Monday, 23 November 2015

حق کا معیار کون؟

ایس اے ساگر

دنیا بھر میں پھیلی پوئی بدامنی، مفادپرستی، شہوانیت اور حیاسوزی کے درمیان مثالی کردار نایاب ہوچکے ہیں. اعلی حکمرانوں سے لیکر کمزور ترین طبقہ تک ہر فرد بشر پر نفس پرستی نے ایسا شکنجہ کسا ہے کہ ہر قبیح فعل مقبولیت کے اعلی درجات تک پہنچنے کو ہے. غنیمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس دین کو حضور ختمی مرتبت پر مکمل فرمایا اس کی تاریخ اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے اسلام کی گنتی شروع ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر پہلا چلہ پورا ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنو اُمیہ کی سیادت اور وجہات سے رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت گزار بنے اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نبوت کے زیرسایہ جوان ہوئے۔ ان چار حضرات کے علاوہ اور کئی صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین   بھی برسراقتدار آئے ، جیسے حضرت حسن، حضرت امیرمعاویہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم لیکن ان اولین چار ہستیوں میں خلافت افضلیت کیساتھ ساتھ چلی، ان چاروں حضرات کو جو شرف وکمال ملا وہ عقائد اہل السنة والجماعت کی اساس ہے اور اس کی نگہبانی اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں ، ان کے ذمہ ہے کہ وہ ان پاکبازوں کے گرد بچھائے گئے کانٹوں کو ایک ایک کرکے نہ صرف ہٹائیں بلکہ ابن آدم کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو بطور اخلاق فاضلہ کے بھی  جلا بخشی تھی اور از حکم شریعت انہیں کفر گناہ اور ازراہ طبیعت نافرمانی سے بغض حاصل ہوچکا تھا ۔ شریعت کے تقاضے ان کی طبیعت بن چکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ان کے دلوں کی طلب اور زینت بنادیا تھا،  اس عقیدہ پر قرآن کریم کی کھلی شہادت موجود ہے۔

قرآن کریم کی شہادت :

سورہ الحجرات میں آیت پاک  ولٰکن اللّٰہ حبب الیکم الایمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان أولئک ہم الراشدون ، اس کی گواہی دیتی ہے کہ،  پر اللہ تعالیٰ نے محبت ڈال دی تمہارے دلوں میں ایمان اور پیوست کردیا اس کو تمہارے دلوں میں اور لائق نفرت بنادیا تمہارے دلوں میں کفر گناہ اور نافرمانی وہ ہیں راشدین․ ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اگر اتفاق سے مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑپڑیں تو وہ رہیں گی مومن ہی۔ ان کے اختلاف کا منشاء غلط فہمی تو ہوسکتا ہے لیکن بدنیتی نہیں، سوء اعتقاد نہیں، ایمان اپنی بنیادی شان سے ان کے دلوں میں جگہ پاچکا ہے ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کو راہ نہ دو۔ یہ سب بھائی بھائی ہیں بدگمانی سے انتہا تک بچو۔

اللہ کی حکمت :

ان میں سے کسی بڑے سے بڑا گناہ دیکھو تو بھی بدگمانی نہ کرو۔ اس کا ظہور بتقاضائے فسق نہیں ہوا۔ محض اس حکمت سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر شریعت کی ہدایت اُترے اور یہ لوگ تکمیل شریعت کیلئے  استعمال ہوجائیں۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت نماز کی رکعتوں میں بھولنا از راہ غفلت نہیں تھا،  بلکہ اس حکمتِ الٰہی کے تحت تھا کہ لوگوں پر سجدہ سہو کا مسئلہ کھلے اور شریعت اپنی پوری بہار سے کھلے۔ لہذا ایسے اُمور شانِ نبوت کیخلاف نہیں تھے بلکہ یہ حالات حضور  صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالے گئے اور جو گناہ کی حد تک پہنچتے تھے انہیں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ڈالے گئے،  اور یہ حضرات تکمیل شریعت کیلئے استعمال ہوگئے. ان حالات سے گزرنے کے بعد ان کا وہ تقدس بحال ہے جو انہیں بطور صحابی کے حاصل تھا اور ان کیخلاف بدگوئی کسی پہلو سے جائزنہیں جبکہ اعتبار ہمیشہ اواخر امور کا ہوتا ہے۔

