اس مرض سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں ہی فلپائن میں 21537افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے280افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں سنگاپور میں12700افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جبکہ19افراد کی اس مرض کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں سری لنکا میں 3000سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔2005میں تھائی لینڈ میں 31000افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ58کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جبکہ2005میں ویتنام میں اس مرض کا شکار 20000سے زائد افراد پائے گئے جن میں28افراد ہلاک ہو گئے۔
سستا اور آسان علاج1:
سری لنکا کی ایک میڈیکل یونیورسٹی نے ڈینگی بخار کا سستا اور آسان علاج ریافت کیا ہے. ان کے مطابق گنے کے خالص رس کے ایک گلاس میں ایک چمچ چقندر اور ایک ہی چمچ لیموں کا جوس شامل کر کے دن میں دو دفعہ اور مسلسل تین روز تک پلانے سے بخار اتر جاتا ہے۔
سستا اور آسان علاج2:
عبقری میںڈاکٹر شاہین رشیداسسٹنٹ پروفیسرکینسرسپیشلسٹ گنگا رام اسپتال لاہورکہتی ہیں کہ قدرت کا ایک ایسا ہی راز شفاپپیتے کے درخت کے پتوں میں پنہاں ہے۔ پپیتے کا درخت ایک عجیب احساس تفاخر لئے بنا کسی خم کے آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے تو اس کے پتے بھی نشوونما کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ خوبصورت کٹاﺅوالے یہ پتے اپنے اندر عجیب شفائی خصوصیات رکھتے ہیں ان میں سے ایک تحریر آپ کی نظر ہے۔ شکیل صاحب ایک مقامی کالج میں پڑھاتے ہیں گزشتہ برس انہیں بھی ڈینگو نے گھیرلیا، وہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان تھے ۔جب پروفیسر ڈاکٹر عابد علی صاحب سے ذکر کیاگیا تو انہوں نے فرمایا کہ انہیں پپیتے کے پتے پلائیں۔ پروفیسرصاحب سے اگرچہ تفصیلات میسر نہیں تاہم مریض کو پپیتے کے پتے کا قہوہ پلانے کیلئے کہا جاتا ہے ۔ اس سے پلٹ لیٹس زیادہ ہوجاتی ہیں۔ کچھ دن کے استعمال کے بعد ان کی پلٹ لیٹس زیادہ ہونے لگیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک سال پہلے ان کے خاندان میں بہت سے افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوگئے تھے اور پلٹ لیٹس کی کمی کی وجہ سے زیادہ خون بہنے سے دو لوگ تو اللہ کو پیارے ہوگئے تھے لیکن خداکا شکر کہ قدرت کے اس تحفے نے انہیں ایک نئی زندگی عطا فرمائی ۔ اس کے چند دن کے بعد میرے خاوند بھی ڈینگی بخار میں مبتلا ہوگئے کیونکہ وہ خود بھی ڈاکٹر ہیں پہلے ہی دن (تیز بخار اور جسم کی شدید دردوں کی وجہ سے) خون کا نمونہ ٹیسٹ کروانے کیلئے بھیج دیا۔ رپورٹ میںپلٹ لیٹس اور خون کے سفید ذرات دونوں کم ہوچکے تھے۔ اسی دن پپیتے کے پتے منگوا کر ان کو قہوہ شروع کروایا۔ پیراسیٹامول اور معدے کی سوزش کی حفاظتی دوا کے ساتھ چھ دن کے اندر نہ صرف بخار اتر گیا بلکہ خون کے تمام ذرات بھی نارمل ہوگئے۔ اکتوبر کے مہینے میں میرے بیٹے کو تیز بخار ہوگیا۔ جسم کی شدید دردوں اور دوسری علامات نے ڈینگی بخار کا اشارہ دیا۔ پہلے ہی دن خون کے نمونے میں پلیٹ لٹس ایک لاکھ تک گرگئے جبکہ ایک صحت مند انسان کے خون میں پلیٹ لٹس کی تعداد ڈیڑھ سے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔نیز سفید ذرات بھی 2000/cmm تک ہوگئے جبکہ نارمل تعداد چار ہزار سے گیارہ ہزار تک ہوتی ہے۔ پلیٹ لٹس جسم سے چوٹ، زخم و آپریشن وغیرہ کی صورت میں خون کے زیادہ بہاﺅ کو روکتی ہیں جبکہ اگر ایک خاص حد تک کمی واقع ہوجائے تو معمولی زخم بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خون کے سفید ذرات جنہیں خون کی رپورٹ میں W.B.C3یا TLC کے ساتھ لکھا جاتا ہے کی کمی بھی مختلف قسم کے انفیکشن کو جنم دیتی ہے۔میں شفائے مدینہ کی خصوصیات اور افادیت سے بخوبی واقف ہوں۔ اسی دن شفائے مدینہ کا قہوہ اور پپیتے کے پتے استعمال کروانے شروع کیے۔ اس مرتبہ تجربے کی روشنی میں پپیتے کے پتے کا قہوہ بنانے کی بجائے کچھ پتے اچھی طرح دھو کر تھوڑے سے پانی میں Blend کرکے اس کا خالص عرق نکالا اور بیٹے کو دیا۔ ہر چھ گھنٹے کے بعد دو بڑے چمچ دینے سے نتیجہ انتہائی حیرت انگیز اور خوشگوار ہوا اور چوتھے ہی دن بیٹے کانہ صرف بخار اتر گیا بلکہ پلیٹ لٹس بھی 175,000/cmm ہوگئے اور الحمدللہ پانچویں دن امتحان دینے کے بھی قابل ہوگیا۔
اللہ شافی:
آپ بھی قہوہ بھی پلاسکتے ہیں ہر 2 گھنٹے کے بعد ایک کپ۔ اب اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتی ہوں۔ بیٹے کے بخار کے چند دن بعد مجھے بھی تیز بخار ہوگیا۔ دس گھنٹے کی شدید دردوں کے ساتھ ہونے والے 103 ڈگری نے پہلے ہی دن ڈینگی بخار کا پتہ دے دیا چوبیس گھنٹوں کے اندر خون کے سفید ذرات آدھے سے کم رہ گئے اور پلیٹ لٹس 102,000/Cmm تک کم ہوگئے ہر چھ گھنٹے کے بعد دو پیرا سیٹامول کھانے سے بخار 104,103 سے 100 تک کم ہوجاتا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بخار کم کرنے کی کوئی بھی دوا 102 سے زیادہ بخار کی صورت میں بے اثر ہوتی ہے۔ 102 سے زیادہ بخار کیلئے ضروری ہے کہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرکے بخار 102 یا اس سے کم پرلایا جائے اور پھر کوئی دوا استعمال کی جائے۔ کیونکہ میں الحمدللہ دوا کا استعمال بہت کم کرتی ہوں۔ پیراسیٹامول نے اگلے ہی دن معدے میں اتنی سوزش کردی کہ پانی یا کوئی دوا اندر نہیں ٹھہرتی تھی اور قے ہوجاتی تھی۔ اس لئے پپیتے کے پتے کا عرق بہت کم لیا گیا۔ نتیجتاً میرے پلیٹ لٹس چوتھے دن صرف 12000/Cmm رہ گئیں جبکہ بخار کے پانچویں دن پلیٹ لٹس کی کمی کی وجہ سے ناک سے بلیڈنگ شروع ہوگئی۔اسپتال سے پتہ چلا کہ پلیٹ لٹس کیلئے بیگز وغیرہ کہیں دستیاب نہیں ہیں اور خون سے پلیٹ لٹس الگ کرنے کی مشین بھی خراب ہے۔پرائیوٹ لیبز میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی وہاں تو حالات یہ تھے کہ مریضوں کے ناموں کی لٹس آویزاں تھیں اور باری آنے پر بھی پلیٹ لٹس کیلئے ٹائم دیا جارہا تھا۔پریشانی تو ہوئی لیکن قے روکنے کی دوائیوں اور معدے کی سوزش کیلئے مختلف ٹیکے لگانے کے بعد پپیتے کے پتے کا عرق جیسے ہی معدے میں ٹھہرنے لگا تو 2 دن کے بعد پلیٹ لٹس بڑھنا شروع ہوگئے۔ قدرت کے اس انمول تحفے پر احساس ہوا کہ اللہ کی اس دنیا میں کوئی بھی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انہی دنوں میرے ایک مریض جو گزشتہ2 سال سے ایک قسم کے کینسرMultiple Myeleriaمیں مبتلا تھے۔ جہلم کے اسپتال میں خون کی الٹیوں اور کالے پاخانوں کے ساتھ داخل ہوئے بہت تشخیص کے باوجود وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ ان کی ہیموگلوبن 5.0 جی ایم تک گرگئی۔ خون کی سات بوتلیں لگانے کے باوجود Hb-7.0 gm سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ جب جہلم اسپتال کی میڈیکل وارڈ کی نرس نے فون پر میرے استفسار پر بتایا کہ مریض کے پلیٹ لٹس 40,000/cmm تک کم ہوگئے اور سفید ذرات بھی 2000/Cmm ہیں تو میں نے انہیں پپیتے کے پتوں کا مشورہ دیا۔ اگرچہ ان کا ڈینگو بخار کا ٹیسٹ بھی نگٹیو آیا تھا۔ چند دن انہوں نے اس مشورہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ شاید ایک وجہ وہاںسے پپیتے کے پتے نہ ملنا بھی تھی۔ اب حالت زیادہ خراب ہونے پر وہ مریض کو لاہور لے آئے اور الحمدللہ پپیتے کے پتوں کا عرق پلانے سے صرف چار دن کے اندر پلیٹ لٹس 75000/Cmm تک بڑھ گئے اور وہ تندرست ہونے لگا اور مزید خون لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ طریقہ استعمال:پپیتے کے چند پتے لے کر اچھی طرح دھو لیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے Blenderکے جگ میں ڈالیں تھوڑا سا پانی شامل کرکے ململ کے باریک کپڑے یا باریک سوراخ والی چھلنی سے چھان لیں ہر چھ گھنٹے کے بعد دو بڑے چمچ استعمال کریں۔ کوشش کریں کہ صبح وشام تازہ عرق نکالیں۔ تھوڑی کڑواہٹ کی وجہ سے قے آنیکی صورت بن سکتی ہے۔واضح رہے کہ سیب کے تازہ جوس میں لیمو ں کا رس ملا کر پینے سے بھی پلیٹ لٹس بہتر ہوجاتی ہیں۔
http://www.ubqari.org/index.php?r=article/details&id=1971

