Monday 12 April 2021

رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد عشاء کی نماز تک سورۂ فتح پڑھنے کی فضیلت کے متعلق مکمل تحقیق

رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد عشاء کی نماز تک سورۂ فتح پڑھنے کی فضیلت کے متعلق مکمل تحقیق

((تحقیقات سلسلہ نمبر 62)

رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد عشاء کی نماز تک سروۂ فتح پڑھنے کی فضیلت کے متعلق مکمل تحقیق)

باسمہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:- درج ذیل ایک فضیلت ذکر کی گئی ہے، اس کی تحقیق مطلوب ہے؟ 

فضیلت:- جو شخص رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے بعد عشاء کی نماز تک سورۂ فتح پڑھ لے تو اس کے لیے سارا سال رزق لکھ دیا جاتا ہے

اس کی کیا حقیقت ہے؟

سائل:- قاری صفوان صاحب کاکوسی مد ظلہ

استاذ قراءت وتجوید:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا

الجواب بعون الملک الوھاب:- 

تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں یہ الفاظ کتب احادیث میں نہیں ملے، نہ صحاح میں نہ ضعفاء میں، ہاں البتہ مجربات اکابرین میں سے ہے، حضرت انور شاہ کشمیری رحمۃاللہ علیہ نے اپنی عملیات کی کتاب گنجینۂ اسرار میں اسکو تحریر فرمایا ہے… لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر اور اس کو سنت سمجھے بغیر عمل کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کی پابندی نہ کی جائے، اور نہ اس کے پڑھنے کو لازم سمجھا جائے۔

ہاں البتہ اس جیسی ایک روایت کتب احادیث میں موجود ہے، لکین اس پر غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی موضوع اور من گھڑت روایت ہے، اس کی نسبت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست اور صحیح نہیں ہے۔ 

پوری تحقیق بقلم شیخ طلحہ بلال منیار حفظہ اللہ ملاحظہ فرمائیں 👇 

🔹 حال حديث: من قرأ في أوّل ليلة من رمضان (إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً) في التطوّع حفظ ذلك العام.

هذه الحديث أخرجه الثعلبي في تفسيره "الكشف والبيان" (9/ 40) في تفسير سورة الفتح، قال :

أخبرنا الحسين بن محمّد بن فنجويه الثقفي، حدّثنا الفضل بن الفضل الكندي، حدّثنا حمزة بن الحسين بن عمر البغدادي، حدّثنا محمّد بن عبد الملك، قال: سمعت يزيد بن هارون يقول: سمعت المسعودي يذكر، قال: بلغني أنّ مَن قرأ في أوّل ليلة من رمضان (إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً) في التطوّع حُفِظ ذلك العام.

رجال السند:

(1) الحُسَين بن محمد بن الحسين بن عَبْدالله بن صالح بن شعيب بن فَنجويه الثَّقَفيّ، أبو عَبْدالله الديَنَوريّ المتوفى سنة 414 هـ  الشيخ الإمام، المحدث المفيد الحافظ ، وهو راوي "سنن النسائي" عن ابن السُّنِّي عن النسائي، وهو شيخ أبي بكر البيهقي أكثر من الرواية عنه في تصانيفه، وحدث عنه الثعلبي في "تفسيره". قال عبد الغافر الفارسي في "تاريخه": أبوعبدالله الثقفي الدينوري، شيخ فاضل كثير الحديث، كثير الشيوخ، كثير التصانيف الحسنة والمعرفة بالحديث، روى الحديث نحوا من أربعين سنة. وقَالَ شِيرَوَيْه: كَانَ ثقة، صدوقًا كثير الرواية للمناكير.

له ترجمة في: تاريخ الإسلام  9/234، سيرأعلام النبلاء 17/383، شذرات الذهب 5/74

(2) الفضل بن الفضل بن العبّاس، أبوالعبّاس الكنْدي المتوفى سنة 360 هـ، إمام جامع هَمَذان.

سَمِعَ الكثير مِنْ: عيسى بن هارون، وأبي خليفة، وزكريّا السّاجي، وأبي يعلى الموصلي، وجماعة. وَعَنْهُ: الحسين بن فنجويه، وأبوطاهر بن سلمة، وعبد الرحمن بن شبانة، وجماعة. وكان صدوقا ؛ قاله شيرويه . "تاريخ الإسلام" (8/150).

(3) حمزة بن الحُسين بن عُمَر، أبوعيسى السِّمْسار المتوفى سنة  328 هـ، بغداديّ ثقة، وثقه الخطيب. "تاريخ بغداد" (8/177)، و"تاريخ الإسلام"  (7/550).

(4) مُحَمَّد بن عَبدالمَلِك بن مروان بن الحكم الواسطي، أَبُوجعفر الدقيقي. قَال مُحَمَّد بْن عَبداللَّهِ الحضرمي مطيَّن: كان ثقة.وَقَال الدَّارَقُطْنِيُّ : ثقة. وهو من رجال أبي داود وابن ماجة . كما في "تهذيب الكمال في أسماء الرجال" (26/25).

(5) يزيد بن هارون، الإِمَامُ، القُدْوَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُوخَالِدٍ السُّلَمِيُّ مَوْلاَهُمْ، الوَاسِطِيُّ، الحَافِظُ الثقة المتقِن، روى له أصحاب الكتب الستة . توفي سنة 210 هـ. تهذيب الكمال 32/261 .

(6) عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِاللهِ بنِ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ بنِ مَسْعُوْدٍ الهُذَلِيُّ، المَسْعُوْدِيُّ، الكُوْفِيُّ . الفَقِيْهُ، العَلاَّمَةُ، المُحَدِّثُ، وثقه ابن المديني ويحيى بن معين. وقال ابن نمير: ثِقَةٌ، اخْتَلَطَ بِأَخَرَةٍ. وقال ابن نمير: كان المسعودى ثقة، فلما كان بآخرة اختلط ، سمع منه عبد الرحمن بن مهدى ويزيد بن هارون أحاديث مختلطة. وقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: تَغَيَّرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ أَوْ سَنَتَيْنِ. توفي المسعودي سنة 160 هـ، أخرج له الأربعة.

له ترجمة في: تهذيب الكمال 17/219، المختلطين للعلائي ص 72، الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط ص: 205.

الخلاصة: مدار الرواية على المسعودي، وقد اختَلَط في آخر عمره، وممن روى عنه بعد تغيُّره: يزيد بن هارون، كما في هذه الرواية. ثم إن المسعودي لم يسند الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم ولا إلى غيره، بل قال: "بلغني" وهذا يدل على انقطاع السند ، ولا ندري هل هي مرفوعة أو موقوفة. فالرواية ضعيفة لأجل الانقطاع واختلاط المسعودي ، ولا يصح نسبتها إلى الرسول صلى الله عليه وسلم.

خلاصۂ کلام:- 

نعیم بٹ صاحب مدظلہم نے اپنے بیان میں جو بات بتائی ہے، اس کا حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، مجربات کے قبیل سے ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے بغیر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ ھذا ما ظھر لی ۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل

فقط والسلام

✍️ ابواحمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات الھند- استاذ:- جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورا سابرکانٹھا شمالی گجرات. رابطہ نمبر:- 919428359610+ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/04/blog-post_12.html



قرآنی عملیات از مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ 

Sunday 11 April 2021

لاؤڈ اسپیکر سے اذان کا شرعی حکم کیا ہے؟ Atrocious Use of Loudspeakers

#لاؤڈاسپیکر_سے_اذان_کا_شرعی_حکم_کیا_ہے؟

#ایس_اے_ساگر

#لاؤڈاسپیکر_سے_ہونے_والی_تکلیف اور علمائے اسلام کے_فتوے

چند دنوں سے ہمارے ملک میں ایک گویّے کے سبب لاؤڈاسپیکر پر اذان وغیرہ کا مسئلہ زیرِبحث ہے، جب کہ اسلام اور علمائے اسلام نے پہلے ہی سے اس جانب توجہ مبذول رکھی ہے اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے سخت اصول بنائے ہیں، تاکہ کسی مسلمان ہی نہیں کسی انسان کو بھی اس سے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، جس کی تفصیل ہم نے اپنے ایک مضمون بعنوان: 

حکومتی قوانین، اسلامی و شرعی ہدایات اور صوتی آلودگی

اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے، جس میں کسی انسان تو کجا، کسی ذی روح کو تکلیف دینے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اسی لئے موجودہ دور میں پھیل رہی مختلف آلودگیوں کے متعلق بھی اسلامی ہدایات واضح اور دو ٹوک ہیں، یہاں ہم صوتی آلودگی سے متعلق چند باتوں کا ذکر کررہے ہیں کہ یقینا صوتی آلودگی انسان کے لیے کچھ کم مضرت رساں نہیں اور یہ شور اور غیر معتدل آواز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ،جس کا شریعتِ اسلامی نے پورا لحاظ رکھا ہے، اس کے باوجود بعض ناوقفوں کی جانب سے بعض بے سر و پا کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔

پریشان کُن کارخانے:

سب جانتے ہیں کہ کارخانے کی بعض مشینیں بہت پُر شور ہوتی ہیں، حکومت کی طرف سے ان کو آبادی سے باہر لگانے کی ہدایت ہوتی ہے، یہ ہدایت شرعاً بھی قابلِ لحاظ ہیں۔ کیوں کہ مشاہدہ ہے کہ بعض مشینوں سے شہریوں کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، اس لئے شریعت کا ماننا ہے کہ حکومت کی طرف سے ان کو آبادی سے باہر نکالنے کی ہدایت خیرخواہی پر مبنی ہے، جس پر عمل نہ کرنے سے انسانی آبادی کے ساتھ کھلواڑ ہوتی ہے، بنا بریں یہ ہدایت شرعاً واجب کے درجے میں ہے۔نیز اس کا ثبوت خیرالقرون میں بھی موجود ہے، چناں چہ ایک روایت کے مطابق امیر المومنین سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لوہار کی دکان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا تھا، کیوں کہ وہ پریشان کن آلودگی کا سبب بنی ہوئی تھی۔ نیز امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ دیا تھا کہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی پڑوسی کو اپنا گھر حمام میں تبدیل کرنے یا اس کے دھویں سے دوسروں کو تنگ کرنے سے روک دے۔ (تطہیرِ ماحول اور اسلام کے معمولات: 113-115)