کیا کہتے ہیں اہل علم؟

اس کے بغیر ان اُمور اور واقعات کی قرآن کریم سے تطبیق نہیں ہوتی۔ یہ بات بالقطع و الیقین حق ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو غیر ثقہ ہو یا جو دین میں کوئی غلط بات کہے۔ سرخیل محدثین حضرت علامہ عینی رحمہ اللہ علیہ (۸۵۷ھ) لکھتے ہیں:

لیس فی الصحابة من یکذب وغیر ثقة․(۱)

جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہو اور اس کے نام کا پتہ نہ چلے تو وہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھا جائیگا، صحابی ہونے کے بعد کسی اور تعارف یا تعدیل کی حاجت نہیں۔ اسی طرح علامہ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ علیہ (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
ان جمعیہم ثقات مامونون عدل رضی فواجب قبول ما نقل کل واحد منہم وشہدوا بہ علٰی نبیّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم․(۲) کہ، سب صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین ثقہ اور امانت دار ہیں، عادل ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا، ان میں سے ہر ایک نے جو بات اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی اور اس کیساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل کی شہادت دی (لفظاً ہو یا عملاً) وہ واجب القبول ہے۔

راشد اور مہدی :

صحابیت میں سب صحابہ راشد اور مہدی تھے، مگر ان میں سے ایسے حضرات بھی ہوئے جو نظم اُمور سلطنت میں بھی راشد اور مہدی ہوئے اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اپنی امت کو ان کے نقش پاپر چلنے کی دعوت دی۔

علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین او کما قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم․

یہ حضرات وہی نفوسِ قدسیہ ہیں جنہیں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے چار یار کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ صراط مستقیم میں رقمطراز ہیں کہ

انبیاءعلیہ السلام کے بعد کون ؟

طالب کو چاہئے کہ اپنے تہ دل سے اعتقاد کرلے کہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد حضرت سرور کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بڑے یار رضی اللہ عنہم اجمعین تمام بنی آدم سے بہتر ہیں اور اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ان کی آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت خلافت کی ترتیب کے موافق ہے مسلمان کو چاہیے کہ اسی ترتیب پر افضلیت کا اعتقاد رکھے اور وجوہ تفضیل کو نہ ڈھونڈے کیوں کہ وجوہ تفضیل کو ڈھونڈنا دین کے واجبوں اور مستحبوں میں سے بھی نہیں۔ ان چار یار کے علاوہ باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تفضیل کی یہ بحث نہیں۔ آسمان ہدایت کے سب ستارے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ ستارے ایک جیسے نہیں چمکتے، چمک ہر کسی کی اپنی اپنی ہے لیکن ہے ہرکسی میں روشنی اور تاب اندھیرا ان میں سے کسی میں نہ ملے گا۔

محمود  و منصور :

انبیاء علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین  ہیں جو بطور طبقہ محمود ومنصور ہیں۔ عام طبقات انسانی میں اچھے برے کی تقسیم ہے، علماء تک میں علماء حق اور علماء سوء کی دو قطاریں لگی ہیں، لیکن صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین میں یہ تقسیم نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سبھی اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے باطن کی خبر دی ہے اور فرمادیا کہ کلمہ تقویٰ ان میں اتاردیاگیا اور بیشک وہ اس کے اہل تھے:

والزمہم کلمة التقویٰ وکانوا احق بہا واہلہا․ (پ:۲۶، الفتح، ع:۳)

حدیث میں کلمة التقویٰ کی تفسیر لاالہ الا اللہ سے کی گئی ہے۔ سو یہ بات ہر شک اور شبہ سے بالا ہے کہ کلمہ اسلام ان کے دلوں میں اتاراگیا تھا اوراس کیلئے  ان کے دل کی دنیا بلاشبہ تیار اور استوار تھی کہ اس میں یہ دولت اترے اور انہی کا حق تھا کہ یہ دولت انھیں نصیب ہو ۔

صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کا درجہ :

سو یہ حضرات ہم احاد امت کی طرح نہیں۔ ان کا درجہ ہم سے اوپر اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے نیچے ہے۔ انہیں درمیانی مقام میں سمجھوکہ یہ حضرات ہم پر اللہ کے دین کے گواہ بنائے گئے ہیں اور اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان پر اللہ کے دین کا گواہ ہے جس طرح کعبہ قبلہ نماز ہے یہ حضرات قبلہ اقوام ہیں:

وکذلک جعلناکم امّة وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدًا․ (پ:۲، البقرہ، ع:۱۷، آیت:۱۴۳)

تعدیل کے محتاج نہیں :

خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) الکفایہ میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مخلوق میں سے کسی کی تعدیل کے محتاج نہیں۔ یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو ان  کے باطن پر پوری طرح مطلع ہے ان کی تعدیل کرچکا ہے:

فلا یحتاج احد منہم مع تعدیل اللّٰہ لہم المطلع علٰی بواطنہم الٰی تعدیل احدٍ من الخلق لہ․

یعنی کہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعی میں سے کوئی بھی مخلوقات میں سے کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں اللہ تعالیٰ جو ان کے قلوب پر مطلع ہے اس کی تعدیل کیساتھ اور کسی کی تعدیل کی ضرورت نہیں۔

بدعت سے پاک :

ہر وہ قول اور فعل جو ان سے منقول نہیں بدعت ہے۔ سو یہ حضرات خود بدعت کا موضوع نہیں ہوسکتے ان کے کسی عمل پر بدعت کا حکم نہیں کیاجاسکتا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ  (۷۷۴ھ) اپنی تفسير میں لکھتے ہیں:

کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابة رضی اللّٰہ عنہم ہو بدعة․

یعنی کہ،  دین کے بارے میں کوئی قول اور کوئی فعل جو صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے۔

صحابی رسول حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ  (۳۶ھ) الاعتصام میں فرماتے ہیں:

کل عبادة لم یتعبدہا اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا تعبدوہا․

یعنی کہ، دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔

حق کی اساس :

جب دین انہی سے ملتا ہے تو ان حضرات کی تعظیم اس امت میں حق کی اساس ہوگی۔ انہی سے قافلہٴ امت آگے بڑھاہے اور پوری امت جمعہ اور عید کے ہر خطبہ میں ان کی ثناخوانی کرتی آئی ہے۔ یہ حضرات حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار رہے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد:

نادر و نایاب قربانى :

دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کیساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیساکہ صحابہ نے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ حق میں کیا۔ انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے . مذکورہ بالا حضرات ہی نہیں بلکہ ہر دور کے اہل حق ہمیشہ سے صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین  کی عظمتوں کے گرد پہرہ دیتے آئے ہیں، جہاں کسی نے شک کا کوئی کانٹا لگایا، اہل حق نے ان کے تزکیہ کی کھلی شہادت دی، جہاں کہیں تبرّا کی آواز اٹھی اہل حق تولا کی دعوت سے آگے بڑھے اور نفاق کے بت ایک ایک کرکے گرادئیے۔

کون ہیں معیار حق ؟

افادات مسند الہند حکیم الاسلام حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے تحت حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کو عادل سعیدی پالن پوری نقل کرتے ہیں کہ،

انبیاءعلیہ السلام کا قائم مقام کون؟

خاتم النبین صلی اللہ علیہ  سے پہلے ہر نبی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا، بخاری شریف میں ہے، کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یبعثُ الیٰ قومہ خاصةً، و یبعثُ الی الناس کافةً یعنی کہ  ہر نبی اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا، اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں، اور اس وقت چونکہ نبوت کا سلسلہ جاری تھا، اس لئے ایک نبی کے بعد دوسرا نبی اس کا قائم مقام بنتا تھا، اس وقت امتیں مبعوث نہیں ہوتی تھیں، مگر خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد چونکہ نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا، اس لئے پیغام رسانی کیلئے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بھی مبعوث فرمایا گیا، صحیحین میں روایت ہے ،کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءُ، کلما ھلک نبی خلفہ نبی، و انہ لانبی بعدی ، کہ بنی اسرائیل کے امور کی تدبیر و انتظام حضرات انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام کرتے تھے، جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا، تو دوسرا نبی اس کا قائم مقام بن جاتا، اور بیشک شان یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ( نیا ) نبی نہیں ہے ) جو میری قائم مقامی کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی قائم مقامی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کرے گی۔

