Saturday 29 April 2023

مسلمان عورتوں کی غیرمسلم مردوں سے شادی؟

مسلمان عورتوں کی غیرمسلم مردوں سے شادی؟
-------------------------------
--------------------------------
سورہ الذاريات، آیت 49 سے پتہ چلتا ہے کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام (بعض مفسرین کے قول کے مطابق)  "قانونِ زوجی" پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی "قانون زوجی" کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں؛ لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے رازدار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق، ذہنی ہم آہنگی اور قلبی وابستگی  دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے، اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لئے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردیئے، اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔ دین اور نسلِ انسانی کے تحفظ کی ضرورت کو ہر ملت اور مذہب میں تسلیم کیا گیا ہے. تمام آسمانی مذاہب وامم کا اتفاق ہے کہ دین، نفسِ انسانی، نسلِ انسانی، مال اور عقل کی حفاظت کے لئے شریعت نازل ہوئی ہے.
("فقد اتفقت الأمة بل سائر الملل على أن الشريعة وضعت للمحافظة على الضروريات الخمس وهي:
الدين، والنفس، والنسل، والمال والعقل (الموافقات للشاطبي (1/ 31)
شریعت اسلامیہ میں سب اہم، کلیدی اور قابل ترجیح چیز دین اور ایمان کا تحفظ ہے. نکاح کے باب میں بھی حسب ونسب، مال ودولت، دنیاوی جاہ ومنصب کے بالمقابل دین کی ترجیح کو کامیابیوں، کامرانیوں اور معاشرتی مسرتوں اور شادمانیوں کا ضامن قرار دیا گیا ہے. قانون قدرت "نکاح" کی حیثیت صرف سماجی بندھن یا دوبکریوں کو کھونٹے میں "باندھ دینے" کی نہیں ہے؛ بلکہ نکاح چند بلند ترین مقاصد کے حصول کے لئے عمل میں لائے جانے والے "دیرپا اور مقدس رشتے" کا نام ہے. انہی مقاصد کے حصول کے پیش نظر اسلام نے نکاح کو نفلی عبادت سے افضل اور تجرد کی زندگی سے بہتر قرار دیا ہے۔ صرف شہوت رانی نکاح کا مقصود نہیں ہے. نکاح کا بنیادی مقصد عفت وعصمت کی حفاظت اور افزائشِ نسل انسانی ہے۔ لہذا اس مقصد کے حصول کی راہ میں ممد ومعاون ثابت ہونے والی خاتوں کو نکاح کے لئے منتخب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔حافظ عسقلانی کے بقول شہوت کو توڑنے، نفس کو عفیف بنانے اور نسل کی کثرت کے لئے شادی عمل میں آتی ہے۔ (فتح الباری 21/27). ان مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بننے والی خاتون سے نکاح نہ کرنے کی تعلیم ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد ثلاثہ:
1: توحید،  2: آخرت اور  3: رسالت 
سے متصادم عقیدہ کی حامل خاتون یا مرد کو اپنے حرم میں لانے سے شرک وکفر کی نفرت کے خاتمہ کے ساتھ  اس کی طرف رغبت ومیلان کا خاموش اظہار بھی ہے اور پہر اس اختلاط کے نتیجے میں حاصل شدہ اولاد بھی کفریہ جراثیم سے لت پت ہونگی۔۔۔جس سےاسلام کی اساس اور بنیاد "توحید" پر زک پڑے گی۔ اس لئے قرآن کریم سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ "شرک" نکاح کی حرمت کے منجملہ اسباب میں سے ایک سبب ہے. اور کسی بھی مسلم عورت کا مشرک مرد سے یا مسلم مرد کا مشرکہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے ۔ دونوں کا ازدواجی تعلقات قائم کرنا زناکاری کے زمرے میں آئے گا، اللہ پاک نے صریحاً اس سے منع کیا ہے: 
"وَلَاتُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا" [البقرۃ: ۲۲۱] 
اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں، مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا)
اس حرمتِ مناکحت کا تعلق دین اور ایمان کی حفاظت کے ساتھ ہے۔صیانت دین وایمان من جملہ مقاصد شریعت میں ہے، ہر حال میں اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا، مسلمہ عورت کو مشرک مرد کی قوامیت میں دینے کی صورت میں عورت اپنی طبعی انفعالیت اور تاثرپذیری کے باعث مشرک مرد کے کافرانہ عقائد اور اعمال کو اختیار کرلے گی۔ اس صریح اور قطعی الدلالۃ ممانعت اور حرمت کے باعث مسلمان عورت کے غیرمسلم مرد سے نکاح کا قائل ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں کوئی بھی قابلِ ذکر مفسر اور فقیہ نہیں رہا ہے اور اس کی حرمت پر علماے امت کا اجماع چلا آرہا ہے، ان سے مناکحت قائم کرنے میں ان کے اقوال، ان کے افعال، ان کی محبت کے ساتھ اختلاط کرنا، شرک کی نفرت اور اس کی برائی کو دل سے کم کرتا ہے اور شرک کی طرف رغبت کا باعث ہوتا ہے جس کا انجام کار دوزخ ہے. مسلمان عورت کے لئے کسی غیرمسلم مرد سے شادی کے حرام ہونے پر تمام فقہاء ومفسرین متفق ہیں، غیرمسلم سے مراد ہر کافر یا مشرک ہے، خواہ وہ مشرک ہو، مجوسی ہو یا اہل کتاب ہو. امام قرطبی لکھتے ہیں: 
"أي لا تزوجوا المسلمة من المشرك وأجمعت الأمة على أن المشرك لا يطأ المؤمنة بوجهٍ لما في ذلك من الغضاضة على الإسلام." [الجامع لأحكام القرآن: ج: 3 ص: 72].
ترجمہ: "یعنی کسی مسلمان عورت کا کسی مشرک سے نکاح نہ کرو، اور ملت اسلامیہ کا اس پر اجماع ہے کہ مشرک کسی مومن عورت سے کسی بھی صورت میں ہمبستری نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ اس میں اسلام کی توہین وتنقیص ہے۔"
امام رازی کہتے ہیں:
"فلا خلاف ها هنا أن المراد به الكل-أي جميع غيرالمسلمين- وأن المؤمنة لا يحل تزوجها من الكافر البتة على اختلاف أنواع الكفرة." [التفسيرالكبير: ج 6، ص 64، وانظر: تفسير ابن كثير: ج 1 ص 258].
ترجمہ: یہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مشرک سے مراد علی العموم تمام غیرمسلم ہیں اور یہ کہ کسی مومنہ عورت کے لئے کسی بھی کافر سے قطعاً نکاح جائز نہیں ہے، اس ممانعت میں کافروں کی تمام قسمیں شامل ہیں.
إمام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں: 
"وإن كانت الآية نزلت في تحريم نساء المسلمين على المشركين من مشركي أهل الأوثان يعني قوله عز وجل: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} فالمسلمات محرمات على المشركين منهم بالقرآن بكل حال وعلى مشركي أهل الكتاب لقطع الولاية بين المسلمين والمشركين وما لم يختلف الناس فيما علمته." [أحكام القرآن للشافعي ج: 1ص: 189].
ترجمہ: یہ آیت اگرچہ مشرکوں کے لئے مسلمان عورتوں کی حرمت کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس کو آیت قرآنیہ میں بتایا گیا ہے: {اور مشرکین سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں}؛ لہذا مسلمان عورتیں کافروں میں سے بت پرستوں پر حرام ہیں قرآنی ممانعت کی وجہ سے اور اہل کتاب کے مشرکین پر حرام ہیں مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ولایت نہ ہونے کی وجہ سے ۔اس میں لوگوں کا اختلاف رائے نہیں ہے."
امام كاسانی فرماتے ہیں: 
"فلا يجوز انكاح المؤمنة الكافر لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} ولأن في انكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر لأنّ الزوج يدعوها إلى دينه والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثروا من الأفعال ويقلدونهم في الدين وإليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار }. [سورة البقرة: 221]. لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار لأن الكفر يوجب النار فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراماً، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلّة وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلا يجوز انكاح المسلمة الكتابي كما لايجوز إنكاحها الوثني والمجوسي لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا}. [سورة النساء: 141]. فلو جاز نكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل وهذا لايجوز. [بدائع الصنائع ج: 2 ص: 271 ]. 
