Wednesday 27 November 2019

طلباء کےاخراج پرعلامہ ابن باز ؒ کا دانشمندانہ فیصلہ

طلباء کےاخراج پرعلامہ ابن باز ؒ کا دانشمندانہ فیصلہ 

 ایک بار کی بات ہے کہ اس زمانے میں ایک طالب علم کی شرارت اور یونیورسیٹی کے قوانین کا لحاظ نہ رکھنے کے سبب وہاں کے تمام اساتذہ نے اس کو یونیورسیٹی سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ سب اس کی حرکتوں سے تنگ آچکے تھے لیکن اس فیصلے پر آخری رائے علامہ ابن باز کی لینی باقی تھی، تمام اساتذہ اس مسئلہ کو لے کر ان کے پاس پہنچے اور سب نے مل کر کہا محترم! اس طالب علم کی وجہ سے یونیورسیٹی کا ماحول خراب ہورہا ہے کئی بار ہم لوگوں نے اپنے طور پر چاہا کہ وہ اپنی عادت سے باز آجائے، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلے، لیکن وہ اپنی عادت سے باز آنے کا نام نہیں لیتا ، دن بدن اس کی شرارتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں ، اگر اس کو یونیورسیٹی سے نکال باہر نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں حالات اور بھی پیچیدہ ہو سکتے ہیں، اسی لئے آپ اس کے بارے میں ہم لوگوں کی رائے کو مان لیجئے، اور اس طالب علم کو باہر کا راستہ دکھادیجئے ، تاکہ یونیورسیٹی کے اندر امن وامان کی فضاء قائم ہو، علامہ ابن بازؒ نے اساتذہ کی بات سننے کے بعد فوراً ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اس طالب علم کو بھی علامہ کی خدمت میں حاضر کیا گیا، وہ دل ہی دل یہ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ اس کا آخری دن ہے کیونکہ معاملہ بہت آگے تک بڑھ گیا ہے، لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وقف کے مایہ ناز محقق، بے پناہ شہرت وعزت کے حامل علامہ ابن بازؒ کھڑے ہوئے اساتذہ سے مخاطب ہوکر اللہ کی حمدوثنا بیان کرنے کے بعد کہا، بھائیو! اسلام ایک سیدھا دین ہے ہم خیر امت ہیں، ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی پیدائش کا مقصد ہی دنیا کو غلط راستے سے ہٹاکر سیدھا راستہ دکھانا ہے، ہم اس دنیا میں دین سے دور لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانے کے لئے بھیجئے گئے ہیں، جس طالب علم کے بارے میں آپ لوگ ہمارے پاس شکایت لے کر آئے ہیں وہ نہ تو میرا رشتہ دار ہے اور نہیں اس سے مجھے کوئی ناجائز ہمدردی ہے، بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ قوم کا ایک فرد ہے، جس کا ضائع ہو جانا افسوس کی بات ہوگی ، یہ اپنی ماں باپ کو چھوڑ کر سات سمندر پار علم حاصل کرنے آیا ہے ممکن ہے شیطان کے بہکاوے میں مبتلا ہوکر اس نے ایسی حرکتیں کی ہوں گی، جو یونیورسیٹی کے نظام کے خلاف ہے، یا جس سے آپ لوگوں کی عزت پہ حرف آتا ہو لیکن ذرا مجھے بتائیے کہ ہم تمام لوگ جن کے سینوں میں اسلام کی سربلندی اور اللہ کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ارمان مچل رہے ہیں کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ سارے لوگ مل کر بھی ایک بچے کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں؟؟ کیا ہمارے اندر سے استقامت اور صبر کا جذبہ ختم ہوگیا ہے؟ علامہ ابن باز بولتے بولتے جذباتی ہوگئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، لبوں پہ تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی، علامہ کی یہ کیفیت دیکھ کر وہاں پہ موجود تمام اساتذہ کے آنکھیں بھی بھر آئیں، وہ طالب علم بہت شرمندہ ہوا اور علامہ ؒ کی بات سن کر رونے لگا، چند منٹ تک پوری مجلس میں خاموشی چھائی رہی اس کے بعد سبھی اساتذہ کھڑے ہوئے اور سبھوں نے مل کر بیک زبان کہا کہ محترم! ہم لوگوں نے جذبات میں غلط فیصلہ کرلیا ہے، یہ طالب یونیورسیٹی میں ہی رہے گا ہم تمام لوگ آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ انشاء اللہ اس کو پورے طور پر ایک نیک انسان بنادیں گے جہاں تک ممکن ہوگا اس کی اصلاح کی کوش کریں گے۔
اس و اقعہ کو گذرے ہوئے بیس سال کا طویل عرصہ بیت گیا اس بیچ کتنے طالب علم آئے گئے، یونیورسیٹی کی پچھلی تمام یادیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں، اس طالب علم کو فراغت حاصل کرکے نکلے ہوئے بھی زمانہ گذرگیا بیس سال کی لمبی مدت کے بعد علامہ ابن باز ؒ افریقہ تشریف لے گئے، وہاں کے مختلف تاریخی جگہوں کو دیکھا وعظ ونصیحت کا سلسلہ ہر جگہ جاری رہا اسی بیچ ان کا گذر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں کا چپہ چپہ مسلمانوں کی شان وشوکت کا گواہ تھا، ہر طرف ٹوپی کرتا میں ملبوس لوگ سڑکوں پہ دکھائی دے رہے تھے، بلند وبالا مسجدوں سے آتی ہوئی اذان کی آوازیں اس پورے علاقے کو ایمان کی روشنی سے منور کئے ہوئی تھیں ، گھروں سے قرآن کی تلاوت کی صدائیں صاف سنائی دے رہی تھیں، علامہ ابن بازؒ کے ساتھ جو لوگ ان کی رہنمائی کررہے تھے، انہوں نے بتایا کہ محترم یہ پورا علاقہ کبھی کفر کا گہوارہ تھا، مختلف قسم کی بدعتیں یہاں رائج تھیں، ایک خدائے واحد کی پرستش چھوڑکر لوگ اپنی من مانی زندگی گذاررہے تھے لیکن سالوں قبل کی بات ہے کہ ایک عالم دین یہاں آئے انہوں نے کمر توڑ کوشش کی، لوگوں کو ایک اللہ کی عباد ت کی طرف بلایا ، سکون واطمینان کو ترس رہے یہاں کے باشندوں نے جب اسلام کا پیغام سنا تو ماضی کی تمام خرافات سے توبہ کرکے اسلام قبول کرتے گئے، اور آج الحمدللہ! یہ بستی ہی نہیں پورا علاقہ اسلام کی روشنی سے جگمگا رہا ہے، علامہؒ نے پوچھا کہ کیا وہ عالم دین ابھی حیات سے ہیں؟ پتہ چلا کہ کچھ دور کے فاصلے پر جہاں لوگوں کا ہجوم ہے دو دراز مقامات سے لوگ ڈھیرسارے مسائل لے کر آتے ہیں ، وہ ہر وقت ان کے مسائل کا تشفی بخش جواب دیتے ہیں، وہ وہیں پہ موجود ہوں گے ، علامہؒ نے اسلام کے اس داعی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی چند لوگوں کے ساتھ ان کے پاس پہونچے قریب جاکر اس داعی سے علامہ کی نگاہیں ٹکرائیں تو وہاں پہ موجود تمام لوگوں نے جو منظر دیکھا اس سے سبھی لوگ حیران رہ گئے انہوں نے کیا دیکھا کہ جیسے ہی علامہؒ دعوت وتبلیغ کرنے والے اس عالم دین کے پاس پہونچے تو وہ علامہؒ کو دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے آئے اور گلے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، علامہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے؟ بالآخر اس عالم دین نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ محترم! ممکن ہے آپ کو یاد نہ ہو میں وہی طالب علم ہوں جو آج سے بیس سال پہلے آپ کی مہربانی کی بنا پر مدینہ یونیورسیٹی سے نکلتے نکلتے بچ گیا، اور میرا مستقبل تاریکی سے محفوظ رہا، آپ کی نصیحتوں کا ہی اثر ہے کہ اللہ نے مجھے اس لائق بنادیا کہ آج لوگ امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرف میرے ہاتھوں اسلام قبول کررہے ہیں پورا علاقہ اللہ کی وحدانیت سے گونج رہا ہے یہ سن کر علامہ نے انہیں ڈھیر ساری دعاؤں سے نواز ا اور کہا بیٹا! زندگی کے آخری سانس تک اسی طرح اپنے مشن میں لگے رہنا کیوں کہ ’’ یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سامان ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور جو تم کررہے ہو یہ آخرت کی سب سے اچھی تیاری ہے.‘ 
دوستو! یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ کسی بھی ادارے کے ذمہ دار کو علامہ ابن باز ؒ ہی کی طرح دریا دل ہونی چاہئے آج بہت سارے اداروں میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے سبب بچوں کا داخلہ کاٹ کر ان کی زندگی کو تباہ کردیا جاتا ہے بلا شبہ اس طرح کا فیصلہ بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ادارہ سے باہر کردینا بہرصورت ایک بڑا قدم ہے، دیکھا جاتا ہے کہ ایسے حالات میں ذہنی دباؤ کے شکار ہوکر جذبات میں بعض بچے یا تو پڑھائی چھوڑدیتے ہیں یا ایسی راہوں کا انتخاب کرلیتے ہیں، جو ایک بامقصد زندگی جینے والے انسان کا راستہ نہیں ہوتا اسی لئے اداروں کے ذمہ داران کو ایسے فیصلوں سے بچنا چاہئے انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ بچیں کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں، ایک طالب علم اگر بہتر ہوجاتا ہے، نیک بن جاتا ہے اپنے اندر قابلیت پیدا کرلیتا ہے تو وہ جدھر بھی جائے گا علم کی روشنی جلاتا جائیگا اس سے ایک زمانے کو روشنی ملتی رہے گی اور اس کی کامیابی کا سہرا اسی ادارے کے ہی سر جائیگا جس کے علمی ماحول میں اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، اللہ ہمیں نیک سمجھ دیں۔ آمین

کیا قرآن پاک کی تلاوت قبلہ رخ بیٹھ کر کی جائے؟

کیا قرآن پاک کی تلاوت قبلہ رخ بیٹھ کر کی جائے؟
رہنمائی فرمائیں 
الجواب وباللہ التوفیق:
مستحب  یہ ہے کہ بیٹھ کر، قبلہ رخ ہوکر  تلاوت کی جائے اس سے یکسوئی آتی ہے۔ نیز قبلہ رخ بیٹھنا سب سے افضل مجلس ہے۔ لہذا قبلہ رخ تلاوت مستحب اور زیادتی اجر کا باعث ہے۔
تفسير الألوسي = روح المعاني (5/ 143):
"ومن هنا قال بعض الأصحاب: يستحب لمريد قراءته خارج الصلاة أن يلبس أحسن ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة تعظيماً له".
حاشية مقدمة التفسير لابن قاسم (ص: 151):
"متطهراً مستقبل القبلة، متحرياً أفضل الأوقات، كبعد الفجر؛ لقوله {إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}". 
المدخل لدراسة القرآن الكريم (ص: 477):
"استحباب استقبال القبلة حين قراءته".
معجم علوم القرآن (ص: 9):
"آداب تلاوة القرآن الكريم:
القرآن الكريم كلام الله سبحانه، ومن ثمّ تراعي في تلاوته جملة من الآداب، منها:
1 - الطهارة من الحدثين الأصغر والأكبر، مع جواز تلاوة القرآن والقارئ محدث حدثاً أصغر (أي غير متوضئ) ومما لا شك فيه أن الوضوء لتلاوة القرآن أكمل وأفضل.
2 - استقبال القبلة".
التيسير بشرح الجامع الصغير (1/ 203):
"(أكْرم الْمجَالِس مَا اسْتقْبل بِهِ الْقبْلَة) أَي هُوَ أشرفها فَيَنْبَغِي تحري الْجُلُوس إِلَى جِهَتهَا فِي غير حَالَة قَضَاء الْحَاجة".
الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير (1/ 213):
"(2331) ((أكْرَمُ المَجالِسِ مَا اسْتُقْبِلَ بِهِ القِبْلَةُ)) (طس عد) عَن ابْن عمر".
قال البیهقي في الشعب:"ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻌﺪ اﻟﻤﺎﻟﻴﻨﻲ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺼﻤﺔ، -[433]- ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ اﻟﻔﺮﻏﺎﻧﻲ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻗﺎﻟﻮا: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺣﻜﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻗﻴﺲ اﻟﻤﻼﺋﻲ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: " ﻣﻦ اﺳﺘﻤﻊ ﺣﺮﻓﺎً ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﻃﺎﻫﺮاً ﻛﺘﺒﺖ ﻟﻪ ﻋﺸﺮ ﺣﺴﻨﺎﺕ، ﻭﻣﺤﻴﺖ ﻋﻨﻪ ﻋﺸﺮ ﺳﻴﺌﺎﺕ، ﻭﺭﻓﻌﺖ ﻟﻪ ﻋﺸﺮ ﺩﺭﺟﺎﺕ، ﻭﻣﻦ ﻗﺮﺃ ﺣﺮﻓﺎً ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ ﻗﺎﻋﺪاً ﻛﺘﺒﺖ ﻟﻪ ﺧﻤﺴﻮﻥ ﺣﺴﻨﺔً، ﻭﻣﺤﻴﺖ ﻋﻨﻪ ﺧﻤﺴﻮﻥ ﺳﻴﺌﺔً، ﻭﺭﻓﻌﺖ ﻟﻪ ﺧﻤﺴﻮﻥ ﺩﺭﺟﺔً، ﻭﻣﻦ ﻗﺮﺃ ﺣﺮﻓﺎً ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ ﻗﺎﺋﻤﺎً ﻛﺘﺒﺖ ﻟﻪ ﻣﺎﺋﺔ ﺣﺴﻨﺔ، ﻭﻣﺤﻴﺖ ﻋﻨﻪ ﻣﺎﺋﺔ ﺳﻴﺌﺔ ﻭﺭﻓﻌﺖ ﻟﻪ ﻣﺎﺋﺔ ﺩﺭﺟﺔ، ﻭﻣﻦ ﻗﺮﺃ ﻓﺨﺘﻤﻪ ﻛﺘﺐ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﺪﻩ ﺩﻋﻮﺓً ﻣﺠﺎﺑﺔً ﻣﻌﺠﻠﺔً ﺃﻭ ﻣﺆﺧﺮﺓً ". ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺭﺟﻞ: ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺎﺱ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺭﺟﻞ ﻟﻢ ﻳﺘﻌﻠﻢ ﺇﻻ ﺳﻮﺭﺓً ﺃﻭ ﺳﻮﺭﺗﻴﻦ؟ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻝ ﺭﺟﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: "ﺧﺘﻤﻪ ﻣﻦ ﺣﻴﺚ ﻋﻠﻤﻪ، ﺧﺘﻤﻪ ﻣﻦ ﺣﻴﺚ ﻋﻠﻤﻪ". (شعب الإيمان 3/432رقم الحدیث:1988) ورواه ابن عدي في الكامل (3/284) 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144001200452 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
https://saagartimes.blogspot.com/2019/11/blog-post_62.html