Why Dengue Spreading?
By: S. A. Sagar
Dengue fever, also known as breakbone fever, is a mosquito-borne tropical disease caused by the dengue virus. According to reports, October 2, 2015, as the number of dengue cases rise alarmingly in Delhi, hospitals are also witnessing an increasing number of other viral and bacterial diseases this season. Analysis of several suspected cases of dengue have revealed that many are, in fact, other diseases, especially bacterial infections, according to doctors.
“Bacterial diseases are increasing this year. Besides dengue, there are several other diseases with symptoms similar to dengue. For instance, all sepsis or blood infections cause a fall in platelets, and these might be confused with dengue till further tests and examinations are conducted. Also, several patients with complaints of dengue turn out to be suffering from bacterial diseases like typhoid or B.coli,” said Dr Chand Vattal, chairperson of the microbiology department at Sir Ganga Ram Hospital.
Respiratory diseases with symptoms including fever, nasal discharge and cough are common this season, said doctors.
Lalit Dar, professor of microbiology at AIIMS.
He added, “There has been a conspicuous increase in dengue cases this year. However, there are patients with common seasonal diseases like malaria and typhoid…which occur every year during the monsoons.”
A few cases of co-infections — when a patient suffers from dengue as well as another disease — have also been reported this year, said doctors.
“Co-infections are reported by 8-10 per cent of patients. This is a common phenomenon. This year, because of the dengue outbreak, we are following the first line of testing and treatment for all patients with suspected dengue and treating them accordingly,” said Dr S Chatterjee of Apollo hospital. “But if the test results don’t match, we begin other tests. When other diseases like typhoid or malaria are diagnosed, we treat patients accordingly,” he added.
What is Dengue fever?
Symptoms include fever, headache, muscle and joint pains, and a characteristic skin rash that is similar to measles. In a small proportion of cases, the disease develops into the life-threatening dengue hemorrhagic fever, resulting in bleeding, low levels of blood platelets and blood plasma leakage, or into dengue shock syndrome, where dangerously low blood pressure occurs.
Dengue is transmitted by several species of mosquito within the genus Aedes, principally A. aegypti. The virus has five different types; infection with one type usually gives lifelong immunity to that type, but only short-term immunity to the others. Subsequent infection with a different type increases the risk of severe complications. As there is no commercially available vaccine, prevention is sought by reducing the habitat and the number of mosquitoes and limiting exposure to bites.
Treatment of acute dengue is supportive, using either oral or intravenous rehydration for mild or moderate disease, and intravenous fluids and blood transfusion for more severe cases. The number of cases of dengue fever has increased dramatically since the 1960s, with between 50 and 528 million people infected yearly. Early descriptions of the condition date from 1779, and its viral cause and transmission were understood by the early 20th century. Dengue has become a global problem since the Second World War and is endemic in more than 110 countries. Apart from eliminating the mosquitoes, work is ongoing on a dengue vaccine, as well as medication targeted directly at the virus.