ترجمہ: "کسی مسلمان عورت کے لئے کافر سے نکاح جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا}، وجہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کا کافر سے نکاح کرنے میں اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ وہ مسلمان خاتون کفر میں مبتلا ہوجائے گی؛ کیوں کہ شوہر اسے اپنے دھرم کی دعوت دے گا، اور عموما عورتیں ان افعال میں اپنے شوہروں کی ضرور پیروی کرتی ہیں، جن میں وہ با اثر ہوتے ہیں اور دین میں ان کی تقلید کرتی ہیں، اور اسی خطرے کی طرف اللہ تعالی نے آیت کے آخر میں اشارہ فرمایا ہے: {أولئك يدعون إلى النار}؛ کیوں کہ وہ مومن عورتوں کو کفر کی طرف بلاتے ہیں اور کفر کی طرف بلانا در حقیقت جہنم کی طرف بلانا ہے؛ اس لئے کہ کفر سے جہنم لازم ہے؛ لہذا کسی کافر کا کسی مسلمان خاتون سے شادی کرنا، حرام کی طرف بلانے کا سبب ہونے کی وجہ سے حرام ہے، اور نص قرآنی اگرچہ مشرکین کے بارے میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن علت، یعنی جہنم کی طرف بلانا، تمام کافروں میں پائی جاتی ہے؛ لہذا عموم علت کی وجہ سے حکم بھی عام ہوگا؛ چناں چہ مسلمان عورت سے کسی کتابی کا نکاح اسی طرح جائز نہیں ہوگا، جس طرح بت پرست اور مجوسی سے جاىز نہیں ہے؛ کیوں کہ شریعت نے اللہ تعالیٰ کے فرمان {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا} کی وجہ سے کافروں کی ولایت کو مومنوں پر منقطع کردیا ہے؛ چناں چہ اگر کسی کافر کے لئے مومنہ عورت سے نکاح کرنا جائز ہوگا، تو اس کے لئے مسلمان عورت پر ولایت ثابت ہوجائے گی، جو جائز نہیں ہے۔"
امام مالک ایک سلسلہ گفتگو میں فرماتے ہیں:
ولو أن نصرانيا ابتدأ نكاح مسلمة كان النكاح باطلا " [المدونة الكبرى ج: 4 ص: 301 ].: 301].
ترجمہ: "اور اگر کسی عیسائی نے مسلمان عورت سے نکاح کیا، تو وہ نکاح باطل ہے۔"
امام ابن جزی فرماتے ہیں: 
"وإن نكاح كافرٌ مسلمة يحرم على الإطلاق بإجماع." [القوانين الفقهية ج: 1ص: 131].
ترجمہ: "مطلقا کسی کافر کا مسلمان عورت سے نکاح کرنا بالاتفاق حرام ہے۔"
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
"إذ لا يجوز لكافر نكاح مسلمة قال ابن المنذر أجمع على هذا كل من نحفظ عنه من أهل العلم." [المغني ج: 7 ص: 129].
ترجمہ: کافر کے لئے مسلمان عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے ابن المنذر نے کہا کہ ہماری معلومات کی حد تک اہل علم کا اس پر اتفاق واجماع ہے۔"
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"ولا يزوج كافر مسلمة بحال، قال: "أما الكافر فلا ولاية له على مسلمة بحال، بإجماع أهل العلم، منهم: مالك، والشافعي، وأبوعبيد، وأصحاب الرأي، وقال ابن المنذر: أجمع على هذا كل من نحفظ عنه من أهل العلم." [المغني7/ 27].
ترجمہ: "کافر کسی بھی حالت میں کسی مسلمان عورت سے شادی نہیں کرسکتا، انھوں نے فرمایا: "جہاں تک کافر کا تعلق ہے، تو وہ کسی بھی حالت میں کسی مسلمان عورت پر ولایت نہیں رکھتا، اہل علم کا اس پر اجماع ہے، ان میں امام مالک، امام شافعی، ابوعبید اور احناف شامل ہیں۔"
ابن حزم فرماتے ہیں:
"ولا يحل لمسلمة نكاح غيرمسلم أصلا... برهان ذلك قول الله عز وجل: {ولا تنكحوا المشركين  حتى يؤمنوا}. [سورة البقرة: 221]. [المحلى ج: 9 ص: 449].
ترجمہ: "کسی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بھی غیرمسلم سے نکاح کرے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا}.
قرآن کریم کی قطعی الدلالہ آیت کی تحریم اور اس پر اجماع علماے امت کے بعد اب کسی عقلی وجہ ڈھونڈنے کی قطعی کوئی ضرورت باقی نہ رہی. کسی بھی کافر ومشرک کو مسلمہ عورت دینا یا ان کی عورت کو اپنے نکاح میں لانا قطعا ناجائز وحرام ہے۔اس قربت ویکجائی کو نکاح جیسے نام کے ساتھ موسوم کرنا اس شرعی نام بلکہ عبادت کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔ ارتداد یا ردت لغوی اعتبار سے پلٹنے کو کہتے ہیں ، مرتد اسم فاعل ہے، اس کا لفظی معنی لوٹنے اور پلٹنے والا ہے۔ شرعی اصطلاح میں مرتد وہ شخص ہے جو زبان یا عمل کے ذریعے شرکیہ کفریہ جملے کے تکلم، عمل یا ضروریات دین میں سے کسی ضروری حکم کے انکار کے ذریعے اسلام سے  کفر کی طرف لوٹ جائے، خواہ اسلام سے اپنے سابقہ دین کی طرف لوٹے یا کسی اور دین کی طرف لوٹے یا کوئی دین ہی اختیار نہ کرے. علامہ کاسانی (ت 587 هـ) بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:
(أما ركن الردة فهو إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد وجود الإيمان؛ إذ الردة عبارة عن الرجوع عن الإيمان) [7/134].
علامہ صـــــاوي مالكی (ت 1241هـ) الشرح الصغير میں لکھتے ہیں: 
(الردة كفر مسلم بصريح من القول، أو قول يقتضي الكفر، أو فعل يتضمن الكفر) [6/144].
علامہ شربينی شافعی (ت: 977هـ) کی مغنی المحتاج  میں ہے.
(ت: 977هـ): 
(الردة هي قطع الإسلام بنیة، أو فعل سواءً قاله استهزاء، أو عناداً، أو اعتقاداً) [4/133].
علامہ بـهــوتی حنبلی كشاف القناع میں لکھتے ہیں:
(المرتد شرعاً الذي يكفر بعد إسلامه نطقاً أو اعتقاداً، أو شكاً، أو فعلاً) [6/136].
مذاہب اربعہ مُتّبَعہ کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ مجموعی طور پر ضروریات دین کا قول یا عمل واعتقاد کے ذریعے انکار کرنے کو ردت کہتے ہیں. یعنی جب تک ضروریات دین کا بلاعذر، صریحی، زبانی یا عملی انکار نہ کرے یا جس گناہ کا گناہ یا حرام ہونا قطعی دلیل سے ثابت ہو، اسے حلال سمجھ کر نہ کرے بندہ  اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔ہاں معصیت اور کبائر کا ارتکاب ضرور ہوگا جس پر توبہ کرنا لازمی ہوگا. اگر دل میں کسی گناہ کی سنگینی اور حرمت کا خیال تو ہو؛ لیکن نفسانی بہکاوے، حرص وطمع یا وقتی عوامل کے سامنے بے قابو ہوکر کوئی گناہ کا کام کرلے تو یہ معصیت اور گناہ تو ہوگا لیکن اس سے وہ دین سے پھرنے والا شمار نہیں ہوگا اور اس کا ایمان باقی رہے گا. فتاویشامی میں ہے:
"مطلب: استحلال المعصية القطعية كفر
لكن في شرح العقائد النسفية:  استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصيةً بدليل قطعي،  وعلى هذا تفرع ما ذكر في الفتاوى من أنه إذا اعتقد الحرام حلالاً، فإن كان حرمته لعينه و قد ثبت بدليل قطعي يكفر وإلا فلا، بأن تكون حرمته لغيره أو ثبت بدليل ظني.  وبعضهم لم يفرق بين الحرام لعينه ولغيره، و قال: من استحلّ حرامًا قد علم في دين النبي عليه الصلاة والسلام  تحريمه كنكاح المحارم فكافر. اهـ. قال شارحه المحقق ابن الغرس وهو التحقيق. وفائدة الخلاف تظهر في أكل مال الغير ظلمًا فإنه يكفر مستحلّه على أحد القولين. اهـ. وحاصله: أنّ شرط الكفر على القول الأول شيئان: قطعية الدليل، وكونه حرامًا لعينه. وعلى الثاني يشترط الشرط الأول فقط، وعلمت ترجيحه". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 292)
موسوعہ فقہیہ میں ہے:
"الاِسْتِحْلاَل: اعْتِبَارِ الشَّيْءِ حَلاَلاً، فَإِنْ كَانَ فِيهِ تَحْلِيل مَا حَرَّمَهُ الشَّارِعُ: فَهُوَ حَرَامٌ، وَقَدْ يَكْفُرُ بِهِ إِذَا كَانَ التَّحْرِيمُ مَعْلُومًا مِنَ الدِّينِ بِالضَّرُورَةِ.