کیا ہمارے نبی نبیوں کے نبی تھے؟

کیا ہمارے نبی نبیوں کے نبی تھے؟
یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہمارے نبی نبیوں کے نبی تھے کیا کہنا صحیح ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق:
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا ؕ قَالَ فَاشْہَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ ﴿۸۱﴾
ترجمہ: از معارف القرآن: اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آؤے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتادے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کروگے فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا بولے ہم نے اقرار کیا فرمایا تو اب گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
تفسیر: تفسیر معارف القرآن: اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا (حضرات) انبیاء (علیہم السلام) سے کہ جو کچھ تم کو کتاب اور علم (شریعت) دوں (اور) پھر تمہارے پاس کوئی (اور) پیغمبر آوے جو مصداق (اور موافق) ہو اس (علامت) کا جو تمہارے پاس (کی کتاب اور شریعت میں) ہے (یعنی دلائل معتبرہ عند الشرع سے اس کی رسالت ثابت ہو) تو تم ضرور اس رسول (کی رسالت) پر (دل سے) اعتقاد بھی لانا اور (ہاتھ پاؤں سے) اس کی مدد بھی کرنا (پھر یہ عہد بیان کرکے ارشاد فرمایا کہ آیا تم نے قرار کیا اور لیا اس (مضمون) پر میرا عہد (اور حکم قبول کیا) وہ بولے کہ ہم نے اقرار کیا، ارشاد فرمایا تو (اپنے اس اقرار پر) گواہ بھی رہنا (کیونکہ گواہی سے پھرنے کو ہر شخص ہر حال میں برا سمجھتا ہے، بخلاف اقرار کرنے والے کے کہ بوجہ صاحب غرض ہونے کے اس کا پھر جانا زیادہ مستبعد نہیں ہوتا، اسی طرح تم صرف اقراری نہیں بلکہ گواہ کی طرح اس پر. 

شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت طعام؟

شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت طعام؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی شکیل صاحب مدظلہ 
کیا لڑکی کے نکاح پر لڑکی کا والد جو دعوت کرتا ہے وہ جائز ہے؟
اس میں شرکت کا حکم؟
ایک صاحب نے اس کو قطعا ناجائز اور ہندوانہ کہا ہے ... صحیح صورت حال سے آگاہ فرمادیں۔
محمد موسی قاسمی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق: 
شرعی حدود میں رہتے ہوئے طیب خاطر کے ساتھ رسم ورواج کے بغیر بلا کسی دبائو کے اگر لڑکی والوں کی طرف سے اعزہ، اقرباء مہمانوں اور باراتیوں کے لئے دعوت کا انتظام ہو تو یہ جائز ہے۔ سنت اور مستحب نہیں۔
جواز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فاطمہ  کے نکاح کے وقت ایک بکرا ذبح کرکے مہاجرین و انصار کو دعوت دی تھی۔
مصنف عبد الرزاق میں یہ روایت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
فنی حیثیت سے اسناد میں ضعف ضرور ہے ۔جس کی وجہ سے سنیت کا ثبوت نہیں ہوسکتا لیکن جواز کے اثبات کے لئے اس قدر ہی کافی یے۔صرف ایک یا دو واقعہ اس قسم کی دعوت کا ملتا ہے۔صحابہ کرام کی زندگی میں اس کا عمومی رواج نہیں ملتا۔۔۔۔اس لئے اس کی ترویج بہتر نہیں ۔تاہم جواز سے انکار قطعی درست نہیں ۔ ایسی دعوتوں شریک ہونا اور کھانا تناول کرنا جائز ہے۔۔۔
ثم دعا بلالا، فقال: یا بلال! إني زوجت ابنتي ابن عمي، وأنا أحب أن یکون من سنۃ أمتي، إطعام الطعام عند النکاح، فأت الغنم، فخذ شاۃ وأربعۃ أمداد، أو خمسۃ، فاجعل لي قصعۃ لعلي أجمع علیہا المہاجرین، والأنصار۔ الحدیث (مصنف عبدالرزاق، النکاح، تزویج فاطمۃ رضي اﷲ عنہا، المجلس العلمي ۵/ ۴۸۷، رقم: ۹۷۸۲، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۴۱۰، رقم: ۱۰۲۲، ۲۴/ ۱۳۲، رقم: ۳۶۲)
وفي حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ خطبہا علی بعد أن خطبہا أبو بکر - إلی قولہ - فقال: أدع لي أبا بکر وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وعدۃ من الأنصار فلما اجتمعوا وأخذوا مجالسہم۔ (شرح الزرقاني مع المواہب اللدنیۃ ۲؍۲-۳ بیروت، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۱۷؍۳۸۹ میرٹھ)
رشیدیہ ص: ۲۹۷، کتاب الفتاوی ۴/ ۴۱۶) 
تحقیق طلب افراد کے لئے  ذیل میں متعلقہ حدیث مکمل درج کی جاتی ہے:
كانت فاطِمةُ تُذْكَرُ لرسولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فلا يَذْكُرُهَا أَحَدٌ إلَّا صَدَّ عنه، حتَّى يَئِسوا منها، فلقِيَ سَعْدُ بنُ معاذٍ عَلِيًّا، فقال: إنِّي واللَّهِ ما أرى رسولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْبِسُهَا إلَّا عليك. فقال له عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَلِمَ ترى ذلك؟ [فواللَّهِ] ما أنا بأحَدِ الرَّجُلَيْنِ: ما أنا بصاحِبِ دُنْيَا يَلْتَمِسُ ما عندي، وقد عَلِمَ ما لي صفراءُ ولا بيضاءُ، وما أنا بالكافرِ الذي يُترَفَّقُ بها عن دينِه! - يعني يَتألَّفُه بها - إنِّي لأوَّلُ مَن أسلَم! فقال سعدٌ: إنِّي أعزِمُ عليك لتُفَرِّجَنَّها عنِّي ; فإنَّ لي في ذلك فَرَجًا. قال: أقولُ ماذا؟ قال: تقولُ: جِئْتُ خاطبًا إلى اللهِ وإلى رسولِه فاطمةَ بنتَ محمَّدٍ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم. [قال: فانطلَق وهو ثَقيلٌ حَصِرٌ، فقال له النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " كأنَّ لك حاجةً يا علِيُّ " فقال: أجَلْ جِئْتُك خاطبًا إلى اللهِ وإلى رسولِ اللهِ فاطمةَ بنتَ محمَّدٍ] فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " مَرْحَبًا ". كَلِمةٌ ضعيفةٌ. ثم رجَع إلى سعدٍ، فقال له: قد فعَلْتُ الذي أمَرْتني به، فلم يزِدْ عليَّ أن رحَّب بي كَلِمةً ضعيفةً. فقال سعدٌ: أَنْكَحَك والذي بعثَه بالحقِّ، إنَّه لا خُلْفَ ولا كَذِبَ عندَه، أعزِمُ عليك لتأتيَنَّه غَدًا، فَلَتَقولَنَّ: يا نبيَّ اللهِ، متى تَبْنيني؟ فقال عليٌّ: هذه أشَدُّ عليَّ مِنَ الأُولى، أوَلا أقولُ يا رسولَ اللهِ حاجتي؟ قال: قُلْ كما أمَرْتُك، فانطلَق عليٌّ، فقال: يا رسولَ اللهِ، متى تَبْنيني؟ قال: " اللَّيلةَ إنْ شاء اللهُ ". ثُمَّ دعا بِلالًا، فقال: " يا بلالُ، إنِّي قد زوَّجْتُ ابنَتي ابنَ عمِّي، وأنا أُحِبُّ أن يكونَ مِن سُنَّةِ أمَّتي الطَّعامُ عندَ النِّكاحِ، فَأْتِ الغَنَمَ، فخُذْ شاةً وأربعةَ أمْدادٍ، واجْعَلْ لي قَصْعةً أجمَعُ عليها المُهاجرين والأنصارَ، فإذا فرَغْتَ فآذِنِّي". فانطلَق ففعَل ما أمَره به، ثم أتاه بقَصْعةٍ فوضَعها بينَ يدَيه، فطعَن رسولُ اللِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رأسِها، وقال: "أدخِلِ النَّاسَ عليَّ زُفَّةً زُفَّةً، ولا تُغادِرَنَّ زُفَّةٌ إلى غيرِها". - يعني إذا فرَغَتْ زُفَّةٌ فلا يعودون ثانيةً -. فجعَل النَّاسُ يرِدُونَ، كلَّما فرَغَتْ زُفَّةٌ وَرَدَتْ أخرى، حتَّى فرَغ النَّاسُ. ثمَّ عمَد النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إلى ما فضَل منها، فتفَل فيه وبارَك، وقال: "يا بِلالُ، احمِلْها إلى أُمَّهاتِك، وقُلْ لهُنَّ: كُلْنَ وأطْعِمْنَ مَن غَشِيَكُنَّ ". ثم قام النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حتَّى دخَل على النِّساءِ، فقال: "إنِّي زوَّجْتُ بِنتي ابنَ عمِّي، وقد علِمْتُنَّ مَنزِلتَها منِّي، وأنا دافِعُها إليه فدونَكُنَّ ". فقُمْنَ النِّساءُ فَغَلَّفْنَها مِن طيبِهِنَّ، وألبَسْنَها مِن ثيابِهنَّ، وحَلَّيْنَها مِنْ حُلِيِّهِنَّ، ثُمَّ إنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم دخَل، فلمَّا رأَيْنَه النِّساءُ ذَهَبْنَ، وبينَ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سِتْرٌ، وتخلَّفَتْ أسماءُ بنتُ عُمَيسٍ رضِيَ اللهُ عنها فقال لها النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " على رِسْلِكِ، مَن أنت؟ ". قالت: أنا التي أحرُسُ ابنتَك، إنَّ الفتاةَ ليلةَ بِنائِها لابُدَّ لها مِنِ امرأةٍ [تكونُ] قريبةً منها، إنْ عرَضَتْ لها حاجةٌ أو أرادَتْ أمْرًا أفْضَتْ بذلك إليها. قال: " فإنِّي أسالُ إلهي أن يحرُسَكِ مِن بينِ يدَيكِ ومِنْ خَلْفِكِ، وعن يمينِكِ وعن شِمالِكِ، مِنَ الشَّيطانِ الرَّجيمِ ". ثُمَّ صرَخ بفاطمةَ فأقبَلَتْ، فلمَّا رأَتْ عَليًّا جالِسًا إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم[حَصِرَتْ] بَكَتْ، فخَشِيَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يكونَ بُكاؤها أنَّ عليًّا لا مالَ له، فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: "ما يُبكيكِ؟ ما أَلَوْتُكِ في نفسي، وقد أصَبْتُ لكِ خيرَ أهلي، والَّذي نفسي بيدِه لقد زوَّجْتُكِ سعيدًا في الدُّنيا، وإنَّه في الآخِرةِ لَمِنَ الصَّالحينَ". فَلانَ منها. فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " يا أسماءُ، ائتيني بالمِخْضَبِ [فامْلَئيه ماءً]". فأتَتْ أسماءُ بالمِخْضَبِ، فمَجَّ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فيه، ومسَح في وجهِه وقَدَمَيه، ثُمَّ دعا فاطمةَ، فأخَذ كَفًّا مِن ماءٍ فضرَب به على رأسِها، وكَفًّا بينَ ثَدْيَيْها، ثُمَّ رشَّ جِلْدَه وجِلْدَها، ثم التَزَمها، فقال: "اللهمَّ إنَّها مِنِّي وإنِّي منها، اللهمَّ كما أذهَبْتَ عنِّي الرِّجْسَ وطَهَّرْتَني فطَهِّرْها ". ثُمَّ دعا بمِخْضَبٍ آخَرَ، ثُمَّ دعا عَليًّا، فصنَع به كما صنَع بها، ثُمَّ دعا له كما دعا لها، ثُمَّ قال لهما: "قُومَا إلى بيتِكما، جمَع اللهُ بينَكما [وبارَك] في سِرِّكُما، وأصلَح بالَكما". ثُمَّ قام وأغْلَق عليهما بابَهما بيدِه. قال ابنُ عبَّاسٍ رضِيَ اللهُ عنهما: فأخْبَرَتْني أسماءُ بنتُ عُمَيسٍ رضِيَ اللهُ عنها أنَّها رَمَقَتْ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لم يزَلْ يدعو لهما خاصَّةً، لا يَشْرَكُهما في دُعائِه أحَدًا حتَّى توارى في حُجْرَتِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم».
الراوي : عبدالله بن عباس | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 9/210 | خلاصة حكم المحدث : فيه يحيى بن يعلى وهو متروك
واللہ اعلم بالصواب 