نیز گذشتہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام مفھمین کی مذکورہ بالا تمام انواع کے جامع نہیں ہوتے تھے ،مفھمین، اللہ سبحانہ وتعالی کے تربیت کئے ہوئے لوگ، جن کی تعداد آٹھ ہیں، تفصیلات کیلئے  رجوع کریں، رحمۃ اللہ الواسعہ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٦ ، صرف ایک یا دو فنون کے جامع ہوتے تھے، ایسی ہمہ گیر شخصیت جو مفھمین کی تمام انواع کو جامع ہو، بس ایک ہی شخصیت ہے، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے، حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم، آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری، کا مصداق ہیں، اس لئے نبیوں میں سب سے اونچا مقام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔

امت بھی مبعوث :

اس بات کی دلیل کہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت دوہری ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی مبعوث ہے، اور وہ یک گونہ آپ ہی کی بعثت ہے، شاہ صاحب قدس سرہ نے اس کی تین دلیلیں بیان کی ہیں، دو آیات کریمہ، اور ایک حدیث شریف، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

 آفاقی اور ابدی :

اس کے ضمن میں پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آفاقی اور ابدی ہے، سورۂ سبا آیت نمبر ٢٨ میں ارشاد پاک ہے:

بعثت کے امین :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ، اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے واسطے پیغمبر بناکر بھیجا ہے، خوش خبری سنانے والے، اور ڈرانے والے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ، یعنی خواہ عرب ہوں، یا عجم، موجود ہوں، یا آئندہ آنے والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سب کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں، ادہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا بذات خود تمام جہاں میں دعوت کیلئے  پہنچنا ایک مشکل امر تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جزیرة العرب کے باشندوں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت بلاواسطہ ہے، اور باقی سارے جہاں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت امیین ( طبقۂ صحابہ ) کے واسطے سے ہے، پس جماعت صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین بھی مبعوث ہے، اور یہ بھی من وجہٍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کی بعثت ہے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت دوہری ہوئی۔

دو حصوں میں منقسم  :

سورة الجمعہ آیت نمبر ٢تا ٤ تک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ارشاد پاک ہے:

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ * وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ * ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ، اللہ وہی ہیں، جنہوں نے امیوں میں، انہیں میں سے ایک عظیم پیغمبر بھیجا، جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور انکو پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب الٰہی اور دانشمندی کی باتیں سکھاتا ہے، اگرچہ وہ لوگ پہلے سے کھلی گمراہی میں تھے، اور ان میں سے دوسروں میں ( بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھیجا ) جو ہنوز ان میں شامل نہیں ہوئے، اور وہ زبردست، حکمت والے ہیں، یہ فضل خداوندی ہے، جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں، اور اللہ تعالی بڑے فضل والے ہیں۔