فَمَنِ اسْتَحَل عَلَى جِهَةِ الاِعْتِقَادِ مُحَرَّمًا - عُلِمَ تَحْرِيمُهُ مِنَ الدِّينِ بِالضَّرُورَةِ - دُونَ عُذْرٍ: يَكْفُرُ.
وَسَبَبُ التَّكْفِيرِ بِهَذَا: أَنَّ إِنْكَارَ مَا ثَبَتَ ضَرُورَةً أَنَّهُ مِنْ دِينِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِيهِ تَكْذِيبٌ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ ضَرَبَ الْفُقَهَاءُ أَمْثِلَةً لِذَلِكَ بِاسْتِحْلاَل الْقَتْل وَالزِّنَى، وَشُرْبِ الْخَمْرِ، وَالسِّحْرِ.
وَقَدْ يَكُونُ الاِسْتِحْلاَل حَرَامًا، وَيَفْسُقُ بِهِ الْمُسْتَحِل، لَكِنَّهُ لاَ يَكْفُرُ، كَاسْتِحْلاَل الْبُغَاةِ أَمْوَال الْمُسْلِمِينَ وَدِمَاءَهُمْ. وَوَجْهُ عَدَمِ التَّكْفِيرِ أَنَّهُمْ مُتَأَوِّلُونَ"  "الموسوعة الفقهية" (3/ 236)
غربت، افلاس، ایمانی کمزوری، بے دینی، مخلوط تعلیمی نظام، اباحیت پسندی، میلے ٹھیلے میں جانے کے عمومی رجحان، سوشلستان کے بے جا استعمال، ضعف عقیدہ، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، نکاح میں بے جا تاخیر ، جہیز کے مطالبے، فرد کی بے محابا آزادی، حیاء سوز وحیاء باختہ کلچر کی تابعداری  کے باعث مادروطن میں مسلمان لڑکی کا کافر آشنا کے ساتھ چلی جانے اور شادی منعقد کرلینے کے واقعات روزافزوں ہیں، آئے دن مسلم لڑکیوں کا کافروں کے چنگل میں پھنسنے کی دلدوز خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں، یہ روح فرسا واقعہ گوکہ روز افزوں ہے اور تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن اسے بڑھاکر چڑھاکر پیش کرنا اور لاکھوں سے متجاوز کردینا بھی سنسنی خیزی، سراسیمگی اور ہیجان انگیزی کی کوشش معلوم ہوتی ہے، پھر بے راہ روی اور کافر آشنا کے ساتھ شادی رچالینے کو علی العموم ردت کا عنوان دینا بھی درست نہیں ہے. ہر واقعے کو ازروئے شرع ردت کہنا صحیح نہیں ہے، دام عشق ومحبت میں پھنس کر یا حرص وطمع، غربت وافلاس یا جہیز کے مطالبہ سے تنگ آکر ایسا کرلینا جبکہ دل سے اسے حلال نہ سمجھا جائے، بے عملی اور گناہ کبیرہ تو ہے؛ لیکن اسے ردت نہیں کہا جاسکتا. ان دنوں مادروطن میں امت مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ غیرمسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا بھی  ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس سنگین مسئلہ سے شدید متاثر ہیں۔ ہندوستان میں بڑھتی مذہبی منافرت اب ایک نازک موڑ پر آپہنچی ہے۔ یہ بات بہت حیران کن اور فکر انگیز ہے کہ ہندوتوا ایجنڈے کے ایک سازش کے تحت محبت کا جھانسہ دیکر مسلم لڑکیوں کو غیروں نے اپنے چنگل میں پھنسانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ گھر واپسی کے نام پر مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنانے کی مکمل سازش چل رہی ہے۔ اور روز بہ روز ہزاروں دختران ملت اس سازش کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں، جن کی زندگیاں تیاہ و برباد ہورہی ہیں۔
اہل ایمان کے یہاں سب سے قیمتی سرمایہ اور گنج گراں مایہ دین وایمان اور عمل صالح ہے. والدین کا اپنی اولاد کو سب سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم وتربیت ہے۔ آج مسلمانوں میں بے دینی پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کی چند روزہ دنیوی راحت وآسائش کی فکر، تگ ودو اور انتظامات میں منہمک تو  رہتے ہیں؛ لیکن دین وایمان جیسی دولت لازوال کی طرف خاطر خواہ انتظام والتفات نہیں ہوپاتا ہے جس کے باعث بچوں کی اٹھان اور نشو ونما اسلامی خطوط پر نہیں ہوپاتی ہے اور آگے چل کر پھر یہی بچے غلط نظریات وعقائد کا آسان شکار بن جاتے ہیں. اس لئے سب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دیں اور اس پر عمل کرانے کی کوشش کریں. سورۃ التحریم آیت 6 کے ذیل میں اہل وعیال کی صحیح اسلامی رہنمائی کے ذریعے جہنم کی آگ سے بچنے کا وجوبی حکم ہوا ہے؛ لہذا اپنے بچوں کی دینی اور روحانی حالت کو بنانے، سنوارنے، سدھارنے اور ان کی دینی واسلامی شناخت باقی رکھنے کی فکر کرنا والدین کی اولیں ذمہ داری ہے، بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے روز والد سے اولاد کے متعلق سوال ہوگا کہ تم نے بچے کو کیا سکھایا پڑھایا؟ (أدب ابنك، فإنك مسئول عن ولدك، ماذا أدبته؟ وماذا علمته؟ (سنن البيهقي :5098). آج کے اس پرفتن دور میں برائیوں کو روکنا تنہا کسی ادارے، تنظیم یا جماعت کی ذمہ داری نہیں؛ بلکہ یہ انفرادی طور پر ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے. پوری سنجیدگی کے ساتھ مسلم تعلیمی اداروں، سماجی اور مذہبی تنظیموں، علماء و مشائخ، مذہبی و سیاسی قائدین اور دینی تحریکوں اور جماعتوں کو اس مسئلہ پر غور کرنے، مہم چلانے اور فکر و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
والسلام 

شکیل منصور القاسمی

مركزالبحوث الإسلاميه العالمي 
(ہفتہ 8 شوال المکرم 1444ھ. 29 اپریل 2023ء) 
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/04/blog-post_29.html

Saturday 22 April 2023

فقہیاتِ رمضان (60)

فقہیاتِ رمضان (60)
=== ماہ رمضان؛ فضائل و مسائل ===
(بقلم: مفتی سفیان بلند)
لیلة الجائزہ یعنی رمضان المبارک کی آخری رات، مسلمانوں کے لئے انعامات ربانی کی عطا:
●  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شبِ قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام، ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں، اور اُس شخص کے لئے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کررہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دُعائے رحمت کرتے ہیں، اور جب عیدالفِطر کا دن ہوتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فَخر فرماتے ہیں (اِس لئے کہ اُنہوں نے آدمیوں پر طعن کیا تھا) اور اُن سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! اُس مزدُور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی اُجرت پوری دے دی جائے، تو ارشاد ہوتا ہے کہ فرشتو! میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فرِیضے کو پورا کردیا، پھر دُعا کے ساتھ چِلَّاتے ہوئے (عیدگاہ کی طرف) نکلے ہیں، میری عزت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! میری بخشش کی قَسم! میرے عُلُوِّ شان کی قَسم! میرے بُلندیٔ مَرتبہ کی قَسم! میں اُن لوگوں کی دُعا ضرور قبول کروں گا، پھر اُن لوگوں کو خِطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جاؤ! تمہارے گناہ معاف کردیئے ہیں اور تمہاری  بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے، پس یہ لوگ عیدگاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ اُن کے گناہ مُعاف ہوچکے ہوتے ہیں۔ (بیہقی)
فائدہ: حضرت جبرئیل علیہ السلام کا ملائکہ کے ساتھ آنا خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا، اور بہت سی احادیث میں بھی اِس کی تَصرِیح ہے، روایات میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تما م فرشتوں کو تقاضہ فرماتے ہیں کہ ہر ذَاکر و شاغل کے گھرجائیں اور اُن سے مُصافَحہ کریں، "غَالِیَۃُ المَواعِظ" میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی "غُنیۃ" سے نقل کیا ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے کہنے سے مُتفَرق ہوجاتے ہیں، اور کوئی گھر چھوٹا بڑا، جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور وہ فرشتے مصافحہ کرنے کے لئے وہاں نہ جاتے ہوں، لیکن اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتَّا یا سُوَّر ہو، یا حَرام کارِی کی وجہ سے جنُبی یا تصویر ہو، مسلمانوں کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن میں خَیالی زِینت کی خاطر تصویریں لٹکائی جاتی ہیں اور اللہ کی اتنی بڑی نعمت رحمت سے اپنے ہاتھوں اپنے کو محروم کرتے ہیں! تصویر لٹکانے والا ایک آدھ ہوتا ہے، مگر اُس گھر میں رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے سے روکنے کا سبب بن کر سارے ہی گھر کواپنے ساتھ محروم رکھتاہے۔
روزہ دار کے لئے خصوصی انعامات:
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ میری اُمَّت کو رمَضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مَخصُوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی اُمَّتوں کو نہیں ملی ہیں:
(۱) ان کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مُشک سے زیادہ پسند ہے۔ 
(۲) یہ کہ اُن کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں، اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ 
(۳) جنت ہرروز اُن کے لئے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تَعَالیٰ شَانُہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آویں۔
(٤) اِس میں سَرکش شیاطِین قید کردیئے جاتے ہیں کہ وہ رمَضان میں اُن بُرائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیرِرمَضان میں پہنچ سکتے ہیں۔
(۵) رمَضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ شبِ مغفرت، شبِ قدر ہے؟ فرمایا کہ نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔ (أحمد والبزار والبیهقی)