एक मच्छर का एक्सक्लूजिव इंटरव्यु...
रिपोर्टर :  आपका प्रकोप दिनोंदिन बढ़ता ही जा रहा है ? क्यों ?
मच्छर : सही शब्द इस्तेमाल कीजिये, इसे प्रकोप नहीं फलना-फूलना कहते हैं. पर तुम इंसान लोग तो दूसरों को फलते-फूलते देख ही नहीं सकते न ? आदत से मजबूर जो ठहरे.
रिपोर्टर : हमें आपके फलने-फूलने से कोई ऐतराज़ नहीं है पर आपके काटने से लोग जान गँवा रहे हैं, जनता में भय व्याप्त हो गया है ?
मच्छर : हम  सिर्फ अपना काम कर रहे हैं. श्रीकृष्ण ने गीता में कहा है कि ‘कर्म ही पूजा है’. अब विधाता ने तो हमें काटने के लिए ही बनाया है, हल में जोतने के लिए नहीं ! जहाँ तक लोगों के जान गँवाने का प्रश्न है तो आपको मालूम होना चाहिए कि “हानि-लाभ, जीवन-मरण, यश-अपयश विधि हाथ’ …!
रिपोर्टर : लोगों की जान पर बनी हुई है और आप हमें दार्शनिकता का पाठ पढ़ा रहे हैं ?
मच्छर : आप तस्वीर का सिर्फ एक पहलू देख रहे हैं. हमारी वजह से कई लोगों को लाभ भी होता है, ये शायद आपको पता नहीं ! जाइये इन दिनों किसी डॉक्टर, केमिस्ट या पैथोलॉजी लैब वाले के पास, उसे आपसे बात करने की फ़ुर्सत नहीं होगी. अरे भैया, उनके बीवी-बच्चे हमारा ‘सीजन’ आने की राह देखते हैं, ताकि उनकी साल भर से पेंडिंग पड़ी माँगे पूरी हो सकें. क्या समझे आप ? हम देश की इकॉनोमी बढाने में महत्त्वपूर्ण योगदान कर रहे हैं, ये मत भूलिएगा !
रिपोर्टर : परन्तु मर तो गरीब रहा है न, जो इलाज करवाने में सक्षम ही नहीं है ?
मच्छर : हाँ तो गरीब जी कर भी क्या करेगा ?
जिस गरीब को आप अपना घर तो छोडो, कॉलोनी तक में घुसने नहीं देना चाहते, उसके साथ किसी तरह का संपर्क नहीं रखना चाहते, उसके मरने पर तकलीफ होने का ढोंग करना बंद कीजिये आप लोग.
रिपोर्टर : आपने दिल्ली में कुछ ज्यादा ही कहर बरपा रखा है ?
मच्छर : देखिये हम पॉलिटिशियन नहीं हैं जो भेदभाव करें … हम सभी जगह अपना काम पूरी मेहनत और लगन से करते हैं. दिल्ली में हमारी अच्छी परफॉरमेंस की वजह सिर्फ इतनी है कि यहाँ हमारे काम करने के लिए अनुकूल  माहौल है. केंद्र और राज्य सरकार की आपसी जंग का भी हमें भरपूर फायदा मिला है.
रिपोर्टर : खैर, अब आखिर में आप ये बताइये कि आपके इस प्रकोप से बचने का उपाय क्या है ?
मच्छर : उपाय तो है अगर कोई कर सके तो … लगातार सात शनिवार तक काले-सफ़ेद धब्बों वाले कुत्ते की पूँछ का बाल लेकर बबूल के पेड़ की जड़ में बकरी के दूध के साथ चढाने से हम प्रसन्न हो जायेंगे और उस व्यक्ति को नहीं काटेंगे !
रिपोर्टर : आप उपाय बता रहे हैं या अंधविश्वास फैला रहे हैं ?
मच्छर : दरअसल आम हिन्दुस्तानी लोग ऐसे ही उपायों के साथ comfortable फील करते हैं ! उन्हें विज्ञानं से ज्यादा किरपा में यकीन होता है…. वैसे सही उपाय तो साफ़-सफाई रखना है, जो रोज ही टीवी चैनलों और अखबारों के जरिये बताया जाता है, पर उसे मानता कौन है ?
अगर उसे मान लिया होता तो आज आपको मेरा interview लेने नहीं आना पड़ता … !!!

311015 aik machchhar ka taza tareen interview by s a saga

جسے اللہ رکھے ...

ﻋﻼﻣﮧ ﻗﺮﻃﺒﻰ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ کہ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﻟﺲ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﻃﺒﮧ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﺷﻤﻦ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ، ﻭﮦ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﭙﺘﺎ ﭼﮭﭙﺎﺗﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ، ﺍﺩﮬﺮ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﭩﯿﻞ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺩﻭ ﮔﮭﻮﮌ ﺳﻮﺍﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﮔﺌﮯ، ﭼﮭﭙﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺳﻮﺟﮭﯽ، ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﻧﺸﯿﺒﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ، ﺳﻮﺭﮦ ﯾﺲ ٓ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﻮﺭﺗﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮟ، ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺬﺭ ﮔﺌﮯ، ﭘﮭﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮔﺰﺭﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﻮﺍ، ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺭﮨﺎ، ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ : ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮨﮯ، ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ، ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﻗﺘﯽ ﻃﻮﺭﭘﺮ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮐﺮﺩﯾﺎﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ، ﭼﭩﯿﻞ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺁﮌ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ،ﺑﺲ ﺭﺏ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ ﻭﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ۔

حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا

فإذا ھی أتتک فاقرأ علیھا السلام من ربھا ومنّی و بشرھا ببیت فی الجنۃ من قصب، لا صخب فیہ ولا نصب

(اے ﷲ کے رسول !) جب وہ (خدیجہ رضی اللہ عنہا ) آپ کے پاس آئیں تو انہیں میری اور ﷲ کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتیوں والے ایک محل کی خوش خبری دے دیں جس میں نہ شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف۔

(صحیح بخاری ۳۸۲۰وصحیح مسلم: ۲۴۳۲)

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا

خیر نسائھا مریم و خیر نسائھا خدیجۃ

عورتوں میں سب سے بہتر مریم ؑ اور خدیجہ ؓ ہیں۔

صحیح بخاری ۳۸۱۵ و صحیح مسلم ۶۹؍۲۴۳۰

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔

دیکھئے صحیح بخاری : ۳۸۱۶ ، ۳۸۱۸ و صحیح مسلم : ۲۴۳۴ ، ۲۴۳۵

حضرت عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا

أفضل نساء أھل الجنۃ : خدیجۃ بنت خویلد وفاطمۃ بنت محمد و آسیۃ بنت مزاحم امرأۃ فرعون و مریم ابنۃ عمران 

جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد (صلی ﷲ علیہ وسلم ) ، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔

مسند احمد ۱؍۲۹۳ح۲۶۶۸وسندہ صحیح و صححہ ابن حبان، الاحسان:۶۹۷۱ ؍۷۰۱۰و الحاکم ۲؍۵۹۴، ۳؍۱۶۰ ، ۱۸۵ ووافقہ الذہبی

پہلی وحی کے بعد جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ ؓ نے آپ کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: 

وﷲ !ما یحزنک اللہ أبداً

ﷲ کی قسم! ﷲ آپ کو کبھی غمگین نہیں کرے گا۔ 

صحیح بخاری: ۲واللفظ و صحیح مسلم:۱۶۰

معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف سیدہ خدیجہ ؓ کو حاصل ہے۔

نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں ، فاطمہ ، رقیہ، زینب اور ام کلثوم ؓ خدیجہ ؓ سے پیدا ہوئی تھیں۔ 

آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کی۔

نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بہت بڑا مقام ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی آپ کے بارے میں کہتے ہیں: 

زوج النبی صلی ﷲ علیہ وسلم و أول من صدقت ببعثتہ مطلقاً

نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی زوجہ جنہوں نے مطلقاً آپ کی نبوت کی تصدیق سب سے پہلے کی۔ 

(الاصابۃ ص ۱۶۷۱)