Wednesday 20 November 2019

پیشہ ور بھکاریوں کو دینا کیسا ہے؟

پیشہ ور بھکاریوں کو دینا کیسا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سہل بن الحنظلیة سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سوال کررہا ہے تو وہ جہنم کا انگارہ جمع کررہا ہے، اب اس کی مرضی چاہے زیادہ جمع کرے یا کم۔ (مشکوٰة)
دوسری طرف اسلام نے صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ رکھا ہے کہ ضرورت مند لوگوں کے حالات کا تفقّد کریں اور ان کی ضروریات کو پوری کرنے کی فکر کریں۔
لہٰذا، راستوں اور بازاروں میں جو لوگ پیشہ ور طور پر مانگتے ہیں، مانگنا انھوں نے پیشہ بنالیا ہے، اگر ان کو نہ دیا جائے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔ او راگر قرائن سے اندازہ ہو کہ ضرورت مند مانگ رہا ہے تو حسب حیثیت اس کی مدد کردے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم ! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے: اَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ سوال کرنے والے کو جھڑکو مت، اور اگر گنجائش نہ ہو تو نرمی سے عذر کردے۔
درست نہیں ہے۔ ایسا چندہ مسجد کے دروازہ پر کیا جائے تو گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------
مزید یہ کہ جو آج کی حالت ہے کہ سوال کرنا یہ ایک پیشہ ہی ہے ۱۰۰ میں سے صرف زیادہ سے زیادہ ۵ لوگ اصلی حقدار ہوتے ہوں گے باقی سب خود لکھپتی ہوتے ہیں جیسے کہ ابھی حال ہی کا کیس آیا تھا جو ٹرین سے ٹکرا کر مرگیا تھا ۱۰ لاکھ کا مالک تھا پر بھیک مانگتا تھا ۲.۵ لاکھ سکوں میں اس کے گھر پر سے ملا تھا ایسے بہت سے واقعات سامنے آچکے ہیں یہاں تک کہ اس کیلئے باقاعدہ ریکٹس اور ٹیم کام کرتی ہیں ایک شہر سے بچوں کا اغوا کرکے دوسرے شہر لیجاکر ان کی ایک آنکھ بیچ دی. ایک گردہ بیچ دیا. جسم کا جو حصہ بیچا جاسکتا ہے وہ بیچا پھر اسے معذور بناکر بھیک منگواتے ہیں. سڑکوں پر اکثر وہی بچے ہوتے ہیں جن پر ہم ترس کھاکر پیسے دے دیتے ہیں 
لہذا ۵ لوگوں کی وجہ سے ۹۵ غلط لوگوں کی غلط کام میں مدد کرنا بالکل درست نہیں. وہ بھی ایسے کام میں جس سے کئی بچوں کی زندگیاں اور ان کے ماں باپ کی زندگیاں تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں 
اور حقیقت میں جو مستحق ہوتا ہے وہ بہت کم ہی ایسے بھیک مانگتے ہیں 
۱۰۰ میں سے ۵ لوگ بھی میری راۓ کے مطابق زیادہ ہی ہیں جتنا میرا علم ہے 
واللہ اعلم

पेशेवर भिखारी को देना गुनाह है
मसअला: (170) 
बाज़ लोगों ने मस्जिदों और होटलों के बाहर , इसी तरह ट्रेफिक सिग्नलों और दीगर गुज़रगाहों पर *भी* मांगने को अपना पैशा बना लिया है।
जब के शरीअत का फरमान ये हे के जिस शख़्स के पास एक दिन की ग़िज़ा मौजूद है। 
या वो सही और तन्दरुस्त हे,कमा कर अपनी गुज़र बसर कर सकता हे, उसके लिये भीख मांगना ओर सवाल करना हलाल नहीं है, 
और जिस शख़्स को मांगने वाले की ये हालत मालूम हो , इसके बावजूद उसे कुछ दे दे तो वो मुस्तहिक़ ए सवाब होने के बजाए गुनाहगार होगा
क्यूं कि उसने हराम काम पर इआनत (मदद) की, और फिक़्ह का क़ाएदा है के:
" *जेसे हराम काम करना गुनाह है, ऐसे ही उस पर इआनत (मदद) भी गुनाह है*।"
(अल मसाइलुल मुहिम्मा जिल्द 6 सफ्हा 243)
(تدوین: ایس اے ساگر)

Saturday 16 November 2019

اگر قرض خواہ کی وفات ہوجائے اور کوئی وارث نہ چھوڑے تو اس کے قرض کا کیا کریں؟

اگر قرض خواہ کی وفات ہوجائے اور کوئی وارث نہ چھوڑے تو اس کے قرض کا کیا کریں؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ حضرت مسٸلہ یہ کے میرے پاس ایک غیرمسلم کا پانچ ہزار روپے ہے اب اس شخص کا انتقال ہو گیاہے اس کا کوٸ بھی رشتہ دار نہیں ہے یہ ہے بھی تو مجھے معلوم نییں ہے. اب اس پیسے کو مدرسہ میں دے سکتے ہیں یا کسی غریب کو  دے سکتے ہیں؟
کیا اس میں مسلم و غیرمسلم کا مسئلہ الگ ہوگا یا ایک ہی ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق :
اگر قرض دینے والا کافر انتقال کرگیا تو اس قرض کی رقم کا مالک اس کے ورثاء واہل خانہ ہونگے 
مالک مال کو اس کا مال “حتی المقدور “ واپس کرنا ضروری ہے 
اگر اس مرنے والے صاحب دین کے وارث کا باوجود تتبع وکوشش کے کچھ سراغ نہ لگے 
تو اب ردالمال ممکن نہ رہا؛ لہذا اس کا وجوب بھی ساقط ہوجائے گا 
صاحب حق خواہ مسلم ہو یا کافر دونوں کا حکم ایک ہی ہے 
کہ جب مالک کا امکانی حد تک تلاش کے باوجود بھی سراغ نہ لگ سکے تو اس مال کو مصالح مسلمین میں صرف کردیا جائے گا۔ انہی مصالح میں سے صدقہ کرنا بھی ہے 
لہذا اس مال کو عام ضرورت مندوں کی ضروریات میں صدقہ کردیا جائے 
اس سے مقروض ان شاء اللہ بری الذمہ ہوجائے گا اور عند اللہ ماخوذ نہ ہوگا 
لیکن اگر بعد میں کبھی اس کے ورثاء کا پتہ چل جائے تو مال اس کے حوالے کرنا ضروری ہے ۔ 
شیخ السلام ابن تیمیہ جمہور ائمہ کا یہی موقف نقل فرماتے ہیں:
"الذي لا نعرف مالكه يسقط عنا وجوب رده إليه، فيصرف في مصالح المسلمين والصدقة من أعظم مصالح المسلمين؛ وهذا أصل عام في كل مال جهل مالكه بحيث يتعذر رده إليه، كالمغصوب والعواري والودائع، تصرف في مصالح المسلمين على مذهب مالك وأحمد وأبي حنيفة وغيرهم". وقال أيضًا: (29/ 321): "المال إذا تعذر معرفة مالكه صرف في مصالح المسلمين عند جماهير العلماء كمالك وأحمد وغيرهما، فإذا كان بيد الإنسان غصوب أو عوار أو ودائع أو رهون قد يئس من معرفة أصحابها، فإنه يتصدق بها عنهم أو يصرفها في مصالح المسلمين، أو يسلمها إلى قاسم عادل يصرفها في مصالح المسلمين المصالح الشرعية.
(شيخ الإسلام ابن تيمية في "مجموع الفتاوى" (29/ 263)
واللہ اعلم 

Friday 15 November 2019

کیا مینڈک کا پیشاب نجس ہے؟

کیا مینڈک  کا پیشاب نجس ہے؟
مینڈک کے پیشاب کے بارے میں کچھ وضاحت طلب ہے. 
کیا مینڈک  کا پیشاب نجس ہے؟
الجواب حامدًا ومصلیاً ومسلماً: 
مینڈک کا پیشاب اور پاخانہ ناپاک ہے اور نجاستِ غلیظہ ہے، اس لئے کہ مینڈک غیرماکول اللحم جانوروں میں سے ہے اور ان جانوروں کا پیشاب اور پاخانہ ناپاک ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
وقوله عز شانه ویحرم علیهم الخبائث والضفدع والسرطان والحیة ونحوها من الخبائث وروی عن رسول الله صلي الله عليه وسلم سئل عن ضفدع یجعل شحمه فی الدواء فنهی علیه الصلوة والسلام عن قتل الضفادع وذلک نهی عن قتله وروی أنه لما سئل عنه فقال علیه الصلاة والسلام خبیثة من الخبائث۔ (بدائع الصنائع ۵ / ۳۵،وکذا فی فتاوی قاضیخان۳ /۳۵۸)
در مختار میں ہے:
وبول غیرمأکول ولومن صغیرلم یطعم … وروث وخثیٰ أفادبهما نجاسة خرء کل حیوان غیرالطیور۔ (درمختار۱/۳۱۸)
وقال ابن عابدین: (قوله أفاد بهما) أراد بالنجاسة المغلظة ۔ (شامی ۱ /۳۲۰،وکذا فی الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص۸۳)

فتاوی حقانیہ میں ہے:
فقہی اصول اور قواعد سے معلوم ہوتا ہے کہ مینڈک کا پیشاب ناپاک ہے اس لئے کہ بول غیرماکول اللحم نجاست غلیظہ ہے۔ (فتاوی حقانیہ ۲/۵۸۴)
امداد الفتاوی میں ہے:
فی الدرالمختارفی النجاسة الغلیظة: وبول غیرمأکول، پس بنابریں قاعدہ بول غوک نجس غلیظ است البتہ درغوکے کہ درآب فی ماند حکم نجاست نکردہ شود للضرورۃ کما فی الدرالمختارمسائل البئر ولا نزح فی بول فارة علی الأصح فی رد المحتارولعلهم رجحوا القول بالعفوللضرورة
(إمداد الفتاوی ۱ / ۷۵)

کیا مینڈک کا پیشاب ناپاک ہے؟

کیا مینڈک کا پیشاب ناپاک ہے؟
مسئلہ یہ معلوم کرنا ہیکہ کبھی کبھی راستہ چلتے وقت مینڈھک پیر کے پاس سے اچھل کر بھاگتا ہے لیکن جب اچھلتا ہے تو پیشاب کردیتا ہے اور اس کی کچھ  چھینٹیں کپڑے پر پڑجاتی ہیں  
اب معلوم یہ کرنا ہیکہ کیا اس کپڑے کو دھوئے بغیر پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں یا دھونا ضروری ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
پانی میں رہنے والے مینڈک میں دم سائل نہیں ہوتا نیز پانی میں رہنے کی وجہ سے ضرورتاً اس کے بول وبراز کو نجس شمار نہیں کیا گیا ہے 
لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ خشکی میں رہنے والے مینڈک میں خون رہتا ہے 
نیز یہاں عدم تحرز جیسی کوئی مجبوری اور ضرورت بھی نہیں ہے) اس لئے اس کا بول وبراز نجس ہے 
اگر راہ چلتے ہوئے بَرّی مینڈک پاوں یا کپڑے پہ پیشاب کردے 
تو اسے لازما دھویا جائے؛ کیونکہ بڑا مینڈک غیرماکول اللحم ہونے کے ناطے اس کا پیشاب نجاست غلیظہ ہوگا۔
فإن کان الضفدع بریاً یفسد الماء إذا کان لہ دم سائل، وہو ما لا سترۃ لہ بین أصابعہ ۔ (ص؍۲۸، حاشیہ نور الایضاح، رقم الحاشیۃ: ۱۳، مکتبہ یاسر ندیم اینڈ کمپنی)
(فتاوی شاکر خان: ۱/۱۰۰؍۱۰۱)
واللہ اعلم 

Thursday 14 November 2019

نرینہ اولاد کے لئے طبی دوائوں کا استعمال؟؟

نرینہ اولاد کے لئے طبی دوائوں کا استعمال؟؟
مفتی صاحب! آج کل عورتیں لڑکا پیدا ہونے کی دوائیاں استعمال کرتی ہیں کہ جس سے لڑکا پیدا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور یہ فقط امکان تک ہی ہے کوئی ضروری نہیں تو ان دوائیوں کا استعمال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
رہنمائی فرمائیں
الحواب وباللہ التوفیق:
دوران حمل لڑکا یا لڑکی کے اختیار کی موجودہ ترقی یافتہ زمانے میں کافی شکلیں رائج ہوگئی ہیں 
دنیا کے ممتاز متخصصین فقہ وطب نے تمام ترقی یافتہ شکلوں پہ غور وخوض کرکے شرعی احکام بھی بتائے ہیں 
عالمی پیمانے پہ عرب علماء نے اس پہ فقہی سیمینار منعقد کئے اور اس حوالے سے امت کو کافی کچھ شرعی رہنمائی فراہم کی ہے 
خدا تعالی نے عالمی نظام میں توازن وہم آہنگی لانے کے لئے مذکر ومؤنث کی تخلیق کی قدرت واختیار صرف اور صرف اپنے پاس رکھی ہے 
بعض افراد کے گھر صرف لڑکے ہی پیدا ہوتے ہیں، ایسوں کو لڑکی تولد کی خواہش رہتی ہے، جبکہ بعض کے یہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتیں تو انہیں اولاد نرینہ کی تلاش و خواہش رہتی ہے 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے "رب هب لي من الصالحين" کے ذریعہ اولاد نرینہ کی دعا فرمائی تھی، اللہ تعالی نے "فبشرناه بغلام حليم"  کی بشارت دی اور انہیں اولاد نرینہ عطا فرمائی 
اس آیت سے پتہ چلا کہ اولاد نرینہ کی طلب و خواہش یا دعاء کرنا باری تعالی  کے قبضہ وقدرت واختیارات میں دخل اندازی نہیں ہے 
جس طرح اولاد نرینہ کی دعاء کرنا جائز ہے؛ اسی طرح اس کی طبعی، غذائی، یا علاجِ امراض کے طور پہ اختیار ِاسباب کی حیثیت سے ایسی دوائوں کا استعمال بھی جائز ہوگا جو تلقیح مادہ منویہ، بے شرمی، کشف عورت، اجانب سے اختلاط سے بالکلیہ پاک اور مقاصد شرع کے منافی نہ ہو 
اولاد نرینہ کی دعاء یا رقیہ شرعیہ جب جائز ہے تو اس کے لئے غذائی یا موافقِ شرع علاج معالجہ کے اسباب اختیار کرنے میں بھی، میں شرعی حرج نہیں سمجھتا 
وسائل و اسباب کی حیثیت سے یہ عمل تصرفات باری تعالی میں دخل اندازی کے زمرے میں بھی نہیں آتا ہے؛ کیونکہ ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹا اور بیٹی کی پیدائش سببِ طبعی تحت ہی ہوتی ہے، جس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں نشاندہی فرمائی ہے:
’تم جانتے ہو؟ مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آجائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے۔‘‘
هل تَعلَمونَ أنَّ ماءَ الرَّجلِ أبيضُ غَلِيظٌ، وأنَّ ماءَ المرأةِ أصفَرُ رَقيقٌ، فأيُّهما عَلَا كان له الوَلَدُ بإذنِ اللهِ، وإذا عَلَا ماءُ الرَّجلِ ماءَ المرأةِ كان الوَلَدُ ذَكَرًا بإذنِ اللهِ، وإذا عَلَا ماءُ المرأةِ ماءَ الرَّجلِ كان الوَلَدُ أُنثى بإذنِ اللهِ
(عن ابن عباس .أخرجه أحمد (2514)، والطيالسي (2854)، والطبراني (12/246) (13012) باختلاف يسير..)
لیکن مشروط گنجائش ظن وامکان واختیار اسباب تک ہی ہے، اولاد دینے یا نہ دینے یا بیٹا و بیٹی دینے کا سارا اختیار تنہا ذات باری کو حاصل ہے 
اس پہ پختہ ایمان رکھنا ضروری ہے:
 {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ * أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ} [الشورى 49-50]
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