فائدہ: حدیث بالا میں آخری خصوصِیَّت یہ ذکر کی گئی ہے کہ رمَضانُ المبارک کی آخری رات میں سب روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے، چونکہ رمَضانُ المبارک کی راتوں میں شبِ قدر سب سے اَفضل رات ہے، اِس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خَیال فرمایا کہ اِتنی بڑی فضیلت اِسی رات کے لئے ہوسکتی ہے، مگر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اُس کے فضائل مُستقِل علیحدہ چیز ہیں، یہ انعام تو ختمِ رمَضان کا ہے۔
رمضان کی آخری رات کے انعامات اور مغفرت سے محروم افراد:
● حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جنت کو رمَضان شریف کے لئے خوشبوؤں کی دُھونی دی جاتی ہے، اور شروع سال سے آخر سال تک رمَضان کی خاطر آراستہ کیا جاتا ہے، پس جب رمَضانُ المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہَوا چلتی ہے، جس کا نام "مَثِیرہ" ہے، (جس کے جھونکوں کی وجہ سے) جنت کے دَرختوں کے پَتے اور کِواڑوں کے حَلقے بجنے لگتے ہیں، جس سے ایسی دِلآویز سُرِیلی آواز نکلتی ہے کہ سُننے والوں نے اِس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی، پس خوش نُما آنکھوں والی حُوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بَالاخانوں کے درمیان کھڑے ہوکر آواز دیتی ہیں کہ کوئی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا تاکہ حق تَعَالیٰ شَانُہ اُس کو ہم سے جوڑ دیں؟ پھر وہی حوریں جنت کے دَاروغہ رِضوان سے پوچھتی ہیں کہ یہ کیسی رات ہے؟ وہ لَبَّیْكَ کہہ کرجواب دیتے ہیں کہ رمَضانُ المبارک کی پہلی رات ہے، آج جنت کے دروازے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے لئے کھول دیئے گئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تَعَالیٰ شَانہ رضوان سے فرمادیتے ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دے، اور مالک (جہنَّم کے داروغہ) سے فرمادیتے ہیں کہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے روزے داروں پر جہنَّم کے دروازے بند کر دے، اور جبرئیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور سَرکَش شیاطین کو قید کرو، اور گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو کہ میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے روزوں کو خراب نہ کریں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ حق تَعَالیٰ شَانُہ رمَضان کی ہر رات میں ایک مُنادِی کو حکم فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اُس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی ہے مغفرت چاہنے والا کہ میں اُس کی مغفرت کروں؟ کون ہے جو غنی کو قرض دے؟ ایسا غنی جو نادار نہیں، ایسا پورا پورا ادا کرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تَعَالیٰ شَانُہ رمَضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دَس لاکھ آدمیوں کو جہنَّم سے خَلاصِی مَرحَمَت فرماتے ہیں جو جہنم کے مُستحَق ہوچکے تھے، اور جب رمَضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمَضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کئے گئے تھے اُن کے برابر اُس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں، اور جس رات شبِ قدر ہوتی ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لَشکر کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں، اُن کے ساتھ ایک سَبز جھنڈا ہوتا ہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں، اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سو بازُو ہیں، جن میں سے دو بازُو کو صرف اِسی رات میں کھولتے ہیں، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلادیتے ہیں، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ جو مسلمان آج کی رات میں کھڑا ہویا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کررہا ہو، اُس کو سلام کریں اور مصافحہ کریں، اور اُن کی دعاؤں پر آمین کہیں، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہوجاتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام آواز دیتے ہیں کہ اے فرشتوں کی جماعت! اب کُوچ کرو اور چلو، فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا مُعاملہ فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر توجُّہ فرمائی، اور چار شخصوں کے عِلاوہ سب کو مُعاف فرمادیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یارسولَ اللہ! وہ چار شخص کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ 
1: ایک وہ شخص جو شراب کا عادِی ہو، 
2: دوسراوہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، 
3: تیسرا وہ شخص جو قَطع رَحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو، 
4: چوتھا وہ شخص جو کِینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قَطع تعلق کرنے والا ہو،
پھر جب عیدالفِطر کی رات ہوتی ہے تو اُس کا نام (آسمانوں پر) "لَیْلَۃ الْجَائِزَۃِ" (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے، اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تَعَالی شَانُہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اُترکر تمام گلیوں، راستوں کے سِروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ایسی آواز سے جس کو جِنّات اور انسان کے سِوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمَّت! اُس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا  فرمانے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قُصور کو مُعاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تَعَالیٰ شَانُہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تَعَالیٰ شَانُہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! مَیں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے اُن کو رمَضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رَضا اور مغفرت عطا کردی، اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزَّت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! آج کے دن اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا، میری عزَّت کی قَسم! جب تک تم میرا خَیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر سَتَّاری کرتا رہوں گا (اور اُن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قَسم اور میرے جَلال کی قَسم! میں تمھیں مُجرِموں (اور کافروں) کے سامنے رُسوا اور فَضِیحت نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا، پس فرشتے اُس اَجر و ثواب کو دیکھ کر جو اِس اُمَّت کو اِفطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مَناتے ہیں اور کھِل جاتے ہیں۔
(کذا في الترغیب، وقال: رواہ أبو الشیخ بن حبان في کتاب الثواب، والبیهقي واللفظ لہ، ولیس في إسنادہ من أجمع علیٰ ضعفہ، قلت: قال السیوطي في التدریب: قد التزم البیهقي أن لایخرج في تصانیفہ حدیثا یعلمہ موضوعا إلخ، وذکر القاري في المرقاۃ بعض طرق الحدیث، ثم قال: فاختلاف طرق الحدیث یدل علیٰ أن لہ أصلا)
فائدہ: حدیثِ بالا میں عید کی رات کو "انعام کی رات" سے پکارا گیا ہے، اِس رات میں حق تَعَالیٰ شَانُہ کی طرف سے اپنے بندوں کو اِنعام دیاجاتا ہے، اِس لئے بندوں کو بھی اِس رات کی بے حد قدر کرنا چاہیے، بہت سے لوگ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا، خواص بھی رمَضان کے تھکے ماندے اِس رات میں میٹھی نیند سوتے ہیں یا بازاروں کے چکر لگاتے ہیں اور بعض معتکف تو خاص اس رات خریداری کے لئے نکلتے ہیں حالانکہ یہ رات بھی خُصوصِیَّت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے، اُس کا دل اُس دن نہ مرے گا جس دِن سب کے دل مر جائیں گے، یعنی فِتنہ وفَساد کے وقت جب لوگوں کے قُلوب پر مُردنی چھاتی ہے اُس کا دل زندہ رہے گا اور ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کا دن مراد ہو کہ اُس کی رُوح بے ہوش نہ ہوگی۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لئے جاگے اُس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی:
لَیلَةُ الترَّوِیة: ٨ ذِی الحجہ کی رات، 
لَیلَة العَرْفَة: ۹؍ ذی الحجہ کی رات،
لَیلَةُ النَّحر: ۱۰؍ ذی الحجہ کی رات،
عیدالفطر کی رات، اور شبِ برأت یعنی ۱۵؍ شعبان کی رات۔
فقہاء کرام نے بھی عیدین کی رات میں جاگنا مُستَحب لکھا ہے، "مَاثَبَتَ بِالسُّنَّۃ" میں امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ پانچ راتیں دعا کی قَبولِیت کی ہیں:
1: جمعہ کی رات، 
2'3: عیدین کی راتیں، 
4: غُرَّۂ رجب کی رات اور 
5: نصف شعبان کی رات۔
تنبیہ:
بعض بزرگوں کا ارشاد ہے کہ رمَضانُ المبارک میں جمعہ کی رات کا بھی خُصوصِیَّت سے اہتمام کرنا چاہئے، کہ جمعہ اور اُس کی رات بہت مُتبرک اَوقات ہیں، احادیث میں اِن کی بہت فضیلت آئی ہے، مگر چونکہ بعض روایات میں جمعہ کی  رات کو قِیام کے ساتھ مَخصوص کرنے کی مُمانَعت بھی وارد ہوئی ہے، اِس لیے بہتر ہے کہ ایک دو رات کو اُس کے ساتھ اور بھی شامل کرلے۔ (مستفاد از فضائل اعمال)
ناشر: دارالریان کراتشی ( #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2023/04/60.html?m=1

Sunday 16 April 2023

حقیقتِ اعتکاف: اکابر کے ساتھ اجتماعی اعتکاف کی حقیت وحیثیت!