گاڑیوں کے زوردار ہارن:

اکثر بڑے شہروں میں گاڑیوں کے ہارنوں کی آواز بھی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، بعض لوگ غیرضروری طور پر ہارن بجاتے ہیں اور بعض حضرات اپنی گاڑی میں ضرورت سے زیادہ تیز آواز کا ہارن‘ یہاں تک کہ ایمبولنس میں لگائے جانے والے سائرن کی طرح کے ہارن لگاتے ہیں، اس سے صوتی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے اور دوسرے راہگیروں کو دہشت بھی ہوتی ہے۔ایسی صورت میںبے جا اور ضرورت سے زیادہ تیز آواز کے یعنی زوردار ہارن کا استعمال شرعاً ممنوع ہوگا، اس لیے کہ ایسا کرنے والے افراد اپنا مختصر سا وقت بچانے کے لئے دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں، جس کی شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے ۔اول تو سڑکوں پر کوئی بھی ٹھہرنے اور بسنے کے لئے نہیں اترتا، جب وہ سڑک پر آیا ہے‘ خواہ پیدل ہو یا سوار‘ اسے بھی آگے جانا ہوگا، پھر جب آگے راستہ ہی بند یا سواریوں سے گھرا ہوا ہو تو ایسے میں بلاوجہ زور شور سے ہارن بجاتے رہنا بالکل غیرمناسب و مکروہ عمل ہوگا۔ ہارن کا استعمال جہاں تک ہم سمجھتے ہیں‘ فقط اتنا ہے کہ اپنے آس پاس والوں کو جتادیا جائے کہ کوئی اور بھی منتظر ہے، نہ یہ کہ پوری سڑک پر ایک ہنگامہ بپا کیا جائے۔ الضرر لا یزال بالضرر۔ (الاشباہ والنظائر)

مروّج ڈی جے:

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے مختلف تقریبات میں ڈی جے کا رواج بڑھتا جارہا ہے، اس کا شور انسان کی سماعت اور ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے، یعنی مزامیر میں داخل ہونے سے قطعِ نظر ڈی جے کا معاشرے میں بے جا استعمال واقعی تکلیف دہ ہے، جس میں ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مزامیر کی قباحت کے سوا آس پاس کے لوگوں کو تکلیف دینا بھی ہے۔ کتنے لوگ بہت زیادہ آواز سے دل کے دوروں اور دماغی پریشانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جیسے کہ ربیع الاول کے مہینے میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ ڈی جے میں بلند آواز کے سبب جشنِ عید میلادالنبی کے جلوس میں ایک سولہ سالہ لڑکے کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی، اسی لئے ضرورت سے زیادہ آواز اور بلاوجہ شور مچانے کو شریعت سخت ناپسندگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ قال تعالیٰ: وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ،اِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۔ (لقمان: 19)

جلسوں و مشاعروں کا شور:

ہمارے معاشرے میں مذہبی، سیاسی جلسوں اور مشاعروں کا رواج بھی عام ہے، قانونی اعتبار سے اس کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے، مثلاً رات کے دس یا ساڑھے دس بجے تک، کہ اس کے بعد پروگرام جاری نہیں رکھا جاسکتا، اسی طرح آواز کے بارے میں بھی تحدید ہوتی ہے کہ جس درجے کا ساؤنڈ سسٹم ہونا چاہئے اور کتنے ساؤنڈ بکس رکھے جاسکتے ہیں؟ اس کا مقصد لوگوں کی صحت اور ماحولیات کا تحفظ دونوں ہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ ان ہدایات پر عمل نہیں کرتے، آواز کا شور پوری آبادی تک پہنچاتے ہیں اور رات رات بھر پروگرام چلائے جاتے ہیں،ایسے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ اس طرح کے قوانین کی خلاف ورزی‘ معاہدے کو توڑنے کے حکم میں داخل اور ناجائز ہے بقول حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ؛ اگر کوئی حکم ایسا ہے کہ اس میں عام لوگوں کی مصلحت ہے (اور اس کے) خلاف کرنے میں عام ضرر ہے، اس میں حاکم کی اطاعت؍قانون کی پابندی ظاہراً و باطناً واجب ہے (یعنی اعلانیہ طور پر بھی واجب ہے اور خفیہ طور پر، یعنی حاکم کو اطلاع بھی نہ ہو، تب بھی واجب ہے)۔ (اسلام اور سیاست)

جب شریعت میں قرآن کی تلاوت کے جہر میں تکلّف کرنا یا اتنا جہر کہ نماز میں تشویش کا باعث بنے یا کسی کے لیے باعثِ ایذا ہو‘ ناجائز ہے ، تو کسی اور دینی یا دنیوی موقع پر اس کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے ۔ فی الشامیۃ: (قولہ: فان زاد علیہ أساء) وفی الزاھدی عن أبی جعفر: لو زاد علی الحاجۃ فھو أفض، الا اذا اجھد نفسہ، او اٰذی غیرہ، قہستانی۔(ردالمحتار) آیت: ’وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا‘ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ آوازِ بلند قرأت فرماتے تو مشرکین سن کر بُرا بھلا کہتے تھے، اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ معتدل آواز سے قرأت کریں تاکہ صرف صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سنیں اور مشرکین تک آواز نہ پہنچے ۔(احسن الفتاویٰ) ویسے بھی کہیں کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی پریشان‘ اس لیے زبردستی کسی کے کانوں میں آواز ڈالنا قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اخلاق کے بھی خلاف ہوگا، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔صحابہ کے دور کا واقعہ ملاحظہ ہو کہ ایک واعظ صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کہا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ وہ زمانہ لاؤڈ اسپیکر کا نہیں تھا، لیکن ان کی آواز بہت بلند تھی، اور اس سے حضرت عائشہؓ کی یک سوئی میں فرق آتا تھا‘ یہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا، اس لیے حضرت عائشہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہا سے شکایت کی کہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر کے سامنے وعظ کرتے رہتے ہیں، جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور مجھے کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ حضرت عمر نے اُن صاحب کو پیغام بھیج کر انھیں وہاں وعظ کرنے سے منع کیا، لیکن کچھ عرصے کے بعد واعظ صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے خود جاکر اُن صاحب کو پکڑا، اور ان پر تعزیری سزا جاری کی۔ (اخبار مدینہ لعمر بن شبہ)

بات صرف یہ نہیں تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی تکلیف کا ازالہ کرنا چاہتی تھیں، بلکہ دراصل وہ اسلامی معاشرے کے اس اصول کو واضح اور نافذ کرنا چاہتی تھیں کہ کسی کو کسی سے کوئی تکلیف نہ پہنچے، نیز یہ بتانا چاہتی تھیں کہ دین کی دعوت و تبلیغ کا پُروقار طریقہ کیا ہے؟ چناں چہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت عاشہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ کے ایک واعظ کو وعظ و تبلیغ کے آداب تفصیل کے ساتھ بتائے اور ان آداب میں یہ بھی فرمایا کہ اپنی آواز کو اُنھی لوگوں کی حد تک محدود رکھو جو تمھاری مجلس میں بیٹھے ہیں، اور انھیں بھی اُسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ‘ جب تک ان کے چہرے تمھاری طرف متوجہ ہوں، جب وہ چہرے پھیرلیں تو تم بھی رُک جاؤ، الخ۔ (مجمع الزوائد)

لاؤڈ اسپیکر پر اذان:

’اذان ‘جو کہ چند منٹ کی ایک ایسی عبادت ہے کہ اسلام کی سب سے اہم عبادت نماز کے کامل طور پر ادا ہونے کا ایک وسیلہ اور مقدِّمہ ہے، جس کا کا مقصد لوگوں کو نماز کی اطلاع دینا ہوتا ہے کہ لوگ معینہ وقت پر مسجد پہنچ جاتے اور باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ مؤذن کی اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے، وہاں تک موجود ہر تر و خشک چیز قیامت کے دن مؤذن کے حق میں گواہی دے گی اور اس کی برکت سے مؤذن کی بخشش کر دی جائے گی، اس لئے بلند آواز سے اذان دی جائے۔ (ابوداؤد) اس حدیث سے اذان کو بلند کرنے کا اشارہ ملا، جس کے لیے فی زمانہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے، نیز اگر فی زمانہ اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے تو یقینا اذان کا مقصد‘ جو کہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے، فوت ہو جائے گا۔ پھر آبادی کی کثرت وغیرہ بھی ایسے اسباب ہیں، جن سے ایسے کاموں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت لازمی ہو گئی ہے، اس لیے اذان کے لیے اس کا محتاط استعمال نہ صرف درست بلکہ مستحسن ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ اذان سے مقصود اعلان ہوتا ہے، لہٰذا اذان جتنی بلند آواز سے دی جائے اتنا ہی اچھا ہے، اگرچہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بستی والوں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے، لیکن اگر لاؤڈ اسپیکر میں اذان دی جائے تو اذان کی آواز علی وجہ الکمال پہنچے گی۔ (نجم الفتاویٰ)"



میں پیش کردی ہے، یہاں اس بابت صرف چند ایسے فتوے ذکر کیے جارہے ہیں، جن سے واضح ہوگا کہ اذان جیسی چند منٹ کی عبادت کے سوا خود اسلام اور علماے اسلام نے لاؤڈ اسپیکر کے بے جا استعمال کی اجازت نہیں دی،اور لوگوں کے چین، سکون اور آرام کا بہت لحاظ رکھا ہے، اس کے باوجود بھی کوئی اذان جیسی مختصر سی عبادت پر غنڈہ گردی کا الزام لگائے، تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروانے پر توجہ دینی چاہئے۔

مفتیِ اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:

لاؤڈ اسپیکر پر صرف پانچ وقت کی اذان کہیں، جس سے مقصود لوگوں کو نماز کے لیے بلانا ہو، بقیہ دوسری چیزوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کریں۔ (فتاویٰ محمودیہ: 15/3، جدید محقق)