Tuesday 12 November 2019

ایک مؤمن، پانچ شدائد

ایک مؤمن، پانچ شدائد 
اللہ تعالیٰ پر جو بھی سچا ایمان لائے گا…اس کو پانچ مخالفین کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا…
پانچ سختیاں، پانچ امتحانات، پانچ دشمن، پانچ مقابلے، پانچ میدان … پانچ شدائد …
❶ پہلی سختی: حسد کا سامنا…
خود کئی مسلمان اس سے حسد کریں گے اور اسی حسد میں مبتلا ہوکر اسے ایذاء پہنچائیں گے…
❷ دوسری سختی: بغض اور نفرت کا سامنا…
جتنے بھی منافقین ہیں وہ سب اس سے بغض رکھیں گے، اس سے نفرت کریں گے … اور اپنے اسی بغض اور نفرت کی وجہ سے اسے ستائیں گے ، تکلیف پہنچائیں گے…
❸ تیسری سختی: قتال اور جنگ کا سامنا…
جتنے بھی اسلام اور ایمان کے دشمن کفار ہیں وہ اس سے لڑیں گے، اس کو مارنے، قتل کرنے اور پکڑنے کی ہر کوشش کریں گے اور ہر وقت اس کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہیں گے…
❹ چوتھی سختی: گمراہی اور فتنوں کا سامنا…
شیطان ہمیشہ اس کے پیچھے پڑا رہے گا… وہ اسے گمراہ کرنے کی ہر کوشش کرے گا…وہ اسی پر اپنے لشکر دوڑائے گا… وہ اسے مال، عہدے، عورت، شہوت اور عزت کے ہتھیاروں سے ’’بے ایمان‘‘ بنانے کی جدوجہد کرے گا… وہ اسے مایوسی، بد دلی، ناشکری اور خیانت کے وساوس میں ڈالے گا…
❺ پانچویں سختی: مزاحمت اور جھگڑے کا سامنا …
خود اس مومن کا نفس اس سے جھگڑے کرے گا…تم کیوں اتنی عبادت کرتے ہو…تم کیوں اتنے دشمن بناتے ہو… تم کیوں حلال حرام میں اتنی باریکی کرتے ہو…تم کیوں کم کھاتے ہو… تم کیوں غربت میں پڑے ہو…تم کیوں مجھے اتنا تھکاتے ہو…تم کیوں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اتنی مشقت میں ڈالتے ہو…آزاد ہو جاؤ ، مزے کرو، عیش کرو، حلال حرام سب کھاؤ… زندگی کا لطف اٹھاؤ…آخرت کی فکر میں نہ پڑو…دنیا بناؤ…
اب کیا کرنا ہے؟
اگر سچے دل سے کلمہ طیبہ پڑھا ہے:
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اور اس کلمہ کو دل میں اُتارا ہے… اور کلمے کے سب احکامات کو مانا ہے … تو آپ ’’مومن‘‘ ہیں…مگر آپ جیسے ہی سچے پکے مومن ’’بنے‘‘ تو پانچ سختیوں نے ایک دَم حملہ کر دیا…حاسدین پیچھے پڑ گئے…منافقین نے زہریلے پھن اٹھا لئے … کافر قتل کرنے اور پکڑنے کو دوڑے…شیطان نے مورچہ قائم کر لیا…اور نفس دن رات تنگ کرنے لگا…
تو اب کیا کرنا ہے؟ …ایمان ایسی چیز نہیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے … ایمان چھوڑ دیا تو ہمیشہ کا عذاب ہے، ہمیشہ کی ناکامی اور ہمیشہ کی ذلت …مگر ایک وقت میں پانچ مخالفین کا مقابلہ کرنا بھی آسان نہیں… تو پھر کیا کریں؟… حاسد تو اپنے مسلمان ہیں … مگر ذرا بھی رحم نہیں کھاتے…اتنا ستاتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے… منافق اس زمانے میں بہت طاقتور ہو چلے، وہ حکومتوں کے مالک ہیں… وہ ہمیں نفرت، ذلت اور دشمنی کا نشانہ بناتے ہیں… وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ ان کو اپنا نفاق چھپانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی… دھڑلے سے شرابیں پیتے ہیں…سؤر کا گوشت کھاتے ہیں… دن رات طوائفوں میں رہتے ہیں … کافروں سے یاریاں باندھتے ہیں… مسلمانوں کو پکڑ کر کافروں کے حوالے کرتے ہیں … کافروں، مشرکوں کی پگڑیاں سر پر سجاتے ہیں…کفر کے لئے لڑتے ہیں…مسجد سے نفرت کرتے ہیں، مدرسہ سے گھن کھاتے ہیں… مگر خود کو مسلمان کہلواتے ہیں … وہ ہمارا وجود تک برداشت نہیں کرتے…
اور کافر …اللہ معاف فرمائے وہ تو آج پوری دنیا کے حکمران بن بیٹھے…....... انہوں نے ایٹم بم بنا لئے، انہوں نے فضاؤں اور سمندروں پر قبضہ کر لیا…انہوں نے ہوش رُبا عسکری قوت بنا لی… وہ ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں…
اور شیطان …وہ تو آج کل کافی فارغ ہے… اور اس کی پوری توجہ ’’اہل ایمان‘‘ کی طرف ہے کہ ان سرپھروں کو کیسے گمراہ کروں… دن رات نئے فتنے اور دن رات نئے وساوس… وہ ظالم قہقہے لگاتا ہے کہ…دنیا کہاں تک پہنچ گئی… بل گیٹس کہاں تک پہنچ گیا… مارک زکر برگ ( نعوذ باللہ) کامیاب ہو گیا… تم کہاں کھڑے ہو…آؤ عالمی برادری کا حصہ بنو…یعنی تم بھی میرے یار بنو…جنت جہنم بعد کی باتیں ہیں…دنیا کو بہتر بناؤ… غربت سے جان چھڑاؤ … اپنے بچوں کو غریبی کے طعنے سے بچاؤ… ترقی کرو…گناہ کرو…
اور نفس…وہ دن رات طعنے دیتا ہے کہ… تم بڑے آئے مسلمان… چھوڑو ان سختیوں اور پابندیوں کو…مجھے بھی آرام دو اور خود بھی آرام سے رہو…
ایک مومن…اور پانچ دشمن …ایک مومن اور پانچ میدان… ایک مومن اور پانچ سختیاں … اب کرنا کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ پانچ دشمن… جس وجہ سے ہمارے دشمن بنے ہیں… وہ ہے ’’ایمان ‘‘ … معلوم ہوا کہ ان کی دشمنی ہم سے نہیں، ’’ایمان ‘‘ سے ہے… اور ایمان سے ان کی دشمنی اس لئے ہے کہ…ایمان کے سامنے یہ ٹھہر نہیں سکتے… ایمان ان کی موت ہے…ایمان ان کی شکست ہے…ایمان ان کی ذلت ہے… ایمان ان کی اصلاح ہے …اس لئے ہم ایمان پر ڈٹے رہیں…ایمان پر مضبوط رہیں … ایمان میں ترقی کریں …ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہیں… تب یہ سارے ناکام ہو جائیں گے… ان کی ہر کوشش اور ان کی ہر طاقت ناکام ہو جائے گی… یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے… یہ قرآن مجید کا اعلان ہے…یہ اٹل حقیقت ہے… ایمان کے سامنے حاسد نہیں ٹھہر سکتے… وہ نادم ہو جاتے ہیں ناکام ہو جاتے ہیں… حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی… حسد کی آگ برساتے رہے مگر آخر میں کیا ہوا؟… ایمان کے سامنے منافق نہیں ٹھہر سکتے… خواہ وہ کتنے طاقتور ہو جائیں…عبد اللہ بن اُبی مدینہ کا بے تاج بادشاہ تھا…اس کے ساتھ طاقتور قبائلی منافقین سردار تھے… حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام باہر سے آئے ہوئے مہاجر تھے… اور آپ کے حامی غریب کسان تھے… سورۃ المنافقون پڑھ لیں… وہ بتا رہی ہے کہ’ ’نفاق‘‘ جتنا بھی طاقتور ہو جائے …وہ ایمان کے سامنے ذلیل اور شکست خوردہ ہے… کفار بھی … ایمان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے…قرآن زمانہ نوح علیہ السلام سے بات شروع کرتا ہے… اور فتح مکہ تک کی داستان سناتا ہے… طاقت میں کوئی توازن ہی نہیں تھا… کفار ہمیشہ طاقتور تھے…مگر ایمان نے انہیں شکست دی… ایک بار نہیں بار بار دی… اور ہمیشہ دی…اور ہمیشہ دیتا رہے گا… شیطان بھی ’’ایمان‘‘ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا … اس نے جب اللہ تعالیٰ سے کہا کہ…میں تیرے بندوں کو ایسا گمراہ کروں گا کہ وہ ہر طرف سے گِھر کر میرے ہو جائیں گے تو ’’رب العالمین‘‘ نے فرمایا…نہیں…
’’جو میرے مخلص ہیں ان پر تیرا زور نہیں چلے گا‘‘
ایسے لوگوں کو شیطان ایک قدم پیچھے دھکیلتا ہے تو وہ… دوڑ کر چار قدم اور آگے نکل جاتے ہیں… شیطان ان سے ایک گناہ کرواتا ہے تو وہ سو بار استغفار کر کے… گناہ بھی معاف کروا لیتے ہیں…اور اپنے گناہوں کو بھی نیکیاں بنوا لیتے ہیں…شیطان ان کو خواہشات میں دھکیلتا ہے تو وہ… اپنے آنسوؤں کے ذریعہ ایمان کی ترقی تک پہنچ جاتے ہیں…اور نفس بھی ایمان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا… ایمان اس سرکش نفس کو ایسا لوّامہ اور مطمئنہ نفس بنا دیتا ہے کہ…پھر فرشتے بھی اس نفس پر رشک کرتے ہیں…
مثال سے سمجھیں
ایک شہر یا گاؤں میں پانچ چور رہتے ہیں… دھوکے باز لٹیرے… آپ اس گاؤں میں داخل ہوئے تو وہ آپ کو لوٹنے آ گئے… مگر آپ کے ہاتھ میں تیز تلوار یا میگزین بھری کلاشنکوف ہے… ان چوروں کے پاس نہ تلوار ہے نہ کلاشن … وہ آپ کے دشمن بن گئے… اب وہ ہر حیلہ بہانہ بنا رہے ہیں کہ…کسی طرح آپ یہ تلوار یا کلاشن رکھ دیں …اگر آپ نے ان کے ستانے سے تنگ آکر یہ کلاشن رکھ دی تو پھر… نہ جان بچے گی نہ مال … نہ آبرو سلامت رہے گی اور نہ عزت… لیکن اگر آپ نے کلاشن تھامے رکھی اور حسب ضرورت اس کا استعمال کیا تو… آپ اس بستی سے سلامتی اور آبرو کے ساتھ گذر جائیں گے… ہم دنیا کی بستی میں آئے ہیں… اور ہمیں آگے آخرت کی منزل پر جانا ہے… دنیا چوروں اور لٹیروں سے بھری پڑی ہے … کوئی ہمیں کافر بنانا چاہتا ہے تو کوئی منافق …کوئی ہمیں فاسق بنانا چاہتا ہے تو کوئی نفس پرست … ایسے میں سلامتی کا راستہ صرف ایک ہے…اور وہ ہے ’’ایمان‘‘ … مگر ’’ایمان‘‘ پر آتے ہی… سب دشمن ہو جائیں گے… حسد، نفرت، حملے، وسوسے اور تکلیف کا سامنا ہوگا… ان سب چیزوں کا سامنا…ہمیشہ رہے گا…مرتے دم تک یہ ’’مقابلہ‘‘ جاری رہے گا… یہ ایک دو دن کی جنگ نہیں…موت کے وقت بھی شیطان کی آخری کوشش یہ ہوگی کہ ایمان پر نہ مرنے دے …نفس کی آخری کوشش ہوگی کہ… آل و اولاد کے مفادات سمجھا کر اس وقت بھی کوئی گناہ کر الے… کفار کی کوشش ہوگی کہ …ہماری موت، ذلت ناک، عبرتناک ہو جائے… ہاں یہ جنگ ’’کلمہ طیبہ ‘‘دل سے پڑھتے ہی شروع ہوتی ہے… اور مرتے دم تک جاری رہتی ہے…اگر ہم ’’ایمان‘‘ چھوڑ دیں گے تو ہم بری شکست کھا جائیں گے … موت تب بھی آئے گی… بیماری تب بھی آئے گی … پریشانی تب بھی آئے گی… یہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ…ایمان چھوڑ دو تو مزے ہی مزے ہیں… حقیقت یہ ہے کہ …کوئی مزے نہیں… بس دوسروں کو مزے نظر آتے ہیں… اندر آگ ہی آگ ہے… ہالی ووڈ کے فنکار کیوں خود کشی کر کے مرتے ہیں؟ … بالی ووڈ کے ایکٹر کیوں دن رات زہر کھانے کا سوچتے ہیں؟ …اس لئے ان دشمنوں سے گھبرا کر ’’ ایمان‘‘ کو نہیں چھوڑنا…ایمان ہی میں ہماری کامیابی ہے… اور ایمان ہی میں ان سب دشمنوں کی شکست ہے… دیکھو سچے رب نے واضح اعلان فرما دیا…
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِیْن
مناظر دیکھیں
آج غزوہ بدر کا دن ہے… ابو جہل کا طاقتور لشکر ’’ایمان ‘‘ پر حملہ آور ہے… ایمان والے نہتے ہیں… مگر فتح ایمان کی ہوئی…
آج غزوہ احد ہے… ایمان خون میں لت پت ہے… زخمی ہے… لاشوں اور ٹکڑوں میں نظر آ رہا ہے… کفر ’’ایمان ‘‘ کے خاتمہ کا جشن منا رہا ہے…مگر یہ کیا… ایمان اٹھا اور تھوڑی دیر میں ’’حمراء الاسد‘‘ کا فاتح بن گیا… وہ جو مار کر جا رہے تھے ان کے بارے میں آواز آئی کہ یہ سب مر چکے… اور وہ جو مرے پڑے تھے ان کے بارے میں اعلان ہوا کہ وہ زندہ ہیں …خبردار جو ان کو مردہ کہا …اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ واقعی وہ زندہ تھے…اور مکہ سے لے کر قیصر و کسریٰ تک کو فتح کر رہے تھے…
آج غزوہ خندق ہے…ایمان آج مکمل محاصرے میں ہے… اندر سے بھی اور باہر سے بھی …اتحادی لشکروں کا طوفان اسے ہر طرف سے گھیر چکا ہے… اور داخلی دشمنوں کا سیلاب اسے بہانے کے لئے کروٹیں بدل رہا ہے… آج شاید ایمان کا دنیا میں آخری دن ہو گا…مگر یہ کیا؟ یہ کون بھاگ رہے ہیں؟ محاصرہ کرنے والے… یہ کون مر رہے ہیں… داخلی سیلاب اٹھانے والے … اور ’’ایمان‘‘ ایک شان سے مسکرا کر کہہ رہا ہے… آج کے دن سے دستور بدل گیا… اب مجھ پر یہ کبھی حملہ نہیں کر سکیں گے… اب حملہ میں ہی کروں گا…اور میرے حملے کو کوئی روک نہیں سکے گا…
یہ تین مناظر… بہت سے فتنوں کا علاج ہیں… بدر کے دن ایمان پر جمے رہنا آسان نہیں تھا… بہت مشکل تھا بہت مشکل… مگر ایمان والے ایمان پر ڈٹے رہے تو ایمان نے اپنی طاقت دکھا دی… ہم پر اپنی زندگی میں ایسے حالات بھی آ سکتے ہیں …
اُحد کے دن ایمان پر ڈٹے رہنا… حد درجہ مشکل تھا، بے حد مشکل… مگر ایمان والے ایمان پر ڈٹے رہے … تو ایمان نے اپنی قوت دکھا دی … اور غزوہ احزاب تو … دل و دماغ کو ہلا دینے والا اور اندر تک بنیادوں کو لرزا دینے والا امتحان تھا … مگر ایمان والے ایمان پر مضبوط رہے تو ایمان نے اپنی شان دکھا دی… ہم پر احد والے حالات بھی آ سکتے ہیں اور احزاب والے بھی …
بس بھائیو! امریکہ ، برطانیہ کے چنگھاڑنے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں.... … یہودیوں کے عسکری اور معاشی طوفان کو دیکھ کر دل ہارنے کی گنجائش نہیں…اور اپنے حکمرانوں کی شرک پرستی اور سختی دیکھ کر گھبرانے کی اجازت نہیں… ’’ایمان‘‘ ان سب سے بھاری ہے تول کر دیکھ لو …
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
یہ کلمہ ایک آن میں…فرش سے عرش تک کا سفر کرتا ہے… کالے کافر آئے مر گئے… گورے کافر آئے مٹ گئے… کلمہ کل بھی تھا، آج بھی ہے… اور ہمیشہ رہے گا… ایمان کی مضبوطی… ایمان کے فرائض میں ہے… سب سے پہلے عقیدہ درست ہو…اور پھر اسلام کے فرائض سے محبت… اور مضبوط تعلق…
نماز، روزہ، حج ،زکوٰۃ… وغیرہ
بھائیو! غربت کو عیب یا گالی نہ سمجھو… اپنی عمر کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی بڑھاؤ…
اور زمانے کے ساتھ چلنے کی بجائے … زمانے کو اپنے ساتھ چلاؤ…
بس دنیا میں مختصر سا قیام ہے… اور پھر اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اللہ تعالیٰ کی مہمانی… ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
https://saagartimes.blogspot.com/2019/11/blog-post_72.html