صغار تابعین میں سے امام زہری رحمہ ﷲ علیہ فرماتے ہیں

أول امرأۃ تزوجھا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم خدیجۃ بنت خویلد بن أسد بن عبدالعزیٰ بن قُصی، 
تزو جھا فی الجاھلیۃ و أنکحہ إیا ھا أبو ھا خویلد بن أسد فولدت لرسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم القاسم، 
بہ کان یکنی و الطاھر و زینب و رقیۃ و أم کلثوم و فاطمۃ رضی ﷲ عنھم

پہلی عورت جس سے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے شادی کی خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی ہیں۔
آپ نے یہ نکاح بعثتِ نبوت سے پہلے کیا تھا۔ یہ نکاح خدیجہ رضی اللہ عنہا  کے والد خویلد بن اسد نے کروایاتھا۔ 
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  سے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے دو بیٹے : قاسم، طاہر اور چار بیٹیاں: زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔ رضی ﷲ عنہم قاسم کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔

کتاب المعرفۃ و التاریخ ۳؍۲۶۷ وسندہ حسن، دلائل النبوۃ للبیہقی ۲؍۶۹

Who Was Bhanmat? کون تھیں بھان متی ؟

ایس اے ساگر
Tomb of Alauddin Khilji, Qutb complex, Delhi
اردو ادب میں مشہور ہے کہ’بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ؛روڑا یعنی کنکر پتھر۔ اگر بے مصرف اور بے جوڑ چیزوں کو ملا کر کام نکالنے کی کوشش کی جائے یا کسی گروہ میں ایسے لوگ ہوں جو آپس میں بنیادی اختلافات رکھتے ہوں تو یہ کہاوت استعمال کی جاتی ہے۔فکشن کی آڑ میں’شیطانی آیات ‘ کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کئے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا ہے کہ’بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ کہاوت کو بنیاد بناکر ’اہل ادب‘ نے کہنا شروع کردیا ہے کہ’ ’تقریباً سب ہی لوگ اس کے معنی سے بھی واقف ہیں۔ اسے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ادھر ادھر سے چیزیں پوری کر کے کام چلانے کی تدبیر کی جائے۔جیسے کسی منسٹری میں کوئی نیا محکمہ کھولا جائے تو اس کے عملے کی بھی اور فرنیچر کی بھی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوسرے محکموں سے لوگ لئے جاتے ہیں اور ضرورت کا سامان بھی۔ یا ٹی وی کا کوئی نیا چینل کھلے تو اس کو بھی جو آدمی جہاں سے مل جائے اسے لے کر کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ کہاوت عموماً طنز کے پیرائے میں استعمال کی جاتی ہے یا حقارت آمیز لہجے میں۔
مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کہ
 بھان متی کا کیا مطلب ہے؟
بھان ہندی لفظ ہے جس کے معنی کرن، شعاع، روشنی کے ہوتے ہیں۔ اس کو کبھی سورج کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔مت بھی ہندی لفظ ہے جس کے معنی عقل اور سمجھ کے ہیں۔ اسی لئے عام محاورہ ہے مت ماری جانا، یعنی عقل چوپٹ ہوجانا۔ بدھ مت، ہندو مت میں اسے علم، راستے یا طریقے کے معنے میں لیا جا سکتا ہے۔ عربی لفظ مذہب کے لغوی معنی بھی راستے کے ہیں۔بھان مت کا مطلب ہے عقل کی روشنی۔ اس کو آپ سائنس بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھان متی وہ عورت جو عقل کی روشنی میں کام کرتی ہو۔ کبھی کبھی ایسے مرد کیلئے بھان متا کی ترکیب بھی استعمال کی جاتی ہے۔اصطلاحی معنوں میں بھان متی ایسے لوگوں کو کہتے تھے جو عقل کی روشنی، سدھ بدھ کو استعمال کرتے ہوئے کام کرتے تھے، جیسے شعبدے بازی یا پتلیوں کا کھیل۔ ایسے کام کرنے والے اپنے کام کیلئے جو پتلیاں یا دوسری چیزیں استعمال کرتے تھے وہ ادھر ادھر پڑی ہوئی لکڑیوں سے بنائی جاتی تھیں اور اگر ان کے گھر بنانا ہوں تو کہیں سے کوئی اینٹ اٹھالی اور کہیں سے کوئی روڑا اور گھر بنا لیا۔ اسی طرح پھٹے پرانے کپڑے استعمال کرتے ہوئے ان کے لباس بنائے جاتے تھے۔تو بھان متی کو جب اپنا تماشہ دکھانا ہوتا تھا تو وہ ادھر ادھر سے چیزیں جمع کر کے اپنا کام شروع کرتی تھی۔ اس پس منظر سے یہ کہاوت چلی۔قابل غوربات یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں ایسے لوگوں کی تحقیر نہیں کی گئی بلکہ انہیں عقل کی روشنی سے کام لینے والوں کا نام دے کر توقیر کی گئی۔ جبکہ ہمارے روایتی نظام میں عقل کو گمراہی کے معنوں میں لیا گیا اور تقلید کو ہدایت سمجھا گیا۔“
کیا کہتے ہیں اہل علم؟
مندرجہ بالا عبارت پڑھنے کے بعد اب اہل علم کا موقف جانئے جن کے مطابق” تقلید کا لفظ صرف ایک چیز میں استعمال ہورہا ہے ،اگر چہ اس کے معنی اور بھی ہوں گے ،اسی وجہ سے گویا ایک خاص معنی کیساتھ مخصوص ہوگیاہے اوروہ معنی ہیں قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میںتخریج کردہ فقہی مسائل میں چار مشہور ائمہ ؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام شافعی،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحم اللہ علیہم سے کسی ایک کی تقلید کرنا ،ان کے اجتہاد پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرنا۔لہذا اس طرح عقل و سمجھ کی روشنی میں کوئی اہم کام کرنے کے مقابلہ دوسروں کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے چلنے لگنا جیسے میڈیا وغیرہ کی باتوں پر اعتماد وغیرہ،اس کو تقلید کے لفظ سے تعبیر کرنا یا تو انتہائی ناواقیت کی دلیل ہے یا انتہائی چالاکی اور دجالیت کی دلیل ہے ۔جو لفظ اسلامی نکتہ نظر سے کسی خاص معنی میں استعمال ہو رہا ہو اس سے اس طرح کھیلنا گمراہوں کی علامت ہے ۔اگر غلطی سے اس قسم کی پوسٹ نقل ہوگئی تو بات دیگر ہے لیکن آئندہ ایسی مخصوص اصطلاحات کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔“
کیا ہے حقیقت؟
کہتے ہیں کہ بھان متی ہندوستان کی ریاست چتوڑ میں کافروں کے درمیان روشنی کا منارہ تھیں۔ ظلمت و کفر کے پروردہ انہیں اپنے جیسا سمجھ کر ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔وہ بظاہر ایک مجذوبہ کی شکل میں نظر آنے والی خاتون تھیں۔ لیکن درحقیقت تمام ریاست چتوڑ میں وہ واحد خاتون تھیں۔ جو کفرسے بیزار توحید پرستی کی شمع کو اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی تھیں۔ اور جس وقت کافر وزیر کی صاحبزادی کے خفیہ ایمان لانے کے بعد اسے اپنے گھر میں پناہ دیکر علاالدین خلجی کے معتوب سفیر کو اپنے گھر لے آئی تھیں۔ تب کفر کے پرستار ان کا مذاق اڑانے کیلئے یہ جملہ’ بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ پھبتی کسنے کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ بھان متی نے نہ ہی شادی رچائی تھی۔ اور نہ ہی تمام چتوڑ میں کوئی ان کا رشتہ دار تھا۔ بس اسلام کے رشتے سے انہوں نے مسلم سفیر کو اپنا بیٹا اور وزیر زادی کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔ اور کفار انہی دونوں پاکباز کرداروں کو اینٹ ، روڑے سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔اب کتنی بدنصیبی کی بات ہے۔ کہ کل تک کفار جو طعنہ اللہ کی ایک ولیہ کو دیا کرتے تھے۔ جو کہ نا صرف مسلم سفیر و مسلم وزیر دادی کی محسنہ تھیں بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی محسنہ تھیں کہ مسلمانوں کے سفیر کی مدد فرمارہی تھیں۔ ہم بجائے ان کے احسان مند ہوتے۔ آج تک ہنود کی روش اپناتے ہوئے ناسمجھی میں وہی طعنہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو بھی دیتے ہیں۔
دجالی نظام سے رہیں محتاط:
اہل علم کے نزدیک دور حاضر میںمیڈیاکی طاقت تسلیم شدہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیامیڈیا کوئی قتل کرتا ہے،آگ لگاتا ہے،بم بلاسٹ کرتا ہے؟نہیں بلکہ یہ میڈیا اور تحریریں ایک خطرناک کھیل ہے جو لفظوں سے کھیلا جاتا ہے۔ذرا چوکے کہ تباہی پھیلادے۔یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس باریک جملہ پر ذہن میں اچانک جھٹکا لگا ورنہ پورا مضمون سوائے ایک لفظ’بھان متی‘کی تحقیق کے کچھ نہیں ہے ،پھر اس میں تقلید جیسی اہم شرعی اصطلاح کو داخل کرنے کا کیا مطلب ؟درحقیقت یہ ایک یہ دجالی نظام کا ایک حصہ ہے ۔مومن وہ ہے جو ہر چیز پر نظر تیز رکھے ،بالخصوص مذہب کے معاملہ میں کہ جب تک جان میں جان باقی ہے اسلام کی شناخت کو اس کی اصلی ہیئت پر باقی رکھنے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے۔اللہ پاک ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے!