اب بھی نہ جاگے تو؟

اس آیت میں امیوں سے مراد عرب ہیں، جو بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے وقت جزیرۃ العرب میں بود و باش رکھتے تھے، جن کی اکثریت حضرت اسماعیل علیہ الاسلام کی اولاد اور ناخواندہ تھی، ان کی طرف نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم  بلاواسطہ مبعوث فرمائے گئے ہیں، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب النبی الأمی ہے ( سورۂ اعراف آیت نمبر ١٥٧ ) تورات و انجیل میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی وصف سے تذکرہ کیا گیا ہے، اور الآخرین کا عطف الأ میین پر ہے، اور آخرین سے مراد تمام عجم ( غیر عرب ) ہیں، وہ بھی بایں اعتبارعربوں میں شامل ہیں، کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، یھی آیت کی صحیح تفسیر ہے، خود شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے ، و نیز مبعوث کرد آں پیغامبر را در قومے دیگر از بنی آدم کہ ہنوز نہ پیوستہ اند بامسلماناں، اور حاشیہ میں تحریر فرمایا ہے ، یعنی فارس و سائر عجم ، پس یہ خیال قطعاً باطل ہے کہ آخرین سے مراد صرف ہندو ہیں، جیسا کہ اگر اب بھی نہ جاگے تو کے مصنف مولانا شمس نوید عثمانی کا خیال ہے۔

بلا واسطہ مبعوث :

اور واو کے ذریعہ عطف کرنے کی صورت میں معطوف، معطوف علیہ میں من وجہٍ اتحاد ہوتا ہے، اور من وجہٍ مغایرت، یہاں اتحاد اس اعتبار سے ہے کہ عرب و عجم دونوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت ہیں، اور مغایرت اس اعتبار سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اول کی طرف بلاواسطہ مبعوث ہیں، اور آخرین کی طرف بالواسطہ یعنی بواسطۂ امت اُمّیَہ۔ اور ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ میں اس طرف اشارہ ہے کہ دولت ایمان تمام عجمیوں کو نصیب نہیں ہوگی، اس لئے ان سے جزیہ قبول کیا جاتا ہے، اور اس کی وجہ فضل کی کمی نہیں ہے وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ، بلکہ قابلیت کا فقدان ہے، اور چونکہ اس قسم کا کوئی مضمون امیین کے ساتھ نہیں آیا، اس لئے امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان سے جزیہ قبول نہیں کیا جاتا۔

ذمہ داری تفویض :

پس جب امیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام ہوگیا، اور جزیرۃ العرب کے باشندے جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو سورة النصر نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ آخرت کیلئے تیاری شروع فرمادیں، آپ کا دنیا کا کام تمام ہوگیا ہے، آگے کام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سنبھال لیں گے۔

بہترین جماعت :

دوسری دلیل یہ ہے کہ سورۂ آل عمران آیت نمبر ١١٠ میں ارشاد پاک ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ،کہ تم لوگ بہترین امت ( جماعت ) ہو، جو لوگوں کے فائدے کیلئے وجود میں لائی گئی ہے، تم لوگ نیک کاموں کا حکم دیتے ہو، اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کیلئے اچھا ہوتا، ان میں سے بعضے مسلمان ہیں، اور ان میں سے بیشتر کافر ہیں۔

ارشادات عمر رضی اللہ عنہ :

اس آیت پاک کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تین ارشاد مروی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
١۔۔۔۔ ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے سدی رحمہ اللہ تعالیٰ ( مفسر قرآن تابعی ) سے اس آیت پاک کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
لو شاء اللہ لقال ' انتم ' فکنا کلُنا، ولٰکن قال: ' کنتم ' خاصةً فی اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، و من صنع مثل صنیعھم کانوا خیر امة أخرجت للناس ، اگر اللہ تعالٰی چاہتے تو انتم فرماتے، پس اس وقت ہم سب آیت کا مصداق ہوتے، مگر اللہ تعالٰی نے کنتم فرمایا، خاص طور پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں، اور جو لوگ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے کام کرے، وہ بہترین امت ہونگے، یہ امت لوگوں کی نفع رسانی کیلئے  وجود میں لائی گئی ہے ،
٢۔۔۔۔ سُدی رحمہ اللہ تعالیٰ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ تعالیٰ نے آیت کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
قال: یکون لاوّلِنا، ولایکون لآخرنا ( فرمایا: یہ آیت ہمارے اگلوں کے لئے یعنی صحابہ ؓ کے لئے ہے، اور ہمارے پچھلوں کے لئے نہیں ہے )
٣۔۔۔۔ ابن جریر حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں:
ذُکر لنا أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قرأ ھٰذہ الآیة '' کنتم خیر امة أخرجت للناس '' الآیة، ثم قال: یاأیھا الناس! من سرّہٗ أن یکون من تلکم الأمة فلیؤد شرط اللہ منھا ( ہم سے یہ بات بیان کی گئی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کنتم خیر امة تلاوت فرمائی، پہر فرمایا کہ جو شخص تم میں سے چاہتا ہے کہ اس امت ( خیر الامم ) میں شامل ہو تو چاہئے کہ وہ اللہ کی شرط پوری کرے، جو خیر الامم کیلئے آیت میں لگائی گئی ہے ،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا تینوں ارشادات کنزل العمال جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٣٧٥۔ ٣٧٦ میں مذکور ہیں، حدیث نمبر ترتیب وار یہ ہیں، ٤٢٨٩۔ ٤٢٩٢۔ ٤٢٩٣۔