کیا تیز اندھی طوفان کے وقت اذان دی جائے؟

کیا تیز اندھی طوفان کے وقت اذان دی جائے؟
مشہور ہے کہ تیز اندھی طوفان کے وقت اذان دی جائے؟ کیا یہ حدیث سے ثا بت ہے نیز اگر صحیح ہے تو حی علی الصلوہ اور حی علی الفلاح کی جگہ کوی۶ دوسرا الفاظ ہے اگر دوسرا الفاظ ہے تو وہ کون الفاظ ہیں؟
الحواب وباللہ التوفیق:
ایسے مواقع پہ اذان دینا ثابت نہیں ہے 
ذکر واذکار، دعائیں اور نمازوں میں مشغول ہوجانا البتہ ثابت ہے: 
وعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عنْهَا قَالَتْ: كَانَ رسولُ الله ﷺ إِذا عَصفَتِ الرِّيحُ قالَ: اللَّهُمَّ إِني أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِا، وَشَرِّ مَا فِيها، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَت بِهِ ۔رواه
 مسلم.
وعنھا قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا عصفت الريح قال: اللهم إني أسألك خيرها وخير ما فيها وخير ما أرسلت به، وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها وشر ما أرسلت به، قالت وإذا تخيلت السماء تغير لونه وخرج ودخل وأقبل وأدبر فإذا أمطرت سري عنه فعرفت ذلك في وجهه، قالت عائشة فسألته فقال لعله يا عائشة كما قال قوم عاد فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا، رواہ مسلم 
بارش کے وقت حضور یہ دعا فرماتے تھے:
أنّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم كان إذا رأى ناشئا في أفق السماء ترك العمل وإن كان في صلاة ثم يقول اللهم إني أعوذ بك من شرها. فإن مطر قال: اللهم صيبًا هنيئا
عن عائشة أم المؤمنين.
 سنن أبي داود.
رقم: 5099.
آندھی یا بارش کے لئے الگ سے اذان دینا ثابت نہیں 
ہاں سخت بارش کے وقت حضور کی طرف سے مسجد کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی رخصت مل جاتی تھی "ألا صلوا في رحالكم"
کی آواز لگائی جاتی تھی 
احناف وموالک کے یہاں اذان کے بعد یہ کہا جائے گا 
جبکہ شافعیہ اور ایک روایت میں حنابلہ کے ہاں حیعلہ کی جگہ پہ اسے کہا جائے گا 

ولدالزنا کے ساتھ زانی باپ کے نام کا لاحقہ؟

ولدالزنا کے ساتھ زانی باپ کے نام کا لاحقہ؟
ولدالزنا کی محلہ، گاؤں، ضلعی، صوبائی عالمی پیمانے پر ہونے والی رسوائی کے تناظر میں اگر اس بچہ کے ساتھ ماں کی بجائے زانی باپ کے نام کا لاحقہ سرکاری دستاویزات مثلا آدھار کارڈ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ سرکاری منصوبوں نیز مدرسہ اسکول کے اندراج نام کے رجسٹر میں سرکاری یوجناؤں میں نام کا لاحقہ لگائے تو کیا یہ درست ہے...؟؟؟
الجواب وباللہ التوفیق: 
بچہ ضائع کرنا جائز نہیں 
زانی مزنیہ دونوں کا آپس میں نکاح کرنا درست ہے 
اس صورت میں بچے کی کوئی غلطی نہیں 
سارا قصور والدین کا ہے 
“کرے کوئی اور بھرے کوئی.“
یہ اسلامی اصول نہیں۔
بچہ کی مکمل  شفقت ومحبت سے دیکھ بھال و پرورش کی جائے 
اگر زانی نے خود مزنیہ حاملہ سے نکاح کرلیا ہو 
اور بچہ نکاح کرنے سے چھ ماہ سے پہلے پہلے پیدا ہوگیا ہو 
تو اس بچہ کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوگا 
بلکہ ماں سے اس کا نسب چلے گا، بچہ صرف اپنی ماں کی جائیداد کا وارث بنے گا 
باپ کی جائیداد کا نہیں 
لیکن بچہ چھ ماہ سے پہلے پیدا ہوجائے اور زانی زناء کا ذکر کئے بغیر مطلق اس بچے کا باپ ہونے کا دعوی واقرار کرے 
اور سرکاری دستاویزات میں باپ کی جگہ اپنا نام درج کروادے تو احتیاطا بچہ کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا:
کتاب المسائل ج ۵ ص ۴۲۶، یونیکوڈ۔ (مسائل بہشتی زیور ۵۵۱ ، کتاب النوازل ۸ ؍ ۱۷۰)
فلو لأقل من ستۃ أشہرٍ من وقت النکاح لا یثبت النسب، ولا یرث منہ إلا أن یقول: ہٰذا الولد مني، ولا یقول من الزنا۔ خانیۃ۔ وظاہر أن ہٰذا من حیث القضاء، أما من حیث الدیانۃ فلا یجوز أن یدعیہ؛ لأن الشرع قطع نسبَہ منہ، فلا یحل لہ استلحاقہ بہٖ، ولذا لو صرح لأنہ من الزنا لا یثبت قضائً أیضًا، وإنما یثبت
لو لم یُصرّح لاحتمال کونہ بعقد سابقٍ أو بشبہۃٍ حملاً لحال المسلم علی الصلاح۔ (شامي، کتاب النکاح / فصل في المحرمات، قبیل مطلب: فیما لو زوج المولیٰ أمتہ ۴ ؍ ۱۴۲ زکریا)
واللہ اعلم 

بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں


بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں

﴿۱﴾ مسجد کی تعمیر اوراس کی تاریخی حیثیت:
تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ ”بابر“ کے دور میں اودھ کے حاکم ”میرباقی اصفہانی“ نے ۹۳۵ھ /۱۵۲۸ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔
مسجد کے درمیانی مرکزی در کے اوپر دو میٹر لمبی اور پچپن سینٹی میٹر چوڑی پتھر کی تختی کا ایک کتبہ نصب تھا، جس کی پہلی اوپر سطر میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی“ خوشنما بیلوں کے درمیان لکھا ہوا تھا، اور نیچے کی تین سطروں میں یہ اشعار تھے۔
بنام آنکہ او دانائے اکبر
کہ خالق جملہ عالم لامکانی
درود مصطفی بعد از ستائش
کہ سرور انبیاء زبدہ جہانی
فسانہ درجہاں بابر قلندر
کہ شد در دور گیتی کامرانی
چنانکہ ہفت کشور در گرفتہ
زمیں را چوں مثالے آسمانی
درآں حضرت یکے میرِ معظم
کہ نامش میر باقی اصفہانی
مشیرِ سلطنت تدبیر ملکش
کہ ایں مسجد حصار ہست بانی
خدایا درجہاں تابندہ ماند
کہ چتر و تخت و بخت و زندگانی
دریں عہد و دریں تاریخ میموں
کہ نہ صد پنج و سی بودہ نشانی
تمت ہذا التوحید ونعت ومدح وصفت نور اللہ برہانہ بخط عبدالضعیف نحیف فتح اللہ محمدغوری۔
اس بڑے کتبہ کے علاوہ اندرونِ مسجد منبر کی دونوں جانب ایک ایک کتبہ نصب تھا، ۲۷/مارچ ۱۹۳۴ء کے ہنگامہ کے موقع پر جوگاؤکشی کے عنوان کا بہانہ بناکر برپا کیاگیا تھا، مسجد میں گھس کر بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی، جس میں یہ دونوں کتبے بھی اٹھالے گئے تھے، بعد میں ”تہور خاں ٹھیکیدار“ نے منبر کی بائیں سمت والے کتبہ کی نقل تیار کراکے اسی پہلی جگہ پر اسے نصب کرادیا، داہنی جانب کے کتبہ کی ایک نقل سید بدرالحسن فیض آبادی کے پاس محفوظ تھی، اس لئے اس کتبہ کی عبارت بھی دستیاب ہوگئی۔
بائیں سمت کا کتبہ حسب ذیل اشعار پر مشتمل تھا۔
بفرمودئہ شاہ بابر کہ عدلش
بنائیست با کاخ گردوں ملاقی
بناکرد ایں مہبط قدسیاں را
امیر سعادت نشاں میر باقی
بود خیر باقی و سال
عیاں شد چوں گفتم بود خیر باقی
داہنی جانب والے کتبہ کے اشعار یہ تھے۔
بمنشائے بابر خدیو جہاں
بنائے کہ با کاخ گردو عناں
بنا کرد ایں خانہٴ پائیدار
امیر سعادت نشاں میر خاں
بماند ہمیشہ چنیں بانیش
چناں شہر یارِ زمیں و زماں
ابتدائے تعمیر سے بابری مسجد میں نماز پنج گانہ اور جمعہ ہوتا رہا ہے، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب یعنی ۱۸۵۸ء سے ۱۸۷۰ء تک اس مسجد کے امام وخطیب ”محمد اصغر“ تھے، ۱۸۷۰ء تا ۱۹۰۰ء کی درمیانی مدت میں مولوی ”عبدالرشید“ نے امامت کے فرائض انجام دئیے، ۱۹۰۱ء سے ۱۹۳۰ء کے عرصہ میں یہ خدمت مولوی عبدالقادر کے سپرد رہی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۹ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔
بابری مسجد کے مصارف کے واسطے عہد مغلیہ میں مبلغ ساٹھ روپے سالانہ شاہی خزانے سے ملتے تھے، نوابان اودھ کے دور میں یہ رقم بڑھاکر تین سو دو روپے تین آنہ چھ پائی کردی گئی تھی، برطانوی اقتدار میں بھی یہ رقم بحال رہی، پھر بندوبست اول کے وقت نقد کی بجائے دو گاؤں بھورن پور اور شولاپور متصل اجودھیا اس کے مصارف کے لئے دئیے گئے، غرض کہ اپنی ابتداء تعمیر ۹۳۵ھ/ ۱۵۲۸ء سے ۱۳۶۹ھ / ۱۹۴۹ء تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔
﴿۲﴾ مسجد، مندر قضیہ کا آغاز:
مستند تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں پہلے مسلمان اجودھیا میں آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے سہتے تھے، ۱۸۵۵ء/ ۱۲۷۲ھ سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان کوئی تنازعہ رونما ہوا یا باہمی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہو صحیح تاریخوں اور مذہبی نوشتوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، لیکن جب اس ملک پر انگریزوں کا منحوس سایہ پڑا اور ان کا یہاں عمل دخل شروع ہوا تو انھوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی ”لڑاؤ اورحکومت کرو“ کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا جس کے نتیجہ میں ۱۸۵۵ء/ ۱۲۷۲ھ میں اجودھیا کے اندر زبردست خونریزی ہوئی، جس کی تفصیل احقر کی تالیف ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ میں ملاحظہ کی جائے، اسی وقت سے اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی، اور نوبت بایں جا رسید۔
شاطر انگریزوں نے سب سے پہلے ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ کا افسانہ ترتیب دیا اور ایک بدھسٹ نجومی کو پہلے سے سکھا پڑھاکر ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی، اس نے طے شدہ سازش کے مطابق زائچہ کھینچ کر بتادیا کہ ”جنم استھان“ اور ”سیتا کی رسوئی“ بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر ہے، پھر اپنے زیراثر ہندوؤں کو اکسایا کہ ان دونوں ”پوتر استھانوں“ کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، ”نقی علی خاں“ جو نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا، انگریزوں کی اس سازش میں ان کا موٴید اور طرف دار تھا، اس نے اپنے اثر ورسوخ کے ذریعہ ناعاقبت اندیش نواب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ بابری مسجد سے باہر مگر اس کے احاطہ کے اندر جنم استھان وسیتا رسوئی کے لئے جگہ دیدی جائے، چنانچہ مسجد کے مسقف حصہ کے بالمقابل احاطہ مسجد کی دیوار سے متصل داہنی سمت ”سیتا رسوئی“ کے لئے اور صحن مسجد سے باہر بائیں پورب کی جانب جنم استھان کے نام سے ۲۱/ فٹ لمبی اور ۱۷/ فٹ چوڑی جگہ دیدی گئی، جس پر اسی وقت سے پوجاپاٹ کا سلسلہ بھی شروع کردیاگیا، حالانکہ جس وقت یہ افسانہ ایجاد کیاگیا اس سے برسہا برس پہلے سے قلب شہر میں جنم استھان کا مندر موجود تھا اور آج بھی موجود ہے، اس وقت مسجد اور جنم استھان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی غرض سے صحن مسجد کے ارد گرد آہنی سلاخوں کی باڑھ کھڑی کردی گئی، اسی منحوس تاریخ سے اجودھیا میں مذہبی کش مکش شروع ہوگئی اور یہاں کے ہندومسلم، مندر مسجد کے نام پر آپس میں دست بگریباں ہوگئے۔
خدا سمجھے بت سحر آفریں سے
گریباں کو لڑایا آستیں سے
۱۸۵۷ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجایا، ضلع فیض آباد کے گزیٹر سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے اجودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازع کو ہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں، چنانچہ اس معاہدہ پر فریقین خوشی خوشی راضی ہوگئے اور دو سال سے اختلاف کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ ٹھنڈی ہوگئی، مگر انگریزوں کو یہ ہندومسلم اتحاد گوارہ نہ ہوا، انھوں نے بابارام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دیدی اور مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی، دونوں کے راستے بھی الگ الگ بنادئیے اور مسجد کے شمالی دروازہ سے مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی، اور جذباتی ہندؤں کو اکسایا کہ وہ اس تقسیم کو مسترد کرکے پوری مسجد پر دعویٰ کریں، اسی کے ساتھ مسلمانوں کو بھی برانگیختہ کیا کہ وہ مسجد کی اراضی کے اس بٹوارہ کو تسلیم نہ کریں چنانچہ یہ کشاکش پھر شروع ہوگئی جس کا ایک طویل سلسلہ ہے، تفصیل کے لئے ”اجودھیا کے اسلامی آثار“ کا مطالعہ کیجئے۔
﴿۳﴾ مسجد کو مندر بنانے کی شرمناک سازش:
۴۹/۱۹۴۸ء میں جب کہ ملک فرقہ وارانہ تشدّد کی آگ میں جل رہا تھا،اور پورے ہندوستان میں افراتفری مچی ہوئی تھی ۲۲،۲۳/دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت ”ابھے رام داس“ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی جس کے خلاف اس وقت ڈیوٹی پر مقرر کانسٹبل ”ماتوپرشاد“ نے صبح کو تھانہ میں حسب ذیل رپورٹ درج کروائی۔
”ابھے رام داس، سدرشن داس اور پچاس ساٹھ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت (نصب) کرکے مسجد کو ناپاک کردیا ہے۔ جس سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔“
اس رپورٹ کو بنیاد بناکر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے دفعہ ۱۴۵ کے تحت مسجد اور اس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا اور پریہ دت رام چیرمین کو اس کی حفاظت کے لئے رسیور مقرر کردیا، نیز فریقین کے نام نوٹس جاری کیا کہ اپنے اپنے دعویٰ پر ثبوت پیش کریں، سٹی مجسٹریٹ کا یہ غیرمنصفانہ عمل زبان حال سے بتارہا ہے کہ مسجد میں بت رکھنے کی کارروائی گہری سازش کے تحت عمل میں لائی گئی تھی، ورنہ ایک قدیم جمعہ وجماعت سے آباد مسجد کے بارے میں ثبوت طلب کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سیدھی بات یہ تھی کہ ماتوپرشاد کانسٹبل کی رپورٹ کے مطابق مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جاتی اور مسجد سے مورتی نکال کر اس مسئلہ کو ختم کردیا جاتا، مگر حیرت ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه، مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله عليه اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمة الله عليه نے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو اس سنگین معاملہ پر توجہ دلائی اور انھوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پنت کو لکھا کہ اس مسئلہ کو فی الفور حل کریں، پھر بھی اس سلسلے میں کوئی مثبت کارروائی نہیں کی گئی، اور مذہبی جانبداری واقتدار سیکولرزم اور قانون و انصاف پر غالب رہا، گویا ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا اولین صلہ آزاد ہونے کے بعد یہ دیا گیا کہ ان کی قدیم متبرک عبادت گاہ میں مورتیاں رکھ دی گئیں اوراس کے منبر ومحراب جو اب تک رکوع وسجود سے آباد تھے مقفل کردئیے گئے۔
دیکھیں اس آغاز کا ہوتا ہے کیا انجام کار
اس حادثہ کے وقت مولانا آزاد نے کہا تھا کہ ”میرے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کو ایک ملت کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا یا نہیں، اگر اس کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو بابری مسجد سے بت ہٹادئیے جائیں گے،اور اگر آئندہ چل کر اس کی نفی ہوتی ہے تو انتظار کیجئے دوسری مسجدوں میں بھی اس طرح کے حادثات پیش آسکتے ہیں۔“ آج کے واقعات سے مولانا آزاد کے خدشات صحیح ثابت ہورہے ہیں۔
اس حادثہ کے بعد ۱۶/ جنوری ۱۹۵۰ء کو گوپال سنگھ نامی ایک شخص نے ظہور احمد، حاجی محمد فائق، حاجی پھیکو، احمد حسن عرف اچھن، محمد سمیع، ڈی ایم سٹی مجسٹریٹ اور سرکار اترپردیش کو پارٹی بناکر یہ دعویٰ دائر کردیا کہ مسجد جنم استھان ہے، ہم یہاں پوجا پاٹ کرتے ہیں مگر مسلمان اور ضلع حکام اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، لہٰذا اس رکاوٹ کو ختم کرکے ہندؤں کو اس میں پوجا پاٹ کی باضابطہ اجازت دی جائے، اس مقدمہ کے دائر ہونے کے تیسرے دن یعنی ۱۹/جنوری ۱۹۵۰ء کو عدالت نے ایک حکم امتناعی کے ذریعہ ہندومسلمان دونوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دے دیا پھر ۱۳/ مارچ ۱۹۵۱ء میں عدالت نے پجاری کو مسجد کے اندر جاکر پوجا اور بھوگ کرنے کی اجازت دیدی، مگر مسلمان اپنی عبادت گاہ میں خدائے وحدہ لاشریک لہ کا نام لینے سے محروم رہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ظلم و ناانصافی کو طاقت وحکومت کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے تو آئین وقانون اور عدالت سب اس کے آگے سربسجود ہوجاتے ہیں۔
دعویٴ مذکورہ کی جواب دہی کرتے ہوئے فیض آباد کے ایس پی کرناسنگھ نے یکم جون ۱۹۵۰ء کو جو جواب دعویٰ عدالت میں داخل کیا اس میں لکھا تھا کہ
”زمانہ قدیم سے بابری مسجد ہے اس میں مسلمان ہمیشہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں ہندؤں کا اس سے کوئی واسطہ اور سروکار نہیں ہے۔“
ڈپٹی کمشنر فیض آباد نے اسی مقدمہ سے متعلق یکم جولائی ۱۹۵۰ء کو جو حلف نامہ داخل کیا تھا اس میں بھی ”بابری مسجد“ کی مسجدیت کا اعتراف و اقرار موجود ہے، مذکورہ بالا مقدمہ کے علاوہ ۱۹۶۱ء میں دو مزید مقدمات دائر کئے گئے ایک رام چندر داس کی جانب سے اور دوسرا نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے،جس کے جواب میں جمعیة علماء ہند اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی جانب سے بھی مقدمات قائم کئے گئے جن میں کہا گیا تھا کہ یہ بابری مسجد مسلمانوں کی مسجد ہے جس میں وہ ۱۵۲۸ء سے برابر عبادت کرتے رہے ہیں لہٰذا یہ مسجد انھیں واپس دی جائے اور نماز وغیرہ میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔
تقریباً ۳۵/ سال کے طویل عرصہ تک یہ مقدمات عدالت میں معطل پڑے رہے، .... ان سے متعلق کوئی موٴثر کارروائی نہیں کی گئی، اس دوران پولیس اور رسیور کی نگرانی کے باوجود مسجد کے اندر اور باہر خلاف قانون بہت سی تبدیلیاں کردی گئیں، مثلاً مسجد کے صدر دروازہ پر جلی حرفوں میں ”اللہ“ کندہ تھا جسے کھرچ دیاگیا، دروازہ پر جنم استھان مندر کا بورڈ لگادیا گیا، احاطہ کی شمالی چہار دیواری اور مسجد کی درمیانی جگہ میں سفید و سیاہ سنگ مرمر کا فرش بنایا گیا جسے پری کرما کا نام دیاگیا، صحن مسجد میں اتر جانب ایک ہینڈ پائپ نصب کرلیاگیا، مسجد سے باہر پورب سمت ایک سفالہ پوش مندر اور مندر کے پجاری کے لئے ایک کمرہ تعمیر کرلیاگیا دکھن جانب نام نہاد جنم استھان کے چبوترہ پر بھی ایک مندر بنالیاگیا اور مسجد کے درمیانی گنبد پر ایک بھگوا جھنڈا لگادیا گیا یہ ساری تبدیلیاں ۱۹۶۷ء اور ۱۹۸۶ء کے درمیانی عرصہ میں کی گئیں مگر رسیور، انتظامیہ اور عدالت کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی۔