سابق مفتیِ اعظم گجرات، مفتی سیدعبدالرحیم لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(اگر بلا مائک اذان ناکافی ہو تو) بلا تردّد مائک کا استعمال جائز ہے، افضل تو یہی ہے کہ بلند آواز مؤذن کا تقرر ہوسکتا ہو تو مائک کا استعمال نہ کرے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: 6/36)

مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ بڑی تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں:

اذان کے لئے (مسجد میں) اُوپر کے اسپیکر کھولنے کا تو مضائقہ نہیں کہ باہر کے لوگوں تک اذان کی آواز پہنچانا مطلوب ہے، لیکن نماز، تراویح، درس وغیرہ کے لیے اگر لاوٴڈ اسپیکر کے استعمال کی ضرورت ہو تو اس کی آواز مسجد کے مقتدیوں تک محدود رہنی چاہئے باہر نہیں جانی چاہیے۔ تراویح کے لئے اور درس وغیرہ کے لئے باہر کے اسپیکر کھولنا عقلاً و شرعاًنہایت قبیح ہے، جس کے وجوہ حسبِ ذیل ہیں:

(۱) بعض مساجد اتنی قریب قریب ہیں کہ ایک کی آواز دُوسری سے ٹکراتی ہے، جس سے دونوں مسجدوں کے نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے اور ان کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے، ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ ایک مسجد کے مقتدی جو پچھلی صفوں میں تھے، دُوسری مسجد کی تکبیر پر رُکوع، سجدے میں چلے گئے، نمازیوں کو ایسی تشویش میں مبتلا کرنا کہ ان کی نماز میں گڑبڑ ہوجائے، صریح حرام ہے، اور اس حرام کا وبال ان تمام لوگوں کی گردن پر ہوگا جو نماز کے دوران اُوپر کے اسپیکر کھولتے ہیں۔

(۲) مسجد کے نمازیوں تک آواز پہنچانا تو ایک ضرورت ہوئی، لیکن نماز میں اُوپر کے اسپیکر کھول دینا جس سے آواز دُور دُور تک پہنچے، یہ محض ریاکاری ہے، جس سے عبادت کا ثواب باطل ہوجاتا ہے۔ رمضان مبارک میں بعض حافظ صاحبان ساری رات لاوٴڈ اسپیکر پر قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں، جس میں ریاکاری کے سوا کوئی بھی صحیح غرض نظر نہیں آتی۔

(۳) تراویح میں باہر کے اسپیکر کھولنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ چلتے پھرتے اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کان میں سجدہٴ تلاوت کی آیات آتی ہیں، جن کی وجہ سے ان پر سجدہٴ تلاوت واجب ہوجاتا ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں کو یہ معلوم بھی ہوگا کہ یہ سجدے کی آیت ہے، پھر بھی وہ لوگ سجدہ نہیں کرتے ہوں گے، ان بے شمار لوگوں کے ترکِ واجب کا وبال بھی سنانے والوں کی گردن پر رہے گا۔

(۴) لاوٴڈ اسپیکر کی بلند آواز سے پورے محلے کا سکون غارت ہوجاتا ہے، بیمار آرام نہیں کرسکتے، گھروں میں خواتین کا اپنی نماز پڑھنا دُوبھر ہوجاتا ہے، وغیرہ وغیرہ، اور لوگوں کو اس طرح مبتلائے اذیت کرنا حرام ہے۔

(۵) بعض قاری صاحبان اپنے لحنِ داوٴدی سنانے کے شوق میں تہجد کے وقت بھی لاوٴڈ اسپیکر پر تلاوت یا نعت خوانی شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے تہجد کا پُرسکون وقتِ مناجات بھی شور و ہنگامے کی نذر ہوجاتا ہے، اس وقت اگر کوئی تہجد میں اپنی منزل پڑھنا چاہے تو نہیں پڑھ سکتا، اور بعض ظالم اس وقت تلاوت کا ریکارڈ لگاکر لوگوں کا سکون برباد کردیتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جو لوگ اذان کے علاوہ پنج گانہ نماز میں، تراویح میں یا درس و تقریر میں باہر کے اسپیکر کھول دیتے ہیں، وہ اپنے خیال میں تو شاید نیکی کا کام کر رہے ہوں، لیکن ان کے اس فعل پر چند در چند مفاسد مرتب ہوتے ہیں اور بہت سے محرّمات کا وبال ان پر لازم آتا ہے، اور یہ سب محرّمات گناہِ کبیرہ میں داخل ہیں، اس لیے لاوٴڈ اسپیکر کی آواز حدودِ مسجد تک محدود رکھنا ضروری ہے، اور اذان کے علاوہ دُوسری چیزوں کے لیے باہر کے اسپیکر کھولنا ناجائز اور بہت سے کبائر کا مجموعہ ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل: 3/398-399)

مفتی سید نجم الحسن امروہی رحمۃ اللہ علیہ (رئیس دارالافتا دارالعلوم یاسین القرآن، کراچی) لکھتےہیں:

اذان سے مقصود اعلان ہوتا ہے، لہٰذا اذان جتنی بلند آواز سے دی جائے اتنا ہی اچھا ہے، اگرچہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بستی والوں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے، لیکن اگر لاؤڈ اسپیکر میں اذان دی جائے تو اذان کی آواز علی وجہ الکمال پہنچے گی۔ (نجم الفتاویٰ: 2/234)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب رقم طراز ہیں:

اذان کا مقصود نماز کا اعلان اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی اطلاع دینا ہے ۔۔۔ لاؤڈ اسپیکر چوں کہ اس مقصد کے لیے بہت مفید اور کار آمد ہے اور کسی شرعی ممانعت کے بغیر آسانی اور سہولت کے ساتھ دور دور تک اس کے ذریعے آواز پہنچائی جاسکتی ہے، اس لئے اس کا استعمال بہتر اور مستحسن ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل: 1/117-118)

مفتی امین پالنپوری صاحب لکھتے ہیں:

اگر آبادی بڑی یا پھیلی ہوئی ہو تو اذان کی آواز دور تک پہنچانے کے لئے لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا جائز ہے، کفایت المفتی میں ہے: اذان کی آواز دور تک پہنچانے کے لیے منارے پر لاؤڈ اسپیکر لگانا مباح ہے۔ (کفایت المفتی: 3/13، آدابِ اذان و اقامت: 43)

ان واضح ترین ہدایات کا ہی ثمرہ ہے کہ مسلمان اپنی عبادتوں میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال کم سے کم اور ضرورت کے تحت ہی کرتے ہیں، للاکثر حکم الکل۔ ہاں جو مذکورہ بالا ہدایات میں کوتاہی کا مرتکب ہو،اسے ذاتی طور پر سمجھا دیا جانا چاہیے، لیکن کسی مذہب کے ایک فرد یا چند افراد کی غلطی کی وجہ سے پورے مذہب پر طعنہ زنی کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ (ندیم احمد انصاری)



اذان میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال!

اذان عبادت کا اعلان بھی ہے اور بجائے خود ایک عبادت بھی؛ اسی لئے اسلام میں اذان کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام سے پہلے مختلف مذاہب میں مروجہ عبادت کی اطلاع کے لئے مختلف طریقے مروج تھے، بعض قومیں گھنٹے بجاتی تھیں، اور اب بھی بجاتی ہیں بعض ناقوس بجایا کرتے تھے، بعض آگ سلگایا کرتے تھے، غور کیا جائے تو گھنٹوں کی آواز بہت تیز ہوتی ہے، اور کانوں کے لئے بوجھ بن جاتی ہے اور آگ کا دھواں فضائی آلودگی پیدا کرتا ہے، اور اس سے بھی قرب وجوار کے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، پھر یہ کہ یہ طریقے علامت کا کام تو کرتے ہیں؛ لیکن ان میں کوئی روحانی کیفیت نہیں، جس میں خالق ومالک کی بندگی کی طرف دعوت دی جاتی ہو، نہ اس کا کوئی ذکر اور نہ اس کی عظمت وبڑائی کا کوئی بیان، اسلام نے نماز جیسی عبادت کے اعلان کے لئے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس میں روحانیت بھی ہے، معنویت بھی اور اللہ کی کبریائی کا اعلان بھی، اذان کے کلمات اتنے وجد آفریں اور روح پرور ہیں کہ کئی لوگوں کے لئے قبول اسلام کا سبب بن چکے ہیں، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کومسلم آبادی کی شناخت مانا گیا ہے۔

بدقسمتی سے ابھی ہندوستان میں لاؤڈاسپیکر پر اذان کو نزاعی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یقیناََ اس میں متعصب ذہن، فرقہ وارانہ پروپیگنڈوں اور نفرتوں کا دخل ہے؛ لیکن بعض پہلوؤں پر خود ہمیں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے:

الف: دینی کاموں میں جہاں آواز کا استعمال ہوتا ہے، اس کے بارے میں اسلام کا تصور کیا ہے؟ غور کیا جائے تو اسلام کی تمام تعلیمات میں اعتدال اور میانہ روی کو پیش نظر رکھا گیا ہے، اور اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہمارا کوئی عمل دوسروں کے لئے اذیت کا سبب نہ بن جائے؛ اسی لئے شریعت نے بلاضرورت اور حداعتدال سے بڑھ کر آواز بلند کرنے کو ناپسند کیا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ چال میں اعتدال رکھو اور آواز کو ہلکی رکھو (لقمان: ۱۹) قرآن مجید کی تلاوت سے بڑھ کر کیا عمل ہوسکتا ہے؛ لیکن اس میں بھی آپ نے میانہ روی اختیار کرنے کا حکم فرمایا اور ہلکی آواز میں تلاوت کو پسند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں معتکف تھے، آپ کے قیام کے لئے مسجد کے اندر چمڑے کا ایک گنبد بنادیا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ لوگ زور زور سے قرآن پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی: تم اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کررہے ہو تو ایک دوسرے کو تکلیف مت پہنچاؤ، اور نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر اپنی آواز بلند مت کرو. (مستدرک حاکم، حدیث نمبر: ۱۱۶۹) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ کے دولت خانہ سے متصل مسجد کا صحن تھا تو ایسی آواز میں آپ تلاوت فرماتے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دولت کدہ میں تلاوت فرماتے تو صحن کی حد تک اس کو سنا جاسکتا تھا، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۲۷)