انتم اور کنتم کا فرق :

اس کے بعد ایک نحوی قاعدہ جان لیں، تاکہ انتم اور کنتم کا فرق واضح ہوجائے، انتم خیر امة، جملہ اسمیہ خبریہ ہے، جو محض ثبوت و استمرار پر دلالت کرتا ہے، اس میں کسی زمانہ سے کوئی بحث نہیں ہوتی، مثلاﹰ زیدٌ قائمٌ یہ جملہ زید کیلئے قیام کے ثبوت و استمرار پر دلالت کرتا ہے، کوئی خاص زمانہ اس میں ملحوظ نہیں ہے، اور کنتم خیر امة میں ضمیر، کان کا اسم ہے، اور خیر امة مرکب اضافی کان کی خبر ہے، اور نحوی قاعدہ یہ ہے ، کان اپنے دونوں معمولوں ( اسم و خبر ) کیساتھ ، اس کے اسم کے، اس کی خبر کے مضمون کیساتھ محض اتصاف پر دلالت کرتا ہے ( یعنی کوئی امر زائد اس میں نہیں ہوتا ) ایسے زمانہ میں جو اس کے صیغہ کے مناسب ہو، یا اس کے مصدر کے مشتقات میں سے جملہ میں مذکور صیغہ کے مناسب ہو، اگر صیغہ فعل ماضی ہو، تو زمانہ صرف ماضی ہوگا، بشرطیکہ اس کو غیر ماضی کے لئے خاص کرنے والا کوئی لفظ نہ ہو، اور اگر صیغہ خالص فعل مضارع کا ہو تو اس میں حال و استقبال دونوں زمانوں کی صلاحیت ہوگی، بشرطیکہ کوئی حرف جیسے لن، لم وغیرہ اس کو کسی ایک زمانے کیساتھ خاص نہ کردیں، یا اس کو ماضی کے لئے نہ کردیں، مثلاﹰ: کان الطفل جاریا، اس وقت کہیں گے جب بچہ زمانۂ ماضی میں چلنے لگا ہو، اور یکون الطفل جاریا اس وقت کہیں گے جب چلنا زمانۂ حال میں، یا مستقبل میں متحقق ہو ''( النحو الوافی جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٥٤٨ )۔

کنتم خیر امہ :

پس اگر آیت کریمہ میں انتم خیرُ امةٍ ہوتا، تو خیریت کا ثبوت دوام و استمرار کیساتھ ہوتا، اور پوری امت اس کا مصداق ہوتی، مگر جب آیت میں کنتم خیر امةٍ ہے تو نزول آیت کے وقت زمانۂ ماضی میں جو امت وجود پذیر ہوچکی ہے، اس کو خیریت کیساتھ متصف کیا گیا ہے، پس صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ہی آیت کا مصداق اولیں ہیں، کیونکہ نزول آیت کے وقت انہیں کا تحقق ہوچکا تھا، باقی امت ابھی تک وجود پذیر نہیں ہوئی تھی، البتہ باقی امت کے وہ افراد جو آیت کی شرط پوری کریں، آیت کا مصداق ہوں گے۔

پورے عالم کی ذمہ داری :

