Wednesday, 18 November 2015

جمعیة کے احتجاج پر امت حیران و پریشان

ایس اے ساگر 
حالیہ خودکش حملوں کے بعد امت کے ایک طبقہ نے نہ جانے کیوں خود کو کٹہرے میں کھڑا کر لیا ہے۔ ملک کے مسلمانوں نے بابری مسجد کی شہادت پوری قوم کو کچھ نہیں کہا بلکہ مسجد شہید کرنے والوں کو برا سمجھا۔ آئے دن مسلم مخالف فسادات میں امت کا جان و مال کے علاو ہ معصوم خواتین کی آبروئیں نیلام ہوتی ہیں، ننھی منی جانوں کو تلواروں کی نوک پر اچھالا جاتا ہے لیکن کوئی مسلمان کسی ہندو سے نفرت کرنے کی بجائے شرپسند عناصر کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ ایسے میں جبکہ سابق چیف جسٹس کاٹجو جیسے لوگ مغرب کی جارحیت کیخلاف صاف گوئی سے کام لے رہے ہوں، جمعیة علماہند احتجاجی مارچ میں ڈوبی ہوئی ہو۔ دہلی کے جنتر منتر سمیت ملک کے 75 سے زائد شہروں میںجمعیة کی احتجاجی تحریک نے متعدد سوالیہ نشان قائم کردیئے ہیں۔ ریتگرز یونیورسٹی کی خاتون ایسوسی ایٹ پروفیسردیپا کماری نے حق گوئی میں مردوں کو بھی مات دے دی ۔انھوں نے صاف کہہ دیا کہ آئی ایس سے زیادہ خطرناک تو امریکہ ہے جس نے محض عراق میں13 لاکھ جانوں کو تہہ تیغ کرڈالا۔سیدھی سی بات ہے کہ افغانستان سے افریقہ کے صحرائے اعظم اور شام تا یمن داعش، القاعدہ، بوکو حرام اور الشباب اینڈ کمپنی کے پاس سینکڑوں چمکتی جاپانی ٹیوٹا ڈبل کیبن گاڑیاں کیاکسی مسلم موٹرز سے سپلائی ہوئیں؟ جدید مغربی اسلحہ کیاکسی مسلم آرمز ڈیلر نے شام تک پہنچایا ؟ بے تحاشا پیسہ کیا کسی مسلمان کے ڈرافٹ پے جا رہا ہے؟ عراق اور شام میں داعش کے زیر قبضہ کنووں سے نکلنے والے تیل کے ہزاروں بیرل کیا اڑن کھٹولوں پر ترکی کے پار بھیجے جا رہے ہیں؟ اور یہ تیل کیا زولو قبیلہ اپنے گھوڑوں کی مالش کیلئے خرید رہا ہے؟
امت کیوں کھڑی ہے کٹہرے میں؟
جمعیةکے اس دہشت گردی مخالف زبردست مظاہرہ کے نتیجہ میں امت حیران و پریشان کھڑی ہے۔ معروف صحافی وسیم اکرم تیاگی متعجب ہیں کہ کیا کسی ہندوستانی مسلمان نے کہا ہے کہ اس کی جنگ اپنے ملک سے ہے؟ کیا کسی مسلمان نے کہا ہے کہ اس کی جنگ آئین کیخلاف ہے؟ کیا کسی مسلمان نے اس ملک کے ترنگے کو ترک کرکے اپنا’پرچم‘ مسلط کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا کسی مسلمان نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس ملک کی مٹی میں دفن نہیں ہونا ہے؟ کیا کسی مسلمان نے اس ملک کو توڑنے والے بیان دیے ہیں؟ کیا کسی مسلمان نے اس ملک کے آئین کو ماننے سے انکار کیا ہے؟ کیا کسی مسلمان نے اس ملک کے قومی کو ماننے سے انکار کیا ہے؟ فسادات میں مرنے، لٹنے، پٹنے کے بعد بھی مسلمان ’ہندوستان زندہ باد‘ کہتے ہیں۔ مکہ اورمدینہ جیسی مبارک زمین پر ملک کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔بے قصور اور معصوم ہونے کے باوجود 15 ، 12 سال جیلوں میں کاٹ آتے ہیں اور بری ہوکر کہتے ہیں کہ انہیں اس ملک کی عدالتوں اور قانون پر بھروسا تھا کہ انہیں انصاف ملے گا۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے آلودہ تعصب کا شکار نظام کی اذیتیں برداشت کی ہیں ، پھر بھی اس ملک کو چھوڑ کر جانے یا ملک سے دشمنی جیسی ذہنیت کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔ مولانا محمود مدنی سے تو کسی پولیس اہلکار نے ان کا نام تک نہیں معلوم کیا ہوگا استحصال تو بہت دور کی بات ہے۔ پھر بھی مدنی صاحب بلاوجہ بے قت ایک ایسا بیان دے رہے ہیں جس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ملک سے تو کوئی شکایت ہی نہیں رہی، شکایتیں تو سسٹم سے رہی ہیں۔ مولوی صاحب اگر اس پر کچھ کہتے تو کچھ بات بھی بنتی۔ بلاوجہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ وہ’راشٹروادی‘ ہیں۔
امانت میں کیوں ہورہی ہے خیانت؟
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمعیة ہمارے اکابر کی مشترکہ قومی امانت ہے نہ کہ شخصی ادارہ ۔تاسیس کے روز سے آج تک کی اس کی خدمات کا نہ انکار ہے اور نہ انکار کی گنجائش ہے۔ مدنی خاندان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ جمعیة اگر داعش کیخلاف آواز اٹھاتی ہے شوق سے اٹھائے لیکن پچھلے دنوں جب ملک تیزی سے فرقہ واریت کی طرف جارہا تھا امت مسلمہ ہندیہ کی نگاہیں بے باک جمعیة کی طرف تھیں اور جمعیة کی نگاہیں جھکی ہوئیں۔ کہیں کوئی آواز کوئی تحریک کوئی جلسہ کوئی احتجاج کچھ بھی نہیں ۔کم از کم ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں کو اعزاز دیا جاتا یا ان کیلئے ایک جلسہ ہوجاتا جن کی اکثریت غیرمسلم تھی ۔اس کے برخلاف آج کل کے اخبار کی وہ خبر دیکھیے جس میں ہے کہ ہندو تنظیم نے دہلی کے کیرالہ ہاو ¿س میں گائے کے نام پر تنازع کھڑے کرنے والے شخص کو ہندوتوا کے فروغ کی کوششوں پر ایوارڈ دیا جبکہ ان ادیبوں کی کسی نے جھوٹے منہ بھی ستائش نہیں کی ۔بھرے پرے سیکولر ہند میں وہ تنہا پڑ گئے۔ کاش کہ جمعیة ان کی حمایت ہی کردیتی تو وہ ہمیشہ یاد کرتے۔ بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جب سیکولر لوگ فرقہ پرستوں کیخلاف اٹھتے نظر آتے ہیں اور ایسے موقع پر ملی تنظیمیں ان کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے بلوں میں گھسی نظر آتی ہیں ۔ ہم اپنی قیادت سے امت کو بد ظن کرنا نہیں چاہتے لیکن اس حد تک شخصیت پرستی مناسب نہیں کہ افضل و غیر افضل کی تمیز بھول جائے ۔
 آر ایس ایس کیخلاف خاموشی کیوں؟
اور ہاں ہند میں داعش کے مقابلہ میں آر ایس ایس ہزارگنا مضبوط اور زیادہ خطرات کی حامل ہے۔ جو زمینی کام آر ایس ایس نے ستر سال تک کیا ۔کیا ایک بھی ملی تنظیم ایسا کام کرسکیں جس کے دیرپا نتائج ہاتھ آتے۔ یقینا سیلاب و فساد متاثرین کی مدد مظلوموں کے کیس لڑنا رفاہ کے کام بہت بڑی خدمت ہے لیکن ہم تو اپنی جمعیة سے اس سے بھی زیادہ کام کی امیدیں رکھے ہوئے ہیں کبھی اپنے افراف بڑھانے ان کی ذہن سازی کرنے کی کوششیں ہوئیں؟ کبھی بتایا کہ جمعیة کی کیا خدمات ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ نئی نسل کیلئے جمعیة کا نام غیر مانوس ہوتا جارہا ہے ۔اس سے قبل کہ لوگ جمعیة کو بھول جائیں، جمعیة کو خود ہی آگے بڑھ کر ملک گیر پیمانے پر زمینی کام شروع کردینے چاہئیں۔ ہم جمعیة و قائد جمعیة کے دشمن نہیں ان کے مددگار ہیں ۔