ایک بار رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ بہت ہلکی آواز میں نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ بہت بلند آواز میں نماز پڑھ رہے تھے، بعد میں جب یہ دونوں حضرات خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بہت ہی ہلکی آواز میں نماز پڑھ رہے تھے، انھوں نے عرض کیا: میں جس ذات کے ساتھ سرگوشی کررہا تھا، اس نے سن لیا تھا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: تم بلند آواز میں کیوں تلاوت کررہے تھے؟ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سوئے ہوئے کو جگا رہا تھا، اور شیطان کو بھگا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنی آواز ذرا بلند کرو، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم اپنی آواز ذرا ہلکی کرو، (مستدرک حاکم، حدیث نمبر: ۱۱۶۸) اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور نیک عمل میں بھی آواز کو معتدل رکھنے کا حکم ہے؛ تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے، فقہاء نے بھی اس کو پیش نظر رکھا ہے، اس لئے کہا ہے کہ نماز میں جہاں زور سے قرأت کرنے کا حکم ہے، وہاں زور سے قرأت کرنا چاہئے؛ لیکن اس حد تک کہ سونے والے کی نیند میں خلل نہ ہو، یہ حکم تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے بھی ہے اور تراویح اور جہری نمازوں کی امامت کرنے والوں کے لئے بھی: والجھر افضل مالم یؤذ نائما ونحوہ (النہر الفائق: ۱؍۲۲۹)

اسی اصول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی ملاقات وکلام میں بھی منطبق فرمایا؛ چنانچہ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تشریف لاتے اور اس طرح سلام کرتے کہ جو لوگ بیدار ہوں، وہ سن لیں، اور جو سوئے ہوئے ہوں ان کی نیند میں خلل پیدا نہ ہو (الادب المفرد، حدیث نمبر: ۱۰۲۸)

ب: اذان چوں کہ عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ عبادت کا اعلان بھی ہے، اعلان کا مقصد لوگوں کو سنانا اور ان تک اپنی آواز پہنچانا ہے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں اذان دینے کی تلقین فرمائی ہے؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کی ذمہ داری سونپی اور ان کو نصیحت کی کہ اذان دیتے وقت وہ اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھیں؛ کیوں کہ اس سے آواز بلند ہوتی ہے: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ فی أذنیہ، وقال: إنہ أرفع لصوتک (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۷۱۰)؛ لیکن اس میں بھی اس بات کو پسند نہیں کیا گیا کہ آواز اتنی بلند ہوکہ لوگوں کے لئے باعث تکلیف ہوجائے، اور خود اذان دینے والے کے لئے مشقت کا باعث ہو: ولا یبالغ فیجھد نفسہ کی لا یتضرر (دررالاحکام: ۱؍۲۲۲، نیز دیکھئے: النہر الفائق: ۲؍۷۲) اگر انسان صرف اپنی آواز میں اذان دے، آواز بڑھانے کے لئے کوئی آلہ استعمال نہ کرے تو آواز حد اعتدال سے باہر نہیں جاتی؛ کیوں کہ انسان کے اندر آواز بلند کرنے کی صلاحیت محدود ہے؛ لیکن جس کسی بھی آواز کے لئے جب لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے تو آواز غیرمحدود ہو جاتی ہے، اور اتنی اونچی بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے کان بجنے لگیں، اور اگر کوئی شخص کان کا یا قلب کا مریض ہو تو اس کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، گانے بجانے اور ڈی جے وغیرہ میں تو یہ کیفیت ہوتی ہی ہے، گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنے والے مقررین بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ایک محلہ میں کئی کئی مسجدیں ہیں، میرا ایک مسلم محلہ میں قیام ہے، عموماََ فجر کے و قت تقریباََ نصف گھنٹہ تک اذان کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ ساری اذانیں مائک پر نہایت بلند آواز میں ہوتی ہیں؛ حالاں کہ نماز پڑھنے والے زیادہ دور سے نہیں آتے، مسجد کے اڑوس پڑوس کے ہی ہوتے ہیں۔

ج: پھر اس پر مزید اضافہ یہ ہے کہ بعض مسجدوں سے اذان واقامت کے درمیان مسلسل اعلان ہوتا رہتا ہے کہ فلاں مسجد میں جماعت کے لئے اب پندرہ منٹ رہ گئے ہیں، اب دس منٹ باقی ہیں، اب پانچ منٹ باقی ہیں، اب صرف تین منٹ رہ گئے ہیں ………. اذان جتنے وقت میں ہوتی ہے، یہ اعلان اس سے زیادہ وقت لے لیتا ہے، بعض مسجدوں میں نماز کے بعد کے اوراد اذکار بھی مائک پر پڑھے جاتے ہیں، قرآن وحدیث کا درس بھی مسجد کے اندرونی مائک کی بجائے بیرونی مائک پر دیا جاتا ہے، اور پورے محلہ میں اس کی آواز گونجتی رہتی ہے، بعض جگہ تراویح کی نماز بھی مائک پر ہونے لگی ہے، جمعہ کا بیان بھی بعض مسجدوں میں بیرونی مائک میں ہوتا ہے، اور بعض اوقات اس کی آواز باہم ٹکراتی رہتی ہے، لاؤڈاسپیکر کا اس طرح مبالغہ آمیز استعمال بیماروں، معذوروں اور مختلف کاموں میں مشغول لوگوں کے لے باعث تکلیف ہوسکتا ہے، اگر کسی محلہ میں مسلم وغیر مسلم ملی جلی آبادی ہو، یا جہاں چند گھر مسلمانوں کے اور بڑی آبادی غیرمسلموں کی ہو، وہاں دینی افعال کی اس طرح ادائیگی برادران وطن کے لئے تکلیف کا باعث ہوجاتی ہے، اور یہ ایک فطری بات ہے، اگر کوئی مسلم محلہ ہو اور اس میں دیر تک مندر کی گھنٹیاں بجیں تو ہمیں ناگوار خاطر ہوتا ہے، اسی سے غیرمسلم بھائی کے احساس کو سمجھنا چاہئے۔

یہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہئے کہ ’’اذان‘‘ دینا نہایت اہم اور ضروری عمل ہے، مگر مائک پر اذان دینا ایک الگ بات ہے؛ اگرچہ ہمیں فرقہ پرستوں کی اذان کے خلاف یورش کا مقابلہ کرنا چاہئے؛ لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق خود بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا عمل اعتدال پر مبنی ہو، یہ سوچنا کہ فلاں قوم کے لوگ بھی تو شور شرابہ کرتے ہیں، شادیوں اور الیکشن کے پروگراموں میں بھی تو بلند آواز متلاطم موجوں کی طرح فضاء میں بہتی رہتی ہیں، پھر ہم ہی کیوں اپنی آواز کو ہلکی کریں، درست نہیں ہے، نہ ہمارے لئے یہ درست ہے کہ ہم دوسری قوموں کی نقل کریں اور نہ یہ صحیح ہے کہ ہمارا عمل ردعمل پر مبنی ہو، ہمیں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہئے، جس میں اعتدال اور دوسروں کو ایذا سے بچنے کا قدم قدم پر خیال رکھا گیا ہے۔

اس لئے اذان اور مسجد کے پروگراموں کے سلسلہ میں ہمیں درج ذیل نکات پر عمل کی کوشش کرنی چاہئے:

۱۔ اگر ایک محلہ میں کئی مسجدیں ہوں تو ایک بڑی مسجد میں بیرونی مائک پر اذان دی جائے، اور اس میں بھی خیال رکھا جائے کہ آواز بہت تیز نہ ہو، اتنی ہو کہ پڑوس کے لوگوں تک پہنچ جائے، بقیہ مسجدوں میں اذان اندرونی مائک میں دی جائے، یا مسجد کے باہر بغیر مائک کے دی جائے، ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں اذان بغیر مائک کے ہی دی جاتی تھی، بعض فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر مسجد میں اذان واجب نہیں ہے، مستحب ہے، محلہ کی کم سے کم ایک مسجد میں اذان دینا واجب ہے: فھو واجب فی البلد والحیی ولیس بواجب فی کل مسجد (المناسک فی شرح المؤطا مالک: ۲؍۳۲۳) یہ رائے اگرچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ہے؛ مگر اس سے یہ بات تو اخذ کی جاسکتی ہے کہ ہر مسجد میں مائک پر اذان ضروری نہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مائک میں اذان دینا نہ واجب ہے نہ سنت، اور نہ بغیر مائک کے اذان دینے میں کوئی کراہت ہے؛ اس لئے یہ ایک بہتر شکل ہوگی کہ محلہ کی ایک بڑی مسجد میں لاؤڈاسپیکر میں اذان ہو اور بقیہ مسجدوں میں زبانی اذان ہوجائے۔

۲۔ اسپیکر کی سیٹنگ میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بیرونی مائک کا رُخ غیرمسلم آبادی یا اسپتالوں کی طرف نہیں ہو؛ تاکہ یہ دوسروں کے لئے تکلیف کا سبب نہ بنے۔

۳۔ اذان اور اقامت کے درمیان مزید اعلان سے گریز کیا جائے، آج کل ہر شخص کے پاس موبائل فون میں الارم کی سہولت ہے، بار بار وقت یاد دلانے کی ضرورت نہیں، اور تجربہ یہ ہے کہ اس بار بار کی یاددہانی کے باوجود مسجد وہی لوگ آتے ہیں، جو پابند نماز ہوتے ہیں، اور ان کے لئے بار بار کی تنبیہ کی ضرورت نہیں ہوتی، فقہاء کے یہاں اس میں بھی اختلاف ہے کہ اذان کے بعد پھر بہ تکرار نماز کا اعلان جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’تثویب‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، جائز ہے یا مکروہ؟ اس لئے یہ بار بار کا اعلان ایک بے فائدہ عمل ہے۔