اب آیت کریمہ کا مطلب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تینوں ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت صحابہ کو یعنی امیین کو جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بلاواسطہ امت ہیں، مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا، کہ تم علم الٰہی میں بہترین امت تھے، اس لئے تم کو لوگوں کی نفع رسانی کیلئے  وجود میں لایا گیا ہے، یعنی  دعوت اسلام کو لے کر ساری دنیا میں تمہیں پہنچنا ہے، تمہیں چاہئے کہ لوگوں کو بھلائی کی باتوں کا حکم دو، برائی کی باتوں سے روکو، اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دو، اس خیر امت میں اہل کتاب ( یہود ) شامل نہیں ہیں، اگرچہ وہ مدینہ منورہ میں سکونت پذیر تھے، کیونکہ ان میں سے معدودے چند کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا، اہل کتاب کا لفظ اگرچہ عام ہے، مگر آیت میں سیاق کے قرینہ سے خاص یہود مراد ہیں۔

مبعوث الی الآخرین :

اور جس طرح نبی کیلئے  عصمت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر نبی کے پہنچائے ہوئے دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جماعت صحابہ کیلئے حفاظت ضروری ہے، کیونکہ وہ خیر الامم ہیں، اور وہ من وجہٍ مبعوث الی الآخرین ہیں، پس عدالت و حفاظت کے بغیر ان کے پہنچائے ہوئے دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اور یہ حکم کلی کے ہر ہر فرد کا ہے، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی مثال ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے، منزل مقصود تک پہنچ جاؤگے ، یہ حدیث چھ صحابہ سے مروی ہے، اور حسن لغیرہ ہے، تفصیل کے لئے دیکھیں، دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت صفحہ نمبر ٨٩ تا ٩٥ ۔

معیار حق :

صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی اسی عدالت و حفاظت کا نام 'معیار حق ' ہونا ہے، جن لوگوں کے نزدیک اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کی ذہنی غلامی جائز نہیں ہے، وہ سخت گمراہی میں ہیں، وہ سوچیں، ان تک دین صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کے توسط سے پہنچا ہے، اگر وہی قابل اعتبار اور لائق تقلید نہیں، تو پہر آپ کے دین کی صحت کی کیا ضمانت ہے۔

مامون اور محفوظ :

غرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طبقہ امت کا ایک ایسا طبقہ ہے، جو من حیث الطبقة یعنی پوری کی پوری جماعت دین کے معاملہ میں مامون و محفوظ ہے، اور وہ ہر اعتقادی گمراہی یا عملی خرابی سے پاک ہے، کیونکہ وہ بھی مبعوث ہے۔

بعثت کی وجہ :

تیسری دلیل یہ ہے کہ بخاری شریف میں روایت ہے، ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کردیا، لوگوں نے اس کو لے لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: اسے چھوڑو، اور اس کے پیشاب پر پانی کی ایک بالٹی ڈال دو، اور فرمایا: فانما بُعثتم میسرین، و لم تُبعثوا معسّرین ،کیونکہ تم آسانی کرنے والے بناکر ہی مبعوث کئے گئے ہو، تنگی کرنے والے بناکر مبعوث نہیں کئے گئے ، بحوالہ بخاری شریف کتاب الوضوء، حدیث نمبر ٢٢٠ مشکوٰۃ باب تطہیر النجاسات حدیث نمبر ٤٩١ ، یہ حدیث شریف صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بعثت میں بالکل صریح اور دو ٹوک ہے، عُلم من ھٰذا الحدیث أن أمتہ صلی اللہ علیہ وسلم  أیضاً مبعوثةٌ الی الناس، فثبت لہ صلی اللہ علیہ وسلم  بعثتان البتة ( عبیداللہ سندھی )۔

کوئی نیا نبی نہیں :

یعنی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم افراد انبیاء کے خاتم ( آخری فرد ) ہیں، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا، رہی امت کی بعثت تو وہ صرف پیغام رسانی میں ہے، یعنی یہ بات کمالات نبوت میں ہے، اور کمالات نبوت باقی ہیں، ختم نہیں ہوئے، صرف نبوت ختم ہوئی ہے، پس امت کے کسی بھی فرد کو نبی نہیں کہہ سکتے.

No comments:

Post a Comment