Who Was Bhanmat?
By: S. A. Sagar
History is evident that India is a land of devoted wives .Among them is Bhanmati.
301015 kaun theen bhaan mati by s a sagar

خمس یعرفن بخمس

١- الشجرة تعرف من ثمارها
٢- والمرأة عند إفتقار زوجها
  ٣- والصديق عند الشدة
   ٤- والمؤمن عند الإبتلاء
    ٥- والكريم عند الحاجة

خمس يرفعن خمس
١- التواضع يرفع العلماء
٢- والمال يرفع اللئام
  ٣- والصمت يرفع الزلل
   ٤- والحياء يرفع الخلق
    ٥- والهزل يرفع الكلفة

وخمس يأتين بخمس
١- الإستغفار يأتي بالرزق
٢- وغض البصر يأتي بالفراسة
  ٣- والحياء يأتي بالخير
   ٤- ولين الكلام يأتي بالمسألة
    ٥- والغضب يأتي بالندم

   وخمس يصرفن خمس
١- لين الكلام يصرف الغضب
  ٢- والإستعاذة بالله تصرف الشيطان
   ٣- والتأني يصرف الندامة
    ٤- وإمساك اللسان يصرف الخطأ
     ٥- والدعاء يصرف شر القدر

  خمس قربهن سعادة
١- الإبن البار
  ٢- والزوجة الصالحة
   ٣- والصديق الوفي
    ٤- والجار المؤمن
     ٥- والعالم الفقيه

وخمس يطبن بخمس
١- الصحة برغد العيش
  ٢- والسفر بحسن الصحبة
   ٣- والجمال بحسن الخلق
     ٤- والنوم براحة البال
       ٥- والليل بذكر الله

على قدر الهدف يكون الانطلاق ... ففــي
طلب الرزق قال:' فامشوا '
وللصلاة قال:' فاسعوا '
وللجنة قال :' وسارعوا '
وأما إليه فقال:' ففروا إلى الله '

كلام فوق مستوى الابداع 

جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی؟

ایس اے ساگر
امام بخاری رحمہ اللہ  کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کاذکر فرمایا، تو یہ کیا کہ اس میں ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت کوئ بندہ مومن کهڑے ہوکر نماز پڑهتا ہے اور اللہ سےکوئی دعاکرتاہیں
تو اسے قبول فرمالیتے ہیں اور آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا وقت بہت تهوڑاہے...اس گھڑی کی تعیین کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، جن میں سے دو صحیح ہیں۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ان تمام اقوال میں سے صحیح دو اقوال ہیں، جو کہ ثابت شدہ احادیث کے ضمن میں آئے ہیں، ان دونوں میں سے بھی ایک صحیح ترین قول ہے:
پہلا قول:
یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، اس قول کی دلیل صحیح مسلم (853) کی روایت ہے، جسے ابو بردہ بن ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، آپ [ابو بردہ]کہتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کیا تم نے اپنے والد [ابو موسی اشعری] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے بارے میں روایت کرتے ہوئے سنا ہے؟
میں [ابو بردہ] نے کہا: جی ہاں؛ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کہتے ہوئے سنا: (یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز کے مکمل ہونے تک ہے)
ترمذی: (490) اور ابن ماجہ : (1138) میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی رحمی اللہ علیہ  کی روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے، اور وہ اسکے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی بندہ اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے ، تو اللہ تعالی اسے وہی عنائت فرماتا ہے!!) صحابہ رضی اللہ عنہم  نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کونسی گھڑی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نماز کھڑی ہونے سے لیکر نماز ختم ہونے تک) [اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی کہتے ہیں: "ضعیف جدا"یعنی یہ روایت سخت ضعیف ہے]
دوسرا قول یہ ہے کہ :
یہ گھڑی عصر کے بعد ہے، اور یہ قول پہلے سے زیادہ راجح ہے، اسی کے عبد اللہ بن سلام ، ابو ہریرہ، امام احمد، اور بہت سے لوگ قائل ہیں۔
اس قول کی دلیل امام احمد کی مسند میں روایت کردہ حدیث (7631) ہے، جسے ابو سعید خدری، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان بندہ اللہ تعالی سے کوئی بھی اچھی چیز مانگے تو اللہ اسے وہی عنائت فرماتا ہے، اور یہ گھڑی عصر کے بعد ہے) [مسند احمد کی تحقیق میں ہے کہ: یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن یہ سند ضعیف ہے]
اسی طرح ابو داود: (1048) اور نسائی: (1389) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو )[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے]
اور اسی طرح سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے نقل کیا ہے کہ : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے سب اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے"
[حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" 2/489 میں اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے]
اور سنن ابن ماجہ (1139)میں عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا:"ہم کتاب اللہ [یعنی تورات ] میں جمعہ کے دن ایک گھڑی [کا ذکر ]پاتے ہیں، جس گھڑی میں جو کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے کچھ مانگے تو اللہ تعالی اسکی وہی ضرورت پوری فرما دیتا ہے۔
عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [میری تصحیح کرتے ہوئے]اشارہ کیا: (یا گھڑی کا کچھ حصہ!؟)
میں نے کہا: آپ نے درست فرمایا: گھڑی کا کچھ حصہ۔
میں نے [آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے]عرض کیا: یہ گھڑی کونسی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے)
میں نے کہا: جمعہ کے دن آخری لمحہ نماز کا وقت تو نہیں ہوتا؟!
آپ نے فرمایا: صحیح کہتے ہو، لیکن جب کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھ کر بیٹھ جائے، اور اسے نماز کا انتظار کہیں جانے سے روکے تو وہ شخص بھی نماز ہی میں ہے"[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے]
اسی طرح سنن ابو داود: (1046)، ترمذی: (491) اور نسائی: (1430) میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے، ان میں افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں آدم [علیہ السلام] کو پیدا کیا گیا، اسی دن دنیا میں انہیں اتارا گیا، اور اسی دن میں انکی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن انکی وفات ہوئی، جمعہ کے دن ہی قیامت قائم ہوگی، اور جنوں و انسانوں کے علاوہ ہر ذی روح چیز قیامت کے خوف سے جمعہ کے دن صبح کے وقت کان لگا کر خاموش رہتی ہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنی کوئی بھی ضرورت مانگے تو اللہ تعالی اسکی ضرورت پوری فرما دیتا ہے)
تو کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک جمعہ میں ہوتا ہے؟
میں [ابو ہریرہ]نے کہا: بلکہ ہر جمعہ کو ایسے ہوتا ہے۔
تو کعب نے تورات اٹھائی اور پڑھنے لگا، پھر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ اسکے بعد میں عبد اللہ بن سلام کو ملا، اور انہیں اپنی کعب کے ساتھ مجلس کا تذکرہ بھی کیا، تو عبد اللہ بن سلام نے [آگے سے یہ بھی کہہ دیا] : مجھے معلوم ہے یہ کونسی گھڑی ہے!
ابو ہریرہ کہتے ہیں، میں نے ان سے التماس کی کہ مجھے بھی بتلاؤ یہ کونسی گھڑی ہے؟
تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے۔
پھر میں نے [اعتراض کرتے ہوئے] کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیسے ہوسکتی ہے؟! حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اسے پا لے) اور یہ وقت نماز پڑھنے کا وقت نہیں ہے[کیونکہ اس وقت نفل نماز پڑھنا منع ہے]؟!
تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: (جو شخص کسی جگہ بیٹھ کر نماز کا انتظار کرے تو وہ اس وقت تک نماز میں ہے جب تک نماز ادا نہ کر لے)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تو عبد اللہ نے کہا: یہاں [نماز سے ] یہی مراد ہے۔"
امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے، جبکہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی اس حدیث کا کچھ حصہ روایت ہوا ہے، [اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے]" انتہی
ماخوذ از:
"زاد المعاد": (1/376)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