۴۔ مسجدوں میں ہونے والے بیانات، قرآن مجید کا درس، حدیث شریف کا درس، تلاوت، جہری نمازوں کی قرأت کو مسجد کے اندرونی مائک میں ہونا چاہئے، ان امور کو مسجد کے بیرونی مائک میں انجام دینا کراہت سے خالی نہیں؛ کیوں کہ اس سے قرآن مجید اور دینی باتوں کی بے احترامی ہوتی ہے، قرأت ہوتی رہتی ہے، قرآن وحدیث کے مضامین نشر ہوتے رہتے ہیں، اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگ قضاء حاجت کی حالت میں ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس میں قرآن مجید اور دینی باتوں کی بے احترامی ہے۔

۵۔ عام جلسوں میں بھی ان نکات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جلسے میں حسب ضرورت مائک کا استعمال ہو اور قانون کے اعتبار سے جو اوقات مقرر ہیں، اتنی ہی دیر جلسہ رکھا جائے۔

غرض کہ ہمارے دین نے ہر کام کے لئے سلیقہ سکھایا ہے، طریقۂ کار کی رہنمائی کی ہے، اگر اس کے دائرہ میں رہتے ہوئے، اس عمل کو انجام دیا جائے تبھی یہ اطاعت واتباع کی صورت ہوگی، وباللہ التوفیق۔ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (ترجمان وکارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)



لاؤڈ اسپیکر کا ظالمانہ استعمال

ظلم صرف یہ نہیں ہے کہ کسی کا مال چھین لیا جائے، یا اسے جسمانی تکلیف پہنچانے کے لئے اس پر ہاتھ اٹھایا جائے ، بلکہ عربی زبان میں ’’ ظلم‘‘ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ’’کسی بھی چیز کو بے جگہ استعمال کرنا ظلم ہے‘‘ چونکہ کسی چیز کابے محل استعمال یقیناًکسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا موجب ہوتا ہے، اس لئے ہر ایسا استعمال ’’ظلم‘‘ کی تعریف میں داخل ہے۔ اور اگر اس سے کسی انسان کو تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ شرعی اعتبار سے گناہ کبیرہ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس طرح کے بہت سے گناہ کبیرہ، اس طرح رواج پاگئے ہیں کہ اب عام طور سے ان کے گناہ ہونے کا بھی احساس باقی نہیں رہا۔

’ایذا رسانی‘ کی ان بے شمار صورتوں میں سے ایک انتہائی تکلیف دہ صورت لاؤڈاسپیکر کا ظالمانہ استعمال ہے۔ ابھی چند روز پہلے ایک انگریزی روز نامہ میں ایک صاحب نے شکایت کی ہے کہ بعض شادی ہالوں میں رات تین بجے تک لاؤڈاسپیکر پر گانے بجانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور آس پاس کے بسنے والے بے چینی کے عالم میں کروٹیں بدلتے رہتے ہیں، اور ایک شادی ہال پرکیا موقوف؟ ہر جگہ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ جب کوئی شخص کہیں لاؤڈاسپیکر نصب کرتا ہے، تو اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی آواز کو صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھا جائے، اور آس پاس کے ان ضعیفوں او ربیماروں پر رحم کیا جائے جو یہ آواز سننا نہیں چاہتے۔

گانے بجانے کا سلسلہ تو الگ رہا، اس کو بلند آواز سے پھیلانے میں دوہری بُرائی ہے، اگر کوئی خالص دینی اور مذہبی پروگرام ہوتو اس کو بھی لاؤڈاسپیکر کے ذریعے زبردستی شریک کرنا شرعی اعتبار سے ہرگز جائز نہیں ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاسی اور مذہبی پروگرام منعقد کرنے والے حضرات بھی شریعت کے اس اہم حکم کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ سیاسی او رمذہبی جلسوں کے لاؤڈاسپیکر بھی دور دور تک مارکرتے ہیں، اوران کی موجودگی میں کوئی شخص اپنے گھر میں نہ آرام سے سو سکتا ہے نہ یکسوئی کے ساتھ اپناکوئی کام کرسکتا ہے ۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کی آواز دورتک پہنچانا تو برحق ہے،لیکن مسجدوں میں جو وعظ اور تقریریں یا ذکر تلاوت لاؤڈاسپیکر پر ہوتی ہیں، ان کی آواز دور دور تک پہنچانے کاکوئی جواز نہیں ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتاہے کہ مسجد میں بہت تھوڑے سے لوگ وعظ یا درس سننے کے لئے بیٹھے ہیں جن کو آواز پہنچانے کے لئے لاؤڈاسپیکر کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے، یا صرف اندرونی ہارن سے بآسانی کام چل سکتا ہے، لیکن بیرونی لاؤڈاسپیکر پوری قوت سے کھلا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ آواز محلے کے گھر گھر میں اس طرح پہنچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔

دین کی صحیح فہم رکھنے والے اہل علم خواہ کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں ،کبھی یہ کام نہیں کرسکتے، لیکن ایسا ان کی مسجدوں میں ہوتا ہے ، جہاں کا انتظام علم دین سے ناواقف حضرات کے ہاتھ میں ہے۔ بسااوقات یہ حضرات پوری نیک نیتی سے کام کرتے ہیں ، اور وہ اسے دین کی تبلیغ کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اوراسے دین کی خدمت قرار دیتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں یہ اصول بھی بہت غلط مشہور ہوگیا ہے، کہ نیت کی اچھائی سے کوئی غلط کام بھی جائز اور صحیح ہوجاتاہے، واقعہ یہ ہے کہ کسی کام کے درست ہونے کے لئے صرف نیک نیتی ہی کافی نہیں، اس کا طریقہ بھی درست ہونا ضروری ہے، لاؤڈاسپیکر کا ایسا ظالمانہ استعمال نہ صرف یہ کہ دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے،بلکہ اس کے الٹے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

جن حضرات کو اس سلسلے میں کوئی غلط فہمی ہو، ان کی خدمت میں دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ چند نکات ذیل میں پیش کرتا ہوں:

(1) مشہور محدث حضرت عمر شبّہ نے مدینہ منورہ کی تاریخ پر چار جلدوں میں بڑی مفصل کتاب لکھی ہے جس کا حوالہ بڑے بڑے علماء و محدثین دیتے رہتے ہیں ۔ اس کتاب میں انہوں نے ایک واقعہ اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ ایک وعظ صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان کے بالکل سامنے بلند آواز سے وعظ کہا کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں لاؤڈاسپیکر نہیں تھا، لیکن ان کی آواز بہت بلند تھی، اور اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یکسوئی میں فرق آتا تھا ، یہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا، اس لئے حضرت عائشہ نے حضرت عمر سے شکایت کی، کہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر کے سامنے وعظ کہتے رہتے ہیں، جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور مجھے کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی، حضرت عمر نے ان صاحب کو پیغام بھیج کر انہیں وہاں سے وعظ کہنے سے منع کیا، لیکن کچھ عرصے کے بعد واعظ صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ پھر شروع کرد یا۔ حضرت عمر کو اطلاع ہوئی انہوں نے خود جاکر ان صاحب کو پکڑا، اوران پر تعزیری سزا جاری کی۔ (اخبار المدینی لعمر بن شبّہ ، ج :1، ص :15)

(2) بات صرف یہ نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اپنی تکلیف کا ازالہ کرنا چاہتی تھی، بلکہ دراصل وہ اسلامی معاشرت کے اس اصول کو واضح او رنافذ کرناچاہتی تھیں کہ کسی کو کسی سے تکلیف نہ پہنچے ، نیز یہ بتانا چاہتی تھیں کہ دین کی دعوت وتبلیغ کا پرُوقار طریقہ کیا ہے؟ چنانچہ امام احمد نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ کے ایک واعظ وتبلیغ کے آداب تفصیل کے ساتھ بتائے اور ان آداب میں یہ بھی فرمایا کہ:

’’اپنی آواز کو انہیں لوگوں کی حد تک محدود رکھو جو تمہاری مجلس میں بیٹھے ہیں او رانہیں بھی اسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ جب تک ان کے چہرے تمہاری طرف متوجہ ہوں، جب وہ چہرے پھیر لیں، تو تم بھی رک جاؤ۔ اور ایسا کبھی نہ ہوناچاہئے کہ لوگ آپس میں باتیں کررہے ہوں، اور تم ان کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردوبلکہ ایسے موقع پر خاموش رہو، پھر جب وہ تم سے فرمائش کریں تو انہیں دین کی بات سناؤ‘‘۔ (مجمع الزوائد، ج:1، ص:191)

(3) حضرت عطا بن ابی رباح بڑے اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں، علم تفسیر و حدیث میں ان کا مقام مسلم ہے ان کا مقولہ ہے کہ ’’عالم کو چاہئے کہ اس کی آواز اس کی مجلس سے آگے نہ بڑھے.‘‘ ( ادب الاملاء والا ستملا ء للسمعانی، ص 5)

(4) یہ سارے آداب درحقیقت خود حضور سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے تعلیم فرمائے ہیں، مشہور واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر فاروق اعظم کے پاس سے گذرے، وہ تہجد کی نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے، حضرت عمر نے جواب دیا کہ میں ’’سوتے کو جگا تا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا اپست کردو‘‘۔ (مشکوۃ، ج 1 ص:107)

اس کے علاوہ حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو اپنے بستر سے آہستگی کے ساتھ اٹھتے تھے ( تاکہ سونے والوں کی نیند خراب نہ ہو)

(5) انہیں احادیث کی روشنی میں تمام فقہاء امت اس بات پر متفق ہیں کہ تہجد کی نماز میں اتنی بلند آواز سے تلاوت کرنا، جس سے کسی کی نیند خراب ہو، ہر گز جائز نہیں ، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر کی چھت پر سے بلند تلاوت کرے جب کہ سو رہے ہوتو تلاوت کرنے والا گناہ گار ہے‘‘۔ (خلاصۃ الفتاویٰ ، ج :1،ص 103، شامی، ج 1، ص 444,403)