کہاں سو گئی اخلاقی جرات؟
معروف صحافی محمدشارب ضیارحمانی بھی حیرت زدہ ہیں کہ آخر یہ بتانے کی کیا ضرورت پیش آگئی کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، اس کے ثبوت کیوںپیش کئے جارہے ہیں کہ مسلمان دہشت گردانہ کاروائیوں سے بے نیاز ہیں۔ دہشت گردی کی مذمت ضرورکرنی چاہئے لیکن اس کے معیار کوبھی متعین کرناچاہئے ،یہ کیوں نہیں بتاتے کہ دہشت گرد کون ہیں فرانس پر حملے اور فرانس کے حملے دونوں غلط ہیں۔ طالبان اگر بے گناہوں کا خون بہائیں تو یہ بھی اسی طرح کی دہشت گردی ہے جس طرح عراق لیبیا اورافغانستان پر بمباری۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ برطانیہ میں دہشت گردی کواسلام سے جوڑنے والے مودی کے بیان پر ہماری اردوصحافت کابھی چہرہ سامنے آگیا۔ ایک دواخبار کوچھوڑ کرکسی نے اس نیوزکونہیں شائع کیابلکہ اسے دباگئے، چباگئے ۔ نوٹس کیاتو کیا خاک لیتے۔گویا کہ ہم آج اس پوزیشن میں پہنچ گئے کہ اپنی بے گناہی کوثابت کرنے کیلئے ملک گیراحتجاج کریں۔ ہم میں یہ بتانے کی جرات ہونی چاہئے کہ مسلمان توایسے قبیح فعل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اصل گناہگار کون ہے ،دہشت گردی کاچہرہ یہ ہے، دنیاکے امن وامان کو اس نے بربادکیاہے مسلمان تو مظلوم ہیں وہ بھلا ظلم کیسے ڈھاسکتے ہیں جبکہ ظالم کوظالم کہنے اورظلم کو ظلم کہنے کی اخلاقی جرات بھی اس قوم میں کیانہیں رہی جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم کوظلم سے روک کر اس کی عاقبت میں مددکرنے کاحکم دیا ۔برائی کو براسمجھنے اورغلط کوغلط کہنے کی جرات تو علامت ایمان ہے۔
 کیوں نہیں متعین دہشت گردی کی تعریف ؟
ممکن ہے کہ جمعیةاسرائیل اورسنگھ نوازمیڈیا کے ہنگاموں سے ڈرگئی ہو جہاں یہ بحث تو ہوتی ہے کہ دہشت گردی کومذہب سے کیوں جوڑاگیا لیکن یہ بحث اس وقت ہوتی ہے جب اعظم خان یاڈاکٹرشکیل بیان دیں لیکن یہی مذہب سے جوڑنے والے بیانات اوبامہ ،مودی اورنجمہ ہبت اللہ دے دیں تو پیمانہ بدل جاتاہے گجرات میں مچائی جانے والی دہشت گردی کو ایکشن کا ری ایکشن مودی بتائیں تو درست یہی کوئی اورکہے توگھنٹوں بحث اوربحث میں بھی مودی کے حوالہ پر میڈیا بے بس جمعیة کوتو چاہئے تھا کہ وہ میڈیاسے ڈرنے کی بجائے دہشت گردی کی تعریف متعین کرواتی ،مدنی صاحب بحث میں حصہ لے کر دہشت گردی کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے لیکن یہ جرات کہاں افسوس صد افسوس مظلوم مسلمانوں پر جو ہرطرف سے ظلم سہہ رہے ہیں ظلم انہی پر ہو اور مجرم بھی وہی الزام بھی ان پر!اللہ پاک امت مسلمہ کو بصیرت عطا فرمائے!