دعا کی چار قسمیں
شیح العرب و العجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ نے فرمایا کہ دعا کی چار قسمیں ہیں:
(۱) دعائے فرض، مثلاً نبی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے دعا کریں تو اب اس نبی علیہ السلام پر یہ کرنا فرض ہوگیا۔
(۲) دعائے واجب، جیسے دعائے قنوت (نماز وتر میں)۔
(۳) دعائے عبادت جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصود ہے، جو امرِ الٰہی کی تعمیل (بجا آوری) کے طور پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دعا میں تذلل ہے۔ اور تذلل (عاجزی انکساری) اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اسی لیے حدیث پاک میں ہے۔ ”الدعاء مخُّ العبادة“ (دعا عبادت کامغز ہے) وارد ہوا ہے۔ (برکات دعا: ص137)
دعائیں خوب مانگتے رہنے کا صحابہؓ کا وعدہ
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،روئے زمین پر کوئی (ایسا) مسلمان نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگے مگر یہ کہ اللہ اس کی دعا قبول نہ فرمائے۔ یا یہ کہ اس کے برابر کوئی بُرائی اس سے دور کردی جائے، جب تک کسی گناہ اور قطع رحم کی دعا نہ مانگے۔ یہ سن کر صحابہؓ میں سے ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ یارسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) اب تو ہم خوب دعا مانگا کریں گے۔تو اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ بھی بہت قبول کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، حاکم) (ماخذبرکات دعا: ص140)

دشمنوں سے نجات دلانے والا پیغمبرانہ اسلحہ
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا موٴمن کا ہتھیار ہے۔ دین کا ستون ہے، آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ (مسند ابویعلی، حاکم فی المستدرک)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاوٴں، جو تم کو دشمن سے نجات دلائے اور تمہارے لیے روزی (مینہ اور بارش کی طرح)برسائے، وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کو پکارتے (دعائیں مانگتے) رہو، دن اور رات۔ یہ اس لیے کہ دعا موٴمن کا ہتھیار ہے، جو ہر قسم کی بلاوٴں کی محافظ اور حصول مال و جاہ کے لیے برابر وسیلہ ہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں وہ چیز بتلاتا ہوں جو تمہیں تمہارے دشمنوں سے نجات دلائے اور تمہاری روزی بڑھائے، وہ یہ کہ تم رات دن میں (جس وقت بھی موقع ملے) اللہ تعالیٰ سے (اپنی حاجات کے لیے) دعا مانگا کرو، کیوں کہ دعا مسلمانوں کا ہتھیار ہے۔ (برکات دعا: ص146-145)
مسلمان کی تین عادتیں اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری لگتی ہیں
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی تین عادات بہت پسند ہیں: (۱)اپنی تمام طاقت و قوت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کردینا۔ (۲)پشیمانی کے وقت گریہ وزاری کرنا (یعنی گڑگرا کر دعائیں مانگنا)۔ (۳)تنگ دستی کے وقت صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکوہ شکایت نہ کرنا۔(برکات دعا: ص153)

تین قلوب کے ساتھ دعا کرو
عارف باللہ حضرت شیخ خواجہ علی رامتینیؒ فرمایا کرتے تھے، جب تین قلوب ایک میں جمع ہوکر دعا کرتے ہیں تو ایسی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک سورہٴ یٰسٓ کہ جو دل ہے قرآن مجید کا۔ دوسرا شب آخر (یعنی سحر و تہجد کا وقت) جو دل ہے رات کا اور ایک دل اللہ تعالیٰ کے موٴمن بندے کا ہے، لہٰذا جس وقت یہ تینوں دل جمع ہو جاتے ہیں تو دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔

مطلب یہ کہ تہجد کے وقت اٹھ کر نماز تہجد سے فارغ ہوکر سورہٴ یٰسٓ کی تلاوت کرنے کے بعد دل سے دعا کی جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ تین دلوں کے جمع ہونے کی وجہ سے کی جانے والی دعا ضرور قبول کی جائے گی۔ (برکات دعا: ص157)
امام رازیؒ کا اپنی زندگی بھر کا تجربہ
حضرت امام رازی رحمہ الله فرماتے ہیں، انسان اپنے معاملات (ضروریات، مشکلات و حاجات) میں جب بھی اللہ تعالیٰ کے ا وپر بھروسہ (پورا یقین) اور اطمینان رکھتا ہے، تو راستہ کی تمام مشکلات حل ہو جایا کرتی ہیں، لیکن جہاں غیر اللہ کا تصور ذہن میں اُبھرا، یا ان پر کسی طرح کا بھروسہ رکھا تو بس وہیں سے پریشانیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ میرا بچپن سے اب تک کا تجربہ ہے۔ (برکات دعا: ص192)