حقیقتِ اعتکاف: اکابر کے ساتھ اجتماعی اعتکاف کی حقیت وحیثیت!
-------------------------------
--------------------------------
پچھلی امتوں میں رب تعالی کی قربت، رضاء، محبوبیت، انسانی سعادت اور روحانی ترقیوں کے حصول کے لئے جنگلوں، پہاڑوں، غاروں اور "عزلت وخلوت" کے "مہیب گوشوں" میں ڈیرے ڈال کر نفسانی مرغوبات، لذائذِ حیات اور فطری احساسات کے تقاضوں کو کچلتے ہوئے بیوی، بچوں اور معاشرتی و اجتماعی مصروفیات ومسئولیات سے یکسر منہ موڑکر ریاضت شاقہ کرنا لابدی سمجھا جاتا تھا، انسانی طبعی تقاضوں، آرزؤوں اور تمناؤوں سے دستبردار ہوئے بغیر انسانی معراج، اخروی سعادت اور روحانی ترقیوں و بلندیوں تک رسائی ناقابل تصور تھی۔ اسلام نے اپنی آمد کے بعد اس "ایجاد بندہ" اور "خانہ زاد" تصور کو باطل کرتے ہوئے واشگاف کیا کہ معاشرت، تمدن، سیاست ،معیشت ، اور زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ رہ کر بھی روحانیت کا نور حاصل کیا جا سکتا ہے۔ "ردائے بہیمیت" کو "تار تار" کیا جاسکتا ہے. "انوارملکوتی" سے قلب ونظر کو جگمگایا جاسکتا ہے. سعادتِ اخروی، معراجِ انسانی، تزکیہ و تصفیۂِ باطن کے لئے "صحراؤں کی خلوت نشینی" یا نفس کشی کے بوجھ تلے خود کو دبانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ تمدنی اور معاشرتی واجتماعی حقوق وذمہ داریاں نباہتے ہوئے: "مخصوص جگہ پر مخصوص زمانے میں مخصوص شروط کے ساتھ مخصوص عمل کرنے اور مخصوص چیزوں کو ترک کرنے (اعتکاف مسنون) سے بھی یہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں." غور کیا جائے تو "طاعات وقربات" کا یہ ربانی وروحانی تربیتی عشرہ "أيامًا معدودات" جسے ہم اعتکاف کہتے ہیں- "رہبانیتِ باطلہ" کے بالمقابل "ربانیت کا شاہکار نظام ہے." جس میں بندۂ مومن صرف گنتی کے چند دن علائقِ دنیا و مافیہا سے کٹ کر خلوت میں اپنے خالق ومالک سے قلب وقالب کے ساتھ منہمک ہوجائے، کثائفِ بہیمیہ پہ خود کا محاسبہ کرے. خالق ومالک دو جہاں سے آلائشِ قلب پر اصلاح حال و تطہیر نفس کی تمنائے بے تاب اور الحاح وزاری کے ساتھ تعلقِ بندگی کی تجدید کرے تو بعید نہیں کہ وہ جلوتِ محبوب کی دولت سے مالا مال ہوجائے اور طفل نومولود کی طرح گناہوں سے دُھل دھلاکر واپس لوٹے۔ اعتکاف کی تعریف علماء محققین نے اپنے اپنے مزاج ومذاق کے اعتبار سے مختلف تعبیرات وپیرائے میں کی ہے. مراقی الفلاح اور حاشیۃ الطحطاوی کے لحاظ سے اعتکاف کا لغوی مفہوم ٹھہڑنا اور کسی چیز کو لازم پکڑنا ہے.
 (هو لغة اللبث والدوام على الشيء. حاشية الطحطاوي على المراقي ٦٩٨)
شرعی طور پر کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کی نیت (اللہ کی عبادت کی نیت )سے ٹھہرنے (مسجد کو خود پر لازم پکڑنے) کو اعتکاف کہتے ہیں جس میں باقاعدہ پانچ وقت کی باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔
(وشرعًا هو الإقامة بنية الاعتكاف في مسجد تقام فيه الجماعة بالفعل للصلوات الخمس . حاشية الطحطاوي على المراقي ٦٩٩)
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
الاعتكاف هو الاقامة على الشىء فقيل لمن لازم المسجد واقام العبادة  فيه:معتكف وعاكف (شرح السنہ ج 2 ص 391۔)
"اعتکاف کامطلب کسی چیز پر ہمیشگی کرنا جو شخص مسجد کو اپنے لیے لازم کرلے اور اس میں عبادت پر ہمیشگی کرے، اسے معتکف اور عاکف کہا جاتا ہے۔"
امام ابن قدامہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
"والاعتكاف فى اللغة هو‏ لزوم الشىء‏ وحبس النفس عليه برا كان أو غيره ومنه قول اللّه تعالى فى القرآن"‏:‏ ‏("مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِى أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ")
وهو في الشرع‏ الإقامة فى المسجد‏، (المغنی ۔ج 32۔ ص 183۔)
"اعتکاف لغت میں کسی شے کو لازم پکڑنا اور اپنے آپ کو اس کے لئے روکے رکھنا چاہے نیک مقصد کے لئے ہو اس کےعلاوہ۔ اسی سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِى أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
هو فى اللغة: الحبس والمكث واللزوم ، وفي الشرع: المكث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة، ويسمى الاعتكاف جوازاً (شرح النووي على صحيح مسلم 247/8)
"لغت میں اس کا مطلب رکنا، ٹھہرنا اورلازم پکڑنا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت میں مسجد میں قیام کرنا، اعتکاف کہلاتا  ہے."
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
الاعتكاف: هو فى اللغة: الحَبس، والمكث، واللُّزوم. وفى الشَّرع: المكث فى المسجد من شخص مخصوص بصفة مخصوصة، (نیل الاوطار ج 3 ص221۔)
"اعتکاف لغت میں بند رہنا، لازم پکڑنا، ٹھہرنا، استقامت اختیار کرنا اور اردگرد رہنا کے معنی میں آتا ہے ۔۔۔ شریعت میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت میں مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے." امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہے:
الاعتكاف لغة / :لزوم الشىء وحبس النفس عليه  وشرعا المقام فى المسجد من شخص مخصوص على صفة مخصوصة (فتح الباری ج 4 ص 271)
"اعتکاف سے لغوی طور پر کسی شے کو لازم کرلینا اور اس پر اپنے آپ کو روک لینا مراد ہے شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کا مخصوص حالت پر مسجد میں قیام کرنا اعتکاف کہلاتا ہے." علامہ ابن رشد ان تعریفات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "مخصوص جگہ پر مخصوص زمانے میں مخصوص شروط کے ساتھ مخصوص عمل کرنے اور مخصوص چیزوں کو ترک کرنے   کو مجموعی طور پر اعتکاف مسنون  کہتے ہیں۔"
(وهو بالجملة يشتمل على عمل مخصوص في موضع مخصوص وفي زمان مخصوص بشروط مخصوصة وتروك مخصوصة. (بداية المجتهد ونهاية المقتصد 261/1)
رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل سنت ہے، ہجرت مدینہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، ہجرت مدینہ سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کرتے رہے، کبھی ترک نہیں کیا۔ قرآن کریم میں اس کی مشروعیت کی تصریح ہے:
وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِۦمَ وَإِسْمَٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ (البقرة: 125۔۔۔
ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو")
{وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} [البقرة: 187].
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فانی دنیا سے پردہ فرمانے تک رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں: 
"حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ۔ (صحيح البخاري 2026 ومسلم: 1172)
علامہ ابن المنذر نے اعتکاف کی سنیت پر علماء امت کا اجماع نقل کیا ہے. 
