ایس اے ساگر
العین حق یعنی نظر کا ﻟﮓ ﺟﺎﻧﺎ ﺣﻖ ﮨﮯ.اس دلیل کیساتھ کوئی مرچوں کی دھونی دیتا ہے تو کوئی پرانے کپڑے سے اتار کرتا ہے. مختلف قسم کی لغویات میں شفا تلاش کی جاتی ہے. گویا کہ یہ عقیدہ افراط وتفریط کا شکار،اور بہت سی غلط فہمیوں کی نذر ہوچکا ہے . نظر بد ایک ایسا موضوع ہے،جس کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نظر بد کی دراصل کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور یہ محض وہم ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے ۔دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پر یقین تو رکھتے ہیں، لیکن اس کے علاج میں کسی حد کی پروا نہیں کرتے ہیں،اور شرک کے مرتکب ٹھہرتے ہیں جبکہ بد کا لگنا حق ہے اور اس کا غیر شرکیہ علاج جائز ہے۔ بعض کے نزدیک جب ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﻟﮕﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺳﻮﺭۃ
ﺍﻟﻘﻠﻢ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ 51,52
ﻭَ ﺍِﻥْ ﯾَّﮑَﺎﺩُ ﺍﻟَّﺬِﯾْﻦَ ﮐَﻔَﺮُﻭْﺍ ﻟَﯿُﺰْﻟِﻘُﻮْﻧَﮏَ ﺑِﺎَﺑْﺼَﺎﺭِﮬِﻢْ ﻟَﻤَّﺎ ﺳَﻤِﻌُﻮْ ﺍ ﺍﻟﺬِّﮐْﺮَ ﻭَ
ﯾَﻘُﻮْﻟُﻮْﻥَ ﺍِﻧَّﮧُ ﻟَﻤَﺠْﻨُﻮْﻥ ﻭَّﻣَﺎ ﮬُﻮَ ﺍِﻻَّ ﺫِﮐْﺮ ﻟِّﻠْﻌَﺎﻟَﻤِﯿْﻦَ
ﺍﻭﻝ ﻭ ﺁﺧﺮ 7ﺩﻓﻌﮧ درود شریف ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﭽﮯ ﭘﺮ ﺩﻡ ﮐﺮﮮ. ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻧﻈﺮ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ. بعض ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺑﺪ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺀ ﻣﺠﺮﺏ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﮯ. کہا جاتا ہے کہ ﺍﮔﺮ ﻧﻈﺮ ﻟﮕﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺩﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺟﻤﺎہی ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﻤﺎہی ﮨﻮﮔﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﺨﺖ ﻧﻈﺮ ﻟﮕﯽ
ﮨﻮﮔﯽ تاہم ﺟﻤﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺁﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
1... ہمارے دین میں نظر کی شرعی کیا حیثیت ہے؟
2... جب ہمارے ہاں کسی کو نظر لگ جائے تو لال والی سات عدد مرچیں لیتے ہیں اور اس پر چار قل پڑھتے ہیں اور جس کو نظر لگی ہوتی ہے اس کی جسم یا سر یا چہرے کے ساتھ ملتے ہیں اور پھر اسے آگ پر جلا دیتے ہیں اور بظاہر جس کو نظر لگی ہوتی وہ صحیح ہو جاتا ہے، یہ سلسلہ ہمارے خاندان میں بہت پُرانا چلا آرہا ہے۔
3... نظر کا لگنا بظاہر خوبصورتی کی وجہ یا اچھا لگنے کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن دیکھا جائے تو انگریزوں کے بچے بھی خوب صورت ہوتے ہیں تو ان کو اگر نظر لگتی ہے تو وہ کوئی ایسا عمل نہیں کرتے پھر بھی وہ صحت مند اور ٹھیک رہتے ہیں۔
جواب…1..واضح رہے کہ جمہور علماء کرام اور اہل حق کا مسلک یہی ہے کہ جاندار اشیاء خواہ انسان ہو یا جانور اور اموال وغیرہ میں نظر کی تاثیر یعنی نظر سے نقصان پہنچنا ثابت ہے اور بہت سی احادیث سے بھی ثابت ہے، حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”نظر حق“
ہے یعنی نظر کی تاثیر اور اس سے نقصان پہنچنا ثابت ہے، اور بھی متعدد روایات ایسی ہیں جن میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نظر لگنے او راس سے بچنے کیلئے عرب میں جو طریقہ رائج تھا کہ جس شخص کی نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ، پاؤں، ٹخنے، کہنیاں وغیرہ دھلوا کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگی ہوتی تھی اور اس کو وہ لوگ شفاء کا ذریعہ سمجھتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی اور نظر سے بچنے کیلئے تعویذ اور دم کرنے کا بھی حکم دیا ہے، چناں چہ نظر کی تاثیر اورسببیت اس بناء پر ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے اس میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ نقصان یا ہلاکت کا باعث بنے ،لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ نظر حق ہے۔
3,2.. صورت مسئولہ میں ذکرکردہ طریقے سے اگر نظر اترتی ہے تو یہ طریقہ درست ہے، اصل میں نظر کو دور کرنے کے بہت سے طریقے مختلف علاقوں میں رائج ہیں جیسے کہ بعض لوگ لو بان اور نیرہ ( خاص پودا) کے دھویں سے دھونی دیتے ہیں ، بعض لوگ پھٹکری سے نظر کا علاج کرتے ہیں او راہل عرب میں وہ طریقہ رائج تھا کہ نظر لگانے والے کے اعضاء کا پانی جس کو نظر لگتی تھی اس پر ڈال دیتے تھے،الغرض یہ سب طریقہائے علاج ہیں نظر کو دور کرنے کیلئے جو کہ تجربات او رمشاہدات سے ثابت ہیں، عقل اور سمجھ کی رسائی سے بالاتر ہیں، لیکن یہ بات یاد رہے کہ موثر حقیقی صرف اور صرف الله جل شانہ کی ذات ہے ، اس لئے یہ طریقے بھی الله تعالیٰ کے حکم سے نظر بد کو دفع کرتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ نظر کا لگنا اچھا لگنے یا خوب صورتی کی وجہ سے ہوتا ہے یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ نظر لگانے والے کی نظر میں اگر حسد یا دشمنی ہو تو تب بھی نظر لگتی ہے ، علماء کرام نے لکھا ہے کہ بعض لوگ جن کی نظر لگتی ہے ان کا بیان ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے حرارت نکلتی ہے، علامہ ابن جوزی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ نظر اس وقت لگتی ہے جب کسی کو اچھی نظر سے دیکھا جائے اور اس میں حسد کا شائبہ ہو اور نظر لگانے والا گندی فطرت والا ہوتا ہے، جیسے زہریلے سانپ ہوتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر معشوق کو عاشق کی نظر لگ جاتی ، لہٰذا یہ نظر کا لگنا حسد ، بغض ، کینہ اور دشمنی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے اور کفار کو بھی نظر لگتی ہو گی جس کا وہ کوئی علاج کرتے ہوں گے، اس لیے کہ یہ کوئی شرعی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا علاج تجربات اور مشاہدات سے ہوتا ہے ۔
جامعہ فاروقیہ، کراچی
No comments:
Post a Comment