﴿۴﴾ عدالت نے اقتدار کے دباؤ میں مسجد کے اندر مورتی پوجا کی غیرمنصفانہ اجازت دیدی
مسلمانوں کو کسی حد تک اطمینان تھا کہ مسجد مقفل ہے اور ہائی کورٹ میں اس کے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے، عدلیہ اس بارے میں جو فیصلہ کرے گی اسے تسلیم کرلیا جائے گا، کیونکہ عدلیہ پر ان کا اعتماد ابھی مجروح نہیں ہوا تھا، اسی پرامن ماحول میں ۲۵/جنوری ۱۹۸۶ء کو ”رمیش پانڈے“ ایک غیرمتعلق شخص نے جو بابری مسجد سے متعلق کسی بھی مقدمہ میں فریق نہیں تھا صدر منصف فیض آباد کی عدالت میں یہ درخواست گذاری کہ
”جنم استھان میں پوجا پاٹ کی اجازت ہونی چاہئے اس لئے عدالت ضلع انتظامیہ کو حکم دے کہ جنم بھومی بابری مسجد کا تالا کھول دے تاکہ میں اور دوسرے ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے پوجا کرسکیں۔“
صدر منصف نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کردی کہ ”اس مقدمہ کی رہنما فائل ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے اس لئے اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا“ منصف کے اس فیصلہ کے خلاف مسٹر کے، ایم، پانڈے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں ۳۰/جنوری ۱۹۸۶ء کو اپیل دائر کی گئی ڈسٹرکٹ جج نے یکم فروری ۱۹۸۶ء کو پونے بارہ بجے یہ یکطرفہ فیصلہ سنادیا کہ ”ضلع انتظامیہ تالا کھول دے اور رمیش پانڈے و دیگر پجاریوں کو پوجا پاٹ کی عام اجازت دی جائے، اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے، نیز ضلع انتظامیہ لااینڈ آرڈر بحال رکھنے کے لئے مناسب کارروائی عمل میں لائے۔“
اس غیر عادلانہ فیصلے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے ۵/ بجکر ۱۹/ منٹ پر بابری مسجد کا تالا کھول دیاگیا جو ۱۹۵۰ء میں حکم امتناعی کے نفاذ میں لگایا گیا تھا اور ہزاروں ہندو جو وہاں جمع کئے گئے تھے پوجا پاٹ کے لئے مسجد میں داخل ہوگئے، تالا کھولنے کی اس شرمناک تقریب کو ہمارے سیکولر ملک کے نشریاتی ادارہ ”دور درشن“ نے بڑے اہتمام سے نشر کیا تاکہ مسلمانوں کے زخمی دلوں پر اچھی طرح سے نمک پاشی ہوجائے، علاوہ ازیں پورے ملک میں اس کا جشن منایا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کو شکست دیدی گئی، اس کھلی ہوئی بے انصافی پر مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کیاگیا تو رائفل کی گولیوں سے احتجاج کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیاگیا، خاص طور پر بارہ بنکی، بنارس، بنگلور وغیرہ شہروں میں سرکاری پولیس نے مسلمانوں کے خلاف دردناک بہیمیت کا برتاؤ کیا، بعد میں یہ بات عام طور پر مشہور ہوگئی کہ سیکولرزم کی علمبردار کانگریس حکومت کے وزیراعلیٰ اترپردیش اور ایک مرکزی وزیر کے اشارے پر تالا کھولا گیا تھا، آئندہ کے واقعات ومشاہدات نے واضح کردیا کہ یہ شہرت بے بنیاد نہیں تھی۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ بغیر مضبوط سیاسی پشت پناہی کے عدالت کو اس طرح سے قانون و انصاف کی دھجیاں اڑانے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔
﴿۵﴾ مسجد کو مسمارکرکے اسکی جگہ پر رام مندر بنانے کا مجرمانہ اعلان و سرگرمیاں:
مسجد میں عام پوجاپاٹ کی اجازت حاصل ہوجانے سے ہندو احیاء پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اب ایک قدم آگے بڑھاکر مسجد کو منہدم کرکے اس کی جگہ نیا مندر بنانے کی تشدد آمیز جدوجہد شروع کردی گئی، حکومتوں کے تجاہل اور دورخی پالیسی کی بنا پر انھیں مزید حوصلہ ملا، چنانچہ وشوہندوپریشد کے سربراہ سنگھل نے دھمکی کی زبان میں یہ کھلا اعلان کیا کہ ۹/نومبر ۱۹۸۹ء کو مندر کا شلانیاس (سنگِ بنیاد) ہوگا، اور ملک کی کسی سیاسی پارٹی کی یہ ہمت نہیں ہے کہ ہمارے اس پروگرام کو روک دے عام ہندؤں کو ہم نوا بنانے کی غرض سے پروگرام یوں ترتیب دیاگیا کہ ۳۰/ ستمبر ۱۹۸۹ء سے ملک گیر شلاپوجن مہم شروع کی جائے جس کے تحت ملک بھر کے پانچ لاکھ پچھتّر ہزار گاؤں میں ایک ایک شلا (اینٹ) بھیج کر اس کاپوجن کرایا جائے اور دیواستھان اکادشی (۹/نومبر) کے دن یہ ساری اینٹیں اجودھیا پہنچا دی جائیں اور اسی دن رام مندر کا شلانیاس کیا جائے، وشوہندو پریشد وغیرہ جارحیت پسند تنظیمیں اپنے سربراہ کے اعلان کے مطابق شلاپوجن کے نام پر گاؤں گاؤں گھوم کر نفرت و تشدد کا زہر پھیلاتی رہیں اور ہماری سیکولر حکومتیں اپنی خاموشی سے ان کا تعاون کرتی رہیں تا آنکہ کانگریسی حکومت کے وزیر داخلہ نے متعینہ تاریخ یعنی ۹/نومبر کو وشوہندو پریشد کے ہاتھوں متنازعہ اراضی پر شلانیاس کی اجازت دے کر مسلمانوں کو آگاہ کردیا کہ بابری مسجد کے انہدام اور مندر کی تعمیر کا وقت قریب آگیا ہے، وزیر داخلہ نے اس سلسلہ میں حیرت ناک حد تک گمراہ کن رویہ اختیار کیا، ایک طرف تو وہ اعلان کرتے رہے کہ متنازع جگہ پر شلانیاس کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دوسری طرف اندر اندر وشوہندو پریشد سے ساز باز بھی کرتے رہے، حکومت کی اس منافقانہ پالیسی نے فرقہ پرست تنظیموں کو اس قدر جری بنادیا کہ ۲۳/ جون ۱۹۹۰ء کو ہری دوار میں ہندو مذہبی لیڈروں نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر طے کیا کہ اگست سے اکتوبر تک پورے ملک میں جگہ جگہ جلوس نکالے جائیں، گاؤں گاؤں سے مندر کی تعمیر کے لئے والنٹیر جمع کئے جائیں، اور ۳۰/اکتوبر کو مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے، اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آر، ایس ایس، بی، جے، پی، وشوہندوپریشد، بجرنگ دل اور ان کی ہم نوا تمام فرقہ پرست پارٹیاں میدان میں نکل پڑیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر لال کرشن ایڈوانی نے سومناتھ سے اجودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کی، اس رتھ یاترا میں انتہائی اشتعال انگیز اور دل خراش تقریریں کی گئیں، جس کے نتیجہ میں بڑودہ، بنگلور، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور یوپی کے بعض اضلاع میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی، لیکن حکومت وقت جس کی اولین واہم ترین ذمہ داری اپنے شہریوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت ہے خود اپنی حفاظت کے بندوبست اور اپنی جان بچانے کی فکر میں مصروف رہی اور جارحیت کا عفریت ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھوم کر آگ و خون کا طوفان برپا کرتا رہا بہرحال اعلان کے مطابق بھاری تعداد میں کارسیوک ۳۰/ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو اجودھیا پہنچ گئے، اور بابری مسجد کو مسمار کرنے کی اپنی جیسی کوششیں بھی کیں، حتی کہ مسجد کے گنبدوں اور دیواروں کو مجروح بھی کردیا، مگر وزیراعلیٰ یوپی کے سخت رویہ کی وجہ سے انھیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے قابل تعریف ہمت وجرأت کا ثبوت دیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر نہ صرف بابری مسجد کو بچالیا بلکہ سیکولر اور جمہوری قدروں کی آبرو رکھ لی رام بھگت اور کارسیوک کے نام سے اجودھیا میں اکٹھا بلوائی جب بابری مسجد کے انہدام میں ناکام ہوگئے تو انھوں نے اپنا غصہ مسلمانوں پر اتارا، اور پی اے سی کے تعاون سے ملک گیر فساد برپا کردیا جس میں سینکڑوں مسلمان شہید کئے گئے اور ان کی کروڑوں کی جائیدادیں لوٹ لیں، یا نذرآتش کردی گئیں، وی پی سنگھ جنھوں نے بھاجپا کے اشتراک سے حکومت بنائی تھی اپنے اقتدار کو بچانے کی غرض سے منافقانہ پالیسی پر عمل پیرا رہے، لیکن ان کا یہ بزدلانہ رویہ ان کی کرسیٴ اقتدار کو نہ بچاسکا، نفرت کی آگ نے ملک کے امن کے ساتھ اسے بھی بھسم کردیا۔
وی پی سنگھ سرکار کے خاتمہ کے بعد چندرشیکھر نے زمام اقتدار سنبھالی انھوں نے اپنے عہد حکومت میں یہ کام کیا کہ وشو وہندو پریشد اور اس کی حلیف پارٹیوں کو (جنھوں نے روز اول سے تشدد کی راہ اختیار کرکے نہ صرف مصالحانہ گفت وشنید کا دروازہ بند کررکھا تھا بلکہ عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھیں) بات چیت پر راضی کرلیا، چنانچہ ان کے اور ایکشن کمیٹی بابری مسجد کے لیڈروں کے درمیان براہ راست گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، فریقین نے اپنے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں تحریری دلائل بھی فراہم کئے، گفتگو کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ چندرسیکھر حکومت ہی ختم ہوگئی، بالآخر ملک میں الیکشن ہوا جس کے نتیجہ میں کلیان سنگھ کی زیرسرکردگی یوپی میں بھاجپا کی حکومت قائم ہوئی اور مرکز میں کانگریس نے سیکولرزم کی علامت نرسمہا راؤ کی قیادت میں حکومت بنائی۔
﴿۶﴾ بابری مسجد کی المناک شہادت:
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی فرقہ پرست ذہنیت کی بنا پر ہمیشہ ہی سے بابری مسجد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور اسے غلامی کی علامت قرار دیتی تھی، اب ریاست میں اس کی حکومت تھی اس لئے وہ اس مسجد کو کیونکر برداشت کرسکتی تھی، چنانچہ بھاجپائی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے وزارت سازی کے بعد جو اولین کام کیا وہ یہ تھا کہ اپنے وزیروں کو ساتھ لے کر اجودھیا آئے اور بابری مسجد میں نصب مورتی کے پاس کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ ”رام للّٰہ ہم آئیں گے مندر یہیں بنائیں گے“ اس عہد و پیمان کے بعد کلیان سنگھ حکومت نے قانون و انصاف کو نظر انداز کرکے رام مندر کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی مہم شروع کردی، بابری مسجد سے ملحق موقوفہ متنازعہ اراضی کو اپنی تحویل میں لے لیا، پھر اسے وشوہندو پرشید کے حوالہ کردیا، جس پرمستحکم بنیادوں کے ساتھ پختہ چبوترہ کی تعمیر کا کام نہایت زور و شور کے ساتھ جاری ہوگیا، جبکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات تھے کہ متنازعہ جگہ پر کسی قسم کی تعمیر نہ کی جائے، توہین عدالت کا ارتکاب کرتے ہوئے تعمیر ہوتی رہی اور مسلم لیڈران اس غیرقانونی اقدام پر مرکزی سرکار سے احتجاج کرتے رہے، لیکن مرکزی حکومت نے اس وقت تک کوئی موٴثر حرکت نہیں کی جب تک کہ وشوہندوپریشد نے اپنے منصوبہ کی تکمیل نہ کرلی۔
چبوترہ کی تعمیر کے بعد وزیر اعظم نے فریقین کے درمیان ازسرنو مذاکرات کا سلسلہ شروع کروایا جس کے دو دور حکومت کے ترجمان کے بقول اطمینان بخش اور امید افزا رہے، تیسرے دور کا آغاز ہونے والا ہی تھا کہ اچانک حیرتناک انداز میں وشوہندوپریشد نے یکطرفہ اعلان کردیا کہ ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء کو کارسیوا ہوگی، ظاہر ہے کہ اس اعلان کے بعد گفت و شنید کی کیا گنجائش تھی، اس لئے یہ سلسلہ ختم ہوگیا، کارسیوا کے اعلان ہوتے ہی ساری فرقہ پرست تنظیمیں حرکت میں آگئیں۔ بھاجپا کے سابق صدر ایڈوانی اور جوشی یاترا پر نکل پڑے، تخریب کار عناصر کارسیوک کے نام پر اجودھیا میں جمع ہونے لگے اور دیکھتے دیکھتے سارے ملک کا ماحول کشیدہ و سراسمیہ ہوگیا۔
یوپی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے عدالت اور مرکزی حکومت کو حلفیہ اطمینان دلایاکہ کارسیوا صرف علامتی ہوگی، عدالت اور مرکزی حکومت کے حکم کی سرموخلاف ورزی نہیں ہوگی، مرکزی وزیر داخلہ قوم کو اطمینان دلاتے رہے کہ بابری مسجد کی حفاظت کا پورا منصوبہ مرتب کرلیاگیا ہے، سیکولر نواز وزیراعظم ہند بھی اعلان پر اعلان کرتے رہے کہ بابری مسجد کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے مرکز سے اچھی خاصی تعداد میں فوج بھی اجودھیا پہنچ گئی مگر اسے نامعلوم مصالح کی بنیاد پر بابری مسجد سے دو ڈھائی کلومیٹر دور رکھا گیا، صوبہ اور مرکز کے نیم فوجی دستے مسجد کی حفاظت کے لئے اس کے چاروں سمت میں متعین کئے گئی مگر انھیں وزیراعظم کی سخت ہدایت تھی کہ رام بھگتوں پر کسی حال میں بھی گولی نہ چلائی جائے۔
بہرحال ان سارے اعلانات وانتظامات کے سائے میں ۶/دسمبر کی وحشتناک تاریخ آگئی، ایڈوانی، سنگھل، ونے کٹیار،اوما بھارتی وغیرہ دولاکھ کارسیوکوں کی فوج لئے اجودھیا کے میدان میں پہلے ہی سے موجود تھے، ان لیڈروں کی رہنمائی میں کارسیوا شروع ہوئی اور تشدد پر آمادہ تربیت یافتہ کارسیوکوں نے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے پورے اطمینان سے چار بجے تک اسے توڑتے اور ملبہ کو دور پھینکتے رہے یہاں تک کہ صفحہٴ زمین سے بابری مسجد کا نام و نشان ختم کردیا گیا۔
وزیر داخلہ اور وزیراعظم کو ایک ایک منٹ کی خبر پہنچتی رہی مگر نہ مسجد کی حفاظت کا مرتبہ منصوبہ روبہ عمل آیا اور نہ ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری کا فریضہ ادا کیاگیا، اس طرح ۲۲/۲۳/دسمبر ۱۹۴۹ء کو بابری مسجد کے خلاف جو تحریک شروع کی گئی تھی، ۶/دسمبر ۱۹۹۱ء کو سیکولرزم وجمہوریت کے زیر سایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔
وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا منصوبہ چونکہ پورا ہوچکا تھا اس لئے وہ حکومت سے دست بردار ہوگئے، نظم و نسق کی ذمہ داری مرکز کے سرآگئی، صدر راج کا نفاذہوگیا، اس کے باوجود تقریباً ۳۸ گھنٹے تک اجودھیا مکمل طور پر کارسیوکوں کے تصرف میں رہا جنھوں نے اجودھیا کی دیگر بہت ساری مسجدوں کو بھی بالکل مسمار کردیا یا توڑ پھوڑ کر اپنے خیال میں ناقابل استعمال بنادیا، اور اجودھیا میں آباد مسلم گھرانوں کو تہس نہس کرڈالا، اسی وقفہ میں بابری مسجد کی جگہ پر ایک گھروندا بناکر مورتی نصب کردی جس کی پوجا پاٹ بھی شروع کردی گئی، رام بھگت جب اپنی رام بھگتی کے سارے کاموں سے باطمینان فارغ ہوگئے تو مرکزی سرکار کے انتظام میں سرکاری سواریوں کے ذریعہ باعزت طور پر انھیں ان کے ٹھکانوں تک پہنچادیا گیا۔
مسلمانوں کے مذہبی ناموس پر یہ ایسا حملہ تھا جس کی کرب ناکی سے بے چین اور مضطرب ہوکر وہ چیخ اٹھے تو مظلوموں کی یہ بیتابانہ آہ بھی ہماری سیکولر حکومتوں کو گوارہ نہیں ہوئی جس کی سزا میں ہزاروں مسلمانوں کو خون کی موجوں اور آگ کی لہروں میں غرق کردیا گیا، آج وہ کون سی ریاست ہے جو مظلوم مسلمانوں کے خون سے لہولہان نہیں ہے، وہ کون سا شہر ہے جس کی فضا یتیموں کی گریہ و زاری، بیواؤں کے نالہٴ و شیون اور غمزدہ ماؤں کی آہ سرد سے کربناک نہیں ہے، جمہوریت اور سیکولرزم کے دعویدار ملک اور ایک سیکولر پارٹی کی حکومت میں اس جماعت پر یہ انسانیت سوز مظالم جس نے ملک کی آزادی میں بے لوث قربانیاں دی ہیں کس قدر شرمناک بات ہے، آخر مسلمان اس ملک کی قربان گاہ پر کب تک بھینٹ چڑھتا رہے گا۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں
سب کچھ لٹ جانے کے بعد وزیرداخلہ ہند صاحب بیان دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی پوری حفاظت کی جائے گی اور انھیں مکمل انصاف ملے گا، وزیر اعظم نے بھی اعلان کیا کہ بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرائی جائے گی، مگر اس اعلان پر ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا کہ بمبئی میں مسلمانوں پر شیوسینا کے خونخوار درندے ٹوٹ پڑے، سیکڑوں مسلمان ان کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے، اربوں کھربوں کی ان کی املاک لوٹ لی گئیں یا نذرِ آتش کردی گئیں، شیوسینا کے یہ درندے عروس البلاد میں درندگی مچاتے گھومتے رہے اور ہماری حکومت دم سادھے بیٹھی رہی، جب مسلمانوں کا خون پیتے پیتے ان درندوں کا جی بھرگیا تب جاکر بہیمیت کا یہ رقص ختم ہوا، رہا بابری مسجد کی تعمیر کا مسئلہ، تو جو حکومت قدیم عمارت کی حفاظت نہ کرسکی اس سے جدید تعمیر کی توقع رکھنی خود اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔
اس وقت تو حکومت تذبذب کا شکار ہے ایک طرف قانون و انصاف کے تقاضے ہیں تو دوسری طرف ووٹ اور کرسیٴ اقتدار کا مسئلہ ہے،اس لئے گھبراہٹ میں کبھی آرڈی ننس کا سہارا لے رہی ہے تو کبھی عدالت کی پناہ تلاش کرتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے نینی سنٹرل جیل میں بغاوت کے مقدمہ میں اپنا جو تحریری بیان دیا تھا اس کے درج ذیل اقتباس کو تاریخ کے حوالہ کے بغیر پڑھئے، اس کی ایک ایک سطر میں حالات حاضرہ کی عکاسی نظر آئے گی، مولانا آزاد اپنے بیان کے ایک پیراگراف میں لکھتے ہیں:
”یہ پریشانی گورنمنٹ کو خود اسی کی منافقانہ روش کی وجہ سے پیش آرہی ہے ایک طرف وہ چاہتی ہے کہ شخصی حکمرانوں کی طرح بے دریغ جبروتشدد کرے، دوسری طرف چاہتی ہے کہ نمائش قانون وعدالت کی آڑ بھی قائم رہے، یہ دونوں باتیں متضاد ہیں، ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں نتیجہ یہ ہے کہ اس کی پریشانی و درماندگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ آدمی اپنے تمام کپڑے اتار ڈالے اس لئے کہ شریف آدمی آنکھیں بند کرلیں گے، شریف آدمیوں نے سچ مچ آنکھیں بند کرلی ہیں لیکن دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں، فی الحقیقت ”لا“اور ”آرڈر“ کا ایک ڈرامہ کھیلا جارہا ہے جسے ہم کامیڈی اور ٹریجڈی دونوں کہہ سکتے ہیں وہ تماشا کی طرح مضحک بھی ہے اورمقتل کی طرح دردانگیز بھی، لیکن میں ٹریجڈی کہنا زیادہ پسند کروں گا۔“
﴿۷﴾ بابری مسجد کی تاریخ کا یہ ساتواں مرحلہ بھی ۳۰/ ستمبر ۲۰۱۰ء کو پوراہوگیا۔ یعنی بابری مسجد، اور رام جنم استھان حق ملکیت کے مقدمہ کا فیصلہ ۶۰ برس کے طویل اور صبرآزما انتظار کے بعد بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے سنادیا۔ جس پر بی. جے. پی نے خوشی کا اور کانگریس نے اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ اس کے جنرل سکریٹری تو مدعی ہیں کہ اس مقدمہ کا اس سے بہتر فیصلہ ہوہی نہیں سکتا۔ اس موقع پر محض اتفاق کہہ کر اس منکشف حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس تنازعہ میں جتنے بھی اہم موڑ آئے، یا بالفاظ واضح بابری مسجد پر جو سانحہ بھی گزرا، اور اس تعلق سے قانون وانصاف، حق وعدل کا جب جب خون ہوا وہ سب ملک کی سب سے بڑی اور سیکولرزم کا سب سے زیادہ دم بھرنے والی پارٹی کانگریس ہی کے دور اقتدار میں ہوا ہے۔
مسلمان ابتداء ہی سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمیں عدالت اور اس کے نظام قانون پر یقین واعتماد ہے، ملک کے ہر شہری کو ملک کی عدالت اوراس کے نظام قانون وانصاف پر اعتماد رکھنا ہی چاہئے، لیکن سنگھ پریوار ہمیشہ سے یہی کہتا رہا کہ یہ عقیدہ اور آستھا کا معاملہ ہے عدالت اس کے بارے میں فیصلہ کی مجاز نہیں ہے، لہٰذا عدالت جو چاہے فیصلہ کرے جنم استھان مندر ہم جہاں چاہتے ہیں وہیں بنے گا، مگر عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد اس کا یہ سُر مدھم پڑگیا ہے۔
رہا معاملہ کانگریس پارٹی کا تو بقول ”دی سنڈے گارجین کے ایڈیٹر، اور انڈیا ٹوڈے کے ایڈیٹوریل ڈائرکٹر اے، جے اکبر کے“ ”اس تنازع کے بارے میں کانگریس کی پالیسی کا ایک ہی محور رہا ہے، اور وہ ہے مسلم ووٹوں کو کھوئے بغیر مندر کی تعمیر کس طرح کی جائے“۔ (سہارا نئی دہلی ۳/اکتوبر ۲۰۱۰ء)
اپنی اس پالیسی کے تحت اس نے ایک طرف تو اطمینان کی سانس لی، اور دوسری طرف مختلف ذرائع سے اس کوشش میں لگ گئی کہ مسلمان اس فیصلہ کو قبول کرکے اس تنازع کو ختم کردیں، پھر اپنی اس سعی کو بظاہر لاحاصل دیکھ کر باہمی گفت وشنید اور مصالحت کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ ”آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔“
فیصلہ آنے سے پہلے ہی ملک کے وزیرداخلہ نے میڈیا کے ذریعہ یہ ہدایت جاری کردی تھی کہ امن وسلامتی کی فضا کو بحال رکھنے کے لئے عدالت کے فیصلہ پر نقد وتبصرہ نہ کیاجائے، اور میڈیا کو بھی یہ حکم دیا تھا کہ فیصلہ سے متعلق جس قدر ہوسکے کم خبر دی جائے، چونکہ کوئی فیصلہ اسی وقت اطمینان بخش اور قابل قبول ہوتا ہے، جبکہ وہ قانون وانصاف اور حق وعدل کے معیار پر پورا اترتا ہو، اس لئے اس حکم زباں بندی کے باوجود، فیصلہ کے آتے ہی ملک کے دانشوروں، قانون دانوں، تاریخ کے ماہروں وغیرہ کا وہ طبقہ جو سیاست گزیدہ نہیں ہے بیک زبان پکار اٹھا کہ ملک کے نظام عدالت پر اعتماد کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کیاجانا چاہئے کہ سیاسی دخل اندازیوں نے قانون وانصاف کے گھٹنے توڑ کر اسے آستھا اور عقیدت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔
جبکہ بی. جے. پی کے انتہائی سینئر مقتدر لیڈر لال کرشن ایڈوانی اس فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ”میری رائے میں یہ فیصلہ عقیدہ کو قانون سے بالاتر قرار نہیں دیتا بلکہ عقیدے کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے“۔
آج ایڈوانی جی شوق سے اس فیصلہ کی حمایت میں نکتہ آفرینیاں کریں، لیکن انھیں اور ان کے ہم خیالوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قانونی جواز سے لیس ہوکر کل کو جب یہ آستھا کا بھوت بوتل سے باہر نکلے گا تو پھر بدری ناتھ، پوری، تروینی، بندھاپور، امراؤتی، تیر، جزولا، ایہول، انداولی، ایلورا سرنگیری وغیرہ کے مندروں کاکیا ہوگا؟ جو موٴرخین کی تحقیق اور بدھسٹ لاماؤں کے بقول، بودھ مت ویہاروں پر بزور قبضہ کرکے بنائے گئے ہیں۔ (دیکھئے مہاراشٹر کے مشہور موٴرخ جمناداس کی کتاب ”تروینی مندر بودھوں کی عبادت گاہ تھی)
علاوہ ازیں خود اجودھیاکے بہت سارے مندر بھی اس کے آسیب سے کیا خود کو بچا پائیں گے؟ کیونکہ چین کا بدھسٹ عالم اور سیاح ہیون شیانگ جو راجہ ہرش (مشہور بنام راجہ سلاوت) کے عہد ۶۳۰/ میں ہندوستان کی سیاحت پر آیا تھا اور تقریباً پندرہ سولہ سال یہاں رہ کر ملک کے چپہ چپہ کی سیرکی تھی، جس کی مکمل تفصیل اس نے اپنے سفرنامہ میں درج کی ہے، اس کا یہ سفرنامہ ہندوستان کی قدیم تاریخ کے لئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا انگریزی، اردو وغیرہ بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، وہ اپنے اس سفرنامہ میں قنوج کی سیاحت کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے ”میں یہاں سے اجودھیا کے لئے روانہ ہوا“ یہاں پہنچ کر اس نے جو کچھ دیکھا اس کا ذکر یوں کرتا ہے ”یہاں (اجودھیا میں) ایک سو عبادت گاہیں (ویہار) اور کئی ہزار پجاری ہیں، میں نے اجودھیا میں بودھ مت کے قدامت پسند اور جدّت پسند دونوں فرقوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا.“
چینی سیاح کی یہ تحریر بتارہی ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں اجودھیا کے اندر بدھوں کے ایک سو ویہار تھے، لیکن جب بہار کے ایک عظیم برہمن رہنما کمارل اور ان کے بعد ان کے مشہور چیلہ شنکر اچاریہ نے (جن کا زمانہ آٹھویں صدی کا آخر اور نویں صدی کا اوّل متعین کیا جاتا ہے) بودھ مت کے برخلاف شیومت کی پرزور تحریک برپا کی تو بدھسٹ اس کا مقابلہ نہیں کرسکے، جس کے نتیجہ میں ہندوستان میں پھیلے بدھوں کے بڑے بڑے ویہار اور قدیم عبادت گاہیں یا تو مسمار کردی گئیں یا انھیں شیومندر میں تبدیل کرلیاگیا، اسی دور میں اجودھیا کے یک صد ویہار بھی شیومندر بنالئے گئے، پھر مشہور رہنما رامانند (پیدائش ۱۲۹۹ء) کی کوششوں سے جب شمالی ہندوستان میں شیومت کے مقابلہ میں وشنومت کو فروغ حاصل ہوگیا اور وشنو کے اوتار کی حیثیت سے ”رام جی“ کی پوجا عام ہوگئی تو ان شیومندروں کو رام مندر کا نام دیدیا گیا، تو کیا اب ملک کے ان مشہور مندروں کو آستھا کی چرنوں پر بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے؟ یہ کوئی سمجھ بوجھ کی بات نہیں ہے کہ آدمی ضد، دشمنی اور موہوم مفاد کے تحت عقل وہوش سے بالکل عاری باتیں کرنے لگے، اس بات کو کون نہیں جانتا کہ متمدن دنیا آئین وقانون کی محتاج ہی اس لئے ہے کہ ایک ساتھ رہنے والوں کے درمیان جب خواہشات وجذبات، آستھاؤں اور عقیدتوں میں تنازع اور ٹکراؤ ہوتو اسے قانون وانصاف کے ذریعہ رفع دفع کیا جاسکے، لیکن جب قانون کے مقابلہ میں آستھا کو فوقیت دی جائے گی تو یہ تنازعہ لازمی طور پر ختم ہونے کی بجائے اور بڑھے گا تو کیا اس صورت میں ملک کی یکجہتی برقرار رہ پائے گی کیونکہ مہذب آدمی قانون وانصاف کے آگے سرنگوں ہوتا ہے نہ کہ فریق مخالف کی آستھاؤں کے سامنے چنانچہ مشہور کالم نگار صحافی سنتوش بھارتیہ لکھتے ہیں کہ:
”اس فیصلے نے ایسے سوال کھڑے کئے ہیں جن کا حل نکلنا ضروری ہے، وگرنہ ملک میں ایک نئے فرقہ وارانہ دور کی شروعات ہوگی جماعتیں عقیدت کے نام پر مسجدوں، بودھ مٹھوں، اور جینیوں کے مندروں کے خلاف عدالت میں جائیں گی،اور الہ آباد کورٹ کے فیصلے کو نظیر کے طور پر پیش کریں گی۔“ (راشٹریہ سہارا، ۲/اکتوبر ۲۰۱۰ء)
پھر ہمارا ملک مختلف تہذیبوں اور مذہبوں کا گہوارہ ہے، ہر تہذیب ومذہب کے پیروکاروں کی آستھائیں اور عقیدتیں الگ الگ ہیں لہٰذا سوال پیدا ہوگا کہ کس کی آستھا کو عدالتیں معیار بنائیں گی، اگر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے مطابق اکثریتی طبقہ کی آستھاؤں کو فیصلہ کا معیار بنایا جائے، تو اس صورت میں جمہوریت اور سیکولرزم سے ہاتھ دھونا پڑے گا، تو کیا ملک کی جمہوریت پراس راست حملہ کو یہاں کے جمہوریت پسند، سیکولرنواز عوام خاموشی سے برداشت کرلیں گے؟
غرضیکہ اس فیصلہ نے ملک کو ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے،جس میں ایک تو حق وانصاف اور امن وسلامتی کی سمت جارہا ہے اور دوسرا جبر و ناانصافی اور انتشار وخلفشار کی طرف، اب تک کے احوال سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ چند لوگوں کے علاوہ ملک کی اکثریت حق وانصاف اور امن وسلامتی کے راستہ ہی کو ترجیح دے رہی ہے اسی لئے ان چند افراد کے علاوہ سب کی زبان پر یہی ہے کہ ملک وقوم کی بھلائی اسی میں ہے کہ اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے، کیونکہ ملک آستھاؤں اور عقیدوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون وانصاف ہی کے تحت چلے گا۔
علاوہ ازیں ہم اپنے دین ومذہب کی رو سے اس کے پابند ہیں کہ خداے بصیر وقدیر کی جانب سے مقرر دینی شعائر کی عظمت و حرمت کے تحفظ وبقاء کی حسب استطاعت جدوجہد کرتے رہیں، لہٰذا آئین وقانون جب یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ ہم حق وانصاف کے حصول کے لئے ملک کی سب سے بڑی اور آخری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتے ہیں، تو اس صورت میں ہمارے لئے روا نہیں ہوگا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرکے برضاء ورغبت اپنے اس حق اور شرعی فریضہ سے دست بردار ہوجائیں، رہا معاملہ نتیجہ وانجام کا تو یہ ہمارے نہیں بلکہ مالک الملک اور رب العالمین کے قبضہ واختیار میں ہے، ہم تواس کے بندے ہیں، ہماری بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ اندیشہ نفع وضرر سے بے نیاز ہوکر اس کے حکم کے آگے گردن جھکادیں۔
اگرچہ بت ہے زمانے کی آستینوں میں
ہمیں ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