"وأجمعوا على أن الاعتكاف سنة لا يجب على الناس فرضاً إلا أن يوجبه المرء على نفسه نذرا فيجب عليه".أ.هـ."الإجماع" (ص 53)
اعتکاف ان عبادتوں میں سے ہے جو پچھلے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے عہد میں بھی مشروع اور باعث تقرب الہی تھا، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعد طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لئے اسے پاک صاف رکھنے اور معتکفین کی خدمت کا حکم دیا ہے۔ جیساکہ اوپر مذکورہ آیات میں ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے مسجد حرام میں ایک شب اعتکاف کی نذر مانی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے پر انہیں ایفاء نذر کا حکم ہوا اور انہوں نے زمانہ جاہلیت میں مانی گئی نذراعتکاف زمانہ اسلام میں پوری کی:
أنَّ عمرَ قال: يا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليك إنِّي نذَرْتُ أنْ أعتكفَ ليلةً في المسجدِ الحرامِ في الجاهليَّةِ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: (أَوْفِ بنَذْرِكَ)
أخرجه البخاري (2032)، ومسلم (1656) 
ان آیات، احادیث اور اجماع امت کے باعث رمضان کے اخیر عشرے کا اعتکاف سنت قرار پایا، پھر حضور کے دوام ومواظبت: 
(عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ قَالَ نَافِعٌ وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَالْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔۔)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے وہ جگہ دکھائی تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے۔ سنن ابن ماجہ 1773) کی وجہ سے اس سنت میں تاکُّد پیدا ہوا اور رمضان کے عشرہ اخیر کا اعتکاف سنت مؤکدہ قرار پایا:
وسنة" كفاية "مؤكدة في العشر الأخير من رمضان" (حاشية الطحطاوي على المراقي 700)
علامہ عبدالحی لکھنوی کی نقل کے مطابق اخیر عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے اور باقی عشرے کا اعتکاف مستحب ہے: 
(هل هو سُنَّة مؤكَّدة مُطْلقًا؟ أم في العشر الأواخر من رمضان؟
قولان نقلهما في "مَجْمَعِ الأنْهُر"، وقد مَال إلياس زادَه في "شرح النُّقاية" إلى الأول، وتفصيل الزَّيْلعي الذي دَارَ عليه مَدَار الحق يقتضي أنَّه سُنَّة مُؤَكَّدةٌ في العَشْرِ الأواخرِ من رمضان، ومُسْتَحَبٌّ في غيره.
وقال العلامة الهدّاد الجُونفوري في "حاشيَة الهداية": لا شَكَّ أنَّ الاعتكافَ في نفسِ الأمر مُسْتَحَب، إنَّما السُّنَّة في العَشْر الأواخر من رمضان. (كتاب الإنصاف في حكم الإعتكاف[أبوالحسنات اللكنوي ص 39]
پھر مؤکدہ میں بھی سنت مؤکدہ "کفائی" ہے، سنت مؤکدہ "عینی" نہیں ہے؛ کیونکہ خلفاے اربعہ سمیت جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی دیگر اہم ترین ضروری مصروفیات کے باعث اعتکاف نہیں فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر نہ فرمائی، اگر یہ سنت مؤکدہ عینی ہوتا تو اولاً تو اکابر صحابہ اسے ترک نہ فرماتے اگر کسی باعث ترک ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نکیر ضرور فرماتے. جلیل القدر تابعی امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے، حال آں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے لیکن جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے،کبھی ترک نہیں کیا.
عجباً للمسلمين! تركوا الاعتكاف؛ مع أن النبي -صلى الله عليه وسلم- ما تركه منذ قدم المدينة حتى قبضه الله عز وجل" الفتح 4/285).
کفائی اور عینی (فرض عین و کفایہ یا سنت عینیہ وکفائیہ) کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں شریعت کو انجام دہندہ سے قطع نظر صرف نفس فعل کی انجام دہی مطلوب ہو خواہ کوئی بھی انجام دیدے، تو اسے کفائی کہتے ہیں، اس کے برخلاف جہاں شریعت کو متعینہ طور پر ہر ہر مکلف سے عمل کی انجام دہی مطلوب ہو تو اسے عینی کہتے ہیں۔ عشرہ اخیر کی سنتِ اعتکاف سنت مؤکدہ کفائی ہے، اس میں مکلف من جانب شرع متعین نہیں ہے، جو بھی ادا کردے سنت مطلوبہ ادا ہوجائے گی، بقیہ کا ذمہ فارغ ہوجائے گا. تراویح کی طرح آخر عشرے کا اعتکاف بھی سنت مؤکدہ ہے. لیکن تراویح میں جماعت سنت مؤکدہ کفائی ہے. 
(الجماعة سنة كفاية فيها (التراويح) مراقي الفلاح 413)؛ 
جبکہ یہاں جماعت سنت مؤکدہ کفائی نہیں ہے؛ بلکہ نفس عمل ہی سنت مؤکدہ کفائی ہے، اور من جملہ نفل ہونے کے تفرد مطلوب ہے؛ لہذا ہر محلے کی مسجد میں تراویح کی جماعت قائم کرنا تو مطلوب شرع ہے؛ لیکن اعتکاف میں جماعت مطلوب شرع نہیں ہے، بلکہ یہ عمل اصلاً انفرادی طور پر مشروع ہے۔ اس میں باضابطہ جماعت کا قیام مشروع نہیں ہے، دونوں میں فرق ہے، دونوں کے درمیان من کل وجہ تسویہ درست نہیں ہے؛ ہاں ہر کوئی اپنے اپنے طور پر ادا کرے، نتیجۃً وظاہراً اجتماع کی شکل بن جائے تو امر آخر ہے، بحث سے خارج ہے اور اس کی شرعاً گنجائش ہے۔ 
بخاری میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طویل روایت کا ایک حصہ ہے. "اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ الأُوَلِ مِنْ رَمَضَانَ وَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ ۔۔بخاری 813 
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے اوّل عشرے کا اعتکاف فرمایا تو ہم لوگ بھی حضور کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے) اس میں راوی صیغہ جمع 
(وَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ) 
کے ساتھ بیان فرمارہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ صحابہ کی ایک پوری جماعت اپنے مرشد ومربی کے ہمراہ اپنے اپنے طور پر اعتکاف میں بیٹھ گئی تھی، اور انتہاءً وظاہراً پوری جماعت کی شکل بن گئی تھی. پھر جب حضور کو جبرئیل نے شب قدر کی اطلاع دیدی تو آپ نے اپنے ان صحابہ کو اپنے "ہمراہ" عشرہ اخیر کا اعتکاف کرنے کا کہا: 
مَن كانَ اعْتَكَفَ مَعِي، فَلْيَعْتَكِفِ العَشْرَ الأوَاخِرَ (صحيح البخاري 2027)
صحیحین  کی ایک دوسری روایت میں بھی تصریح ہے کہ حضور کے ساتھ پھر صحابہ کی ایک جماعت شامل اعتکاف ہوگئی:
(إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ، أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيتُ، فَقِيلَ لِي: إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ " فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ) (صحيح مسلم: (1167)
اوپر مذکورہ تمام روایات میں "معیت" کی تصریح ہے. اس سے جہاں یہ واضح ہورہا ہے کہ سنت کفائی میں "جاں بخشی" کے طور پر صرف ایک بندے کو جبراً بٹھادینا مزاج نبوت سے مغائر ہے وہیں یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ سالک ومسترشد راست اپنے مرشد ومربی سے اکتساب فیض اور تربیت باطنی کے مقصد سے عشرہ اخیر میں مرشد کی معیت اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہے: 
الأمور بمقاصدها.
اعتکاف کی لغوی وشرعی تعریفات اوپر کی سطروں میں آچکی ہیں، چونکہ شریعت کی جانب سے اس بات کی تصریح اور تحدید نہیں کی گئی ہے کہ دوران اعتکاف کون کون سے اعمال کئے جاسکتے ہیں اور کون کون سے نہیں؟ اس لئے ائمہ مجتہدین کے نقطہائے نظر اعتکاف کے معنی کے تعیّن میں مختلف ہوگئے ہیں، احناف وشوافع کا خیال ہے کہ مسجد سے متعلقہ قربات وطاعات ہی دوران اعتکاف انجام دیئے جاسکتے ہیں، لہذا جنازہ وغیرہ کے لئے بالقصد نکلنے کی گنجائش نہ ہوگی۔ جبکہ سفیان ثوری ودیگر حضرات کا خیال ہے کہ آخرت سے متعلقہ جملہ اعمال بِر وقربات دوران اعتکاف انجام دیئے جاسکتے ہیں؛ لہذا عیادت مریض و جنازہ وغیرہ کے لئے خروج کی اجازت ہوگی:
(فأما العمل الذي يخصه ففيه قولان: قيل : إنه الصلاة وذكر الله وقراءة القرآن لا غير ذلك من أعمال البر والقرب، وهو مذهب ابن القاسم. وقيل جميع أعمال القرب والبر المختصة بالآخرة، وهو مذهب ابن وهب، فعلى هذا المذهب يشهد الجنائز ويعود المرضى ويدرس العلم، وعلى المذهب الأول لا، وهذا هو مذهب الثوري ، والأول هو مذهب الشافعي وأبي حنيفة [ص: 261] وسبب اختلافهم: أن ذلك شيء مسكوت عنه - أعني: أنه ليس فيه حد مشروع بالقول- فمن فهم من الاعتكاف حبس النفس على الأفعال المختصة بالمساجد قال: لايجوز للمعتكف إلا الصلاة والقراءة . ومن فهم منه حبس النفس على القرب الأخروية كلها أجاز له غير ذلك مما ذكرناه . (بداية المجتهد ونهاية المقتصد 261/1)
اعتکاف کے معانی کے تعین میں ائمہ کے اس اختلاف نظر کو سامنے رکھنے کے بعد اب ذرا اس پر بھی غور کرتے چلئے کہ "تربیتی مقصد" کے علاوہ "اعتکافی حیثیت" سے بھی مرشد کے ساتھ اجتماع کی گنجائش موجود ہے. انفرادی اعمال اور متعلق بالمساجد قربات کے، دورانِ اعتکاف اجازت کے ساتھ، ائمہ فقہ نے بعض اہم ترین مقاصد کے پیش نظر اجتماعی نوعیت کے دیگر امور کی بھی اجازت دی رکھی ہے. مثلًا معتکف کے لئے درس وتدریس کے حلقے قائم کرنا، بغیر اجرت کے اللہ کی رضا کے لیے تعلیم دینا، مفلوک الحال مدرس کا با تنخواہ بھی پڑھانا وغیرہ وغیرہ. 
"ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي" (الفتاوى الهندية (5/ 321)
درس وتدریس اور تعلیم وتعلم جیسے اجتماعی امور کی گنجائش جب اعتکاف میں موجود ہے تو تربیت باطنی اور تزکیہ نفس کے حلقے کے قیام کی بھی لامحالہ گنجائش ہوگی، رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا باتفاق علماء ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے، اسی کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق بھی کہا جاتا ہے، حضرت مرشد تھانوی قدس سرہ کے بقول:
"تزکیہ فعلِ متعدی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسا فعل نہیں جو صرف اپنے فاعل پر تمام ہو جیسا کہ فعلِ لازم کا خاصہ ہے، بلکہ ایک مُزَكِّي اور  مُرَبِّي کی ضرورت ہے جو تزکیہ اور تربیت کرے، پس اپنی اصلاح کوئی انسان خود نہیں کرسکتا، کسی مُصلِح کی اشد ضرورت ہے اور چوں کہ فرض کا مقدمہ فرض ہوتا ہے، اس لیے مُصلِح تلاش کرنا اور اس کی صحبت حاصل کرنا بھی فرض ہوا۔" (اصلاحِ اخلاق، ص: 6، ط: خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)
عوام تو عوام؛ بعض نو فارغ فضلاء مدارس میں بھی اخلاقی وروحانی کمیاں رہ جاتی ہیں، نسلِ نو کی علمی و عملی، فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی تربیت کا فکر واہتمام کرنا “انبیائی مزاج “ہے، جس کا ثبوت سورہ بقرہ کی آیات ( 130–133) سے بھی ملتا ہے. آج کل عصری درسگاہوں میں دین و اخلاق کی تعلیم نہیں ہے. اور اسے تقریباً "شجرممنوعہ" قرار دیا گیا ہے۔ ان حالات میں اگر رمضان کے عشرہ اخیر جیسے مبارک وروحانی "ربانی تربیتی نظام" کے جلو میں مستند اکابر علماء ومتبع سنت مشائخ عظام دینی واسلامی شناخت اور روحانی ترقی کو باقی رکھنے کے لئے اجتماعی اعتکاف کے ظاہری عنوان کے تحت تربیت روحانی کا نظام قائم کررہے ہیں تو شرعی حدود کی رعایت اور افراط وغلو اور منکرات شرعیہ سے گریز کی شرط کے ساتھ یہ مستحسن اقدام ہے، از روئے شرع اس کی گنجائش ہے. جن متبع سنت شخصیات کی طرف سے ایسی کوششیں ہورہی ہیں وہ بلاشبہ لائق تحسین اور قابل قدر ہیں، انہیں نہ صرف استحکام بخشنے کی ضرورت ہے؛ بلکہ ان سے مربوط ہوکر استفادے کی صورت بھی نکالی جانی چاہئے تاکہ آج کے پرفتن دور میں دین و اخلاق و روحانیت کے بیش بہا موتی سے دامن مراد بھرسکیں۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنی قدس سرہ کی جلالت علمی وعظمت شان سے کون ناواقف ہوگا؟ حضرت اپنی سال بھر مختلف دینی، دعوتی، اور ملی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہ کر جب عشرہ اخیر میں اپنے وطن مالوف میں اعتکاف فرماتے تو محبین ومعتقدین کا ایک انبوہ عظیم شامل اعتکاف ہوجاتا، برکۃ العصر، بقیۃ السلف شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ زکریا صاحب کاندہلوی قدس سرہ کی شخصیت اور مقام و مرتبہ کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ حضرت کے ساتھ عشرہ اخیر میں معتکفین کا یہی ہجوم ہوتا تھا. مفتی اعظم ہند، فقیہ الامت حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہ العزیز کے ہمراہ مسجد چھتہ دیوبند میں ملک کے طول وعرض سے تشریف فرما اکابر علماءِ معتکفین کا جم غفیر تو ہم نے اپنی گنہگار چشم سر سے دیکھا ہے. حضرت گنگوہی کے مایہ ناز خلیفہ حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی اسی طرح روحانی مجلس اعتکاف میں چوٹی کے علماء وصلحاء کو اسرار محبت کے جام ومینا لنڈھا رہے ہیں۔ دورصحابہ سے آج تک رمضان کے عشرہ اخیر میں علماء، اولیاء اور ائمہ دین، توبہ و استغفار، عبادات کی عملی مشق، تعلیم و تربیت، تطہیر وتزکیہ نفس کے مقاصد سے رمضان میں اجتماعی مجالس قائم فرماتے ہیں، ان کا مقصد تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتصفیہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دوردراز سے آنے والے حضرات بھی اسی مقصد سے حاضر ہوتے ہیں۔ اعتکاف کا عنوان بس ایک ڈھانچہ محض ہے، جیسا کہ اوپر ہم نے عرض کردیاکہ تراویح کی حیثیت سے بھی تعلیم وتربیت کی اجازت ہے، ہاں شرعی حدود سے تجاوز کرنا، اشتہاربازی، خودنمائی، خود ستائی، چندہ دھندہ ،التزام مالایلزم اور دیگر ایجادات بندہ کا اہتمام تو وہ ہر جگہ مردود و ممنوع ہے، یہاں بھی ممنوع رہے گا. شرعی حدود کی رعایت اور منکرات شرعیہ سے اجتناب کی شرط کے ساتھ ان مجالس کے قیام میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے. اپنے محلہ کی مسجد کو ویران چھوڑ کر ان مجالس میں حاضر ہونے کا الزام بھی کم علمی پر مبنی ہے۔ کیا محلہ میں کلُ اتنے ہی لوگ رہ گئے ہیں؟ باقی لوگ کیا کررہے ہیں؟ محلے کی مسجد میں معتکف ہونا صرف انہی کی ذمہ داری ہے؟ باقی سب تماشائی بنے رہیں گے؟ وہ اپنے گھروں میں آرام کرتے رہیں گے؟ اکابر علماء کے ساتھ معتکف ہونے کے لئے جانے والے ہر محلہ کے ایک آدھ فرد کو محلہ کی مسجد میں اعتکاف کے لئے  بھلا کس نے متعین و نامزد کردیا؟ کہ سارا نزلہ انہی پر اتاڑ دیا جائے؟ حالانکہ اگر اعتکاف کی غرض ومقصد پر ہی غور کرلیا جاتا تو یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوئی ہوتی! علامہ عبدالحی لکھنوی کی تصریح کے بموجب اعتکاف کی سنیت وتاکد کی غرض مسجد محلہ کے حقوق کا تحفظ ہے. جیسے نمازجنازہ کے وجوب کی غرض حقوق مسلم کا تحفظ ہے. مسجد محلہ میں لاعلی التعیین کسی بھی ایک بندہ کے معتکف ہوجانے سے یہ غرض حاصل ہوجائے گی. اصلاح باطن  جیسے فریضے کی ادائی واکتساب فیوض روحانی کے لئے اکابر کی معیت میں اعتکاف کے لئے جانے والوں پر ہی ایفاء حق مسجد واجب نہیں ہے. ان پر زبردستی واجب کردینا بجائے خود بدعت ہے. 