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد یوں فرمایا
عارف ربانی حضرت شیخ سہل بن عبداللہ تستریؒ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد فرمایا کہ، اے میرے بندو! راز مجھ سے کہو، اگر راز نہ کہہ سکو، تو نظر مجھ پر رکھو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو حاجت تو صرف مجھ ہی سے طلب کرو، اگر ایسا کروگے تو تمہاری حاجت روائی کی جائے گی۔ (برکات دعا: ص195)

دعا کی قبولیت کے لیے یہ بات ضروری ہے
عارفوں میں سے کسی عارف نے یہ فرمایا کہ مخلوق سے سوال کرنے (مانگنے) کی برائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سائل کی دعا اس کے حق میں مستجاب (قبول) نہیں ہوتی، کیوں کہ اجابتِ دعا کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ مخلوق سے ناامید اور ہر قسم کے علائق سے مبرّا ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے، مخلوق کی طرف نظر رکھنے کی حالت میں دعاوٴں کا قبول ہونا مشکل ہے۔ (مخزن اخلاق) ( برکات دعا: ص198)

تین آدمیوں کی دعاوٴں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی دعاوٴں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: (۱)والد کی دعا اپنے لڑکے کے لیے۔ (۲)مسافر کی دعا حالت سفر میں۔ (۳) مظلوم کی دعا حالت اضطرار میں۔(برکات دعا: ص221)

دعا کے لیے دوسروں سےدرخواست کرنا یہ پیغمبرانہ سنت ہے
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک مرتبہ عمرہ کے سفر پر جانے کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور ساتھ ہی یوں فرمایا: اشرکنا یا اخیْ فی دعائک و لا تنسنَا، یعنی میرے بھائی! ہم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھنا اور ہم کو بھول نہ جانا۔

یہ سن کر عمرؓ نے فرمایا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بجائے اگر پوری دنیا مجھے مل جاتی تب اتنی خوشی نہ ہوتی جس قدر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مقدس کلمات فرمانے سے ہوئی۔ (ابوداوٴد، ترمذی، مشکوٰة)
تشریح: حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعضے منافع اہل کمال کو بھی اپنے سے کم مرتبہ والوں سے پہنچ سکتے ہیں، پس کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے کو مستغنی محض سمجھے۔
اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسروں سے اپنے لیے دعا کرانا بھی محمود و مستحسن فعل ہے، یہ کوئی ضروری نہیں کہ جس سے دعا کے لیے کہا جائے وہ دعا کی درخواست کرنے والے سے افضل یا بڑا ہو۔
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دعا کے لیے فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اکابر کو بھی اپنے چھوٹوں سے دعا کے لیے کہنا چاہیے۔ (برکات دعا: ص246)
اسباب کے تحت ہر کام کے لیے کوشش کرنا انسان کے فرائض میں سے ہے
پیرانِ پیر سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: بیٹے تجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا اور تیرے کیے بغیر چارہ بھی نہیں ،بس تو کوشش کر، مدد کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اس سمندر (یعنی دنیا) میں جس کے اندر تو ہے اپنے ہاتھ پاوٴں کو ضرور ہلا، موجیں (حوادثاتِ زمانہ) تجھ کو اٹھا کر اور پلٹے دلاکر کنارہ تک لے بھی آئیں گی۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے اور قبول کرنا اس کا کام، تیرا کام سعی کرنا ہے اور توفیق دینا اس کا کام۔ تیرا کام ہمت سے معصیتوں (گناہوں) کو چھوڑنا ہے اور بچائے رکھنا اس کا کام ہے۔ تو اس کی طلب میں سچا بن جا، یقینا وہ تجھ کو اپنے قرب کا دروازہ دکھلا دے گا، تو دیکھے گا کہ اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف دراز ہوگیا۔ (برکات دعا: ص265)

حضور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اس طرح مانگو
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے فرمایا: حضرت فضالة بن عبیدؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک صحابی تشریف لائے اور آتے ہی نماز پڑھی، سلام پھیر کر (دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر) وہ کہنے لگے اللہمَّ اغفرلی وارحمنی۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے نماز پڑھنے والے! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر فارغ ہو جائے، تو پہلے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کر جس کا وہ اہل ہے، پھر مجھ پر درود بھیج، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کر، راوی فرماتے ہیں: اس واقعہ کے بعد ایک اور صحابی تھوڑی دیر میں تشریف لائے اور انہوں نے بھی دوگانہ ادا کی، سلام پھیر کر انہوں نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد (تعریف) کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا، بس اتنا سن کر خود نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ، اے نماز پڑھنے والے! دعا مانگ، تیری (جائز) دعا قبول کی جائے گی۔ (ابوداوٴد، ترمذی، نسائی، احمد و ابن حبان) ( برکات دعا: ص273)

کوئی دعا آسمان تک نہیں پہنچتی مگر
حضرت عبداللہ بن یسرؓ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعائیں ساری کی ساری رُکی رہتی ہیں، یہاں تک کہ اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی تعریف (حمد وثنا) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے نہ ہو۔ اگر ان دونوں کے بعد دعا کرے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔ (فضائل درود شریف:ص76) ( برکات دعا: ص277)

ہم دعا مانگتے ہیں یا اللہ میاں کو آرڈر دیتے ہیں
عارف باللہ حضرت مولانا صدیق احمد باندویؒ فرماتے ہیں،اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق صحیح نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ خدا سے جو مانگا کریں وہ ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام کام بناتا رہے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے، ورنہ نہیں۔ نرینی (یہ ایک قصبہ کا نام ہے) میں ایک صاحب نماز کے بڑے پابند تھے، عرصہ کے بعد حضرت سے ان کی ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ انہوں نے نماز وغیرہ عبادات سب چھوڑ دی تھی اور مجھ سے کہا، مولانا میں اتنے دن سے نماز پڑھ رہا ہوں، پریشان حال ہوں، دعائیں کرتا ہوں، مگر میری پریشانی دور نہیں ہوتی، ایسی نماز پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس لیے میں نے نماز وغیرہ چھوڑ دی۔