ایک مرتبہ ایک صاحب نے یہ سوال ایک استفتاء کی صورت میں مرتب کیا تھا کہ بعض مساجد میں تراویح کی قرآت لاوڈاسپیکر پر اتنی بلند آواز سے کی جاتی ہے کہ اس سے محلے کی خواتین کے لئے گھر وں میں نماز پڑھنا مشکل ہوجاتا ہے، نیز جن مریض او رکمزور لوگوں کو علاجاً جلدی سونا ضروری ہے وہ سو نہیں سکتے، اس کے علاوہ باہر کے لوگ قرآن کریم کی تلاوت ادب سے سننے پر قادر نہیں ہوتے، اوربعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تلاوت کے دوران کوئی سجدے کی آیت آجاتی ہے، سننے والوں پر سجدہ واجب ہوجاتاہے، او ریا توان کو پتہ ہی نہیں چلتا ، یا وہ وضو سے نہیں ہوتے، اور بعد میں بھول جاتے ہیں، کیا ان حالات میں تراویح کے دوران بیرونی لاوڈاسپیکر زورسے کھولنا شرعاً جائز ہے؟

یہ سوال مختلف علماء کے پاس بھیجا گیا اور سب نے مفتقہ جواب یہی دیا کہ ان حالات میں تراویح کی تلاوت میں بیرونی لاؤڈاسپیکر بلاضرورت زور سے کھولنا شرعاً جائزنہیں ہے، یہ فتویٰ ماہنامہ ’البلاغ‘ کی محروم 1407ھ کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے اس پر تمام مکاتب فکر کے علماء متفق ہیں ۔

اب رمضان کامقد س مہینہ شروع ہونے والا ہے، یہ مہینہ ہم سے شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کامطالبہ کرتا ہے، اوریہ عبادتوں کامہینہ ہے اورا س میں نماز ، تلاوت اور ذکر جتنابھی ہوسکے، باعث فضیلت ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ساری عبادتیں اس طرح انجام دی جائیں کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، اور ناجائز طریقوں کی بدولت ان عبادتوں کا ثواب ضائع نہ ہو۔ لاؤڈاسپیکر کااستعمال بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت کیا جائے ، اس سے آگے نہیں ۔

مذکورہ بالا گذارشات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شریعت نے دوسروں کو تکلیف سے بچانے کاکتنا اہتمام کیا ہے؟ جب قرآن کریم کی تلاوت اور وعظ نصیحت جیسے مقدس کاموں کے بارے میں بھی شریعت کی ہدایت یہ ہے کہ ان کی آواز ضرورت کے مقامات سے آگے نہیں بڑھنی چاہئے ،تو گانے بجانے اور دوسری لغویات کے بارے میں خود اندازہ کر لیجئے کہ ان کو لاؤڈاسپیکر پر انجام دینے کا کس قدر دُہرا وبال ہے۔ (ختم شد) 6 فروری، 1994 (مفتی تقی عثمانی)

लाउडस्पीकरों का क्रूर उपयोग

अत्याचार केवल यह नहीं है कि किसी का माल छीन लिया जाए, या उसे शारीरिक परेशानी पहुंचाने के लिए उस पर हाथ उठाया जाए, बल्कि अरबी भाषा में '' अत्याचार '' की परिभाषा की गई है कि '' कुछ भी बे जगह का उपयोग कर न गलत है ''क्योंकि किसी चीज का बे महल उपयोग बेशक किसी न किसी को चोट पहुँचाने का सबब होता है, इसलिए हर ऐसा उपयोग '' अत्याचार '' की परिभाषा में प्रवेश है। और अगर इससे किसी इंसान को तकलहीफ पहुंचती है,तो वह धर्म आधार पाप कबीरा है। लेकिन हमारे समाज में इस तरह के बहुत से पाप कबीरा,ऐसे रिवाज पा गए हैं कि अब आम तौर पर उनके पाप होने का भी एहसास बाकी नहीं रहा।

''धमकी'' इन अनगिनत मामलों में से एक छोर कोई दर्दनाक स्थिति लाउडस्पीकरों का क्रूर ासपमा लिमिटेड। अब कुछ दिन पहले एक अंग्रेजी दैनिक में एक साहब ने शिकायत की है कि कुछ शादी हॉल में रात तीन बजे तक लाउडस्पीकर पर गाने बजाने का सिलसिला जारी रहता है,और आसपास के रहने वाले बेचैनी की हालत में करवटें बदलते रहते हैं,और एक शादी हॉल क्या थामने?हर जगह देखने में यही आता है कि जब कोई व्यक्ति कहीं लाउडस्पीकर स्थापित करता है, तो उसे इस बात की परवाह नहीं होती कि उसकी आवाज बस जरूरत सीमा तक सीमित रखा जाए, और आस-पास के इन बुड्ढे और बीमारों पर दया जाए जो यह आवाज सुनना नहीं चाहते।

गाने बजाने का सिलसिला तो अलग रहा,उसे जोर से फैल दोहरी बुराई है,अगर कोई शुद्ध देना और धार्मिक कार्यक्रम हो तो उसे भी लाउडस्पीकर के माध्यम से ज़बरदस्ती साझा कर ना शरई आधार हरगिज़ जा यज़ नहीं है , लेकिन खेद है कि हमारे समाज में राजनीतिक और धार्मिक कार्यक्रम आयोजित करने वाले लोग भी व्यवस्था इस महत्वपूर्ण आदेश बिल्कुल विचार नहीं करते। राजनीतिक और धार्मिक सभाओं के लाउडस्पीकर भी दूर तक मार करते हैं,और उनकी उपस्थिति में कोई व्यक्ति अपने घर में न आराम से सो सकता है न एकाग्रता के साथ अपना कोई काम कर सकता है। लाउडस्पीकर द्वारा अज़ान की आवाज़ दूर तक पहुंचाना तो बुर अधिकार है,लेकिन मस्जिदों में जो उपदेश और भाषण या चर्चा और सुनाना लाउडस्पीकर पर होती हैं,उनकी आवाज दूर तक पहुंचाने का कोई औचित्य नहीं है। अक्सर देखने में आता है कि मस्जिद में बहुत थोड़े से लो जी उपदेश या शिक्षण सुनने के लिए बैठे हैं जिन्हें आवाज पहुंचाने के लिए लाउडस्पीकरों की सिरे से जरूरत ही नहीं है,या केवल आंतरिक हॉर्न से आसानी काम चल सकता है,लेकिन बाहरी लाउडस्पीकरों पूरी ताकत से खुला होता है और फलस्वरूप यह आवाज पड़ोस घर घर जैसे पहुंचती है कि कोई व्यक्ति इससे प्रभावित हुए बिना नहीं रहता।

दीन सही समझ रखने वाले विद्वानों चाहे किसी विचारधारा से संबंध रखते हैं,कभी यह काम नहीं कर सकते, लेकिन ऐसा उनकी मस्जिदों में होता है, जहां का प्रबंधन इल्मे दीन से अपरिचित सज्जनों के हाथ में है। कभी-कभी यह सज्जनों पूरी नेकनीयत से यह काम करते हैं,वे उसे धर्म प्रचार का एक स्रोत समझते और उसे दीन सेवा बताते हैं,लेकिन हमारे समाज में यह नियम भी बहुत गलत प्रसिद्ध हो गया है,कि इरादा अच्छा कोई से कोई गलत काम भी जायज़ और सही हो जाता है,घटना है कि किसी काम सही होने के लिए केवल नेकनीयत ही प्रति नहीं,उसका तरीका भी सही होना चाहिए, और लाउडस्पीकर ऐसा क्रूर प्रयोग न केवल कि निमंत्रण और प्रचार के बुनियादी सिद्धांतों के खिलाफ है,बल्कि इसके उल्टे नतायज सामने आते हैं।

जिन सज्जनों को इस संबंध में कोई गलतफहमी हो,उनकी सेवा में करुणा और दलसवज़ी के साथ कुछ बिंदुओं नीचे प्रदान करता हूँ।

(1) प्रसिद्ध मुहद्दिस हज़रत उमर बिन शक ने मदीना की तारीख पर चार संस्करणों में बड़ी विस्तृत किताब लिखी है जिसका संदर्भ बड़े उलमा व मोहद्देसीन देते रहते हैं। इस पुस्तक में उन्होंने एक घटना अपनी सनद सुनाई है कि एक प्रवचन साहब हज़रत आयशा रज़ियल्लाहू अन्हा के मकान पूरी तरह से सामने बहुत जोर से उपदेश कहा करते थे जाहिर है कि उस ज़माने में ला उड वक्ता नहीं था, लेकिन उनकी ध्वनि बहुत ऊंची थी, और हज़रत आयशा रज़ियल्लाहु अन्हा की एकाग्रता में अंतर आता था, यह हज़रत फारूक आजम रा की खिलाफत का ज़माना था, इसलिए हज़रत आयशा ने उमर से शिकायत की, कि यह साहब जोर मेरे घर के सामने उपदेश कहते रहते हैं,जो मुझे तकलीफ होती है और मुझे किसी और की आवाज सुना कोई नहीं देती,उमर ने इन साहब को संदेश भी ग कर उन्हें वहां से उपदेश कहने से मना किया,लेकिन कुछ समय के बाद प्रवचन साहब ने फिर वही सिलसिला फिर शुरू कर दिया। उमर को सूचना हुई तो उन्होंने खुद जाकर इन साहब को पकड़ा,और उन पर पज़ीरिय सजा जारी। (अखबार ालमदीनिय लिमर बन शक जवाब: 1, पी: 15)

(2) बात केवल यह नहीं थी कि हज़रत आयशा रज़ियल्लाहू अन्हा अपनी असुविधा निवारण करना चाहता था, बल्कि दरअसल वह इस्लामी समाज के इस सिद्धांत को स्पष्ट और लागू करना चाहता था कि किसी को किसी परेशानी न पहुंचे, तथा यह बताना चाहती थीं कि दीन की दावत और प्रचार पर गरिमा तरीका क्या है?इसलिए इमाम अहमद ने अपनी गद्दी में परंपरा नकल है कि एक बार उम मोमेनीन हज़रत आयशा रज़ियल्लाहू अन्हा ने मदीना के एक प्रवचन को उपदेश और प्रचार शिष्टाचार विवरण के साथ बता हुए और उनके शिष्टाचार में यह भी फर माया कि:

'' अपनी आवाज उन्हें लोगों की सीमा तक सीमित रखें जो तुम्हारी सभा में बैठे हैं और उन्हें भी उसी समय तक दीन बातें सुनाओ जब तक उनके चेहरे तुम्हारी आकर्षित हूँ,जब वह चेहरे बारी,तो आप भी बंद जाकर । और ऐसा कभी नहीं होना चाहिए कि लोग आपस में बातें कर रहे हों,और आप उनकी बात काटकर अपनी बात शुरू कर दो बल्कि ऐसे अवसर पर चुप रहो,फिर जब वह तुम्हें फर तिश तो उन्हें दीन बात सुनाओ ''(भीड़ ाल्सवायद, जवाब: 1, पी: 191)

हज़रत दी बिन अबी रबअह बड़े उच्च स्तरीय ताबेईन में हैं,ज्ञान टीका हदीस में उनका स्थान मुस्लिम है उनका मकोलह है कि ''आलम को चाहिए कि इक्की ध्वनि इस मजलिस से आगे न बढ़े '' (साहित्य ालामलाय और ालाज्यमलाय ललसमझनी, पी 5)

(4) यह सारे शिष्टाचार वास्तव खुद पवित्र सर्वर कोनीन (स.अ.व.) ने अपने कथनी और करनी से शिक्षा फर मा हुए हैं, प्रसिद्ध घटना है कि आप (स.अ.व.) उमर फारूक प्रधानमंत्री के पास से गुजरे, वह तहज्जुद की नमाज़ में जोर से पढ़ रहे थे, उमर ने कहा कि मैं '' सोते को जगाती हूँ और शैतान को भगा हूँ '' आँ हज़रत (स.अ.व.) ने फर माया कि अपनी आवाज को थोड़ा कम कर दो '' (मिशक़ात, सी 1 देखा: 107)

इसके अलावा हज़रत आयशा से ही परंपरा है कि आँ हज़रत (स।) जब तहज्जुद के लिए जागरूक होते तो अपने बिस्तर धीरज के साथ उठते थे (ताकि सोने वालों की नींद खराब न हो)

(5) उन्हें हदीसों प्रकाश सभी फ़ुक़्हा अमित इस बात पर सहमत हैं कि तहज्जुद की नमाज़ में इतनी जोर से पढ़ कर न,जो किसी की नींद खराब हो,हरगिज़ जा यज़ नहीं फ़ुक़्हा ने लिखा है कि यदि कोई व्यक्ति अपने घर की छत पर जोर से तिलावत करे जबकि लो जी सो रहे हो तो सुनाना कर वाला गुनाहगार है '' (रिासतह ाल्फ़तावी, जवाब: 1, पी 103, सीरिया, सी 1, पी 403,444)

एक मर तबह एक साहब ने यह सवाल एक ाज्यफ़्ताय की स्थिति में सेट किया था कि कुछ मस्जिदों में तरावीह की मेलबलि आवृत्ति लाउडस्पीकरों पर इतनी जोर से है कि इससे मोहल्ले की महिलाओं के लिए घरों में नमाज़ पढ़ना कठिन हो जाता है तथा जिन रोगी और कमजोर लोगों को इलाज जल्दी सोना चाहिए वह सो नहीं सकते,इसके अलावा बाहर के लोग कुरान की तिलावत साहित्य से सुनने में सक्षम नहीं होते, और कई बार ऐसा भी होता है कि पाठ के दौरान कोई सजदे कविता आती है, सुनने वालों पर गिराया वाजिब हो जाता है, और या तो उन्हें पता ही नहीं चलता, या वह वुज़ू नहीं होते, और बाद में भूल जाते हैं, कि इन स्थितियों में तरावीह के दौरान बाहरी लाउडस्पीकर जोर से खोलना शरअन वैध है?

यह सवाल अलग विद्वानों के पास भेजा गया और सबने एकमत जवाब यही दिया कि इन स्थितियों में तराीह सुनाना बाहरी लाउडस्पीकरों कोई जरूरत जोर से खोलना शरअन जा यज़ नहीं है, यह फतवा मासिक ''बलाग़ 'की मुहर्रम 1407 आह प्रकाशन में प्रकाशित हुआ है .और यह घटना है कि यह कोई अंतर समस्या नहीं है पर सभी मतों के उलेमा सहमत हैं।

अब रमजान का पवित्र महीना शुरू होने वाला है,इस महीने हमसे शरई अहकाम की सख्ती के साथ पा करने की मांग करता है,और यह इबादतों का महीना है और इसमें प्रार्थना सुनाना और उल्लेख जितना भी हो सके, जिससे पुण्य लेकिन हमें यह याद रखना चाहिए कि यह सारी इबादतें इस तरह अंजाम दी जायें कि उनसे किसी को चोट न पहुंचे,और ना जा यज़ तरीकों की बदौलत इन इबादतों का इनाम बर्बाद न हो। लाउडस्पीकर का उपयोग बोकत जरूरत और थ्रूपुट जरूरत किया जाए, इससे आगे नहीं।

उपरोक्त प्रस्तुतियाँ से अनुमान लगाया जा सकता है कि व्यवस्था ने दूसरों को परेशानी से बचाने के लिए कितना व्यवस्था क्या है?जब कुरान की तिलावत और नसीहत जैसे पवित्र कार्यों के बारे में भी व्यवस्था के निर्देश है कि उनकी आवाज जरूरत स्थानों से आगे नहीं बढ़ना चाहिए,तो संगीत वाद्ययंत्र और दूसरी ठगना के बारे में खुद अंदाज़ा लगा लीजिए कि उन्हें लाउडस्पीकर पर अंजाम देने का कितना दोहरा ाोबाल है। 6 फरवरी 1994 य: मुफ्ती तक़ी उस्मानी

(समाप्त)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/04/atrocious-use-of-loudspeakers.html




Friday 9 April 2021

امیرشریعت: ہمہ جہت خدمات کے چند نقوش

امیر شریعت: ہمہ جہت خدمات کے چند نقوش

بقلم: محمد منصور عالم رحمانی جامعہ فیضان ولی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ الہنڈا بارسوئی گھاٹ ضلع کٹیہار بہار