جہاں تک رہا یہ خلجان کہ اگر ایک محلے سے چند افراد کسی شیخ کی صحبت میں معتکف ہونے گئے جبکہ خود ان کے اپنے محلے کی مسجد اعتکاف سے خالی رہ گئی تو کیا سنت مؤکدہ کے تارکین میں شیخ کی صحبت میں گئے لوگ بھی داخل ہوکر مستحق گناہ ہونگے یا نہیں؟ تو فقہاء محققین کے ظاہر کلام سے مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اعتکاف پورے شہر کی کسی ایک مسجد میں سنت کفائی ہے، شہر کی ہر مسجد میں یا ہر محلے کی مسجد میں سنت کفائی نہیں ہے (گوکہ بعض فقہی روایت اس کے موافق بھی ہے) کیونکہ ترک کی صورت میں اہل شہر کو گنہگار کہا گیا ہے اہل محلہ کو نہیں۔ علامہ عبد الحی صاحب لکھنوی لکھتے ہیں:
الاعتكاف على تقدير كونه سُنَّةُ كفاية كما هو الحق، هل هو سُنَّة كفايةٍ على أهلِ البلدة ، كَصَلاة الجنازة، أم سُنَّة كفايةٍ على أهلِ كُلِّ مَحلَّةٍ، كصلاةِ التراويح بالجمَاعة  
فظاهِرُ عباراتهم يَقْتضي الأول، ففي "مَجْمَع الأَنْهُر شرحُ مُلْتَقَى الأَبْحُر" عند ذكر الأقوال: وقيل: سنَّةٌ على الكفاية، حتى لو تَرَكَ أهل بلدة بأَسْرِهم يلحقهم الإِسَاءَة، وإلَّا فلا، كالتأْذين. (الإنصاف في حكم الاعتكاف 36-37)
شہر کی ہر ہر مسجد میں اعتکاف افضل وبہتر تو ہے؛ لازم ومؤکد نہیں ہے۔ اسی نوع کے ایک سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کا بھی یہی فتوی ہے:
جواب نمبر: 41527
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1588-1086/H=10/1433 
اگرچہ واجب تو نہیں مگر اعلیٰ وافضل یہی ہے کہ شہر اور گاوٴں کی ہرمسجد میں اعتکاف کیا جائے تاہم چھوٹے گاوٴں میں ایک مسجد میں اور شہر میں ہرمحلہ کی کم ازکم ایک مسجد میں اعتکاف کرلیا جائے تو سنت علی الکفایہ ادا ہوجائے گی، ہکذا یفہم من احسن الفتاوی فی باب الاعتکاف۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
——————————-
بنا بریں قول شیخ کے ساتھ جانے والے معتکف حضرات کی اگر اپنے محلے کی مسجد اعتکاف سے خالی ہوگئی ہو تو ضرور اس شہر کی دوسری مساجد میں کوئی نہ کوئی اعتکاف میں بیٹھا ہوگا! اور پورے شہر میں کسی ایک کا بیٹھنا کافی ہے؛ لہذا صورت مذکورہ میں ترک سنت اور لحوق اثم کا سوال درست نہیں ہے. علامہ شامی وغیرہ نے اعتکاف کو تراویح بالجماعت کے ساتھ جو تشبیہ دی ہے. 
(نظیرھا إقامة التراویح بالجماعة. ردالمحتار 442/2، دارالکتب العلمية)
تو یہ من کل وجہ تشبیہ نہیں ہے؛ بلکہ صرف سنت کفائی ہونے میں تراویح کے مماثل ہونا بتانا مقصود ہے؛ کیونکہ اس کی وضاحت خود آگے انہوں نے کردی ہے:
"فإذا قام بهاالبعض سقط الطلب عن الباقین." 
برسبیل تنزل وتقدیر: 
اعتکاف کو ہر مسجد اور ہر محلہ کی سنت مان لینے کی صورت میں بھی شیخ کی معیت میں اعتکاف کرنے والے صورت مذکورہ میں ترک سنت مؤکدہ کے شریک گناہ اس لئے نہیں ہوسکتے کہ؛ اصلاح حال اور تزکیہ نفس فرض ہے اور اعتکاف سنت مؤکدہ! فرض اور سنت مؤکدہ کے اجتماع کی صورت میں تقدیم وترجیح لازماً فرض کو ہوگی؛ کیونکہ فرض کے ترک کا ضرر اشد ہے اور سنت کے ترک کا ضرر اخف، اور فقہ کا مشہور قاعدہ و ضابطہ ہے کہ:
۱: الضرر الأشد يزال بالضرر الأخف (الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص 88)، مجلة الأحكام العدلية (ص90) المادة رقم "27" در الحكام شرح مجلة الأحكام علي حيدر(1/40)، شرح القواعد الفقهية للزرقا (ص199)، القواعد الفقهية د. محمد الزحيلي (1/219)۔
۲: يختار أهون الشرين أو أخف الضررين (مجلة الأحكام العدلية (ص90) المادة رقم"29" دور الحكام شرح مجلة الأحكام علي حيدر (1/40).
۳: إذا تعارضت مفسدتان روعي أعظمهما ضرراً بارتكاب أخفهما (الأشباه والنظائر للسيوطي (ص87)، الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص89)، مجلة الأحكام العدلية (ص 90) المادة رقم"28" دور الحكام شرح مجلة الأحكام علي حيدر (1/41)
لہذا ترک فرض سے ہونے والے ضرر اعظم سے بہرحال بچا جائے گا 
اور ترک سنت کے ضرر اخف کو برداشت کرلیا جائے گا: 
يدفع أعظم الضررين باحتمال أخفهم (القواعد الفقهية د. محمد الزحيلي (1/219).
جہاں تک حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کی اس بابت مبینہ ہدایت (کہ جو ہمارے ساتھ ایک بار معتکف ہوچکا وہ اب دوبارہ نہ آئے) کا تعلق ہے تو بر تقدیر صحت روایت بادی النظر میں اس کا تعلق صرف انتظام و انضباط سے ہے اور بنظرغائر دیکھا جائے تو اجتماعی اعتکاف کو مزید سہل الانتفاع اور اس کے دائرہ افادہ کو وسیع تر بنانے کی سمت یہ مفید ودور رس کوشش کے سوا اور کچھ نہیں ہے تاکہ استفادہ ہر کسی کے لئے آسان ہو، تکلیف دہ ازدحام نہ ہو، ہرکوئی بقدر ظرف وطلب بادہ نوشی کرسکے، کوئی محروم فیض نہ رہ سکے. یہ ایسا ہی ہے جیسے سعودی انتظامیہ حجاج کرام کے لئے انتظامی ہدایت جاری کرتی ہے کہ جو ایک بار حج کرچکا وہ پانچ سال پورے ہونے سے قبل نہیں آسکتا، ظاہر ہے کہ یہ انتظام میں سہولت وآسانی اور سعادت حج کی سہولت ہر کسی کے لئے بہم پہنچانے ہی کی کوشش ہے، شرعی حکم سے اس کا کیا سروکار؟ ویسا ہی حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کی ہدایت کو بھی سمجھ لیجئے. 
آج کے دور میں اس حقیقت سے انکار کی گنجائش یقیناً نہ ہوگی کہ دیگر شعبہائے دین کی طرح اخلاص واحسان، معرفت حق، تکمیل روحانی ، تہذیب وتطہیر نفس کا یہ شعبہ بھی تنزل سے بچ نہ سکا، بعض پیشہ ور، جاہ طلب، حقیقت فروش، نام نہاد "مرشد" بھی (افراد کی بات ہے، کلیات کی نہیں) بھی لانچ ہوگئے جو حب جاہ ومنصب، ہوسِ شہرت وزعم پارسائی میں حلق تک دھنسے ہوتے ہیں، تزکیہ نفس  کی حقیقی روح اور اس کے حقیقی مقاصد سے  ناآشنا و نابلد ہوتے ہیں، عوام میں اپنی مقبولیت وبالادستی کے لئے تصوف کو "آلہ کار" بنائے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے  دین وشریعت سے متضاد، تعلمیات سلوک وطریقت سے مغائر ایسے کسی "طریقہ کار" کی گنجائش شریعت مطہرہ میں نہیں ہے. تاہم صحیح العقیدہ، پابند شریعت، متبع سنت، شیخ کامل کا صحبت وتربیت یافتہ   ومجاز "مرشد" اگر شرعی حدود میں رہ کر "تشہیر بیجا" اور تداعی کے بغیر، تعلیم وتربیت باطنی کے مقصد سے اس طرح کی کوشش کریں، عشرہ اخیر کے مبارک جلو میں لوگ اپنی اصلاح وتربیت کے مقصد سے ان کے پاس حاضر ہوں اور وہ انہیں تعلیم وتربیت، توبہ و استغفار، اوراد و وظائف کے ساتھ، عبادات، احسان و اخلاص کی عملی مشق کروائیں تو اس کی گنجائش ہے. چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے، یک طرفہ تحلیل وتجزیہ مناسب نہیں ہے. حالات و زمانے کے تقاضوں وچیلنجس اور علماء اہل حق کے عرف وتعامل کو سامنے رکھ کر تحلیل وتجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 
واللہ ولی التوفیق 

شکیل منصور القاسمی

مركزالبحوث الإسلاميه العالمي

(اتوار 24 رمضان المبارک 1444ھ16
اپریل 2023ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/04/blog-post.html