یہ سن کر حضرتؒ نے فرمایا: ارے بندہٴ خدا! تم اللہ تعالیٰ کی ماننے آئے ہو یا خدا سے منوانے آئے ہو؟ نماز تو اس واسطے پڑھی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، فرض ہے، بندگی کے واسطے نماز پڑھی جاتی ہے پریشانی ہو یا نہ ہو، پھر ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کب مانگتے ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کو آرڈر دیتے ہیں کہ، یا اللہ یہ بھی ہو جائے، یہ بھی کر دیجیے (نعوذباللہ) جیسے نوکر سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام کرلینا، یہ بھی کردینا ، کھیت میں ہل بھی جوت دینا، بازار سے سودا بھی لیتے آنا وغیرہ؛ اسی طرح (نعوذباللہ) ہم بھی اللہ تعالیٰ سے مانگتے نہیں بلکہ آرڈر دیتے ہیں، یاد رہے! اللہ تعالیٰ مانگنے پر دیتے ہیں، آرڈر پر نہیں دیتے۔
مانگنا اور چیز ہے، آرڈر دینا اور چیز ہے، مانگنے کے طریقے سے مانگو پھر دیکھو، اللہ تعالیٰ دیتے ہیں یا نہیں؟ پہلے اللہ تعالیٰ سے نسبت تو قائم کرو، احکام پر عمل کرو﴿ایاک نعبد﴾ پہلے فرمایا کہ ہمارا آپ سے یہ تعلق ہے کہ تیری غلامی کا اقرار کرتے ہیں اور جب تیرے غلام ہیں تو تیرے سوا ہم جائیں کہاں؟ تو ہی ہماری مدد فرما!
ہم بندے بننے کو تیار نہیں اور لینے کو تیار ہیں، نماز ایک وقت کی نہیں پڑھتے، گھر میں تلاوت نہیں، ٹی وی گھر میں ہے اور چاہتے ہیں کہ جو ہم چاہیں وہ اللہ تعالیٰ پورا کردیں، شکایت کرتے ہیں کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ارے! تم اللہ کی کتنی مانتے ہو؟ ایک بے نمازی کی نحوست نہ معلوم کتنے گھروں تک ہوتی ہے۔ بے نمازی کے گھر اللہ کی رحمت و برکت نہیں ہوتی اور یہاں پورا کا پورا گھر بے نمازی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے آئے، دعائیں کیسے قبول ہوں؟ (برکات دعا: ص664)
خلاصہ یہ کہ آج ہم عمومی طور پر اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں اور اگر ہیں تب بھی اس پر عمل پیرا نہیں، جہاں ہم نے اسلام کی بہت سی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کی وہیں ہم دعا سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں نہ اس کی تعریف کا ہمیں علم، نہ اس کی حقیقت سے واقف، نہ اس کی طاقت اور اثر پر یقین، نہ دعا کرنے کا طریقہ اور سلیقہ معلوم۔ احقر نے برکات دعا نامی حضرت مولانا ایوب صاحب سورتی ماکھنگوئی دامت برکاتہم سے اکثر و بیشتر اقتباسات اس مضمون میں نقل کردے ہیں، ورنہ کتاب تو بڑی ضخیم ہے؛ البتہ اس موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔ اللہ موٴلف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو دعاوٴں سے وابستہ کردے اور اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔اب چند اشعار پر میں مضمون کو سمیٹتا ہوں۔ محمد یوسف شکور تاج دعا کے بارے میں فرماتے ہیں:
رد وقبول پر تیری ہرگز نہ ہو نظر
تو بندگی وعجز سے حسنِ وفا سے مانگ
اے تاج پھر تیری دعا ہو جائے گی قبول
زاری سے انکساری سے اور التجا سے مانگ

حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:
کہاں جائے جس کا نہیں کوئی تجھ بن
کسے ڈھونڈے جو ہو طلبگار تیرا
تو میرا، میں تیرا، میں تیرا، تو میرا
ترا فضل میرا مرا کار تیرا
کوئی تجھ سے کچھ، کوئی کچھ چاہتا ہے
میں تجھ سے ہوں طلبگار تیرا
اپنی رضا میں مجھ کو مٹا دے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
کردے فنا سب مرے ارادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
جام محبت اپنا پلادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
دل میں مری یاد اپنی رچادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
شغل میرا بس اب تو الٰہی شام وسحر ہو اللہ اللہ
لیٹے بیٹھے، چلتے پھرتے، آٹھ پہر ہو اللہ اللہ
مایوس نہ ہوں اہل زمیں اپنی خطا سے
تقدیر بدل جاتی ہے مضطر کی دعا سے
قفل در قبول نہ کھولے یہ بعید ہے
انسان کے پاس دست دعا ہی کلید ہے
کیوں دعا اپنی نہ ہو بابِ ظفر کی کنجی
گر یہ ہے قفلِ درِ گنج اثر کی قبول
تراشے تیرے وہم نے جو صنم ہیں
وہ اصنامِ باطل گراتا چلا جا
نہیں کوئی حاجت روا جز خدا کے
حقیقت یہی ہے بتاتا چلا جا

 (برکات دعا: ص778-780)
دعا  سے کروائیں اپنے مسائل حل 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں دعا سے زیادہ کسی چیز کی وقعت نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہئے کہ اللہ تعالی اس کی سختیوں اور مصیبتوں کے وقت دعا قبول فرمائیں اس کو چاہئے کہ وہ فراخی اور خوشحالی میں بھی کثرت سے دعا مانگے کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا مومن کا ہتھیار ھے دین کا ستون ھے اور آسمان و زمین کا نور ھے
قبولیت کی صورتیں 
نمبر ایک.جو مانگا وہی مل جائے ۔
نمبر دو.اس سے بہتر جو ہمارے حق میں زیادہ مفید ہو وہ مل جائے ۔
نمبر تین. ۔ آنے والی کوئی بلا ٹل جائے۔
نمبر چار. ایسا ذخیرہ آخرت بن جائے کہ تمنا کریں کاش دنیا میں کوئی دعا قبول نہ ہوتی ۔ 
انسان کو دعاؤں کی قبولیت میں جلد بازی اور اللہ کی رحمت سے مایوسی مناسب نہیں
دعا مانگنے کے آداب
کھانے، پینے ، پہننے ، اور کمانے میں حرام چیزوں سے پرہیز کرنا
اخلاص۔
پاک صاف ہونا ۔
اول آخر اللہ کی حمد و ثناء کرنا
اول آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔
اور اپنے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگنا رونا گڑگڑانا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اور اللہ کےاحسانات گنوا گنوا کر  طلب کرنا
جب ہم اللہ سے اس طریقے سے مانگیں گے تو اللہ تعالی ضرور ہمارے مسائل حل فرمائیں گے.

Thursday 29 October 2015

کیسا ہے عید مبارک یا جمعہ مبارک کہنا؟

ایس اے ساگر

سوال
محترم مفتی صاحب
السلام علیکم
كيا فرماتے ہيں علماء كرام و مفتيان عظام اس بارے ميں کہ جو آج كل عام رواج ہو گيا ہے كہ عيد كے دن "عيد مبارك" كہنا اور جمعہ كے دن "جمعہ مبارك" كہنا؟
جزاک اللہ خیراً
----------------------------------------------
جواب
عید اور جمعہ کے دن دونوں ہی بابرکت دن ہیں، اس برکت کے اظہار کے لیے یا بطور دعا مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے کو عید مبارک یا جمعہ مبارک کہنا فی نفسہ جائز تو ہے مگر اسے مستقل رسم یا عید اور جمعہ کا شرعی جزء شمار کرنے کی غلطی کی بناء پر بعض اہل علم نے منع کیا ہے۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
=======================
مزید ضروری وضاحت:!!!
جمعه کے دن کے برکات ثابت هے اگر کوئی شخص اس نیت سے کهے که آپ کو جمعه کے دن کی " برکات " مبارک هو تو اس کی گنجائش هے اس طرح سے که سکتے هیں.
اور اگر کوئی شخص " جمعه " مبارک کو
( سنت سمجه کر ، ضروری سمجه کر ) کهتا هے تب یه جائز نهیں .