کس کی خوشنودی ہے مطلوب؟
واٹس ایپ رومن اردو میں ایک پیغام یہ بھی نظر سے گذرا کہ ’مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ یہ کسے بتانے کی کوشش کی جارہی ہے اسلام کادہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔کیا ان عناصرکو جو ٹیپوسلطان کو بھی دہشت گردسمجھتے ہیں؟یا وہ شرپسند جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بناتے ہیں؟یا ان کو جنھوں نے محض15 سال میں50 لاکھ مسلمانوں کو شہید کرڈالا؟یہ احتجاج نہیں بلکہ غیروں کی نگاہ میں اچھا بننے کی کوشش ہے۔کبھی ہندوستان سمیت پورے عالم میںبسنے والے اپنے مظلوم بھائیوں کیلئے بھی احتجاج کریں۔‘یوروپی یونین میںقریب ایک کروڑ 70 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ان میں سے نصف تعداد تو یوروپ میں ہی پیدا ہوئی۔اب وہ کیا کریں ؟پہلے سے زیادہ سخت امیگریشن قوانین، گدھ کی طرح مسلط بے روزگاری، بسوں، ٹرینوں اور فٹ پاتھوں پرگھورتی مزید سبز و نیلی آنکھوں اور سماجی تنہائی کی مسلسل موٹی ہوتی دیوار کا سامنا کیسے کریں؟اور کتنے راہ چلتے مقامی باشندے ایک بار پھر سنجیدگی سے یہ وضاحت سنیں گے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، مسلم اکثریت انتہا پسندی سے نفرت کرتی ہے، 95 فیصد مسلمان جہاد کے القاعدہ داعشی نظریہ سے متفق نہیں۔کیا ایسی کاروائیوں کے ردعمل میں جب یوروپ کی مسلم اقلیت پر قانونی، معاشی و سماجی زمین اور تنگ ہوگی تو مزید غصیلے نوجوان پکے پھل کی طرح کس کی جھولی میں گریں گے؟یوروپی قوم پرستوں کی آنکھیںاس تصور سے چمک اٹھی ہیں کہ پہلے سے زیادہ سہما ہواووٹر اب انہیں پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے لے گا۔بقول معروف کالم نگار وسعت اللہ خان گویا ’خود ساختہ جہادی بلی نے تیرہ نومبر کو پیرس میں جو چھینکا توڑا اس سے گرنے والا دودھ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دب جانے والی تنگ نظر یوروپی قوم پرستی کیلئے آبِ حیات ہے!


mujhe ek baat samjh me nhi aarhi hai kinko batane ki koshish ki ja rhi hai islam ka dahshatgardi se koi taluk nhi hai
Jo sultan tipu rh. ko bhi aantakwadi samjhte hain
kinko jo rasulullah ke khake banate hain unko
ya jo 50 lakh muslamano ko 15 saal me shaheed kar dala
ya ihtejaj nhi balki gairon ke nigah me achcha banne ki koshish hai
kabhi apni mazloom bhaion ke liye bhi ihtejaj karen bharat samet pori dunya me hain


Jameeat ULAMA Hind Ka Aihtejag Mafad Parasti!