حضرت امیرشریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ ایسے وقت میں اس دنیا سے گئے جب کہ ملک و ملت کو آپ کی ہمہ جہت شخصیت کی شدید ضرورت تھی۔ آپ کی وفات سے دنیا ایک ولی صفت زندہ دل انسان، دور رس، دوربین، اہل زبان، اہل قلم، قول فیصل، بیان فیصل، بے باک قائد، بے لوث خادم، ماہرمعلم، قانون داں، پیغام محبت کے داعی، ملک و ملت کے دلوں کی دھڑکن، آس اور امید سے محروم ہوگئی. ملت یتیم ہوگئی، إنا لله و إنا إليه راجعون
حضرت امیرشریعت یقیناً ایک خدا رسیدہ انسان اور سچے عاشق رسول تھے، آپ کی اصل منزل اللہ تک رسائی اور رضائے الٰہی تھی. آپ کی بے پناہ خداداد  صلاحتیں، کاموں کو بحسن وخوبی انجام دینے کے سلیقے، ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے آپ کی جانب سے خدمات جلیلہ آپ کی للہیت اور نبوی عشق کے مظاہر ہیں. آپ ایک جید عالم دین تھے، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند اور تلکامانجھی یونیورسٹی بھاگلپور بہار جیسے اداروں سے آپ نے علوم وفنون حاصل کئے.
آپ جامعہ رحمانی مونگیر کے تاحیات مدرس رہے.
جیتے جی آپ نے اپنے لئے کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ ملت کے لئے آپ نے پٹنہ میں اپنا ذاتی مکان فروخت کرکے رحمانی 30 کو قائم کیا.
 آپ جامعہ رحمانی کے تاحیات سرپرست رہے، آپ کی سرپرستی کے عہد میں جامعہ رحمانی نے تعلیمی اور تعمیری دونوں میدان میں ترقیات کی منزلیں طے کیا. وہاں سے ایسے قابل اور ہونہار فارغین کو تیار کیا جو ملکی ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ملت کی ترجمانی کررہے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک فقیہ، محدث اور قاضی پیدا ہوئے۔
جامعہ رحمانی کی تعلیم و تربیت میں حالات اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ہر دور میں اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے نئے نئے اقدامات کئے، مختلف قسم کے نئے انداز میں مقابلاجات منعقد کرواکے فارغین کو میدان عمل میں ہرممکن کامیاب بنانے کی کوشش میں تسلسل رہا اور اس میں سو فیصد کامیابی بھی ملتی رہی.
 ترجمہ و تفسیر کے ساتھ حفظ قرآن مجید کا نیا نظام قائم کرکے کامیاب تجربہ پیش کیا، جامعہ ازہر مصر کے طرز پر عربی زبان میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم کیا.
في البديه کسی بھی موضوع پر کامیابی کے ساتھ بولنا سکھانے کے لئے ارتجالی مسابقہ کا نظام جاری کیا۔
جامعہ رحمانی کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیری ترقی بھی کی، تعلیم گاہ، دانش گاہ کی بلند وعظیم عمارتیں، شاندار مطبخ، اساتذہ کی قیام گاہیں اس کی گواہ ہیں۔
سجادہ نشینی کے عہد میں آپ نے بیعت و ارادت کے حلقے وسیع تر کیا۔ خانقاہ کے پلیٹ فارم سے پیغام محبت  کو عام کیا، اختلاف سے کوسوں دور رہے، امت کو ہر ممکن جوڑے رکھنا آپ کا تاحیات مشن رہا، مسلکی، آپ کے والد ماجد حضرت امیرشریعت رابع مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کے ذریعے تحفظ شریعت اور وحدت امت کی غرض سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام اسی خانقاہ رحمانی کا فیض ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسٹیج پر کلمہ توحید کی بنیاد پر امت کا اتحاد خانقاہ رحمانی کے پیغام محبت اور وحدت امت کا مظہر ہے۔
ہزاروں مصروفیات کے باوجود خانقاہ رحمانی کی مسجد میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ تاحیات مجلس دورود شریف منعقد کرتے رہے، جس میں ہزاروں اللہ کے بندے پابندی کے ساتھ شریک مجلس ہوتے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت توبہ و استغفار کرتے تھے، لاکھوں اللہ کے بچھڑے بندوں نے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر توبہ و استغفار کیا اور اللہ سے لو لگانے کے قابل ہوگئے.
 آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں اس کی تاسیس کے وقت ہی سے شریک رہے، امیرشریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد سکریٹری منتخب ہوئے اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے انتقال کے بعد باتفاق رائے بورڈ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اپنی جرأت و استقامت اور صلاحیتوں سے بورڈ کی خدمات کو وسیع کیا. سلگتے حالات میں ملی مسائل کو حل کیا اور پرسنل لا کے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑا.
 ایک عظیم اور باوقار ادارہ رحمانی فاؤنڈیشن قائم کرکے پورے ملک میں معیاری عصری اداروں کے قیام کا ایک بے مثال نمونہ پیش کیا، آئی آئی ٹی کی تعلیم کے لئے رحمانی 30 کا قیام رحمانی فاؤنڈیشن کی خدمات کا روشن باب ہے۔
 آپ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے جب امیرشریعت نہیں تھے اس وقت بھی امارت کو آپ نے ٹوٹنے اور تقسیم ہونے سے بچایا تھا۔ جب امیرشریعت منتخب ہوئے تو آپ نے امارت شرعیہ کے دائرہ کار اور اصول و ضوابط پر کاربند رہتے ہوئے امارت سے متعلق ملت کے مفادات کو عام کیا، تعلیم و تربیت، قیام دارالقضاء، عصری اداروں کے قیام، بینادی دینی تعلیم کے فروغ اور اردو زبان کے تحفظ میں بھرپور توجہ دی، موثر اقدامات کئے، اداروں کا جال بچھایا.
  حکومت کی غلط پالیسیوں کے آگے ہندوستانی عوام میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ حکومت وقت کے خلاف ایک زبان بولنا بھی جرم عظیم تھا. ایسے نازک وقت میں آپ نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے 'دین بچاؤ دیش بچاؤ' آندولن کے بینر تلے گاندھی میدان پٹنہ میں ایک کروڑ سے زائد مجمع اکٹھا کرکے حکومت کو جو پیغام دینا تھا وہ دیا ساتھ میں ہندوستانی عوام کو یہ سبق دیا کہ زبان کے تالے توڑو، اگر حقوق کا تحفظ چاہتے ہو اور دین تمہیں عزیز ہے تو تمہیں سڑکوں پر اترنا ہوگا، پھر اس کے بعد ملک کے اندر آندولن کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
ہندوستان کی آزادی میں ہمارے اکابر و اسلاف اور مسلم حکمرانوں نے جو کارنامے، کردار اور رول ادا کیا ہے اور جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دی ہیں تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں، اگر ہندوستانی مسلمانوں نے قربانیاں نہیں دی ہوتی تو ہندوستان آزاد نہ ہوتا؛ لیکن حکومت وقت نے ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم قربانیوں پر پردہ ڈالنے کی ناپاک سعی کی، نصابی کتب میں تبدیلیاں شروع کیں، اور آزادی کی تاریخ کا آغاز 1857 سے کیا، یہاں تک کہ تاریخ کا استاذ بھی آزادی کی تاریخ کو اٹھارہ سو ستاون سے پڑھانا شروع کیا، اور اس مہم کو مکمل پلاننگ کے ساتھ سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطح پر چلایا جانے لگا.
   حضرت امیرشریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے بحیثیت تاریخ کا ایک طالب علم تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ اور مسلمانوں کی عظیم قربانیوں پردہ ڈالنے کی کی سعی و کوشش کو ناکام بنانے اور صحیح تاریخ کو سامنے لانے کے لئے تحریکی انداز میں لکھنا اور بولنا شروع کیا، سب سے پہلے "کیا ۱۸۵۷/ کی جدوجہد 'پہلی' جنگ آزادی تھی؟" نام سے ایک چھوٹا رسالہ تحریر کیا، رحمانی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے اہل قلم اساتذہ تاریخ کو مختلف عنوانات اور موضوعات دے کر ادھر متوجہ کیا، اسکول، کالج اور مدرسوں کے طلبہ کو آزادی کی تاریخ کے مطالعے کی ترغیب دی مختلف ریاستوں کے دینی و عصری  طلبہ کے درمیان اس موضوع پر تحریری مسابقے کروائے اور بھاری اور قیمتی انعامات دے کر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی، رحمانی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے اس موضوع پر مختلف سیمینار بھی کروائے، ان سیمیناروں میں ملکی سطح پر تاریخ کے لکچرر بھی مدعو ہوئے، لمبی لمبی بحثیں ہوئیں بالآخر حضرت نوراللہ مرقدہ نے تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ اور اس پر پردہ ڈالنے کی مہم کے لکھنے اور بولنے کا ایک ماحول بنایا اور آزادی کی تاریخ کو 1731 سے شروع کرکے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نور اللہ مرقدہ کی تحریک سے جوڑا جس کی بنیاد پر تاریخ کے طلبہ و اساتذہ دونوں طبقوں میں یہ بات تسلیم کی جانے لگی اور لوگوں نے آزادی کی جد وجہد کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے جوڑ کر بیان کرنا شروع کیا.
بی جے پی کے اقتدار میں مدارس پر دہشت گردی کا الزام زوروشور سے لگایا جارہا تھا، مدارس پر تالے لگوانے کی تیاریاں چل رہی تھیں. ایسے نازک موڑ پر پورے ملک میں سناٹا چھایا ہوا تھا. 2002 میں حضرت امیرشریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے ملک کی مختلف ریاستوں سے مدارس اسلامیہ کنونشن کے عنوان کے بینر تلے تمام اہل مدارس اور مکاتب کو مدعو کیا. حکومت وقت کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا ان تمام لوگوں کی موجودگی میں دو ٹوک انداز میں ارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مدارس پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزام اور جھوٹ کو بے نقاب کیا ،اہل مدارس کو مضبوط حوصلہ دیا، حوصلہ ،ہمت اور جرأت کے ساتھ مدارس کے وقار کو بلند کیا اور دہشت گردی کے الزام سے مدارس کو بری کیا،یہاں تک کہ صدرجمہوریہ ہند عظیم سائنسدان ڈاکٹر ابوالفاخر زین العابدین عبدالکلام نے خانقاہ رحمانی پہنچ کر آپ کی آواز کو یہ کہہ کر کہ میں نے بھی مدرسے میں پڑھا ہے مزید مضبوطی دی، خود سورہ پڑھ فاتحہ کر سنائی اور طلبہ کو بھی پڑھایا ساتھ ہی سورہ فاتحہ کا ترجمہ بھی کروایا۔ اس کے بعد ارباب اقتدار نے مدارس کے تئیں اپنے ناپاک قدموں کو پیچھے کیا۔
 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے پورے ملک کے اندر دارالقضاء کا جال بچھایا، تفہیم شریعت کی تحریک شروع کی، گلی گلی اور چپے چپے میں پرسنل لا کی تفہیم و تشریح کا ماحول بنایا، علماء اور دانشوروں کو اس جانب راغب کیا.
آخر عمر میں کورونا مہاماری کی وجہ سے جب مدارس کا تعلیمی نظام متأثر ہوا، عصری اداروں میں بھی دینی تعلیم و تربیت کے فقدان کو محسوس کیا اور حکومت وقت نے اردو جیسی عالمی زبان کے ساتھ سوتیلہ پن کا رویہ اختیار کیا، اس کی لزومیت کو منسوخ کیا؛ تو آپ نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے بنیادی دینی تعلیم، معیاری عصری اداروں کا قیام اور اردو زبان کا تحفظ اور فروغ کے عنوان پر مختلف ریاستوں میں ایک تحریک چلائی۔
اپنے تو اپنے ہی ہیں معاندین اور مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ: حضرت امیر کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، ایک صدی کا خاتمہ ہوگیا، پورا ہندوستان یتیم ہوگیا، ایک بے باک لیڈر، قائداور جرأت مند فرشتہ صفت انسان اس دنیا سے رخصت ہوگیا.
حضرت سے میرا استاذ حدیث اور شیخ ومرشد کا رشتہ بھی رہا، زبان و قلم اور ظاہر و باطن کی جو بھی نعمتیں اللہ نے دی ہیں یہ سب حضرت ہی کی توجہات ہیں، اللہ نے مجھے اپنے فضل و احسان سے دینی و عصری تعلیم و تربیت کیلئے ایک ادارہ  قائم کرنے کی توفیق دی، اسی مضبوط رشتے کی بنیاد پر ہم نے حضرت کی جانب نسبت کرتے ہوئے اپنے ادارے کا نام جامعہ فیضان ولی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ رکھا۔
3 اپریل بروز ہفتہ امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے حضرت کے حکم کے مطابق بنیادی دینی تعلیم، معیاری عصری اداروں کا قیام اور اردو زبان کا تحفظ اور فروغ کے عنوان پر حلقہ بارسوئی انومنڈل ضلع کٹیہار کے علماء اور دانشوران اپنی اپنی کارگزاری دینے کے لئے جمع ہوئے تھے، یہاں حضرت کی صحت کے لئے دعائیں ہوئیں، اختتام کے بعد اچانک خبر ملی کہ اب ہم سب یتیم ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون
بڑا گہرا صدمہ پہنچا، دل تھامے نہیں تھم رہا تھا، آنکھیں پرنم تھیں، جنازے میں شرکت کیلئے حاضری ہوئی اور بعد تدفین اپنا مقام لوٹا۔
اللہ سے دعاء ہے کہ امت مسلمہ ہندیہ کو حضرت کا نعم البدل عطاء فرمائے، حضرت کی صفات عالیہ ہم سبھوں میں منتقل فرمائے۔ حضرت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے آمین
بقلم: محمد منصور عالم رحمانی
http://saagartimes.blogspot.com/2021/04/blog-post.html?m=1