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++
Jameeat do gurohon main batne ke bad is ka ek guroh jis ki QAYADAT ( Bara e Nam) Moulana Mahmud Madani Kar rahe hain shayed yeh bhul gaye ke in ki madri zaban URDU haiy, kiyun ke woh HINDI bolne ko bhi WAFADARI ka Subut Samajhte hain.
Mulk ke 7 5 muqamat per aihtejag karke woh GOYA AIYTERAF KAR RAHE HAIN KE MUSLMAN DAHSHAT GARD HAIN GO KE ISLAM DAHSHAT GARDI KARTE HAIN.
Moulana ko Musalmanon se mansoob Dahshat gardi ko Bila tahqeeq sahee man rahe hain
kiya yeh sabit hogaya haiy ke ISIS ke dahshar gard waqayee Musalman hain.
Agar Madani Sb " Dahshat Gardi: ka taulluq Islam se nahi ki rat tote ki lagane ki jagah ISIS ke bare main tahqeeq ka mutaba karte.
" 9 / 1 1 " , Male Gaon, Makkah Masjid aur Samjhuta Express ki ASLIYAT maloom hone ka bad Moulana ki YEH HARKAT " J U H " hi nahi Musalmanan e Hind . Aalam e Islam ko mazeed badnam karna haiy.
Paris Hamle ki beshak MAZAMMAT FAR HAIY LAIKIN MUSALMANON ke KHILAF hone wali dahshat gardi ki bhi mazammat karain.
SAF ZAHIR HAIY KE MOULANA MADANI SASTI SHURAT, MARUOBIAT, TANQEED KE DAR SE MILLI MAFAD KO ZATI MAFAD PER QURBAN KAR RAHE HAIN .
KIYA ULAMA E HAQ islam ko hI qusurwar batana chahate hain?
MUMTAZ SAHAFI S. SAGAR, JO APNI BEBAKI KE LIYE SHURAT RAKHTE HAIN IS MAZMUN MAIN jAMIAT AUR mOULANA mADANI KE AIHTEJAJ KI ZABARDAST KHABAR LI HAIY/
THE MUNSIF DAILY----( 2 1 / 1 1 )
LINK >>>> ---- <www.munsifdaily.in/epaper>



'The U.S. Is More Brutal Than ISIS'
By: S. A. Sagar
A Rutgers University professor sparked outrage by claiming in a tweet that the United States is more brutal than ISIS. Deepa Kumar's tweet from March began to make headlines after the website SoCawlege pointed it out last week. According to reports, Kumar is a professor of media studies and author of a book called "Islamophobia and the Politics of Empire." New Jersey's largest university made headlines last year after former Secretary of State Condoleezza Rice canceled her commencement speech. Rice's decision came after Rutgers students held protests due to Rice's role in the Iraq War. On "Fox and Friends," counter-terrorism expert Dr. Sebastian Gorka lamented the latest example of what has happened to American higher education over the last 30 years. Gorka said some on the left want to "demolish the history of America and what they've done for other people in the last 100 years." He said Kumar has also expressed the view that Hamas should not be considered a terrorist group. Gorka described her as an "ideologically driven individual that is shaping young minds," noting that this type of professor has become "par for the course today in liberal universities across America."

“You bomb the Middle East to hell and expect no retaliation”
Known for his abrupt comments and speaking his mind without munching words, justice Markandey Katju has termed the terror attack in Paris ‘as inevitable consequence of what some people did’. According to reports, November 16, 2015, “You bomb Middle East to hell and expect no retaliation?” Former Supreme Court Judge and ex-Chairman of Press Council of India twitted reacting on the Paris attack which took the life of more than 150 people. He also twitted “There was no ISIS before invasion of Iraq &amp; bombing of Syria. Those acts created ISIS. If u convert a human habitation into a jungle, u will” 


No comments:

Post a Comment